encyclopedia

سیّدہ آمنہ بنت وہب رضی الله عنہا

Published on: 13-Jul-2023
image
ولادت:549 عیسویوصال:577 عیسویعمر:30 سالوالد:وہب ابن عبد منافوالده:برّۃ بنت عبد العزیٰنکاح:عام الفیل سے ایک سال قبل (569ء)شوہر:حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنهاولادحضرت محمد صلى الله عليه وسلمقبيلہبنو زہرہقبر مبارك:مقام ابواء
LanguagesالعربیةEnglishDutchTurkiyeGerman

حضرت آمنہ بنت وہب Radi Allah Anha حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ ماجدہ تھیں 1 اور آپRadi Allah Anha کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ "بنو زہرہ" سے تھا۔ 2آپ Radi Allah Anha کے والد کا نام وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرّۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر تھا۔ 3آپ Radi Allah Anha کی والدہ کا نام برّۃ بنت عبد العزیٰ بن عثمان بن عبد الدار بن قصی بن کلاب بن مرّۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر تھا ۔ 4آپ Radi Allah Anha کے والد اپنے قبیلے کے معزز سردار تھے اور بنو زہرہ قبیلے میں ایک مثالی حیثیت کے مالک تھے ۔ 5

آمنہ بنت وہب Radi Allah Anhaکے والد وہب ابن عبد مناف سگ ستارہ (Sirius) کی عبادت کیا کرتے تھے جو کہ عربوں کے عمومی مزاج اور ان کی قبائلی تاریخ کے خلاف تھا ۔اس بنیاد پر اہلِ عرب آپ کی مخالفت کرتے تھے اور آپ کو "ابوکبشہ" کہہ کر بلایا کرتے تھے کیونکہ عربی زبان میں یہ سگ ستارہ "کبشہ " کہلاتا تھااور اسی کی نسبت سے آپ کو ابوکبشہ یعنی "کبشہ ستارے کی عبادت کرنے والا" کہا جاتا تھا ۔ وہب عبد مناف کی مثل جب عربوں نے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مخالفت کی اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لائے ہوئے دین کو اجنبی سمجھتے ہوئے اسلام کو بھی عبد مناف کے دین پر قیاس کیا تو انہوں نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بھی "عبد ابی کبشہ" کہنا شروع کر دیا 6جس سے ایک طرف وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نسبت وہب ابن عبدمناف کی طرف کرتے تھے وہیں دوسری طرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ابن ابی کبشہ کہہ کر اپنے غصّے اور نفرت کا اظہار کرتے تھے۔

حضرت آمنہ Radi Allah Anha کی کوئی سگی بہن یا سگا بھائی نہیں تھا البتہ آپ Radi Allah Anha کے والد وہب ابن عبدِمناف کی دوسری زوجہ سے آپ Radi Allah Anha کے دو سوتیلےبھائی "عبد یغوث" اور "عبید یغوث" تھے جبکہ ایک سوتیلی بہن "ضعیفہ بنت ہاشم" تھی ۔ 7اسی لیے بعد میں بنو زہرہ قبیلے کے لوگ اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ وہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ننھیالی رشتہ دار یعنی ماموں ممانیاں ہیں اور اسی نسبت سےوہ حضرت آمنہ Radi Allah Anhaسے اپنی رشتہ داری کو جوڑا کر تے تھے ۔ 8

حضرت آمنہ Radi Allah Anha کی خوبیاں

حضرت آمنہ Radi Allah Anhaاپنی ظاہری وضع قطع میں ایک خوبصورت اور باوقارخاتون تھیں اور قبیلہ قریش میں بالعموم اور بنو زہرہ قبیلے میں بالخصوص ممتاز شخصیت کی مالک تھیں۔ آپ Radi Allah Anha نسب کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز شخصیت کی مالک تھیں کیونکہ آ پRadi Allah Anha اپنی والدہ برّہ کی طرف سے عبدالعزہ بن عثمان کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو کہ قصئ کی اولاد سے تھے 9جبکہ آپ Radi Allah Anha کے والد بنو زہرہ قبیلہ میں سرداروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ 10حضرت آمنہ Radi Allah Anhaاپنے خاندانی نسب و نسبت اور ذاتی حسن و جمال کے علاوہ بھی کئی ایسی خصوصیات کی حامل تھیں جو کہ آپ کو بنو زہرہ قبیلہ کی دیگر خواتین سے ممتاز کر تی تھیں جن میں بالخصوص آپ Radi Allah Anha کی پاک دامنی ، شرافت ، ذکاوت، بردباری اور حلم شامل تھا ۔

حضرت آمنہ Radi Allah Anhaسے متعلقہ بشارت

حضرت آمنہ Radi Allah Anhaبچپن سے ہی اپنی سہیلیوں میں ایک مخصوص تشخص کی حامل تھیں ۔ مشہور کاہنہ سودہ بنت زہرہ نے جب بنو زہرہ قبیلہ کا دورہ کیا تو برملا کہہ اٹھی کہ اس قبیلہ میں ایک نہایت ہی عزت اور شرف والی لڑکی موجود ہے ۔ اس نے مزید کہا کہ وہ لڑکی اور اس کا ہونے والا بیٹا تمام لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے ہوں گے اور لوگوں کو راہِ ہدایت کی طرف بلانے والے ہوں گے۔ اس نے بنو زہرہ قبیلہ کی تمام خواتین کو ایک جگہ جمع ہونے کی درخواست کی اور یکے بعد دیگرے ہر لڑکی اور عورت کو دیکھتی اور اس کے حوالے سے پیش گوئی کرتی رہی ۔ جب اس کی نظر حضرت آمنہ Radi Allah Anhaپر پڑی تو آپ Radi Allah Anha کو دیکھ کر اس نے ایک دم کہا:

هذه النذیرة او تلد نذیرا له شان و برهان منیر. 11
یہی وہ لڑکی ہے جو لوگوں کو ڈرائے گی یا پھر اس کا بیٹا لوگوں کو (اللہ ) سے ڈرانے والاہو گا ، جس کی عظیم شان ہو گی اور جو روشن دلیل کی طرح ( حق کے ساتھ ) جگمگائے گا ۔

اس دن سے حضرت آمنہ Radi Allah Anha بنو زہرہ قبیلہ میں اپنے اوصاف عالیہ کی وجہ سے اور بھی زیادہ مشہور ہو گئیں اور جب آپ Radi Allah Anhaکا نکاح حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho سے ہوا تو اس شہرت اور شان میں مزید اضافہ ہو گیا ۔

حضرت آمنہ بنت وہب Radi Allah Anha کے عقائد

اللہ رب العزت نے جہاں ایک طرف حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکو ظاہری حسن و جمال اور صفاتی کمالات سے نوازا تھا وہاں دوسری طرف آپ Radi Allah Anha کو ہر قسم کی برائی اور نا پسندیدہ چیزوں سے بھی محفوظ رکھا تھا کیونکہ آپ Radi Allah Anha کو بالآخر پوری انسانیت کے سردار اور ہادیِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ بننے کا شرف حاصل ہونے والا تھا ۔ 12حضرت آمنہ Radi Allah Anha ہمیشہ شرک اور بتوں وغیرہ کی پوجا سے محفوظ و مامون رہی تھیں اور اپنے معاملات کے حوالے سے بھی نہایت ہی دیانتدار اور امانتدار تھیں۔ آپ اور آپ کے شوہر حضرت عبداللہ Radi Allah Anhuma جو کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والدین کریمین بننے کے شرف سے مشرف ہوئے ، یہ دونوں ہی ہستیاں اہل فطرت میں سے تھیں جنہوں نے ہمیشہ عقیدہ توحید اپنائے رکھا اور شرک کی غلاظت سے دور رہے۔ 13آپ Radi Allah Anha کی طرف منسوب شدہ کچھ اشعار کتبِ سیرت اور تاریخ میں ملتے ہیں جن کو آپ اکثر پڑھا کرتی تھیں اور بالخصوص اپنی وفات سے پہلے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سنائے تھے۔ آپ Radi Allah Anha کے چند اشعار درج ذیل ہیں :

فأنت مبعوث إلى الأنام تبعث في الحل وفي الحرام
تبعث في التحقيق والإسلام دين أبيك البر إبراهام
فالله أنهاك عن الأصنام أن لا تواليها مع الأقوام. 14
آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) لوگوں کی طرف ا س لیے مبعوث کیے گئے تا کہ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)لوگوں میں حلال اور حرام کے فرق کو واضح کر دیں۔ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کو حق اور سلامتی کے ساتھ بھیجا گیا جو کہ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کے والد حضرت ابراہیم Alaihis Salamکا دین تھا ۔ اللہ کی قسم میں آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کو بتوں کی پوجا کرنے سے روکتی ہوں تاکہ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) ان کی طرف دیگر اقوام کے ساتھ کبھی اپنا رخ نہ کریں ۔

یہ اشعار امام قسطلانی 15،زرقانی 16،محمد ابن یوسف ابن صالحی الشامی17،حسین ابن محمد ابن الحسن الدیار بکری 18اور احمد ابن زینی دحلان 19نے بھی نقل کیے ہیں ۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وہ معروف نسب جو حضرت عبدالمطلب سے لے کر پیچھے حضرت ابراہیم Alaihis Salamتک جا پہنچتا ہے اور پھر ابراہیم Alaihis Salam سے لے کر آدم Alaihis Salamتک جاتا ہے، اس میں موجود تمام اشخاص کے بارے میں یہ بات نہ صرف مشہور و معروف ہے کہ وہ سارےموحد تھے بلکہ اس کا ذکر کتب ِحدیث میں بیا ن کردہ روایت میں بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ منقول ہے :

لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات۔ 20
( آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ ) میں مردوں کی پاک پشتوں سے عورتوں کے پاک رحموں میں منتقل ہوا ہوں ۔

قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے مشرکین کو ناپاک قرار دیا ہے 21اس بنیاد پر امام رازی اور دیگر مفسرین نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والدین میں سے مرد و عورت اس لیےبھی مشرک نہیں ہوسکتےتھے کیونکہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی حدیث میں ان کی پاکی کو بیان فرمایا ہے اور قرآن نے مشرکین کو ناپاک قرار دیا ہے۔ 22

حضرت عبدا للہ Radi Allah Anhoسے نکاح

عام الفیل سے ایک سال قبل یعنی پانچ سو انتّھر (569ء)میں حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکا نکاح حضرت عبداللہ Radi Allah Anho سے ہوا 23جوکہ اپنی شکل و صورت اور عادت و اطوار کے حساب سے قریش کے بہترین نوجوان تھے ۔24آپ Radi Allah Anho نہایت ہی وجیہ شخصیت کے مالک تھے اور اپنی عفت اور شرافت کے اعتبار سے مشہورتھے۔ 25مارٹن لنگس(Martin Lingus) جو کہ ایک انگریز مؤرخ ہے، اس نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات پر لکھی گئی اپنی کتاب میں حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کو حضرت یوسف Alaihis Salamسے تشبیہ دی ہے۔ 26جب سے عرب خواتین میں حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی زندگی کے حوالے سے سو (100) او نٹوں کی قربانی والا واقعہ مشہور ہوا تب سے خواتین کی ایک بڑی تعداد آپ Radi Allah Anho کی طرف نکاح کا میلان رکھتی تھی لیکن آپ Radi Allah Anho کے والد حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کا نکاح بنوزہرہ قبیلہ میں کرنے کا فیصلہ فرمالیا تھا جس کی وجہ سے حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکا نکاح حضرت عبداللہ Radi Allah Anho سے ہو گیا۔ 27

حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کے ساتھ بنوزہرہ قبیلہ میں تشریف فر ما ہوئے اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہRadi Allah Anho کے لئے حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے والد وہب بن عبد مناف سےانکا رشتہ مانگا جو کہ اپنے قبیلہ کے مشہور سردار تھے۔ 28حضرت عبدالمطلب نے خود اپنے لئے بھی حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکی رشتے دار حضرت ہالہ کا انتخاب فرمایا اور اُن کے والد وہیب سے اپنے نکاح کے سلسلے میں بات چیت کی۔ یہ دونوں نکاح کے پیغامات بیک وقت قبول کیے گئے اور یہ دونوں نکاح ایک ہی دن میں یکے بعد دیگر منعقد ہوئے اور اس طرح حضرت آمنہ Radi Allah Anhaحضرت عبداللہ کے نکاح میں آگئیں۔ بنو زہرہ قبیلے کی روایات کے مطابق حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کو تین دن تک اپنی زوجہ حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے ساتھ آپ Radi Allah Anhaکے علاقے اور اہل قبیلہ کے درمیان رہنا پڑا 29جس دوران وہ نورِ نبوت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جو آپ Radi Allah Anhoکی پیشانی پر چمکا کرتا تھا حضرت آمنہ Radi Allah Anhaمیں منتقل ہوگیا۔

حمل مبارک

عام الفیل سے ایک سال قبل، ذوالحجہ کے مہینہ میں، جمعہ والے دن، نبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے بطنِ اطہر میں تمکن فرمایا۔ 30بعض مؤرخین کے مطابق استقرارِ حمل رجب کے مہینہ میں ہوا لیکن جو بات قرائن کے ذریعہ پایایہ ثبوت تک پہنچتی ہے وہ پہلا قول ہے۔استقرارِ حمل کی یہ مدت پورے نو (9) ماہ رہی لیکن اس مبارک حمل کا کمال یہ تھا کہ حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکو اِس پوری مدت میں نہ تو کبھی سر درد کی شکایت ہوئی اور نہ ہی کبھی آپ Radi Allah Anhaکا معدہ مبارک تکلیف زدہ ہوا ۔ اسی طرح وہ دیگر عوارضات جن سے عموماًحاملہ خواتین دورانِ حمل متاثر ہوتی ہیں اُن میں سے کوئی بھی عارضہ آپ Radi Allah Anhaکو لاحق نہیں ہوا اور نہایت ہی اطمینان وسکون کے ساتھ آپ Radi Allah Anha کی مدتِ حمل پوری ہوئی۔ 31

حضرت عبداللہ Radi Allah Anhoکا وصالِ پُر ملال

حضرت آمنہ Radi Allah Anhaسے نکاح فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ Radi Allah Anho قریش کےقافلے کے ساتھ تجارتی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت آمنہ Radi Allah Anha رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نور پاک کی سعادت سے بہرہ مند ہوچکی تھیں ۔ حضرت عبداللہ Radi Allah Anho چند ماہ تک غزہ اور اُس کے گِردو نواح کے علاقے میں تجارتی اغراض سے مصروف رہے اور سفر سے واپسی میں جب آپ Radi Allah Anhoنے یثرب کے علاقے میں اپنے ننھیالی رشتہ داروں میں قیام فرمایا تو اِس دوران آپ Radi Allah Anhoشدید علالت کا شکار ہوگئے۔ آپ Radi Allah Anho نے بنی عدّی ابن النجار قبیلہ میں کچھ دن قیام فرمایا تاکہ کسی طرح آپ Radi Allah Anho مکہ تک سفر کرنے کے قابل ہوسکیں لیکن اللہ کی منشاء کے مطابق آپ Radi Allah Anhoمزید سفر کرنے سے قاصر رہے اور 25 سال کی عمر میں ہی اس دارِ فانی سے پر دہ فرما گئے۔ 32

حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کےوصالِ پُر ملال کی یہ خبر جب حضرت آمنہ Radi Allah Anhaتک پہنچی تو آپ Radi Allah Anha شدید صدمے سے دوچار ہوگئیں کیونکہ آپ Radi Allah Anhaاپنی شادی کے فقط چند ماہ بعد نہایت ہی کم عمری میں بیوہ ہوگئیں تھیں۔ابن سعد نے حضرت آمنہ Radi Allah Anha کی زبانِ مبارک سے نکلنے والے اُن دکھ بھرے اشعار کو ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے:

عفا جانب البطحاء من آل هاشم
وجاور لحدا خارجا فى الغمائم
دعته المنایا دعوة فاجابها
وما تركت فى الناس مثل ابن هاشم
عشیة راحوا یحملون سریره
تعاوره اصحابه فى التزاحم
فان تک غالته المنایا وریبها
فقد كان معطاء كثیر التراحم 33
بطحہ کی سرزمین ہاشم کی اولاد سے آج خالی ہوگئی اور وہ جاکر حالت غم میں اپنی قبر میں لیٹ گئے،اپنے مسکن سے بہت دور۔جب موت نے اُن کو پکارا تو انہوں نے اُس کی دعوت کو قبو ل کرلیا اور ابن ہاشم کی مثل لوگوں میں کوئی اور باقی نہ رہا۔اُس رات کی قسم جس رات اُن کے متعلقین اُن کے جنازے کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کررہے تھے ،کوئی بات نہیں اگر وہ وصال فرماگئے کیونکہ اُن کی اچھائیاں اُن کو ہمیشہ باقی رکھیں گی کیونکہ وہ نہایت سخی رحم فرمانے والے تھے ۔

یہ اشعار جہاں ایک طرف حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے دکھ اور غم کی کیفیت کا اظہارہیں وہاں دوسری طرف آپ Radi Allah Anhaکے شاعرانہ مزاج اور عربی دانی کا بھی ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ ان اشعار سےحضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی دو عظیم صفات یعنی سخاوت اور رحم دلی کا بھی پتاچلتا ہے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادتِ باسعادت

عام الفیل میں بارہ (12) ربیع الاول کو پیر والے دن، طلوعِ فجر سے چند لمحات قبل محمد الرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ 34عیسویں تقویم کے مطابق یہ تاریخ بیس (20) یا بائس (22) اپریل سن پانچ سو اکھتّر (571ء) بنتی ہے 35لیکن بعض مؤرخین نے اس کوپان سو ستّر (570ء) کےاگست کے مہینہ کی کوئی تاریخ قرار دیا ہے۔ 36

جب حضرت آمنہ کے بطن مبارک سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نور اس دنیا میں منتقل ہوا تو یہ خبر حضرت عبدالمطلب کو بھجوائی گئی جو اُس وقت خانہ کعبہ میں موجود تھے۔جب آپ کو یہ خبر ملی تو آپ انتہائی خوشی کے عالم میں اپنے معصوم پوتے کو دیکھنے کے لئے گھر کی جانب روانہ ہوئے ۔حضرت آمنہ Radi Allah Anhaنے حضرت عبدالمطلب کو اُن تمام غیر معمولی احوال سےآگاہ فرمایا جن کا تجر بہ ومشاہدہ آپ Radi Allah Anhaنے دورانِ حمل اور وقتِ ولادت فرمایا تھا۔آپRadi Allah Anhaنے حضرت عبدالمطلب کو اس حوالے سے بھی آگاہ کیا کہ کس طرح آپRadi Allah Anha کو اس پیدا ہونے والے معصوم بچے کا خاص نام رکھنے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔37حضرت عبدالمطلب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی گود میں لےکر خانہ کعبہ میں تشریف لے آئے اور اللہ کی بارگاہ میں اس عظیم تحفے پر شکر بجالانے لگے۔

حضرت آمنہ Radi Allah Anhaنے ابتدائی سات ایام تک نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضاعت فرمائی ۔ 38اُس کے بعد عرب رواج کے مطابق آپ Radi Allah Anhaنے اپنے لخت جگر کو بہتر ماحول اور آب و ہوا کے لئے دیہی علاقے کی طرف بھیج دیا جس کی سعادت حضرت حلیمہ سعدیہ بنت عبداللہ ابن حارثRadi Allah Anha کے حصے میں آئی جوکہ بنوسعد قبیلے کی ایک انتہائی پاک بازخاتون تھیں اور رضاعت کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دیاکرتی تھیں۔ 39جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک دوسال ہوئی تو حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anhaاور آپRadi Allah Anha کے شوہر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے پاس آئےلیکن انہوں نے حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے سامنے اس بات پر شدید اصرار کیا کہ وہ اس بابرکت بچے کو مزید کچھ عرصہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں میاں بیوی نے جس محبت اور الفت کے ساتھ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے ساتھ واپس لےجانے پراِصرار کیا، اُس کے سامنے حضرت آمنہ Radi Allah Anhaمجبور ہوگئیں اور انہیں مزید کچھ وقت کے لئے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ 40

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تقریباً پانچ (5) سے چھ (6) سال تک حضرت حلیمہ سعدیہ کی زیر ِکفالت رہے 41اس دوران وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے پاس ملانے لاتی رہیں یہاں تک کہ واقعہ ءِشقِّ صدر رونما ہوا اور حضرت ِحلیمہ سعدیہRadi Allah Anha کو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صحت اور جان کے حوالے سے خوف لاحق ہوگیا۔ اس واقعہ کے فوراً بعدآپ Radi Allah Anhaحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لےکر حضرت آمنہ Radi Allah Anhaکے پاس آگئیں اور اُس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ کے وصالِ پُر ملال تک اُنہیں کے پاس رہے ۔ 42

حضر ت آمنہ Radi Allah Anhaکا وصالِ پُر ملال

حضرت آمنہ Radi Allah Anhaآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر یثرب کی طرف اس نیت کے ساتھ روانہ ہوئیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تعارف اپنے قبیلے بنوزہرہ کے لوگوں سے کرواسکیں تاکہ مستقبل میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک مضبوط تعلق اپنے ننھیالی رشتہ داروں سے قائم رہ سکے۔ اس سفر میں آپ Radi Allah Anhaنے اپنی معاونت کے لئے حضرت ام ایمن Radi Allah Anhaکو اپنے ساتھ لے لیا جو کہ حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی وراثت سے آپ Radi Allah Anhaکےحصّے میں آئی تھیں۔ یہ دونوں خواتین دوعلیحدہ علیحدہ اونٹوں پر سوار ہوکر روانہ ہوئیں اور یثرب کے علاقے "دارالنابغہ" میں قیام فرمایا جو کہ حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کا مدفن تھا۔ 43بعض روایات کے مطابق اس سفر میں حضرت عبدالمطلب بھی ان دونوں خواتین کے ہم رِکاب تھے ۔ 44

حضرت آمنہ Radi Allah Anha نے تقریباً ایک ماہ یثرب کے علاقہ میں اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ قیام فرمایا اور اس کے بعد واپس مکّہ جانے کا ارادہ کیا ۔ ام ایمن Radi Allah Anha کے مطابق آپ Radi Allah Anha کی واپسی کے اس فیصلہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ یثرب کے بعض یہودیوں نے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بحیثیت پیغمبر پہچان لیا تھا اور جب آپ Radi Allah Anha نے ان کی آپس کی گفتگو کو سنا تو بلا تاخیر آپ Radi Allah Anha نے خوف کے عالم میں مکہ کے لیے روانہ ہونے کا فیصلہ فرما لیا ۔ 45واپسی کے دوران آپ Radi Allah Anhaشدید علالت کا شکار ہو گئیں 46یہاں تک کہ ابواء کے مقام پر جو کہ یثرب سے تقریباً ایک سو سینتیس (137) میل کے فاصلے پر موجود تھا اور شام کے حُجاج کے لیے میقات تھا، 47وہاں پر آپ Radi Allah Anha اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں ۔ حضرت آمنہ Radi Allah Anha کی قبر مبارک ابواء کے مقام پر ایک چھوٹے سے ٹیلے پرموجود ہے 48اور زائرین ایک بڑی تعداد میں فاتحہ خوانی کے لیے وہاں تشریف لے جاتے ہیں ۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمیشہ اپنی والدہ ماجدہ کو نہایت ہی محبت اور عقیدت کے ساتھ یاد فرمایا کرتے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اکثر صحابہ کرامRadi Allah Anhum میں اپنے اس پہلے سفر، جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ مکّہ سے یثرب ( مدینہ طیّبہ ) کا فرمایا تھا، کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور کئی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ ماجدہ کے انتقالِ پُرملال کا ذکر فرماتے تو نہایت ہی غمگین اور درد کی کیفیت کا شکار ہوجایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی والدہ ماجدہ کی قبر مبارک پر تشریف لے گئے تو بے اختیار آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رخسارِ مبار ک آنسوؤں سے تَر ہو گئے یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ موجود صحابہ کرام Radi Allah Anhumبھی بے اختیار رو پڑے۔ 49آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےان کی اس کیفیت کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی والدہ کی محبت ، ان کی شفقت اور ان کی رحم دلی یاد آتی ہے ۔ 50


  • 1  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 45
  • 2  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 68
  • 3  ابو الفداء اسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: ۲۴۹
  • 4  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 110
  • 5  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 42
  • 6  ابو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، ذخائر العقبۃ فی مناقب ذو القربۃ، دار الکتب المصریۃ، مصر، ۱۳۵۶م، ص: 257
  • 7  محمد ابن امیہ ابن عمرو الہاشمی، المنمق من اخبار قریش، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1985م، ص: 48
  • 8  ابو حاتم محمد بن حبان البستی،السیرۃ النبویۃ واخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: ۴۴
  • 9  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1996م، ص: 192
  • 10  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 42
  • 11  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 68
  • 12  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1996م، ص: 195
  • 13  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، السبل الجلیۃ فی الاباء العلیۃ، مطبوعۃ: دار الامین، القاہرۃ، مصر، 1993م، ص: 17
  • 14  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 135
  • 15  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 89
  • 16  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1996م، ص: 311
  • 17  امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-۲، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 121
  • 18  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیسﷺ، ج-۱، مطبوعۃ: دارالصادر، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجوداً، ص: 230
  • 19  سیّد احمد بن زینی دحلان المکی، السیرۃ النبویۃ (مترجم: ذوالفقار علی)، ج-1، ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، ص: 78
  • 20  ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-13، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1420 ھ، ص: 33
  • 21  القرآن، سورۃ التوبۃ 28:09
  • 22  ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-13، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1420 ھ، ص: 33
  • 23  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 42
  • 24  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 48
  • 25  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ:دار الحلال، بیروت، لبنان،1427ھ، ص: 43
  • 26  Martin Lings (1985), Muhammad ﷺ: His Life based on the Earliest Sources, Sohail Academy, Lahore, Pakistan, Pg. 17.
  • 27  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص: 89
  • 28  احمد بن یحیی البلاذری، جمل من انساب الاشراف، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص:7
  • 29  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 95
  • 30  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 60
  • 31  ایضاً، ص: 63
  • 32  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 99
  • 33  ایضاً، ص: 100
  • 34  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر ، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 158
  • 35  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دار الحلال، بیروت، لبنان،1427ھ، ص: 43
  • 36  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، لیس التاریخ موجوداً، ص: 126
  • 37  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر ، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 160
  • 38  امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 375
  • 39  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 48
  • 40  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر ، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 164
  • 41  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 154
  • 42  ابو الفداء اسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 279
  • 43  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 116
  • 44  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار الحلال، بیروت، لبنان،1427ھ، ص:48
  • 45  ابو الفداء اسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 279
  • 46  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 154
  • 47  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 65
  • 48  أبو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی، معجم البلدان، ج-۱، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 79
  • 49  ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری ،صحیح المسلم، حدیث: 2259، مطبوعۃ :دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 392
  • 50  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 154

Powered by Netsol Online