Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

بلاغتِ زبانِ مصطفٰی ﷺ

Published on: 15-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 49، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 611-663)

اللہ تبارک وتعالی نے اس کائنات رنگ وبو میں کئی چیزیں پیدا فرمائیں پھر ان تمام اشیاء میں مختلف صفات کو ودیعت فرمایا جو اپنے نقطہ کمال پر پہنچنے کے بعد لوگوں کو دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔ آہستہ آہستہ کسی چیز کی تربیت کرکے اس کو کمال کی حد تک پہنچانا یہ سنت اللہ ہے اور یہ سنت الہیہ انسان کو اس کائنات کے ذرہ ذرہ میں نظر آتی ہے۔بالکل اسی طرح نبی اکرم sym-1کی بھی اللہ رب العزت نے اسی قانون کے تحت تربیت فرمائی۔چنانچہ آپ sym-1کی ولادت سے قبل آپ sym-1کے والد محترم کا ا س دنیا فانی سے رخصت ہوجانا ،ولادت کے بعد چھ برس کی صغرِ سنی میں والدہ محترمہ کا وصال پر ملال،پھر دو سال بعد دادا محترم کا اور مزید کچھ عرصہ کے بعد آپ sym-1کے چچا حضرت زبیر کا اس دنیا فانی سے رخصت ہوجانااسی تربیت الہیہ کا حصہ تھا کہ ان سب حالات وحادثات کے باوجود آپsym-1کا کردار مثل ماہتاب ہونا اور پھر پوری قوم اور گرد و نواح میں تمام لوگوں کا مونس و غمخوار ہونا بھی اسی رب العزت کی ربوبیت کی زندہ و جاوید مثال ہے۔بالکل اسی طرح آپ sym-1کی نشو نما،جسمانی خدو خال،ظاہری وضع و قطع ،باطنی نظافت و لطافت،با جمال حسن و کردار یہ سب اور بالخصوص قبیلہ بنی سعد میں آپ کی پرورش اور اس کے آپsym-1کی زبان مبارک اور لہجہ مبارک پر مرتب ہونے والے اثرات سب مل کر ایک ہی چیز کی نشانی و علامت ہیں کہ اللہ واحد الملک ہی ہے جو مخلوقات کی تربیت فرماکر انہیں حد کمال تک پہنچاتا ہے۔

آپ sym-1کی فصاحت لسانی

قبیلہ بنو سعد میں آپ sym-1کی پرورش نے آپ sym-1کے زبان ولہجہ مبارک پر بہت زبردست قسم کے اثرات مرتب کیے ہیں اور آپ sym-1نے خود اس بات کو بیان بھی فرمایا ہے۔چنانچہ اس بارے میں روایت میں منقول ہے:

قال رسول اللّٰه: أنا أعربكم أنا من قریش ولسانى لسان بنى سعد بن بكر.1
رسول اللہ sym-1نے ارشاد فرمایا:میں تم سب سے عربی میں بلیغ ہوں کہ میں (نسبا)قریش سے ہوں اور (مزید)میری زبان(کا لب ولہجہ) بنو سعد بن ابی بکر کی زبان ہی (کے لب وہ لہجہ)کی طرح ہے۔

اسی طرح حضرت جابر sym-5سے مروی روایت میں منقول ہے:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: أنا النبى لا كذب، أنا ابن عبد المطلب، أنا أعرب العرب، ولدتنى قریش، ونشأت فى بنى سعد بن بكر، فأنى یأتینى اللحن؟.2
رسول اللہ sym-1نے ارشاد فرمایا:میں بلا شبہ نبی اللہ ہوں،میں عبد المطلب کا پوتا ہوں،میں سب سے بلیغ عربی ہوں کہ میری ولادت قریش میں ہوئی ہے اور میری نشو نما بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے (جو عرب کا سب سے بڑھ کر بلیغ قبیلہ ہے)تو میرے بولنے میں کسی قسم کی کوئی غلطی کیسے ہوسکتی ہے؟

تو واضح ہوتا ہے کہ آپ sym-1نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے کہ آپ sym-1سب سے افصح العرب تھے۔نبی کریم sym-1کی مبارک زبان نہایت پاکیزہ، علم وادب، فصاحت وبلاغت، حق وصداقت اور لطف ومحبت کا منبع ومظہر تھی۔ آپ sym-1کا کلام شیریں،حق و باطل میں فرق کرنے والا، واضح البیان اور ہر قسم کے عیوب یعنی افراط و تفریط، جھوٹ، غیبت، بدگوئی اور فحش کلامی وغیرہ سے منزہ اور پاک تھا۔

دروغ گوئی سے محفوظ زبان مبارک

اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم sym-1کی زبان مبارک کو تضاد بیانی، تحریف کلام اور درازگوئی سے محفوظ رکھا کیونکہ بات کا بڑھا کر بیان کرنا جھوٹ کی طرف منسوب اور صداقت سے دور ہوتا ہے جبکہ نبی کریم sym-1بچپن اور جوانی میں ہمیشہ صدق اور راست گوئی کے ساتھ مشہور تھے یہاں تک کہ اعلانِ نبوت کے بعد دشمنوں کی جانب سے صادق اور امین کے القابات سے پکارے جاتے تھے۔

دعوتِ اسلام سے قبل قریش کو آپ sym-1کی صداقت پر کامل یقین تھا لیکن جب آپ sym-1نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو اعلانیہ آپ sym-1کی تکذیب کرنے لگے جس کی وجوہات مختلف تھیں۔ کسی نے ازراہ حسد جھٹلایا، کسی نے عناد کے باعث تکذیب کی اور کسی نے اس بات کو بعید سمجھا کہ آپ sym-1نبوت ورسالت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔اگر ان کے حاشیہ خیال میں اظہار نبوت سے پہلے کا آپ sym-1سے منسوب ادنیٰ سا جھوٹ بھی ہوتا تو وہ اس جھوٹ کو اعلان نبوت کے بعد ضرور تکذیب رسالت کی دلیل بناتے ۔جو شخص اوائل عمر میں اس قدر راست گو ہو تو لامحالہ وہ پختہ عمر میں اس سے کہیں زیادہ سچا ہوگا اور جو اپنی ذات کے بارے میں ہر شائبہ کذب سے معصوم اور پاک ہو وہ حقوق اﷲ کے بارے میں ضرور سچا اور راست باز ہوگا۔

حسب ضرورت گفتگو

نبی کریم sym-1خاص ضرورت اور حاجت کے وقت گفتگو فرماتے اور اس میں بھی قدر کفایت پر اقتصار فرماتے۔نہ فضول گوئی سے کام لیتے اور نہ بالکل خاموش رہتے۔ ان دوحالتوں یعنی حاجت اور کفایت کے علاوہ آپ sym-1سب لوگوں سے زیادہ کم گو،خوش گفتار اور خوش تدبیر تھے۔ اسی وجہ سے آپ sym-1کا کلام ہر عیب و اختلال سے محفوظ رہا اور دلکشی اور رونق اس پر غالب رہی۔ زبانیں اس کی حلاوت اور مٹھاس سے لذت اندوز ہوتی رہیں یہاں تک کہ وہ دلوں میں نقش ہوگیا اور کتابوں کی زینت بنتا چلاگیا۔حالانکہ یہ بات مسلم ومحقق ہے کہ کثرت کلامی لغزش سے خالی نہیں ہوتی اور یہ بھی مسلمات میں سے ہے کہ فضول گوئی سے اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے ۔چنانچہ واقعہ میں منقول ہے کہ اثنائے کلام ایک اعرابی مسلسل بولتے ہی جارہا تھا تو حضور اکرم sym-1نے فرمایا:

یا اعرابى كم دون لسانك من حجاب ؟قال: شفتاى واسنانى. فقال صلى اللّٰه علیه وسلم: ان اللّٰه یكره الانبعاق فى الكلام فنضر اللّٰه وجه امرى ء قصر من لسانه واقتصر على حاجته.3
اے اعرابی! تمہاری زبان کے سامنے کتنے پردے ہیں؟ اس نے جواب دیا ہونٹ اور دانت۔ آپ sym-1نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کلام کی تیزی اور زیادتی کو ناپسند فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ اور شاداب رکھتا ہے جو اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے اور بقدر حاجت گفتگو کرتا ہے۔

الفاظ مبارک گویا موتیوں کا ہار

جب آپ sym-1گفتگو فرماتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے نور کے موتیوں کی جھڑی لگ گئی ہے اور یاقوت کی طرح موتی برس رہے ہیں۔چنانچہ حضرت اُم معبد sym-6 بیان فرماتی ہیں:

كان منطقه خزرات نظم ینحدرن.4
آپ ﷺکی گفتگو کے وقت یوں محسوس ہوتا جیسے موتیوں کا ایک ہار ہے جو نیچے ڈھلک رہا ہے۔

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 روایت کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم افلج الثنیتین اذا تكلم روى كالنور یخرج من بین ثنایاه.5
حضور نبی کریم sym-1کے سامنے کے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا اور جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعاعین پھوٹتی دکھائی دیتیں۔

گفتگو کے وقت آپ sym-1کے دہن مبارک سے جو نور کی جھڑیاں لگتی تھیں ان کے بارے میں حضرت ابوقرصافہsym-5 سے یوں مروی ہے:

بایعنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انا وامى وخالتى فلما رجعنا قالت امى وخالتى: یا بنى ما راینا مثل ھذا الرجل احسن وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.6
جب میں میری والدہ اور خالہ حضور نبی کریم sym-1کے دست اقدس پر بیعت کے بعد گھر لوٹے تو میری خالہ اور والدہ مجھے مخاطب ہوکر کہنے لگیں: اے بیٹا! ہم نے آج تک چہرہ کے لحاظ سے حسین، نظافت لباس اور نرمی کلام کے اعتبار سے اس ہستی جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کرتے وقت آپ sym-1 کے مبارک منہ سے نور کی جھڑی لگ جاتی۔

یعنی آپ sym-1کی گفتگو کا لہجہ اور طرز ایسا ہوتا تھا کہ آپ sym-1سے پہلی مرتبہ ملنے والا آپ sym-1کے کلام کی تعریف کیے بغیر رہ نہیں پاتا۔

بے مثال انداز ِ گفتگو

نبی کریم sym-1تمام انسانوں سے زیادہ فصیح اللسان اور انتہائی صاف بیان تھے اورآپ sym-1کے کلام میں کمال اختصار وجامعیت، الفاظ میں فصاحت ووضاحت اور مفہوم ومعانی میں صحت پائی جاتی تھی۔ آپ sym-1کی گفتگو تکلف اور بناوٹ کی قباحت سے پاک تھی اورآپ sym-1کبھی لگی لپٹی اور اُلجھی ہوئی بات نہیں کہتے تھے۔آپ sym-1کا سارا کلام شروطِ بلاغت کو جامع اور ہر طریقِ فصاحت کو نمایاں کرنے والا تھا۔ اگر یہ کلام کسی اور کلام کے ساتھ ملایا جائے تو اپنے مخصوص اسلوب کی وجہ سے ممتاز ہوگا اور اس میں آثار ِتنافر ظاہر ہوجائیں گے اوریوں حق وباطل میں کوئی التباس نہیں رہے گا۔اس طرح کلامِ رسول sym-1کی صداقت باطل سے جدا نظر آئے گی حالانکہ آپ sym-1نے بلاغت کے حصول میں کوئی کوشش نہیں کی اور نہ اصحابِ بلاغت مثلاً خطباء، شعراء یا فصحاء کے ساتھ کبھی میل جول یا اختلاط رکھا بلکہ اس کمال کا منشاء آپ sym-1کی طبعی فطرت اور فیضان جبلت تھا اور اس بے مثال فصاحت وبلاغت کی ایک غرض و غایت تھی اور وہ ایک بہت بڑے واقعہ (نبوت) کی تکمیل وحفاظت تھی۔

حضور نبی کریم sym-1کو اﷲ تعالیٰ نے اس قدر افصح اللسان بنایا تھا کہ آپ sym-1عربی کے ہر ایک لہجہ (dialect)میں بامحاورہ کلام فرماتے تھے ۔جب آپ sym-1دوسرے لہجوں میں گفتگو فرماتے تو اس لہجہ کے قواعدِ فصاحت وبلاغت کے مطابق فرماتے کہ زبان داں بھی حیران رہ جاتے تھے۔

ہر لہجہ پر دسترس

محدثین کرام نے تصریح فرمائی کہ جب کوئی آدمی خواہ وہ کسی قوم کا ہوتا اورآپ sym-1کے حضور حاضر ہوکر اپنے خاص علاقائی عربی لہجے میں بولتا تو آپ sym-1اسی بولی میں اس سے باتیں کرتے۔ یہ آپ sym-1کی زبان میں خداد قدرت وقوت تھی۔ چونکہ آپsym-1 تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے تھے لہٰذا ضروری تھا کہ آپ sym-1کو تمام مخلوق کا علم دیا جاتا اور آپ sym-1تمام مخلوق کی زبانوں کے عالم ہوتے جیسا کہ روایات میں منقول ہے۔

اسی حوالہ سے علامہ شہاب الدین خفاجی sym-4 فرماتے ہیں:

ایک مرتبہ ایک وفد کی صورت میں چند لوگ کسی ملک سے آپ sym-1کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ sym-1اس وقت مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔جب وہ لوگ مسجد میں آئے تو آپ sym-1کو پہچان نہ سکے کیونکہ آپ sym-1بادشاہوں کی طرح امتیازی شان سے نہیں بلکہ صحابہ کرام sym-7 میں مل جل کر بیٹھا کرتے تھےتو ان میں سے ایک شخص نے اپنی بولی میں کہا کہمن ابون اسیران(یعنی تم میں سے رسول اﷲ کون ہیں؟) حاضرین میں سے کوئی نہ سمجھا۔ توحضور نبی کریم sym-1نے انہیں جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "اشکد اور" (یعنی "آگے آؤ") یہ سن کر وہ آگے آئے اور اپنی بولی میں جو جو پوچھتے رہے آپ sym-1اس کا جواب ان کی بولی ہی میں دیتے رہے جس کو سوائے ان کے صحابہ کرام sym-7میں سے کوئی نہ سمجھا۔ آخر انہوں نے آپ sym-1کو اﷲ کا رسول برحق تسلیم کرلیا اور بعد از قبول اسلام اپنے ملک کو واپس چلے گئے۔7

اسی طرح جب بارگاہ رسالت نبوی sym-1میں حضرت سلمان فارسی sym-5زیارت کے شوق سے آئے اور اپنی زبان یعنی فارسی میں آپ sym-1سے ہمکلام ہوئے توامام حلبی sym-5اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

جب حضرت سلمان فارسی sym-5 حضور sym-1کی خدمت اقدس میں پہنچے اور اپنا کلام سنانا شروع کیا تو حضور نبی کریم sym-1نے ایک یہودی کو بطور ترجمان طلب کیا (جو عربی اور فارسی زبان کا عالم تھا) اس نے حضرت سلمان کا کلام سنا کہ حضرت سلمان sym-5نے اپنے کلام میں حضور sym-1کی تعریف اور ان لوگوں کی برائی کی تھی جو لوگوں کو حضور sym-1کے پاس جانے سے روکتے تھے مگر یہودی ترجمان نے یہ سمجھ کر کہ حضور sym-1تو فارسی جانتے نہیں کہا: اے (سیدنا)محمد( sym-1)! یہ سلمانsym-5 تو آپ کو برا کہہ رہا ہے ۔آپ sym-1نے (نور الٰہی کی روشنی میں فرمایا)یہ تو ہماری تعریف اور ان کافروں کی برائی کررہا ہے جو لوگوں کو ہمارے پاس آنے سے روکتے ہیں ۔یہ سن کراس یہودی نے کہا :اے (سیدنا)محمد( sym-1)! بے شک اس سے پہلے تو میں آپ sym-1کو برا جانتا تھا مگر اب میرے نزدیک ثابت ہوگیا ہے کہ بلاشبہ آپ sym-1اﷲ کے سچے رسول ہیں ۔پس میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک آپ sym-1اﷲ کے رسول ہیں۔اس کے بعد حضور sym-1نے حضرت جبریلsym-9 سے فرمایا کہ حضرت سلمان sym-5کو عربی سکھادو۔چنانچہ روایت میں مزید منقول ہے:

فقال: قل له لیغمض عینیه ویفتح فاه. ففعل سلمان، فتفل جبریل فى فیه. فشرع سلمان یتكلم بالعربى الفصیح.8
تو جبریلsym-9 نے فرمایا: آپ ﷺسلمانsym-9 سے کہیے کہ وہ آنکھیں بند کرلیں اور منہ کھول دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو حضرت جبریلsym-9 نے ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالا، پس حضرت سلمانsym-5 نے فصیح عربی بولنی شروع کردی۔(گو کہ بعض محدّثین نے اس روایت پرکلام کیا ہے لیکن کیونکہ یہ فضائل کے باب میں ہے اس لئے لائق استشہاد ہے۔)

شیریں زبان مبارک

اللہ تبارک وتعالی نے آپ sym-1کو جمیع امت کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تھا تو آپ sym-1کوبھی انتہائی شفیق بنایا تھا۔ اور آپ sym-1کی زبان میں مٹھاس بھی اعلی درجہ کی ودیعت فرمائی ہے۔چنانچہ امام ابو سلیمان احمد خطابیsym-4فرماتے ہیں:

لما وضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم موضع البلاغ من وحیه ونصبه منصب البیان لدینه اختار له من اللغات اعذبھا ومن الالسن افصحھا وابینھا ثم امده بجوامع الكلام التى جعلھا ردء ا لنبوته وعلما لرسالته لینتظم فى القلیل منھا علیم كثیر یسھل على السامعین حفظه ولا یؤودھم حمله ومن تتبع الجوامع من كلامه صلى اللّٰه علیه وسلم لم یعدم بیانھا.9
جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم sym-1کو وحی کے ابلاغ کا منصب رفیع عطا فرمایا اوراپنے دین کے امور بیان کرنے کا رتبہ عطا کیا تو آپ sym-1کے لیے وہ زبان منتخب کی جو ساری زبانوں سے شیریں تھی اور ساری زبانوں سے فصیح اور واضح تھی۔ پھر آپ sym-1کی مدد ان جوامع الکلم سے کی جنہیں آپ sym-1کی نبوت کے لیے معاون اور رسالت کی نشانی بنایا تاکہ آپ sym-1کے قلیل الفاظ سے کثیر علم نکلے جسے سامعین کے لیے یاد کرنا آسان ہو اور اسے یادکرنا انہیں بوجھل نہ بنادے ۔جس نے آپ sym-1کے کلام میں سے جوامع کی جستجو کی ہے اس پر یہ امر مخفی نہیں رہتا۔

اسی حوالہ سے امام ابن الاثیر sym-4النہایۃ کی ابتداء میں لکھتے ہیں:

وقد عرفت ایدك اللّٰه وایانا بلطفه وتوفیقه ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان افصح العرب لسانا واوضحھم بیانا واعذبھم نطقا واسدھم لفظا وابینھم لھجة واقومھم حجة. واعرفھم بمواقع الخطاب واھداھم الى طرق الصواب تاییدا الھیا ولطفا سماویا وعنایة ربانیة ورعایة روحانیة حتى لقد قال له على بن ابى طالب كرم اللّٰه وجھه وسمعه یخاطب وفد بنى نھد: یا رسول اللّٰه! نحن بنو اب واحد ونراك تكلم وفود العرب بما لا نفھم اكثره. فقال: ادبنى ربى فاحسن تادیبى وربیت فى بنى سعد. فكان صلى اللّٰه علیه وسلم یخاطب العرب على الاختلاف شعوبھم وقبائلھم وتباین بطونھم وافخاذھم وفصائلھم كلًّا منھم بما یفھمون ویحادثھم بما یعملون.ولھذا قال، صدق اللّٰه قوله: امرت ان اخاطب الناس على قدر عقولھم. فكان اللّٰه عزوجل قد اعلمه ما لم یكن یعلمه غیره من بنى ابیه وجمع فیه من المعارف ما تفرق ولم یوجد فى قاصی العرب ودانیه وكان اصحابه ومن یفد علیه من العرب یعرفون اكثر ما یقوله وما جھلوہ سالوہ عنه فیوضحه لھم.10
رب تعالیٰ اپنی توفیق سے ہماری اور تمہاری مدد کرے تم جانتے ہو کہ حضور نبی کریم sym-1زبان کے اعتبار سے سارے اہل عرب سے فصیح تھے، بیان کے اعتبار سے واضح تھے، گفتگو کے اعتبار سے شیریں تھے، الفاظ کے اعتبار سے سب سے مناسب ،لہجہ کے اعتبار سے واضح، حجت کے اعتبار سے سب سے درست تھے، آپ sym-1خطاب کے مواقع کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے ،لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے والے تھے یہ سب کچھ تائید الٰہی، عنایت ربانی اور رعایت روحانی کی وجہ سے تھا حتیٰ کہ جب آپ sym-1بنو نہد سے گفتگو کررہے تھے ۔وہ گفتگو حضرت علی sym-5سن رہے تھے انہوں نے عرض کی: یا رسول اﷲ sym-1! ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ sym-1اہل عرب کے وفود کے ساتھ ایسی گفتگو کرتے ہیں جس کا اکثر حصہ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ آپ sym-1نے فرمایا: رب تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور ادب سکھانے میں کمال کردیا اور میں نے بنو سعد میں پرورش پائی۔اہل عرب کے خاندان، قبائل ا ورشعوب کے اختلاف کے باوجود انہیں ایسے کلام سے مخاطب فرماتے تھے جسے وہ سمجھ اور جان جاتے تھے اسی لیے آپ ﷺنے فرمایا:مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کو ان کی عقول کے مطابق مخاطب کروں۔ گویا کہ رب تعالیٰ نے آپ sym-1کو وہ علوم عطا فرمائے جو آپ sym-1کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ متفرق امور آپ sym-1میں جمع فرمادیے صحابہ کرامsym-7 اور اہل عرب کے وفود جو آپ sym-1کے پاس آتے تھے وہ آپ sym-1کی گفتگوکا اکثر سمجھ لیتے اورجونہ سمجھ سکتے پوچھ لیاکرتے تھے اورآپ sym-1ان کے لیے اس کی وضاحت کردیتے تھے۔

یعنی رسول اکرم sym-1کو اللہ تبارک وتعالی نے عرب کے تمام لہجوں میں مہارتِ تام عطا فرمائی تھی اور اسی وجہ سے آپ sym-1تمام آنے والے وفود سے انہی کی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئےقاضی عیاضsym-4 فرماتے ہیں:

واما فصاحة اللسان وبلاغة القول فقد كان صلى اللّٰه علیه وسلم من ذلك بالمحل الافضل والموضع الذى لا یجھل سلاسة طبع وبراعة منزع وایجاز مقطع ونصاعة لفظ وجزالة قول وصحة معان وقلة تكلف. اوتى جوامع الكلم وخص ببدائع الحكم وعلم السنة العرب فكان یخاطب كل امة منھا بلسانھا ویحاورھا بلغتھا ویباریھا فى منزع بلاغتھا حتى كان كثیر من اصحابه یسالونه فى غیر موطن عن شرح كلامه وتفسیر قوله من تامل حدیثه وسیره علم ذلك وتحققه.11
جہاں تک زبان کی فصاحت اور گفتگو کی بلاغت کا تعلق ہے تو اس میں آپ sym-1بلند رتبہ اور اعلیٰ منصب پر فائز تھے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آپ sym-1جبلت کی سہولت ،طبعی انقیاد، قلیل الفاظ اور کثیر معانی کے ساتھ غریب الفاظ کے عدم اختلاط کے ساتھ ایسی گفتگو فرماتے جو ضعف تالیف سے پاک تھی۔ آپ sym-1اپنی گفتگو میں صحیح معانی کے ساتھ اور تکلف کی قلت کے ساتھ معروف تھے۔ آپ sym-1کو جوامع الکلم عطا کیا گیا تھا۔ آپ sym-1کو حکمت آموز باتوں اور عرب کی زبانوں کے علم کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ ہر قوم کو اس کی زبان میں مخاطب کرتے تھے اس کی زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔ ان کی بلاغت کے طریقے سے انہیں جوابات دیتے تھے حتیٰ کہ صحابہ کرام sym-7اکثر آپ sym-1کی گفتگو کی تشریح کے طالب ہوتے تھے۔جس نے آپ sym-1کی احادیث طیبہ میں غور کیا اور سیرت پاک کو سمجھا اس کے لیے یہ بات ثابت ہوگئی۔

آپ sym-1کے فصیح اللسان ہونے کے متعلق امام محمد بن یوسف صالحی شامیsym-4 فرماتے ہیں:

ففصاحة لسانه صلى اللّٰه علیه وسلم غایة لا یدرك مداھا ومنزلة لا یدانى منتھاھا وكیف لا یكون ذلك؟ وقد جعل اللّٰه تعالى لسانه سیفا من سیوفه یبین عنه مراده ویدعو الیه عباده، فھو ینطق بحكمة عن امره ویبین عن مراده بحقیقة ذكره. افصح خلق اللّٰه اذا لفظ وانصحھم اذا وعظ لا یقول ھجرا ولا ینطق ھذرا كلامه كله یثمر علما ویمتثل شرعا وحكما لا یتفوه بشر بكلام احكم منه فى یمقالته ولا اجزل منه فى عذوبته وخلیق بمن عبر عن مراد اللّٰه بلسانه واقام الحجة على عباده ببیانه وبین مواضع فروضه واو امره ونواھیه وزواجره ان یكون احكم الخلق تبیانا وافصحھم لسانا واوضحھم بیانا وبالجملة فلا یحتاج العلم بفصاحته الى شاھد ولا ینكرھا موافق ولا معاند.12
آپ sym-1کی زبان کی فصاحت کی وہ انتہاء تھی جسے پایا نہیں جاسکتا اور ایسا مقام ہے جس کی انتہا نہیں ہے۔ایسا کیوں نہ ہو؟جبکہ رب تعالیٰ نے آپ sym-1کی زبان اقدس کو اپنی تلواروں میں سے ایک تلوار بنایا ہے۔ جس سے آپ sym-1رب تعالیٰ کی مراد کو بیان کرتے تھے اور اس کے بندوں کو اس کی طرف دعوت دیتے تھے۔ رب تبارک و تعالیٰ کے حکم کے بارے میں آپ sym-1حکمت سے گفتگو کرتے تھے ، اس کے ذکر کی حقیقت سے اس کی مراد کو واضح کرتے تھے۔ جب آپ sym-1بولتے تھے تو ساری مخلوق سے فصیح ہوتے تھے۔ جب وعظ فرماتے تو ساری مخلوق سے زیادہ مخلص ہوتے تھے۔ آپ sym-1نہ تو بے ہودہ گوئی کرتے تھے نہ ہی ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ آپ sym-1کا سارا کلام علم کے اعتبار سے ثمرآور ، شرع اور حکم کے مطابق ہوتا تھا ۔کوئی بشر ایسا کلام نہیں کرسکتا جو آپ sym-1کی گفتگو سے زیادہ محکم ہو،جو آپ sym-1کے کلام سے زیادہ شیریں ہو۔ آپ sym-1اس امر کےلائق تھے کہ اپنی زبان اقدس سے رب تعالیٰ کی مراد عیاں کرتے۔ رب تعالیٰ کے بندوں پر اس کی حجت قائم کرتے، اس کے فرائض اور امر ونواہی اور زواجر کو عیاں کرتے۔ آپ sym-1بیان کے اعتبار سے ساری مخلوق سے محکم تھے، زبان کے اعتبار سے فصیح تھے اور بیان کے اعتبار سے واضح تھے۔ مختصر یہ کہ آپ sym-1کی فصاحت کسی شاہد کی محتاج نہیں نہ ہی کوئی دوست یا دشمن اس کا انکار کرسکتا ہے۔

رسول اللہ sym-1کی فصاحت وبلاغت کسی عام فصیح و بلیغ کی طرح قطعا نہیں تھی چونکہ آپ sym-1اللہ تبارک وتعالی کے نبی تھے اسی وجہ سے یہ فصاحت وبلاغت انسانی طاقت سے واراء الوراء تھی۔یہی وجہ ہے اس مو ضوع کے حوالہ سے کئی لوگوں نے علیحدہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے قاضی عیاض sym-4 فرماتے ہیں:

واما كلامه المعتاد وفصاحته المعلومة وجوامع كلمه وحكمه الماثورة فقد الف الناس فیھا الدواوین وجمعت فى الفاظھا ومعانیھا الكتب ومنھا ما لایوازى فصاحة ولایبارى بلاغة.13
آپ sym-1کے معمول کے کلام مبارک، معروف فصاحت اور جوامع الکلم کے بارے میں لوگوں نے کئی دیوان لکھے ہیں۔ ان کے الفاظ اور معانی میں کتب تالیف کیں ہیں ۔ان میں بعض ایسے ہیں کہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ان کا مقابلہ بھی نہیں ہوسکتا۔

مختصر لیکن جامع و مانع کلام

جس وقت آپ sym-1مبعوث ہوئے تو اس وقت فصاحت و بلاغت کادور دورہ تھا اسی وجہ سے آپ sym-1کی احادیث ایسی فصاحت وبلاغت کی حامل ہیں کہ فصحاء وبلغاء اس سے عاری ہیں۔ذیل میں ایسی چند مثالیں پیش خدمت ہیں جن سے واضح ہوجائے گا کہ آپ sym-1کے فرمان منقولہ فصاحت کے سرخیل ہیں۔انہی میں سےایک فرمان مبارک میں آپ sym-1کا ارشاد ہے:

المسلمون تتكافا دماؤھم ویسعى بذمتھم ادناھم وھم ید على من سواھم.14
تمام مسلمانوں کا خون برابر ہے۔ اگر کوئی کم درجہ والا مسلمان کسی قوم کو امان دے گا یا عہد کرے گا تو سب مسلمانوں پر اس کی پابندی لازمی ہوگی۔ تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ میں یکجا ہوں گے۔

اسی طرح حضور sym-1کا فرمان عالیشان ہے:

المسلمون كاسنان المشط. 15
مسلمان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔

اسی طرح فصاحت سے بھرپور کلام میں حضور sym-1نے فرمایا:

لا خیر فى صحبة من لا یرى لك مثل ما ترى له.16
اس شخص کی رفاقت میں کوئی فائدہ نہیں جو اس طرح تمہارے لیے تمنا نہ کرے جس طرح تم اس کے لیے تمنا کرتے ہو۔

اسی طرح صاحب جوامع الکلم sym-1نے فرمایا:

ماھلك امرؤ عرف قدر نفسه.17
وہ شخص ہلاکت کے گڑھے میں نہیں گرتا جو اپنی قدر پہچان لیتا ہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بشارت دیتے ہوئے ایک جملہ میں ساری کی ساری خوشیاں عطا فرماتے ہوئے حضور اکرم sym-1نے ارشاد فرمایا:

المرء مع من احب.18
انسان کو اس کی معیت(رفاقت) حاصل ہوگی جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

اسی طرح نئے مسلمان حضرات کوحضور sym-1نے ایک جملہ مبار ک میں دین کی اہمیت بتاتے ہوئے ارشادفرمایا:

الناس معادن كمعادن الذھب والفضة خیارھم فى الجاھلیة خیارھم فى الاسلام اذا فقھوا.19
لوگوں کے مزاج اس طرح مختلف ہوتے ہیں جس طرح سونے اور چاندی کی معدنیات ہوتی ہیں۔ ان میں سے جاہلیت میں بہترین اسلام میں بہترین ہیں جب کہ وہ سمجھ رکھیں۔

اسی طرح خیر و شر کی مدح و ذم اور ان کے نتائج کو ایک جملہ میں بیان کرتے ہوئے حضور sym-1نے فرمایا:

رحم اللّٰه عبدا قال خیرا فغنم او سكت عن شر فسلم.20
رب تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے بھلائی کی اورنفع حاصل کیا یا شر سے خاموش رہا اور محفوظ ہوگیا۔

اہل ایمان کو سب سے اعلی و ارفع درجہ پانے کےلیے تر غیب دیتے ہوئے ایک فرمان مقدس میں حضور اکرم sym-1نے یوں ارشاد فرمایا:

إن أحبكم إلى وأقربكم منى مجلساً یوم القیامة أحسنكم أخلاقاً الموطأون أكنافا الذین یألفون ویؤلفون .21
تم میں سے میرے سب سے قریب ازروئے محبت اور روزِ حشر ازروئےمقام وہ ہوگا جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں گے جن کے پہلو نرم ہوتے ہیں وہ محبت کرتے ہیں ان سے محبت کی جاتی ہے۔

اسی طرح ایک بادشاہ کو ایک ہی جملہ میں فلاح دارین کی طرف رہنمائی کرتےہوئے آپ sym-1نے یوں فرمان مبارک ارشاد فرمایا:

اسلم تسلم یوتك اللّٰه اجرك مرتین.22
اسلام لے آ سلامتی پاجائے گا رب تعالیٰ تجھے دوگنا اجر عطا کرے گا۔

عام طور پر لوگ عیش و عشرت کی زندگی نہ ہونے کوتاریکی سمجھتے ہیں اور اس تاریکی کو دور کرنے کے لیے وہ لوگ سب کچھ کرتے ہیں لیکن اصل تاریکی سے بے نیاز رہتے ہیں اور بالآخر اس میں گِھر کر تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں یعنی کفر وشرک اور معصیت کی تباہی۔اسی وجہ صاحب جوامع الکلم نے اس اندھیرے کو ایک جملہ میں بیان کرتے ہوئے اصل روشنی اور کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

الظلم ظلمات یوم القیامة.23
ظلم روز محشر کی تاریکیوں میں سے ہے۔

مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ sym-1کے ایک ایک فرمان عالیشان میں کئی کئی معانی ومفاہیم کا انبار مخفی ہوتا تھا جو مختلف مواقع پر مختلف حیثیات سے مختلف الحال لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اسی طرح صحابہ کرام آپ sym-1کی لا جواب و بے مثال فصاحت کے بارے میں کہتے تھے:

ما راینا الذى ھو افصح منك .24
ہم نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ sym-1سے زیادہ فصیح ہو۔

اس حوالہ سے خود حضور اکرم sym-1نے فرمایا:

ومایمنعنى وانما انزل القرآن بلسانى لسان عربى مبین وانى من قریش ونشات فى بنى سعد بن بكر.25
مجھے اس سے کوئی چیزنہیں روکتی، قرآن میری زبان عربی مبین میں نازل ہوا۔ میں قریش میں سے ہوں میں نے بنو سعد میں پرورش پائی ہے۔

اس طرح دیہات کے لوگوں کی قادر الکلامی مع فصاحت اور شہریوں کے الفاظ کی فصاحت مع ان کے کلام کی رونق آپ sym-1میں جمع ہوگئی۔چنانچہ حضرت عمر فاروق sym-5 نے عرض کی کہ کیا وجہ ہے کہ آپ sym-1ہم سے زیادہ فصیح ہیں؟ حالانکہ آپ sym-1ہمارے سامنے کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے تو آپ sym-1نے فرمایا:

كانت لغة اسماعیل قد درست فجاء بھا جبرئیل فحفظنیھا.26
لغتِ اسماعیلsym-9 مٹ چکی تھی حضرت جبرائیلsym-9 اسے لے کر آئے میں نے اسے یاد کرلیا۔

حضرت برہّ بنت عامر ثقفیہ جو اپنی قوم کی عورتوں کی سردار تھی اس نے اپنے بھائیوں سے کہا، اے بنو عامر! کیا تم میں سے کسی نے محمد عربی sym-1کی زیارت کی ہے؟ انہوں نے کہا:

كلنا قد رایناه ایام الموسم فقالت: افیكم من سمعته یتكلم؟ قالوا: نعم. فقالت: كیف ھو فى فصاحته؟ قالوا: یا اختاه! ان اقبح مثالب العرب الكذب اما فصاحته فما ولدت العرب فیما مضى ولا تلد فیما بقى افصح منه ولا اذرب منه اذا تكلم یعجز اللبیب كلامه ویخرس الخطیب خطابه.27
ہم سب نے موسم(حج) کے ایام میں ان کی زیارت کی ہے تو اس نے پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے انہیں گفتگو کرتے دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: ان کی فصاحت کیسی ہے؟ انہوں نے کہا: ہماری بہن! جھوٹ عرب کے قبیح ترین عیوب میں سے ہے۔ لیکن آپ sym-1کی فصاحت کا یہ عالم ہے کہ نہ تو ماضی میں کوئی پیدا ہوا ہے، نہ ہی مستقبل میں کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو آپ sym-1سے زیادہ فصیح ہو۔ آپ sym-1محو گفتگو ہوتے ہیں تو آپ sym-1سے خوش گفتار کوئی نہیں ہوتا۔ آپ sym-1کا کلام دانا کو عاجز اورخطیب کو خاموش کرادیتا ہے۔

حضرت محمد بن عبد الرحمن زہری نے اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! "ایدالک الرجل امراتہ" ؟(کہ کیا مرد اپنی بیوی کو قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتا ہے؟)توحضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: "نعم اذا کان ملفجا" (کہ ہاں! جب غریب یعنی پیسے سے ہاتھ تنگ ہو)۔اس پرحضرت صدیق اکبر sym-5نے عرض کیا یا رسول اﷲ sym-1! اس شخص نے آپ sym-1سے کیا کہا؟ اور آپ sym-1نے کیا جواب دیا؟ ہم نہیں سمجھ سکے تو حضور نبی کریم sym-1نے فرمایااس نے دریافت کیا:ایما طل الرجل اھلہ؟(کہ شوہر اپنی بیوی کا کسی وقت قرض دار ہوتا ہے؟) تو میں نے جواب دیا: "نعم اذا کان مفلسا" (کہ ہاں! جب وہ نادار ہو جس کی بنا پر ان کے حقوق ادا کرنے میں تاخیر کرے )۔اس پر حضرت ابوبکر صدیق sym-5نے عرض کی یارسول اﷲ sym-1میں عرب میں گھوما ہوں میں نے ان کی فصاحت سنی ہے لیکن میں نے آپ sym-1سے فصیح کسی کو نہیں سنا تو آپ sym-1 نے فرمایا:

ادبنى ربى ونشات فى بنى سعد ابن بكر.28
میرے رب تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور میں بنو سعد میں پروان چڑھا ہوں۔

اس وجہ سے میری فصاحت کا یہ عالم و مقام ہے۔ حضرت بریدہ sym-5سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم افصح الناس وكان یتكلم بالکلام لایدرون ماھو حتى یخبرھم.29
حضور sym-1سارے لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ آپ sym-1ایسے کلام میں گفتگو کرتے تھے جسے صحابہ کرام sym-7نہ جانتے تھے حتیٰ کہ آپ sym-1انہیں خود آگاہ فرمادیتے۔

عربی زبان کے تمام لہجوں سے کما حقہ آگاہی

آپ sym-1نہ صرف قریش، انصار اور اہل حجاز سے ہی محو گفتگو ہوتے تھے بلکہ عرب کے دیگر لوگوں کے ساتھ آپ sym-1کلام فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ sym-1کی وہ مقدس دعا جو آپ sym-1نے بنوفہد کے لیے فرمائی تھی اس پر شاہد ہے۔چنانچہ منقول ہے کہ بنوفہد وفد کی صورت میں آپsym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت طہفہ بن رھمsym-5 کھڑے ہوگئے اور انہوں نے قحط سالی کی شکایت کرتے ہوئے عرض کی:

یارسول اﷲ sym-1ہم تہامہ کی نشیبی زمین میں کجاؤوں میں حاضر ہوئے ہیں ۔۔۔تیل کی شیشی خشک ہوچکی ہے،نباتات سوکھ چکی ہیں ،املوج گرپڑا ہے، شاخیں خشک ہوگئی ہیں، قربانی کے جانور ہلاک ہوگئے ہیں اور کھجوریں خشک ہوگئیں ہیں۔ یا رسول اﷲ sym-1! شرک اور ظلم سے توبہ کرکے ہم آپ sym-1کی بارگاہ میں پہنچے ہیں اور ہم نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا ہے ،شریعت اسلام کو مانا ہے جب تک کہ سمندر کی موجیں بلند ہوتی رہیں گی اور پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے۔۔۔ حضور نبی کریم sym-1نے دعا فرمائی:

اللّٰھم بارک كلھم فى محضھا ومخضھا ومذقھا وابعث رعاتھا فى الدثر بیانع الثمر وافجر لھم الثمد وبارك لھم فى المال والولد من اقام الصلاة كان مسلما ومن آتى الزكاة كان محسنا ومن شھد ان لا اله الا اللّٰه كان مخلصا لكم یا بنى نھد ودائع الشرك ووضائع الملك لا تلطط فى الزكاة ولا تلحد فى الحیاة ولا تثاقل عن الصلاة.30
مولا! ان کے خالص دودھ اور مکھن میں برکت فرما ، اس دودھ میں برکت فرما جس میں پانی ملایا گیا ہو۔ مولا! ان کے چرواہوں کو گھاس اور نباتات میں بھیج دے جہاں پھل پک چکا ہو ان کو کثیر پانی عطا فرما۔ ان کے اموال اور اولاد میں برکت فرما۔ جس نے نماز پڑھی وہ مسلمان ہے، جس نے زکوۃ دی وہ محسن ہے، جس نے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه کی گواہی دی وہ مخلص ہے۔ اے بنوفہد! تمہارے ساتھ مشرکین کے عہد میں بادشاہ کے وظائف ہیں۔ تم زکوۃ ادا کرنے سے نہیں رکوگے، زندگی میں حق سے نہیں پھروگے اورنماز میں سستی نہیں کروگے۔

پھر آپ sym-1نے بنو فہد کے لیے ایک مکتوب گرامی ان کے ہمراہ بھیجا جو یہ تھا:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رسول محمد(sym-1)کی جانب سے بنی فہد بن زید کی طرف!

اس شخص پر سلامتی ہو جو رب تعالیٰ اور اس کے رسولِ محترم پر ایمان لایا اے بنوفہد! زکوۃ میں عمدہ مال تمہارے لیے ہے۔ ہم درمیانہ مال لیں گے ایسے گھوڑوں پر جنہیں بطور سواری استعمال کیا جائے ۔ جس پر سواری کرنا مشکل ہو ان میں زکوۃ نہیں۔ تمہاری چراگاہوں میں کوئی داخل نہ ہوگا ،نہ تمہارے طلح (درختوں)کو کاٹا جائے گا، نہ تمہارے شیر (دودھ)آور جانوروں کو روکا جائے گا ۔۔۔ تم عہد شکنی نہ کرو ۔جس نے اس امر سے انحراف نہ کیا جو اس مکتوب گرامی میں ہے اس کے لیے رب تعالیٰ کے دربار سے جزاء اور ثواب ہے اور جس نے انکار کیا اس کے لیے سزا ہے۔31

مذکورہ روایت کی تشریح کرتے ہوئے قاضی عیاضsym-5 فرماتے ہیں:

وأین ھذه الألفاظ من كتابه صلى اللّٰه علیه وسلم فى الصدقة لأنس المشھور، فإنه بمحل من جزالة ألفاظ مألوفة وسلاسة تراكیب مأنوسة، وذلك بمحل من غلاقة ألفاظ غریبة وقلالة أسالیب فى النطق عسرة، لأنه لما كان كلام ھؤلاء على ھذا الحد أى غریبا غیر مألوف وكانت بلاغتھم على ھذا النمط وحشیا غیر مأنوس، وكان أكثر استعمالھم ھذه الألفاظ التى لیست بمألوفة ولا مأنوسة، استعملھا معھم لیبین للناس ما نزل إلیھم ولیحدث الناس بما یعلمون لیفھموه.وقد كان من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم إن یكلم كل ذى لغة بلغته على اختلاف لغة العرب وتركیب ألفاظھا وأسالیب كلمھا، وكان أحدھم لا یجاوز لغته وإن سمع لغة غیره فكالعجمیة یسمعھا العربى وما ذلك منه صلى اللّٰه علیه وسلم إلا بقوة إلھیة وموھبة ربانیة، لأنه صلى اللّٰه علیه وسلم بعث إلى الكافة طرّا وإلى الخلیقة سودا وحمرا، ولا یوجد متكلم بغیر لغته إلا قاصرا فى تلك الترجمة نازلا عن صاحب الأصالةفى تلك، إلا ھو صلى اللّٰه علیه وسلم فإنه كان إذا تكلم فى كل لغة من لغة العرب كان أفصح وأنصع بلغاتھا منا بلغة نفسھا وجدیر به ذلك، فإنه صلى اللّٰه علیه وسلم قد أوتى جمیع القوى البشریة المحمودة ومزیة على الناس بأشیاء كثیرة.32
صدقہ کے بارے میں یہ الفاظ اس روایت میں کہا ں ہیں جو حضرت انس سے مشہور ہے ان میں مالوف فصیح الفاظ ہیں اورسلاست کی مانوس ترکیب ہے۔یہ غریب الفاظ کی بندش اور گفتگو میں مشکل اسالیب کو استعمال میں لانا ہے کیونکہ ان لوگوں کا کلام اجنبی اور غیرمانوس تھا۔ ان کی بلاغت اسی طریقہ پر تھی جو اجنبی اور غیر مانوس ہو۔ آپ sym-1نے بھی ان الفاظ کا استعمال زیادہ کیا جو مالوف اور مانوس نہ تھے تاکہ ان کے لیے وہ پیغام واضح ہوسکے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ آپ sym-1لوگوں سے ان زبان میں گفتگو فرماتے جنہیں وہ جانتے ہوں تاکہ وہ آپ sym-1 کی بات سمجھ سکیں۔ آپ sym-1کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ sym-1اہل عرب کےلہجوں کے اختلاف کے باوجود ہر شخص کے ساتھ اس کے لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ اس کی تراکیب اور کلمات کا اسلوب اختیار کرتے تھے ۔جبکہ اور کوئی شخص اپنی زبان سے متجاوز نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری زبان اس کے لیے اس طرح ہوتی تھی جس طرح عربی عجمی کو سن لے۔ یہ صرف اور صرف آپ sym-1پر قوت الہٰیہ اور عنایات ربانیہ کی وجہ سے تھا کیونکہ آپ sym-1کو ساری مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ آپ sym-1ہر سیاہ و سرخ کے نبی ہیں۔ آپ sym-1کے علاوہ ہر شخص اس شخص کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوتا جو اس کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں گفتگو کررہا ہوتا کیونکہ آپ sym-1عرب کی زبانوں میں سے ہر ہر زبان میں گفتگو کرلیتے تھے۔ آپ sym-1ان ساری زبانوں میں فصیح اور بلیغ ہوتے تھے۔ آپ sym-1اس فضیلت کے مستحق بھی تھے کیونکہ آپ کو ساری بشری صفات بدرجہ اتم عطا کی گئی تھیں۔ آپ sym-1کو کثیر امور میں لوگوں پر فضیلت دی گئی تھی۔

اسی صفت کے متعلق حضرت عطیہ سعدی sym-5 نے فرمایا:

قدمت على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى اناس من بنى سعد بن بكر وكنت اصغر القوم فخلفونى فى رحالھم ثم اتوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقضوا حوائجھم، فقال: ھل بقی منكم احد؟ قالوا: نعم یا رسول اللّٰه! غلاما منا خلفناه فى رحالنا. فامرھم ان یدعونى، فقالوا: اجب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاتیته فلما دنوت منه، قال: ما اغناك اللّٰه فلا تسال الناس شیئا، فان الید العلیا ھى المنطیة وان الید السفلى المنطاة وان مال اللّٰه مسؤول ومنطى.فکلمنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بلغتنا.33
میں بنی سعد بن بکر کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اﷲ sym-1کی خدمت میں آیا جب میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ انہوں نے مجھے پیچھے کجاووں کے پاس چھوڑدیا پھر وہ رسول کریم sym-1کی خدمت میں آئے اور اپنی ضروریات پوری کیں تو آپ sym-1نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی باقی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اﷲ sym-1! ہمار ا ایک لڑکا پیچھے سواریوں کے کجاووں کے پاس ہے۔ حضور sym-1نے ان کو مجھے بلانے کا حکم دیا۔ انہوں نے آکر مجھے چلنے کا کہا۔میں جب آپ sym-1کے قریب پہنچا تو آپ sym-1نے فرمایا: جب اﷲ تجھے غنی کردے تو لوگوں سے ہرگز سوال نہ کر۔ بے شک اوپر والا ہاتھ دینے والے کا ہے اور نیچے والا ہاتھ لینے والے کا ہے اور اﷲ کے مال (بیت المال) کے بارے میں سوال ہوگا اور وہ دینے کے لیے ہے۔چنانچہ رسول اﷲ sym-1نے ہماری زبان میں بات چیت فرمائی۔

اسی طرح ایک عربی لغت کے مطابق حضور نبی کریم sym-1نے حضرت کعب بن عاصم الاشعری sym-5سے فرمایا:

لیس من ام بر ام صیام فى ام السفر.34
یعنی سفر میں روزہ رکھنا نیکی میں سے نہیں۔

یہ صحیح زبان ہےاور اشعری اور یمن کے اکثر لوگ اسے استعمال کرتے تھے۔ آپ sym-1نے بیان میں رغبت کرتے ہوئے حسن تعلیم اور انہیں ان کی ہی زبان میں سمجھاتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے۔اسی طرح جب ایک عامری شخص نے آپ sym-1سے سوال کیا تو آپ sym-1نے فرمایا:

سل عنك.
مجھ سے جو چاہو سوال کرلو۔
وكان یقول للسائلین قبل ذلک: سل عما بدا لك. فقال یومئذ للعامرى: سل عنك. فانھا لغة بنى عامر فكلمه بما یعرف.35
اس سے پہلے تک سائل کو "سل ما بدا لک" کہا جاتا ہے اس دن عامری کو "سل عنک" فرمایا کیونکہ یہ بنی عامر کی لغت ہے ان سے ان کی معروف زبان میں بات کی۔

ان مذکورہ بالا تمام روایات سے اظھر من الشمس ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم sym-1تمام لغتوں کے مطابق ان کی زبانوں میں مروج فصاحت و بلاغت کے ساتھ کلام فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ نبی اکرم sym-1جوامع الکلم صفت اقدس کے حامل ہیں اور کئی معانی ومفاہیم پر مشتمل کلام کو ایک جملہ اور ایک فرمان مین بیان فرمادیتے ہیں تاکہ سننے والا اس بات کو آسانی کے ساتھ یاد کرلے اور بوقتِ ضرورت اس رہنمائی سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی بتائے تاکہ وہ بھی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکیں۔

زبان مصطفیٰ sym-1 کلام خدا

بندگانِ خدا جب قربِ الٰہی سے فائز المرام ہوتے ہیں تو اﷲ کی تجلیات سے ان کی زبانیں کن کی کنجی کا درجہ رکھتی ہیں۔ ظاہر میں تو کلمہ بندے کی زبان پر ظاہر ہورہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہاں قدرتِ ایزدی کا ظہور ہوتا ہے ۔چنانچہ اس کی وضاحت درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جس کوحضرت ابوہریرہ sym-5بیان کرتے ہیں :

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان اللّٰه قال: من عادلى ولیا فقد آذنته بالحرب وما تقرب الى عبدى بشىء احب الى مما افترضت علیه وما یزال عبدى یتقرب الى بالنوافل حتى احبه فاذا احببته كنت سمعه الذى یسمع به وبصره الذى یبصر به ویده التى یبطشن بھا ورجله التى یمشى بھا وان سالنى لاعطینه ولئن استعاذنى لاعیذنه وما ترددت عن شىء انا فاعله ترددى عن نفس المومن یكره الموت وانا اكره مساء ته.36
حضور نبی کریم sym-1نے فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ۔ میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو ۔میرا بندہ برابر نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔

اس روایت کی مزید تشریح کرتے ہوئے امام فخرالدین رازی sym-4لکھتے ہیں:

لاشك ان المتولى للافعال ھو الروح لاالبدن ولھذا نرى ان كل من كان اكثر علماً باحوال عالم الغیب كان اقوى قلباً ولھذا قال على كرم اللّٰه تعالى وجھه: واللّٰه ماقلعت باب خیبر بقوة جسد انیة ولٰكن بقوة ربانیة. وكذلك العبد اذاواظب على الطاعات بلغ الى المقام الذى یقول اللّٰه تعالى: كنت له سمعاً وبصراً فاذا صار نور جلال اللّٰه تعالى سمعاً له سمع القریب و البعید واذا صار ذلك النور بصراً له راى القریب والبعید واذا صار ذلك النوریدا له قدر على التصرف فى الصعب و السھل والبعید والقریب.37
بلاشبہ افعال کی متولی روح ہے نہ کہ بدن۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جسے احوال عالم غیب کا علم زیادہ ہے اس کا دل زیادہ زبردست ہوتا ہے ۔لہٰذا مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا :خدا کی قسم! میں نے خیبر کادروازہ جسم کی قوت سے نہ اکھیڑا بلکہ ربانی طاقت سے۔ اسی طرح بندہ جب ہمیشہ طاعت میں لگارہتا ہے تواس مقام تک پہنچتا ہے جس کی نسبت رب عزوجل فرماتاہے کہ وہاں میں خود اس کے کان آنکھ ہوجاتاہوں۔ توجب جلال الٰہی کانور اس کا کان ہوجاتا ہے تو بندہ نزدیک و دورسب سنتا ہے اور جب وہ نور اس کی آنکھ ہوجاتا ہے بندہ نزدیک ودور سب دیکھتا ہے اور جب وہ نور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہے بندہ سہل و دشوار ونزدیک ودور میں تصرفات کرتا ہے۔

لہٰذا ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ قربِ الہی پاجانے والا بندہ اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے جہاں سے وہ جسمانی حدود و قیودات کے حصار سے آزاد ہوجاتا ہے۔ مخلوقات میں آپ sym-1سے بڑھ کر کوئی دوسر اشخص نہیں ہے جو آپ sym-1سے زیادہ مقرب الہی ہو یہی وجہ ہے کہ آپ پر انعامات ربانی بے حد و بے حساب ہیں جس کا اظہار کئی مقامات پر یوں ہوا کہ جو بھی آپ sym-1کی زبانِ اقدس سے نکل جاتا وہ بعینہ اسی طرح ہوجاتا جس طرح آپ sym-1فرماتے ۔

اس حوالہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت کعب بن مالک sym-5فرماتے ہیں کہ ایک سفید ہیت والا شخص ریگستان سے آرہا تھاتو اسے حضور اکرم sym-1 نے دیکھ کر ارشاد فرمایا:

كن ابا خیثمة فإذا ھو أبو خیثمة الأنصارى.38
تو ابو خیثمہ ہوجاتو وہ ابو خیثمہ انصاری ہوگیا۔

اس مذکورہ بالا روایت کی تشریح کرتے ہوئے قاضی عیاض sym-4 فرماتے ہیں:

حق کے مشابہ یہ ہے کہ "کن" یہاں پر تحقیق اور وجود کے لیے ہے یعنی تو تحقیقی طور پر ابو خیثمہ ہوجا۔39

امام نوویsym-4 نے اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے کہ تو جو کوئی بھی ہے حقیقتاً ابو خیثمہ ہوجا۔40

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن مسعودsym-5 سے مروی حدیث میں ہے کہ غزوہ تبوک میں نبی کریم sym-1نے ایک شخص کے متعلق فرمایا:

كن اباذر فلما تأمله القوم، قالوا: یا رسول اللّٰه، ھو واللّٰه أبو ذر.41
تو ابوذر ہوجا جب قوم نے غورکیا تو کہنےلگے: یا رسو ل اللہ sym-1بخدایہ ابو ذر ہی ہے۔

معلوم ہوا کہ حضور sym-1نے جس کام کے لئے صاف لفظوں میں کن فرمادیا تو فوراً اس کا وجود ہوگیا۔

تو ایسے ہی ہوجا

رسول اکرم sym-1کی زبان مبارک سے جو کچھ بھی صادر ہوجاتا تو وہ اسی طرح ظہور پذیر ہوجات تھا۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر صدیقsym-5 فرماتے ہیں:

كان فلان یجلس الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا تكلم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بشىء اختلج وجھه. فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: كن كذلك فلم یزل یختلج حتى مات.42
ایک آدمی حضور sym-1کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور آپ sym-1 جب کوئی گفتگو فرماتے تو منہ چڑایا کرتا تھا۔ نبی کریم sym-1نے (ایک دن) کہہ دیا تو ایسے ہی ہوجا تو ساری زندگی اس کا چہرہ اسی طرح رہا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔

واضح رہے کہ یہ شخص حکم بن العاص تھا جو رسول اﷲ sym-1 کی نقل اتارتا تھا۔چنانچہ امام طبرانیsym-4 کی روایت میں ہے:

كان الحكم بن ابى العاص یجلس عند النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا تكلم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اختلج اولا فبصر به النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: انت كذاك. فما زال یختلج حتى مات.43
حکم بن ابی العاص حضور sym-1کی مجلس میں بیٹھاکرتاتھا۔ جب نبی کریم sym-1کلام فرماتے تو وہ منہ چڑایاکرتا تھا۔ایک بارحضور sym-1نے اسےدیکھ لیا تو فرمایا: توایساہی ہے۔پس وہ ایساہی رہا یہاں تک کہ موت نےاسےآن لیا۔

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8بیان کرتے ہیں :

ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم خطب یوما ورجل خلفه یحاكیه ویلمصه فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: كذلك فكن فرفع الى اھله فلبط به شھرین ثم افاق حین افاق وھو كما حكى رسول اللّٰه.44
ایک دفعہ نبی کریم sym-1نے خطبہ دیا، اس وقت ایک شخص پیچھے سے آپ sym-1کی نقلیں اتاررہا تھا تو آپ sym-1نے فرمایا اﷲ کرے تو ایسا ہی ہوجائے۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا تو اس پر دو مہینے تک جنون کی سی کیفیت طاری رہی جب اسے افاقہ ہوا تو دو ماہ کے بعد بھی وہ نقلیں اتار رہا تھا۔

اسی طرح ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8بیان کرتے ہیں :

ہم نبی کریم sym-1کے دروازہ پر کھڑے ہوئے تھےتوآپ sym-1باہر نکلے ،ہم آپ sym-1کے ساتھ چلنے لگےتو آپ sym-1نے فرمایا اے لوگو! تم میں سے کوئی شخص بازار میں تلقین نہ کرے اور مہاجر ودیہاتی سے بیع نہ کرے ۔ ۔۔ایک شخص نبی کریم sym-1کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ sym-1کی نقل اتار رہا تھا تونبی کریم sym-1نے فرمایا:

كذلك فكن.45
تو اسی طرح ہوجا۔

وہ شخص بے ہوش ہوکر گرگیا اس شخص کو اس کے گھر اٹھاکر لے جایا گیا وہ دو ماہ بے ہوش رہا اس کو جب بھی ہوش آتا تو اس کا منہ اسی طرح بگڑا ہوا ہوتا جس طرح نقل کے وقت تھا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔

اسی حوالہ سے ایک اور ر وایت میں حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں :

كان رجل نصرانیا فاسلم وقرأالبقرة وال عمران فكان یكتب للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم فعاد نصرانیا فكان یقول: ما یدرى محمد الا ما كتبت له. فاماته اللّٰه فدفنوه فاصبح وقد لفظته الارض. فقالوا: ھذا فعل محمد اصحابه لما ھرب منھم نبشوا عن صاحبنا فالقوه. فحفروا له فاعمقوا فاصبح وقد لفظته الارض. فقالوا: ھذا فعل محمد واصحابه نبشوا عن صاحبنا لما ھرب منھم. فالقوہ خارج القبر فحفروا له واعمقوا له فى الارض ما استطاعوا. فاصبح قد لفظته الارض فعلموا انه لیس من الناس فالقوه.46
زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا۔ عیسائیوں نے کہا: یہ (سیدنا) محمد (sym-1) اور ان کے اصحاب کا فعل ہےجنہوں نے ہمارے ساتھی کو (قبر سے) باہر نکال کرپھینک دیا ہے کیونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ گیا تھا۔ انہوں نے دوبارہ اس کے لیے خوب گہری قبر کھودی، صبح ہوئی تو پھر زمین اس کو قبر سے باہراُگل چکی تھی، عیسائیوں نے کہا: یہ (سیدنا) محمد (sym-1) اور ان کے ساتھیوں کا فعل ہے جنہوں نے ہمارے ساتھی کو (قبر سے) باہر نکال کر پھینک دیا ہے کیونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ گیا تھا۔ انہوں نے پھر اس کے لیے خوب گہری قبر کھودی جتنی وہ کھودسکتے تھے ،صبح ہوئی تو پھر زمین اسے باہراُگل چکی تھی تب انہیں یقین آیا کہ یہ لوگوں کا کام نہیں ہے پھر انہوں نے اس کو زمین پر پھینک دیا۔

زمین اس مرتد کو اس لیے باہر پھینک دیتی تھی کہ حضور sym-1کی زبان مبارک سے نکل چکا تھا کہ:

ان الارض لا تقبله.47
بے شک اس کو زمین قبول نہیں کرے گی۔(یعنی اپنے اندر نہیں رکھے گی)

اسی کی تشریح کرتے ہوئے امام تقی الدین سبکی شافعی sym-4لکھتے ہیں:

عنایة اللّٰه تعالى باظھار كذب من افترى على نبیه و عدم قبول الارض له حتى یظھر للناس امره والا فكثیر من المرتدین ماتوا ولم تلفظھم الارض ولكن للّٰه اراد ان یفضح ھذا الملعون ویبین ؛ذبه للناس.48
اﷲ تعالیٰ کی اپنے نبی sym-1پر کس قدر عنایات ہیں جو آپ sym-1پر افتراء کرے اس کے جھوٹ کوافشاں فرمادیتا ہے، زمین اسے قبول نہیں کرتی حتیٰ کہ لوگوں پر اس کا جھوٹ آشکار ہوگیا ۔ورنہ بہت سے مرتد مرے مگر ان میں سے کسی کو بھی زمین نے باہر نہیں پھینکا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس ملعون کو رسوا اور اس کے جھوٹ کو لوگوں پر آشکار فرمادیا۔

عقل سلب ہوگئی

ہجرت کے نویں سال حضور sym-1نے بنی کلاب کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی اور ساتھ ہی ایک مکتوب گرامی بھی ارسال فرمادیا تاکہ وہ لوگ اسلام کے مطیع ہوجائیں۔ ان لوگوں نے مکتوب گرامی کی عبارت کو دھو ڈالا اور جس چمڑے پر خط لکھا گیا تھا اسے ایک چرخی ڈول کے ساتھ سی لیا۔ حضور sym-1 کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا:

مالھم؟ اذھب اللّٰه عقولھم؟.49
ان کو کیا ہوا؟ کیا اللہ نے ان کی عقل سلب کرلی ؟

اس کے بعد اس قبیلہ کی عقل سلب ہوگئی اور اس قدر مختلط الکلام ہوگئے کہ ان کی باتوں کے مفہوم کی بھی سمجھ نہ آتی تھی۔اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوعsym-5 فرماتے ہیں :

أن رجلا أكل عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بشماله فقال: كل بیمینك قال: لاأستطیع. قال: لا استطعت. ما منعه إلا الكبر قال: فما رفعھا إلى فیه.50
ایک شخص نے حضور sym-1کےہاں الٹےہاتھ سےکھاناکھایاتوآپ sym-1نے اس کو فرمایا: دائیں سے ہاتھ سے کھا۔ اس نے کہا : دائیں ہاتھ سے نہیں کھاسکتا۔ آپ sym-1نے فرمایا: تواس کی استطاعت ہی نہیں رکھےگا۔ اس نے یہ جھوٹا عذر صرف تکبر سے کیا تھا چنانچہ راوی کہتےہیں: اس دن سے وہ ہاتھ ایسا بیکار ہوا کہ پھر کبھی منہ تک نہ آسکا۔

وہ سب سے تیز رفتار گھوڑا بن گیا

حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور sym-1حضرت ابو طلحہsym-5 کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے اور وہ گھوڑا بہت سست رفتار تھا ۔جب حضور sym-1واپس تشریف لائے توآپsym-1نے فرمایا:

وجدنا فرسك ھذا بحرا فكان بعد ذلك لا یجارى.51
ہم نے تمہارے گھوڑے کو دریا پایا یعنی خوب تیز پایا اس کے بعد وہ ایسا تیز رفتار ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔

ایک روایت میں یوں منقول ہے:

فما سبق بعد ذلك الیوم.52
اس دن کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔

جب حضور sym-1نے مکّہ معظّمہ سے ہجرت فرمائی تو سراقہ نے آپ sym-1کا تعاقب کیا توقریب پہنچ کر کہنے لگا کہ اب آپ sym-1کو کون بچائے گا؟حضور sym-1نے فرمایا خدائےوحدہ لاشریک جبار وقہار میری حفاظت فرمائے گا اتنے میں حضرت جبریل sym-9حاضر ہوئے عرض کی کہ اﷲ عزوجل فرماتاہے: ہم نے زمین کو آپ sym-1کا مطیع کردیا ہے آپ sym-1جو چاہیں زمین کو حکم دیں۔حضور sym-1نے فرمایا: اے زمین اس کو پکڑ لے۔ زمین نے سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں پکڑ لئے اور وہ گھٹنوں تک دھنس گیا۔جب سراقہ زمین میں دھنس گیا توسراقہ نے ایڑی لگائی مگر گھوڑے نے حرکت نہ کی آخر مجبور ہوکر عرض کرنے لگا کہ حضور sym-1آپ رحمت عالم ہیں مجھے امن دیجئے اور اس مصیبت سے چھڑائیے۔ میں واپس چلا جاؤں گا اور کسی کو آپ sym-1کے بارے میں خبر بھی نہ دوں گا ۔حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:

یا ارض اطلقیه فاطلقت جواده.53
اے زمین اسے چھوڑدے زمین نے سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں چھوڑدئیے۔

پانی شیریں ہوگیا

رسول اکرم sym-1ایک کھارے کنویں کے پاس سے گزرے تو کسی ے آپsym-1 کو اس کنویں کا نام بتایا جس کا مطلب نمکین تھا تو آپ sym-1نے فرمایا نہیں یہ تو نعمان ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام زبیر بن بکار sym-4 روایت کرتے ہیں:

مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى غزوة ذى قرد على ماء یقال له بیسان فسال عنه فقیل: اسمه یا رسول اللّٰه! بیسان وھو مالح. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: لا بل ھو نعمان وھو طیب. قال: فغیررسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اسمه فغیره اللّٰه تبارك و تعالى ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم فاشتراه طلحة بن عبیداللّٰه ثم تصدق به.54
نبی کریم sym-1غزوہ ذی قرد میں ایک پانی (کے چشمے) پر سے گزرےجس کا نام بیسان تھا۔ آپ sym-1نے اس کے بارے میں پوچھاتو آپ sym-1کو بتایا گیا کہ اس کا نام بیسان ہے اور یہ نمکین ہے۔ آپ sym-1نے فرمایا :نہیں یہ نعمان ہے اور اس کا پانی شیریں وعمدہ ہے۔ پس آپ sym-1نے اس کا نام بدل دیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی کا ذائقہ تبدیل کردیا۔ بعد ازاں حضرت طلحہ sym-5 نے اسے خرید کر راہ خدا میں صدقہ کردیا۔

اس روایت کو امام سلیمان بن موسیٰ حمیری sym-4 نے بھی نقل کیا ہے۔ 55

اسی چشمے کو صدقہ کرنے سے حضرت طلحہ sym-5کو حضور sym-1کی بارگاہ سے"فیاض" کا لقب ملا۔چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی sym-4 فرماتے ہیں:

فغیر اسمه فاشتراه طلحة ثم تصدق به. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : ما انت یا طلحة الا فیاض فبذلك قیل له طلحة الفیاض.56
آپ sym-1نے اس کا نام تبدیل کردیا حضرت طلحہ sym-5نے اسے خرید کر وقف کردیا جس پر رسول اﷲ sym-1نے فرمایا: طلحہ تم تو بڑے فیاض ہو۔چنانچہ اسی وجہ سے انہیں "طلحہ فیاض" کہا جانے لگا۔

دشمنوں کو بھی معلوم تھا کہ حضور sym-1کی زبان مبارک سے جو نکل جاتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔چنانچہ ابو نوفل بن ابی عقرب اپنے والد کا بیان نقل کرتے ہیں :

كان لھب بن ابى لھب یسب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اللھم سلط علیه كلبك. قال: فخرج یرید الشام فى قافلة مع اصحابه. قال: فنزل منزلا. قال: فقال: واللّٰه انى لاخاف دعوة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم قال: قالوا له: كلا. قال: فحوطوا المتاع حوله وقعدوا یحرسونه. قال: فجاء السبع فانتزعه فذھب به.57
لہب ابن ابی لہب نبی کریم sym-1کو گالیاں بکا کرتا تھاتو حضور نبی کریم sym-1نے دعا مانگی: اے اﷲ! اس پر اپنا کتا مسلط فرمادے۔ وہ ایک قافلے کے ہمراہ شام کی جانب نکلا اور قافلے نے شام پر پڑاؤ کیا تو اس نے کہا: مجھے(سیدنا) محمد ( sym-1) کی دعا سے خوف آتا ہے۔ لوگوں نے اس کو تسلی دی اور اس کے ارد گرد اپنا سامان اتارا اور اس کی حفاظت کرنے بیٹھ گئے۔ ایک شیر آیا اس نے ان سے (لہب کو) جھپٹ کر چھینا اور لے کر بھاگ گیا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت منقول ہے جس کوامام ابو نعیم اصفہانیsym-4 روایت کرتے ہیں:

عن ھبار بن الأسود قال: كان أبو لھب وابنه عتیبة قد تجھزا إلى الشام وتجھزت معھما، فقال ابنه عتیبة: واللّٰه لأنطلقن إلیه فلأوذینه فى ربه، فانطلق حتى أتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: یا محمد! ھو یكفر بالذى دنا فتدلى فكان قاب قوسین أو أدنى فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : اللّٰھم ابعث علیه كلبا من كلابك ثم انصرف عنه فرجع إلیه فقال: أى بنى ، ما قلت له؟ قال: كفرت بإلھه الذى یعبد قال: فماذا قال لك؟ قال: قال اللّٰھم ابعث علیه كلبا من كلابك فقال: أى بنى، واللّٰه ما آمن علیك دعوة محمد قال: فسرنا حتى نزلنا الشراة وھى مأسدة فنزلنا إلى صومعة راھب فقال: یا معشر العرب ما أنزلكم ھذہ البلاد وإنھا مسرح الضیغم؟ فقال لنا أبو لھب: إنكم قد عرفتم حقى؟ قلنا: أجل یا أبا لھب فقال: إن محمدا قد دعا على ابنى دعوة واللّٰه ما آمنھا علیه، فاجمعوا متاعكم إلى ھذه الصومعة، ثم افرشوا لابنى عتيبة ثم افرشوا حوله قال: ففعلنا جمعنا المتاع حتى ارتفع ثم فرشنا له علیه، وفرشنا حوله فبینا نحن حوله وأبو لھب معنا أسفل وبات ھو فوق المتاع، فجاء الأسد فشم وجوھنا، فلما لم یجد ما یرید تقبض ثم وثب فإذا ھو فوق المتاع فجاء الأسد فشم وجھه ثم ھزمه هزمة ففضخ رأسه فقال: سیفى یا كلب، لم یقدر على غیر ذلك، ووثبنا فانطلق الأسد وقد فضخ رأسه فقال له أبو لھب: قد عرفت واللّٰه ما كان لینقلب من دعوة محمد .58
ہبار بن اسود بیان کرتے ہیں کہ ابو لہب اور اس کا بیٹا عتیبہ ملک شام کے سفر پر چلے ،میں بھی ان کے ساتھ تیار ہوا ۔عتیبہ نے کہا بخدا میں اس کے پاس (حضور نبی کریم sym-1) جاتا ہوں اور اس کے رب کے بارےمیں اسکی دل آزاری کرتا ہوں۔ وہ نبی پاک sym-1کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے(سیدنا) محمد!( sym-1) میں وہ ہوں جو اس خدا کا منکر ہے جو دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی کی صفت والا ہے۔ حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:اے اﷲ! اس پر اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ مسلط کردے۔ (عتیبہ وہاں سے اٹھا ابو لہب کے پاس پہنچا اس نے کہا: اے بیٹے! تم نے اسے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا: میں نے اس خدا کا انکار کیا ہے جس کی وہ عبادت کرتا ہے ۔ابو لہب نے پوچھا : اس نے تجھے کیا کہا؟ عتیبہ نے بتلایا کہ: اس نے کہا تھا: اے اﷲ! اس پر اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ مسلط کردے) ابو لہب نے کہا: اے بیٹا! خدا کی قسم! اب میں تمہارے متعلق دعاءِ محمد ( sym-1) کی اثرپذیری سے بے خوف نہیں رہ سکتا۔راوی کہتا ہے: ہم سفر پر روانہ ہوئے اور مقام شراۃ پر جاکر پڑاؤ کیا وہ شیروں کی آماجگاہ تھی۔ ہم ایک راہب کے عبادت خانہ کے قریب اترے تھے تواس راہب نے کہا: اے عرب کے مسافرو! یہاں تم کیوں اتر پڑے! یہ تو شیروں کی چراگاہ ہے۔ ابو لہب نے ہم سے کہا: تم میرا حق تو پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: ابو لہب! کیوں نہیں؟ اس نے کہا: محمد ( sym-1) نے میرے بیٹے پر دعا کی ہوئی ہے، اب خدا کی قسم! میں اس کے متعلق بہت پر خطر ہوں۔ تم اس عبادت خانے میں اپنا سامان رکھو پھر میرے بیٹے عتیبہ کا بستر بچھاؤ پھر اس کے آس پاس اپنے بستر بچھادو۔ ہم نے ایسا ہی کیا ہم نے اپنا سامان جمع کیا تو وہ ایک اونچا ساچبوترہ سابن گیا اس پر ہم نے اس کا بستر بچھایا اور آس پاس (زمین پر) اپنے بچھونے جمادئیے۔ چنانچہ ہم اور ابو لہب اس کے گرد نیچے سوئے تھے اور وہ سامان کے اوپر سورہا تھا۔رات کو ایک شیر آگیا اور ہمارے چہرے سونگھنے لگا مگر اسے اپنا مطلوب نہ ملا وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر اس نے چھلانگ لگائی اور وہ سامان کے اوپر چڑھا ہوا تھا ۔اب اس نے عتیبہ کا منہ سونگھا پھر اس کے سر پر اتنے زور سے اپنے پنجے مارے کہ کھوپڑی پھٹ گئی اس کے منہ سے صرف اتنے لفظ نکلے۔ میری تلوار او درندے! اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا ہم کود کر اٹھے مگر شیر جاچکا تھا اور عتیبہ کا سر پھٹا پڑا تھا۔ ابولہب نے کہا: میں جانتا ہوں خدا کی قسم یہ دعاء ِمحمد( sym-1) کے اثر سے کبھی بچ نہ سکتا تھا۔

ان روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم sym-1 کی زبان مبارک سے جو بھی نکل جاتا تو اللہ تبارک وتعالیٰ بالکل اسی طرح فرمادیا کرتا تھا۔ وہ کیسا ہی معاملہ کیوں نہ ہوتا خواہ کسی چیز کی بہتری کی بات ہوتی یا کسی کے لیے جلالتِ رسالت سے نکلے الفاظ الغرض جو کچھ آپ sym-1 فرمادیتے تو وہ وقوع پذیر ہوجاتا۔

آپ sym-1 اور نطق مخلوقات

حضور sym-1خدا داد صلاحیت سے مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانوں،چرندوں، پرندوں اور جمادات ونباتات کی زبانوں پر بھی پوری پوری دسترس رکھتے تھے ۔حضرت سلیمانsym-9 کے متعلق اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَوَرِثَ سُلَیمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ یاَیھا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیرِ وَاُوْتِینَا مِنْ كلِّ شَىءٍ اِنَّ ھذَا لَھوَالْفَضْلُ الْمُبِینُ.59
اور سلیمان (علیہ السلام)، داؤد (علیہ السلام) کے جانشین ہوئے اور انہوں نے کہا: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی (بھی) سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ بیشک یہ (اللہ کا) واضح فضل ہے ۔

اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی sym-4فرماتے ہیں:

وعلم سلیمان منطق الطیر واعطى نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم فھم كلام جمیع الحیوانات وزیادة كلام الشجر والحجر والعصا.60
اور حضرت سلیمان sym-9 پرندوں کی بولیوں کو جانتے تھے اور ہمارے نبی کریم sym-1کو تمام حیوانات کی بولیوں کا فہم عطافرمایا گیا۔ مزید برآں یہ کہ درخت،پتھر اور عصا (لاٹھی)کی بات آپ sym-1نے سمجھی۔

اونٹ کی حضور sym-1 سے گفتگو

رسول اکرم sym-1اونٹ کی بولی بھی جانتے تھے۔چنانچہ حضرت یعلی بن مرہ ثقفی sym-5 اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:

ثلاثة اشیاء رایتھن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بینا نحن نسیر معه اذ مررنا ببعیر یسنى علیه فلما راه البعیر جرجر ووضع جرانه، فوقف علیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: این صاحب ھذا البعیر؟ فجاء فقال: بعنیه؟ فقال: لا! بل اھبه لك. فقال: لا! بعنیه. قال: لا! اھبه لك وانه لاھل بیت ما لھم معیشة غیره. قال: اما اذ ذكرت ھذا من امره، فانه شكا كثرة العمل وقلة العلف، فاحسنوا الیه. قال: ثم سرنا فنزلنا منزلا فنام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فجاء ت شجرة تشق الارض حتى غشیته ثم رجعت الى مكانھا فلما استیقظ ذكرت له، فقال: ھى شجرة استاذنت ربھا عزوجل ان تسلم على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذن لھا. قال: ثم سرنا فمررنا بماء فاتته امراة بابن لھا به جنة، فاخذ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمنخره، فقال: اخرج! انى محمد رسول اللّٰه. قال: ثم سرنا فلما رجعنا من سفرنا مررنا بذلك الماء، فاتته المراة بجزر ولبن فامرھا ان ترد الجزر وامر اصحابه فشربوا من اللبن، فسالھا عن الصبى فقالت: والذى بعثك بالحق ما راینا منه ریبا بعدك.61
جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم sym-1کے ساتھ چل رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم sym-1سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم sym-1کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راہِ تعظیم) آپ sym-1کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم sym-1اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ sym-1نے اس سے پوچھا: یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں حضور sym-1بلکہ یہ آپ sym-1کے لیے تحفہ ہے۔ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا: نہیں بلکہ یہ آپ sym-1کے لیے تحفہ ہے اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ sym-1نے فرمایا: اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت یعلی بن مروہ sym-5بیان کرتے ہیں: پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم sym-1وہاں محوِ استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ sym-1 پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ sym-1بیدار ہوئے تو میں نے آپ sym-1سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ sym-1نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے پس رب تبارک وتعالی نے اسے اجازت دے دی۔ پھر ہم وہاں سے آگے چلے اور ہمارا گزر پانی پر سے ہوا۔ وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے لے کر آپ sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ آپ sym-1نے اس لڑکے کی ناک کا نتھنا پکڑ کر فرمایا: نکل جاؤ میں محمد( sym-1) اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت یعلی بن مرہ sym-5بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم آگے بڑھے۔ جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم دوبارہ اسی پانی کے پاس سے گزرے۔ پس وہی عورت آپ sym-1کے پاس بھنا ہوا گوشت اور دودھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ آپ sym-1نے بھنا ہوا گوشت واپس کردیا اور اپنے صحابہ کرامsym-7 کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے دودھ میں سے کچھ پی لیا۔ پھر آپ sym-1نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ sym-1کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اس کے بعد ہم نے اس میں کبھی اس بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔

یعنی رسول اکرم sym-1نے اونٹ کی شکایت سن کر اس کے مالک سے درج بالا ارشاد فرمایا اوردرخت کی بارگاہ خداوندی میں عرض کو آپ sym-1نےسنا اوراس کو دی گئی اجازت سے صحابیsym-5 کو آگاہ فرمایا:اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن جعفرsym-5 بیان کرتے ہیں :

فدخل حائطا لرجل من الانصار فاذا جمل فلما راى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حن وذرفت عیناه فاتاه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح ذفراہ فسكت، فقال: من رب ھذا الجمل؟ لمن ھذا الجمل؟ فجاء فتى من الانصار، فقال: لى یا رسول اللّٰه. فقال: افلا تتقى اللّٰه فى ھذه البھیمة التى ملکك اللّٰه ایاھا؟ فانه شكا الى انك تجیعه وتدئبه.62
حضور نبی اکرم sym-1ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم sym-1کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم sym-1اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ sym-1نے فرمایا: اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ sym-1! یہ میرا ہے۔ آپ sym-1نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔

اس روایت میں بھی واضح ہے کہ اونٹ نے اپنی بولی میں آپ sym-1 کو شکایت کی اور آپ sym-1نے اس کی شکایت کا سد باب فرمایا۔اسی حوالہ سےحضرت یعلی بن سیابہsym-5 بیان کرتے ہیں :

كنت مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى مسیر له فاراد ان یقضى حاجة فامر ودیتین فانضمت احداھما الى الاخرى ثم امرھما فرجعتا الى منابتھما وجاء بعیر فضرب بجرانه الى الارض ثم جر جر حتى ابتل ما حوله فقال النبی صلى اللّٰه علیه وسلم؟ اتدرون ما یقول البعیر؟ انه یزعم ان صاحبه یرید نحره، فبعث الیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: اواھبه انت لى؟ فقال: یارسول اللّٰه! ما لى مال احب الى منه. قال: استوص به معروفا. فقال: لا جرم لا اكرم مالا لى كرامته یا رسول اللّٰه. واتى على قبر یعذب صاحبه فقال: انه یعذب فى غیر كبیر فامر بجریدة فوضعت على قبرہ فقال: عسى ان یخفف عنه ما دامت رطبة.63
میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم sym-1کے ہمراہ تھا۔ آپ sym-1نے ایک جگہ استراحت کا ارادہ فرمایا تو آپ sym-1نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ sym-1کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ sym-1کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ sym-1نے ان کے پیچھے فعل استراحت64 فرمایا) پھر آپ sym-1نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ sym-1کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ sym-1نے اس سے فرمایا: کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ sym-1نے فرمایا: میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ sym-1کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ sym-1نے فرمایا: اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ sym-1نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔

اسی طرح کی ایک اور روایت حضرت تمیم داری sym-5 سے منقول ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں :

كنا جلوسا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذ اقبل بعیر یعدو حتى وقف على ھامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: ایھا البعیر اسكن فان تك صادقا فلك صدقك وان تك كاذبا فعلیك كذبك مع ان اللّٰه تعالى قد امن عائذنا ولیس بخائب لائذنا. فقلنا: یا رسول اللّٰه! ما یقول ھذا البعیر؟ فقال: ھذا بعیر قد ھم اھله بنحره واكل لحمه یتعادون، فلما نظر الیھم البعیر عاد الى ھامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلا ذبھا، فقالوا: یا رسول اللّٰه ! ھذا بعیرنا ھرب منذ ثلاثة ایام فلم نلقه الا بین یدیك. فقال صلى اللّٰه علیه وسلم : اما انه یشكو الى، فبئست الشكایة. فقالوا: یا رسول اللّٰه! ما یقول؟ قال: یقول: انه ربى فى امنكم احوالا وكنتم تحملون علیه فى الصیف الى موضع الكلاء فاذا كان الشتاء رحلتم الى موضع الدفاء، فلما كبر استفحلتموه فرزقكم اللّٰه منه ابلا سائمة فلما ادركته ھذه السنة الخصبة ھممتم بنحره واكل لحمه. فقالوا: قد واللّٰه كان ذلك یا رسول اللّٰه. فقال علیه الصلوة السلام: ما ھذا جزاء المملوك الصالح من موالیه؟ فقالوا: یا رسول اللّٰه! فانا لا نبیعه ولا ننحره. فقال علیه الصلوة والسلام: كذبتم! قد استغاث بكم فلم تغیثوه وانا اولى بالرحمة منكم، فان اللّٰه نزع الرحمة من قلوب المنافقین واسكنھا فى قلوب المومنین. فاشتراہ علیه الصلاة والسلام منھم بماءةدرھم وقال: یا ایھا البعیر! انطلق فانت حر لوجه اللّٰه تعالى فرغى على ھامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال علیه الصلاة والسلام: آمین. ثم دعا فقال: آمین ثم دعا فقال: آمین. ثم دعا الرابعة فبكى علیه الصلاة والسلام. فقلنا: یا رسول اللّٰه! ما یقول ھذا البعیر؟ قال: قال: جزاك اللّٰه ایھا النبى عن الاسلام والقرآن خیرا. فقلت: آمین. ثم قال: سکن اللّٰه رعب امتك من اعداءھا كما حقنت دمى. فقلت: آمین. ثم قال: لا جعل اللّٰه باسھا بینھا. فبكیت فان ھذه الخصال سالت ربى فاعطانیھا ومنعنى ھذہ واخبرنى جبریل عن اللّٰه تعالى ان فناء امتى بالسیف جرى القلم بما ھو كائن.65
ہم حضور نبی اکرم sym-1کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم sym-1کے سرِ انور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ sym-1نے فرمایا: اے اُونٹ! پرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ sym-1نے فرمایا: اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبی کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے۔ ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم sym-1 کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ sym-1کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ sym-1! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ sym-1کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر آپ sym-1نے فرمایا: یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ sym-1نے فرمایا: یہ کہتا ہے کہ یہ تمہارے پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کیے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم یا رسول اللہ sym-1! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ sym-1 نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! وہ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔ آپ sym-1نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد آپ sym-1نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا: اے اونٹ! جاتو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم sym-1کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جاکرکچھ آواز نکالی تو آپ sym-1نے فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ sym-1 نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ sym-1نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ sym-1آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ sym-1 نے فرمایا: اس نے پہلی دفعہ کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ sym-1کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ sym-1نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے دعا کی: اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ sym-1کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ sym-1نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرئیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔

بکری کی آپ sym-1 سے ہمکلامی

رسول اکرم sym-1نہ صرف اونٹوں سے بلکہ دیگر جانورو ں سے بھی ہمکلام ہوا کرتےتھے۔چنانچہ حضرت وضین بن عطاء sym-5 ایک اسی طرح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان جزارا فتح باب على شاة لیذبحھا فانفلتت منه حتى اتت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم واتبعھا فاخذھا یسحبھا برجلھا فقال لھا: النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اصبرى لامر اللّٰه! وانت یا جزار فسقھا الى الموت سوقا رفیقا.66
ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لیے دروازہ کھولا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل بھاگی اور حضور نبی اکرم ﷺکی بارگاہ میں آ گئی۔ وہ قصاب بھی اس کے پیچھے آ گیا اور اس بکری کو پکڑ کر ٹانگ سے کھینچنے لگا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے بکری سے فرمایا: اللہ کے حکم پر صبر کر اور اے قصاب! تو اسے نرمی کے ساتھ موت کی طرف لے جا۔

ہرنی کا حضور sym-1 کی خدمت میں استغاثہ

آپ sym-1نے ہرنی سے بھی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت انس sym-5 بیان کرتے ہیں:

مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على قوم قد صادوا ظبیة فشدوھا الى عمود الفسطاط فقالت: یا رسول اللّٰه! انى وضعت ولى خشفان، فاستاذن لى ان ارضعھما ثم اعوذ الیھم. فقال: این صاحب ھذه؟ فقال القوم: نحن یا رسول اللّٰه. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: خلوا عنھا حتى تاتى خشفیھا ترضعھما وتاتى الیكم. قالوا: ومن لنا بذلك یا رسول اللّٰه؟ قال: انا. فاطلقوھا فذھبت فارضعت ثم رجعت الیھم فاوثقوھا فمر بھم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: این اصحاب ھذه؟ قالوا: ھو ذا نحن یا رسول اللّٰه. قال: تبیعونھا؟ قالوا: یا رسول اللّٰه! ھى لك. فخلوا عنھا فاطلقوھا فذھبت.67
ایک دفعہ حضورنبی اکرم sym-1ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ sym-1مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں۔ آپ sym-1نے فرمایا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا: یارسول اﷲ sym-1! ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم sym-1نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ sym-1نے فرمایا: میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم sym-1دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ sym-1! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ sym-1نے فرمایا: کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کروگے؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ sym-1! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کردیا اور وہ چلی گئی۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ sym-6بیان کرتی ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى الصحراء فاذا مناد ینادیه یا رسول اللّٰه! فالتفت فلم یر احدا ثم التفت فاذا ظبیة موثقة، فقالت: ادن منى یا رسول اللّٰه. فدنا منھا فقال: حاجتك؟ قالت: ان لى خشفین فى ذلك الجبل فخلنى حتى اذھب فارضعھما ثم ارجع الیك. قال: وتفعلین؟ قالت: عذبنى اللّٰه عذاب العشار ان لم افعل. فاطلقھا فذھبت فارضعت خشفیھا ثم رجعت فاوثقھا. وانتبه الاعرابى، فقال: لك حاجة یا رسول اللّٰه؟ قال: نعم. تطلق ھذه فاطلقھا فخرجت تعدو وھى تقول اشھد ان لا اله الا اللّٰه وانك رسول اللّٰه.68
ایک دفعہ حضورنبی اکرم sym-1ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے۔ کسی ندا دینے والے نے آپ sym-1کویارسول اﷲ sym-1کہہ کر پکارا۔ آپ sym-1آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ sym-1کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ sym-1نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بند ھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ sym-1! میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ sym-1اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا: اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ sym-1مجھے آزاد کردیجئے کہ میں جا کر انہیں دودھ پلا سکو ں پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ sym-1نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اﷲتعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ sym-1نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ sym-1نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میں آپ sym-1کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ sym-1نے فرمایا: ہاں اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ sym-1اﷲتعالیٰ کے رسول ہیں۔

آپ sym-1 سے دراز گوش کی ہمکلامی

کتب سیر میں اس طرح کے واقعات کثرت سے منقول ہیں کہ جن میں جانوروں نے آپ sym-1 سے دادرسی کی درخواست فرمائی اور آپ sym-1نے ان کی دادرسی بھی فرمائی۔اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو منظور sym-5 یوں بیان کرتے ہیں:

لما فتح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یعنى خیبر...اصاب فیھا حمارا اسود مكبلا قال: فكلم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الحمار فكلمه الحمار. فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : ما اسمك؟ قال: یزید بن شھاب، اخرج اللّٰه تعالى من نسل جدى ستین حمارا كلھم لا یركبھم الا نبى، قد كنت اتوقعك ان تركبنى لم یبق من نسل جدى غیرى ولا من الانبیاء غیرك، قد كنت قبلك لرجل یھودى وكنت اتعثر به عمدا وكان یجیع بطنى ویضرب ظھرى. قال: فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : فانت یعفور یا یعفور. قال لبیك... قال: فكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یركبه فى حاجته واذا نزل عنه بعث به الى باب الرجل فیاتى الباب فیقرعه براسه فاذا خرج الیه صاحب الدار او ما الیه ان اجب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما قبض النبى صلى اللّٰه علیه وسلم جاء الى بئر كانت لابى الھیثم بن التیھان فتردى فیھا جزعا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فصارت قبره.69
جب حضور نبی اکرم sym-1نے خیبر کو فتح کیا۔۔۔ تو آپ sym-1نے مالِ غنیمت میں ایک سیاہ گدھا پایااور وہ پابہ زنجیر تھا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اس سے کلام فرمایا: تو اس نے بھی آپ sym-1سے کلام کیا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اسے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: میرا نام یزید بن شہاب ہے، اﷲ تعالیٰ نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ گدھے پیدا کیے، ان میں سے ہر ایک پر سوائے نبی کے کوئی سوار نہیں ہوا۔ میں توقع کرتا تھا کہ آپ sym-1مجھ پر سوار ہوں، کیونکہ میرے دادا کی نسل میں سوائے میرے کوئی باقی نہیں رہا اور انبیاء کرام میں سوائے آپ sym-1کے کوئی باقی نہیں رہا۔ میں آپ sym-1سے پہلے ایک یہودی کے پاس تھا، میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا۔ وہ مجھے بھوکا رکھتا اور مجھے مارتا پیٹتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم sym-1نے اسے فرمایا: آج سے تیرا نام یعفور ہے۔ اے یعفور! اس نے لبیک کہا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم sym-1اس پر سواری فرمایا کرتے تھے اور جب اس سے نیچے تشریف لاتے تو اسے کسی شخص کی طرف بھیج دیتے۔ وہ دروازے پر آتا اسے اپنے سر سے کھٹکھٹاتا اور جب گھر والا باہر آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ وہ آقا sym-1کی بات سنے۔ پس جب حضور نبی اکرم sym-1اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما گئے تو وہ ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور حضور نبی اکرم sym-1کے غم فراق میں اس میں کود پڑا۔ وہ کنواں اس کی قبر بن گیا۔

چڑیا کا آپ sym-1 سے کلام فرمانا

اس حوالہ حضرت عبداﷲ بن مسعو د sym-8 بیان کرتے ہیں:

كنا مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى سفر فمررنا بشجرة فیھا فرخا حمرة فاخذناھما، قال: فجاءت الحمرة الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھى تعرض، فقال: من فجع ھذه بفرخیھا؟ قال: قلنا: نحن. قال: ردوھما. قال: فرددناھما الى مواضعھما.70
ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم sym-1کے ساتھ تھے توہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھےہم نے وہ دوبچے اُٹھا لیے۔ راوی نےکہا: وہ چَنڈول آپ sym-1کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ sym-1نے فرمایا: کس نے اس چَنڈول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی نےکہا: ہم نے عرض کیاکہ ہم نے دی تو آپ sym-1نے فرمایا: اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ راوی کہتے ہیں: پس ہم نے وہ دو بچے جہاں سے لیے تھے وہیں رکھ دیے۔

بھیڑیوں کی آپ sym-1 سے ہمکلامی

اسی طرح آپ sym-1نے بھیڑیے سے بھی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت شمر بن عطیہ مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

صلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الفجر فاذا ھو بقریب من مئة ذئب قد اقعین وفود الذئاب فقال لھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : ترضخوا لھم شیئا من طعامكم وتامنون على ما سوى ذلك؟ فشكوا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الحاجة. قال: فآذنوھن فخرجن ولھن عواء.71
حضور نبی اکرم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم sym-1 کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو؟ پھر انہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ ﷺنے فرمایا: انہیں بتاؤ کہ تمہیں ان سے کیا پریشانی ہے ۔ پس صحابہ نے انہیں بتایا تو وہ اپنی مخصوص آوازیں نکالتے ہوئے چل دئے۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ sym-5بیان کرتے ہیں :

جاء الذئب فاقعى بین یدى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ثم بصبص بذنبه، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ھذا الذئب وھو وافد الذئاب! فھل ترون ان تجعلوا له من اموالكم شیئا؟ قال: فقالوا باجمعھم: لا! واللّٰه ما نجعل له شیئا.قال: واخذ رجل من القوم حجرا فرماہ فادبر الذئب وله عواء. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: الذئب وما الذئب.72
ایک بھیڑیا آیا تو حضور نبی اکرم sym-1کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: یہ بھیڑیا دیگر بھیڑیوں کا نمائندہ بن کر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیا تم ان کے لیے اپنے مال سے کچھ حصہ مقرر کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے بیک زبان کہا: خدا کی قسم! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک شخص نے پتھر اٹھایا اور اس بھیڑئیے کو دے مارا۔ بھیڑیا مڑا اور غراتا ہوا بھاگ گیا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: واہ کیا بھیڑیا تھا، واہ کیا بھیڑیا تھا۔

ایسا ہی ایک واقعہ حضرت مطلب بن عبداﷲ بن حنطبsym-5 بیان کرتے ہیں:

بینما رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جالس بالمدینة فى اصحابه اذ اقبل ذئب فوقف بین یدى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فعوى بین یدیه، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ھذا وافد السباع الیكم، فان احببتم ان تفرضوا له شیئا لا یعدوه الى غیره وان احببتم تركتموه وتحرزتم منه فما اخذ فھو رزقه. فقالوا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ما تطیب انفسنا له بشىء. فاوما الیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم باصابعه. اى: خالسھم فولى وله عسلان.73
حضور نبی اکرم sym-1مدینہ منورہ میں اپنے اصحاب کے درمیان جلوہ افروز تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ادھر آیا اور حضور نبی اکرم sym-1کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی مخصوص آواز میں کچھ کہنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: یہ تمہاری طرف درندوں کا نمائندہ بن کر آیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو (اپنے مویشیوں میں سے) ان کے لیے کوئی حصہ مقرر کر دو تاکہ یہ اس (مقرر کردہ) حصے کے علاوہ کسی اور(مویشی) کی طرف نہ بڑھیں اور اگر تم چاہو تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے کنارہ کشی کر لو۔ پھر یہ جو جانور پکڑ لیں گے وہ ان کا رزق ہو گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس (بھیڑیے کو) کچھ دینے پر ہمارے دل رضامند نہیں ہوتے۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اپنی مبارک انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا واپس چلا گیا۔

اسی حوالہ سےحضرت حمزہ بن ابی اسیدsym-5 بیان کرتے ہیں:

خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جنازة رجل من الانصار بالبقیع فاذا الذئب مفترشا ذراعیه على الطریق فقال: رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھذا اویس یستقرض فاقرضوا له. قالوا: نرى رایك یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: من كل سائمة شاة فى كل عام.قالوا: كثیر. قال: فاشار الى الذئب ان خالسھم فانطلق الذئب.74
حضور نبی اکرم sym-1انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ sym-1نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ sym-1کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ sym-1نے فرمایا: ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم sym-1نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا: وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔

گوہ کا رسالت کی گواہی دینا

آپ sym-1کو اللہ تبارک ورتعالی نےکئی مخصو ص صفات سے متصف فرمایا ہے جن میں سے ایک دیگر حیوانی مخلوقات سے آپ sym-1کا باہم گفتگو فرمانا بھی شامل ہے۔اسی طرح ایک موقع پر آپ sym-1نے گوہ سے بھی کلام فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت عمر sym-5اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى محفل من اصحابه اذ جاء رجل اعرابى من بنى سلیم قد صاد ضبا وجعله فى كمه فذھب به الى رحله فراى جماعة، فقال: على من ھذه الجماعة؟ فقالوا: على ھذا الذى یزعم انه نبى فشق الناس، ثم اقبل على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: یا محمد! ما اشتملت النساء على ذى لھجة اكذب منك ولا ابغض، ولو لا ان یسمینى قومى عجولا لعجلت علیك فقتلتك فسررت بقتلك الناس جمیعا. فقال عمر : دعنى اقتله. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: اما علمت ان الحلیم كاد ان یكون نبیا؟ ثم اقبل الاعرابى على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: واللات والعزى! لا آمنت بك. وقد قال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: یا اعرابى! ما حملك على ان قلت ما قلت وقلت غیر الحق ولم تكرم مجلسى؟ فقال: وتكلمنى ایضا؟ استخفافا برسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. واللات والعزى! لا آمنت بك او یومن بك ھذا الضب فاخرج ضبا من كمه وطرحه بین یدى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. فقال: ان آمن بك ھذا الضب آمنت بك. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: یاضب! فتكلم الضب بكلام عربى مبین فھمه القوم جمیعا، لبیك وسعدیك یا رسول رب العالمین. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من تعبد؟ قال: الذى فى السماء عرشه وفى الارض سلطانه وفى البحر سبیله وفى الجنة رحمته وفى النار عذابه. قال: فمن انا یا ضب؟ قال: انت رسول رب العالمین وخاتم النبیین قد افلح من صدقك وقد خاب من كذبك. فقال الاعرابى: اشھد ان لا اله الا اللّٰه وانك رسول اللّٰه حقا، لقد اتیتك وما على وجه الارض احد ھو ابغض الى منك واللّٰه لانت الساعة احب الى من نفسى ومن والدى وقد آمنت بك شعرى وبشرى وداخلى وخارجى وسرى وعلانینی. فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: الحمد للّٰه الذى ھداك الى ھذا الدین الذى یعلو ولا یعلى، لا یقبله اللّٰه الا بصلاة ولا یقبل الصلاة الا بقرا ءة. فعلمه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الحمد وقل ھو اللّٰه احد. فقال: یا رسول اللّٰه! ما سمعت فى البسیط ولا فى الرجز احسن من ھذا. فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان ھذا كلام رب العالمین ولیس بشعر، اذا قرات قل ھو اللّٰه احد مرة فكانما قرات ثلث القرآن واذا قرات قل ھو اللّٰه احد مرتین فكانما قرات ثلثى القرآن واذا قرات قل ھو اللّٰه احد ثلاث مرات فكانما قرات القرآن كله. فقال الاعرابى: ونعم الاله الھنا یقبل الیسیر ویعطى الجزیل. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: اعطوا الاعرابى فاعطوه حتى ابطروه. فقام عبد الرحمن بن عوف فقال یا رسول اللّٰه ! انى ارید ان اعطیه ناقة اتقرب بھا الى اللّٰه دون البختى وفوق الاعرابى وھى عشراء.فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: قد وصفت ما تعطى فاصف لك ما یعطیك اللّٰه جزاء؟ قال: نعم. قال: لك ناقة من درةجوفاء قوائمھا من زبرجد اخضر وعنقھا من زبرجد اصفر علیھا، ھودج وعلى الھودج السندس والاستبراق تمر بك على الصراط كالبرق الخاطف. فخرج الاعرابى من عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلقیه الف اعرابى على الف دابة بالف رمح والف سیف، فقال لھم: این تریدون؟ فقالوا: نقاتل ھذا الذى یكذب ویزعم انه نبى. فقال الاعرابى: اشھد ان لا اله الا اللّٰه وان محمدا رسول اللّٰه . فقالوا له: صبوت؟ قال: ما صبوت. وحدثھم الحدیث، فقالوا باجمعھم: لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه. فبلغ ذلك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فتلقاھم بلا رداء فنزلوا عن ركابھم یقبلون ما ولوا منه وھم یقولون: لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه. فقالوا: مرنا بامر تحبه یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: تكونون تحت رایة خالد بن الولید. قال: فلیس احد من العرب آمن منھم الف رجل جمیعا غیربنى سلیم.75
ایک دفعہ حضور نبی اکرم sym-1اپنے صحابہsym-7 کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ بنو سلیم کا ایک اعرابی آیا۔ اس نے ایک گوہ کا شکار کیا تھا اور اسے اپنی آستین میں چھپا کر اپنی قیام گاہ کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے جب صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھا تو اس نے کہا: یہ لوگ کس کے گرد جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا: اس کے گرد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور نبی اکرم sym-1کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے محمد ( sym-1 )! کسی عورت کا بیٹا تم سے بڑھ کر جھوٹا اور مجھے ناپسند نہیں ہوگا۔ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم مجھے جلد باز کہے گی تو تمہیں قتل کرنے میں جلدی کرتا اور تمہارے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کرتا۔ حضرت عمر sym-5نے حضور sym-1سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ) کو قتل کر دوں۔ آپ sym-1نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے نہیں کہ حلیم و بردبار آدمی ہی نبوت کے لائق ہوتا ہے۔ وہ اعرابی حضور نبی اکرم sym-1کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اس سے پوچھا: اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اﷲ sym-1سے کہا: کیا آپ( sym-1) بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں آپ ( sym-1)پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ ( sym-1)پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم sym-1کے سامنے پھینک دی اور کہا: اگر یہ گوہ آپ ( sym-1)پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔ پس حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: اے گوہ(کلام کر)! - پس گوہ نے ایسی واضح اورفصیح عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا- اس گوہ نے عرض کیا: اے دوجہانوں کے رب کے رسول sym-1! میں آپ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اس سے پوچھا: تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا: میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ sym-1نے پھر پوچھا: اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا: آپ sym-1 دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء sym-1ہیں۔ جس نے آپ sym-1کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ sym-1 کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ sym-1 اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جب میں آپ sym-1کے پاس آیا تھا تو روئے زمین پر آپ sym-1سے بڑھ کر کوئی شخص مجھے ناپسند نہ تھا اور بخدا اس وقت آپ sym-1 مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ میرے جسم کا ہر بال اور ہر رونگٹا، میرا عیاں و نہاں اور میرا ظاہر و باطن آپ sym-1 پر ایمان لا چکا ہے۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: اس اللہ جل مجدہ کے لیے ہی ہر تعریف ہے جس نے تجھے اس دین کی طرف ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ صرف نماز کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نماز قرآن پڑھنے سے ہی قبول ہوتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم sym-1نے اسے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص سکھائیں۔ وہ عرض گزار ہوا: اے اللہ کے رسول sym-1! میں نے بسیط اور رجز (عربی شاعری کے سولہ اوزان میں سے دو وزن) میں اس سے حسین کلام کبھی نہیں سنا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے اس سے فرمایا: یہ رب دوجہاں کا کلام ہےکوئی شاعری نہیں۔ جب تم نے سورہ اخلاص کو ایک مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا اور اگر اسے دو مرتبہ پڑھا تو سمجھو کہ تم نے دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا۔ اگرتم نے اسے تین مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے پورے قرآن کا ثواب پالیا۔ اعرابی نے کہا: ہمارا معبود تمام معبودوں سے بہتر ہے جو تھوڑے عمل کو قبول فرماتا ہے اور بے حد و حساب عطا فرماتا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم sym-1نے صحابہ کرام sym-5سے فرمایا: اس اعرابی کی کچھ مدد کرو۔ صحابہ کرام نے اسے اتنا دیا کہ اسے (کثرتِ مال کی وجہ سے) بے نیاز کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ sym-1! میں انہیں ایک اونٹنی دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فارسی النسل اونٹنی سے چھوٹی اور عربی النسل اونٹوں سے تھوڑی بڑی ہے اور یہ دس ماہ کی حاملہ ہے۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: تم جو اونٹنی اسے دوگے اس کی تم نے صفات بیان کردی ہیں۔ میں تمہارے لیے اس اونٹنی کی صفات بیان کروں جو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزاء میں عطا فرمائے گا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (ضرور بیان فرمائیے)۔ آپ sym-1نے فرمایا: تمہیں سوراخ دار موتیوں کی اونٹنی ملے گی جس کے پاؤں سبز زمرد کے ہوں گے اور جس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی اور اس پر کجاوہ ہوگا جو کہ کریب اور ریشم کا بنا ہوگا۔ وہ پل صراط سے تمہیں بجلی کے کوندنے کی طرح گزار دے گی۔ پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم sym-1کی بارگاہ سے رخصت ہوا۔ راستے میں اسے ایک ہزار اعرابی ملے جو ہزار سواریوں پر سوار تھے اور ہزار نیزوں اور ہزار تلواروں سے مسلح تھے۔ اس نے ان سے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اس سے لڑنے جا رہے ہیں جو کذب بیانی سے کام لیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ اس اعرابی نے ان سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد sym-1اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تم نے بھی نیا دین اختیار کرلیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے نیا دین اختیار نہیں کیا (بلکہ دین حق اختیار کیا ہے) پھر اس نے انہیں (گوہ سے متعلق) تمام بات سنائی۔ یہ سن کر ہر کوئی کہنے لگا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد sym-1اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نبی اکرم sym-1تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ sym-1انہیں ملنے کے لیے (تیزی سے) بغیر چادر کے باہر تشریف لائے۔ وہ آپ sym-1کو دیکھ کر اپنی سواریوں سے کود پڑے اور حضور نبی اکرم sym-1کے جسم مبارک کے جس حصہ تک ان کی رسائی ہوئی اسے چومنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد sym-1اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ sym-1 ہمیں اس چیز کا حکم دیں جو آپ sym-1کو پسند ہے۔ آپ sym-1نے فرمایا: تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے ہوگے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارے عرب میں صرف بنو سلیم کے ہی ایک ہزار لوگ بیک وقت ایمان لائے۔

درختوں کا آپ sym-1 سے ہمکلام ہونا

آپ sym-1نے نہ صرف انسانو ں اورحیوانوں سے گفتگو فرمائی بلکہ آپ sym-1نے نباتات سے بھی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 بیان کرتے ہیں:

جاء اعرابى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: بما اعرف انك نبى؟ قال: ان دعوت ھذا العذق من ھذه النخلة اتشھد انى رسول اللّٰه؟ فدعاہ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فجعل ینزل من النخلة حتى سقط الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ثم قال: ارجع. فعاد فاسلم الاعرابى.76
ایک اعرابی حضور نبی اکرم sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ( sym-1) نبی ہیں؟ آپ sym-1نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ sym-1نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم sym-1کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ sym-1نے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 بیان کرتے ہیں:

جاء رجل من بنى عامر الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كانه یداوى ویعالج فقال: یا محمد! انك تقول اشیاء ھل لك ان اداویك؟ قال: فدعاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى اللّٰه، ثم قال: ھل لك ان اریك آیة؟ وعنده نخل وشجر فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عذقا منھا، فاقبل الیه وھو یسجد ویرفع راسه ویسجد ویرفع راسه حتى انتھى الیه صلى اللّٰه علیه وسلم، فقام بین یدیه. ثم قال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ارجع الى مكانك. فقال العامرى: واللّٰه! لا اكذبك بشىء تقوله ابداء.ثم قال: یا آل عامر بن صعصعة! واللّٰه لا اكذبه بشىء.77
قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم sym-1کے پاس آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا: اے محمد( sym-1)! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا:) کیا آپ( sym-1) کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ( sym-1)کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں : آپ sym-1نے اسے اللہ کے دین کی دعوت دی۔ پھر فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ اس کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ sym-1نے کھجور کےایک گچھے کواپنی طرف بلایا۔ وہ گچھا (کھجور سے جدا ہو کر) آپ sym-1کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے پھرسجدہ کرتے اور سر اٹھاتے ہوئے بڑھا یہاں تک کہ آپ sym-1کے قریب پہنچ گیا، پھر آپ sym-1کے سامنے کھڑاہوگیا۔ تب حضور نبی اکرم sym-1نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلا جائے۔ (یہ واقع دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ sym-1کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ sym-1فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کرکے کہا: اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم sym-1کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔

اسی طرح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت جابر sym-5فرماتے ہیں:

سرنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى نزلنا وادیا افیح فذھب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قضى حاجته فاتبعته باداوة من ماء فنظر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم یر شیئا یستتربه فاذا شجرتان بشاطىء الوادى فانطلق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى احداھما فاخذ بغصن من اغصانھا فقال: انقادى على باذن اللّٰه. فانقادت معه كالبعیر المخشوش الذى یصانع قائده حتى اتى الشجرة الاخرى فاخذ بغصن من اغصانھا فقال: انقادى على باذن اللّٰه. فانقادت معه كذلك حتى اذا كان بالمنصف مما بینھما قال: التئما على باذن اللّٰه. فالتامتا فجلست احدث نفسى فحانت منى لفته فاذا انا برسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مقبلا واذا الشجرتان قد افترقتا فقامت كل واحدة منھما على ساق. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: یا جابر! ھل رایت مقامى؟ قلت: نعم یا رسول اللّٰه. قال: فانطلق الى الشجرتین فاقطع من كل واحدة منھما غصنا فاقبل بھما حتى اذا قمت مقامى فارسل غصنا عن یمینك و عن یسارك. قال جابر: فقمت فاخذت حجرا فكسرته وحسرته فانذلق لى فاتیت الشجرتین فقطعت من كل واحدة منھما غصنا ثم اقبلت اجرھما حتى قمت مقام رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارسلت غصنا عن یمینى وغصنا عن یسارى. ثم لحقته فقلت: قد فعلت یا رسول اللّٰه! فعم ذاك؟ قال: انى مررت بقبرین یعذبان فاحببت بشفاعتى ان یرفه عنھما ما دام الغصنان رطبین ...الخ.78
ہم حضور نبی اکرم sym-1کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم sym-1استراحت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں پانی لے کر آپ sym-1کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم sym-1نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ sym-1کو پردہ کے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم sym-1ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ sym-1نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ sym-1کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ sym-1دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ sym-1کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ sym-1دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ sym-1نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ کے حکم سے جڑ جاؤ سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابر sym-5نے کہا: میں نکلا دوڑتا ہوا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہ sym-1مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور تشریف لے جائیں۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم sym-1تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ آپ sym-1نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی! یا رسول اﷲ! فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر کہتے ہیں : میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا۔ پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی اورپھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم sym-1کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا۔پھر اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی۔ پھر رسول اللہ sym-1کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ sym-1! میں نے آپ sym-1کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ sym-1نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا تومیں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔

حضور sym-1 کا کھجور کے تنے کے ساتھ گفتگو فرمانا

حضور اکرم sym-1خاتم الانبیاء ہیں جس کی وجہ سے آپ sym-1کو کئی متحیر العقول اشیاء سے نوازا گیا ہے۔انہی اشیاء میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ آپ sym-1 عدم نطق والی اشیاء سے باہم کلام فرمایا کرتے تھے اور وہ اشیاء آپ sym-1کا کلام سنتی بھی تھیں اور جواب بھی دیا کرتی تھیں۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8ایک ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخطب الى جذع فلما اتخذ المنبر تحول الیه فحن الجذع فاتاه فمسح یده علیه.79
حضور نبی اکرم sym-1ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ sym-1اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون (آپ sym-1کے ہجروفراق میں) گریہ و زاری کرنے لگا۔ آپ sym-1اس کے پاس تشریف لائے اوراس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا۔ (تو وہ پرسکون ہوگیا)۔

اسی طرح حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں:

أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خطب إلى لزق جذع واتخذوا له منبرا، فخطب علیه فحن الجذع حنین الناقة، فنزل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمسه فسكت.80
حضور نبی اکرم sym-1کھجور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام sym-7نے آپ sym-1کے لیے منبر بنوا دیا۔ آپ sym-1جب اس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اُونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضورنبی اکرم sym-1منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔

سنن ابن ماجہ میں بھی اس روایت کو نقل کیا گیا ہے۔81 اسی طرح اس روایت کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مبارک بن فضالہ sym-4کہتے ہیں کہ ہم سے امام حسن sym-5نے بیان فرمایا:

عن انس بن مالك قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخطب یوم الجمعة الى جنب خشبة یسند ظھره الیھا فلما كثر الناس قال: ابنوا لى منبرا. فبنوا له منبرا له عتبتان فلما قام على المنبر لیخطب حنت الخشبة الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال انس: وانا فى المسجد فسمعت الخشبة حنت حنین الولد. فما زالت تحن حتى نزل الیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاحتضنھا فسكنت.قال: وكان الحسن اذا حدث بھذا الحدیث بكى ثم قال: یا عباداللّٰه! الخشبة تحن الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شوقا الیه لمكانه من اللّٰه فانتم احق ان تشتاقوا الى لقائه.82
حضرت انس بن مالک sym-5بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم sym-1جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ کمر کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگ کثرت سے آنے لگے تو آپ sym-1نے فرمایا: میرے لیے منبر تیار کرو۔ پس لوگوں نے آپ sym-1کے لیے منبر تیار کیا جس کی دو سیڑھیاں تھیں۔ جب آپ sym-1خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی حضور نبی اکرم sym-1کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں: میں اس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے اس لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ حضور نبی اکرم sym-1اس کے لیے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوگئی۔راوی بیان کرتے ہیں: حضرت حسن بصریsym-5 جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! لکڑی حضور نبی اکرم sym-1سے ملنے کے شوق میں اور اللہ کے حضور آپ sym-1کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے روتی ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھو۔

اسی حوالہ سے مزید بیان کرتے ہوئےحضرت انس sym-5فرماتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقوم یوم الجمعة فیسند ظھره الى جذع منصوب فى المسجد فیخطب الناس فجاء ہ رومى فقال: الا اصنع لك شیئا تقعد علیه وكانك قائم؟ فصنع له منبرا له درجتان ویقعد على الثالثة فلما قعد نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على ذلك المنبر خار الجذع كخوار الثور حتى ارتج المسجد حزنا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنزل الیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من المنبر فالتزمه وھو یخور فلما التزمه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سكن ثم قال: اما والذى نفس محمد بیده لو لم التزمه لما زال ھكذا الى یوم القیامة حزنا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فامر به رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فدفن.83
حضور نبی اکرم sym-1کا یہ معمول تھا کہ آپ sym-1جمعہ کے دن مسجد میں نصب شدہ ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے اور لوگوں سے خطاب فرماتے۔ ایک رومی صحابی آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: (یارسول اﷲ sym-1!) کیا میں آپ sym-1کے لیے ایسی چیز تیار نہ کرلاؤں کہ آپ sym-1اس پر بیٹھ جائیں اور یوں محسوس ہو کہ آپ sym-1 قیام فرما ہیں؟ پس اس نے آپ sym-1کے لیے منبر تیار کیا۔ اس منبر کی دوسیڑھیاں تھیں اور آپ sym-1تیسرے درجہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضورنبی اکرم sym-1(پہلی مرتبہ) اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ کجھور کا تنا حضور نبی اکرم sym-1کی جدائی کی وجہ سے بیل جیسی آواز میں رونے لگا یہاں تک کہ پوری مسجد اس کی آواز سے غمگین ہوگئی۔ حضورنبی اکرم sym-1اس کی خاطر منبر سے نیچے تشریف لائے۔ اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا جبکہ وہ بلبلا رہا تھا۔ جب حضورنبی اکرم sym-1نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ sym-1نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد( sym-1 ) کی جان ہے اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ ملاتا تو یہ اﷲ کے رسول sym-1کے غم کی وجہ سے قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔ پھر آپsym-1نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے دفن کردیاگیا۔

امام شافعیsym-5اس تنے کے متعلق فرمایا کرتے تھے:

ما اعطى اللّٰه عزوجل نبیا ما اعطى محمدا صلى اللّٰه علیه وسلم فقلت: اعطى عیسى احیاء الموتى. فقال: اعطى محمداً صلى اللّٰه علیه وسلم حنین الجذع الذى كان یخطب الى جنبه حتى ھیى له المنبر فلما ھیى له المنبر حن الجذع حتى سمع صوته فھذا اكبر من ذاك.84
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد sym-1کو جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں فرمایا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا۔ انہوں نے فرمایا: حضرت محمد sym-1کو کھجور کا وہ تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ sym-1ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھےیہاں تک کہ آپ sym-1کے لیے منبر تیار کیا گیا۔ جب آپ sym-1کے لیے منبر تیار کیا گیا وہ کھجور کا تنا رونے لگا یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ اس سے بڑا معجزہ ہے۔

جب یہ تنا (حنانہ )رویا تو حضور نبی کریم sym-1نے اس کو گلے لگایا اور اس سے گفتگو فرمائی کہ اگر تو چاہتا ہے تومیں تمہیں پھر سے وہاں لگادوں جہاں تو پہلے تھا تاکہ تیری شاخیں نکل آئیں اورتیری خلقت کی تکمیل ہوجائے۔ تجھے پھل لگ جائے اور تو کھجور کا سر سبز و شاداب درخت بن جائے ۔ اگر تو چاہتا ہے تو تجھے جنت میں لگادوں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے تیرا پھل کھائیں۔ستون نے عرض کی حضور! مجھے جنت میں لگادیجئے تاکہ اﷲ کے نیک بندے میرا پھل کھائیں اور میں ہمیشہ قائم رہوں۔تو روایت میں منقول ہے:

فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : قد فعلت.85
حضور sym-1نے فرمایا اچھا میں نے ایسا ہی کردیا۔

حضور sym-1اس خشک لکڑی استن حنانہ سے گفتگو فرمارہے تھے اور استن حنانہ کی مرضی کے مطابق اس کو جنت میں لگانے کا بھی فرمادیا ہے کہ اللہ کے بندے اس استن حنانہ کا پھل کھائیں۔

پتھر کی آپ sym-1 کے نیازمندی

رسول اکرم sym-1نباتات و حیوانات کے ساتھ ساتھ جمادات سے بھی گفتگو فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ sym-5 بیان کرتے ہیں:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان بمكة حجرا كان یسلم على لیالى بعثت انى لاعرفه الان.86
حضور نبی اکرم نے فرمایا: مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔

اسی حوالہ سے حضرت علیsym-5 بیان کرتے ہیں:

لقد رایتنى ادخل معه یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الوادى فلا یمر بحجر ولا شجر الا قال: السلام علیك یا رسول اللّٰه. وانا اسمعه.87
میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم sym-1کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ sym-1جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا: رسول اللہ! آپ sym-1پر سلام ہو اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔

مذکورہ تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضوراکرم sym-1جمیع مخلوقات کی بولیاں جانتے اور اس میں کلام فرماتےتھے۔ بلکہ بعض احادیث کے مطابق اگر کسی صحابی کو کسی خاص علاقے میں بھیجتے تو وہ صحابی بھی بحکم الٰہی اس جگہ کی بولی بولنے پر قادر ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ امام ابن ابی شیبہ sym-4روایت کرتے ہیں:

عن جعفر بن عمرو قال: بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اربعة نفر الى اربعة وجوہ رجلا الى كسرى ورجلا الى قیصر ورجلا الى المقوقس وبعث عمرو بن امیة الى النجاشى، فاصبح كل رجل منھم یتكلم بلسان القوم الذین بعث الیھم.88
جعفر بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1نے چار آدمی چار سربراہان سلطنت کی طرف بھیجے۔ ایک آدمی کسریٰ کی طرف، ایک قیصرروم کی طرف ،ایک مقوقس مصر کے پاس اور عمرو بن امیہ sym-5 کو نجاشی شاہ حبشہ کی طرف بھیجا، تو ہر شخص اسی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے لگا جس کی طرف ایلچی بن کر گیا۔

اسی طرح حضرت مسور بن مخرمہ sym-5 سے بھی روایت ہے :

كل رجل منھم یتكلم بلسان القوم الذین وجه الیھم.89
ہر شخص اسی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے لگا جس کی طرف ایلچی بن کر گیا۔

ان روایات سے معلوم ہواکہ نبی اکرم sym-1تمام مخلوقات کی بولی جانتے تھے کیونکہ حضوراکرم sym-1کی نبوت کل عالمین کے لیے ہے جس کا ظاہری و باطنی فائدہ ذوی العقول و غیر ذوی العقول دونوں کے لیے ہے اور ہر چیز کو رب تعالیٰ نے آپ sym-1کی گفتگو اور امر کی سماعت و اتباع کے لیے آپ sym-1کا تابع فرمان کر رکھا تھا۔ یہ تمام حیوانات، جمادات، و حوش و طیور اور جملہ غیر ذوی العقول آپ sym-1کو اپنا نبی و رسول بلکہ ملجا وماوی جانتے اور مانتے تھے۔ اسی لیے آپ sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوکر آپ sym-1کی دستگیری کے خواستگار رہتے تھے۔ جب جب انہیں دُکھ ، تکلیف اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ آپ sym-1کی بارگاہ کا ہی رخ کرتے کیونکہ آپ sym-1نہ صرف ان کی گفتگو سنتے اور سمجھتے بلکہ ان کی مشکلات کا فو ری ازالہ بھی فرما دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ sym-1کی زبان مبارکہ پر عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا چشمہ صافی جاری فرمایا تھا وہیں عرب کے مختلف لہجات اور بولیوں اور اس پر مستزاد غیر زبانوں پر بھی آگاہ فرمایا تھا۔ گفتگو ایسی خوبصورت کہ نہ تو بے جاطولانی اور نہ ہی اتنی مختصر کہ اس میں اختلاف پیدا ہوجائے۔ بالفاظ دیگر آپ sym-1کا کلام معنوی طور پر مکمل و مفصل اور جامع ہو تا اور ان جملہ فوائد کے باوجود آپ sym-1کا کلام مختصر ہوتا کیونکہ آپ sym-1صاحب ِ جوامع الکلم ہیں۔

آپ sym-1کے الفاظ و بیان کی تا ثیر کچھ ایسی تھی کہ جس شے کو کسی بات کا حکم دیدیتے تو وہ اس امر کی تکمیل کرتی۔ حکم کی تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب حکم کے لیے کہے ہوئے الفاظ سمجھ آرہے ہوں ورنہ تعمیل حکم ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا معروضات سے واضح ہواگیا کہ کل موجودات کی بولیاں آپ sym-1بول سکتے تھے اور کل موجودات آپ sym-1کے فرمائے ہوئے کلام کو سمجھتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے تھےجو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ sym-1کی نبوت کائنات کی ہر چیز پر قائم و دائم تھی، ہے اور تا قیامت رہے گی۔


  • 1  محمدبن سعد البصری ،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990 ء،ص:91
  • 2  سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:5437، ج-6، مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، قاہرۃ، مصر، 1994ء،ص:35
  • 3  ابو الحسن علی بن محمد الماوردی ، اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار الھلال، بیروت، لبنان، 1409ھ، ص :225
  • 4  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، جامع المسانید والسنن، حدیث:2029 ، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1998ء، ص: 304- 306
  • 5  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 14،مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:16
  • 6  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء،ص:17
  • 7  احمد بن محمد بن عمر خفاجی ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :134
  • 8  برہان الدین علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص :274
  • 9  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :93
  • 10  مجد الدین مبارک بن محمد ابن الاثیر جزری، النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج -1، مطبوعۃ: المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1979ء، ص :3-4
  • 11  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 1433ﻫ، ص :152
  • 12  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :94
  • 13  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ھ ، ص :173
  • 14  ابوبکر عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ ، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث :27968، ج-5 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیہ، 1409ھ، ص:459
  • 15  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :95
  • 16  عبداﷲ بن محمد بن جعفر ابن حیان اصفہانی، کتاب الامثال فی حدیث النبویﷺ، مطبوعۃ: الدار السلفیۃ، بومبای، الہند، 1408ﻫ، ص:85
  • 17  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :95
  • 18  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث:251 ، ج -1،مطبوعۃ: دار ھجر، مصر، 1999ء، ص :205
  • 19  ابوبکر احمد بن عمرو ابن البزار، مسند البزار، حدیث:9374، ج- 16، مطبوعۃ: المکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، 2009ء، ص :222
  • 20  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :95
  • 21  ایضًا، ص :96
  • 22  محمد بن اسماعیل بخاری ، الادب المفرد ، حدیث:1109 ،مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع ، الریاض،السعودیہ، 1998ء، ص :623
  • 23  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث:2002، ج-3، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:408
  • 24  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:99
  • 25  ایضًا
  • 26  عبدالرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء ، ص :108
  • 27  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :99
  • 28  عبدالرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء، ص :108
  • 29  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:100
  • 30  ایضًا، ص: 100-101
  • 31  ایضًا
  • 32  ایضًا، ص: 102
  • 33  علاؤ الدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، حدیث:17129، ج -6، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص:624
  • 34  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 23679، ج -39، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :84
  • 35  علاؤ الدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، حدیث:35559 ، ج-12،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص:463-464
  • 36  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:6502 ، مطبوعۃ :دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1412ﻫ، ص: 1126-1127
  • 37  فخر الدین رازی شافعی، مفاتیح الغیب تفسیر الکبیر، ج-21، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ص :77
  • 38  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث :2769، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:2120
  • 39  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی ، اکمال المعلم بفوائد مسلم، ج-8، مطبوعۃ: دار الوفاء، القاہرۃ، مصر، 1419ھ، ص :278
  • 40  ابو زکریا یحییٰ بن شرف الدین نووی، صحیح مسلم بشرح النواوی، ج -11،مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :6910
  • 41  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم ، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4373، ج-3 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :52
  • 42  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث:4241، ج -2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990 ء، ص:678
  • 43  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:3167، ج-3، مطبوعۃ:مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1984ء، ص:214
  • 44  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء، ص :132
  • 45  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:240- 239
  • 46  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث :3617، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1412ﻫ،ص:607
  • 47  محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح ، حدیث: 5898، ج -3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص :1655
  • 48  تقی الدین علی بن عبد الکافی سبکی شافعی ،السیف المسلول علی من سب الرسول ﷺ ، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، ،2005ء، ص :113
  • 49  محمد بن عمر الواقدی، کتاب المغازی، ج-3 ،مطبوعۃ: دار العلمی، بیروت، لبنان، 1409ھ،ص: 982 -983
  • 50  محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، حدیث: 5904، ج -3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص :1657
  • 51  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2867، ج-4،مطبوعۃ: دمشق،سوریا، 1422ھ، ص :31
  • 52  محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، حدیث :5905، ج- 3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص :1657
  • 53  علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:60
  • 54  عبد الملک بن محمد نیسابوری، شرف المصطفیٰ،ج -3، مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ، السعودیۃ، 1424ھ، ص:430
  • 55  سلیمان بن موسیٰ حمیری، الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اﷲ ﷺ والثلاثۃ الخلفاء ،ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص :453
  • 56  احمد بن علی ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث:4285، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :430
  • 57  حارث بن محمد بن ابی اسامہ، بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث، حدیث :511، ج-2، مطبوعۃ: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية ،المدينة المنورة،السعودیۃ، 1413 ﻫ، ص :562
  • 58  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 380-381، ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء،ص:454 -455
  • 59  القرآن،سورۃ النمل27: 16
  • 60  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء، ص :312
  • 61  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث :17565، ج -29، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 106۔ 107
  • 62  ابوداؤد سلیمان بن اشعث، سنن ابوداؤد، حدیث:2549،مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1430ﻫ، ص:517
  • 63  احمد بن حنبل الشیبانی، مسنداحمد، حدیث :17559، ج -29، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :101
  • 64  لفظ استراحت کا معنی ہے آرام پانا چونکہ انسان قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آرام پاتا ہے اسی لیے لفظِ مذکورہ کو اس معنی و مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے کیونکہ آپﷺکی بارگاہ کے لیے پاس ادب کا ہونا لازمی امر ہے۔(ادارہ)
  • 65  عبد العظیم بن عبد القوی منذری، الترغیب والترہیب، حدیث: 3431، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص:144-145
  • 66  عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 8609، ج- 4، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ء، ص :493
  • 67  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 5547، ج- 5، مطبوعۃ: دار الحرمین القاھرۃ، مصر،( لیس التاریخ موجوداً)، ص :358
  • 68  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:763 ، ج -23، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، عراق، 1984ء، ص :331
  • 69  علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ مدینۃ ودمشق، ج -4،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :232
  • 70  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:321
  • 71  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:22، ج -1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع ، مکۃ، السعودیۃ ، 2000ء، ص:171-172
  • 72  اسحاق بن ابراہیم ابن راہویہ ، مسند اسحاق بن راہویہ، حدیث: 239، ج -1، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان، المدینۃالمنورۃ، السعودیۃ، 1991ء، ص:270-269
  • 73  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج -1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990 ء، ص :269
  • 74  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج-6 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:40
  • 75  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، ، حدیث :5996، ج -6، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :126
  • 76  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث :3628، ج-5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :594
  • 77  محمد بن حبان ، صحیح ابن حبان، حدیث:6523، ج -14، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:454
  • 78  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث :3012، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:1301
  • 79  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3390، ج -3، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1981ء، ص :1313
  • 80  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3627، ج-5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :594
  • 81  محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی، سنن ابن ماجہ، حدیث: 1415، ج-1 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت ،لبنان، 2000ء ،ص :454
  • 82  محمد بن حبان، صحیح ابن حبان، حدیث: 6507، ج -14، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988ء، ص: 436-437
  • 83  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:42، ج -1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع ،السعودیۃ ، 2000ء، ص:184
  • 84  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، ج -9،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً) ، ص :116
  • 85  احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیۃ، ج-2 ،مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، قاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً) ، ص :274
  • 86  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی ، حدیث: 3624، ج-5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :592
  • 87  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص :154
  • 88  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:36628 ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409 ھ، ص:347
  • 89  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:12، ج- 20، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1415 ھ، ص :8

Powered by Netsol Online