Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

بے سایہ پیکرِ انور

Published on: 11-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 10، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 257-277)

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب sym-1 کو بے شمار خصوصی صفات بخشی ہیں ،انہی کے سر پر اولیت کا تاج رکھا اور انہی کی پیشانی پر آخرت کا سہرا باندھا،انہی کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور انہی کو معراج کی رات میں تمام انبیاء کرامsym-3کا امام بنایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب sym-1 کو جہاں صدہا معجزے بخشے وہاں یہ معجزہ بھی عطا فرمایا کہ حضور sym-1 کے جسم شریف کو بے سایہ بنایا۔ دھوپ چاندنی چراغ وغیرہ کی روشنی میں آپ sym-1 کے جسم اطہر کا بالکل سایہ نہ ہوتا تھا بلکہ جو لباس حضور sym-1 پہنے ہوتے تھے وہ لباس بھی بے سایہ ہو جاتا تھا۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب sym-1 کے بشری جسم اقدس کو ایسا لطیف ونظیف اور پاکیزہ ومطہر کردیا تھا کہ اس میں کسی قسم کی عنصری اور مادی کثافت باقی نہ رہی تھی۔ اس لیے چاند، سورج، چراغ وغیرہ کی روشنی میں جب حضور sym-1 تشریف فرما ہوتے تو جسم اقدس اس روشنی کے لیے حائل نہ ہوتا تھا اور دیگر اجسام کثیفہ کی طرح حضور sym-1 کے جسم پاک کا کوئی تاریک سایہ نہ پڑتا تھا۔کیونکہ سایہ اس جگہ کی تاریکی کو کہتے ہیں جہاں جسم کثیف کے حائل وحاجب ہوجانے کی وجہ سے چاند سورج وغیرہ کی روشنی نہ پہنچ سکےجبکہ آپ sym-1 کے جسمِ مبارک میں کثافت ہی نہ تھی ۔وہ تو نورانی جسم انور تھا جوکسی روشن چیز کی روشنی کے لیے حائل نہیں ہوتاتھا اور اسی لیے تاریک سایہ سے حضور sym-1 کا جسم اطہر پاک تھا۔

رسول ِ اکرم sym-1 کا بحیثیتِ نور قرآن مجید میں ذکر

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب sym-1 کے جسم اطہر کو کائنات کی ہر شے سے زیادہ لطیف و نظیف بنایا اور اسے مادی اور عنصری کثافت سے مبرّا رکھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ sym-1 کو سراپا نور قرار دیاہے۔چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ جَاۗءَكمْ مِّنَ اللّٰه نُوْرٌ وَّكتٰبٌ مُّبِینٌ151
بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد sym-1 ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) ۔

اس آیت مبارکہ میں نور سے مراد آپ sym-1 کی ذات اقدس ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام علی بن احمد الواحدیsym-4لکھتے ہیں:

قد جاء كم من اللّٰه نور یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.2
تحقیق تمہارے پاس نور آیا یعنی نبی کریم sym-1 آئے۔

امام عبدالرحمن ثعلبی sym-4نے بھی اسی طرح تحریر فرمایا ہے ۔3 اسی طرح امام بغوی sym-4لکھتے ہیں:

قد جاء كم من اللّٰه نور یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.4
تحقیق تمہارے پاس نور آیا یعنی نبی کریم sym-1 آئے۔

اسی حوالہ سے امام ابن جوزی sym-4لکھتے ہیں:

قوله تعالى قد جاء كم من اللّٰه نور قال قتادة: یعنى بالنور النبى محمد صلى اللّٰه علیه وسلم.5
باری تعالیٰ کا ارشاد مقدس قدجاء کم من اللہ نور کے بارے میں حضرت قتادۃ sym-5نے فرمایا کہ:نور سے مراد (سیّدنا)محمد sym-1 ہیں۔

اسی طرح ایک اور مقا م پر قرآن ِمجیدنے آپ sym-1 کی ذات اقدس کو فقط نور ہی قرار نہیں دیا بلکہ اسے سراجامنیرا بھی فرمایا۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مقدس ہے:

یاَيُّھا النَّبِى اِنَّآ اَرْسَلْنٰك شَاھدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا45وَّدَاعِیا اِلى اللّٰه بِـاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِیرًا466
اے نبیِ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔

قرآن مجید نے چاند کو بھی دوسری جگہ منیرا فرمایا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تَبٰرَك الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیھا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیرًا61. 7
وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا۔

کیونکہ وہ خود چمکنے کےساتھ ساتھ مکمل روئے زمین چمکاتا بھی ہے ۔ اسی طرح حضور sym-1 کو بھی مذکورہ بالا آیت میں سراجامنیر افرمایاگیا ہے کہ حضور اکرمsym-1 خود بھی چمک رہے ہیں اور صحابہ کرامsym-7 و اولیاء اﷲ کو نور بھی بنارہے ہیں کہ یہ سب کے سب حضور sym-1 ہی کے طفیل و وسیلہ سے جگمگارہے ہیں۔

جب قرآن کریم نے آپ sym-1 کے جسمِ اطہر کو سراپا سراج منیر قرار دیا ہے تو اس کے بعد اس میں مادی کثافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ قرآن کی بیان کردہ اس مقدس نورانیت کو ائمہ اسلام نے آپ sym-1 کے جسم اطہر کے سایہ نہ ہونے پر دلیل بنایا ہے۔

رسول اکرم sym-1 اور دعائے نور

نبی اکرم sym-1 نے جوجو اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے چاہا تو ربُّ العزّت نے وہ سب آپ sym-1 کوعطا فرمایا۔اسی طرح آپ sym-1 کی دعاؤں میں سے ایک دعائے نور بھی ہے۔جس کے حوالہ سےحضرت عبداﷲ بن عباس sym-8سے مروی ہے کہ حضور اکرم sym-1 نے دعا فرمائی:

اللّٰھم اجعل لى نورا فى قلبى ونورا فى قبرى ونورا من بین یدى ونورا من خلفى ونورا عن یمینى ونورا عن شمالى ونورا من فوقى ونورا من تحتى ونورافى سمعى ونورا فى بصرى ونورا فى شعرى ونورا فى بشرى ونورا فى لحمى و نورا فى دمى ونورا فى عظامى اللّٰھم اعظم لى نورا واعطنى نورا واجعل لى نورا.8
اے اﷲ میرے لیے میرے دل میں نور کردے، اور میری قبر میں نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میری سماعت میں نور اور میری بصارت میں نور اور میرے بالوں میں نور اور میری جلد میں نور میرے گوشت میں نور اور میرے خون میں نور اور میری ہڈیوں میں نور اے اﷲ تعالیٰ میرے لیے بہت ہی زیادہ نور کردے اور مجھ کو نور عطا کردے اور میرے لیےنوربنا۔

اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ آپ کے جسم اطہر کا ہر عضو نور ہے۔ جب آپ کے جسم اطہر کا ہر ہر عضو نور اور پھر اس کے بھی دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے اندر باہر نور ہی نور ہے تو پھر آپ sym-1 کا سایہ کیسے ہوسکتا تھا؟ امام زرقانی sym-4اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قال غیرہ ویشھد له قوله صلى اللّٰه علیه وسلم فى دعائه لما سال للّٰه تعالى ان یجعل فى جمیع اعضائه وجھاته نوراً ختم بقوله واجعلنى نوراً اى والنور لاظل له وبه یتم الاستشھاد.9
اور ان کے علاوہ دوسرے علماء محدثین sym-4 نے فرمایا : حضور sym-1 کے سایہ نہ ہونے پر حضور sym-1 کا وہ قولِ مبارک جو حضور sym-1 کی دعا میں( گواہی دیتا )ہےکہ جب حضور sym-1 نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اﷲ تعالیٰ حضور sym-1 کے تمام اعضاء میں اور جمیع جہات میں نور کردے تو حضور sym-1 نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا ’’واجعلنی نوراً‘‘ یعنی مجھے بالکل نور کردے۔ یہ جملہ حضور sym-1 کے سایہ نہ ہونے پر اس لیے شہادت دیتا ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہوتا اور اسی کے ساتھ یہ استشہاد تمام اور پورا ہوجاتا ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم sym-1 کا جسم اطہر انتہائی لطافت کی بناء پر بے سایہ تھا اور کسی بھی قسم کی روشنی میں آپ sym-1 کے مقدس و لطیف جسد مبارک کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔

عدمِ سایہ پر دال حدیث ِ متصل ومرفوع

بعض لوگ حدیث ذکوان sym-5کو مرسل قرار دیتے ہوئے اسے قابل استدلال نہیں سمجھتے جبکہ اس کے بارے میں فقط حدیث ذکوان ہی نہیں بلکہ دیگر روایات بھی منقول ہیں۔ان میں سے ایک حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 سے مروی ہے جو متصل بھی ہے۔ امام زرقانی sym-4نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

فھو مرسل لكن روى ابن مبارك وابن جوزى عن ابن عباس رضى للّٰه عنھما لم یكن للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم ظل.10
حدیث ذکوان بے شک مرسل ہے مگر امام عبداﷲ بن مبارک اور امام ابن جوزی sym-4نے سیّدنا عبداﷲ بن عباس sym-8سے متصلا ًذکر کیا ہے کہ حضور sym-1 کا سایہ مبارک نہیں تھا۔

عدم سایہ کے بارے میں حضرت عثمان sym-5 کا قول بھی مروی ہے ۔مدارک التنزیل میں امام نسفی"لولا اذ سمعتموہ" کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور sym-1 نے حضرت عائشہ sym-6کے بارے میں حضرت عثمان sym-5سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا:

انماللّٰه اوقع ظلك على الارض لئلا یضع انسان قدمه على ذلك الظل.11
بےشک آپ sym-1 کا سایہ اﷲ تعالیٰ نے زمین پر واقع نہیں کیا تاکہ کہیں کوئی شخص آپ sym-1 کے سایہ اقدس پر اپنا قدم نہ رکھ دے۔

آپ sym-5کا یہ ارشاد حدیث تقریری کے درجے پر فائز ہے کیونکہ آپ sym-5 نے عدم سایہ کا ذکر حضور sym-1 کی خدمت میں کیا اور آپ sym-1 نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ اگر سایہ نہ ہونا غلط ہوتا تو آپ sym-1 حضرت عثمان sym-5 کا رد فرمادیتے۔ا ب گویا کہ یہ قول براہ راست آقائے دو جہاں sym-1 کا اقرار پایا جسے اصطلاح محدثین میں حکماً مرفوع کہا جاتا ہے۔

جسمِ رسولِ اکرم sym-1 اور حسّی نور

علم وہدایت کی نورانیت تو حسب مراتب ودرجات ہر اہل علم اور ہدایت یافتہ شخص کو حاصل ہے۔ حضور sym-1 کی شانِ اقدس تمام عالم سے بلند و بالا اور افضل و اعلیٰ ہے۔ اس لیے حضور sym-1 کی ذاتِ مقدسہ اور کمالاتِ مبارکہ کو عوام کی ذات وصفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔حضور sym-1 کو جو صفت ملی ہے وہ دوسروں کی نسبت اکمل واتم وارفع و اعلی ہے۔

بعض اشیاء ذات ہوتی ہیں اور بعض صفات ہوتی ہیں اور نور ذات بھی ہے جیسے چاند وسورج اور صفات بھی جیسے ایمان و ہدایت۔جو چیزیں ذات وعین نہیں بلکہ محض معنی و صفت ہیں جب ان کے لیے لفظ ِنور بولا جائے گا تو اس کے معنی اس چیز کے حسب حال ہوں گے۔ یعنی وصفی اور معنوی نورانیت اور جو چیزیں ذات اور صفت سب کی جامع ہوں گی ان کے لیے جب لفظ نور کا اطلاق ہوگا تو اس سے وہی نورانیت مراد ہوگی جو ان چیزوں کے حسب حال اور شایانِ شان ہے۔یعنی عین و معنی دونوں قسم کی جامع نورانیت۔ لہٰذا قرآن و تورات، اسلام وایمان اور علم وہدایت ان سب چیزوں کے لیے جو لفظ نور قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے اس سے وصفی اور معنوی نورانیت کے معنی مراد ہوں گے کیونکہ یہ سب چیزیں از قبیل اوصاف ومعانی ہیں اور ظاہر ہے کہ معنی کا عین اور وصف کا ذات ہونا محال ہے۔ ہاں! ایسی چیز جو ’’ذات ووصف‘‘ دونوں کی حامل اور ’’عین ومعنی‘‘ دونوں کی جامع ہواس کی نورانیت بھی ہر دو قسم کی نورانیت کی جامع ہوگی۔

چونکہ حضور sym-1 ذات اور صفت دونوں کے جامع ہیں اس لیے حضور sym-1 کے لیے جو لفظ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے اس سے مراد وہی نور ہوسکتا ہے جو عین ومعنوی اورذاتی ووصفی ہر قسم کی نورانیت کا جامع ہو۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ حضور sym-1 اسلام وایمان، ہدایت وقرآن، علم و عرفان تمام انوارِ معانی واوصاف کے حامل ہیں اور اس کے علاوہ جملہ انوارو اعیان یعنی ذات وعین کے قبیل سے جس قدر نور ہیں حضور sym-1 ان سب کے بھی جامع ہیں۔12

صحابہ کرام sym-7 جب رسول اکرم sym-1 کے چہرہ انور کا تذکرہ کرتے تو کئی صحابہ کرام یہ جملہ ضرور ارشاد فرماتے کہ حضور sym-1 کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔اس روایت میں یہ جملہ بھی نبی اکرم sym-1 کی نورانیت کو ظاہر کرتا ہے۔چنانچہ یہ جملہ کئی روایات میں منقول ہوا ہے۔ حضرت حسن مجتبیٰ sym-5نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی کہ حضور نبی کریمsym-1 کا حلیہ مبارک مجھے بتائیے آپ نے جواب دیا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما یتلا لاوجھه تلالو القمر لیلة البدر… الخ.13
حضور sym-1 لوگوں کی نگاہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان دکھائی دیتے تھے حضور sym-1 کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔

اس کا معنی بیان کرتے ہوئےحضرت ابراہیم بن محمد بیجوری sym-4فرماتے ہیں:

ومعنى یتلالؤ یضىء ویشرق كاللؤلؤ وقوله تلالؤ القمر لیلة البدر اى مثل تلالؤ القمر لیلة البدر.14
یتلالؤ کے معنی روشن ہونے اور چمکنے کے ہیں جیسے موتی چمکتا ہے اور تلالؤالقمر لیلۃ البدر کے معنی یہ ہیں کہ حضور sym-1 کا چہرۂ انور اس طرح چمکتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ sym-5فرماتے ہیں :

رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فلھو عندى احسن من القمر.15
میں نے حضور sym-1 کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں (کبھی) آپ sym-1 کی طرف دیکھتا اور کبھی چاندی کی طرف تو آپ sym-1 میرے نزدیک چاند سے یقینا زیادہ حسین تھے۔

حضرت ابراہیم بن محمد بیجوری sym-4اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

وفى روایة فى عینى بدل عندى والتقیید بالعندیة فى الروایة الاولى لیس للتخصیص فان ذلك عند كل احد راه كذالك .16
ایک اور روایت میں "عندی" کی بجائے "فی عینی" آیا ہے اور روایت اولیٰ میں "عندی" کی قید تخصیص کے لیے نہیں ہے، یعنی یہ مطلب نہیں کہ میرے ہی نزدیک حضور چاند سے زیادہ حسین تھے بلکہ فی الواقع ہر دیکھنے والے کے نزدیک حضور ﷺچاند سے زیادہ حسین تھے۔

اس کے بعدحضرت ابراہیم بن محمد بیجوریsym-4 اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

وانما كان صلى اللّٰه علیه وسلم احسن لان ضوء ہ یغلب على ضوء القمر، بل وعلى ضوء الشمس ففى روایة لابن المبارك وابن الجوزى لم یكن له ظل، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضوءہ على ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الاغلب وضوءہ على ضوء السراج.17
اور حضور sym-1 چاند سے زیادہ حسین اس لیے تھے کہ حضور sym-1 کی روشنی چاند کی روشنی بلکہ سورج کی روشنی پر غالب رہتی تھی۔ کیونکہ سیّدناابن مبارک اور علامہ ابن جوزی محدث کی روایت میں آیا ہے کہ حضور sym-1 کا سایہ نہ تھااور حضور sym-1 کبھی سورج کے سامنے کبھی کھڑے ہوئےتو حضور sym-1 کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی۔اسی طرح کبھی حضور اکرم sym-1 چراغ کے سامنے بھی کھڑے ہوتے توچراغ کی روشنی پر بھی حضور sym-1 کی روشنی غالب رہتی تھی۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1 جس طرح معنوی و صفتی نور کا پیکرِ انور ہیں بالکل اسی طرح آپ sym-1 حسّی نور کا بھی پیکر ہیں کہ جس کا سایہ اس لیے نہ تھا کہ آپ کی روشنی سورج و چاندو دیگر نورانی چیزوں پر غالب آجایا کرتی تھی۔

صحابہ کرام sym-7اور نورِ حسّی

حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 سے مروی ایک روایت میں اس طرف واضح اشارہ بھی ملتا ہےجس سے مذکورہ بات کی تصدیق بھی ہوجائے گی۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس sym-6فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلج الثنیتین اذا تكلم روى كالنور یخرج من بین ثنایاہ.18
حضور نبی کریم sym-1کے سامنے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعائیں پھوٹتی دکھائی دیتیں ۔

اسی طرح آپsym-1مسکراتے تو ایسا لگتا جیسے موتیوں کی لڑیاں فضا میں بکھر جاتیں اور چہرہ انور گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھتا۔چنانچہ قاضی عیاض مالکی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

إذا افتر ضاحكا افتر عن مثل سنا البرق وعن مثل حب الغمام، إذا تكلم رى كالنور یخرج من ثنایاه.19
جب حضور sym-1تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور بارش کے اولوں کی طرح چمکتے جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔

حضرت ابراہیم بن محمد بیجوریsym-4 اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

اى راى شىء له صفاء یلمع كالنور یخرج من بین ثنایاه ویحتمل ان یكون الكاف زائدة للتفخیم ویكون الخارج حینئذ نوراً حسیا معجزة له صلى اللّٰه علیه وسلم.20
حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نور کی طرح صاف شفاف چیز چمکتی ہوئی دیکھی جاتی جو حضور sym-1 کے نورانی دانتوں کے درمیان سے نکلتی تھی۔ یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ "کالنور"میں کاف زائدہ ہواورتفخیم کے لیے بڑھادیا گیا ہو۔ اس تقریرپر نور حسی تھا جو حضور sym-1 کے دندان مبارک کے درمیان سے بطور ظہور معجزہ چمکتا تھا۔

اسی طرح اس حوالہ سےامام طبرانیsym-4 روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قرصافہsym-5 فرماتے ہیں کہ جب میں اورمیری والدہ اور میری خالہ حضور نبی کریمsym-1 کی بیعت کرکے واپس آئے تو میری والدہ اور میری خالہ نے کہا:

ما راینا مثل ھذا الرجل احسن منه وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.21
ہم نے اس شخص کی مثل خوبصورت چہرے والا، پاکیزہ لباس والا، نرم اور میٹھے کلام والا کوئی نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے وقت ان کے منہ سے نور نکلتا ہے۔

اسی طرح سیّدناکعب بن مالک sym-5 فرماتے ہیں :

وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا سر استنار وجھه حتى كانه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه.22
جب حبیب مکرم sym-1 خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور چمک اٹھتا گویا کہ آپ کا چہرہ انور چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم لوگ دیکھ کر پہچان جاتے تھے۔

ا ن مذکورہ روایات میں رسو ل اکرم sym-1 کا تذکرہ صحابہ کرام sym-7نے اس انداز سے کیا ہے کہ علامہ بیجوری کے اصول کے تحت عین ممکن ہے کہ ان روایات میں نورِ حسّی مراد لیاجائے۔اسی حوالہ سے ایک روایت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر روایت کرتے ہیں:

عن عائشة قالت:كنت قاعدة اغزل وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخصف نعله، قالت: فنظرت الیه فجعل جبینه یعرق وجعل عرقه یتولد نورا، قالت: فبھت قالت: فنظر الى فقال: ما لک یا عائشة؟ قالت فقلت: یا رسول اللّٰه! نظرت الیك فجعل جبینك یعرق وجعل عرقك یتولد نورا ولو راك ابو كبیر الھذلى لعلم انك احق بشعره. قال: وما یقول
ابوكبیر؟ فقلت: یقول:
ومبرأ من كل غبر حيضة
وفساد مرضعة وداء مغيل
وإذا نظرت إلى أسرة وجهه
برقت كبرق العارض المتهل.23

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6بیان کرتی ہیں: میں چرخا کات رہی تھی اور حضور نبی کریم sym-1 میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے۔ آپ sym-1 کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کو چرخا کاتنے سے روک دیا۔پس میں آپ ﷺکو دیکھ رہی تھی کہ آپ sym-1 نے فرمایا: کیا ہواعائشہ؟ میں نے عرض کیا: آپsym-1 کی پیشانی مبارک پہ پسینے کے قطرے ہیں جو نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ sym-1 کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ sym-1 ہی ہیں: حضور sym-1 نےفرمایا:وہ کیا شعر کہتاہے؟میں نےکہا:وہ کہتا ہے: وہ ہرناپاک خون اور موذی دودھ پلانےوالی دایہ سے محفوظ ہے۔جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کی پیشانی کی لکیریں ایسےچمکتی ہیں جیسےآسمان پربجلی کی لکیریں چمکتی ہیں۔

مزید ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ sym-6ہی بیان کرتی ہیں :

كنت اخیط فى السحر فسقطت منى الابرة فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰه افتبینت الابرة بشعاع نوروجھه فاخبرته فقال: یا حمیراء! الویل ثم الویل ثلاثا لمن حرم النظر الى وجھى.24
میں سحری کے وقت (کپڑا)سی رہی تھی مجھ سے سوئی گرگئی تومیں نے اس کو ڈھونڈا لیکن وہ مجھے نہیں ملی۔رسول اﷲ sym-1 تشریف لے آئےتو آپsym-1 کے چہرہ کے نور کی شعاع سے وہ سوئی مل گئی۔ میں نے رسول اﷲ sym-1 کو یہ بتایا توآپ sym-1 نے فرمایا :اے حمیرا! افسوس ہو پھر تین بار فرمایا: اس شخص کے لیے افسوس ہو جو میرا چہرہ دیکھنے سے محروم رہا۔

سیّدناابوہریرہ sym-5 آپ sym-1 کے مسکرانے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اذا ضحك كادیتلالا فى الجدار لم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.25
جب آپ sym-1 مسکراتے تو آپ sym-1 کے نورِ مسکراہٹ کی شعاعیں دیواروں پر پڑنےکوہوجاتیں۔ میں نے آپ sym-1 کی مثل حسین آپ sym-1 سے قبل اور آپ sym-1 کے بعد نہیں دیکھا۔

حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8آپ sym-1 کی خوشی کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف رضاء ہ وغضبه بوجھه كان اذا رضى فكانما ملاحك الجدر وجھه واذا غضب خسف لونه واسود.قال ابوبكر سمعت ابا الحكم اللیثى یقول ھى المرآة توضع فى الشمس فیرى ضوءھا على الجدار یعنى قوله ملاحك الجدر ویروى یلاحك الجدر وجھه والملاحكة یرید یرى الجدر فى وجھه.26
نبی کریم sym-1 کی رضا (خوشی) اور غصہ آپ sym-1 کے چہرۂ انور سے جانا جاسکتا تھا۔ جب آپ sym-1 راضی ہوتے تو گویا دیواروں کا عکس آپ sym-1 کے چہرۂ انور میں دکھائی دیتا اور جب آپ sym-1 غصے ہوتے تو آپ sym-1 کا رنگ مبارک گہناجاتا۔ ابوبکر sym-4کہتے ہیں: میں نے ابو الحکم لیثی sym-4کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ"ملاحک الجدر" سے مراد یہ ہے کہ ایک آئینہ دھوپ میں رکھا جائے تو اس کی روشنی دیوار پر دکھائی دیتی ہے اور اسے "یلاحک الجدر وجھہ" بھی روایت کیا گیا ہے اور "ملاحکۃ" سے مراد یہ ہے کہ آپ sym-1 کے چہرے میں دیواریں دکھائی دیتی تھیں۔

جب آپ sym-1 کے تبسم مبارک کا یہ عالم ہے کہ اس میں گویا دیواروں کا عکس نظر آتا ہے اور گمشدہ سوئیں تک مل جاتی ہے27 تو اندازہ لگائیے کہ آپ sym-1 کی نورانیت کا عالم کس درجہ عظیم ورفیع ہوگا۔اسی حوالہ سے ابن سبع نے روایت کیا ہے:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یضىء الیت المظلم من نوره.28
تاریک گھر حضور sym-1کے نور سے روشن ہوجاتا تھا۔

ان احادیث میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو حضور sym-1کے حسین نور انیت کو وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں۔چنانچہ احادیث مذکورہ سے درجِ ذیل امور معلوم ہورہے ہیں:

(1) دندان ہائے مبارک کے درمیان سے نور نکلتا ہوا دیکھا جاتا۔(2) بینی اقدس کے نور کا بینی مبارک پر غالب ہونا اور معلوم ہونا۔(3) پیشانی کے خطوط کی چمک کا مشاہدہ۔(4) نور اقدس سے دیواروں کا روشن ہوجانا ایسے امور ہیں جو حضور sym-1کی اس چمک اور نور کے حسین اور جسمانی ہونے کو وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں۔اسی طرح اس حوالہ سے حضرت ذکوان sym-5 فرماتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لم یكن یراله ظل فى شمس ولا قمر.29
حضور sym-1کا سایہ دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاند میں۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئےامام جلال الدین سیوطیsym-4 فرماتے ہیں:

قال ابن سبع: من خصائصه ان ظله كان لایقع على الارض وانه كان نورا فكان اذا مشى فى الشمس او القمر لاینظر له ظل .قال بعضھم: ویشھد له حدیث قوله صلى اللّٰه علیه وسلم فى دعائه واجعلنى نورا.30
امام ابن سبع sym-4 نے حضور sym-1کی خصوصیات کے بیان میں کہا : آپ کا سایہ دھوپ اور چاند دونوں میں اس وجہ سے نہ ہوتا کہ آپ sym-1 سرتا پا نور تھے۔بعض علماء نے کہا :اس کی شاہد یہ حدیث ہے جس میں حضور sym-1کی اس دعا کا ذکر ہے ‘‘یعنی اے رب مجھ کو سراپا نور بنادے۔

سیّدناعبداﷲ ابن مبارک اور حافظ علامہ ابن جوزی حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 سے روایت کرتے ہیں:

قال: لم یكن لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ظل، ولم یقم مع شمس قط الا غلب ضوءه ضوء الشمس، ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوءہ على ضوء السراج.31
فرمایا: نبی sym-1کا سایہ نہ تھا اور جب بھی آپ sym-1آفتاب کے سامنے کھڑے ہوتے آپsym-1 کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔ اور آپ sym-1چراغ کے سامنے کھڑے ہوتےتو آپ sym-1کا نور چراغ کے نور کو مدھم کر دیتا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت امام عبدالرزاق sym-4نقل کرتے ہیں:

ابن عباس قال لم یكن لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ظل ولم یقم مع شمس قط الاغلب وضوء ہ الشمس ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوء ہ ضوء السراج.32
حضرت ابن عباس sym-8نے بیان فرمایا : نبی sym-1کا سایہ نہ تھا اور جب بھی آپ sym-1آفتاب کے سامنے کھڑے ہوتے آپ sym-1کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔ اور آپ sym-1چراغ کے سامنے کھڑے ہوتےتو آپ sym-1کا نور چراغ کے نور کو مدھم کر دیتا۔

ان متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کا سایہ نہ سورج کی روشنی میں تھا اور نہ ہی چاند یا دیگر روشنیوں میں۔جو اس بات پر واضح دلالت کرتا ہے کہ نبی اکرم sym-1 کا جسدِ اقدس بے انتہاء لطیف تھا۔

آپ sym-1کےبےسایہ ہونے پر ائمہ کے اقوال

رسول اکرم sym-1کے جسدِ اقدس کے لطیف ہونے کی وجہ سے بے سایہ ہونے پر کئی ایک علماء امت متفق ہیں۔چناچہ امام المحدثین امام قاضی عیاضsym-4فرماتے ہیں:

وما ذكر من انه كان لاظل لشخصه فى شمس و لاقمر لانه كان نورا وان الذباب كان لایقع على جسده ولا ثیابه.33
آپ sym-1کے دلائل نبوت ورسالت میں سے یہ بات بھی مذکور ہوئی ہے کہ آپ sym-1کے جسم اقدس کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ سراپا نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اطہر اور لباس مبارک پر نہ بیٹھتی تھی۔

امام شہاب الدین خفاجی sym-4 محدث ابن سبع sym-4کے قول "لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نورا" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(لا ظل لشخصه) أى لجسده الشریف اللطیف إذا كان( فى شمس ولا قمر) مما ترى فیه الظلال لحجب الأجسام ضوء النیرین ونحوھما، وعلل ذلك ابن سبع بقوله (لأنه) صلى اللّٰه علیه وسلم ( كان نوراً) والأنوار شفافة لطیفة لا تحجب غیرھا من الأنوار، فلا ظل لھا كما ھومشاھد فى الأنوار الحقیقیة...وقد نطق اللقرآن بأنه النور المبین وكونه بشراً لا ینافیه كما توھم، فإن فھمت فھو نورعلى نور، فإن النور ھو بنفسه المظھر لغیره.34
آپ sym-1کے مقدس اور لطیف جسم کا سایہ دھوپ اور چاندنی میں نہیں ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ سایہ اس وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ اجسام کثیفہ چاند سورج کی روشنی کے لیے حاجب ورکاوٹ ہوتے ہیں (جبکہ آپ sym-1 کا جسم اطہر کثیف نہیں بلکہ لطیف ہے)۔ امام ابن سبع sym-4نے عدم سایہ پر آپ sym-1کے سراپا نور ہونے کو دلیل بنایا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ انوار لطیف اور شفاف ہونے کی وجہ سے دوسرے کے لیے رکاوٹ وحاجب نہیں ہوتے۔ اس لیے انوار کا سایہ نہیں ہوتا جس طرح کہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔۔۔ قرآن مجید آپ sym-1کے نور مبین ہونے پر ناطق ہے اور آپ sym-1کا بشر ہونا آپ sym-1کے نور ہونے کے ہرگز منافی نہیں۔آپ sym-1ایسے نور ہیں جو دوسروں پر غالب ہے کیونکہ نور کہتے ہی اسے ہیں جو خود ظاہر ہو اور غیر کو ظاہر کرنے والا ہو۔

اسی طرح امام راغب اصفہانی sym-4اس حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

وروى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى لم یكن له ظل.35
مروی ہے کہ جب حضور sym-1چلتے تو حضور sym-1 کا سایہ نہ ہوتا۔

علامہ حسین محمد دیار بکریsym-4 نے اس بات کو تحریر کیا ہے۔36 اسی طرح امام قسطلانی sym-4فرماتے ہیں:

لم یكن له صلى اللّٰه علیه وسلم ظل فى شمس ولا قمر.37
سورج اورچاندکی روشنی میں آپ sym-1کا سایہ قطعاً نہیں تھا۔

امام سلیمان جمل sym-4 نے بھی اسی طرح تحریر کیا ہے۔ 38 اسی حوالہ سےعلامہ محمد طاہر پٹنی sym-4لکھتے ہیں:

من اسمائه صلى اللّٰه علیه وسلم النور قیل من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم: اذا مشى فى الارض فى الشمس والقمر لایظھر له ظل.39
آپ sym-1کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک "نور" بھی ہے (اسی لیے) آپ sym-1کے خصائص میں سے بیان کیا گیا ہے کہ دھوپ اور چاندنی میں آپ sym-1کا سایہ نہ ہوتا تھا۔

امام حلبی sym-4آپ sym-1کے نور ہونے کی تصریح بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

وانه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مشى فى الشمس او فى القمر لایكون له ظل لانه كان نورا.40
بے شک حضور sym-1جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور sym-1کا سایہ نہ ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور sym-1نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔

اس کی مزید تشریح و توضیح کرتے ہوئےامام ابن حجر مکی sym-4فرماتے ہیں:

ومما یؤید انه صلى اللّٰه علیه وسلم صار نورا انه كان اذا مشى فى الشمس والقمر لایظھر له ظل لانه لایظھر الا للكثیف وھو صلى اللّٰه علیه وسلم قد خلصه للّٰه من سائر الكثافات الجسمانیة وصیره نورا صرفا لایظھر له ظل اصلا.41
اور جو چیز اس بات کی تائید کرتی ہے کہ حضور sym-1نور خالص ہوگئے یہ ہے کہ حضور sym-1جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور sym-1کا سایہ ظاہر نہ ہوتا تھا کیونکہ سایہ صرف جسم کثیف کا ظاہر ہوتا ہے، اور حضور sym-1کو اﷲ تعالیٰ نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کرکے ایسا نور محض بنالیا تھا جس کا سایہ اصلا ً ظاہر نہ ہوتا تھا۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی sym-4فرماتے ہیں:

وسایه ایشاں بر زمین نمى افتاد.42
حضور sym-1 کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا۔

اسی حوالہ سے مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی sym-4 فرماتے ہیں:

وبكشف صریح معلوم گشته است كه خلقت آں سرور علیه و على آله الصلوٰة والتسلیمات ناشى ازیں امكان است كه بصفات اضافیه تعلق دارد، نه امكانیكه درسائر ممكنات عالم كائن است، ھر چند بدقت نظر صحیفه ممكنات عالم رامطالعه نموده مى آید، وجود آں سرور آنجا مشھود نمى گردد، بلكه منشاء خلقت وامكان او علیه و على آله الصلوٰةوالسلام درعالم ممكنات نباشد بلكه فوق ایں عالم باشد ناچار اور اسایه نبود، ونیز درعالم شھادت سایه ھر شخص لطیف ترست وچوں لطیف ترازوى درعالم نباشد اور اسایه چه صورت دارد، علیه و على آله الصلوٰة والتسلیمات.43
اور کشف صریح سے معلوم ہوا کہ آپsym-1کی خلقت اس امکان سے ناشی ہے جو صفات اضافیہ سے تعلق رکھتا ہے، نہ اس امکان سے جو تمام عالم ممکنات میں ہے۔جس قدر بھی دقت نظر سے صحیفہ ممکنات عالم کا مطالعہ کیا جائے توآں سرور sym-1کا وجود مبارک وہاں (امکان ممکنات سے متصف ہوکر) ظاہر نہیں ہوتا(حتیٰ کہ) حضور sym-1کی خلقت وامکان کا منشا عالم ممکنات میں بالکل نہیں پایا جاتا بلکہ منشا خلقت محمدی اس عالم امکان سے بالاتر ہے لہٰذا ناچار حضور sym-1کا سایہ نہ تھا۔نیز عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے لطیف تر ہوتا ہے۔ جب حضور sym-1سے لطیف ترعالم میں کوئی چیز ہو نہیں سکتی تو حضور sym-1کا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے۔

ایک اور مقام پر حضرت مجدد الف ثانیsym-4 اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئےفرماتے ہیں:

ممكن چه بود كه ظل واجب باشد واجب را تعالى چرا ظل بود موھم تولید مثل است ومبنى برشائبه عدم كمال لطافت اصل ھرگاہ محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمد راچگونه ظل باشد.44
کیسے ممکن ہے کہ واجب کا سایہ ہو؟واجب تعالیٰ کے لیے تو سایہ کا ہونا ممکن ہی نہیں کہ اس سے تولید مثل کا وہم پیداہوتا ہے اور عدم ِلطافتِ اصل کا مظہر ہے۔ جب کمالِ لطافت کی وجہ سے محمد رسول اﷲ sym-1کا سایہ نہ تھا تو خدائے محمد sym-1کا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے؟

یعنی کہ جب اللہ تبارک وتعالی واجب الوجود ہے اور اس کا سایہ نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پیدا ہوتا کہ جب سایہ ہے تو مثل بھی ممکن ہے اسی لیے واجب الوجود کا سایہ نہیں ہے۔اسی طرح حضور اکرم sym-1کی اصل بھی نور الہیہ کی تجلی ہے تبھی آپ sym-1 کا بھی سایہ نہیں ہے۔

عدم سایہ تواتر سے ثابت ہے

بعض علماء نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ آپ sym-1کا جسم اطہر کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔رشید احمد گنگوہی "امداد السلوک" میں اس مسئلہ پر یوں رقمطراز ہیں:

وازیں جا است كه حق تعالى در شان حبیب خود صلى اللّٰه علیه وسلم فرمود كه البته نز وشما از طرف حق تعالى نور وكتاب مبین ومراد از نور ذاتِ پاك حبیب خداصلى اللّٰه علیه وسلم ھست ونیز او تعالى فرماید كه اے نبى صلى اللّٰه علیه وسلم ترا شاھد ومبشر ونذیر وداعى الى اللّٰه وسراج منیر فرستاده ایم ومنیر روشن كنند ونور دهنده راگویند پس اگر كسے را روشن كردن از انساناں محال یودے آں ذات پاك صلى اللّٰه علیه وسلم راھم ایں امر میسر نیامدے كه آں ذات پاك صلى اللّٰه علیه وسلم ھم از جمله اولاد آدم اند مگر آنحضرت صلى اللّٰه علیه وسلم ذات خود را چناں مطھر فرمود كه نور خالص گشتند و حق تعالى آنجناب سلامه‘ علیه را نور فرمود وبتواتر ثابت شدكه آنحضرت عالى سایه نداشتند وظاھراست كه بجز نور همه اجسام ظل مى دارند.45
اور اسی جگہ سے یہ بات ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے حبیب sym-1کی شان میں فرمایا کہ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور آیا اور کتاب مبین آئی اور نور سے مراد حبیب خدا sym-1کی ذات پاک ہے، نیز اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی sym-1ہم نے آپ کو شاہد ومبشر اور نذیر اور داعی الی اﷲ تعالیٰ اور سراج منیر بناکر بھیجا ہے اور "منیر" روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں، پس اگر انسانوں میں سے کسی کو روشن کرنا محال ہوتا تو آنحضرت sym-1کی ذات پاک کے لیے یہ امر میسر نہ ہوتا، کیونکہ حضور sym-1کی ذات پاک بھی جملہ اولاد آدم sym-9سے ہے، مگر آنحضرت sym-1نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمالیا کہ نور خالص ہوگئے اور حق تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نور فرمایا اور تواتر سے ثابت ہے کہ آنحضرت sym-1سایہ نہیں رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام کا سایہ ہوتا ہے۔

غلبہ نور کی وجہ سے بشریت بھی بے سایہ تھی

آپ sym-1کی ذاتِ اقدس سراپا نور تھی اس لیے سایہ نہ ہونا کوئی عجیب بات نہ تھی کیونکہ نور کا سایہ واقعتا نہیں ہوتا۔ مگر جب آپ sym-1اس عالم شہادت و دنیا میں انسانیت کی بھلائی کے لیے لباسِ بشریت میں تشریف لائے تو اس لباس کے باوجود اﷲ پاک نے آپ sym-1کا سایہ پیدا نہ فرمایا۔ اس کی واضح وجہ تو یہ ہے کہ آپ sym-1کی مبارک بشریت بھی نور سے مغلوب تھی اس لیے قرآن مجید نے آپ sym-1کی دونوں شانیں بیان فرمائیں ہیں۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مبارک ہے:

وَلَلْاٰخِرَة خَیرٌ لَّك مِنَ الْاُوْلٰى446
اور بیشک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی sym-4اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ sym-1کے درجات میں جو بلندی عطاء فرمائے گا ان میں سے ایک یہ ہے :

اول تاآنكه بشریت ترا اصلا وجود نماند وغلبه نور حق پر تو على سبیل الدوام حاصل شود.47
آپ sym-1 میں بشریت کا وجود بالکل نہ رہے گا اور نور حق کا غلبہ دائمی طور پر حاصل ہوجائے گا۔

رسولِ اکرم sym-1کے عدمِ سایہ کی حکمت

نبی اکرم sym-1کا جسداقدس و اطہر چونکہ انتہائی لطیف تھا جس کا مشاہدہ صحابہ کرام sym-7اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی کیاکرتے تھے۔ جب منافقین حضرت ام المومنین عائشۃالصدیقۃ sym-6 پر معاذ اللہ افتراء پردازی کرہے تھے تو اگرچہ حضور sym-1اپنی رفیقہ حیات کی معصومیت کے بارے میں باخبر تھے جس کا ذکر آپ sym-1نے اپنے جاں نثار صحابہ sym-7کے سامنے ان الفاظ میں فرما بھی دیا تھا:

واللّٰه ما علمت على اھلى الا خیرا.48
خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے۔

حقیقت حال سے باخبر ہونے کے باوجود آپ sym-1نے اس مسئلہ میں مصلحتاً سکوت اختیار فرمایا اور بایں خیال کچھ کہنا گوارا نہ کیا کہ یہ بدبخت میری کہی ہوئی بات کب مانیں گے؟ چنانچہ آپ sym-1حضرت عائشہ صدیقہ sym-6 کی برأت کے بارے میں وحی الٰہی کے منتظر رہے اور پھراس کی براءت کا اعلان خود رب کائنات نے قرآنِ مجید کی کئی آیات مبارکہ نازل فرماکر کیا۔ 49آپ sym-1نے بعض صحابہ کرامsym-7 سے اس معاملہ پر فرداً فرداً رائے طلب کی تو انہوں نے اپنی اپنی محبت کا اظہار بڑے ہی احسن پیرائے میں کیا۔

سیّدنافاروق اعظم sym-5نے عرض کی یا رسول اﷲ sym-1! میں اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور منافقین کی شرارت ہے ۔50 حضرت علی نے بھی اسی مفھوم کے مثل کلام کیا۔51 اسی طرح ایک روایت میں منقول ہےکہ اس موقع پر حضرت ذوالنورین عثمان ابن عفان نے بارگاہ عالیہ میں یوں عرض کیا:

قال عثمان: ان للّٰه ما اوقع ظلك على الارض لئلا یضع انسان قدمه على ذالك الظل فلما لم یكن احداً من وضع القدم على ظلك كیف یمکن احدا من تلوكث عرض زوجتک.52
جناب عثمان sym-5 نے عرض کیا : یارسول اﷲ sym-1رب نے آپ sym-1کا سایہ زمین پر نہ ڈالا تاکہ کوئی شخص اس سایہ پر قدم نہ رکھ سکے تو جب رب تعالیٰ نے کسی کوآپ sym-1کے سایہ پر قدم رکھنے کا موقع نہ دیا تو کسی کو یہ قدرت کیسے دے گا کہ آپ sym-1کی پاک زوجہ کی عصمت پر داغ لگائے۔

عظیم محدث امام رزین sym-4حضور اکرم sym-1کے جسد اطہر کا سایہ نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

لغلبة انواره.53
آپ sym-1کے انوار کےغلبہ کی وجہ (سے آپ sym-1کے جسم اطہر کا سایہ نہیں تھا) ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی sym-4اپنے ذوق کے مطابق توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ sym-1 کا مبارک سایہ ہوتا تو ممکن تھا کہ زمین کے کسی ناپاک حصے پر واقع ہوجاتا اور اﷲ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

نمى افتد حضرت را سایه بر زمین كه محل نجاست است.54
نبی کریم sym-1کا سایہ اقدس اس لیے نہیں پڑتا تھا کہ زمین محل نجاست ہے۔

اسی طرح امام زرقانی sym-4سایہ نہ ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وحكمة ذلك صیانته عن ان یطاء كافر على ظله.55
یہ آپ sym-1کی تکریم کی وجہ سے تھا کہ کہیں آپ sym-1کے سایہ پر کسی کافر کا قدم نہ آجائے۔

امام ترمذی sym-4نے بھی حضرت ذکوان سے مروی حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا کہ سایہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے:

لئلا یطاعلیه كافر فیكون مذلة له.56
تاکہ کوئی کافر آپ sym-1کے سایہ پر قدم نہ رکھ سکے ورنہ یہ آپ sym-1کی تکریم کے خلاف ہوتا۔

یعنی آپ sym-1کے سایہ نہ ہونے کی وجہ فی الحقیقت آپ sym-1کا عظیم الشان مرتبہ ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے آپ sym-1کو عطا فرمایا تھا۔اس کے علاوہ متذکرہ بالا تمام روایات سے درجِ ذیل فوائد معلوم و ثابت ہوئے۔

  1. آیت کریمہ قَدْ جَاۗءَكمْ مِّنَ اللّٰه نُوْرٌ وَّكتٰبٌ مُّبِین57میں نور سے حضور sym-1کی ذات پاک مراد ہے۔
  2. حضور sym-1سراج منیر ہیں اور منیر روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں۔
  3. بشری جسم سے عنصری اور مادی کثافتوں کا دور ہوجانا محال نہیں بلکہ واقع ہے۔
  4. حضور ﷺ نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمایا کہ حضور sym-1نور خالص ہوگئے اور اﷲ تعالیٰ نے حضور کو نور فرمایا۔
  5. بشریت اور نورانیت کا جمع ہونا ممکن ہے۔
  6. حضور sym-1کے جسم پاک کا سایہ نہ تھا۔
  7. حضور sym-1کے جسم اطہر کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔
  8. نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں۔

حضور اکرم sym-1کے نور ہونے پر شرعی و نقلی دلائل پیش کیے گئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی مشاہدات و تجربات اور روئے زمین پر پھیلی ہوئی مختلف النوع مخلوقات کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف مچھلیوں میں نو سے زائد اقسام وہ ہیں جن کے جسم باقاعدہ روشنی دیتے ہیں، درختوں میں کئی درخت ایسے ہیں جن میں سے روشنی نکلتی ہے، اسی طرح پرندوں میں کئی پرندے ایسے ہیں جن کے جسم سے باقاعدہ رات کے وقت خارج ہونے والی روشنی کو ہر بینا شخص دیکھ سکتا ہے اور اجرام فلکی کی رات و دن نکلنے والی روشیوں (Lights) سے اگر ہم مستفید نہ ہوں تو شاید، انسانوں کے لیے زمین پر زندہ رہنا ہی محال (Impossible) ہوجائے۔ چاند، سورج، تارے اور دوسرے سیارات کی روشنی (Light) پر کبھی کوئی شخص معترض نہیں ہوسکتا ورنہ خود اس شخص کی ذہنی حیثیت بھی مشکوک ہوسکتی ہے۔

مذکورہ بالا تمام مخلوقات اپنی خِلْقَتْ میں مادی ہونے کے باوجود نورانیت کے (Aspect) سے غالب ہیں اور یہ غلبہ اتنا زیادہ ہے کہ ہر کس و ناکس ان مخلوقات کے مادی وجود کے بجائے نورانی وصف سے پہچانتا ہے۔ سورج ، چاند اور ستارے اگر اپنی شناخت رکھتے ہیں تو وہ روشنی ہے۔

ذاتِ رسالت مآب sym-1معنوی و حسی ہر دوجہتوں سے نورٌمن نور اللہ تعالیٰ تھے۔ اور یہ آپ کا وصف بالکل اسی طرح عام انسانوں سے منفرد تھا جس طرح آپ sym-1اپنے دوسرے اوصاف حمیدہ میں عام انسانوں سے باالکل جداگانہ تھے۔ اگر آپ سے ہزاروں معجزات کا صدور آپ sym-1کے نبوت کے لیے دلیل ہونے کی حیثیت سے بغیر کسی تردد کے قبول کرنا مسلمان ضروری سمجھتا ہے تو آخر آپ sym-1کی نورانیت کے امتیاز کا وصف کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ اور آپ sym-1کے اوصاف جسمانی کی طہارت و نظافت اور پھر اس کی لطافت اگر تمام انسانوں سے جدا ہے تو پھر آخر اس کے نورانی ہونے میں ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کے لیے عقل و فکر کے میدان میں قلمِ سپ نازی پر سوار ہونے کے باوجود حیران و سرگرداں رہا جائے؟۔


  • 1  القرآن، سورۃ المائدہ5: 15
  • 2  علی بن احمد الواحدی،الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، ج-1 ، مطبوعۃ: الدار الشامیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:313
  • 3  عبدالرحمن بن محمد مخلوف ثعلبی،الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن، ج-1، مطبوعۃ: موسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 453
  • 4  حسین بن مسعود بغوی، تفسیر بغوی، ج-2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:22
  • 5  ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی، زادالمسیر، ج -2، مطبوعۃ: مکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:316
  • 6  القرآن، الاحزاب33: 46-45
  • 7  القرآن، سورۃ الفرقان61:25
  • 8  محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3419، ج -5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:357
  • 9  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج- 5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان 1996ء، ص:525
  • 10  ایضاً
  • 11  ابو البرکات عبداﷲ بن احمد نسفی، تفسیر مدارک، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکلم الطیب، بیروت، لبنان 1998ء، ص:492
  • 12  سیّد احمد سعید کاظمی، مقالات کاظمی، ج -4،مطبوعہ: کاظمی پبلی کیشنز ،ملتان، پاکستان، 2012ء،ص :68-69
  • 13  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 414، ج-22، مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، ص:155-156
  • 14  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:23
  • 15  محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 9، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988 ، ص: 14
  • 16  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:30
  • 17  ایضًا
  • 18  محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث :14، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت، لبنان، 1988، ص:16
  • 19  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج -1،مطبوعۃ: عبد التوا ب اکیڈمی، ملتان، پاکستان، ص:39
  • 20  ابراہیم بن محمد بیجوری،المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:34
  • 21  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :2518، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1984ء، ص:18
  • 22  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3556، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:744
  • 23  ابوالفداءاسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1997ء، ص:401
  • 24  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 107
  • 25  عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 20490، ج-11، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص:259
  • 26  حسین بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختارﷺ، حدیث: 298، ج -1، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، 1995ء، ص:245-246
  • 27  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 107
  • 28  محمد مہدی الفاسی، مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، 1289ھ، ص:345
  • 29  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:116
  • 30  ایضًا
  • 31  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاء باحوال المصطفی ﷺ، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 47
  • 32  عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، الجزء المفقود من المصنف لعبدالرزاق، مطبوعۃ: مکتبۃ نو، لاہور، پاکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 33  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار القیحاء عمان،1407 ھ، ص:731-732
  • 34  شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ، ص:335
  • 35  ابو القاسم حسین بن محمد راغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص:536
  • 36  حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:219
  • 37  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ ،ج -2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 85
  • 38  سلیمان جمل، فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ، مطبوعۃ: دار ابن رجب، مصر،1303 ھ، ص:5
  • 39  محمدطاہر پٹنی، مجمع بحار الانوار، ج-3، مطبوعۃ: نول کشور، لکھنؤ، انڈیا، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:402
  • 40  علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 423
  • 41  احمد ابن حجر المکی، المنح المکیہ فی شرح الھمزیۃ، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا) ص:87
  • 42  شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ، تفسیر فتح العزیز،مطبوعہ: مجتبائی، دہلی، انڈیا، (سن اشاعت ندارد)، ص:219
  • 43  شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی، ج-3 ،مطبوعہ: نول کشور، لکھنؤ، ہند، ص:187
  • 44  ایضًا
  • 45  رشید احمد گنگوہی، امداد السلوک، مطبوعہ: بلالی دخانی پریس، ساڈھورہ ،ہند، ص :85-86
  • 46  القرآن، سورۃ الضحٰی4:93
  • 47  شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ، تفسیر فتح العزیز،مطبوعہ: مجتبائی، دہلی،انڈیا، ص:217
  • 48  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 2637، ج -3، مطبوعۃ: دمشق، السوریۃ، 1422ھ، ص:167-168
  • 49  القرآن، سورۃ النور11:24-26
  • 50  ابو البرکات عبداﷲ بن احمد نسفی، تفسیر مدارک، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکلم الطیب، بیروت، لبنان ، 1998ء، ص:492
  • 51  ایضاً
  • 52  ایضاً
  • 53  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج-7 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص: 199
  • 54  الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج -1،مطبوعہ: نؤل کشور ، ہند، ص:146
  • 55  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج -7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:199
  • 56  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ،1993ء، ص:90
  • 57  القرآن، سورۃالمائدۃ5: 15

Powered by Netsol Online