encyclopedia

بوقتِ ولادت معجزات کا ظہور

Published on: 06-Mar-2023

(حوالہ: ڈاکٹر مفتی عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:13، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 430-468)

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےوقت ِ ولادت کے قریب قریب ظاہر ہونے والے معجزات کی تفاصیل کتبِ سیر میں اپنے تمام تر گوشوں کے ساتھ اسی طرح مذکور ہیں جس طرح نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرارِ حمل کے دوران رونما ہونے والے معجزات کی تفاصیل مذکور ہیں۔ ان معجزات کے ظہور کا آغاز تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرار حمل بلکہ اس سے پہلےہی سےشروع ہوگیا تھاجیسا کہ ابن عباس Radi Allah Anhumaسے مروی ہے کہ آپ Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

كان من دلالة حمل آمنة برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن كل دابة كانت لقريش نطقت تلك الليلة، وقالت: حمل برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورب الكعبة، وھو إمام الدنيا وسراج أھلھا، لم يبق سرير لملك من ملوك الدنيا إلا أصبح منكوسا، وفرت وحوش المشرق إلى وحوش المغرب بالبشارات، وكذلك أھل البحار يبشر بعضھم بعضا، وله فى كل شھر من كل شھور حمله نداء فى الأرض ونداء فى السماء: أن أبشروا فقد آن أن يظھر أبو القاسم صلى اللّٰه عليه وسلم ميمونا مباركا لم يبق فى تلك الليلة دار إلا أشرقت ولا مكان إلا دخله النور، ولا دابة إلا نطقت.1
رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےوالدۂ ماجدہ سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کے شکمِ مبارک میں آنے کی نشانیوں میں سے یہ بھی تھی کہ جس شب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamشکم مادر میں مکین ہوئے توقریش کا ہر جانور پکار اٹھاکہ رب کعبہ کی قسم رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجو دنیا کے سردار ہیں وہ حمل میں جلوہ گر ہوچکے ہیں ۔بادشاہان عالم کے تخت اوندھے ہو گئے ، مشرق کے جنگلی جانور، مغرب کے جانوروں کو بشارت دینے گئے ، اسی طرح سمندری جانوروں نے بھی ایک دوسرے کو مبارک دی اور استقرارِ حمل کے ہرمہینہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے متعلق زمین اور آسمان میں منادی کرائی گئی کہ تمہیں بشارت ہو کہ مقدس اور مبارک ابو القاسم کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ اس رات کو کوئی گھر ایسا نہ تھا ،جو روشن نہ ہوا ہو، کوئی مکان ایسا نہ تھا جس میں نور ِمحمدی داخل نہ ہوا ہو، اور کوئی جانور ایسا نہ تھا ، جو بول نہ اٹھا ہو ۔2

اسی طرح ان معجزات کے ظہور کا سلسلہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے زمانہ کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ذیل میں ان واقعات کاذکرہے جو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آئے جنہیں متقدمین سیر نے اپنی کتابوں میں ذکر فرمایا ہے۔

شیطان کی افسردگی

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت سے جس لعین کوسب سے زیادہ تکلیف ہوئی اور جو کسی بھی طور پر اس کو برداشت نہیں کرسکا وہ ابلیس رجیم تھا۔یہ ابلیس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت غمزدہ ہوا چنانچہ اس حوالہ سے حضرت عکرمہ Radi Allah Anho سے ایک حدیث مبارکہ منقول ہے جس میں آپ Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

أن إبليس لعنه اللّٰه لما ولد صلى اللّٰه عليه وسلم ورأى تساقط النجوم قال: لقد ولد الليلة ولد يفسد علينا أمرنا ثم أمر أولاده أن يأتوه بتربة من كل أرض وھو يشمھا فلما شم تربة تھامة: قال: من ھھنا دھينا.3
جب رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو ابلیس لعین نے تاروں کے گرنے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ا ٓج کی رات ایسا نو مولود پیدا ہوا ہے جو ہمارے نظام کو درہم برہم کردے گا۔پھر اس نے اپنے چیلوں کو تمام روئے زمین کی مٹی لانے کا کہاجس کو وہ سونگھنے لگا۔جب اس نے تہامہ کی مٹی سونگھی تو اس نے کہا کہ اسی جگہ سے ہم برباد کیے جائیں گے۔

یعنی شیطان لعین کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا بنایا ہوا برسوں پرانا کفر وشرک پر مبنی نظام جس ذات عالی کے لائے ہوئے پیغام سے درہم برہم ہوجاتا وہ نبیِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات عالیہ تھی اور اسی وجہ سے وہ غمزدہ تھا۔پھر اسے کسی چیلے نے مشورہ دیا کہ تمہیں تو یہ قدرت دی گئی ہے کہ کسی نومولود کو چھوکر پاگل کردو تو اس نومولود کو ہاتھ لگادینا تاکہ وہ صحیح نہ رہے۔ابلیس لعین ایسا کرنے گیا لیکن کر نہیں سکاچنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے اور ماقبل روایت کی شرح کرتے ہوئے صاحب سیرت حلبیہ تحریرفرماتے ہیں:

وھذا يدل على أن تساقط النجوم كان عند إبليس علامة على وجود نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم فقال له جنوده: لو ذھبت إليه فخبلته، فلما دنا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعث اللّٰه جبريل فركضه برجله ركضة وقع بعدن وكون تساقط النجوم كان عند إبليس علامة على وجود نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم .4
اور یہ (ستاروں کے گرنے والی)روایت ا س بات پر دلالت کرتی ہے کہ ستاروں کا گرنا ابلیس کے نزدیک ولادت نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نشانی تھا( تبھی اس نے اس ہلچل کی بنا پر تہامہ کی مٹی سونگھنےکے بعد تباہی کی بات کی)تو اس کے چیلوں نے اس سے کہا کہ تو اس نومولود تک جااور اسے (چھوکر)حواس باختہ کردے۔پھر جب وہ(ایسا ہی کرنے کے لیے)رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قریب ہواتو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت جبریل Alaihis Salam کو بھیجا تو حضرت جبریل Alaihis Salam نے اس لعین کو ایک شدید ٹھوکر ماری جس سے وہ عدن شہر میں جا گرا۔

یعنی جب شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی کہ صالحین پر قادر ہوکر اپنا زور چلا سکے جیساکہ قرآن مجید میں ہے 5 تو یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ اس کا زور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر چل سکےخواہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamزندگی کے ابتدائی ساعتوں میں ہی تھے۔

وقت ولادت کی خبر

حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے وقت کی اطلاع کتب سابقہ میں بھی ذکرکی گئی ہے جو کہ اہل کتاب کے انبیاکرامAlaihmus Salam کے ذریعہ سے ان کے امتیوں تک اور پھر امتیوں کے توسط سے نسل در نسل چلتی آگے منتقل ہوتی رہی ہے ۔چنانچہ شیخ حلبی سیرت حلبیہ میں6 اور شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی جواہر البحار میں تحریر فرماتے ہیں:

وعن كعب الاحبار رضى اللّٰه عنه قال رایت فى التوراة ان اللّٰه تعالى اخبر موسی عن وقت خروج محمد صلى اللّٰه عليه وسلم اى من بطن امه موسى علیه الصلوة والسلام اخبر قومه ان الكوكب المعروف عندكم اسمه كذا اذاتحرك وسارعن موضعه فھو وقت عروج محمد صلى اللّٰه عليه وسلم وصار ذلك ممایتوارثه العلما من بنى اسرائیل.7
حضرت کعب الاحبار Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰAlaihis Salam کو وہ وقت بھی بتا دیا تھا جس وقت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے شکم مادر سے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔ حضرت موسیٰ Alaihis Salam نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ فلاں مشہور ستارہ جب حرکت کرنے لگے اور اپنی جگہ چھوڑ دے تو وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کا وقت ہوگا ۔علمائے بنی اسر ائیل اس بات کونسل درنسل منتقل کرتے رہے۔8

اس طرح رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے زمانہ کی خبر دورِ ولادت کے اہل کتاب تک پہنچ گئی تھی اور وہ وقتاً فوقتاً مختلف حلیوں میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے بارے میں معلوم کرنے مکّہ میں آتے رہتے تھے جیسا کہ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha نے مکّہ کے ایک یہودی تاجر کے بارے میں بیان کیا ہے۔ 9

آپ ﷺکی ولادت اور اہل ِکتاب

علمائے یہود یعنی احبار نے آنے والی نسلوں کو سینہ بسینہ وہ خبریں پہنچائیں جو انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری کے متعلق اپنے انبیاء کرام Alaihmus Salamسے سنی تھیں ۔اسی طرح اہل کتاب کے عابدوں اور راہبوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ظہور کی بشارتیں اپنے آنے والی نسلوں کوسنائیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کرام Alaihmus Salam نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو پہچانتے اور بارگاہ الہی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا وسیلہ پیش کیاکرتے تھے۔چنانچہ علامہ ابن جوزی نے سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آمد پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے سیر و حدیث کی حقیقتوں کو سمیٹتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:

ہر ایک نبی اپنے رب کے حضور (اس نور محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے) توسل کرکے پناہ مانگتا رہا چنانچہ سیّدنا آدم Alaihis Salam کی توبہ انہی کے وسیلے سے قبول ہوئی۔ حضرت ادریس Alaihis Salam کوانہی کی وجہ سے مقام بلند میں رفع کیا گیا۔ حضرت نوح Alaihis Salam نے کشتی میں انہی کا وسیلہ پکڑا اور حضرت یونس Alaihis Salam نے اپنی دعا میں اسی وسیلے پر اعتماد فرمایا ۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ Alaihis Salam انہی کو شفیع لائے اور حضرت ایوب Alaihis Salam نے انہی کے واسطے سے تضرع ووزاری کی۔ حضرت موسیٰ Alaihis Salam نے اپنی قوم کو انہی کی منزلت اور مرتبت سے روشناس کرایا اور انہوں نے رب سے دعا مانگی کہ میں ان کا وزیر اور امتی بنوں ۔ حضرت عیسیٰ Alaihis Salam نے انہی کے وجودِ باجود کی بشارت دی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری کے زمانے تک قائم و زندہ رہنے کی مہلت مانگی ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے معاون و مددگار بنیں۔10

یوں سیّدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے زمانہ کے بارے میں انبیاء کرام Alaihmus Salam کی دی گئی خبروں کے مطابق مکّہ میں کئی راہب و احبار ان کی تصدیق کےخاطر آیا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک شامی راہب اس خیال سے مکّہ مکرّمہ میں آکر بس گیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آمد کا وقت قریب آرہا تھا11 اوروہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے انوار سے منور ہونا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام جلال الدین السیوطی Rehmatullah Alaih تحریر فرماتے ہیں:

كان بمر الظھران راھب من أھل الشام يدعى عيصى وكان قد آتاه اللّٰه علما كثيرا وكان يلزم صومعة له ویدخل مكة فيلقى الناس ويقول انه يوشك ان يولد فيكم مولود يا أھل مكة تدين له العرب ويملك العجم ھذا زمانه فمن أدركه واتبعه أصاب حاجته ومن أدركه وخالفه أخطأ حاجته وتاللّٰه ما تركت أرض الخمر والخمير والأمن ولا حللت أرض البؤس والجوع والخوف إلا فى طلبه فكان لا يولد بمكة مولود إلا يسأل عنه فيقول ما جاء بعد فلما كان صبيحة اليوم الذى ولد فيه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خرج عبد المطلب حتى أتى عيصى فوقف فى أصل صومعته فناداه فقال من ھذا قال انا عبد المطلب فاشرف عليه فقال كن أباہ فقد ولد ذلک المولود الذى كنت احدثكم به عنه يوم الإثنين وھو يبعث يوم الاثنين ويموت يوم الاثنين وإن نجمه طلع البارحة وآية ذلک انه الآن وجع فيشتكى ثلاثا ثم يعافى فاحفظ لسانك فإنه لم يحسد حسده احد ولم يبغ على احد كمايبغى عليه.12
مر ظہران نامی جگہ میں ایک شامی راہب تھا جسے عیصی کہا جا تا تھا ۔ا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کوکثیر علم عطا فرمایا تھا اور یہ اپنی عبادت گاہ میں ہی رہتا تھا۔وہ مکّہ میں داخل ہوتا اور لوگوں سے ملتا اور کہتاکہ اے اہل مکّہ عنقریب تم میں ایک نومولود پیدا ہوگا ۔تمام اہل عرب اس کے دین پر ہوں گے اور وہ عجم پر حکومت کرےگا اوریہ اس کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ پس جس نے اس کو پالیا اور اس کی اتباع کرلی تو اس نے اپنامقصد (زندگی) پالیا۔جس نے اس کو پایا اور اس کی مخالفت کی تو اس نے اپنا مقصد (زندگی)گنوادیا۔اللہ کی قسم میں نے کھانے پینے اور سکون والی جگہ نہیں چھوڑی اور بنجر ، افلاس اورخوف والی جگہ نہیں آیا مگر اسی کی طلب میں ۔جب بھی مکّہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اس کے بارے میں سوال کرتاتھا اورپھر سوال کے بعد کہتا کہ ابھی وہ نہیں آیا۔جب اس دن کی صبح نمودار ہوئی جس میں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپید اہوئے تو حضرت عبد المطلب عیصی کے پاس آئے اور اس کی عبادت گاہ میں جاکر اسے آواز دی۔اس نے کہا کہ کون ہے؟ تو آپ نے کہا کہ میں عبد المطلب ہوں تو وہ آپ کے پاس آیا اور کہا: تم ہی اس بچہ کے دادا ہوپس تحقیق وہ بچہ پیدا ہوچکا ہے جس کے بارے میں، میں تمہیں کہا کرتا تھا۔وہ پیر کے دن پیدا ہوااور پیر کے دن ہی اعلانِ بعثت کرےگا اور پیر کے دن ہی وصال کرےگا۔بلا شبہ آج ہی کی رات اس کا( پیدائشی علامتی) ستارہ طلوع ہوا ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ اس وقت تکلیف میں ہے جو کہ تین دن رہے گی اور پھر وہ تندرست ہوجائےگا ۔پس تم اپنی زبان قابو میں رکھو کیونکہ کسی سے اس کے جتنا حسد نہیں کیا گیا اور کسی کی اس کے جتنی مخالفت بھی نہیں کی گئی ۔

اسی طر ح اس حوالہ سے ایک یہودی کی بیان کردہ نشانی کو نقل کرتےہوئےشیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی تحریر فرماتے ہیں:

ان یھودیا قال لعبد المطلب یا سید البطحاء ان المولود الذى كنت حدثتکم عنه ولد البارحة قال عبدالمطلب لقد ولد لى البارحة غلام قال الیھودى ماسمیته قال محمداً قال الیھودى ھذہ ثلاث یشھدن على نبوته احداھن ان نجمه طلع البارحة والثانیة ان اسمه محمد والثالثة انه یولد فى صیابة قومه وانت یاعبدالمطلب صیابتھم.13
ایک یہودی نے حضرت عبدالمطلب Radi Allah Anho سے کہا اے سیّد بطحا! جس بچے کے متعلق میں آپ سے گفتگو کرتا تھا آج وہ پیدا ہوگیا ہے ۔حضرت عبدالمطلب Radi Allah Anho نے فرمایا :آج تو میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ یہودی نے پوچھا کہ آپ نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا نام"مُحَمَّد"( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)رکھا ہے۔ یہودی نے کہا کہ یہی تین نشانیاں ان کی نبوت کی علامت ہیں: (1) آج رات اس نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ستارہ طلوع ہوگیا ہے۔(2) اس کا نام گرامی"محمد"( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)ہوگا۔ (3) وہ قوم کے بہترین خاندان میں پیدا ہوگا اور آپ اپنی قوم کے بہترین خاندان میں سے ہیں۔ " 14

ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہونے سےپہلے ہی ٹوٹتے ستاروں کاہجوم اور ایک خاص معلوم ستارہ کا طلوع اور دیگر اس جیسے واقعات کا رونما ہونا منتظر لوگوں کے لیے علامات تھیں تاکہ بعد میں وہ کوئی حجت پیش نہ کرسکیں۔

ولادت اور بتوں کا گرنا

سیّدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت بت وغیرہ بھی گر گئے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نومولود شرک وکفر کے خاتمہ کے لیے مبعوث کیے گئے تھےچنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی رات رونما ہونےوالے واقعات کو بیان کرتے ہوئے امام سیوطی Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

ونكست الأصنام كلھا وأما اللات والعزٰى فإنھما خرجا من، خزانتھما وھما يقولان ويح قريش جاءھم الأمين جاءھم الصديق لا تعلم قريش ماذا اصابھا.15
اور تمام بت اوندھے گر پڑےلیکن لات و عزیٰ کا یہ حال تھا کہ وہ دونوں اپنے اپنے مقامات سے بحکم رب اٹھ کر نکل آئے تھے اور کہتے تھے کہ قریش کا بھلا ہو ان کے یہاں امین آگئے ہیں، ان میں صدیق تشریف لے آئے لیکن قریش کواس کا علم نہیں ہے کہ ان کے یہاں کتنا بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوچکا ہے۔16

اسی طرح اس حوالہ سے ایک اورروایت میں یوں مذکور ہے کہ حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں اس رات کعبہ میں تھا اور میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی اپنی جگہ سے سر کے بل گر پڑے ہیں اور دیوارِ کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے:

ولد المصطفى المختار الذى تھلک بیده الکفار ویطھر من عبادة الاصنام و یامربعبادة الملک العلام.17
مصطفی ٰ مختار پیدا ہوئے۔ان کے ہاتھ سے کفار ہلاک ہوں گے اور کعبہ بتوں کی عبادت سے پاک ہوگا۔ وہ اللہ کی عبادت کا حکم دیں گے جو حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔

اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت سے متعلق وہ چند اشعار جوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے محترم چچا حضرت عباس بن عبد المطلبRadi Allah Anhuma نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اجازت سے کہے ہیں ان میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے ۔چنانچہ عبدالرحمن بن جوزی ان اشعا ر کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وفى حدیث العباس بن عبدالمطلب أنه قال: یا رسول اللّٰه انى أرید أن أمتد حک قال: قل: لا یفضض اللّٰه فاک فأنشأ یقول: 18

من   قبلھا   طبت   فى   الظلال  ‏وفى   مستودع  حيث  يخصف  الورق
           ثم    ھبطت    البلاد    لا   بشر   انت  ولا   مضغة    ولا علق
           بل    نطفة    تركب   ‏السفين   وقد   ألجم     نسرا     وأھله     الغرق
           تنقل    من   صالب   إلى   رح   إذا    مضى    عالم    بدا   طبق
           حتى   احتوى   ‏بيتك   المھيمن  من    خندف    علياء    تحتھا   النطق
           وانت  لما  ولدت  أشرقت  الأرض   وضاءت       بنورك      الأفق
           فنحن    فى     ‏ذلك     الضياء    وفى   النور   وسبل   الرشاد    نخترق.‏

حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma کی حدیث میں ہے کہ آپRadi Allah Anho ، نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعریف کرنا چاہتا ہوں، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےارشاد فرمایا: بولیےاللہ آپ کے منہ کوسلامت رکھے چنانچہ آپ نے کہا:"اس سے پہلے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپردوں میں رہے، ماں کے پیٹ میں جہاں پردہ ہوتا ہے پھر شہروں ( دنیا ) میں آئے، اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنہ تو بشر تھے، نہ لوتھڑا اور نہ ہی خون، بلکہ ابھی نطفہ تھے۔ نسر(بت) کو لگام دی گئی اور اس کے پوجنے والوں کو غرق کردیا گیا۔ یہ(پاکیزہ) پیٹھوں میں ہوتےچلا آیا اوربالآخر اپنی والدہ کے شکم مبارک تک آپہنچا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب پیدا ہوئے تو زمین روشن ہوگئی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نور کی وجہ سے ہر طرف روشنی ہوگئی اور ہم بھی اسی روشنی میں ہیں، نور میں ہیں اور ہدایت کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔20

یعنی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت کئی بت اوندھے منہ گر پڑے اور ان کے پجاریوں کو لگام ڈالی گئی ۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت سے زمین روشن و منور ہوگئی۔

بوقتِ ولادت رحمتِ خداوندی

جس طرح نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقرار حمل کے دوران رحمت خداوندی کا ظہور ہوا کرتا تھا جیساکہ ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے کہ حضرت آمنہRadi Allah Anha ، نے فرمایا:میرے اس بیٹے کی عجیب شان ہے،میں نے اسے اپنے حمل میں لیا اور اس سے زیادہ ہلکا اور آسانی والا بابرکت حمل کوئی دوسرا نہیں دیکھا21 بالکل اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت بھی یہ سلسلۂ رحمت و کرم اپنے عروج پر تھاچنانچہ شیخ احمد بن محمد قسطلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

لما حضرت آمنة الولادة قال للملائكة: افتحوا أبواب السماء كلھا، وأبواب الجنان، وألبست الشمس يومئذ نورًا عظيمًا، وكان قد أذن اللّٰه تعالى تلك السنة لنساء الدنيا أن يحملن ذكورًا.22 ولیس المراد ان جمیع نساء الدنیا حملن بل الحاملات منھن.23
جب حضرت آمنہRadi Allah Anha ، کے یہاں ولادت کاوقت قریب ہوا تو اللہ تعالیٰ نےملائکہ کو حکم دیا کہ آسمانوں اور جنتوں کے تمام دروازے کھول دواور اس دن خورشیدِ عالم کو مزید نور سے مزین کیا گیا۔ اس سال تمام جہاں کی عورتوں کو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی عظمت و رفعت کی وجہ سے اولاد نرینہ سے نوازا گیا۔اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام عورتیں حاملہ ہوگئیں بلکہ(وہ مراد ہیں) جو حاملہ تھیں۔ 24

نہ صرف اتنا بلکہ فرشتے باہم مژدے سناتے اترے اور دنیا کے پہاڑوں کا ارتفاع بڑھ گیا، سمندر کی سطح گہری اور دریا کی روانی تیز ہوگئی۔ شیطان ملعون کو ستر طوقوں میں جکڑ کر بحر عمیق میں الٹا کرکے ڈال دیا گیا اور اس کی ذریات اور سرکش جنوں کو پابہ زنجیر کرکے بند کردیا گیا۔ کوئی درخت ایسا نہ تھا جس میں پھل نہ آیا ہو، کسی قسم کا خوف نہ تھا اور دور دراز علاقوں اور راہوں میں امن وعافیت تھی ۔ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی تو سعادت کی بارشیں ہونے لگیں۔ دنیا کو نور کی چادر پہنا دی گئی۔ملائکہ بشارتیں دینے لگے ۔تمام آسمانوں میں ایک ستون زبرجد کا اور ایک ستون یاقوت کا لگادیاگیا۔ 25

ولادت کی رات جنت کی زیبائش

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی رات میں یہ سلسلۂ رحمتِ باری تبارک وتعالیٰ انفرادی انداز سے جاری و ساری تھا جس میں جنت کی زیبائش ،بتوں کا گرنا شامل تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام جلال الدین السیوطیRehmatullah Alaih تحریر فرماتے ہیں:

وقد انبت اللّٰه ليلة ولد على شاطئى نھر الكوثرسبعين الف شجرة من المسك الأذفر جعلت ثمارھا بخور أھل الجنة وكل اھل السموات يدعون اللّٰه بالسلامة...وأما البيت فأياما سمعوا من جوفه صوتا وھو يقول الآن يرد على نورى الآن يجيئنى زوارى الآن أطھر من أنجاس الجاھلية أيتھا العزى ھلكت.26
جس رات میں سیّد الانبیاء Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی، اللہ تعالیٰ نے حوض کوثر کے کناروں پر مشک ذخر سے معطر ستر ہزار درخت اُگائے اور ان کے پھلوں کی خوشبو کو اہل جنت کے لیے بحور بنایا۔ اس روز تمام آسمان والے اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا مانگتے تھے ۔۔۔ خانہ کعبہ کایہ حال تھا کہ بہت دنوں تک لوگوں نے اس سے یہ آواز سنی، اب اللہ تعالیٰ میرے نور کو لوٹادے گا اور جوق درجوق توحید پرست میری زیارت کو آئیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ مجھ کو جاہلیت سے پاک کردے گا اور اے عزیٰ تو ہلاک ہوگیا ۔ 27

اسی طرح کے دیگر رونما ہونے والے واقعات کتب سیر میں بالتفصیل مذکور و منقول ہیں جن میں قدر مشترک بات یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت سلسلۂ رحمت باری کا نزول نہایت کثرت سے جاری تھا۔ 28

مبارک نور

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت ایک نور نکلا تھا جس کے بارے میں صاحب سبل الھدی یوں تحریر فرماتے ہیں:

وروى ابن سعد عن محمد بن عمر الأسلمى بأسانيد له متعددة عن آمنة أنھا قالت: لما وضعته خرج معه نور أضاء له ما بين المشرق والمغرب.29
ابن سعد نے محمد بن عمر اسلمی سے اپنی کئی متعدد اسناد کے ذریعہ حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anha ، سے روایت کیاہے کہ آپ فرماتی ہیں:جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے بطن سے جدائے ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ ایک نور نکلا جس کے سبب مشرق و مغرب کے درمیان سب روشن ہوگیا۔ 30

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اسی واقعہ کی نسبت خود ارشاد فرمایا ہے:

ورویا امى التى راتوكذلك امھات الانبیاء یرین.31
میں وہی خواب ہوں جسے میری والدہ نے دیکھا تھااور اسی طرحAlaihmus Salam ،کی مائیں ایسا ہی نور دیکھا کرتی ہیں۔

اسی حوالہ سے مسند امام احمد میں حضر ت عرباض بن ساریہ سلمی Radi Allah Anho ،سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا:

إنى عند اللّٰه فى أم الكتاب لخاتم النبيين، وإن آدم لمنجدل فى طينته، وسأنبئكم بتأويل ذلك، دعوة أبى إبراھيم وبشارة عيسى قومه، ورؤيا أمى التى رأت أنه خرج منھا نور أضاءت له قصور الشام.32
میں اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ام الکتاب میں خاتم النبین لکھا گیا حالانکہ آدم اپنے خمیر میں گوندھے پڑے تھے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری شان کیا ہے ۔ میں دعائے ابراہیمی ہوں اور اپنے بھائی عیسی کی دو بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو دی اور اپنی ماں کا وہ حسین خواب اور اس کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا ان میں سے ایک نور نکل کر چمکا جس سے ان کے لیے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔

اسی نور کی طرف آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چچا حضرت عباس Radi Allah Anho نے اپنے قصیدے میں اشارہ کیا ہے ۔ 33اسی طرح عثمان بن ابی العاصRadi Allah Anho ، اپنی والدہ فاطمہRadi Allah Anha ، سے راوی ہیں کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی تو میں نے دیکھا کہ کمرہ نور سے بھر گیا اور ستارے اتنے قریب آگئے کہ میں سمجھی کہ وہ مجھ پر گر نے کو ہیں ۔ 34

ولادت مطلع ِنبوت و رسالت

مذکورہ بالا واقعات کی نوعیت ایک خارجی سطح کی تھی جبکہ ذیلی واقعات وہ ہیں جو حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے بطور خاص مشاہدہ فرمائے اور کتب سیر نے جنہیں شرح و بسط کے ساتھ نقل کیا۔ ربیع الاوّل کا مہینہ ، دو شنبہ کا دن اور صبح صادق کی ضیاء بار سہانی گھڑی تھی، رات کی بھیانک سیاہی چھٹ رہی تھی اور دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا جب مکّہ کے سردار حضرت عبدالمطلب Radi Allah Anho کی جواں سال بیوہ بہو کے حسرت ویاس کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے سادہ سے مکان میں ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔ایسا مولودِ مسعود تو لد ہوا جس کے من موہنے مکھڑے نے، صرف اپنی غمزدہ ماں کو ہی سچی خوشیوں سے مسرور نہیں کیا بلکہ ہر درد کے مارےکے لبوں پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں۔ اس نورانی پیکر کے جلوہ فرمانے سے جہاں کہیں بھی مایوسیوں اور حرماں نصیبیوں نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے وہاں امید کی کرنیں روشنی پھیلانے لگیں اور ٹوٹے دلوں کو بہلانے لگیں۔ صرف جزیرۂ عرب کا بختِ خفتہ ہی بیدار نہیں ہوا بلکہ انسانیت جو صدیوں سے ہوا و ہوس کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور ظلم و ستم کے آہنی شکنجوں میں کسی ہوئی کراہ رہی تھی، اس کو ہر قسم کی ذہنی، معاشی اور سیاسی غلامی سے رہائی کا مژدۂِ جاں فزا ملا۔ فقط مکّہ و حجاز کے خدا فراموش باشندے، خدا شناس اور خود شناس نہیں بنے بلکہ عرب و عجم کے ہر مکین کے لیے میخانۂ معرفت کے دروازے کھول دیے گئے اور سارے نوع انسان کو دعوت دی گئی کہ جس کا جی چاہے آگے آئے اور اس مئے طہور سے جتنے جام نوش جاں کرنے کی ہمت رکھتا ہے اٹھائے اور اپنے لبوں سے لگالے۔ طیورِ خوش نوا زمزمہ سنج ہوئے اور خزاں کی چیرہ دستیوں سے تباہ حال گلشنِ انسانیت کو سرمدی بہاروں سے آشنا کرنے والا آگیا۔ سربگر یباں غنچے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انہیں جگانے والا آیا اور جگا کر انہیں شگفتہ پھول بنانے والا آیا۔ افسردہ کلیاں مسکرانے لگی تھیں کہ ان کے دامن کو رنگ ونکہت سے فردوس بداماں کرنے والا آیا۔ علم و آگہی کے سمندروں میں حکمت کے جو آبدار موتی آغوش صدف میں صدیوں سے بے مصرف پڑے تھے ان میں شوقِ نمود انگڑائیاں لینے لگا۔35رسولِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے دوران حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے کئی ماوراء الحس واقعات کا مشاہدہ فرمایا ہے جو در حقیقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی برکت کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدۂ محترمہ Radi Allah Anha کے لیے باعثِ اطمینان و افتخار تھے۔ حضرت آمنہ Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے متعلق بیان کرتےہوئے فرماتی ہیں کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں حاملہ ہوگئی ہوں، نہ مجھے کوئی بوجھ محسوس ہوا جو ان حالات میں دوسری عورتوں کو محسوس ہوتا ہے۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ میرے ایامِ ماہواری بند ہوگئے ہیں۔ ایک روز میں خواب اور بیداری کے بین بین تھی کہ کوئی آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے پوچھا: آمنہ! تجھے علم ہے کہ تو حاملہ ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھر اس نے بتایا: تم حاملہ ہو اور تیرے بطن میں اس امت کا سردار اور نبی تشریف فرما ہوا ہے، اور جس دن یہ واقعہ پیش آیا وہ سوموار کا دن تھا۔حمل کے ایام بڑے آرام سے گزرے۔ جب وقت پورا ہوگیا تو وہی فرشتہ جس نے مجھے پہلے خوشخبری دی تھی وہ آیا اس نے مجھے کہا کہ یہ کہیں کہ میں اللہ واحد کی اس کے لیے ہر حاسد کے شر سے پناہ مانگتی ہوں 36

مشاہداتِ سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha

حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے دوران ولادت جن واقعات کا مشاہدہ کیا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت بھی انفرادی و نمایاں طور سے ہوئی ہے تاکہ لوگوں میں اس کا چرچہ ہو اور اس سے ان کے دلوں میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت پیوست ہوجائےچنانچہ امام جلال الدین السیوطی Rehmatullah Alaihاس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

وتقول لقد اخذنى ما يأخذ النساء ولم يعلم بى أحد من القوم فسمعت وجبة شديدة وامرا عظيما فھالنى ذلك فرأيت كان جناح طير أبيض قد مسح على فؤادى فذھب عنى كل رعب وكل وجع كنت أجد ثم التفت فإذا انا بشربة بيضاء لبنا وكنت عطشى فتناولتھا فشربتھا فأضاء منى نور عال ثم رأيت نسوة كالنخل الطوال كأنھن من بنات عبد مناف يحدقن بى فبينا أنا أعجب وإذا بديباج أبيض قد مدبين السماء والأرض وإذا بقائل يقول خذوه من اعين الناس قالت ورأيت رجالا قد وقفوا فى الھواء بأيديھم أباريق فضة ورأيت قطعة من الطير قد أقبلت حتى غطت حجرى مناقيرھا من الزمرد وأجنحتھا من اليواقيت فكشف اللّٰه عن بصرى وأبصرت تلك الساعة مشارق الأرض ومغاربھا ورأيت ثلاثة أعلام مضروبات علما فى المشرق وعلما فى المغرب وعلما على ظھر الكعبة.37
حضرت آمنہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں میری قوم کاکوئی فرد میرے حال سے واقف نہ تھا۔ میں تنہا گھر میں تھی، میں نے ایک بڑی گڑگڑاہٹ کی آواز سنی جس سےمیں ڈرگئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک سفید پرندہ آیا اور اپنا پَر میرے سینے پر مَلا، میراخوف جاتا رہا میں نے مڑکر دیکھا تو سفید مشروب میرے سامنے تھا جسے میں دودھ سمجھی ،میں پیاسی تھی تو میں نےاسے لیا اور پینا شروع کیا ۔مجھ سے ایک نوربلند ہواپھرمیں نے دراز قد، خوب صورت عبدمناف کے قبیلے کی عورتوں کی طرح خواتین کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ انہیں میری حالت کا کیسے علم ہوا ؟پھر مجھے تکلیف کا احساس ہونے لگا، اب ایک اور گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دی ۔ مجھے یوں دکھائی دیا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک سفید ریشمی چادر پھیلادی گئی ہے اور ایک کہنے والے کو سنا وہ کہ رہا ہے کہ انہیں لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھو ۔ مجھے مردوں کی ایک جماعت دکھائی دی جو آسمان پر کھڑےہیں ان کے ہاتھ میں چاندی کے سفید لوٹے ہیں۔ میں نے پرندوں کی ایک ٹکڑی دیکھی جو میرے مکان کی چھت پر بیٹھ گئی ،ان کی آمد سے میرے مکا ن کی چھت بھرگئی، ان کی چونچیں سبز زمرد اور پَریاقوت سے بنے ہوئے تھے ۔میں نے نگاہ اٹھائی تو مجھے مشرق و مغرب کے افق دکھائی دیے جہاں عَلَم لہرارہے تھے۔38 ایک عَلَم مشرق ، دوسرامغرب میں تھا اور مجھےا یک علم کعبہ کی چھت پر لہراتا نظر آیا۔39

اسی حوالہ سے حضرت عباس Radi Allah Anhoنے اپنی بیان کردہ حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔چنانچہ ان سے مروی ایک روایت میں منقول ہے:

قلت يا آمنة ما الذى رأيت فى ولادتك من علامة ھذا الصبى فقالت رأيت علما من سندس على قضب من ياقوت قد ضرب بين السماء والارض ورأيت نورا ساطعا من رأسه قدبلغ السماء ورأيت قصورالشام كلھا شعلت ناراورأيت سربا من القطا قد سجدت له ونشرت اجنحتھا ورأيت تابعة شعيرة الاسدية قدمرت وھى تقول مالقى الاصنام والكھان من ولدك ھذا ھلكت شعيرة والويل للاصنام ثم الويل لھا ورایت شابا من اتم الناس طولا وشدھم بیاضا فاخذ المولود منى فتفل فى فیه ومعه طاس من ذھب فشق بطنه ثم اخرج قلبه فشقه شقا فاخرج منه نکتة سوداء فرمى بھا ثم اخرج صرة من حریر اخضر ففتحھا فاذا فیھا شئى كالدرة البیضاى فحشاہ به رضى اللّٰه عنه رده الى مکانه ثم مسح على بطنه فاستیقظ فنطق فلم افھم ماقال الا انه قال انت فى امان اللّٰه وحفظ اللّٰه وكلاء ته قد حشوتک علما وحلما ویقینا وایمانا وعقلا وشجاعة وانت خیر البشر فطوبى لمن اتبعک وآمن بک وعرفک والویل ثم الویل قلھا سبع مرات لمن تخلف عنک وخرج منھا ولم یعرفک ثم تفل فیه اخرى تفلة شدیدة ثم ضرب الارض ضربة فاذا ھو بماى اشد بیاضا من اللبن فغمسه فى ذلك ثلاث غمسات فماظںنت الا انه قد غرق ومامن مرة یخرجه الارأيت ضوء وجھه كالشمس الطالعة ولقد رأيت بريق وجھه يقع على قصور الشام كوقوع الشمس ثم قال امرنى ربى عزوجل ان انفخ فيك بروح القدس فنفخ فيه فالبسه قميصا فقال ھذا امانك من آفات الدنيا.40
میں(یعنی حضرت عباس) نے حضرت آمنہ Radi Allah Anha سے پوچھا اے آمنہ! اس مبارک بچے کی ولادت کے وقت آپ نے کیادیکھا؟ آپ Radi Allah Anhaنے فرمایا اے عباس! میں نے سندس کا ایک جھنڈا دیکھا جو یا قوت کے بانس پر لہرا رہا تھا ،وہ زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھا۔میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سَر مبارک پر نور کو پھیلتے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ وہ نورِ مبارک آسمان تک پہنچ گیا۔ میں نے اس نور میں شام کے محلات کو دیکھا کہ وہ تمام کے تمام شعلہ زن تھے۔ پھر میں نے کو نجوں کے ایک ڈار کو دیکھا جنہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو سجدہ کیا اور اپنے پروں کو پھڑ پھڑایا ۔اس کے بعد میں نے"شعیرۃ الاسدیۃ"کو دیکھا وہ یہ کہتی ہوئی جارہی تھی کہ کہانت اور بت پرستی کو آپ کے بچے کی ولادت سے جو نقصان ہوا اس نے شعیرہ کو ہلاک کردیا ہے ۔بت پرستی کے لیے ہلاکت ہو پھر دوبارہ بت پرستی کے لیے ہلاکت ہو۔ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جو لوگوں میں سب سے زیادہ لمبا اور سب سے زیادہ سفید تھا ،اس نے مجھ سے میرے لخت جگر کو پکڑ لیا، اس کے منہ مبارک میں لعاب دہن لگایا اس کے پاس سونے کا ایک طشت تھا۔ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بطن ِمبارک کو شق کیا پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلبِ مبارک کو نکالا پھر قلب کو شق کیا۔ اس میں سے کالے رنگ کا نکتہ نکال کر اس کو پھینک دیا۔ پھر اس نے سرخ رنگ کی تھیلی نکالی اسے کھولا جس میں سفید موتی کی طرح کوئی چیز تھی۔ اس نے اس کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب کو بھر دیا، پھر اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اپنی جگہ پر لوٹا دیا۔ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیٹ مبارک پر ہاتھ پھیرا تو حضور مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنیند سے بیدار ہوئے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمحو کلام ہوئے لیکن میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کلام کونہ سمجھ سکی۔ اس شخص نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے کہا "اللہ تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اپنے حفظ و امان میں رکھے میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دل مبارک کو علم ، حلم، یقین، ایمان ، عقل اور شجاعت سے لبریز کردیا ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتمام انسانوں سے بہترین ہیں خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیروی کی، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر ایمان لایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا عرفان حاصل کیا پھر ہلاکت ہو ہلاکت ہو( اس نے یہ سات(7) مرتبہ کہا)اس شخص کے لیے جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مخالفت کی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نہ پہچانا"۔ پھر اس نوجوان نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اپنا لعاب دہن لگایا۔ زمین پر ایک شدید چوٹ لگائی۔ زمین میں سے دودھ کی طرح سفید پانی نکل آیا، اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اس پانی میں تین دفعہ غوطہ دیا۔ میں نے یہی گمان کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamڈوب گئے ہیں لیکن وہ نوجوان جب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو غوطہ دے کر نکالتا میں دیکھتی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرے کی نورانیت درخشاں آفتاب کی طرح ہوگئی ہے میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرۂ اقدس میں ایک روشنی دیکھی جو شام کے محلات پر اس طرح پڑ رہی تھی جس طرح سورج کی روشنی پڑتی ہے ۔پھر اس نوجوان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں "روح " پھونک دوں اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں "روح " کو پھونکااور ایک قمیص آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو پہنائی اور کہا کہ یہ دنیا کی آفات سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے امان ہے۔41

مذکور رہ بالا روایت کو ابن کثیر نے بھی کچھ مختلف جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہےچنانچہ وہ اس روایت کو نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وإنى لوحيدة فى المنزل وعبد المطلب فى طوافه، قالت: فسمعت وجبة شديدة، وأمرا عظيما، فھالنى ذلك،وذلك يوم الإثنين، ورايت كان جناح طير أبيض قد مسح على فؤادى فذھب كل رعب وكل فزع ووجل كنت أجد، ثم التفت فإذا أنا بشربة بيضاء ظنتھا لبنا، وكنت عطشانة، فتناولتھا فشربتھا فأصابنى نور عال، ثم رأيت نسوة كالنحل الطوال، كانھن من بنات عبد المطلب يحدقن بى، فبينا أنا أعجب وأقول: واغوثاه من أين علمن بى؟واشتد بى الأمر وأنا أسمع الوجبة فى كل ساعة أعظم وأھول، وإذا أنا بديباج أبيض قد مدبين السماء والأرض، وإذا قائل يقول: خذوه عن أعين الناس، قالت: رأيت رجالا وقفوا فى الھواء بأيديھم أباريق فضة وأنا يرشح منى عرق كالجمان، أطيب ريحا من المسك الأزفر، وأنا أقول: يا ليت عبد المطلب قد دخل على، قالت: ورأيت قطعة من الطير قد أقبلت من حيث لا أشعر حتى غطت حجرتى، مناقيرھا من الزمرد، وأجنحتھا من اليواقيت، فكشف اللّٰه لى عن بصيرتى، فأبصرت من ساعتيى مشارق الأرض ومغاربھا، ورأيت ثلاث علامات مضروبات، علم بالمشرق، وعلم بالمغرب، وعلم على ظھر الكعبة، فأخذنى المخاض واشتدبى الطلق جدا، فكنت كأنى مسندة إلى أر كان النساء، وكثرن على حتى كأنى مع البيت وأنا لا أرى شيئا، فولدت محمدا، فلما خرج من بطنى درت فنظرت إليه فإذا ھو ساجد وقد رفع أصبعيه كالمتضرع المبتھل، ثم رأيت سحابة بيضاء قد أقبلت من السماء تنزل حتى غشيته، فغيب عن عينى، فسمعت مناديا ينادى يقول: طوفوا بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم شرق الأرض وغربھا، وأدخلوه البحار كلھا، ليعرفوه باسمه ونعته وصورته.42
(حضرت آمنہ Radi Allah Anhumaفرماتی ہیں) میں گھر میں اکیلی تھی اور جناب عبد المطلب طواف کرنے گئے تھے ، تو ایک ایسے زبردست دھماکے کی آواز سنی ، کہ میں ڈر گئی ، پھر میں نے یوں محسوس کیا ، کہ سفید پرندوں نے اپنے بازؤوں سے میرے دل کو چھوا، تو دہشت اور درد کاملاً جاتا رہا۔ پھر میں نے غور کیا ، تو مجھے سفید رنگ کا شربت پیش کیا گیا ، میں پی گئی ،اور میں نے اپنے اندر زبردست خدائی تجلی محسوس کی ۔ بعدہٗ میں نے کئی بلند بالا عورتیں ، جو عبد مناف کی عورتوں کی طرح تھیں دیکھیں۔ جو مجھے گھیرے ہوئے تھیں ، دریں حال میں حیران تھی اور واویلا کر رہی تھی کہ انہیں میرے بارے میں کس نے بتایا ہے،وہ کہنے لگیں کہ ہم میں فلاں خاتون آسیہ زوجۂ فرعون اور فلاں مریم دُختر ِعمران ہے ،اور باقی بہشت کی حوریں ہیں ۔ میری حالت مزید بگڑ گئی ، میں نے دیکھا کہ ایک چادرزمین و آسمان کے درمیان تان دی گئی ۔ میں نے ایک شخص کو کہتے سنا ۔ لوگوں کی نگاہ آپ پر نہ پڑنے دو، پھر میں نے کچھ لوگوں کو اوپر فضامیں کھڑا دیکھا، جن کے ہاتھوں میں چاندی کے لوٹے تھے ۔ پھر میں نے پرندوں کا ایک غول دیکھا ،جنہوں نے میرے حجرےکو گھیر لیا، ان کی چونچیں زمرد کی تھیں اور بازو یاقوت کے تھے ۔ اللہ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھادیا۔ چنانچہ میں نے مشرق و مغرب کا مشاہدہ کیا اور تین جھنڈے گڑے دیکھے ۔ ایک مشرق میں ، ایک مغرب میں اور ایک کعبے کی چھت پر ۔ اس حال میں مجھے درد زہ شروع ہوگیااور شدت اختیار کرگیا، مجھے ایسا محسوس ہواگویا کہ میں ان خواتین کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوں ۔میرے ارد گرد بہت سی عورتیں جمع ہوگئیں گویا کہ وہ سب میرے گھر کی ہی فرد ہوں۔ یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی ، دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسجدے میں پڑے ہیں ، اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائی ہوئی ہیں ، جیسے کوئی عجز و نیاز سے زاری کرتا ہے ۔ پھر میں نے آسمان سے سفید بادل آتا دیکھا ،جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ڈھانپ لیا اور میری نگاہوں سے چھپا لیا۔ پھر میں نے سنا ، ایک منادی کرنے والا کہہ رہا تھا ۔ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مشرق و مغرب میں ہر طرف گھماؤ۔ سمندروں میں لے جاؤ، تاکہ سب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نام ،ا وصاف اور شکل و شباہت سے واقف ہو جائیں ۔

اسی طرح کی دیگر روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے دورانِ ولادت کئی طرح کی مختلف اشیاء اور مختلف ذواتِ مقدسہ کو دیکھا جن میں وہ چند جنتی عورتیں بھی شامل ہیں جن کا ماقبل میں ذکر ہوا ہے۔

بوقتِ ولادت خواتین کی آمد

جن عورتوں کو حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anhaنے بوقتِ ولادت اپنے پاس دیکھا تھا ان کے بارے میں آپRadi Allah Anhaکے حوالہ سے شیخ حلبیRehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

أنھا قالت لما أخذنى ما يأخذ النساء أى عند الولادة وإنى لوحيدة فى المنزل رأيت نسوة كالنخل طولا كأنھن من بنات عبد مناف يحدقن بى....ما رأيت أضوأ منھن وجوھا، وكان واحدة من النساء تقدمت إلى فاستندت إليھا، وأخذنى المخاض، واشتد على الطلق، وكان واحدة منھن تقدمت إلى وناولتنى شربة من الماء أشد بياضا من اللبن وأبرد من الثلج وأحلى من الشھد، فقالت لى: اشربى فشربت، ثم قالت الثالثة: ازدادى فازددت، ثم مسحت بيدھا على بطنى وقالت: بسم اللّٰه اخرج بإذن اللّٰه تعالى، فقلن لى: أى تلك النسوة: ونحن آسية امرأة فرعون، ومريم بنت عمران، وھؤلاء من الحور العين.43
حضرت آمنہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں جب میں اس تکلیف میں مبتلا ہوئی جو ایسے وقت میں عورتوں کو ہوتی ہے تو اس وقت میں گھر میں اکیلی تھی مگر پھر میں نے کچھ عورتوں کو دیکھا جو کھجور کے درخت کی طرح لمبی ڈیل ڈول کی تھیں بالکل ایسی جیسے عبد مناف کے خاندان کی عورتیں ہوں اور یہ سب عورتیں میرے چاروں طرف جمع ہوگئیں۔۔۔ ان عورتوں کے چہرے ایسے چمک دار اور روشن تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، پھر ان عورتوں میں سے ایک بڑھ کرمیرے قریب آگئی اور میں اس کا سہارا لے کربیٹھ گئی، اس کے بعد مجھے دردِزہ ہوا اور تکلیف بڑھ گئی، پھر ایسا معلوم ہو ا جیسے ان عورتوں میں سے ایک میرے پاس تھوڑا سا پانی لے کر آئی جو دودھ سے زیادہ سفید تھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہدسے زیادہ میٹھا تھا، پھر اس نے مجھ سے کہا کہ اسے پی لو، میں نے وہ شربت پی لیا، پھر تیسری عورت نے کہا اور پیو، میں نے تھوڑا اور پی لیا، اس کے بعد اس نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیر ا اور کہا ۔"بِسْمِ اللہِ! اللہ کے حکم سے باہر44 تشریف لے آئیں"۔ اس حالت میں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپیدا ہوئے۔ میں نے دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسربسجود تھے اور اپنی انگشت شہادت آسمانوں کی طرف اٹھائی،یوں محسوس ہوتا تھا جیسے روکر التجا کی جارہی ہو۔ اس کے بعد ان عورتوں نے مجھے بتلایا کہ ہم میں سے ایک فرعون کی بیوی آسیہ ہے اور ایک عیسیٰ کی والدہ مریم بنت عمرانAlaihmus Salam ہیں اور ان کےساتھ جنت کی حوریں ہیں۔45

یعنی یہ خواتین نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ کے پاس اس لیے تشریف لائیں کہ انہیں اطمینان و انسیت حاصل رہے اور ان کی پریشانی میں کمی واقع ہو۔

دیگر مشاہدات

مذکورہ بالا مشاہدات کے علاوہ بھی کچھ مزید مشاہدات حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha نے ملاحظہ فرمائے چنانچہ آپ Radi Allah Anha کے حوالہ سے جمال الدین سرمری تحریر فرماتے ہیں:

قالت: بينا أنا أتعجب من ذلك إذا بثلاثة نفر ظننت أن الشمس تطلع من خلال وجوھھم فى يد الواحد منھم إبريق من فضة وفى الإبريق ريح كريح المسك وفى يد الثانى طست من زمرذ خضراء لھا أربع نواحى وعلى كل ناحية من نواحيھا لؤلؤة بيضاء وإذا قائل يقول: ھذه الدنيا شرقھا وغربھا وبرھا وبحرھا فاقبض ياحبيب اللّٰه على أى ناحية شئت منھا قالت: فنظرت فإذا ھو قابض على وسطھا فسمعت قائلا يقول: قبض على الكعبة ورب الكعبة أما إن اللّٰه تعالى قد جعلھا لك قبلة ومسكنا ورأيت على يد الثالث حريرة بيضاء قد طويت طيا شديدا فنشرھا فأخرج منھا خاتما تحار أبصار الناظرين دونه فأخذه صاحب الطست وأنا أنظر إليه فغسله بماء الإبريق سبع مرات ثم ختم بالخاتم بين كتفيه ختما واحدا ولفه فى الحريرة واستدار عليه بخيط من المسك الأذفر ثم حمله فأدخله بين أجنحته ساعة قال ابن عباس رضى اللّٰه عنھما: كان ذلك رضوان خازن الجنان قالت وقرأ فى أذنه كلاما كثيرا لم أفھمه وقبل بين عينيه وقال له أبشر: يا محمد فما بقى لنبى علم إلا وقد أعطيته وانت أكثرھم علما وأشجعھم قلبا معك مفاتيح النصر وقد أعطيت الأمن من الخوف والرعب.46
حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں کہ مجھے تین شخص نظر آئے، ان کے چہرے آفتاب سے زیادہ روشن تھے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کاکوزہ تھاجس میں سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی۔ دوسرے ہاتھ میں زمردکاایک طشت تھاجس کے چار پہلو تھے،ہر پہلو پر سفید موتی جڑا ہوا تھا، کسی کہنے والے نے کہاکہ یہ دنیاہے جس کی حدود مشرق ومغرب اور بحروبر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اے حبیب خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآپ جو کچھ چاہیں قبول کرلیں۔ پھر مجھےایک کہنے والے نے کہاکہ آج سےکعبۃ اللہ کو عظمت ملی ہے کیونکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی وجہ سے یہ قبلۂ امت محمدیہ بنے گا ۔میں نےبچہ کے ہاتھ میں سبز ریشم کا ٹکڑا دیکھا، یہ ریشم نور سے بھرپور تھا۔ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے آنکھیں کھولیں تو سامنے ایک ایسی انگشتری رکھی دکھائی دی کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ رہ گئیں، جس کو اس کوزے کے سفید پانی سے سات باردھویا گیا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دونوں کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت رکھی گئی اس پر ریشم کا ٹکڑا اور مشکِ اذفر کی دو تاریں باندھ دی گئیں اور پھر ا س بچہ کو میری گود میں رکھا گیا۔آپRadi Allah Anhaفرماتی ہیں کہ خازنِ جنت حضرت رضوان بھی اسی حالت میں حاضر ہوئے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کانوں میں تیز تیز باتیں کرتے جاتے تھے، مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی دونوں آ نکھوں کے درمیان بوسہ دےکر کہنے لگے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآپ کو مبارک ہو! پیغمبری کا کوئی ایسا علم نہیں جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکوعنایت نہ کیا گیا ہو۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamعلم میں سب پیغمبروں سے برتر ہیں ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamشجاعت میں سب سے زیادہ بہادر ہیں ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھ میں اللہ کی فتح کی کنجیاں ہیں، اب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو کسی قسم کا ڈر یاخوف نہیں ہونا چاہیے ۔

اسی طرح کی ایک اور روایت میں ایک اور شخص کے بارے میں ذکر ہے جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے گفتگو بھی کی چنانچہ حضرت آمنہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں کہ ایک اور شخص داخل ہوا تو اس نے تو پہلوں سے بھی زیادہ بات کی۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے منہ پر منہ رکھ دیا اور چومنے لگا جس طرح کبوتر اپنے بچے کی چونچ پر چونچ رکھتا ہے۔ میں دیکھتی رہی وہ محمد محمد( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کہہ کر پکارے جاتا پھر کہتا" زِدنی زِدنی"اور ساتھ ہی انگلی سے اشارہ کرتا ، پھر چومتا، کہتا اچھا دوست تمہیں مبارک ہو۔ تجھے پیغمبروں کی حلیمی عنایت کی گئی ہے۔ اس نےحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اٹھایا اور میری نظروں سے غائب کردیا میر ا دل دھڑکنے لگا،میں نے کہا اے قریش آج کی رات میرے بچے کی ولادت ہے جو آتا ہے جو چاہتا ہے بچے کے ساتھ کرتا ہے،میں بے بس ہوں میرے قبیلے کا کوئی فرد میرے پاس نہیں، میں ان عجائبات میں گھری ہوئی ہوں۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ بچے کو پھر میرے پہلو میں لاکر رکھا گیا جبکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح درخشندہ تھا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےجسم معطر سے کستوری سے بھی لطیف تر خوشبو مہکتی تھی۔ اتنے میں آوازآئی کہ بچے کولے لو ہم نے اسےمشرق و مغرب میں گھمالیا ہے،تمام پیغمبروں کے سامنے لے گئے ہیں، ابھی ابھی اپنے باپ حضرت آدم کے پاس تھا اور انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو گودمیں لیا اور ددنوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا تھااور کہا تھا تم میرے بیٹوں کے سردار ہو،اولین و آخرین کے سردار ہو، تمہیں دنیا کی عزت اور آخرت کا شرف مبارک ہو، جو شخص آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دین پر ہوگا قیامت کے دن محترم ہوگا ۔اہل ایمان آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، یہ بات کہتے ہوئے بچہ میرے حوالے کیا اور نظروں سے غائب ہوگیا اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا۔47

اسی طرح مشاہداتِ حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha کوبیان کرتے ہوئے صاحب امتاع تحریر فرماتے ہیں:

ثم أقبلت سحابة أخرى أعظم من الأولى ونور، يسمع منھا صھيل الخيل وخفقان الأجنحة من كل مكان، وكلام الرجال، حتى غشيته فغيب عنى أطول وأكثر من المرة الأولى، فسمعت مناديا ينادى ويقول: طوفوا بمحمد الشرق والغرب على مواليد النبيين، واعرضوه على كل روحانى من الجن والإنس والطير والسباع، وأعطوه صفاء آدم، ورقة نوح، وخلة إبراھيم، ولسان إسماعيل، وصبر يعقوب، وجمال يوسف، وصوت داود، وصبر أيوب، وزھد يحى، وكرم عيسى، واعمروه فى أخلاق الأنبياءثم تجلت عنه فى أسرع من طرف العين، فإذا به قد قبض على حريرة خضراء، مطوية طيا شديدا، ينبع من تلك الحريرة ماء معين، وإذا قائل يقول: بخ بخ، قبض محمد على الدنيا كلھا، لم يبق خلق من أھلھا إلا دخل فى قبضته طائعا بإذن اللّٰه تعالى.48
پھر تھوڑی دیرکے بعد ایک اور بادل کا ٹکڑا دکھائی دیا، وہ پہلے سے بڑا بھی تھااور نورانی بھی۔ مجھے اس بادل سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں سنائی دیں،پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی اور لوگوں کی مختلف باتیں۔ پھر دوبارہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیری نظروں سے غائب ہوگئے اور اس دفعہ کا وقفہ پہلے وقفہ سے زیادہ تھا۔ کسی منادی دینے والے نے کہاکہ (سیّد نا) محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مشرق و مغرب میں لے جاؤ۔ تمام پیغمبروں کے سامنے لے جاؤ، تمام روحوں کو زیارت سے مشرف ہونے دو،جن و انس طیورو حوش، چرند، پرندحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھ لیں، اس بچے کوحضرت آدم Alaihis Salamکی صفات، حضرت نوح Alaihis Salamکی رقت، حضرت ابراہیم Alaihis Salam کی خلت،حضرت اسماعیل Alaihis Salam کی لسانی فصاحت، حضرت یوسف Alaihis Salam کا جمال ، حضرت یعقوب Alaihis Salam کی بشارت،حضرت داؤدAlaihis Salam کی خوش آواز، حضرت ایوب Alaihis Salam کاصبر، حضرت یحییٰ Alaihis Salam کا زہد اور حضرت عیسیٰ Alaihis Salam کا کرم دےدو۔ تمام پیغمبروں کے اخلاق کویکجا کرکے فطرت(سیّد نا) محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں رکھ دو ۔بادل کا یہ ٹکڑا بھی غائب ہوگیا اور میں نے دیکھاکہ ایک سبز ریشمی کپڑے میں جس سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھےحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے پاس ہیں۔ مجھے ایک منادی کی مزید آواز آئی کہ مبارک ہو، محمدمصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamدنیا میں تشریف لارہے ہیں۔ دنیا بھر کی مخلوق اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آج سے ا ٓپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قبضہ میں ہے ۔

اسی طرح خطیب بغدادی کے حوالہ سے مذکورہ بالا روایت کو صاحب الخمیس نے بھی نقل کیا ہے49جس سےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anhaنے کئی طرح کے واقعات و معجزات کا مشاہدہ کیا اور انہیں اپنے قریبی افراد سے بیان بھی کیا۔

بعدِولادت خلق سے تعارف

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکوولادت کے بعد زمین کے مشرق ومغرب میں اور اسی طرح سمندر میں لیجا یاگیا تاکہ خلقِ خدا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے متعارف ہوجائےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی تحریر فرماتے ہیں:

رأیت سحابة بیضاء قد اقبلت من السماء نزلت حتی غشیته فغیب عن وجھى فسمعت منادیا ینادى ویقول طوفوا بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم شرق الارض وغربھا وادخلوه البحار كلھا عیرفوہ باسمه ونعته وصورته ویعلموا انه یسمى فیھا االماحى لایبقى شئى من الشرک الا محى به ثم تجلت عنه فى اسرع وقت فأذاانا به. مدرج فى ثوب صوف ابیض اشد بیاضا من اللبن وتحته حریرة خضراء وقد قبض على ثلاثة مفاتیح من الؤلؤ الرطب الابیض واذا قائل یقول قبض محمد صلى اللّٰه عليه وسلم على مفتاح النصرة ومفتاح الریح ومفتاح النبوة.50
(حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha بیان فرماتی ہیں :)پھر میں نے دیکھا کہ سفید رنگ کا بادل آسمان کی طرف سے آیا۔ اس نے حضور مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ڈھانپ لیا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمجھ سے غائب ہوگئے، میں نے ایک ندا کرنے والے کی ندا کو سنا وہ یہ صدا لگا رہا تھا کہ محمد ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کو زمین کے مشرق اور مغرب میں لے جاؤ۔ انہیں سمندروں کی بھی سیر کراؤتاکہ یہ سب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اسم مبارک، نعت اور شکل مبارک سے آشنا ہوجائیں اوریہ بھی انہیں معلوم ہوجائے کہ سمندروں میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نامِ مبارک "ماحی "ہےیعنی شرک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بدولت مٹ جائے گا۔پھر تھوڑی دیرکے بعد وہ بادل چھٹ گیا اور محمد مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو میں نےسفید صوف میں لپٹا ہوادیکھا جو دودھ سے زیادہ صاف اور ریشم سے زیادہ نرم تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نیچے سبز رنگ کا ریشم تھا۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سفید رنگ کی تین چابیوں کو پکڑ لیا،منادی کرنے والے نے ندا کی کہ محمد عربی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نصرت،منافع اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔51

پھرحضرت آمنہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں کہ میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے خالص کستوری کی خوشبو آرہی ہے ۔ اتنے میں میں نے تین آدمی دیکھے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا، دوسرے کے ہاتھ میں زمردکا تھال اور تیسرے کے پاس سفید ریشمی کپڑا تھا ۔ کپڑے کو کھولا ، تو اس میں سے ایک ایسی انگوٹھی نکلی ،جسے دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتیں ۔ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو لوٹے سے سات مرتبہ نہلایا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کندھوں کے درمیان مہر لگائی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ریشمی کپڑےمیں لپیٹا ، تھوڑی دیر کے لیے اپنے پیروں کے نیچے رکھا اور پھر مجھے واپس کر دیا۔52

نفیس ونظّاف ولادت

جس طرح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے دوران دیگر کئی کمالات ومعجزات رونماہوئے اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت بھی باقاعدہ ایک انفرادیت اور نمایاں طرز سے ہوئی ہے۔سب سےپہلے تو یہ کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت بالکل صاف و شفاف ہوئی ہے ۔چنانچہ اس حوالہ سے صاحبِ سبل الھدی تحریری فرماتے ہیں:

عن إسحاق بن أبى طلحة مرسلاً رحمه اللّٰه تعالى أن آمنة قالت: وضعته نظيفاً، ما ولدته كما يولد السّخل، ما به قذر.53
اسحاق بن ابو طلحہ Rehmatullah Alaihسے مرسلاروایت یہ کہ حضرت آمنہRadi Allah Anhaبیان فرماتی ہیں:میں نے انہیں(رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کو ستھرا پیدا کیا ہے ایسے پیدا نہیں کیا جیسا کہ بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے ،دورانِ ولادت ان کے ساتھ کسی قسم کی نا مناسب چیز نہیں تھی۔

اسی طرح حضرت صفیہRadi Allah Anha بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نہلانے کاا رادہ کیا تو آواز آئی: اے صفیہ! ہم نےاپنے محبوب کو پاک صاف پیدا کیا ہے۔54

مہد میں کلمہ طیبہ

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی ولادت کے دوران چند کلمات بھی ادا فرمائے ہیں جنہیں مختلف کتب سیر میں مختلف انداز اور کلمات کے ساتھ نقل کیا گیا ہے چنانچہ ابو نعیم نے اس حوالہ سے ایک روایت کو عبد الرحمٰن بن عوف Radi Allah Anho کی والدہ الشفاء کے حوالہ سے اپنی "دلائل" میں نقل کیا ہے جس میں مذکور ہے:

قالت أى الشفاء بنت عمرو: لما ولدت آمنة محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم وقع على يدى، فاستھل، فسمعت قائلا يقول: رحمك ربك، قالت الشفاء: فأضاء لى مابين المشرق والمغرب، حتى نظرت إلى بعض قصور الشام، قالت: ثم ألبنته، وأضجعته.55
میری والدہ شفاء بنت عمروفرماتی ہیں کہ حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جنا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے ہاتھوں پر تشریف لائےپھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بلند آواز سے تسبیح بیان کی ۔پھر میں نے ایک شخص کو کہتے سناکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر خدا کی رحمت ہو ۔ پھر مشرق و مغرب تک ساری دنیا چمک اٹھی یہاں تک کہ میں نے شام کے بعض محلات دیکھ لیے ۔ بعدمیں ہم نےہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو کپڑے میں لپیٹا اور لٹا دیا۔

اسی طرح مروی ہے کہ حضرت صفیہ Radi Allah Anhaبیان فرماتی ہیں کہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پیداہوئےتوسب سے پہلے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سجدہ فرمایا اور پھر فصیح و بلیغ زبان میں "لَا اِلٰه اِلَّا اللّٰه اِنِّى رَسُولُ اللّه" پڑھا۔میں نے دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ کے نور سے تمام گھر روشن ہوگیا۔56

اسی طرح اس حوالہ سےامام سہیلی سے نقل کرتے ہوئے شيخ احمد حلبی تحریرفرماتے ہیں:

أنه صلى اللّٰه عليه وسلم لما ولد تكلم، فقال: جلال ربي الرفيع وروي أن أول ما تكلم به لما ولدته أمه حين خروجه من بطنھا اللّٰه اكبر كبيرا والحمد للّٰه كثيرا وسبحان اللّٰه بكرة وأصيلا.57
بلا شبہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب پیدا ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے یہ کلام فرمایا:میرے رب کی بزرگی بلند ہے اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ بے شک جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ان کی والدہ محترمہRadi Allah Anha نے جنا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سب سے پہلے یہ کلام فرمایا:ا للہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں کثرت کے ساتھ اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے لیے صبح و شام ہر عیب سے پاکی ہے ۔

ان روایات میں قدرِ مشترک بات یہ ہے کہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سب سے پہلے اس دنیا میں آکر اللہ تبار ک وتعالیٰ کی حمد وستائش بیان فرمائی ہے جو کہ انبیاء کرام Alaihmus Salamکا وظیفۂ حیات ہے۔

ولادتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبحالت ِسجدہ

اسی طرح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نہ صرف تسبیح و تہلیل بیان فرمائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پیدا ہوتے ہی ہاتھوں کوزمین پر رکھ کر سرانور کو آسمان کی طرف بلند بھی فرمایاگویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدو ستائش کے ساتھ ساتھ اس کی بارگاہ ربوبیت میں سجدہ ریزی بھی فرمانا چاہتے ہوں چنانچہ اس حوالہ سے حافظ ابو نعیم دلائل میں تحریرفرماتے ہیں:

فلما وضعته نارت الظراب لوضعه، واتقى الأرض بكفيه، حين وقع، وأصبح يتأمل السماء بعينيه، وكفأن عليه برمة ضخمة، فانفلقت عنه فلقتين.58
جب حضرت آمنہRadi Allah Anha نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جنا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کی وجہ سے بلندٹیلے روشن ہوگئے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےاپنی ہتھیلیوں سمیت زمین پر ٹیک لگایا۔( گویا کہ سجدہ کی حالت میں ہوں)اور صبح کے وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں آسمان کی جانب مرکوز تھیں۔(عورتوں نے) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر عرب کے رواج کے مطابق ایک ہانڈی رکھدی تو (جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھا گیا )تو اس ہانڈی کے دوٹکرے ہوچکے تھے۔

اس واقعہ کو ابن حبان 59اورصاحب سبل الھدی نے بھی اپنی کتاب میں اسی طرح نقل فرمایاہے۔ 60 اسی طرح اس حوالہ سے شیخ حلبی ان روایات کو نقل کرتےاوراس پر تبصرہ کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ولما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وقع على الأرض مقبوضة أصابع يده يشير بالسبابة كالمسبح بھا أقول: وفى رواية عن أمه أنھا قالت «لما خرج من بطنى نظرت إليه، فإذا ھو ساجد قد رفع أصبعيه كالمتضرع المبتھل ولا مخالفة، لجواز أن يراد بأصبعيه السبابتان من اليدين، وفى سجوده إشارة إلى أن مبدأ أمره على القرب من الحضرة الإلھية قال وروى ابن سعدأنه صلى اللّٰه عليه وسلم لما ولد وقع على يديه رافعا رأسه إلى السماء وفى رواية وقع على كفيه وركبتيه شاخصا ببصره إلى السماء.61
جب آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپیدا ہوئے تو زمین پر اس طرح تشریف لائے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اس طرح اٹھی ہوئی تھی جس طرح اس سے تسبیح(یعنی نماز میں خدا کی وحدانیت کا اشارہ)کیا کرتے ہیں ۔ ميں(شيخ حلبی)کہتا ہوں کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدہ Radi Allah Anhaفرماتی ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کے بعد جب میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسجدہ میں تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی انگلیاں اس طرح اٹھارکھی تھیں جیسے کوئی انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے والا ہوتا ہے ۔ ان روایتوں میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ ممکن ہے انگلیوں سے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں مراد ہوں ۔ پیدائش کے وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سجدے کی حالت میں ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پاکیزہ زندگی کی ابتداء ہی اللہ تعالیٰ سے قرب کے ساتھ ہے۔جبکہ ابن سعدRadi Allah Anho سے روایت ہے کہ حضرت آمنہRadi Allah Anha فرماتی ہیں کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپیدا ہوئے توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے ہاتھوں کےبل زمین کی طرف مائل تھے۔ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ آپ اپنی ہتھیلیوں اور گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نگاہیں آسمان کی طر ف بلندتھیں۔ 62

ابنِ ہشام نے بھی وقت ولادت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھ کے بل جھکے ہونے اور سرِ مبارک آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہونےکا تذکرہ کیا ہے۔63 اسی طرح اس حوالہ سے صاحب سبل الھدی تحریر فرماتے ہیں:

وروى ابن سعد وأبو نعيم بسند قوى عن حسان بن عطية أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لما ولد وقع على كفيه وركبتيه شاخصاً ببصره إلى السماء زاد السّهيلي: مقبوضة أصابع يده مشيراً بالسبّابة كالمسبّح بھا.64
ابن سعداور ابو نعیم نے قوی سند سے حسان بن عطیۃ سے روایت کیا ہے کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی ہتھیلیوں اور گھٹنوں کے بل زمین پر تشریف لائے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نظر مبارک آسمان کی طرف تھی۔ امام سہیلی نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھ مبارک کی انگلیاں بند تھیں صرف سبابہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamیوں اشارہ فرمارہے تھے گویاکہ تسبیح بیان فرمارہے ہوں۔65

اسی طرح آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیدائش کے وقت آسمان کی جانب سر اور نگاہیں اٹھائے ہوئے ہونے کے متعلق قصیدہ ہمزیہ کے مصنف نے اپنے ان شعروں میں اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

رافعا  رأسه  و فى  ذلك  الرف   عإلى       كل       سودد      إيماء
رامقا   طرفه   السماء   ومرمى   عين  من  شأنه  العلو  العلاء.66

پیدائش کے وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنا سر اوپر اٹھائے ہوئے تھے اور اس سر کے اٹھانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamعظمت اور سرداری والے ہیں ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نگاہیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نگاہوں کا بلند مرکز آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بلند و بالا شان کا اظہار کر رہا تھا۔67

ان روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس دنیامیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور اس کی تسبیح وتہلیل کرتےہوئے پیدا ہوئے اور اس میں اشارہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بعثت اسی لیے ہوئی ہے کہ مخلوقِ خدا کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور اس کی تسبیح وتہلیل میں لگادیں۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جدِّ امجد کی خوشی

رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے دوران ان مشاہدات و واقعات کے ملاحظہ کرنے کے بعد حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha نے اپنے خسر محترم یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جدّ امجد حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho کو بلا بھیجا تا کہ انہیں بھی ان واقعات کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشخبری دیں۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

فلما وضعته، بعثت إلى عبد المطلب جاريتھا....فقالت: قد ولد لك الليلة غلام فانظر إليه، فلما جاءھا، أخبرته خبرہ، وحدثته بما رأت حين حملت به، وما قيل لھا فيه، وما أمرت أن تسميه، فأخذہ عبد المطلب فأدخله فى جوف الكعبة، فقام عبد المطلب يدعو اللّٰه، ويشكر اللّٰه الذى أعطاه إياه.68
جب حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جنا تو (اس کی اطلاع دینے کے لیے) اپنی کنیز کو (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دادا)حضرت عبدالمطلب Radi Allah Anho کے پاس بھیجا۔۔۔(باندی نے آپ کے پاس جاکر)کہا کہ آپ کے ہاں رات ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا ہےاسے آکردیکھ لیں۔پھر جب حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho حضرت سیّد ہ آمنہ Radi Allah Anha کے پاس تشریف لائے توحضرت آمنہ Radi Allah Anhaنےان کو وہ سارے واقعات بتائے جو وقتِ حمل رونما ہوئے تھے،جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بارے میں کہا گیاتھا اور جو نامِ نامی رکھنے کے بارے میں انہیں حکم دیا گیا تھا۔حضرت عبد المطلب Radi Allah Anhoنے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اٹھایا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو خانہ کعبہ کے اندرلے گئےاور رب تعالی سے دعائیں مانگنے لگے۔اس عطاء خداوندی پر اس کا شکرا دا کرنے لگے۔

ان کےعلاوہ کچھ ایسے شعر بھی کہے جن میں انہوں نے اپنے پوتے آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن و جمال کو غلمان کے حسن و جمال سے برتر بتایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذاتِ والا صفات اور حیات طیبہ کی برکات سے آئندہ ساری دنیا کو فیض پہنچنے کا خیال بھی ظاہر کیا اور اپنے اس ارادے کا اظہار بھی کیا کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو بیت اللہ میں اللہ کی نذر کے طورپر لے جاکر پیش کریں گے۔69

بیت اللہ کا سجدہ کرنا

اسی طرح دیگر واقعات کی طرح یہ بھی واقعہ منقول ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت بیت اللہ نے سجدہ کیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے جمال الدین السرمری معجزات ولادت کا ذکرکرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

ومنھا: ما ذكر عبدالمطلب أنه كان عند الكعبة ليلة ولادة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال: لما انتصف الليل إذا أنا بالبيت الحرام قد مال بجوانبه الأربعة فخر ساجدا فى مقام إبراھيم عليه الصلاة والسلام كالرجل الساجد ثم استوى قائما وأنا أسمع له تكبيرا عجيبا ينادى: اللّٰه أكبر رب محمد المصطفى الآن قد طھرنى ربى من أنجاس المشركين وحمية الجاھلية ونظرت إلى الأصنام كلھا تنتفض كما ينتفض الثوب ونظرت إلى الصنم الأعظم ھبل قد أكب على وجھه وسمعت مناديا ينادى: ألا إن آمنة ولدت محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم .70
انہی نشانیوں میں سے ایک وہ بھی ہے جسے حضرت عبد المطلب Radi Allah Anhoنے بیان کیا ہے کہ وہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادتِ مبارکہ کی رات خانہ کعبہ میں تھے۔ فرماتے ہیں کہ جب رات کاآخری پہر آیا تومیں بیت الحرم میں ہی تھا اتنے میں خانہ کعبہ اپنے چاروں سمت سمیت جھکا اور مقام ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام میں ایک سجدہ کرنے والے شخص کی طرح سجدہ ریز ہوگیا اور پھر کھڑا ہوا تو میں نے اس سے ایک عجیب تکبیر سنی کہ وہ کہ رہا تھا : اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے جومحمد مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رب ہے، تحقیق مجھے میرے رب نے بت پرستوں کی ناپاکیوں سے اوردور جاہلیت کی حمیت سے پاک فرمادیا۔میں نے بتوں کو دیکھا کہ تمام کے تمام اس طرح گرنے لگے جس طرح کپڑوں کو جھاڑا جاتا ہے۔میں نے سب سے بڑے بت ہبل کو دیکھا کہ وہ منہ کے بل گرا ہوا تھااور منادی کرنے والے کو سنا جو پکار رہا تھا:خبردار کہ حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha حضرت محمد( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) كی ولادتِ باسعادت سے مشرّف ہوگئی ہیں۔

اس موقع پر حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho نے درجِ ذیل اشعار بھی پڑھے:

الحمد      للّٰه      الذى     اعطانى    ھذا   الغلام  الطیب   الاردان
قد  ساد  فى  المھد  على  الغلمان    اعیذه   بالبیت  ذى  الار  كان
حتى      اراه     بالغ     البنیان   اعیذه  من    شر   ذى    شنان
          من  حاسد  مضطرب  العیان .71

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ پاکیزہ لباس اور منزہ ذات والا پوتا عطا فرمایاہے۔ جو پنگھوڑے میں ہوتے ہوئے سب بچوں پر فوقیت لے گئے ہیں۔ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مبارک ارکان اور اطراف و اکناف والے گھر کی پناہ میں دیتا ہوں۔حتی کہ میں ان کو اس حال میں دیکھوں کہ وہ مکمل اور مضبوط وتوانا جوان ہوں۔میں ان کو کینہ ور دشمن کے شر سے(اللہ تعالی)کی پناہ میں دیتا ہوں اور اس حاسد کے شر سے بھی جس کی آنکھیں مرضِ حسد کی وجہ سے بے چین و بے قرار ہیں۔ 72

ابن سعد نے "طبقات الکبری"میں 73اور امام ماوردی نے "اعلام النبوۃ"میں بھی یہ اشعارمختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیے ہیں۔74بہر کیف ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عبد المطلب نےنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے موقع پر ایسے اشعار پڑھے جن میں اللہ تبار ک وتعالیٰ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدح و سرا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پناہ کی درخواست بھی کی گئ تھی۔

وقتِ ولادت زلزلہ

آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیدائش کے وقت جو عجیب واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس رات کعبے میں زلزلہ آیا اور وہ تین دن ، تین رات تک ہلتا رہا ۔چنانچہ اس حوالہ سے امام حلبی تحریر فرماتے ہیں:

ولیلة ولادته تزلزلت الکعبة ولم تسکن ثلاثة ایام ولیا لیھن وكان ذلک اول علامة رات قریش من مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.75
آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کی رات کعبے میں زلزلہ آیا اور وہ تین دن، تین رات تک ہلتا رہا اورآنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیدائش کی علامتوں میں یہ پہلی علامت تھی جس کو قریش نے دیکھا۔

اسی طرح اس روایت کو امام سیوطی نے بھی نقل کیا ہے 76اوریہ زلزلہ اس بات کی علامت تھی کہ کعبہ جیسی مقدس جگہ جس کو کفار نے بتوں کا اڈہ بنا رکھا تھا اس کو بتوں سے پاک کرنے اور اس کا احترام کرنے کا وقت آگیا۔اسی طرح یہ زلزلہ صرف کعبہ شریف میں نہیں بلکہ دیگر مقامات پر بھی آیا تھا۔ان میں سے کسریٰ 77نوشیرواں یعنی ایرانی سلطنت کے شہنشاہ کا محل بھی تھا جو ولادت ِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وقت ہلنے لگا اور اس میں شگاف پڑگئے،وہ محل اچانک گر گیا۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے ابو نعیم اپنی دلائل میں تحریر فرماتے ہیں:

لما كان لیلة ولد فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ارتجس ایوان كسرى وسقطت منه اربعة عشر شرافة.78
اس رات جس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمتولد ہوئے تو کسریٰ کا محل ہلنے لگا اور اس کے چودہ کنگورے گرگئے۔

اس محل کے گرنے کی حکمت کے بارے میں شیخ حلبی کی رائے یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسا اس لیے فرمایا تاکہ محل کی تباہی و بربادی روئے زمین پر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی نشانی کے طور پر باقی رہے۔79

ولادت پر آتشِ فارس سرد

اسی طرح ولادت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کے وقت فارس کی آگ جو کنگوروں میں مستقل جلتی رہتی تھی اچانک بجھ گئی چنانچہ شیخ ابو نعیم اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

وخمدت نار فارس ولم تخمد قبل ذلک بالف عام.80
(ولادت ِرسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بعد) فارس کے آتش کدہ کی آگ بھی بجھ گئی حالانکہ یہ آگ اس سے ایک ہزار (1000) سال پہلے سےنہیں بجھی تھی ۔

اسی حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی تحریر فرماتے ہیں:

وخمدت نار فارس مع ایقاد خدامها لهاوكتب صاحبن فارس لكسرى ان بیوت النار خمدت تلک اللیلة ولم تخمد قبل ذلک بالف عام.81
فارس کے آتشکدہ کی آگ اس کے خداموں کے بھڑکانے کے باوجودبجھ گئی ۔ اس کے متعلق فارس کے بادشاہ نے کسریٰ کو لکھا کہ (اس رات جس میں آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی) تمام آتش کدوں کی آگ ٹھنڈی ہوگئی جبکہ اس سے پہلے ایک ہزار (1000) سال سے نہیں بجھی تھی۔

اس مذکورہ نشانی کے علاوہ ایک یہ بھی نشانی ظاہر ہوئی کہ اسی رات میں دریائے ساوہ82 کاپانی بھی ختم ہوگیا تھا جو فارس کا مشہور دریا ہے ۔یہ دریا اس طرح سوکھ گیا جیسے اس میں کبھی پانی رہا ہی نہیں تھا حالانکہ یہ دریا کافی گہرا اور نہایت لمبا و چوڑا تھا۔ فارس کے بادشاہ کو یہ بات اس کے یمن کے گورنر نے لکھ کر بھیجی تھی۔83 اسی واقعہ کی طرف عیون الاثر کے مصنف نے ان شعروں میں اشارہ کیا ہے:

لمولدة  إيوان  كسرى   تشققت   مبانيه  وانحطت  عليه  شؤونه
لمولده   خرت   على  شرفاته   فلا   شرف    للفرس   يبقى
      حصينه  لمولده  نيران  فارس  أخمدت.84

آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کی برکت سے کسریٰ شاہ فارس کے محل کی بنیادیں پھٹ گئیں اور ان پر اس کی دیواریں گر گئیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش سے اس کی بلندیاں جھک گئیں ، اب فارس والوں کا کوئی ایسا اعزاز نہیں رہا جس سے ان کی عظمت باقی رہے۔ آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کی برکت سے فارس کے آتش کدوں کی آگ بجھ گئی.85

ان مذکورہ بالا نشانیوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ابلیس لعین کی پریشانی صد فیصد درست ہوئی کہ اس نومولود کی وجہ سے ہمارا مکمل نظام تباہ وبرباد ہوجائے گا کیونکہ مذکورہ بالا مقامات باطل کی پرستش کا منبع تھے اور ان کا گرنا اور تباہ ہونا حکمتِ الہیہ کے مطابق تھا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حق آچکا ہے۔

ولادت پر پیشوائے فارس کا خواب

کچھ خواب وہ تھے جو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خاندان کے قریب ترین افراد نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے حوالہ سے دیکھے تھے جیسا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی والدۂ محترمہ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جد امجد نے دیکھے تھے۔لیکن کچھ خواب ولادتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وقت بادشاہوں نے بھی دیکھے تھے جن میں ان کی تباہی و بربادی دکھائی گئی تھی۔کتبِ سیر میں اکثر سیرت نگاروں نے ان خوابوں کو بیان کیا ہے۔یہاں مختلف کتب سیر سے اس خواب کو نقل کیا جا رہا ہے:

موبذان 86نے آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت خواب میں دیکھا کہ جفاکش اونٹ عربی گھوڑوں کو ہنکار رہے ہیں اور انہوں نے دجلہ یعنی بغداد کی نہر کو پار کرلیا ہے اور وہاں کے شہروں میں پھیل گئے ہیں۔ ادھر کسریٰ نے اپنے محل کو لرزتے اور اس کے جھروکوں کو گرتے دیکھا جس سے وہ سخت گھبرایا اور خوفزدہ ہوگیا مگر اس خیال سے کہ اپنی کمزوری ظاہر نہ ہو اس نے صبر سے کام لیا اور صبح کو اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہیں کیا مگر پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کی گھبراہٹ اور پریشانی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اس معاملے کو اپنے فوجی افسروں اور بہادر سرداروں سے چھپا نہیں سکتا چنانچہ اس نے ان سب سرداروں کو دربار میں حاضر ہونے کے لیے کہلوا دیا۔ اس کے بعد کسریٰ نو شیرواں نے اپنا تاج سر پر پہنا اور شاہی تخت پر جاکر بیٹھ گیا اور سرداروں کو اطلاع کرادی۔87

جب سب جمع ہوگئے تو اس نے ان سے کہاکہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں بلایا ہے؟درباریوں نے کہا کہ نہیں ہمیں بالکل معلوم نہیں ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ بادشاہ کے پاس کسی دوسرے علاقے سےایک خط آیا جس میں اس حیرتناک واقعے کی اطلاع دی گئی تھی کہ جس رات میں بادشاہ کا محل پھٹا تھا اسی رات میں ہمارے آتش کدوں یعنی عبادت گاہوں کی آگ بجھ گئی۔ کسریٰ کے پاس ایک خط ایلیا کے گورنر کا آیا کہ رات دریائے ساوہ کا پانی خشک ہوگیا۔ ایک خط شام کے گورنر کے پاس سے آیا کہ رات وادئ سماوہ کا راستہ زلزلہ کی وجہ سے پھٹ کر ختم ہوگیا۔ اسی طرح ایک خط طبریہ کے گورنر کے پاس سے آیا کہ دریائے طبریہ میں اچانک پانی کا بہاؤ بند ہوگیا۔ان میں سے ہر حادثہ اسی رات میں پیش آیا جس میں آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپیدا ہوئے اور یہ ساری علامتیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش کی وجہ سے ہی ظاہر ہوئیں ۔چنانچہ کسریٰ کو اب تک اپنے ہی واقعے کا رنج و غم کم نہیں ہوا تھا کہ اچانک یہ سب اندوہناک خبریں ملیں جس سے اس کا غم اور گھبراہٹ اور زیادہ بڑھ گئی۔ آخر کسریٰ نے یہ سب خبریں سننے کے بعدحاضرین کو وہ واقعہ سنایا جو خود اس کی پیش آیا تھا اور جس سے وہ بہت زیادہ خوفزدہ اور گھبرایا ہوا تھا۔ (یعنی محل کا لرزنا، اس میں شگاف پڑجانا اور اس کی چودہ (14)کھڑکیوں کا بغیر کسی کمزوری کے گر پڑنا ) ۔یہ ساری باتیں سن کر موبذان یعنی سب سے بڑے راہب نے کہا۔خدا بادشاہ کو سلامت رکھے میں نے بھی اس رات ایک خواب دیکھا تھا۔

اس کے بعد موبذان نے وہی اپنا اونٹوں والا خواب بیان کیا جو پچھلی سطروں میں ذکر ہوچکا ہےکسریٰ نے یہ سب کچھ سن کر پوچھا وہ کیا بات ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے یہ حادثے پیش آرہے ہیں؟موبذان نے کہا:یہ کوئی ایسا واقعہ ہے جو عرب کےعلاقے میں پیش آیا ہے۔ حیرہ میں جو آپ کا گورنر ہے آپ اس کے پاس پیغام بھیجئے کہ وہ اپنے علاقے سے یعنی عربوں میں سےکسی عالم کو آپ کے پاس بھیجے ۔ یہ لوگ نئے پیش آنے والےحادثوں کے متعلق بہت علم رکھتےہیں.88

کسریٰ کو یہ مشورہ پسند آگیا اوراس نے اسی وقت حیرہ کے گورنر کو یہ خط لکھاکہ "یہ فرمان ہے شہنشاہ کسریٰ کی طرف سے حیرہ کے گورنر نعمان ابن منذر کے نام۔ تم میرے پاس اپنے کسی عالم کو بھیجو کیونکہ میں اس سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں"۔جب نعمان ابن منذر کو یہ شاہی فرمان ملا تواس نے ایک زبردست عالم اور کاہن عبدالمسیح غسّانی کو کسریٰ کے پاس بھیجا۔جب عبد المسیح کسریٰ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں کیا تمھارے پاس اس کا علم ہے؟عبد المسیح نے کہا کہ بادشاہ جو پوچھنا چاہیں پوچھیں ۔اگر میرےپاس اس کا علم ہوا تو میں بتادونگا ورنہ کسی بڑے عالم سے پوچھ کر بتادونگا۔کسریٰ نے اسے تمام باتیں بتادیں۔عبد المسیح نے سن کر کہا کہ ان باتوں کے بارے میں میرے پاس علم نہیں ہے بلکہ ان کا علم میرے ماموں کے پاس ہے جو اس وقت شام میں رہتے ہیں اورلوگ انہیں سطیح کے نام سے پکارتے ہیں۔کسریٰ نے یہ سن کر اس سےکہا کہ تم جلدی اپنے ماموں کے پاس جاؤ اور ان باتوں کا معلوم کر کے مجھے بتاؤچنانچہ شاہ کسریٰ کی طرف سے عبدالمسیح ملک شام میں سطیح کے پاس پہنچا جو اس وقت اپنی آخری سانسیں پوری کررہا تھا ۔عبدالمسیح نے وہاں پہنچ کر سطیح کو سلام کیا ں مگر سطیح نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر عبدالمسیح نے سطیح کے سامنے کچھ شعر پڑھے جن میں سے ایک مصرعہ یہ ہے:

اَصَمَّ ام یسَمْع غطْریف الیَمن .89
یعنی یمن کا سردار بہرا ہوگیا ہے یا میری بات سن رہا ہے۔

جب سطیح نے عبدالمسیح کے یہ شعر سنے تو اس نے اپنا سر اٹھایا عبدالمسیح کے بتلانے سے پہلے اس کے آنے کا مقصد بتلاتے ہوئے کہا:

تجھے شاہِ ساسان نے بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس کا محل لرزاٹھا اور آتش کدوں کی آگ بجھ گئی اور موبذان کے ایک خواب کی وجہ سے بھیجا ہے جس میں اس نے دیکھا ہے کہ کمزور اونٹ عربی گھوڑوں کو ہنکا ررہے ہیں اور انہوں نے دریائے دجلہ کو پار کرلیا ہے اور وہ دریائے دجلہ کے علاقے کے شہروں میں پھیل گئے ہیں۔90 اے عبدالمسیح ! اگر تلاوت بڑھ گئی یعنی مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور عصا91 لے کر چلنے والا ظاہر ہوگیا ، دریائے ساوہ خشک ہوگیا اور فارس کی آگ بجھ گئی یعنی مجوسی مذہب ختم ہوگیا تو جفا کش اونٹوں کے مقابلے میں گھوڑوں کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی اور نہ سطیح کے لیے ملک شام، شام رہے گا۔ ان ہی میں سے یعنی فارسیوں میں سے اپنے اپنے مرتبے کے اعتبار سے کچھ بادشاہ اور ملکہ ہوں گے مگر جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کررہے گا۔اس کے بعد سطیح اسی وقت مر گیا۔ 92اس کے بعد عبدالمسیح واپس کسریٰ کے پاس آیا اور جو کچھ سطیح نے کہا تھا وہ بادشاہ کو بتایا کسریٰ نے غالباً دوسرے کاہنوں سے بھی معلومات کی تھیں چنانچہ اس نے عبدالمسیح کی بات سن کر کہا:عرب کے نبی کافارس پر اس وقت تک قبضہ نہیں ہوگا 93جب تک کہ ہم میں سےچودہ اشخاص بادشاہ نہیں بن جاتے۔94

بنو عامر کا بوڑھا

مذکورہ بالا تمام معجزات وواقعات کی تائیدوتوثیق درجِ ذیل ایک واقعہ سے ہوجاتی ہے جس میں بنو عامر قبیلہ کے ایک بزرگ نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آکر چند سوالات کیے اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےا ن سوالات کے جوابات دیےچنانچہ اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے شیخ حلبی تحریر فرماتے ہیں:

وعن شداد بن أوس رضى اللّٰه تعالى عنه قال بينا نحن جلوس مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذ أقبل شيخ كبيرمن بنى عامر ھو بدرة قومه أى المقدم فيھم يتوكأ على عصا فمثل بين يدى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ونسبه إلى جده، فقال: يا ابن عبد المطلب إنى أنبئت أنك تزعم أنك رسول اللّٰه إلى الناس أرسلك بما أرسل به إبراھيم وموسى وعيسى وغيرھم من الأنبياء ألا أنك فھت بعظيم، وإنما كانت الأنبياء والخلفاء أى معظمھم فى بيتين من بنى إسرائيل وأنت ممن يعبد ھذه الحجارة والأوثان، فمالك وللنبوة، ولكن لكل حق حقيقة فأنبئنى بحقيقة قولك وبدء شأنك؟ قال: فأعجب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بمسألته ثم قال: يا أخا بنى عامر إن لھذا الحديث الذى سألتنى عنه نبأ ومجلسا فاجلس فثنى رجليه ثم برك كما يبرك البعير، فاستقبله النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بالحديث فقال: يا أخا بنى عامر إن حقيقة قولى وبدء شأنى أنى دعوة أبى إبراھيم .95
حضرت شداد ابن اوسRadi Allah Anhoسے روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ بنی عامر کاایک بڑا شیخ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس آیا۔ وہ اپنی قوم کا سردار تھا اور لاٹھی کے سہارے آیا تھا۔اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سامنے ایک مثال دے کر بات کی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دادا تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نسب ذکر کیا اور کہنے لگا:اے عبدالمطلب کے بیٹے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنے آپ کو لوگوں کے لیے اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں جس نے آپ کو وہی چیز (شریعت) دےکر بھیجا ہے جو ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ وغیرہ جیسے نبیوں کو دے کر بھیجا تھا مگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ایک بہت بڑی بات زبان سے نکالی ہے۔ تمام انبیا ء اور خلفاء یعنی بڑے بڑے نبی، بنی اسرائیل کے دو خاندانوں میں ہوئے ہیں جب کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو پتھروں اور بتوں کو پوجنے والے ہیں اس لیے تمہیں نبوت سے کیا کام! مگر چونکہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے اس لیے تم اپنے دعویٰ کی حقیقت اور اپنی اصلیت مجھے بتلاؤ!آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اس شخص کے سوالات پسند آئے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس سے فرمایا:اے بنی عامر کے بھائی! تم نے جو باتیں مجھ سے پوچھی ہیں ان کے جواب تفصیل اور وقت چاہتے ہیں۔اس پروہ شخص چار زانوں ہو کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے اونٹ ٹانگیں موڑ کر بیٹھا کرتا ہے اور اس نے اپنا رخ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف کرلیا۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:اے بنی عامر کے بھائی! میرے قول اور دعویٰ کی حقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا96 اور اپنے بھائی عیسیٰ کی بشارت و خوش خبری ہوں۔97

یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بذات خود اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ میں حضرات ابراہیم و عیسیAlaihmas Salam کی دعا اوربشارت ہوں تو اسی طرح دیگر مذکور نشانیوں کی بھی گویا کے تصدیق ہوجاتی ہے کہ جس طرح ان دو پیغمبروں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے بارے میں اپنی امت کو بتایا تو اسی طرح دیگر نشانیوں کو بھی بیان کیا ہوگا۔بہر کیف حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے وقت کئی معجزات ظاہر ہوئے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی حقانیت و نبوت کی علامات کے طور پر ظاہر ہوئے۔ مذکورہ بالا تمام واقعات کا خلاصہ عظیم و نامور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ نےاپنی کتاب میں قلمبند فرمایا ہےچنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:

عظیم شخصیات کی ولادت ہمیشہ غیر معمولی واقعات کا باعث بنتی ہے۔ چاہے ان کا تعلق مستقبل کے عظیم ہیرو کی اس دنیا میں آمد سے ہو یا نہ ہو۔آتش پرست ( مجوس ) آگ کی پرستش کرتے ہیں ۔ یہ ان کا معمول ہے کہ ان کے آتش کدوں میں ہروقت آگ روشن رکھی جاتی ہے اور وہ اسے کبھی بجھنے نہیں دیتے۔ مگر سوموارسترہ(17) جون پانچ سو انتر( 569 )عیسوی کی رات مدائن کے سب سے بڑے آتش کدہ میں جلتی ہوئی آگ یک لخت بجھ گئی حالانکہ یہ آگ صدیوں سے جلتی آرہی تھی اور کبھی نہیں بجھی تھی۔ اسی رات ایک زلزلہ بھی آیا جس نے شہنشاہِ ایران کے محل کےچودہ( 14 )کنگورے گرا دیے۔ اسی نوعیت کے اور بھی کئی واقعات عمل میں آئے ۔ حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکی زوجہ حضرت آ منہRadi Allah Anha اپنے بیٹے کی پیدائش کے وقت بالکل اکیلی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اس مشکل وقت میں چند دراز قد خواتین کو اپنے پاس پایا۔ جب حضرت آمنہRadi Allah Anha نے ان سے ان کے بارے میں پوچھا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ فرعون کی بیوی آسیہ ہے جس نے حضرت موسیٰAlaihis Salam کی جان بچائی تھی جب انہیں ایک صندوق میں بند کرکے دریائے نیل کی لہروں کے سپرد کردیا گیا تھا۔ دوسری خاتون نے بتایا کہ وہ حضرت عیسیٰ Alaihis Salamکی والدہ مریم ہیں جبکہ باقی تمام خواتین جنت کی حوریں تھیں۔98 پھر حوروں نے حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے جسم کو اپنے پروں سے ڈھانپ کر حرارت پہنچائی تاکہ وہ ٹھنڈی ہوا سے محفوظ و مامون رہیں ۔ جلد ہی بچے کی ولادت ہوگئی ۔ یہ بچہ مختون پیدا ہوا۔ پیدا ہوتے ہی وہ زمین پر سجدے میں گرگیا اور شہادت کی انگلی اس طرح اٹھائی جیسے رب وحدہ لاشریک کی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہو۔ اس کے بعد تین فرشتوں نے اس بچے کوایک چاندی کےبرتن میں تین بار غسل دیا۔ پھر اسے سفید ریشمی کپڑے سے ڈھانپا اور کچھ دیر کے لیے اپنے پروں سے حرارت پہنچائی ۔ پھر اسے اس کی والدہ کے حوالے کیا اور غائب ہوگئے ۔ یہ وہ متاثر کن مختصر روداد ہے جسے مسلمہ قدیم مصنفین نے بیان کیا ہے۔99

ان تما م واقعات و علامات سےیہ بات بخوبی سمجھ آجاتی ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہ واحد ہستی ہیں جن کے طفیل اور وسیلہ سے نظامِ کائنات کو خلق کیا گیا اور صرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی وہ کریم و رحیم ذات عالی ہیں جو اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب اور معظم ہیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی عظیم الشا ن ولادت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی عظمتِ نبوت اور قابلِ قدر پیغامِ رسالت کا اعلان تھا تاکہ متلاشیان وطالبانِ حق نورِ ہدایت کو قبول کرنے میں متردّد نہ ہوں۔


  • 1  شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:62
  • 2  شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2011ء،ص:74-75
  • 3  ياسين بن خير الله بن محمود الخطيب العمرى، الروضة الفيحاء فى أعلام النسام،ج-1،مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر،2005م، ص: 31
  • 4  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:100
  • 5  القرآن، سورۃ الحجر40:15
  • 6  ابوالفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العلیون فی سیرۃ النبی ﷺ، ج-1،مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ، لبنان، 2013م، ص:101
  • 7  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلین ﷺ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت ، لبنان، 2005م، ص:107
  • 8  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی(مترجم:علامہ ذوالفقار علی ساقی)،مطبوعۃ:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،لاہور، پاکستان 2013ء ،ص:229
  • 9  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:100
  • 10  ابو الفرج عبدالرحمن ابن الجوزی، المیلاد النبوی ﷺ، مطبوعہ:مکتبہ حنفیہ ، لاہور،پاکستان،2011ء، ص:32-33
  • 11  علماءِ یہود میں ابن الہیبان بھی شام سے اسی لیے منتقل ہوکر مدینہ منوّرہ آکر بس گیا تھا کہ بعثت نبوی کا وقت قریب آرہا ہے ، شاید وہ دیدار مصطفےٰ ﷺ کی سعادت حاصل کرسکے اوراسلام سے مشرف ہوجائے مگر اس کے دل کی آرزو دل ہی میں رہ گئی اور موت قریب آگئی۔ جب وہ مرنے لگا تو اس نے حاضرین کو وصیت کی کہ تم جب اس کو پالو تو جلد اس کی خدمت میں حاضر ہوکر دین اسلام قبول کرلینا۔ابو محمد عبد الملک بن ہشام،سیرۃ النبی ﷺ(مترجم: رفیع الدین اسحاق ہمدانی)،مطبوعہ: چاپ خانہ دانش گاہ، تہران،ایران 1345ھ،ص:187-188
  • 12  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الخصائص الکبرٰی، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2008م، ص: 75 -76
  • 13  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی مجزات سید المرسلین ﷺ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت ، لبنان، 2005م، ص: 106 -107
  • 14  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ (مترجم:علامہ ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعۃ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور، پاکستان،2013ء،ص:228
  • 15  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:81
  • 16  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبری،(مترجم:مفتی سیّدغلام معین الدین)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور،پاکستان2014ء، ص:116
  • 17  جمال الدین السَرُمَرِ ی، خصائص سیّد العالمین ﷺ ومالہ من المناقب العجائب، مطبوعۃ:المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2005م،ص:520
  • 18  ابو الفرج عبدالرحمن ابن جوزی، صفۃ الصفوۃ، ج-1،مطبوعۃ: دارالحدیث القاہرۃ،مصر،2009م، ص: 22 -23
  • 20  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی،صفۃ الصفوۃ (مترجم:شاہ محمد چشتی)،ج-1،مطبوعہ:ادارہ پیغام القرآن،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:33-34
  • 21  محمد بن حبان بن احمد التمیمی،صحیح ابن حبان ،ج-14،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988م،ص:247
  • 22  شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:65
  • 23  ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی المالکی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1996م،ص:208
  • 24  شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ (مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعۃ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2011ء،ص:76
  • 25  احمد بن علی بن عبد القادر،امتاع الاسماع بما لنبی ﷺ من الاموال والاحوال والحفدۃوالمتاع، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ،1999م،ص:59
  • 26  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبری،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:81
  • 27  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی، الخصائص الکبری (مترجم:مفتی سیّدغلام معین الدین)،ج-1،مطبوعۃ:زاویہ پبلیشرز،لاہور،پاکستان، 2014ء،ص:116
  • 28  احمد بن علی بن عبد القادر،امتاع الاسماع بما لنبی ﷺمن الاموال والاحوال والحفدۃ والمتاع، ج-4،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ،1999م،ص:59
  • 29  امام محمد بن یو سف الصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:342
  • 30  امام محمد بن یو سف صالحى شامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ (مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعۃ: زاویہ پبلیشرز،لاہور،پاکستان، 2012ء،ص:301
  • 31  ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ﷺ ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2008م،ص:80
  • 32  ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل،مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:17163، ج-28،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م،ص:395
  • 33  ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث:5417، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1991م،ص:369
  • 34  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان،2012م، ص: 76-77
  • 35  جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ،ضیا النبی ﷺ،ج-2،مطبوعہ :ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، کراچی، پاکستان، 2013ء،ص:27
  • 36  ابو الفرج عبد الرحمن ابن ِجوزی،الوفاء باحوال المصطفیﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعۃ: حامد اینڈ کمپنی ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:110-111
  • 37  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبری،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:81
  • 38  حضرت آمنہ علیہا السلام فرماتی ہیں:میں نے آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے وقت تین جھنڈے دیکھے جن میں سے ایک جھنڈا مشرق کا تھا جس سے مشرق میں آپ ﷺکا کلمہ پھیل جانے کی طرف اشارہ تھا، دوسرا جھنڈا مغرب کا تھا جس سے مغرب میں آپ ﷺکا کلمہ پھیلنے کی طرف اشارہ تھا اور تیسرا جھنڈا کعبہ کی چھت پر لگا ہوا تھا جس سے آنحضرت ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کے مرکز کی طر ف اشارہ تھا۔ (ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)، مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ءص:218)
  • 39  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی، الخصائص الکبری (مترجم:مفتی سیّدغلام معین الدین)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور،پاکستان، 2014ء،ص:117
  • 40  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان،2005م، ص:169
  • 41  شيخ يوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺمترجم:علامہ ذوالفقار علی ساقی،ج-1،مطبوعۃ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان،2013ء،ص:366-367
  • 42  ابوالفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، معجزات النبی ﷺ، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ،مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:472
  • 43  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:96
  • 44  اسی طرح الروضۃ الفیحاء میں مذکور ہے: وكأن واحدة منهن تقدمت إلي وناولتني شربة من الماء فشربت، وقالت الثالثة: ازدادي. فازددت ثم مسحت بيدها على بطني، وقالت: بسم الله اخرج بإذن الله۔ترجمہ: ان میں سےایک میری طرف بڑھی اور مجھے پانی کا مشروب پینے کے لیے پیش کیا میں نے پی لیا۔ تیسری نے کہا اور پیجئے میں نے اور پانی پیا پھر اس نے اپنے ہاتھ کو میرے شکم پر ملا اور کہا:اللہ کے حکم سے آپ ﷺ باہرتشریف لے آئیے۔ (ياسين بن خير الله بن محمود الخطيب العمري ،الروضة الفيحاء في أعلام النسام،ج-1،مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2005م،ص: 29)
  • 45  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:213-214
  • 46  جمال الدین السَرُمَرِ ی،خصائص سیّد العالمین ﷺومالہ من المناقب العجائب، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2005م،ص:520
  • 47  ابو سعید عبد الملک بن عثمان نیشاپوری، شرف النبی ﷺ (مترجم:اقبال احمد فاروقی)، مطبوعۃ: احمد جاوید فاروقی پبلشرز، لاہور ، پاکستان، 2004ء، ص : 28-29
  • 48  احمد بن علی بن عبد القادر،امتاع الاسماع بما لنبی ﷺمن الاموال والاحوال والحفدۃ والمتاع، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص:49
  • 49  شیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:372
  • 50  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،2005م، ص:168
  • 51  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی(مترجم : علامہ ذوالفقار علی ساقی )، ج1-، مطبوعہ ضیاالقرآن پبلی کیشنز لاہور، پاکستان ،2013، ص:364
  • 52  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 76 -77
  • 53  امام محمد بن یو سف الصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:348
  • 54  مولانا ملا معین واعظ الکاشفی،معارج النبوۃ (مترجم:حکیم مولانا محمد اصغر فاروقی)،ج-2،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ،لاہور،پاکستان،1428ھ،ص:98
  • 55  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان،2012م، ص:76-77
  • 56  مولانا ملا معین واعظ الکاشفی،معارج النبوۃ (مترجم:حکیم مولانا محمد اصغر فاروقی)،ج-2،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ،لاہور،پاکستان،1428ھ،ص:98
  • 57  ابو الفرج على بن ابراھیم الحلبى، انسان العیون فى سیرة النبى الامین المامون ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:84
  • 58  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1، مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:78
  • 59  محمد بن حبان بن احمد التمیمی،صحیح ابن حبان ،ج-14، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت، لبنان، 1988م،ص:247
  • 60  امام محمد بن یو سف الصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:346
  • 61  ابو الفرج علی بن إبراهيم بن أحمد الحلبى،إنسان العيون فى سيرة الأمين المأمون ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان، 2013م، ص:80
  • 62  علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:185-186
  • 63  ابو محمد عبد الملک بن ہشام،السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009 م،ص:133
  • 64  امام محمد بن یو سف الصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:343
  • 65  امام محمد بن یو سف الصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2012،،ص:302
  • 66  ابو الفرج علی بن إبراهيم بن أحمد الحلبی،إنسان العيون فی سيرة الأمين المأمون ﷺ،ج-1، مطبوعۃ:دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان، 2013م، ص:81
  • 67  اىضا ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص :185-186
  • 68  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009 م، ص:97
  • 69  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف،ج-2،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،2001 م، ص: 97 -98
  • 70  جمال الدین السَرُمَرِ ی،خصائص سیّد العالمین ﷺومالہ من المناقب العجائب ،مطبوعۃ:المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر،2005م،ص:520
  • 71  ابو الفرَج عبد الرحمٰن بن جوزی،صفۃ الصلوۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الحدیث ،القاہرۃ،مصر،2009م،ص:22
  • 72  ابو الفرَج عبد الرحمٰن بن جوزی،صفۃ الصلوۃ(مترجم: علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعۃ: حامد اینڈ کمپنی ، لاہور، پاکستان، 2002ء ، ص:125
  • 73  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبریٰ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990،ص:83
  • 74  ابو الحسن علی بن محمد ماوردی،اعلام النبوۃ،مطبوعۃ:دار ومکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1409ھ،ص:210
  • 75  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:105
  • 76  جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبری،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:81
  • 77  خاص طور پر فارس کے بادشاہ کا محل گرنے کا سبب غالباً یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے دنیا کے بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اس سلسلے میں آپ ﷺنے بادشاہوں کے نام فرمان یعنی خط بھیجے تو جس نے آپ ﷺکے فرمان کی سب سے زیادہ توہین کی وہ کسریٰ فارس ہی تھا ۔ اگرچہ وہ کسریٰ نوشیرواں نہیں تھا بلکہ دوسرا بادشاہ تھا ۔اس نے قاصد سے وہ خط لے کر اس کو پھاڑ ڈالا اور اپنے یمن کے گورنر کو لکھا کہ عرب میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیاہے اس کو گرفتار کرکے ہمارے پاس لاؤ۔ جب آنحضرت ﷺکو معلوم ہوا کہ کسریٰ نے آپﷺکے فرمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے تو آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ اس کی سلطنت بھی اسی طرح پارہ پارہ ہوگئی چنانچہ آنے والے چند ہی سال میں آنحضرت ﷺکی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور کسریٰ کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اسلام کے قدموں میں آگری۔اس طرح آنحضرت ﷺکی ولادت کے ساتھ سب سے زیادہ بربادی کی علامتیں جس سلطنت میں ظاہر ہوئیں وہ کسریٰ فارس کی سلطنت تھی۔ ہزاروں سال سے مسلسل جلتی ہوئی قدیم اور مقدس آگ بجھ گئی، دریاؤں کا پانی سوکھ گیا اور اس عظیم محل کی بنیادیں ہل کر اس میں شگاف پڑ گئے اور اس کے چودہ کنگورے اچانک ٹوٹ کر گرگئے حالانکہ اپنی کشادگی ، بناوٹ اور مضبوطی کے لحاظ سے یہ محل دنیا کے عجائبات میں سےسمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ شاعر کہتے ہیں کہ اگر وہ علامتیں ظاہر نہ ہوتیں جو آپ ﷺکے دنیا میں تشریف لانے کی وجہ سے ظاہر ہوئیں تو یہ عظیم الشان اور عظیم و مستحکم عمارت نہ گرتی۔ پھر ان ہی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ظاہر ہوئی کہ اس رات فارس کے تمام آتش کدوں کی وہ آگ بجھ گئی جس کو وہ لوگ پوجتے تھے، ایک ہی وقت میں ان تمام آتش کدوں کی آگ بجھ جانے کی وجہ سے ان میں زبردست صف ماتم بچھ گئی، پھر آنحضرتﷺکے وجود میں آنے کی ان ہی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ظاہر ہوئی کہ فارس کی سر زمین میں تمام چشموں کا پانی سوکھ گیا، یہاں تک کہ ان میں ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب علامتیں فارس والوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے سزا دیے جانے کا اشارہ تھیں ، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا آتش کدوں کی آگ اسی پانی سے بجھی تھی جو چشموں میں سے اچانک غائب ہوگیا تھا۔اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ نہیں چشموں کا پانی اس آگ کو بجھانے کی وجہ سے ختم یا غائب نہیں ہوا تھا بلکہ آتش کدوں کی آگ اس عظیم پیغمبر کے وجود میں آجانے کی وجہ سے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔( ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1، مطبوعہ:دارالاشاعت ، کراچی، 2009ء،ص:237)
  • 78  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:138
  • 79  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:105
  • 80  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م،ص:78
  • 81  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2005م، ص:174
  • 82  "بحیرہ ساوہ"بہت بڑا تھا حتیٰ کہ اس کا فاصلہ ایک فرسخ سے بھی زیا دہ تھا اور یہ عراق عجم میں "ہمدان اور قُم" کے درمیان واقع تھا اس میں کشتیاں چلاکرتی تھیں اور اس کے قرب و جوار کے باشندے مثلاً فرغانہ، رئے وغیرہ اس میں سفرکرتے تھے۔ اس کے ارد گرد کے باشندے شرک و دشمنی کا اعلیٰ نمونہ تھے توحضور نبی کریم ﷺکی ولادت کی رات یہ خشک ہو گیا اور ایسا خشک ہوا کہ گویا کبھی بھی اس کے دامن میں پانی تھا ہی نہیں بلکہ اس کا پانی بالکل ہی غائب ہوگیا حتیٰ کہ بعد میں اسی جگہ "ساوہ" شہر معرض وجود میں آیا جواب میں بھی ایک قلعے کی صورت میں آباد ہے۔(ادارہ)
  • 83  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان،2012م، ص:75
  • 84  ابو الفرج علی بن إبراهيم بن أحمد الحلبی،إنسان العيون فی سيرة الأمين المأمون ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان، 2013م، ص:107
  • 85  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:236
  • 86  جو شخص فارسیوں کا بڑا قاضی ہوتا تھا اس کو موبذان کہا جاتا تھا۔ موبذان بڑی یعنی مقدس آگ کا خادم ہوتا تھا اور اس کا مرتبہ حکومت سے بھی اونچا ہوتا تھا ، لوگ مذہب کے معاملات میں اسی کا حکم مانتے تھے۔(ادارہ)
  • 87  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان،2012م، ص:138
  • 88  شیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری ،تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس ﷺ، ج-1،مطبوعۃ:دارالكتب العلمية، بیروت، لبنان،2009م، ص:369
  • 89  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری،الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ ﷺوالثلاثۃ الخلفاء،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2000م، ص:81
  • 90  محمد بن محمد ابن سیّد الناس ،عیون الا ثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر،ج-1 ، مطبوعۃ:دارالقلم،بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص: 35 -36
  • 91  عصا سے مراد موٹی چھڑی ہے اور عصا والے سے مراد آنحضرتﷺ ہیں کیونکہ آپﷺ چلنے کے دوران اکثر ہاتھ میں عصا رکھا کرتے تھے اور اس کو اپنے سامنے رکھتے تھے۔ نماز کے وقت اس عصا کو اپنے سامنے کھڑا کرکے نماز پڑھا کرتے تھے سترہ کے طور پر تاکہ سامنے سے گزرنے والوں کی وجہ سے نماز میں خلل نہ ہو اور گزرنے والوں کو بھی تکلیف نہ ہو۔(ادارہ)
  • 92  ابو الفرج علی بن إبراهيم بن أحمد الحلبی،إنسان العيون فی سيرة الأمين المأمون ﷺ،ج-1، مطبوعۃ:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م،ص:111
  • 93  کسریٰ اس سے یہ سمجھ کر مطمئن ہوگیا تھا کہ چودہ بادشاہوں کے لیے کافی لمبی مدت درکار ہوتی ہے ۔اس طرح تو کئی صدیاں درکار ہیں اس واقعہ کو رونماء ہونے کے لیے۔مگر ہوا یہ کہ اس کے بعد چودہ دوسرے بادشاہ ہوئے لیکن ان میں سے دس کا زمانہ تو صرف چار سال میں پورا ہوگیا اور باقی چار بادشاہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں حکومت کرکے اپنا وقت پورا کرگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے آخری یعنی کسریٰ نو شیرواں کے بعد سے چودہواں بادشاہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع ہی میں ہلاک ہوگیا اور اس طرح اتنی مدت میں چودہ بادشاہ ہو گزرے جتنی مدّت صرف ایک یا دو بادشاہ ہوں کی حکومت ہوسکتی ہے۔( ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعۃ:دارالاشاعت ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص :244)
  • 94  ابو عبد اللہ محمد بن علی ابن حدیدۃ،المصباح المضی فی کتاب النبی الامی ﷺ،ج-2،مطبوعۃ:عالم الکتب، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:185
  • 95  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:72
  • 96  جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاء کی تھی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۲۹ (القرآن،سورۃ البقرۃ129:2)
    ترجمہ:اے ہمارے رب! انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (ﷺ) ان کے درمیان مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
    اسی وقت ان سے کہا گیا کہ آپ کی دعاء قبول کرلی گئی۔ اخیرزمانے میں وہ نبی ہوں گے۔ ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص :166
  • 97  ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی ، ،سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:166-167
  • 98  جب نئی نبوت، نئی وزارت کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے پہلے یہ فریضہ سر انجام دینے والے اس کے استقبال کے لیے آتے ہیں ایک خاتون کے ہاں بچے کی ولادت کے وقت حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا آنا تو نا ممکن تھا چنانچہ آسیہ اور مریم سلام اللہ علیھمااس فریضہ کی ادائیگی اور نمائندگی کرنے کے لیے تشریف لے آئیں ۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ،محمد رسول اللہ ﷺ (مترجم :پروفیسر خالد پرویز)،مطبوعۃ:بیکن بکس، لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:9
  • 99  ڈاکٹر محمد حمید اللہ،محمد رسول اللہ ﷺ(مترجم :پروفیسر خالد پرویز)،مطبوعۃ:بیکن بکس، لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:9-12

Powered by Netsol Online