Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

دستِ مصطفٰی ﷺ

Published on: 13-Dec-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 55، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 807-883)

آپ sym-1کے دستِ اقدس کے کمالات کا احاطہ دشوار ہے کیونکہ آپ sym-1نے جہاں اور جس پر دست اقدس رکھا اس کے ثمرات وہاں ضرور مرتب ہوئے، کسی کو ان کی برکت سے حافظہ ملا، کسی کو انشراح صدر۔ بیمار کو بیماری سے شفا مل جاتی تھی۔دست اقدس جہاں پھیرتے وہ جگہ ہمیشہ کے لیے برکتوں کا منبع ہوجاتی،دست کرم کی برکت سے بیماریاں دور ہوتیں، تکلیفیں دفع ہوتیں، جن چہروں اور سروں پر دستِ شفقت رکھا ان کے چہرے ہمیشہ تروتازہ اور سر کے بال کبھی سفید نہ ہوئے۔ اگر کسی کو سینے پر رکھنے کا موقعہ ملا تو وہ سینہ علوم و معارف کا خزینہ قرار پایا۔ اگر دستِ اقدس کسی چھڑی کو لگ گیا تو وہ روشن ہوگئی۔ میدانِ کا رزار میں غلاموں کے پاس تلواریں ٹوٹ جاتیں تو وہ کھجور کی شاخیں لے کر حاضر ہوتے اورآپ sym-1کے ہاتھ کی برکت سے وہ تلوار بن جاتیں ۔

حضور sym-1کے ہاتھ مبارک ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض وبرکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ sym-1نے اپنے دستِ مبارک سے مس کیا اس کی حالت بدل گئی اور وہ اس کی برکت و تاثیر تادمِ آخر تک محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تونہ صرف اُسے علم وشفایابی عطا فرمائی بلکہ اسے خیر و حکمت کے خزانوں سے مالامال کردیا۔

یہی وہ دست ِ اقدس ہے کہ جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت فرمایا ہے اور اسی دست اقدس پر بیعت کرنے والوں کو یوں بشارت دی ہے یداﷲ فوق ایدیھم کہ ان کے ہاتھوں پر اﷲ کا ہاتھ ہے اور یہی وہ دست شفا ہے کہ جس کے محض چھونے سے وہ بیماریاں دور ہوجاتی تھیں جن کے علاج سے اطباّء عاجز ہیں اور یہی وہ دستِ قدرت ہے کہ جس کے اشارے سے چاند دو پارہ ہوگیا تھا اور ڈوبا ہوا سورج واپس لوٹ آیا تھا۔

کونین کی نعمتیں ہاتھوں میں

یہ وہی نور انی ہاتھ تھے کہ کونین کی نعمتیں ان ہی مبارک ہاتھوں میں مستور تھیں اور کائنات کی ساری برکتیں ان ہی بے مثل ہاتھوں میں پوشیدہ تھیں ۔جیساکہ نبی اکرم sym-1ارشاد فرماتے ہیں:

انى وقد اعطیت مفاییح خزائن الارض او مفاتیح الارض.1
بے شک مجھے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1نے فرمایا:

اوتیت خزائن الارض فوضع فى یدى.2
مجھے زمین کے تمام خزانے دیے گئے ہیں اور وہ میرے ہاتھ میں رکھ دئیے گئے ہیں۔

ایک اور روایت میں حضرت جابر بن عبداﷲ sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1 نے فرمایا:

اتیت بمقالید الدنیا على فرس ابلق علیه قطیفة من سندس.3
(1)مجھے ساری دنیا کی کنجیاں عطا فرمائی گئی ہیں اور انھیں ابلق گھوڑے پر رکھ کر میرے پاس لایا گیا ہے اور ان کنجیوں پر ریشمی چادر پڑی ہوئی ہے۔

یہ کنجیاں حضرت جبریلsym-9 لیکر آئے تھےجیسا کہ امام سیوطیsym-4 کی روایت میں ہے:

اتیت بمقالید الدنیا على فرس ابلق جاء نى بھا جبریل علیه قطیفة من سندس.4
مجھے ساری دنیا کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ حضرت جبریلsym-9 ان کو ابلق گھوڑے پر رکھ کر میرے پاس لائے اور ان کنجیوں پر ریشمی چادر پڑی ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم sym-1کے دستِ اقدس میں تمام خزانوں کی چابیاں عطا فرمائی گئی ہیں اور اس کا مقصد ہے کہ آپ sym-1ان میں تصرف فرما سکتے ہیں۔

حضرت آمنہ sym-6کی روایت

حضرت آمنہsym-6 فرماتی ہیں کہ حضور sym-1کی ولادت کے بعد ایک کہنے والا کہہ رہا تھا:

محمد على مفاتیح النصرة ومفاتیح الریح ومفاتیح النبوة…بخ بخ قبض محمد صلى اللّٰه علیه وسلم على الدنیا كلھا لم یسبق خلق من اھلھا الا دخل فى قبضته.5
محمد (sym-1) نے نصرت کی کنجیوں اور نفع کی کنجیوں اور نبوت کی کنجیوں پر قبضہ فرمالیا ہے۔ ۔ ۔واہ واہ محمد sym-1نے ساری دنیا پر قبضہ کرلیا۔ کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو آپ sym-1کے قبضہ میں نہ آئی ہو۔

اسی طرح حضور sym-1نے فرمایا :

اعطیت الكنزین الاحمر والابیض.6
مجھ کو دو خزانے سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی )عطا فرمائے گئے۔

ایک اور روایت میں حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:

اوتیت مفاتیح كل شىء.7
مجھے ہر چیز کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔

اسی طرح اخروی حیثیت میں بھی آپ sym-1کو یہ خزانیں دیے گئے ہیں چنانچہ حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1نے فرمایا:

اذایسوا الكرامة والمفاتیح یومئذ بیدى.8
قیامت کے دن جب لوگ ناامید ہوں گے، عزت وکرامت اور کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی۔

نہ صرف دنیاوی لحاظ سے تمام خزانیں آپ sym-1کے پاس ہیں بلکہ اخروی لحاظ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ عظمت و شرف نبی اکرم sym-1کو عنایت فرمایا ہے۔

شرحِ صدر کی دولت

سیدنا علی sym-5بیان کرتے ہیں کہ مجھے آقا sym-1نے یمن میں گورنر بناکر بھیجنا چاہا تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! مجھے تو تجربہ نہیں میں پیش آنے والے مقدمات ومعاملات کو کس طرح نپٹاؤں گا۔آپ sym-1نے میری گزارش سنی توآپ sym-1نے میرے سینے پر ہاتھ مبارک رکھ کر یہ دعا کی اے اﷲ اس کے دل کی رہنمائی فرما اور اس کی زبان کو سلامت رکھ۔اس کے بعد سیدنا علی sym-5فرماتے ہیں:

فما شككت فى قضاء بین الاثنین حین جلست فى مجلسى.9
پس تب سے اب تک جب بھی میں مسندِ قضا پر بیٹھا تو دو (شخصوں یا فریقین) کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے شک میں مبتلا نہیں ہوا۔

حضور sym-1نے حضرت علی sym-5کو 10ہجری میں یمن بھیجا تھا اور اس وقت حضرت علی sym-5کی عمر مبارک 30سال تھی ۔ چونکہ منصبِ قضا انتہائی دشوار معاملہ ہے اس لیے آپ sym-5نے اپنی اس عمر کو اس منصب کے لیے کم سمجھا اور نبی کریم sym-1کے نزدیک بھی یہ عمر قاضی کے لیے کم ہی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپsym-1نے حضرت علیsym-5 کے عذر کو مسترد نہیں فرمایا بلکہ حضرت علیsym-5 کے سینہ پر اپنا دست اقدس پھیر کر اس کمی کو پورا فرمادیا۔ توفیق ایزدی، تربیت نبوی اور دعا ءِنبوی شامل نہ ہو تو عقل بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ قاضی کے لیے اتنی عمر کافی نہیں ہے کیونکہ اس منصب کے لیے فقط علم کی نہیں بلکہ تجربہ کی بھی ضرورت ہے اور تجربہ کے لیے اتنی عمر کم ہوتی ہے۔

حضور sym-1کے دستِ مبارک کا یہ اثر ہوا کہ حضرت علی sym-5سے بہتر فیصلہ کرنے والا صحابہ کرام sym-5میں کوئی نہ تھا۔دست اقدس پھیرنے کے بعد آپ صرف قاضی نہیں بلکہ اقضی الامۃ (Chief Justice) یعنی امت کے سب سے بڑے قاضی بن گئےتھے۔چنانچہ حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:

اقضى امتى على.10
میری امت کا سب سے بڑا قاضی علی sym-5ہے۔

اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن مسعود sym-8 فرماتے ہیں:

كنا نتحدث ان اقضى اھل المدینة على بن ابى طالب.11
ہم کہا کرتے تھے کہ اہل مدینہ کے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔

اس بات کو حضرت فاروق اعظم sym-5نے بھی بیان کیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

اقضانا على.12
ہمارے سب سے بڑے قاضی علی sym-5ہیں۔

یعنی نبی اکرم sym-1کےدستِ مبارک کی برکت سے حضرت مولی علی المرتضیٰsym-5 اس امت کے رئیس القضاءۃ بنے اور آپ کی زندگی کے فیصلوں سے اس کی واضح نشانیاں ملتی ہیں جن ميں سب سے مشہور و معروف خطبۂ منبریہ ہے۔

قوتِ حافظہ کا حصول

ابوہریرہsym-5 سے مروی ہے کہ میں نبی کریم sym-1کے ارشاداتِ عالیہ کو حفظ کیا کرتا تھا مگر حافظہ ساتھ نہ دیتا جویاد کرتا بھول جاتا اس پر یشانی کا ذکر میں نے حضور نبی کریم sym-1کی خدمت میں کیا تو آپ sym-1نے مجھے چادر اتارکر زمین پر بچھانے کا حکم دیا۔ میں نے آپ sym-1کے حکم کے مطابق چادر زمین پر بچھادی۔

فغرف بیدہ فیه ثم قال ضمه فضممته فما نسیت شیئا بعد.13
آپ sym-1نے دونوں ہاتھوں سے چلو بھرکر اس چادر میں رکھا اور فرمایا اسے اپنے سینے کے ساتھ لگالے ، میں نے ایسے ہی کیا اس کے بعد مجھے کبھی کوئی شے نہیں بھولی۔

اس حدیث میں نسیان کا لفظ ہے اس کا معنی ہے بھولنا اور علم کے بعد جہل۔ سہو اور نسیان میں یہ فرق ہے کہ نسیان میں علم کی صورت، قوت حافظہ اور مُدرِکہ دونوں سے نکل جاتی ہے اور سہو میں علم کی صورت صرف مدرکہ سے نکل جاتی ہے اور حافظہ میں موجود ہوتی ہے اور سہو اور خطاء میں یہ فرق ہے کہ سہو میں معمولی تنبیہ سے انسان سمجھ جاتا ہے اور خطا میں معمولی تنبیہ کافی نہیں ہوتی۔ نسیان وہ حالت ہوتی ہے جو انسان پر غیر اختیاری طور پر طاری ہوجاتی ہے اور اس کا سبب حفظ کے اسباب سے غفلت برتنا ہے۔

حضرت ابوہریرہ sym-5نے حضور sym-1سے نسیان کی شکایت کی تو آپ sym-1نے یہ نہیں فرمایا کہ نسیان کے ازالہ کے لیے کسی طبیب یا معالج کے پاس جاؤ، میرا منصب تو صرف احکام شرعیہ بتانا ہے، معلوم ہوا کہ رسول اﷲ sym-1صرف احکامِ شرعیہ بتانے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ sym-1ہر درد کے درماں تھے اور آپ sym-1کے پاس ہر مشکل کا حل تھا اور آپ sym-1نے حضرت ابوہریرہsym-5 کا حافظہ قوی کرکے اس کو ثابت کردیا تھا۔حضور sym-1کا خالی ہاتھ سے کپڑے میں کوئی چیز ڈالنا بظاہر اس قسم کا تھا کہ دیکھنے والوں کی عقل اس کے ادراک میں متحیر ہوگئی ہوگی کہ خالی ہاتھ سے کپڑے میں کوئی چیز ڈال دینا کیسی بات ہے مگر جب حضرت ابوہریرہ sym-5کی شکایت رفع ہوگئی اور اس قدر ان کا حافظہ قوی ہوگیا کہ اس کے بعد ان کو کبھی کوئی چیز نہ بھولی تو دیکھنے والوں کو یقین ہوگیا کہ حضور sym-1کے ہاتھ خالی نہ تھے بلکہ ان میں قوت حافظہ بھری ہوئی تھی جو حضرت ابوہریرہsym-5 کی جھولی میں ڈال رہے تھے۔

اب رہی یہ بات کہ قوت حافظہ کوئی ایسی چیر نہیں کہ جو کسی کے ہاتھ میں آئے اور اس سے منتقل ہوکر دوسرے کے دماغ میں پہنچ جائے، اگرچہ یہ بات عقل سے خارج ہے مگر جب اس کا مشاہدہ صحابہ کرام sym-7کو ہوگیا کہ ادھر تو حضور sym-1نے اپنے ہاتھوں کوکپڑوں میں ڈالا، اور ادھر ان کی قوت حافظہ بڑھ گئی تو اب اس کے یقین کرنے میں ان کو ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ مشاہدہ سے بڑھ کر یقین دلانے والی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ البتہ سننے والوں کو اس میں ضرور حیرانی ہوتی ہے کیونکہ ان کو اس امر کا مشاہدہ نہیں ہوا۔مثلااگر ایک شخص کی عمر سو برس کی ہے اور اس کا حافظہ اس قدر قوی ہے کہ جو کچھ وہ سنتا ہے، یاد رکھتا ہے اور ہر قسم کے علوم اور مضامین اس کے حافظے میں جمع ہیں وہ بھی اس طرح کہ جب اس نے پہلی مرتبہ کسی چیز کو سنایا دیکھا تو وہ اس کے دماغ میں نقش ہوکر محفوظ ہوگئی۔ اس کے بعد جب دوسری بات دماغ میں پہنچی تو وہ بھی اسی طرح پہلی بات کے ساتھ نقش ہوگئی۔ اسی طرح وقتاً فوقتاً جو چیزیں اس کے دماغ میں پہنچیں، وہ سب کی سب نقش ہوتی گئیں اور دماغ میں معلومات کا ایک ذخیرہ جمع ہوگیا وہ بھی ایسے کی اگر تمام معلومات تحریر میں لائی جائیں تو صدہا جلدوں کی کتاب بن جائے،کیونکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ادراک ہوتا ہی رہتا ہے۔

کیا یہ بات عقلاً درست ہے کہ ایک چھوٹا سا دماغ اتنا بڑا کتب خانہ بن جائے اور پھر ان محفوظات ِدماغ سے اگر کوئی کتاب لکھی جائے تو اس میں تقدیم و تاخیرِ مضامین کی ضرورت بھی نہ ہو، پہلے صفحے کا مضمون دوسرے صفحے میں نہ ہو اور اگر کوئی بات اس میں دیکھنا منظور ہو تو صدہا بلکہ ہزارہا ورق الٹنے کی ضرورت بھی نہ ہو؟ ہرگز نہیں۔بلکہ دماغ میں جو جو چیزیں محفوظ ہیں، ان کی یہ حالت ہے کہ جس وقت جو مضمون نکالنا چاہیں،چاہے وہ کتنی ہی مدت کا واقعہ کیوں نہ ہو ، فوراً پیشِ نظر ہوجاتا ہے حالانکہ دماغ میں جس قدر مضامین ومعلومات یکجا ہوتے ہیں وہ یکے بعد دیگرے جمع ہوتے ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس طرح کتاب کی ورق گردانی کرکے مضمون نکالا جاتا ہے یہاں بھی اس طرح تفحص کیا جاتا، مگر ایسا نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے امور کی طرف خیال نہیں کیا جاتا، مگر تدبر اور تفکر سے کام لیا جائے تو اس میں عقل کو کوئی حیرانی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قوت حافظہ کی تخلیق ہی اس طرح کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،جس کو جس طرح چاہے،پیدا کرے،اس طرح خدا کی قدرت پر ایمان کامل ہوجاتا ہے۔

اس حدیث کے مضمون کو بھی اگر خدا تعالیٰ کے حوالے کردیا جائے اور کہا جائے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے قوت حافظہ کو عجیب الخلقت بناکر دماغ میں رکھا ہے اسی طرح حضور sym-1کے دست مبارک میں بھی بے شمار کمالات و برکات موجود تھیں جب چاہتے، جو چاہتے، دست مبارک سے اس کا ظہور ہوجاتا۔ چنانچہ قوت حافظہ جو قدرت نے آپ sym-1کے دست قدرت میں رکھی تھی، آپ sym-1نے حضرت ابوہریر ہ کے دماغ میں رکھ دی جس کو ہر شخص نہیں جان سکتا۔

قوتِ حافظہ مل گئی

اسی حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاصsym-5 بیان کرتے ہیں:

شكوت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سوء حفظى للقرآن قال ذلك شیطان یقال له خنزب ادن منى یا عثمان ثم تفل فى فمى فوضع یده على صدرى فوجدت بردھا بین كتفى فقال یا شیطان اخرج من صدر عثمان قال فما سمعت شیئا بعد ذلك الا حفظته.14
میں نے نبی کریم sym-1سے اس بات کی شکایت کی کہ قرآن حکیم میرے سینے سے نکل جاتا ہے (یعنی یاد نہیں رہتا) تو آپ sym-1نے فرمایا: یہ شیطان ہے جسے خنزب کہتے ہیں ، اے عثمان! تم میرے قریب آؤ ۔ پھر آپ sym-1نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور میرے سینے پر دست مبارک رکھ دیا، میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ sym-1نے فرمایا: اے شیطان عثمان کے سینے سے نکل جا ۔ آپ sym-5 کہتے ہیں پھر میں جو چیز بھی سنتا مجھے یاد رہتی۔

امام بیہقیsym-4 حضرت عثمان بن ابی العاص sym-5سے روایت کرتے ہیں:

استعملنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وانا اصغر الستة الذین وفدوا علیه من ثقیف وذلك انى كنت قرات سورة البقرة فقلت یا رسول اللّٰه ان القرآن ینفلت منى فوضع یده على صدرى وقال یا شیطان اخرج من صدر عثمان فما نسیت شیئا بعده ارید حفظه.15
مجھے رسول اﷲ sym-1نے عامل مقرر کیا تھا اور میں ان چھ افراد میں سے چھوٹا تھا جو وفد کی صورت میں حضور sym-1کے پاس بنوثقیف میں سے آئے تھے۔ یہ اس لیے ہوا کہ میں سورہ بقرہ پڑھتا رہتا تھا۔

میں نے عرض کی یا رسول اﷲ sym-1بے شک قرآن مجھ سے چلا جاتا ہے حضور sym-1نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور فرمایا کہ :اے شیطان تونکل جا عثمان کے سینے سے۔ کہتے ہیں کہ اسکے بعد سے میں کوئی بھی چیز نہیں بھولا ہوں جس کو میں یاد کرنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح امام ابن ماجہ sym-4حضرت عثمان بن ابی العاص sym-5 سے روایت کرتے ہیں:

لما استعملنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على الطائف جعل یعرض لى شىء فى صلاتى حتى ما ادرى ما اصلى فلما رایت ذلك رحلت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال ابن ابى العاص قلت نعم یا رسول اللّٰه قال ماجاء بك قلت یا رسول اللّٰه عرض لى شىء فى صلواتى حتى ما ادرى ما اصلى قال ذاك الشیطان ادنه فدنوت منه فجلست على صدور قدمى قال فضرب صدرى بیده وتفل فى فمى وقال اخرج عدوا اللّٰه ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال الحق بعملك قال فقال عثمان فلعمرى ما احسبه خالطنى بعد.16
رسول اﷲ sym-1نے جب مجھے طائف کا گورنر بنایا تو میرے دل میں اس قسم کے خیالات آنے لگے کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی نمازیں پڑھنی ہیں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو سفر کرکے حضور sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ sym-1نے مجھے دیکھ کر کہا: (تم) ابو العاص کے بیٹے ہو، میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ sym-1نے فرمایا :کیوں آئے ہو؟ میں نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی۔ آپ sym-1نے سن کر فرمایا: آگے آؤ۔ میں ادب سے دو زانو سامنے بیٹھ گیا۔ آپ sym-1نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک رکھا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تین بار ارشاد فرمایا :اے اﷲ کے دشمن نکل جا۔ اس کے بعد فرمایا: اے عثمان اپنے کام پر جاؤ۔ حضرت عثمان sym-5کہتے ہیں اﷲ کی قسم اس روز سے اس قسم کے شیطانی وسوسے میرے دل میں کبھی پیدا نہ ہوئے۔

یہاں بھی کسی کو حیرانی ہوسکتی ہے کیونکہ نسیان کی عمامی وجوہات کچھ اور ہیں مگر اس حدیث سے ثابت ہے کہ شیطان بھی بھلادیا کرتا ہےجسکی تائید قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے:

فَاَنْسٰیه الشَّیطٰنُ4217
شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔

یہ حیرانی اس وقت تک دور نہیں ہوسکتی جب تک خدا تعالیٰ کی قدرت پر پوری طرح ایمان نہ لایا جائے۔

دل کی دنیا بدل گئی

آپ sym-1کے دستِ اقدس کی برکت کےحوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے امام سہیلی sym-4فرماتے ہیں:

ابو محذورة الجمحى واسمه سلمة بن معیر وقیل سمرة فانه لما سمع الاذان وھو مع فتیة من قریش خارج مكة اقبلوا یستھزؤون ویحكون صوت المؤذن غیظا فكان ابو محذورة من احسنھم صوتا فرفع صوته مستھزئا بالاذان فسمعه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فامر به فمثل بین یدیه وھو یظن انه مقتول فمسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ناصیته وصدره بیده قال فامتلا قلبى واللّٰه ایمانا ویقینا وعلمت انه رسول اللّٰه فالقى علیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الاذان وعلمه ایاه وامره ان یوذن لاھل مكة وھو ابن ست عشرة سنةفكان مؤذنھم حتى مات ثم عقبه بعد یتوارثون الاذان كابرا عن كابر وفى ابى محذورة یقول الشاعر:
اما ورب الكعبة المستورة وما تلا محمد من سورة
والنغمات من ابى محذورةلافعلن فعلة مذكورة.18
حضرت محذورہ کا نام سلمہ بن معیر تھا، ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام سمرہ تھا جب انہوں نے اذان کو سنا جبکہ ان کے ساتھ قریش کے چند نوجوان تھے اور یہ مکہ مکرمہ سے باہر تھے، وہ اذان کا مذاق اڑانے لگے اور غصہ سے مؤذن کی آواز کا ٹھٹھا کرتے۔ ابو محذورہ کی آواز سب سے اچھی تھی انہوں نے اذان کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا۔ نبی کریم sym-1نے ان کی آواز کو سن لیا، حضور نبی کریم sym-1نے اسے حکم دیا (دوبارا اذان دہرانے کا) ابو محذورہ نے آپ sym-1کے سامنے اس کی نقل کی، وہ گمان یہ کررہے تھے کہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ حضور sym-1نے اپنا ہاتھ مبارک ان کی پیشانی اور سینے پر پھیرا تو ابومحذورہ نے کہا: اﷲ کی قسم میرا دل ایمان ویقین سے بھر گیا اور مجھے علم ہوگیا کہ آپ sym-1اﷲ کے رسول ہیں۔ حضور sym-1نے اذان کے کلمات ان پر دہرائے، انہیں اذان کی تعلیم دی اور حکم دیا کہ اہل مکہ کے لیے تم اذان دیا کرو جبکہ ان کی عمر سولہ سال تھی۔ یہ اپنی موت تک اہل مکہ کے مؤذن رہے پھر ان کی اولاد یکے بعد دیگرے اس ذمہ داری کو ادا کرتی رہیں ۔ابو محذورہ کے بارے میں شاعر کہتا ہے:خبر دار اس کعبہ کے رب کی قسم جس پر پردہ ڈالا گیا ہے اور اس تورات کی قسم جو حضرت محمد sym-1نے تلاوت کی اور ابومحذورہ کے نغمات کی قسم میں مذکورہ فعل ضرور کروں گا۔

اسی حوالہ سے امام شافعی sym-4بیان کرتے ہیں:

ثم وضع یده على ناصیة ابى محذورة ثم امرھا على وجھه ثم مربین ثدییه ثم على كبده ثم بلغت یده سرة ابى محذورةثم قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بارك اللّٰه فیك وبارك علیك فقلت یا رسول اللّٰه مرنى بالتاذین بمكة فقال قد امرتك به وذھب كل شىء كان لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من كراھیة وعاد ذلك كله محبة لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقدمت على عتاب بن اسید عامل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذنت بالصلاة عن امر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .19
پھر حضور نبی کریم sym-1نے اپنا دست مبارک حضرت محذورہ کی پیشانی پر رکھا اور پھر ان کے چہرے پر پھیرا۔ پھر ان کے سینے پر پھیرا پھر ان کے جگر پر پھیرا یہاں تک کہ نبی کریم sym-1کا دست مبارک حضرت محذورہ کی ناف تک پہنچ گیا۔ پھر نبی کریم sym-1نے دعا کی: اﷲ تعالیٰ! تمہارے اندر اور تمہارے اوپر برکتیں نازل کرے۔(حضرت محذورہ بیان کرتے ہیں) میں نے عرض کی یا رسول اﷲ(sym-1)! آپ مجھے مکہ میں اذان دینے کی اجازت دیں۔ نبی کریم sym-1نے فرمایا :تمہیں اجازت ہے۔ (حضرت محذورہ کہتے ہیں) اس وقت نبی کریم sym-1کے بارے میں جو ناپسندیدگی تھی وہ ساری ختم ہوگئی اور نبی کریم sym-1کی مکمل محبت (میرے دل میں گھر کرگئی) پھر میں حضرت عتاب بن اسید sym-5کے پاس آیا جو نبی کریم sym-1کے مقرر کردہ امیر تھے تو نبی کریم sym-1کی ہدایت کے تحت میں نے اذان دی۔

یعنی جس دل میں بغض و کینہ اور نفرت تھی وہ یکدم رسول اکرم sym-1کے دستِ مبارک کی برکت سے محبت سے بھر گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو محذورہ ایمان و یقین کی دولت سے نواز دیے گئے۔

اسی طرح حضرت شیبہ بن عثمان کے بارے میں بھی منقول ہے کہ حضور sym-1کے دست اقدس کےپھرنے کی دیر تھی کہ انکےبھی دل کی دنیا بدل گئی۔حضرت شیبہ بن عثمان sym-5 اپنے اسلام لانے کی داستان (مندرجہ ذیل الفاظ میں) بیان کرتے تھے:

لما كان عام الفتح ودخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مكة عنوة قلت اسیر مع قریش الى ھوازن بحنین فعسی ان اختلطوا ان اصیب من محمد غرة فاكون انا الذى قمت بثار قریش كلھا واقول لو لم یبق من العرب والعجم احد الا اتبع محمدا ما اتبعته ابدا فكنت مترصدا لما خرجت له لا یزداد الامر فى نفسى الا قوة فلما اختلط الناس اقتحم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بغلته واصلت السیف ودنوت ارید ما ارید منه ورفعت سیفى حتى كدت اسوره فرفع لى شواظ من نار كالبرق كاد یمحشنى فوضعت یدى على بصرى خوفاً علیه والتفت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنادانى یا شیبة ادن منى فدنوت فمسح صدرى ثم قال اللّٰھم اعذه من الشیطان قال فواللّٰه لھو كان ساعتئذ احب الى من سمعى وبصرى ونفسى واذھب اللّٰه ما كان بى ثم قال ادن فقاتل فتقدمت امامه اضرب بسیفى اللّٰه یعلم انى احب ان اقیه بنفسی كل شى ولو لقیت تلك الساعة ابى لو كان حیاً لاوقعت به السیف حتى رجع الى معسكره فدخل خباء ہ فدخلت علیه فقال یا شیب الذى اراد اللّٰه بك خیر مما اردت بنفسك ثم حدثنى بكل ما اضمرت فى نفسى مما لم اذكره لاحد قط فقلت انى اشھد ان لا اله الا اللّٰه وانك رسول اللّٰه ثم قلت استغفر لى یارسول اللّٰه قال غفراللّٰه لك.20
جب فتح مکہ کا سال آیا اور نبی اکرم sym-1نے مکہ پر قبضہ کرلیا، تو میں نے کہا کہ میں بنو قریش کے ہمراہ بنو ہوازن کے پاس حنین میں چلاجاتا ہوں، ہوسکتا ہے، کہ جلدہی یہ دونوں گروہ محمد sym-1کا باہم ملکر مقابلہ کریں اور میں موقع پاکر تمام قریش کی ہزیمت کا بدلہ لے لوں۔ میں کہا کرتا تھا کہ اگر عرب و عجم میں کوئی شخص بھی باقی نہ رہے، سب محمد(sym-1) کی اطاعت اختیا ر کر لیں، تب بھی میں آپ sym-1کی اتباع نہ کروں گا، چنانچہ میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے منتظر تھا۔ آتشِ انتقام سینے میں بھڑک رہی تھی پھر جب دونوںگروہوں کا آمنا سامنا ہوا، نبی کریم sym-1اپنے خچر سے نیچے آئے، میں تلوار سونت کر اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے ان کے قریب ہوا۔ میں نے تلوار ابھی لہرائی ہی تھی کہ بجلی کی طرح آگ کے شعلے بلند ہوئے جنہوں نے مجھے ہِلا کر رکھ دیا۔ میں نے بینائی چھن جانے کے خوف سے اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے۔ اسی اثناء میں نبی اکرم sym-1نے میری جانب التفات فرمایا اور صدا دی: اے شیبہ! میرے قریب آؤ۔ میں آپ sym-1کے قریب گیا، تو آپ sym-1نے اپنا دست اقدس میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا: اے اﷲ! اسے شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔ شیبہ بیان کرتے ہیں بخدا! وہ گھڑی مجھے اپنی آنکھ، کان اور جان سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے۔ میرے سینہ کا بغض و کینہ جاتا رہا۔ نبی اکرم ﷺنے پھر فرمایا: میرے قریب آجاؤ اور قتال کرو، چنانچہ میں نے آگے بڑھ کر تیغ زنی شروع کی۔ خدا جانتا ہے، کہ اس وقت مجھے سب سے زیادہ یہ عزیز تھا کہ میں اپنی جان کے ساتھ نبی اکرم sym-1کا دفاع کروں۔اس گھڑی میری یہ حالت تھی کہ میرا والد بھی میرے سامنے آتا، تو اس کو بھی تہ تیغ کردیتا۔ اس کے بعد حضور sym-1اپنے لشکر گاہ کی طرف لوٹے اور خیمہ میں تشریف لائے۔ میں بھی آپ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ sym-1نے فرمایا: اے شیبہ! اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ جس چیز کا ارادہ فرمایا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے دل میں آئی تھی۔ اس کے بعد حضور sym-1نے مجھے میرے تمام دلی ارادوں سے مطلع فرمایا: حالانکہ میں نے ان ارادوں سے کسی کو قطعاً آگاہ نہیں کیا تھا۔ میں نے عرض کیا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ (محمدsym-1) اﷲ کے رسول ہیں۔ پھر میں نے عرض کیا یارسول اﷲsym-1میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیے۔ حضورsym-1نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے۔

اسی طرح امام اسحاق الفاکہی sym-4لکھتے ہیں:

فقال مالك یا شیبة ادن فدنوت فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على صدرى قال فستخرج اللّٰه عزوجل الشیطان من قلبى فرفعت الیه بصرى وھو واللّٰه احب الى من سمعى ومن بصرى ومن ابى وامى.21
پس رسول اللہ sym-1نے میرے سینہ کو تھپکا اور فرمایا:اے اللہ !شیبہ کو ہدایت عطا فرما ۔پھر دوسری بار تھپکا اور فرمایا!اے اللہ شیبہ کو ہدایت عطا فرما۔ آپ sym-1نے تیسری بار تھپک کر ابھی ہاتھ نہ اٹھایا تھا کہ میرے نزدیک وہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے زیادہ عزیز ہوگئےتھے۔

اس عزیز تر کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جس کواسماعیل اصبہانی نے دلائل میں نقل کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وقال یا شیبة ادنه فدنوت فوضع یدیه على صدرى یفستخرج اللّٰه الشیطان من قلبى فرفعت الیه بصرى فلھو احب الى من سمعى وبصرى.22
نبی اکرم sym-1نے میری جانب التفات فرمایا اور صدا دی! اے شیبہ! میرے قریب آؤ۔ میں آپ sym-1کے قریب گیا، تو آپ sym-1نے اپنا دست اقدس میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا: اے اﷲ! اسے شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔ شیبہsym-4 بیان کرتے ہیں بخدا! وہ گھڑی مجھے اپنی آنکھ، کان اور جان سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے۔ میرے سینہ کا بغض و کینہ جاتا رہا۔
اس دستِ اقدس کی برکت کے بدولت شیبہ کا دل محبت رسول اکرم sym-1کی محبت سے بھرگیا اور یوں وہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوگئے۔چنانچہ امام ابوالحسن الماوردیsym-4 لکھتے ہیں:
فقال لى الذى اراد اللّٰه بك خیر مما اردته لنفسك وحدثنى بجمیع ما زورته فى نفسى فقلت ما اطلع على ھذا احد الا اللّٰه فاسلمت.23
پس آپ sym-1نے مجھ سے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے جس کا ارادہ تمہارے لیے کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تم نے خود اپنے لیے سوچا ہے۔ پھر مجھے وہ سب بتا دیا جو میں نے اپنے آپ میں سوچا تھا۔ میں نے خود سے کہا ان سب باتوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کو کیسے معلوم ہوا؟ پس میں نے اسلام قبول کرلیا۔

امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی sym-4 لکھتے ہیں:

حضور sym-1نے شیبہ کے سینہ پر تین مرتبہ جو دست مبارک سے ضرب لگائی، اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلی ضرب سے ان کے دل سے کفر نکال دیا، دوسری ضرب سے ایمان داخل کردیا، تیسری ضرب سے محبت بھردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور sym-1کی محبت کافر کے دل میں کبھی جاگزیں نہیں ہوسکتی اس کے لیے ایسا برگزیدہ سینہ ودل درکار ہے جو کہ نور ایمان سے منور ہو۔

دستِ اقدس پھیرنے سے دل کا وسوسہ ختم ہوگیا

حضرت ابی بن کعب sym-5 بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا، ایک شخص آکر نماز پڑھنے لگا اور نماز میں قرآن پاک کی ایسی قرأت کی جو میرے لیے اجنبی (غیرمانوس) تھی۔ پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے ایک اور طرح سے قرآن پاک پڑھنا شروع کردیا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سب حضور sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ اس شخص نے اس طرح قرآن پڑھا جو میرے لیے غیر مانوس تھا اور دوسرا شخص آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قرأت کی۔ حضور sym-1نے ان دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے پڑھ کر سنایا اور حضور sym-1نے دونوں کو درست قرار دیا ۔۔۔روایت میں مزیدمنقول ہے۔

…فسقط فى نفسى من التكذیب ولا اذ كنت فى الجاھلیة. فلما راى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ما قد غشینى ضرب فى صدرى ففضت عرقاً و كانما انظر الى اللّٰه عزوجل فرقاً.24
بس جب حضور sym-1نے میرے اس حال کو دیکھا تو میرے سینے پر ہاتھ مبارک مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا (اور میری یہ حالت ہوگئی) گویا میں اﷲ تعالیٰ عزوجل کو دیکھ رہا ہوں۔

اسی طرح امام اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبہانی sym-4لکھتے ہیں:

فلما راى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ما قد غشینى ضرب فى صدرى ففضت عرقاً و كانما انظر الى اللّٰه عزوجل فرقاً.25
بس جب حضور sym-1نے میرے اس حال کو دیکھا تو میرے سینے پر ہاتھ مبارک مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا (اور میری یہ حالت ہوگئی) گویا میں اﷲ تعالیٰ عزوجل کو دیکھ رہا ہوں۔

اس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ فلما رای رسول اﷲsym-1ما قد غشینی جہاں ایک طرف حضور sym-1کی دلوں کی حالت و کیفیت پر آگاہی کا اعلان کررہے ہیں وہاں حضرت ابی بن کعب sym-5کے پاکیزہ عقیدے کی عکاسی بھی کررہے ہیں۔ اِدھر ان کے دل میں تکذیب کا وسوسہ پیدا ہوا ادھر حضور sym-1نے دل کی حالت دیکھ لی بلکہ سینے پر ہاتھ مبارک مار کر اپنے صحابی کو برے وسوسے سے محفوظ کرکے اپنے تصرف کا بھی اظہار فرمادیا۔

دست اقدس پھیرنے سے نفرت محبت میں بدل گئی

فتح مکہ کے دن حضور sym-1خانہ کعبہ کا طواف فرمارہے تھے۔ فضالہ بن عمیر بھی آپ sym-1کے قتل کے ارادے سے شریک طواف ہوگیا۔ جب وہ آپ sym-1کے قریب پہنچا تو آپ sym-1نے فرمایا: کیا تو فضالہ ہے؟اس نے جواب دیاکہ جی ہاں (میں فضالہ ہوں)۔ آپ sym-1نے فرمایا:تواپنے دل میں کیا خیال کررہاتھا؟اس نے کہا: کچھ نہیں میں تو اللہ کو یاد کرہا تھا تو نبی کریم sym-1مسکرائے پھر اس نے کہا: میں اﷲ سے (تمہارے لیے) مغفرت طلب کرتا ہوں۔

ثم وضع یده على صدرى فسكن قلبه فكان فضالة یقول واللّٰه ما رفع یده عن صدرى حتى ما من خلق اللّٰه شى احب الى منه.26
پس آپ sym-1نے اپنا دستِ شفقت میرے سینہ پے رکھا،اﷲ کی قسم آپ sym-1نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے ہٹایا نہیں تھا کہ مجھے آپ sym-1کی ذات کائنات کی ہر شے سے زیادہ محبوب ہوگئی۔

حافظ ابن عبدالبرمالکی sym-4 لکھتے ہیں:

فقال له ما تحدث به نفسك قال لا شى كنت اذكر اللّٰه عزوجل فضحك النبى وقال استغفراللّٰه لك ووضع یده على صدر فضالة فكان فضالة یقول واللّٰه ما رفع یده عن صدرى حتى ما اجد على ظھر الارض احب الى منه.27
حضور sym-1نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے دل میں کیا خیال آیا؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں میں ذکر اللہ کررہاتھا اس پر حضور sym-1ہنس دیے اور فرمایا: میں تمہارے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اپنا ہاتھ فضالہ کے سینہ پر رکھ دیا۔ فضالہ کہا کرتے تھے: خدا کی قسم حضور sym-1نے ابھی اپنا ہاتھ میرے سینے سے نہ اٹھایا کہ وہ مجھ روئے زمین پر موجود پر شے سے زیادہ عزیز ہوگئے۔

امام محمد بن یوسف الصالحی الشامیsym-4 لکھتے ہیں:

واللّٰه ما رفع یده عن صدرى حتى ما خلق شى احب الى منه.28
اﷲ کی قسم آپ sym-1نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے ہٹایا نہیں تھا کہ مجھے آپ sym-1کی ذات کائنات کی ہر شے سے زیادہ محبوب ہوگئی۔

حضرت فضالہ نے کس قدر چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیاتھا کہ ذکر الٰہی میں مشغول ہوں مگر بارگاہ نبوت میں ایسی چالاکیاں کب چل سکتی تھیں جہاں کائنات کا ذرہ ذرہ مثلِ کفِ دست پیشِ نظر تھا۔ وہاں دلوں کی کیفیتیں بھلا پوشیدہ کس طرح رہ سکتی تھیں۔اس موقعہ پرہنس کر استغفار کرنے کے لیے فرمانے کا جو اثر فضالہ کے دل پر ہوا ہوگا اس کو انہی کا دل جانتا ہوگا اور دست مبارک کے رکھنے کی تاثیر یہ ہوئی کہ شقاوت دور ہوگئی اور محبت پیدا ہوگئی اور وہ بھی اتنی کہ آپsym-1سے زیادہ وہ کسی کو اپنا محبوب نہیں سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ جو قتل کی تاک میں رہتے تھے حضور sym-1کی شفقت کا یہ حال ہے تو خیال کیا جائے کہ محبان صادق پر کیسی عنایتیں ہوں گی۔

مقتولین کا دست اقدس کی نشاندہی کی جگہ پر مرنا

بدر کےمقتولین کے مقاتل کو نبی اکرم sym-1نے جنگ سے قبل والی رات میں بیان فرما دیا تھا کہ فلاں کافر فلاں مقام پر قتل ہوگا اور فلاں کافر فلاں مقام پر اور صبح یہی ہوا۔چنانچہ حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں :

رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھذا مصرع فلان غدا ووضع یده على الارض وھذا مصرع فلان غدا ووضع یده على الارض وھذا مصرع فلان غدا ووضع یده على الارض فقال والذى نفسى بیده ما جاوز احد منھم عن موضع ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم م فاخذ بارجلھم فسحبوا فالقوا فى قلیب بدر.29
(جنگ بدر کے دن) رسول اﷲ sym-1نے فرمایا کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور آپ sym-1نے زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا تھا ۔کوئی شخص اس سے بالکل متجاوز نہیں ہوا (اسی جگہ گر کر مرا) پھر رسو ل اﷲ sym-1کے حکم سے ان کو گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔

اسی طرح امام ابن عبدالبرمالکی sym-4لکھتے ہیں:

یقول ھذا مصرع فلان وھذا مصرع فلان فما عدا واحد منھم مصرعه ذلك الذى حده رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.30
نبی کریم sym-1نے فرمایا :یہ فلاں کی قتل گاہ ہے اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہے ۔پس کوئی بھی اپنی قتل گاہ سے الگ نہیں ہوا جس کی حد بندی رسول اللہ sym-1نے فرمائی تھی۔

اسی روایت کوامام مسلمsym-4 یوں نقل کیا ہے:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھذا مصرع فلان قال یضع یده على الارض ھاھنا ھاھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.31
حضور sym-1نے فرمایا یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے گئے۔ راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور sym-1کے ہاتھ کی جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا۔

اس کی شرح کرتے ہوئے امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں حضور sym-1کے معجزےکا ذکر ہے جوکہ آپsym-1کی نبوت کی نشانی ہے۔ آپ sym-1نے ان کے جابر سرداروں کی قتل گاہوں کی خبر دی کہ کسی نے اپنی قتل گاہ سے تجاوز نہ کیا۔ 32

دستِ اقدس پھیرنے حضرت جریر کا گھوڑے سے نہ گرنا

اسی طرح نبی اکرم sym-1کے دستِ مبارک کی برکت کا ذکر کرتے ہوئےحضرت جریر sym-5فرماتے ہیں:

قال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الا تریحنى من ذى الخلصة فقلت بلى فانطلقت فى خمسین ومائة فارس من احمس وكانوا اصحاب خیل وكنت لا اثبت على الخیل فذكرت ذلك للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم فضرب یده على صدرى حتى رایت اثر یده فى صدرى وقال اللّٰھم ثبته واجعله ھادیا مھدیا قال فما وقعت عن فرس بعد قال وكان ذوالخلصة بیتا بالیمن لخثعم وبجیلة فیه نصب یعبد یقال له الكعبة قال فاتاھا فحرقھا بالنار وكسرھا قال ولما قدم جریر الیمن كان بھا رجل یستقسم بالازلام فقیل له ان رسول رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھاھنا فلت قدر علیك ضرب عنقك قال فبینما ھو یضرب بھا اذ وقف علیه جریر فقال لتكسرنھا ولتشھدن ان لا اله الا اللّٰه او لا ضربن عنقك قال فكسرھا وشھد ثم بعث جریر رجلا من احمس یكنى ابا ارطاة الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یبشره بذلك فلما اتى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم قال یا رسول اللّٰه والذى بعثك بالحق ما جئت حتى تركتھا كانھا جمل اجرب قال فبرك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم على خیل احمس ورجالھا خمس مرات.33
مجھ سے نبی کریم sym-1نے فرمایا کیا تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت نہیں دوگے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! پس میں احمس کے ایک سو پچاس گھڑ سواروں کے ساتھ روانہ ہوا اور وہ سب گھڑ سوار تھے اور میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا تھا میں نے اس بات کا نبی کریم sym-1سے ذکر کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینے پر مارا حتیٰ کہ میں نے آپ sym-1کے ہاتھ کا نشان اپنے سینے پر دیکھا اور آپ sym-1نے دعا کی: اے اﷲ! اس کو ثابت قدم رکھ اور اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا،حضرت جریر sym-5نے بتایا کہ اس کے بعد میں گھوڑے سے نہیں گرا،اور حضرت جریر sym-5نے کہا ذوالخلصہ یمن میں خثعم کا اور بجیلہ کا بت خانہ تھا جس میں نصب کیے ہوئے بتوں کی عبادت کی جاتی تھی اور اس کو کعبہ کہا جاتا تھا،حضرت جریر sym-5نے کہا پس وہ وہاں گئے اور اس کو آگ سے جلادیا اور توڑدیا۔راوی نے بتایا کہ جب حضرت جریر sym-5یمن گئے تو وہاں ایک مرد تھا جو تیروں سے فال نکالتا تھا، اس سے کہا گیا بے شک رسول اﷲ sym-1کا قاصد یہاں ہے (یعنی حضرت جریر sym-5) اگر وہ تم پر قادر ہوئے تو وہ تمہاری گردن اُڑا دیں گے تو جس وقت وہ تیر سے فال نکال رہا تھا تو وہاں حضرت جریر sym-5آگئے تو انہوں نے کہا تم ضرور ان تیروں کو توڑوگے اور تم ضرور یہ شہادت دوگے کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ورنہ میں تمہاری گردن ماردوں گا۔راوی نے بتایا اس نے ان تیروں کو توڑدیا او رکلمہ شہادت پڑھا، پھر حضرت جریر sym-5نے احمس کے ایک مرد کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی نبی کریم sym-1کی طرف یہ بشارت دینے کے لیے بھیجا، جب وہ نبی کریم sym-1کے پاس آیا تو اس نے کہا اے اﷲ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اُس وقت تک نہیں آیا حتیٰ کہ میں نے اس بت خانہ کو اس طرح چھوڑ دیا گویا کہ وہ خارش زدہ اونٹ ہو، انہوں نے بتایا پھر نبی کریم sym-1نے احمس کے گھڑ سواروں اور مردوں کے لیے پانچ مرتبہ دعا کی۔

امام ابن ابی شیبہ کے الفاظ اس طرح ہیں:

فمسح فى صدرى وقال اللّٰھم اجعله ھادیا مھدیا حتى وجدت بردھا.34
آپ sym-1نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا جس کی ٹھندک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔

اس دستِ اقدس کی برکت کو بیان کرتے ہوئے حضرت جریر sym-5 فرماتے ہیں:

فما سقطت عن فرس بعد.35
اس کے بعد میں آج تک کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔

سلاطین کے برعکس اپنے سپاہی کو سزا دینے کے بجائے نبی کریم sym-1 نے نہ صرف اس کی اصلاح فرمائی بلکہ اس کی کمزوری کو بھی اپنے دست اقدس سے دور کردیا۔ یہ نبی کریم sym-1کا خاصّہ تھا کہ جو شخص اپنی کسی بھی نوعیت کی شکایت لے کر آپ sym-1کے پاس آتا تو آپ sym-1اس کی شکایت و تکلیف کو دور فرمادیتے۔ یہی وجہ ہے حضرت جریر نے بھی اپنی اس کمزوری کو حضور sym-1کے دربار میں پیش کیا اور آپ sym-1کے دست اقدس نے اس کمزوری کو رفع کردیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے پیشانی سفید ومنور ہوگئی

10 ہجری کو حجۃ الوداع ادا کیا۔ اس موقع پر ایک"وفد محارب " جو 10 لوگوں پر مشتمل تھا مکّہ میں داخل ہوا۔ یہ 10 لوگ اپنے قوم کی نیابت کر رہے تھے اور اسلام لے آئے تھے۔ جیسا کہ سلیمان بن موسیٰ لکھتے ہیں:

منھم عشرة نائبین عن من وراء ھم من قومھم فاسلموا.36
ان کی قوم میں سےدس افراد جوپیچھے نیابت کرنےوالےتھےاسلام لےآئے۔

ان میں سواء بن الحارث اور ان کے بیٹے خزیمہ بن سواء بھی تھے ۔ ان لوگوں نے رحملہ بنت الحارث کے مکان میں سکونت اختیار کی اور حضرت بلالsym-5 ان کے پاس کھانا لایا کرتے تھے۔ چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

وكان بلال یاتیھم بغداءٍ و عشاء.37
حضرت بلالsym-5 صبح و شام کا کھانا ان لوگوں کے پاس لایا کرتے تھے۔

ان لوگوں نے عرض کی کہ ہم لوگ اپنے پسماندہ لوگوں کے قائم مقام ہیں اس زمانے میں ان لوگوں سے زیادہ رسول اﷲ sym-1پر کوئی درشت اورسخت نہ تھا ۔اس وفد کے ایک شخص کو رسول اﷲ sym-1نے پہچان لیا تو اس نے عرض کی کہ تمام تعریفیں اسی اﷲ کے لیے ہیں جس نے مجھے زندہ رکھا کہ میں نے آپ sym-1کی تصدیق کی۔ محمد بن سعد روایت کرتے ہیں کہ حضور sym-1نے فرمایا:

ان ھذه القلوب بید اللّٰه ومسح وجه خزیمة بن سواء فصارت له غرة بیضاء.38
کہ یہ قلوب اﷲ کے ہاتھ میں ہیں۔آپ sym-1نے خزیمہ بن سواء کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پیشانی سفید ومنور ہوگئی۔

امام جلال الدین سیوطی sym-4نے بھی اس واقعہ کو روایت کیا ہے۔39 نبی کریم sym-1رحمت اللعالمین تھے اسی لئے آپ sym-1کی دست اقدس کی برکتیں صرف روؤساء تک محدود نہ تھی بلکہ پسماندہ لوگوں پر بھی وہی انعامات و اکرامات کی بارش ہوتی جو امراء کے لئے ہوتی۔ جب پسماندہ علاقہ کے نائب آپ sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضور sym-1نے ان کو اپنے سے دور نہ کیا بلکہ اپنے دست مبارک کو ان کے چہرہ پر پھیر کر چاند کی طرح روشن کردیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے پر برکت کا مشاہدہ کرنا

جب لوگ وفود کی شکل میں نبی کریم sym-1کے پاس ایمان لانے کی غرض سے آنا شروع ہوئے تو ان وفود میں ایک وفد "ہلال بن عامر" کا تھا ۔اس کے سردار حضرت زیاد بن عبداﷲ بن مالک بنی عامر تھے اور یہ اُم المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث sym-6 کے بھانجے تھے ۔یہ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو حضرت میمونہ sym-6کے گھر تشریف لائے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے محمد بن سعد لکھتے ہیں:

ثم خرج حتى اتى المسجد ومعه زیاد فصلى الظھر ثم ادنى زیادا فدعا له ووضع یده على راسه ثم حدرھا على طرف انفه فكانت بنو ھلال تقول:ما زلنا نتعرف البركة فى وجه زیاد. وقال الشاعر لعلى بن زیاد:یا ابن الذى مسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم براسه ودعا له بالخیر عند المسجد اعنى زیادا لا ارید سواء ه من عائر او متھم او منجد ما زال ذاك النور فى عرنینه حتى تبوا بیته فى الملحد.40
آپ sym-1مسجد میں تشریف لے گئے آپ sym-1کے ساتھ زیاد sym-5 بھی تھے نماز ظہر پڑھی، حضرت زیاد sym-5 کو نزدیک کیا اور ان کے لیے دعا فرمائی اپنا ہاتھ مبارک ان کے سر پر رکھا پھر ان کے ناک کی ایک جانب تک پھیر دیا۔بنی ہلال کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ برابر زیاد کے چہرے پر برکت کا مشاہدہ کیا کرتے تھے:ایک شاعر نے علی بن زیاد کے لیے کہا ہے کہ:اس شخص کے بیٹے جس کے سر پر نبی کریم sym-1نے ہاتھ پھیرا اور مسجد میں اس کے لیے دعا ئے خیر فرمائی۔ یہ نور ان کی ناک پر چمکتا رہا یہاں تک کے خانہ نشین ہوکے قبر میں چلے گئے۔

اما م ابن حجر نے بھی ان اشعار کو نقل کیا ہے۔ 41 ابن کثیر sym-4لکھتے ہیں:

ما زلنا نتعرف البركة فى وجه زیاد.42
بنی ہلال کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ برابر زیاد sym-5کے چہرے پر برکت کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرہ نور کی جلوہ گاہ بن گیا

9ہجری میں تین آدمیوں کا ایک وفد رسول اﷲ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا جن میں معاویہ بن ثور بن عبادہ بن ابکاء تھے جو اس زمانے میں سو برس کے تھے ان کے ساتھ ان کے ایک بیٹے بھی تھے جن کا نام بشر تھا اور فجیع بن عبداﷲ بن جندح بن ابکاء تھے ان لوگوں کے ساتھ عبدعمرو ابکائی بھی تھے جو بہرے تھے۔نبی اکرم sym-1نےصحابہ کرامsym-7 کوان کی مہمان نوازی کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ امام محمد بن سعد sym-4لکھتے ہیں:

فامرلھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بمنزل وضیافة واجازھم ورجعوا لى قومھم.43
رسول اﷲ sym-1نے ان لوگوں کو ٹھہرانے اور مہمان رکھنے کا حکم دیا ان کو انعامات عطا فرمائے اور یہ لوگ اپنی قوم میں واپس آگئے۔

حضرت معاویہ sym-5نے نبی کریم sym-1سے عرض کیا کہ میں آپ sym-1کے مس (چھونے) سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہوں، میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرا یہ لڑکا میرے ساتھ نیکی کرتا ہے لہٰذا اس کے چہرے پر اپنا دست مبارک سے مسح فرمادیجئے چنانچہ رسول اﷲ sym-1نے بشر بن معاویہsym-5 کے چہرے پر دستِ مبارک پھیردیا۔چنانچہ امام سیوطی sym-4فرماتے ہیں:

قال معاویة یارسول اللّٰه انى اتبرك بمسك فامسح وجه نبى بشر فمسح وجھه واعطاه اعنزا عفرا وبرك علیھن.44
حضرت معاویہ sym-5 نے عرض کیا یارسول اﷲ sym-1میں آپ کے لمس کی برکت چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے بشر sym-5کے چہرے پر دست مبارک پھیر دیجئے تو رسول اﷲ sym-1نے بشر کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اور انہیں خاکستری بھیڑیں عطا فرمائیں اور ان پر دعائے برکت فرمائی۔

اس دستِ اقدس کی برکت کو بیان کرتے ہوئےمحمد بن بشر بن معاویہ sym-4کہتے ہیں:

وابى الذى مسح الرسول براسه ودعا له بالخیر والبركات اعطاه احمد اذا اتاه اغذا عفوا نواجل لیس باللجبات یملاء ن وفد الحه كل خشیة ویعود ذاك الملاء وبالغدوات بوركن من مسخ وبورك مانحا وعلیه منى ماحییت صلاتى.45
میرا باپ وہ ہے جن کے سر پر رسول اﷲ sym-1نے دست مبارک پھیرا ہے اور ان کے لیے خیروبرکت کی دعا فرمائی ہے۔میرے والد کو جب وہ نبی اکرم sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپsym-1نے چند سفید اچھی نسل والی بھیڑیں عطا فرمائیں جو کم دودھ والی نہ تھی۔ جو ہر شب کو قبیلے کے وفد کو دودھ سے بھر دیتی تھیں اور یہ دودھ بھرنا پھر صبح کو دوبارہ بھی ہوتا تھا۔ جو عطا کی وجہ سے بابرکت تھیں اور عطا کرنے والے بھی بابرکت تھے اور جب تک میں زندہ رہوں میری طرف سے آپ sym-1پر میرا درود پہنچتا رہے۔

اسی دستِ مبارک کی مزید برکت کو بیان کرتے ہوئے حضرت بشر بن معاویہ sym-5 فرماتے ہیں:

انه قدم مع ابیه معاویه بن ثور على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح راسه ودعا له فكانت فى وجھه مسحة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كالغرة وكان لا یمسح شیئا الا برا.46
کہ وہ اپنے والد حضرت معاویہ بن ثور sym-5 کے ساتھ رسول اﷲ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نبی کریم sym-1نے ان کے سر پر دست مبارک پھیرا اور ان کے لیے دعا کی تو ان کا چہرہ حضور sym-1کے دست مبارک پھیرنے کی وجہ سے غرہ (چاند) کی مانند چمکنے لگا اور وہ جس بیمار پر ہاتھ پھیرتے تھے، وہ تندرست ہوجاتا تھا۔

ابن کثیرsym-4 بھی لکھتے ہیں:

فمسح راسى ودعا لى بالبركة قال فكان مسحة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كانھا غرة وكان لا یمسح شیئا الا برا.47
حضور نبی کریم sym-1نے میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی تو ان کا چہرہ حضورsym-1کے دست مبارک پھیرنے کی وجہ سے غرہ (چاند) کی مانند چمکنے لگا اور وہ جس بیمار پر ہاتھ پھیرتے تھے تووہ تندرست ہوجاتا تھا۔

یہ حضور sym-1کے دست اقدس کی برکت تھی کہ جو چیز بھی اس سے لمس ہوجاتی وہ مہکتی رہتی اور چمکتی رہتی یہاں تک کہ آگ سے بھی محفوظ ہوجاتی۔ نبی کریم sym-1کا دست اقدس نہ صرف دست برکت تھا بلکہ دست شفاء بھی تھا ۔ اسی لئے جب بھی آپ sym-1اپنا ہاتھ مبارک کسی بیمارپر بھی پھیرتے تو وہ شفاء یا ب ہوجاتا ۔ یہ حضرت بشر کی خوش بختی تھی کہ ان کے چہرہ پر نبی کریم sym-1نے اپنا دست اقدس پھیرا اور وہ چاند کی طرح چمکتا رہا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے کی روشنی سے تاریک گھر جگمگا اٹھتا

حضرت اسید بن ابی ایاسsym-5 کا چہرہ اتنا روشن تھا کہ جہاں بھی وہ جاتے، پوری جگہ روشن ہوجاتی۔ ان کے چہرے کو یہ اعزاز نبی کریم sym-1کے دست اقدس کے لمس سے نصیب ہوا۔ چنانچہ امام مدائنیsym-4 فرماتے ہیں:

ان اسید بن ابى ایاس مسح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وجھه والقى یده على صدرہ فكان اسید یدخل البیت المظلم فیضىء.48
حضرت اسید بن ابی ایاسsym-5 کے چہرے پر رسول اﷲ sym-1نے دست مبارک پھیرا اور سینے پر بھی رکھا جس کی برکت یہ ہوئی کہ وہ اندھیرے گھر میں داخل ہوتے، تو اس گھر میں روشنی ہوجاتی۔

اس روایت کو امام ابن عساکر49اور امام حسام الدین ھندی 50 نے بھی تحریر کیا ہے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے کا آئینہ کی مانند ہونا

جس صحابی کے چہرے پر آپ sym-1 نے دستِ اقدس پھیرا اس کا چہرہ دیگر لوگوں سے خوبصورت اور تروتازہ ہوجاتا۔اسی طرح حضرت قتادہ بن ملحان کے چہرہ پر رسول اکرم sym-1نے اپنا دستِ اقدس پھیرا تو ان کا چہرہ بھی مثل آئینہ ہوگیاچنانچہ حضرت حیان بن عمرو بیان کرتے ہیں:

قال مسح النبی صلى اللّٰه علیه وسلم وجه قتادة بن ملحان ثم كبر فبلى منه كل شىء غیر وجھه قال فحضرته عند الوفاة فمرت امراة فرایتھا فى وجھه كما اراھا فى المرآة.51
حضرت قتادہ بن ملحان sym-5کے چہرہ پر آپ sym-1نے ہاتھ پھیرا تو اس کے چہرہ پر چمک تھی حتیٰ کہ اس کے چہرہ میں لوگ اپنا چہرہ ایسا دیکھتے تھے جیسا کہ آئینہ میں دیکھتے ہیں۔

اسی طرح امام قاضی عیاض sym-4فرماتے ہیں:

ومسح وجه قتادة بن ملحان فكان لوجھه بریق حتی كان ینظر فى وجھه كما ینظر فى المرآة.52
حضرت قتادہ بن ملحانsym-5 کے چہرہ پر آپ sym-1نے ہاتھ پھیرا تو اس کے چہرہ پر چمک تھی حتیٰ کہ اس کے چہرہ میں لوگ اپنا چہرہ ایسا دیکھتے تھے جیسا کہ آئینہ میں دیکھتے ہیں۔

امام عامری sym-4نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ 53 اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو العلاء بن عمیر sym-4نے بھی بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

كنت عند قتادة بن ملحان حین حضر فمر رجل فى اقصى دار قال فابصرته فى وجه قتادة قال وكنت اذا رایته كان على وجھه الدھان قال وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مسح على وجھه.54
میں اس وقت حضرت قتادہ بن ملحان sym-5کے پاس موجود تھا جب ان کے انتقال کا وقت قریب آیا، اس لمحے گھر کے آخری کونے سے ایک آدمی گزرا، میں نے اسے حضرت قتادہsym-5کے چہرے میں دیکھا (جیسے شیشے میں نظر آتا ہے)میں حضرت قتادہ sym-5کو جب بھی دیکھتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے چہرے پر روغن ملا ہوا ہو دراصل نبی کریم sym-1نے ان کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیرا تھا۔

اسی طرح امام بیہقی sym-4نے بھی مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے ۔55یعنی کہ نبی اکرم sym-1کے دستِ اقدس میں غیر معمولی اثرات موجود تھے جو وقتًا فوقتًا ظاہر ہوجایا کرتے تھے اور صحابہ کرام sym-7 اس سے مستفید ہوتے تھے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرہ تروتازہ رہنا

جب انسان جوان ہوتا ہے تو اس کے حسن کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ جوانی میں انسان کا چہرہ تروتازہ ہوتا ہے اور جب بوڑھا ہونے لگتا ہے تو اس کی کھال لٹکنا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا سارا حسن ختم ہوجاتا ہے۔لیکن حضرت خزیمہ بن عاصم sym-5کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ آپ sym-5فرماتے ہیں کہ وہ حضور sym-1کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئےتونبی کریم sym-1نے ان کے چہرہ پر اپنا دستِ اقدس پھیرا۔چنانچہ مروی ہے:

فمسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وجھه فما زال وجھه جدیدا حتى مات.56
تو حضور نبی کریم sym-1نے ان کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اس کا اثر یہ ہوا کہ مرتے دم تک ان کا چہرہ تروتازہ رہا۔

اس روایت کو امام ابن حجر عسقلانی sym-4 یوں لکھتے ہیں:

فمسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وجھه فما زال جدیدا حتى مات.57
تو حضور نبی کریم sym-1نے ان کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اس کا اثر یہ ہوا کہ مرتے دم تک ان کا چہرہ تروتازہ رہا۔

حضور sym-1نے حضرت ابو زید انصاری sym-5 کے سر اور داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا تو اس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود ان کے بال سیاہ رہے اور چہرہ تروتازہ رہا۔اسی طرح امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں:

قال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادن منى قال فمسح بیده على راسه ولحیته قال ثم قال اللّٰھم جمله وادم جماله...ولقد كان منبسط الوجه ولم ینقبض وجھه حتى مات.58
رسول اﷲ sym-1نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہوجاؤ ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا اور دعا کی الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کردے۔ ۔۔ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔

یہ دائمی چہرے کی تازگی حضرت عائذ بن سعید جریsym-5 کو بھی نصیب ہوئی۔چنانچہ ابن حجر عسقلانیsym-5 روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائذ بن سعید جریsym-5 نے فرمایا:

امسح وجھى وادع لى بالبركة قال ففعل فكان وجھه یزھو.59
آپ میرے چہرے پر اپنا دستِ مبارک پھیر دیجئے اور دعائے برکت فرمائیے حضور sym-1نے ایسا ہی کردیا اس دن سے حضرت عائد کا چہرہ ہر وقت تروتازہ اور نورانی رہا کرتا تھا۔

اسی طرح اس روایت کو امام طبرانیsym-4 یوں بیان کرتے ہیں:

امسح وجھى وادع لى بالبركة فمسح وجھى ودعا لى بالبركة قالت ام البنین وھى امراته ما رایته منتبھا من نوم قط الا كان وجھه مدھن وان كان لیجتزى بالتمرات.60
میں نے عرض کیا حضور میرے چہرے پر دستِ مبارک پھیر دیں اور میرے لیے دعائے برکت فرما دیں۔ پس حضور sym-1نے میرے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اور میرے لیے دعائے برکت فرمائی۔ان کی بیوی (ام البنین) نے بیان کیا کہ میں نے ان کے نیند سے بیدار ہونے پر جب بھی دیکھا تو ان کا چہرہ روشن ہوتا اگرچہ وہ صرف کھجوریں ہی کھاتے۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ جس مقام پر دستِ مبارک پہنچا وہ روشن ہوگیا حالانکہ روشنی کا کوئی مادہ دستِ مبارک میں نہ تھا جو منتقل ہوا، اور نہ کوئی دوا لگائی گئی، پھر ہمیشہ کی روشنی کہاں سے آگئی۔گویا یہ دائمی چہرے کی تازگی و جوانی نبی کریم sym-1کے دستِ مبارک کی برکت ہی کا نتیجہ تھی ۔

ہاتھ کے پانی پھینکے سے چہرہ ہمیشہ شاداب رہا

حضرت زینب بنت ام سلمہ sym-6 جو نبی اکرم sym-1کی لے پالک ہیں بچپن میں ان کے چہرے پر حضور sym-1نے دست اقدس کا پانی پھینکا۔ اس پانی کی برکت سے ان کے چہرے پرہمیشہ شادابی رہی حالانکہ ان کی عمر مبارک ایک سو سال کے قریب تھی۔چنانچہ امام سہیلی sym-4 لکھتے ہیں:

وذكر انھا ولدت بارض الحبشة زینب بنت ابى سلمة وكان اسم زینب برة فسماھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم زینب كانت زینب ھذه عند عبداللّٰه بن زمعة وكانت قد دخلت على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو یغتسل وھى اذ ذاك طفلة فنضح فى وجھھا من الماء فلم یزل ماء الشباب فى وجھھا حتى عجزت وقاربت المائة وكانت من افقه اھل زمانھا وادركت وقعة الحرة بالمدینة وقتل لھا فى ذلك الیوم ولدان.61
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ sym-6کے ہاں سرزمین حبشہ میں زینب بنت ابی سلمہ sym-6پیدا ہوئیں حضرت زینب sym-6کا نام برہ تھا۔ حضور نبی کریم sym-1نے ان کا نام زینب رکھا انہیں حضرت عبداﷲ بن زمعہ sym-5کی زوجہ بننے کا شرف ملا۔یہ بچپن میں ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں اس وقت حاضر ہوئیں جب نبی کریم sym-1غسل فرمارہے تھے۔ غسل کے بعدحضور sym-1نے ان کے چہرے پر پانی پھینکا جس کی برکت سے ان کے چہرے پر ہمیشہ شادابی رہی حالانکہ ان کی عمر مبارک ایک سو سال کے قریب تھی یہ اپنے عہد کی سب سے زیادہ فقیہہ خاتون تھیں۔

امام ابو نعیم sym-4نے اس کو نقل کیا ہے۔62یہ اپنے زمانہ کی فقیہہ بھی تھیں چنانچہ ا مام ابن ابی عاصم sym-4 فرماتے ہیں:

وكانت احدى من تعد من الفقھاء.63
اور وہ فقہاء میں سے شمار کی جاتی تھیں۔

صاحبِ معجم الاوسط نے ،64 صاحبِ معجم الکبیر 65 اور صاحب استیعاب ان تینوں ائمہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔66اسی طرح امام قاضی عیاض sym-4 اس دستِ مبارک کی برکت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

نفح فى وجه زینب بنت ام سلمة نضحة من ماء فما یعرف كان فى وجه امراة من الجمال ما بھا.67
زینب بنت ام سلمہ sym-5 کے چہرہ پر آپ sym-1 نے پانی کا چھینٹا مارا پس کسی عورت پر ایسا حسن نہ معلوم ہوتا تھا جیسا کہ اس کا حسن وجمال تھا۔

اسی حوالہ سے امام عامری sym-4بھی لکھتے ہیں:

الماء فى وجه ربیبته زینب بنت ام سلمة فاكسبھا ذلك جمالا عظیما.68
پانی جو آپ sym-1 نے اپنی ربیبہ(لے پالک) زینب بنت ام سلمۃ پر چھڑکا جس سے ان کا حسن بڑھ گیا۔

حضور نبی کریم sym-1نے حضرت زینب بنت ام سلمہ sym-6کے منہ پر پانی کا چھینٹا دیا اس کی وجہ سے حضرت زینب sym-6کے چہرے پر جتنا حسن و جمال آگیا تھا وہ کسی اور عورت کے چہرے پر معلوم نہ ہوتا تھا۔

سید فاطمہ sym-6کی بھوک ختم ہوگئی

حضرت فاطمہ sym-6سیدۃ النساء ہونے کے باوجود اپنے والدِ محترم رسول اکرم sym-1کے اسوہ کے مطابق فقرِ اختیاری کو اپنائے ہوئے تھیں ۔ چنانچہ جو کچھ بھی گھر میں ہوتا ، اللہ کی راہ میں دےدیتی۔ ایک دن حالت یہاں تک آپہنچی کے کئی دن تک آپ sym-6کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا اور اس فاقہ کی وجہ سے نقاہت کے آثار چہرے پر بھی نمایا ہورہے تھے، لہٰذا آپ sym-6نبی کریم sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں ۔چنانچہ حضرت عمران بن حصین sym-5 بیان کرتے ہیں:

كنت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا اقبلت فاطمة وقفت بین یدیه فنظر الیھا وقد ذھب الدم من وجھھا وغلبت الصفرة على وجھھا من شدة الجوع فنظر الیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال ادنى یا فاطمة ثم ادنى یا فاطمة فدنت حتى قامت بین یدیه فرفع یده فوضعھا على صدرھا فى موضع القلادة وفرج بین اصابعه ثم قال اللّٰھم مشبع الجاعة ورافع الوضیعة ارفع فاطمة بنت محمد.قال عمران فنظرت الیھا وقد ذھبت الصفرة من وجھھا وغلب الدم كما كانت الصفرة غلبت على الدم.69
میں رسول اﷲ sym-1کے ساتھ تھا کہ اچانک سیدہ فاطمہ sym-6 آئیں اور حضور نبی کریم sym-1کے سامنے آکر رُک گئیں حضور نبی کریم sym-1نے ان کی طرف دیکھا تو حالت یہ تھی کہ سیدہ کے چہرے سے خون ختم ہوچکا تھا اور شدت بھوک کی وجہ سے ان کے چہرے پر پیلا بن غالب آچکا تھا ۔نبی کریم sym-1نے ان کی طرف دیکھا (تو سمجھ گئے) فرمایا کہ میرے قریب آؤاے فاطمہ sym-6! وہ قریب ہوئی تو فرمایا اور قریب آؤ فاطمہ! وہ اور قریب آکر حضور نبی کریم sym-1کے آگے کھڑی ہوئیں ۔حضور نبی کریم sym-1نے ہاتھ اُٹھایا اور سیدہ کے سینے پر ہارکی جگہ رکھا اور پھر انگلیوں کو پھیلادیا پھر دعا کی اے اﷲ بھوکے کو سیر کرنے والے۔ اور پست کو بالا کرے والے۔ فاطمہ sym-6 بنت محمد( sym-1)کوبلند کردے۔حضرت عمران فرماتے ہیں:کہ میں نے حضرت فاطمہ sym-6کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے صفرت (پیلاہٹ) ختم ہوچکی تھی اور خون چہرے پر غالب آچکا تھا جیسے صفرت غالب آچکی تھی خون پر۔

اس واقعہ کے بعد آپ sym-1کے دست اقدس کی برکت سے سیدہ فاطمہ sym-6کو پھر کبھی بھوک نہ لگی۔ چنانچہ امام سیوطی لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ sym-6نے فرمایا:

ما جعت بعد.70
میں اس کے بعد بھوکی نہیں ہوئی۔

اللہ تعالیٰ نے آپ sym-1کے دست اقدس کو ایک خاص قوت عطا کی تھی جس کی وجہ سے نبی کریم sym-1ہر شخص کی ہر نوعیت کی شکایت کو دائمی طور پر اس سے دور فرمادیتے۔جب سیدۃ النساء آپ sym-1کے پاس اپنی حاجت کے ساتھ حاضر ہوئی تو اس حاجت کو نبی کریم sym-1اس طرح بھی دور فرماسکتے تھے کہ کچھ کھانے کو عطاء فرمادیتےلیکن چونکہ یہ حاجت کا عارضی حل تھا نہ کہ دائمی تو آپ sym-1نے ایسا نہ فرمایا بلکہ اپنے دست اقد س کی برکت سے آپ sym-6کی بھوک کی شکایت کو دائمی طور پر ختم کردیا۔

ہلب بن یزید کے بال اُگ آئے

حضرت ہلب بن بن یزید طائی کوفی sym-5 ، یہ کوفہ کے رہائشی تھے۔ 71 ان کے سر پر بال نہیں اُگتے تھے اور یہ سر سے گنجے تھے۔ جب حضور sym-1نے ان کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا تو ان کے سر پر بال اُگ آئے۔چنانچہ امام محمد بن سعد بصریsym-4لکھتے ہیں:

فوفد الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو اقرع فمسح راسه فنبت شعره فسمى الھلب.72
حضرت ہلب بن یزید بن عذیsym-5 نبی کریم sym-1کے دربار میں قاصد بن کر آئے وہ گنجے تھے رسول کریم sym-1نے ان کے سر پر مبارک ہاتھ پھیراتو ان کے بال اُگ آئے اسی وجہ سے ان کا نام ہلب پڑگیا۔

اسی طرح امام ابن جوزیsym-4 اور 73امام ابن عبد البر مالکیsym-4 نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔74 ابن کلبی sym-4کا قول ہے ان کے بارے میں شاعر کہتے ہیں:

كان  وما  فى  راسه  شعرة        فاصبح  الاقرع  وافى  الشكیر.75
پہلے تو اس کے سر پر ایک بال بھی نہ تھا، پھر وہ گنجا زلفوں والا ہوگیا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت امام قاضی عیاض sym-4نقل فرماتے ہیں:

مسح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على راس صبى به عاھة فبرا واستوى شعره.76
کہ حضور sym-1نے ایک گنجے بچے کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا تو اس کا گنجاپن جاتا رہا اور سارے بال برابر ہوگئے۔

یعنی نبی کریم sym-1کے دستِ مبارک کی برکت سے کچھ لوگ یوں بھی مستفید ہوئے کہ گنج پن ختم ہوگیا اور ان کی جگہ ان کے سروں پر زلف آ گئیں جس سے بد صورتی خوبصورتی میں تبدیل ہوگئی۔

عبداﷲ بن بسرsym-5 پر دستِ اقدس کی برکت

آپ sym-1کے دستِ اقدس کی برکت سے حضرت عبداﷲ بن بسر sym-5ایک قرن ِکامل زندہ رہے۔چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وضع یده على راسه وقال یعیش ھذا الغلام قرنا فعاش مائة سنة وكان فى وجھه ثولول فقال لایموت ھذا حتى یذھب الثولول من وجھه فلم یمت حتى ذھب.77
نبی کریم sym-1نے اپنا دست اقدس ان کے سر پر رکھا اور فرمایا یہ بچہ ایک قرن تک زندہ رہے گا تو وہ 100 سال تک زندہ رہے اور ان کے چہرے پر مہاسہ تھا حضور sym-1نے فرمایا یہ بچہ اس وقت تک نہ مرے گا جب تک یہ مہاسہ اس کے چہرے سے دور نہ ہوجائے تو وہ فوت نہ ہوئے جب تک وہ مہاسہ دور نہ ہوا۔

امام محمد بن عبد الواحد المقدسیsym-4 روایت کرتے ہیں:

فلم یمت حتى ذھب الثالول من وجھه.78
پس ان کی موت سے پہلے ان کے چہرے کے مسّےختم ہوگئے۔

اسی طرح امام احمد بزار sym-4 روایت کرتے ہیں:

فبلغنا انه اتت علیه مائة سنة.79
پس ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی عمر سو برس کو پہنچی۔

یعنی کہ رسول اکرم sym-1کی دستِ مبارک سے ہر طرح کی برکات کا ظہور ہوتا تھا جو در حقیقت منجانب اللہ آپ sym-1کی نبوت کی نشانی اور آپsym-1کے لیےتقویت و تائید تھی۔

چھڑی مبارک میں دست اقدس کی قوت و تاثیر

جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو حضور نبی کریم sym-1بیت اﷲ شریف میں تشریف لے گئے وہاں کافروں نے تین سو ساٹھ 360 پتھر کے بت اس طرح مضبوط نصب کیے ہوئے تھے کہ کلہاڑیوں اور کدالوں سے ان کا اکھڑنا مشکل تھا۔ حضور sym-1 کے ہاتھ مبارک میں ایک چھڑی تھی وہ چھڑی مبارک جس بت سے لگادیتے اور فرماتے جاء الحق وزھق الباطل تو وہ بت اوندھے منہ زمین پر آجاتا تھا اوراس سے سب لوگ تعجب کرتے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس sym-5بیان کرتے ہیں:

دخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم الفتح و على الكعبة ثلاثمائة صنم وستون صنما قد شد لھم ابلیس اقدامھم بالرصاص فجاء ومعہ قضیبه فجعل یھوى به الى كل صنم منھا فیخر لوجھه ویقول:وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَھقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھوْقًا.80حتى امر به علیھا كلھا.81
کہ حضور نبی کریم sym-1فتح والے دن کعبہ میں داخل ہوئے اور (اس وقت) اس میں تین سو ساٹھ 360بت پڑے ہوئے تھے، شیطان نے جن کے پاؤں آہنی زنجیروں سے جکڑ رکھے تھے، پس حضور sym-1ادھر تشریف لائے اور آپ sym-1کے دست مبارک میں اپنا عصا مبارک بھی تھا۔ آپ sym-1اس عصا مبارک کے ساتھ ان بتوں میں سے ہر بت کی طرف آئے تو ہر بت اوندھے منہ گرتاجا تا اور حضور sym-1اس وقت یہ آیت کریمہ پڑھ رہے تھے"حق آگیا اور باطل بھاگ گیا بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہوجانا ہے"یہاں تک کہ آپ sym-1نے اپنے اس عصا مبارک کے ذریعے سارے بت گرادیے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ sym-5نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔82 مقام غور ہے کہ صرف لکڑی کی چھڑی لگادینے سے ان بتوں کا گرجانا جو نہایت مضبوط طریقہ سے زمین میں جمائے ہوئے تھے کس قدر حیرت انگیز ہے لیکن جب یہ دیکھا جائے کہ وہ چھڑی کس کے ہاتھ میں تھی تو کوئی حیرت نہ رہتی کیونکہ حضور sym-1کا دست مبارک عجیب و غریب تاثیرات کا حامل تھا اوراس چھڑی مبارک میں بھی حضور sym-1کے دست ِمبارک کی برکت پہنچ گئی تھی جس کے صرف لگنے سے زمین اور دیوار میں گڑے ہوئے مستحکم بت اوندھے منہ گرجاتے تھے۔

دستِ اقدس کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی

آپ sym-1کے دستِ اقدس کی برکات کی تاثیر نہ صرف انسان و حیوان پر تھی بلکہ غیر ذی روح پر بھی اس کا اثر پہنچتا تھا۔چنانچہ امام ابن اسحاقsym-4 فرماتے ہیں:

وعكاشة بن محصن وھو الذى قاتل بسیفه یوم بدر حتى انقطع فى یده فاتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاعطاہ جذلا من حطب وقال قاتل بھا یا عكاشة. فلما اخذہ من ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھزه فعاد سیفا فى یده طویل القامة شدید المتن ابیض الحدیدة فقاتل بھا حتى فتح اللّٰه تعالى على رسوله ثم لم یزل عنده یشھد به المشاھد مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى قتل یعنى فى قتال الردة وھو عنده وكان ذلك السیف یسمى القوى.83
حضرت عکاشہ بن محصنsym-5 وہ تھے جنہوں نے بدر کے دن اپنی تلوار سے قتا ل کیا تھا یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی تھی۔ حضور sym-1آئے اور آپ نے اس کو لکڑی کا ٹکڑا دیا اور فرمایا کہ اس کے ساتھ قتال کراے عکاشہ۔ اس نے جب اس لکڑی کو رسول اﷲsym-1کے ہاتھ سے لیا اور اس کو حرکت دی تو وہ تلوار بن گئی تھی اس کے ہاتھ میں جو طویل القامت ،سخت اور مضبوط پٹھہ اور سفید لوہے والی تھی۔ اس نے اس سے قتال کی حتیٰ کہ اﷲ نے اس کو فتح عطا فرمائی، پھر وہ ہمیشہ اسی کے پاس رہی۔ وہ ان کے ساتھ رسول اﷲ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتا تھا حتیٰ کہ شہید ہوگیا یعنی مرتدوں کے قتل کرتے ہوئے، اس وقت بھی وہ اسی کے پاس تھی۔ اس تلوار کا نام القوی رکھا گیا تھا۔

سیرت ابن ہشام میں اس تلوار کا نام العونآتا ہے امام عبد الملک بن ہشام sym-4لکھتے ہیں:

فعاد سیفا فى یده طویل القامة شدید المتن ابیض الحدید فقاتل به حتى فتح اللّٰه تعالى على المسلمین وكان ذلك السیف یسمى العون.84
جب وہ لکڑی ان کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی تو انہوں نے اسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔

جنگ اُحد میں حضرت عبداﷲ بن حجشsym-5 کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی کریمsym-1 نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔چنانچہ مروی ہے:

فرجع فى عبداللّٰه سیفا.85
جب وہ حضرت عبداﷲ بن حجش sym-5کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔

امام عبد الراق بن ہمام صنعانی sym-4 روایت کرتے ہیں:

ان عبداللّٰه بن حجش جاء الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یوم احد وقد ذھب سیفه فاعطاه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عسیبا من نخل فرجع فى یده سیفا.86
غزوہ اُحد کے روز حضرت عبداﷲ بن حجشsym-5 بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے۔ ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔ آپ نے انہیں کھجور کی شاخ عطا کی جو حضرت عبداﷲ sym-5کے ہاتھوں میں جاکر تلوار بن گئی۔

امام سیوطی sym-4نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔87 امام زبیر بن بکار sym-4الموفقیات میں لکھتے ہیں:

ان قائمة منه وكان یسمى العرجون ولم یزل یتناقل حتى بیع من بغاء التركى بمائتى دینار.88
یہ تلوار ان کے ہاتھ میں رہی اسے عرجون کہا جاتا ہے یہ نسل درنسل منتقل ہوتی رہی حتیٰ کہ بغاء الترکی نے اسے دو سو دیناروں میں خرید لی۔

امام زرقانی sym-4 فرماتے ہیں:

بیع من بغا التركى من امراء المعتصم باللّٰه فى بغداد بمائتى دینار.89
بعد میں معتصم باﷲ کے امرا میں سے بغا ترکی نے بغداد میں دوسو دینار دے اسے خرید لیا۔

حضرت سلمہ بن اسلم بن حریشsym-5 ، آپ جنگ بدر ، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں حضور sym-1کے ساتھ شریک ہوئے۔آپ فاروق اعظم sym-5کی خلافت میں 14ہجری کو عراق میں جسر کے مقام پر شہید ہوئے۔امام محمد بن سعد بصری sym-4آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:

وشھد سلمة بن اسلم بدرا واحد والخندق والمشاھد كلھا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وقتل بالعراق یوم جسر ابى عبید الثقفى سنة اربع عشرة فى اول خلافة عمر بن الخطاب وھو ابن ثلاث وستین سنة.90
یوم بدر حضرت سلمہ بن اسلم بن حریشsym-5 کی تلوار بھی ٹوٹی تھی اور جب وہ خالی ہاتھ ہوگئے تو حضور sym-1نے انہیں اپنے ہاتھ مبارک کی چھڑی عطا کردی تو وہ بہترین تلوار بن گئی۔

اسی حوالہ سے امام واقدی sym-4 روایت کرتے ہیں:

انكسر سیف سلمة بن اسلم بن حریش یوم بدر فبقى اعزل لا سلاح معه فاعطاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قضیبا كان فى یده من عراجین بن طاب فقال اضرب به فاذا ھو سیف جید فلم یزل عنده حتى قتل یوم جسر ابى عبید.91
حضرت سلمہ بن اسلم بن حریش sym-5کی تلوار ٹوٹ گئی تھی بدر والے دن۔ پس باقی رہا خالی ہاتھ تو اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا رسول اﷲ sym-1نے اس کو ایک ڈنڈی دے دی جو حضور کے ہاتھ میں تھی کھجور کے خوشے کی جو ٹیڑھا ہوجاتا تھا، تاحال تازہ تھی۔ حضور sym-1نے فرمایا کہ اسی کے ساتھ مارو۔ اچانک وہ خالص تلوار بن گئی اور وہ ہمیشہ اسی کے پاس رہی، حتیٰ کہ وہ یوم جسر ابوعبیدہ میں شہید ہوئے تھے۔

ممکن ہے کہ حضور sym-1کے دست مبارک سے جو مختلف آثار ظاہر ہوتے ہیں وہ بحسب استعداد ہوں جیسے آگ تر چیز کو نہیں جلاتی اور خشک کو جلادیتی ہے اور بعض چیزوں کو پگھلادیتی ہے اور کبھی پتلی چیز کو گاڑھا کردیتی ہے جیسے انڈے کی زردی وسفیدی وغیرہ کو اور کسی میں اس کا اثر کچھ نہیں ہوتا جیسے ابرک کو بالکل نہیں جلاتی اور کسی کو جلاکر سیاہ کر دیتی ہے جیسے گھاس لکڑی وغیرہ کو۔ یہ سب آثار ہر چند آگ کے ہیں مگر قابلیت مادہ کے لحاظ سے مختلف طور پر ان کا ظہور ہوتا ہے لیکن ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہاں استعداد کو بھی کوئی دخل نہیں کیونکہ دست مبارک کی تاثیر سے چھڑی تلوار ہوگئی اور اس قسم کے مختلف آثار ظاہر ہوئے حالانکہ چھڑی میں نہ لوہا بننے کی صلاحیت ہے نہ استعداد، بلکہ اس صورت میں یہی کہنا پڑے گا کہ دست مبارک کا اثر حضور نبی کریم sym-1کے ارادے کے تابع تھا اس میں مادہ کی ذاتی صلاحیت اور عدم صلاحیت کو کوئی دخل نہیں۔

دستِ اقدس کے لمس سے کھجور کی شاخ روشن ہوگئی

حضور sym-1کے دستِ اقدس کے لگنے کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری sym-5فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ بن نعمانsym-5 ایک اندھیری رات میں طوفان وبادِباراں کے دوران دیر تک حضور sym-1کی خدمت میں بیٹھے رہےپھر جب جانے لگے تونبی اکرم sym-1نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا:

انطلق به فانه سیضىء لك من بین یدیك عشرا ومن خلفك عشرا، فاذا خلت بیتك فسترى سوادا فاضربه حتى یخرج فانه الشیطان.92
اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لیے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔

حضرت سلمہ بن عبد الرحمنsym-5 بیان کرتےہیں :

فلما توفى ابوھریرة قلت واللّٰه لو جئت ابا سعید الخدرى فاتیته فذكر حدیثا طویلا فى قصة العراجین قال ثم ھاجت السماء من تلك اللیلة فلما خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لصلاة العشاء برقت برقة فراى قتادة بن النعمان فقال ما السرى یا قتادة؟ فقال علمت یا رسول اللّٰه ان شاھد الصلاة اللیلة قلیل فاحببت ان اشھدھا قال فاذا صلیت فاثبت حتى امر بك فلما انصرف اعطاه العرجون فقال خذ ھذا فسیضىء لك امامك عشرا وخلفك عشرا فاذا دخلت بیتك فرایت سوادا فى زاویة البیت فاضربه قبل ان تكلم فانه الشیطان قال ففعل فنحن نحب ھذه العراجین لذلك.93
جب حضرت ابوہریرہsym-5 کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کاش کہ میں حضرت ابو سعید خدریsym-5 کے پاس آجاتا تو میں ان کے پاس آیا۔ پھرانہوں نے عراجین کا پورا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا اس رات آسمان پر (بادلوں سے) ہجوم ہوگیا۔ پھر جب رسول اﷲ sym-1 رات کو عشاء کی نماز کے لیے تشریف لائے اوربجلی چمکی تو آپ sym-1 نے حضرت قتادہ بن نعمانsym-5 کو دیکھا اور فرمایا: اے قتادہ! کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آج نماز میں حاضری کم ہے تو میں نے یہ پسند کیا کہ ان کو دیکھوں، فرمایا کہ جب نماز پڑھ لو تو رک جانا حتیٰ کہ میں تمہیں (واپسی کا)حکم دوں ۔پس جب میں لوٹا تو آپ sym-1 نے مجھے کھجور کی ٹہنی (یاچھڑی) دی اور فرمایا یہ لے لے ،تجھے روشنی دے گی تیرے آگے دس (گز) اور پیچھے دس (گز) ۔پس جب تو گھر میں داخل ہوجائے اور گھر کے کونے میں تاریکی دیکھے تو بولنے سے پہلے اسے مار کیونکہ وہ شیطان ہے۔قتادۃ نے کہا کہ پس میں نے ایسے ہی کیا پس ہم اسی لیے اس چھڑی (یا ٹہنی) کو محبوب جانتے ہیں۔

دستِ مبارک کی برکت سے شاخ کا روشن ہوجانا اور اس کے مارنے سے شیطان کا گھر سے نکل جانا بظاہر تعجب خیز ہے مگر جب دستِ مبارک کی برکتوں اور تاثیروں کو دیکھا جائے تو کوئی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ حضور sym-1کا دستِ مبارک بے مثل ہے اور اس دستِ مبارک میں معجزانہ طور پر ہر قسم کی قدرت عطا کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضو ر اکرم sym-1جس ارادہ سے دستِ مبارک کو عمل میں لاتے دستِ مبارک سے فوراً اس کا ظہور ہوجاتا۔یہاں یہ بھی معلو م ہوا کہ حضور sym-1اپنے غلاموں کے کس قدر خیر خواہ ہیں کیونکہ حضرت قتادہ sym-5نے کوئی شکایت نہیں کی کہ میرے گھر میں شیطان یا آسیب ہے۔ حضور sym-1نے خود ہی ارشاد فرماکر اس کے دفع کرنے کی تدبیر بھی بتادی۔نہ صرف اتنا بلکہ ایسی چیز ان کو عطا فرمائی جس کے استعمال سے شیطان خود ہی بھاگ جائے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت قتادہsym-5 کا مکان حضور sym-1کے دولت خانہ سے فاصلے پر تھا اور جس وقت آپ sym-1نے ان کو شیطان کی خبردی سخت اندھیری رات تھی، خصوصاً ان کے گھر کے اندر تو روشنی کا گزر ہی نہ تھا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ تمہیں سیاہ رنگ کی چیز نظر آئے گی وہ شیطان ہے۔گویا ظلمت بعضھا فوق بعض کا مضمون صادق آتا ہے مگر پھر بھی حضور sym-1نے اتنی تاریکیوں میں اتنی دیواروں کی آڑ میں شیطان کو دیکھ لیا جو بصیرت ایسی ہو جو چند دیواروں اور تاریکیوں کے حائل ہونے پر بھی دیکھ سکے تو اس کے لیے ہزاروں دیواریں اور ہزاروں تاریکیاں بھی حائل نہیں ہوسکتیں کیونکہ دیکھنے کے لیے جو شرطیں تھیں کہ خارجی روشنی ہو، کوئی کثیف چیز حائل نہ ہو وغیرہ وہ یہاں نہیں پائی گئیں۔ باوجود اس کے حضور sym-1نے اس شیطان کو دیکھ لیا تو معلوم ہوا کہ حضور sym-1کا دیکھنا دوسرے لوگوں کے دیکھنے جیسا نہ تھا کیونکہ حضور کے لیےقرب و بعد روشنی اور اندھیرا یکساں تھا۔

حضرت حنظلہ sym-5پر دستِ اقدس کا اثر

حضرت ذیال بن عبید sym-5نے حضور نبی کریم sym-1کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ sym-5کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ sym-1سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لیے عرض کیاتو آپ sym-1نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ sym-5 آپ sym-1کے قریب آگئے، حضور نبی کریم sym-1نے اپنا دست اقدس ان کے سر پر رکھا اور فرمایا اﷲ تجھے برکت عطا فرمائے۔رسول اکرم sym-1کےاس دستِ اقدس اور دعاء ِمبارک کے اثرات کے بارے میں حضرت ذیال sym-5فرماتے ہیں:

فرایت حنظلة یوتى بالرجل الوارم وجھه وبالشاة الوارم ضرعھا فیتفل فى كفه ثم یضعھا على صلعته ثم یقول بسم اللّٰه على اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثم یمسح الورم فیذھب.94
میں نے دیکھا کہ جب کسی کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہوجاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہsym-5 کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر لعاب دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے:اﷲ کے نام کے ساتھ اور رسول اﷲ sym-1 کے ہاتھ مبارک کے اثر کے ساتھ پھیرتا ہوں ۔اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اتر جاتا۔

اسی حوالہ سےامام بیہقی sym-4روایت کرتے ہیں:

فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یا غلام فاخذ بیده فمسح راسه وقال له بورك فیك او قال بارك اللّٰه فیك ورایت حنظلة یوتى بالشاة الورم فیتفل فى یده ویمسح بصلعته ویقول بسم اللّٰه على اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فیمسحه فیذھب عنه.95
حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا اے لڑکے اور حضور نبی کریم sym-1نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور اس کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں برکت دی گئی ہے یا یوں فرمایا تھا اﷲ تمہارے اندر برکت دے ۔تو میں نے حنظلہsym-5 کو دیکھا تھا کہ ان کے پاس ایسی بکری لائی جاتی جس کی کھوپری پر ورم ہوتا وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعاب دہن ڈالتے اور لعاب دہن لگا کر متورم جگہ پر پھیرتے اور یوں کہتے تھے:اﷲ کے نام کے ساتھ اور رسول اﷲ sym-1کے ہاتھ مبارک کے اثر کے ساتھ پھیرتا ہوں پس ہاتھ پھیردیتے تھے لہٰذا اس کا ورم دور ہوجاتا تھا۔

اسی طرح اما م بغوی sym-4فرماتے ہیں:

ویقول بسم اللّٰه على اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فیمسحه فیذھب عنه.96
اور یوں کہتے تھے:اﷲ کے نام کے ساتھ اور رسول اﷲ sym-1کے ہاتھ مبارک کے اثر کے ساتھ پھیرتا ہوں پس ہاتھ پھیردیتے تھے لہٰذا اس کا ورم دور ہوجاتا تھا۔

یہاں یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ حضور sym-1نے حضرت حنظلہ کے بچپن میں ان کے سر پر ہاتھ رکھا جس کا اثر ان میں عمر بھر رہا اور وہ بھی ایسا کہ فقط وہی اس سے مستفید نہ تھے بلکہ دوسرے انسان و حیوان بھی اس سے فائدہ اور شفا حاصل کرتے۔ دستِ مبارک کی برکت ان کے سر کے پوست پر قائم ہوئی اور جب وہ اپنا ہاتھ اس پر لگاتے تو ان کے ہاتھ میں آجاتی اور پھر وہ برکت بیمار تک پہنچتی اور وہاں جاکر یہ اثر کرتی کہ اس کو صحت ہوجاتی۔

کنویں کودستِ اقدس کااثر پہنچنا

حضرت زیاد بن حارث صدائیsym-5 فرماتے ہیں کہ حضور sym-1ایک سفر میں طلوع ِفجر سے پہلےاستراحت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا بہت تھوڑا ہے جو آپsym-1کو کافی نہ ہوگا فرمایا اس کو ایک برتن میں ڈال کر لے آؤ! صحابی فرماتے ہیں میں لے آیاتو رسول اللہ sym-1نے اس میں اپنا دستِ اقدس ڈالا۔چنانچہ مروی ہے:

فوضع كفه فى الماء فرایت بین اصبعین من اصابعه عینا تفور فقال ناد فى اصحابى من كان له حاجة فى الماء فنادیت فیھم فاخذ من اراد منھم فقلنا یا رسول اللّٰه ان لنا بیرا اذا كان الشتاء وسعنا ماء ھا واجتمعنا علیھا واذا كان الصیف قل ماء ھا فتفرقنا على میاه حولنا وقد اسلمنا وكل من حولنا لنا عدو فادع اللّٰه لنا فى بیرنا ان یسعنا ماء ھا فنجتمع علیھا ولا تتفرق فدعا بسبع حصیات فعركھن فى یدہ دعا فیھن ثم قال اذھبوا بھذه الحصیات فاذا اتیتم البیر فالقوا واحدة واحدة واذكروا اسم اللّٰه قال الصدائى ففعلنا ما قال لنا فما استطعنا ان ننظر الى قعرھا یعنى البیر.97
تو آپ sym-1نے اپنا دستِ مبارک اس میں رکھا، میں نے دیکھا کہ آپ sym-1کی دو انگلیوں کے بیچ میں سے چشمہ جوش مارنے لگا تو آپ sym-1نے فرمایا لوگوں میں پکار دو کہ جس کو پانی کی حاجت ہوآجائے۔ میں نے پکارا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس پانی میں سے لیا یہ دیکھ کر ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ sym-1! ہمارے قبیلہ میں ایک کنواں ہے ،موسم سرما میں تو اس کا پانی ہم سب کو کافی ہوتا ہے تو ہم اکٹھے رہتے ہیں اور جب موسم گرما آتا ہے تو اس کا پانی بہت کم ہوجاتا ہے تو ہم لوگ متفرق ہوکر جہاں پانی پاتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں۔ اب چونکہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اس وجہ سے اطراف کے قبیلے ہمارے دشمن ہوگئے ہیں تو آپ sym-1دعا فرمائیں کہ ہمارے کنوئیں کا پانی ہمیں کافی ہوجائے اور ہم ایک ہی جگہ جمع رہیں اورمتفرق ہونے کی ضرورت نہ ہو ۔حضور اکرم sym-1نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا کہ یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو! فرماتے ہیں جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اسی حوالہ سے امام بیہقیsym-4 کی روایت میں بھی یوں منقول ہے:

فدعا بسبع حصیات فعركھن فى یده دعا فیھن ثم قال اذھبوا بھذه الحصیات فاذا اتیتم البیر فالقوا واحدة واحدة واذكروا اسم اللّٰه قال الصدائی ففعلنا ما قال لنا فما استطعنا ان ننظر الى قعرھا یعنى البیر.98
تو حضور sym-1نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا کہ یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو! راوی صدائی فرماتے ہیں جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اس حدیث میں جو مذکور ہے کہ حضور sym-1نے کنکریوں کو ہاتھ میں مل کر کنوئیں میں ڈالنے کا حکم فرمایا اور اس سے بے حد پانی بڑھ گیا اس سے ظاہر ہے کہ دستِ مبارک کا اثر کنوئیں میں پہنچانا منظور تھا جس کی تدبیر یہ کی گئی کہ کنکریوں کو دستِ مبارک سے متاثر فرمایا اور وہ اثر کنوئیں میں پہنچا اور پانی فورًابڑھ گیا۔ ظاہرًا دستِ مبارک کا اثر کنکریوں میں نہ تھا مگر معنوی طور پر اس قدر تھا کہ اس کنوئیں کے پانی کو حد سے بڑھادیا ۔ان لوگوں نے جب دستِ مبارک کا اثر دیکھا کہ اس سے پانی جاری ہوتا ہے تو اپنے کنوئیں کا پانی زیادہ کرنے کی درخواست کی اس وقت حضور sym-1کا بنفس نفیس خود تشریف لے جانا متعذر تھا اور ان کی درخواست کو رد کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اس لیے کنکریوں کے ذریعے سے دستِ مبارک کی برکت کو وہاں پہنچادیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے اونٹنی کی سرکشی ختم ہوگئی

حضرت حماد بن سلمہ sym-8بیان کرتے ہیں کہ میں بنی قیس کے ایک بزرگ کو اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا:

جاء نا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم و عندنا بكرة صعبة لا نقدر علیھا قال فدنا منھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح ضرعھا فحفل فاحتلب.99
کہ حضور نبی کریم sym-1ہمارے ہاں تشریف لائے ہمارے پاس ایک سرکش اونٹنی تھی جو قابو میں نہ آتی تھی۔حضور sym-1اس اونٹنی کے پاس گئے،اس کے تھنوں پر دست اقدس پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے پھر حضور sym-1نے انہیں دوہا۔

آپ sym-1کے دستِ مبارک کی برکات سے نہ صرف انسان بلکہ حیوان بھی مستفید ہوتے تھے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے کمزور بکریاں توانا ہوگئیں

اسی طرح رسول اکرم sym-1کے دستِ مبارک کے اثر سےکمزوربکریوں میں برکت ہوجاتی اوروہ توانا ہوجاتیں چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعو د sym-8بیان کرتے ہیں :

كنت غلاما یافعا راعى غنما لعقبة بن ابى معیط فجاء النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر وقد فرا من المشركین فقالا یا غلام ھل عندك من لبن تسقینا قلت انى موتمن ولست ساقیكما فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ھل عندك من جذعة لم ینز علیھا الفحل قلت نعم فاتیتھما بھا فاعتقلھا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومسح الضرع ودعا فحفل الضرع ثم اتاه ابوبكر رضى اللّٰه عنه بصخرة منقعرة فاحتلب فیھا فشرب وشرب ابوبكر ثم شربت ثم قال للضرع اقلص فقلص فاتیته بعد ذلك فقلت علمنى من ھذا القول قال انك غلام معلم قال فاخذت من فیه سبعین سورة لاینازعنى فیھا احد.100
میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا ۔ حضور نبی کریم sym-1اور سیدنا صدیق اکبر sym-5ادھر تشریف لائے اور آپ دونوں مشرکین سے رائے فرار اختیار کرکے آئے تھے ۔انہوں نے فرمایا اے لڑکے! کیا تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لیے دودھ ہے؟ میں نے کہا میں (کسی کی بکریوں پر) امین ہوں لہٰذا میں آپ کو دودھ نہیں پلاسکتا۔ پھر حضور sym-1نے فرمایا کیا تمہارے پاس ایک سالہ بکری ہے جس سے بکرے نے جفتی نہ کی ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں (ہے) میں ان دونوں کو اس بکری کے پاس لے کر آیا تو اسے حضور نبی کریم sym-1نے پکڑا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی وہ تھن دودھ سے بھر آیا توحضو رنبی کریم sym-1نے اسے دوہا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق پیندے والا پتھر آپ sym-1کے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ حضور sym-1نے اس میں دودھ دوہا پھر آپ sym-1اور حضرت ابوبکر صدیق sym-5نے وہ دودھ نوش فرمایا اور پھر میں نے وہ دودھ پیا۔ حضور sym-1نے تھن کو حکم دیا کہ وہ سکڑ جائے تو وہ سکڑگیا (جس طرح وہ دودھ دوہنے سے پہلے تھا) پھر میں حضور نبی کریم sym-1کے پاس آیا اور عرض کی (یارسول اﷲsym-1!) جو کلمات آپ sym-1نے پڑھے وہ) مجھے بھی سکھائیے آپ sym-1نے فرمایا بے شک تو سیکھنے والا لڑکا ہے ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور sym-1سے ستر سورتیں سیکھیں او ر اس چیز میں میرا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔

اگرچہ یہ دودھ عقبہ کی بکری کا تھا مگر اس کی ملکیت نہ تھا ورنہ حضورنبی کریم sym-1 کبھی اس میں تصرف نہ فرماتے کیونکہ اس کی تخلیق بطور عادت نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سبب حضور sym-1کا دستِ مبارک تھا چونکہ تخلیق خاص قسم کی ہوئی اس لیے احکام ملک بدل گئے اور وہ دودھ حضور sym-1کی ملک ہوگیا کیونکہ اس کا واسطہ دستِ مبارک ہوا۔

اسی طرح کا واقعہ حضرت قیس بن نعمان کے بارے میں بھی منقول ہے۔چنانچہ امام حاکم sym-4 روایت کرتے ہیں:

عن قیس بن النعمان قال لما انطلق النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر مستخفیین مرا بعبد یرعى غنما فاستیقیاه من اللبن فقال ما عندى شاة تحلت غیر ان ھاھنا عناقا حملت اول الشتاء وقد اخدجت وما بقى لھا لبن فقال ادع بھا فاعتقلھا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومسح ضرعھا ودعا حتى انزلت قال وجاء ابوبكر بمجن فحلب فسقى ابابكر ثم حلب فسقى الراعى ثم حلب فشرب فقال الراعى باللّٰه من انت؟ فواللّٰه ما رایت مثلك قط قال او تراك تكتم على حتى اخبرك قال نعم قال فانى محمد رسول اللّٰه ، فقال انت الذى تزعم قریش انه صاب ء قال انھم لیقولون ذلك قال فاشھد انك نبى واشھد ان ما جئت به حق وانه لا یفعل ما فعلت الا نبى وانا متبعك قال انك لا تستطیع ذلك یومك فاذا بلغك انى قد ظھرت فاتنا.101
حضرت قیس بن نعمانsym-5 فرماتے ہیں جب نبی کریم sym-1اور حضرت ابوبکر صدیقsym-5 مستخف ہوکر (مکہ سے) نکلے۔ (مستخف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کو اس کی قوم نے حقیر جانا ہو) تو ان کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا، وہ بکریاں چرارہا تھا۔ انہوں نے اس سے دودھ مانگا تو اس نے کہا اس وقت میرے پاس دودھ دینے والی صرف ایک یہی بکری ہے اور یہ بھی سردیوں کے شروع میں حاملہ ہوگئی تھی لیکن اس نے بچہ گرادیا تھا اور اب یہ دودھ نہیں دیتی۔حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا اس کو میرے پاس لاؤ ، چنانچہ وہ اس کو حضور sym-1کے پاس لے آیا۔ نبی کریم sym-1نے اس کی ٹانگ کو اپنی ٹانگ اور ران کے درمیان دبالیا اور اس کے تھنوں پر ہاتھ لگایا اور دعا مانگی (آ پ sym-1کے ہاتھوں اور دعا کی برکت سے) اس بکری کا دودھ اتر آیا۔(راوی) کہتے ہیں حضرت ابوبکر صدیقsym-5 ڈھال لے آئے (آپ sym-1نے اس میں) اس کو دوہا پھر حضرت ابوبکر صدیق sym-5کو اپنے پاس بلایا اور اس کو دوہا ،پھر چرواہے کو بلایا اور دوہا توسب نے سیر ہوکر دودھ پیا ۔چرواہا بولا کہ آپ کو خدا کی قسم ہے کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ خدا کی قسم میں نے آپ(sym-1) جیسا انسان کبھی نہیں دیکھا۔ حضور sym-1نے فرمایا اگر تم میری راز داری رکھو تو میں تمہیں بتاؤں گا (کہ میں کون ہوں) ۔اس نے رازداری کی حامی بھری توآپ sym-1 نے فرمایا بے شک میں محمد رسول اﷲ sym-1ہوں۔ اس نے کہا اچھا آپ(sym-1)ہی ہو وہ شخص ہیں جس کے بارے میں قریش کا گمان ہے کہ آپ (sym-1)نیا دین لے کر آئے ہیں۔آپ sym-1نے فرمایا بے شک وہ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں اس نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ sym-1نبی ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ sym-1جو کچھ لائے ہیں سب حق ہے اور جو کمال آپ sym-1نے کرکے دکھایا ہے یہ نبی کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا اور بے شک میں آپ sym-1کے ہمراہ چلوں گا۔ آپ sym-1نے فرمایا آج تو تمہارا ہمارے ساتھ جانا مناسب نہیں ہے البتہ جب تمہیں میرے غلبہ کی خبر مل جائے تب ہمارے پاس چلے آنا۔

یہ حدیث امام طبرانی sym-4کی روایت میں بھی ہے102جس سے معلوم ہواکہ نبی اکرم sym-1کے دستِ مبارک سے برکت پانے والی اشیاء میں برکت عارضی طور پر نہیں بلکہ دائمی طور پر موجود رہتی اور دوسری اشیاء بھی اس سے مستفید ہوتی رہتی۔

ابو قرصافہ sym-5 کی بکریاں توانا ہوگئیں

حضرت ابو قرصافہ sym-5 کا نام جندرہ بن خیشنہ ہے اوریہ مالک بن نضر میں نبی کریم sym-1کے ساتھ نسب میں مل جاتے ہیں۔ نبی کریم sym-1کے وصال کے بعد یہ شام چلے گئے اور وہیں وصال فرمایا۔چنانچہ حضرت ابوقرصافہ sym-5 دستِ اقدس کی برکت کے حوالہ سےبیان کرتے ہیں :

كان بدء اسلامى انى كنت یتیما بین امى وخالتى وكان اكثر میلى الى خالتى وكنت ارعى شویھات لى فكانت خالتى كثیرا ما یقول لى یا بنى لا تمر بھذا الرجل تعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فیغویك ویضلك فكنت اخرج حتى اتى المرعى واترك شویھاتى ثم اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فلا ازل عنده اسمع منه واروح یغنمى ضمرا یابسات الضروع فقالت لى خالتى ما لغنمك یابسات الضروع؟ قلت ما ادرى ثم عدت الیه الیوم الثانى ففعل كما فعل الیوم الاول غیر انى سمعته یقول ایھا الناس ھاجروا وتمسكوا بالاسلام فان الھجرة لاتنقطع ما دام الجھاد ثم انى رجعت بغنمى كما رحت الیوم الاول ثم عدت الیه الیوم الثالث فلم ازل عند النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اسمع منه حتى اسلمت وبایعته وصافحته بیدى وشكوت الیه امر خالتى وامر غنمى فقال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جئنى بالشیاه فجئته بھن فمسح ظھورھن وضروعھن ودعا فیھن بالبركة فامتلان شحما ولبنا.103
میرے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ میں یتیم لڑکا تھا والدہ اور خالہ کی زیر کفالت تھا تاہم میرا زیادہ میلان خالہ کی طرف تھا۔ میں اپنی چھوٹی چھوٹی بکریاں چرایا کرتا تھا اورمیری خالہ اکثر مجھے کہتی تھی پیارے بیٹے؟ اس آدمی یعنی نبی کریم sym-1کے قریب نہ بھٹکنا وہ تمہیں راہ سے ہٹادے گا اور گمراہ بنادے گا۔ تو میں گھر سے نکلتا چراگاہ میں جاتا بکریاں وہیں چھوڑتا اور نبی کریم sym-1کے پاس آجاتا ،آپ sym-1کے پاس بیٹھتا،آپ sym-1کی باتیں سنتا رہتا اور رات کو کمزور اور خشک تھنوں والی بکریاں لیے گھر واپس ہوجاتا۔ ایک بار میری خالہ نے مجھ سے کہا کیا بات ہے تیری بکریاں خشک ہوچکی ہیں؟ میں نے کہا میں نہیں جاتنا۔ پھر اگلے دن میں نبی کریم sym-1کے ہاں جاپہنچا، آپ sym-1کے معمولات پہلے ہی دن جیسے تھے۔ البتہ آپ sym-1یہ فرمارہے تھے اے لوگو ہجرت کرو اور اسلام کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ جب تک جہاد ہوتا رہے گا ہجرت ختم نہ ہوگی۔ پھر میں بکریاں لے کر گھر آگیا اور تیسرے دن پھر آپ sym-1کے پاس جاپہنچا وہاں بیٹھا رہا اور تب اٹھا جب اسلام لاچکا اور بیعت کے لیے آپ sym-1کے دستِ مبارک میں ہاتھ دے چکا تھا۔ پھر میں نے آپ sym-1سے اپنی خالہ کے معاملے اور بکریوں کے متعلق عرض کیا ۔ آپ نے مجھے فرمایا بکریاں میرے پاس لاؤتو میں لے آیا، آپ sym-1نے ان کی پشتوں اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ چربی اور دودھ سے بھر گئیں۔

ابو قرصافہsym-5 کو اپنی بکریاں چھوڑکر حضو ر sym-1کے پاس جانے کا شوق پیدا ہونا حالانکہ ان ہی بکریوں پر ان کی روزی کا دارومدار تھا اور پھر زمانہ نو عمری اور یتیمی کا ،اس زمانے کے حالات او ر تقاضے اہل نظر سے مخفی نہیں ہیں چونکہ توفیق ازلی مددگار تھی لہٰذا ایسے آثار ظاہر ہوئے اور اس وجہ سے دستِ مبارک کی برکات کا بھی ظہور ہوا۔

ام معبد sym-6 کی خشک بکری دودھ دینے لگ گئی

رسول اﷲ sym-1جس وقت مکے سے نکالے گئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو قبیلہ بنو خزانہ کی ایک بوڑھی خاتون اُم معبد خزاعیہ کے خیموں کے پاس سے گزرے ۔ قبائلی دستور کے مطابق گوشت یا کھجور مانگے تاکہ اس بوڑھی اماں سےیہ چیزیں خرید لیں مگر ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔

اُم معبد نے کہا کہ اﷲ کی قسم اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہوتی تو ہم تمہیں اس کو ذبح کرنے سے بھی نہ روکتے۔ رسول اﷲ sym-1کی نظر اتنے میں خیمے کے ایک کونے میں ایک بکری پر پڑی توآپ sym-1نے پوچھا کہ یہ بکری کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ایسی کمزور بکری ہے جو بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک چل کر نہیں جاسکتی اس لیے یہ خیمے میں باندھ رکھی ہے تو یہ دودھ دینے سے بھی معذور ہے ۔حضور sym-1نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اس کا دودھ دوہنے کی اجازت دیں گی؟ وہ بولی کہ میرے ماں باپ آپsym-1 پر قربان، اگر آپ sym-1کو اس کے پاس دودھ نظر آئے تو ضرور دودھ لیں۔104 چنانچہ امام حاکم sym-4نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

فدعا بھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح بیده ضرعھا وسمى اللّٰه تعالى و دعا لھا فى شاتھا فتفاجت علیه ودرت فاجترت فدعا باناء یربض الرھط فحلب فیه ثجا حتى علاہ البھاء ثم سقاھا حتى رویت وسقى اصحابه حتى رووا وشرب اخرھم حتى اراضوا ثم حلب فیه الثانیة على ھدة حتى ملا الاناء ثم غادرةعندھا ثم بایعھا وارتحلوا عنھا.105
آپ sym-1نے اس بکری کو منگوا کر بسم اﷲ کہہ کر اس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لیے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے حضور sym-1کے لیے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلادیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہوگئی۔ آپ sym-1نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کردے اور اس میں دودھ دوھ کر بھردیا،یہاں تک کہ اس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُم معبد sym-6کو پینے کو دیا تو وہ سیر ہوگئیں،پھراپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ سب کے بعد آپ sym-1نے نوش فرمایا۔پھر دوسری بار دودھ دوہایہاں تک کہ وہی برتن پھر بھر دیا اور اسے بطور نشان اُم معبد sym-6کے پاس چھوڑا اور اسے اسلام میں بیعت کیا پھر سب وہاں سے چل دئیے۔

نبی اکرم sym-1کے دستِ اقدس کی برکت سے کمزور اور ناتوا ں بکری بھی توانا ہوکر دودھ دینے کے قابل ہوگئی۔نہ صرف اتنا کہ اس وقت دودھ دیا بلکہ نبی اکرم sym-1کے تشریف لے جانے کے بعد بھی وہ دودھ دیتی رہی اور جب حضرت عمر sym-5کے دورِ خلافت میں قحط پڑا تو اس وقت کسی کی بھی بکری دودھ نہیں دیتی تھی سوائے امِّ معبدsym-6 کی بکری کہ جس پر نبی اکرم sym-1کے دستِ اقدس لگے تھے۔چنانچہ امام صالحی شامی sym-4 لکھتے ہیں:

وروى ابن سعد وابو نعیم عن ام معبد قالت بقیت الشاة التی لمس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضرعھا عندنا حتیك كان زمان الرمادة وھى سنة ثمانى عشرة من الھجرة زمان عمر بن الخطاب وكنا نحلبھا صبوحا وغبوقا وما فى الارض قلیل ولا كثیر. وقال ھشام بن حبیش انا رایت الشاة وانھا لتادم ام معبد وجمیع صرمتھا اى اھل ذلك الماء.106
ابن سعد اور ابو نعیم رحمہما اﷲ نے حضرت اُم معبدsym-6 سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا:جس بکری کے تھنوں کو حضور sym-1 نے مس کیا تھا وہ حضرت عمر sym-5 کے دورِ خلافت میں 18ہجری تک ہمارے پاس رہی اور اسی سال قحط آیا تھا۔ ہم صبح وشام اس کا دودھ نکالتے تھے حالانکہ زمین پر کچھ بھی نہ تھا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے سست رفتار اونٹ تیز رفتار ہوگیا

آپ sym-1 کے دست اطہر کی برکت ہی کو بیان کرتے ہوئے حضرت جعیل بن زیاد sym-5 فرماتے ہیں:

غزوت مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى بعض غزواته وانا على فرس لى جعفاء ضعیفة قال فكنت فى اخریات الناس فلحقنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال سریا صاحب الفرس فقلت یا رسول اللّٰه جعفاء ضعیفة قال فرفع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخفقة معه فضربھا بھا وقال اللّٰھم بارك له فیھا قال فلقد رایتنى ما امسك راسه ان تقدم الناس قال فلقد بعت من بطنھا باثنى عشر الفا.107
میں نے ایک غزوہ میں حضور نبی کریم sym-1 کے ہمراہ جہاد کیا میں اپنی نڈھال ولاغر گھوڑی پر سوار تھا میں لوگوں کے آخری گروہ میں تھا۔ حضور sym-1 میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے گھوڑ سوار، آگے بڑھو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! یہ نڈھال ولاغر گھوڑی ہے۔حضورنبی کریمsym-1 نے اپنا چابک ہوا میں لہرا کر گھوڑی کو مارا اور یہ دعا فرمائی اے اﷲ جعیل کی اس گھوڑی میں برکت عطا فرما۔ جعیل sym-5 کہتے ہیں میں اس گھوڑی کو پھر قابو نہ کرسکا یہاں تک کہ میں لوگوں سے آگے نکل گیا نیز میں نے اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے بارہ ہزار میں فروخت کیے۔

دبلی اور ضعیف گھوڑی کا بغیر خوراک اور مسالا وغیرہ کھلانے کے صرف چھڑی مارنے سے چست اور چالاک ہوجانا کس قدر حیرت انگیز ہے مگر حضور sym-1 کی توجہ اور چھڑی مارنے سے اس کی فطرت ہی بدل گئی اور ایک نئی روح اور نئی طاقت اس کے اندر پیدا ہوگئی ۔

دست اقدس میں کنکریوں کا کلمہ پڑھنا

حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 ما فرماتے ہیں کہ حضر موت کے باشندے حضور sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے جن میں اشعث بن قیس بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بات ہم نے اپنے دل میں چھپائی ہے بتائیے وہ کیا ہے؟ آپ sym-1نے فرمایا سبحان اﷲ! یہ تو کاہن کا کام ہے اور کاہن و کہانت کا مقام دوزخ ہے۔چنانچہ انہوں نے عرض کی:

قالوا كیف نعلم انك رسول اللّٰه فاخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كفا من حصى فقال ھذا یشھد انى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسبح الحصى فى یده فقالوا نشھد انك رسول اللّٰه .108
تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم کس طرح جانیں کہ آپ( sym-1) اﷲ کے رسول ہیں؟ تو آپ( sym-1) نے ایک مٹھی کنکر زمین سے اٹھا کر فرمایا دیکھو یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں اﷲ کا رسول ہوں چنانچہ حضور sym-1کے دست مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کہا کہ ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ sym-1اﷲ کے رسول ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ حضور sym-1قلوب کی کیفیتوں پر مطلع تھے جس کا ثبوت متعدد احادیث میں ملتا ہے مگر اس موقعہ پر جو فرمایا کہ یہ کاہن کا کام ہے، اس میں ایک بہت بڑی مصلحت تھی اور وہ یہ تھی کہ اگر حضور sym-1ان کی سوچی ہوئی بات بتادیتے تو لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ یہ کام تو کاہن بھی کیا کرتے تھے اور ممکن تھا کہ ان کو اس قسم کا کوئی واقعہ شبے میں ڈال دیتا، چونکہ انہوں نے نبوت ورسالت کے پرکھنے کا معیار، دل کی بات جان لینے کو قرار دیا جو اتنی بڑی بات نہ تھی۔اس لیے فرمایا کہ یہ کام تو کاہن بھی کرلیتے ہیں، ہم تمہیں وہ معجزہ دکھاتے ہیں کہ کسی اور سے ممکن ہی نہ ہو، چنانچہ کنکریوں سے کلمہ پڑھ کر آپ sym-1کی رسالت کی گواہی دی۔

دشمنوں پر دستِ اقدس کی کنکریوں کا اثر

آپ sym-1کے دستِ مبارک کے اثرات کو بیان کرتے ہوئےحضرت ابن عباس sym-8 فرماتے ہیں:

شھدت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم حنین فلزمت انا وابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم نفارقة ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على بغلة له بیضاء اھداھا له فروة بن نفاثة الجذامى فلما التقى المسلمون والكفار ولى المسلمون مدبرین فطفق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یركض بغلته قیل الكفار… اخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حصیات فرمى بھن وجوه الكفار ثم قال انھزموا ورب محمدقال فذھبت انظر فاذا القتال على ھیئته فیما ارى قال فوا اللّٰه ما ھو الا ان رماھم بحصیاته فما زلت ارى حدھم كلیلا وامرھم مدبرا.109
غزوہ حنین میں، میں حضور sym-1کے ساتھ تھا میں اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب حضور sym-1کے ساتھ ساتھ رہے اور آپsym-1سے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ حضور sym-1اس سفید رنگ کی خچر پر سوار تھے جو آپ sym-1کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور sym-1اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے پھر حضور sym-1نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کی چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا رب محمد کی قسم! یہ ہار گئے ۔ حضرت ابن عباسsym-5 فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی، میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ sym-1نے کنکریاں پھینکیں بخدا میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔

رسول اکرم sym-1کے دستِ اقدس کی برکا ت سے ہر طرح کی برکات کا اظہار موقع محل کے مناسب ہوتا تھا اور اسی وجہ سے کئی لوگوں نے اس کا مشاہدہ کرکے ایمان کی دولت کو پایا۔

کوتاہ قد کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا تو وہ سب سے اونچے نظر آتے

حضرت عبد الرحمن بن زید بن الخطابsym-5 کوتاہ قد پیدا ہوئے تو حضور نبی کریم sym-1نے ان کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور دعا فرمائی بعد ازاں حضرت عبدالرحمن جس قوم میں ہوتے سب سے اونچے نظر آتے تھے۔چنانچہ قاضی عیاض sym-4لکھتے ہیں:

ومسح راس عبد الرحمن بن زید بن الخطاب وھو صغیر وكان دمیما و دعا له بالبركة فضرع الرجال طولا وتماما.110
اور عبدالرحمن بن زید بن خطاب کے سر پر ہاتھ مبارک کا پھیرنا جبکہ وہ بچپن میں چھوٹے جسم والے تھے۔ حضور sym-1نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی کے پس وہ قد اور وضع قطع میں مردوں کی مانند ہوگئے۔

دستِ اقدس پھیرنے کے بعد حذیفہ کو سردی نہ لگی

اسی طرح سیدنا عبد الرحمن جامی sym-4 فرماتے ہیں:

جب لیلۃ الاحزاب میں حضرت حذیفہ بن یمانsym-5 کو لشکر احزاب کی جانب روانہ کیا گیا تو جانے سے پہلے حضور sym-1نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے سینے اور کندھوں پر پھیرے اور یہ دعا کی:

اللّٰھم احفظ من بین یدیه ومن خلفه و عن یمینه و عن شماله.111
اے اللہ! آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے ان کی حفاظت فرما۔

اس دعا کی برکت سے یہ اثر ہوا کہ اس شب شدت کی سردی تھی لیکن حضرت حذیفہ sym-5 نے کہا کہ جب میں روانہ ہوا تو میں نے یوں محسوس کیا جیسے میں گرم حمام میں ہوں۔

دست اقدس پھیرنے سے زنا سے تائب ہوگیا

اسی دستِ مصطفی sym-1کی برکت کو بیان کرتے ہوئے سیدنا عبد الرحمن جامیsym-4 فرماتے ہیں:

ایک نوجوان نے بارگاہ نبوی sym-1میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اﷲ مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں زنا کرتا رہوں۔صحابہ کرامsym-5 نے جب اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو سخت غضبناک ہوئے مگر حضور sym-1نے اس نوجوان کو پاس بٹھا کر دریافت کیا:کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ تیری ماں سے زنا کریں؟نوجوان نے کہانہیں یا رسول اﷲ sym-1!فرمایا دوسرے لوگ بھی اسی طرح پسند نہیں کرتے۔ ۔۔ اس کے بعد حضور sym-1نے اپنا داہناں ہاتھ اس نوجوان کے سینہ پر پھیر کر فرمایا:

اللّٰھم اغفر ذنبه طھر قلبه حصن فرجه.112
اے اللہ ا س کے گناہوں کو معاف فرما ،اس کے دل کو پاک فرما ،اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔

پھر اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ نہیں کی۔اسی طرح احمد بن حنبل sym-4 روایت کرتے ہیں:

قال فلم یكن بعد ذلك الفتى یلتفت الى شىء.113
فرمایا وہ برا کام درکنار وہ کسی عورت کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔

یعنی کہ نبی اکرم sym-1کے دست ِ مبارک کی برکت سے دلوں کی تطہیر بھی میسر ہوجاتی تھی اور پھر انسان باری تعالیٰ کا تابع ِ فرمان ہوجایا کرتا تھا۔

دستِ اطہر سےسر کے بالوں کا کالا رھنا

جب انسا ن جوانی سے نکل کر بزرگی کی طرف بڑھتا ہے تو قدرتی طور پر اس کے بال سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ لیکن حضرت عمرو بن ثعلبہsym-5 کے بال ان کے وصال تک سیاہ رہے حا لانکہ وصال کے وقت ان کی عمر 100 سال تھی۔ چنانچہ امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن ثعلبہ sym-5نے فرمایا:

لقیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالسیالة فاسلمت ومسح على وجھى فمات عمرو بن ثعلبة وقد اتت علیه مائة سنة ومات شابت منه شعرةمستھا ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من وجھه وراسه.114
میری ملاقات سیالہ میں رسول اﷲ sym-1سے ہوئی میں مسلمان ہوگیا انہوں نے میرے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔چنانچہ حضرت عمرو بن ثعلبہsym-5 جب فوت ہوئے تو وہ پورے سو برس کے ہوچکے تھے مگروہ بال جن کو رسول اﷲ sym-1کا ہاتھ لگا تھا چہرے پر اورسر پر تو وہ کالے رہے۔

اس روایت کو امام ابن حجر عسقلانیsym-4115 اورامام طبرانی sym-4دونو ں نے اپنی کتابوںمیں نقل کیاہے۔ 116

اسی طرح کی برکت حضرت سعد بن عثمان الزرقی sym-5کو بھی نصیب ہوئی جن کا شمار بدری صحابہ میں ہوتا ہے۔ان کے بارے میں امام ابن حجر عسقلانی sym-4لکھتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اتى بئر اھاب بالحرة وھى یومئذ لسعد بن عثمان قد ترك علیھا ابنه عبادة یسقى فلم یعرفه عبادة ثم جاء سعد فوصفه له فقال ذلك رسول اللّٰه الحق به فلحقه فمسح راسه ودعا له یقال مات وھو ابن ثمانین سنة وما شاب.117
نبی کریم sym-1مقامِ حرہ کے اہاب نامی کنویں پر تشریف لائے جو ان دِنوں سعد بن عثمانsym-5 کی ملکیت تھا جہاں وہ اپنے بیٹے عبادہsym-5 کو چھوڑ گئے تھے تاکہ لوگوں کو پانی پلائیں ۔حضرت عبادہ نبی کریم sym-1کو نہ پہنچان پائے، بعد میں حضرت سعدsym-5 آئے انہوں نے آنے والی شخصیت کا حلیہ بیان کیا ،حضرت سعدsym-5 بولے بیٹا! یہی تو رسول اﷲ sym-1ہیں جن کے پاس حق ہے۔ چنانچہ یہ بھاگتے ہوئے آپ sym-1سے جا ملے اور آپ sym-1نےان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔بقول بعض وہ اَسّی سال کے باوجود جوانی میں فوت ہوئے۔

امام سیوطی نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔118یہ دست اقدس نبی کریم sym-1نے حضرت بشیر بن عقربہ sym-5 کے سر پر بھی پھیرا اور وہ بھی اس کی برکات سے مشرف ہوئے۔چنانچہ امام ابن عساکر تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بشیر بن عقربہ sym-5نے فرمایا:

لما قتل ابى یوم احد اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وانا ابكى فقال یا حبیب ما یبكیك اما ترضى ان اكون انا ابوك وعائشة امك فمسح على راسى فكان اثر یده من راسى اسود وسائره ابیض.119
جب میرا باپ جنگ اُحد میں شہید ہوگیا، تو میں روتا ہوا نبی کریم sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا آپ sym-1نے فرمایا تم کیوں رو رہے ہو کیا تمہیں پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ بنوں اور عائشہ sym-6 تمہاری ماں بنیں۔ اس کے بعد رسول اﷲ sym-1نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کا اثر یہ ہوا کہ میرے سر کے وہ بال سیاہ رہے جہاں نبی کریم sym-1نے دستِ مبارک رکھا تھا اور باقی بال سفید ہوگئے۔

آپ sym-1کے دست مبارک کی برکت کو بیان کرتے ہوئے حضرت سائب بن یزیدsym-5 بیان کرتے ہیں :

ذھبت بى خالتى الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت یا رسول اللّٰه ان ابن اختى وجع فمسح راسى ودعا لى بالبركة ثم توضا فشربت من وضوئه ثم قمت خلف ظھره فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه مثل زر الحجلة.120
مجھے میری خالہ نبی کریم sym-1کے پاس لے گئیں اور عرض کیا یارسول اﷲ! بے شک میرے بھانجے کے سر میں درد ہے آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی پھر آپ نے وضوء کیا پھر میں نے آپ کے وضوء کا پانی پیا پھر میں آپ کی پشت کے پیچھے کھڑا ہوگیا پھر میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر (یا اس کی مثل کسی پرندے) کے انڈے جیسی تھی۔

اسی طرح عطاء مولیٰ السائب sym-5فرماتے ہیں:

كان راس السائب اسود من ھذا المكان ووصف بیده انه كان اسود الھامة الى مقدم راسه وكان سائره موخرہ ولحیته وعارضاه ابیض فقلت یا مولاى ما رایت احدا اعجب شعرا منك قال وما تدرى یا بنى لم ذلك؟ ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مر بى وانا مع الصبیان فقال من انت؟ قلت السائب بن یزید اخو النمر فمسح یده على راسى وقال بارك اللّٰه فیك فھو لا یشیب ابدا.121
کہ سائب بن یزید sym-5 کا سر اس جگہ سے سیاہ تھا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے بیان کیا کہ ان کی کھوپڑی سے سر کے سامنے تک بال سیاہ تھے اور پچھلا حصہ اور داڑھی اور رخسار کے بال سفید تھے میں نے کہا اے میرے آقا میں نے آپ سے زیادہ عجیب بالوں والا کسی کو نہیں دیکھا ۔انہوں نے کہا بیٹے تم کیا سمجھتے ہو کہ ایسا کیوں ہے؟ بے شک نبی کریم sym-1میرے ہاں تشریف لائے تھے اور میں بچہ تھا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا یہ کہ سائب بن یزید نمر کا بھائی ہےانہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور فرمایا تھا اﷲ تیرے اندر برکت دے لہٰذا یہ حصہ (جس پر آپ sym-1نے ہاتھ پھیرا تھا) کبھی بھی سفید نہیں ہوتا۔

اسی طرح جعید بن عبد الرحمنsym-5 فرماتے ہیں:

مات السائب بن یزید وھو ابن اربع وتسعین سنة وكان جلدا معتدلا وقال لقد علمت ما قد میعت بسمعى وبصرى الا بدعاء النبی صلى اللّٰه علیه وسلم ذھبت بى خالتى الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت ان ابن اختى شاك فادع اللّٰه له قال فدعا لى.122
کہ حضرت سائب بن یزید sym-5 فوت ہوگئے تھے ان کی عمر چرانوے (94) برس تھی جب کہ تاحال وہ معتدل اور مضبوط آدمی تھے انہوں نے کہا کہ تحقیق میں جانتا ہوں جوکچھ یہ کانوں اور آنکھوں کی سلامتی ہے وہ نبی کریم sym-1کی دعا کی برکت سے ہے جو انہوں نے میرے لیے فرمائی تھی میری خالہ مجھے حضور sym-1کی خدمت میں لے کر گئی تھی اور کہا تھا میرا بھانجا بیمار ہے آپ اﷲ سے دعا فرمائیں اس کے لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے میرے لیے دعا فرمائی تھی۔

نبی اکرم sym-1کے دستِ اقدس کی برکت سے ابو سفیان فزاری کے بال آخر عمر تک کالے رہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام بیہقی sym-4لکھتے ہیں:

ویذكر عن ابى سفیان واسمه مدلول انه ذھب الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاسلم ودعا له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومسح راسه بیده ودعا له بالبركة فكان مقدم راس ابى سفیان اسود ما مسته ید النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وسائره ابیض.123
اور ذکر کیا جاتا ہے ابو سفیان sym-5سے اور اس کا نام مدلول ہے کہ وہ نبی کریم sym-1کے پاس گیا اور مسلمان ہوگیا تھا اور حضور نبی کریم sym-1نے اس کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی لہٰذا ابو سفیان sym-5کے سر کا اگلہ حصہ کالے بالوں والا تھا جس قدر حضور نبی کریمsym-1نے ہاتھ پھیرا تھا باقی سارا سر سفید تھا۔

اسی طرح امام ابن سعد sym-4لکھتے ہیں:

ذھبت مع موالى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاسلمت معھم فدعانى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح راسى بیده ودعا فى بالبركة قالتا فكان مقدم راس ابى سفیان اسود ما مسته ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وسائر ذلك ابیض. 124
میں اپنے آزاد کردہ غلام کے ساتھ حضور sym-1کے پاس گیا اور مسلمان ہوگیا پھر نبی کریم sym-1نے میرے لیے برکت کی دعا فرمائی اور اپنے دستِ مبارک کو میرے سر پر پھیرا ۔قطبہ اور آمنہ بنت ابی الشعشاء sym-5 ما بیان کرتی ہیں کہ ہم نے ابو سفیان فزاری sym-5 کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابو سفیان کامکمل سر سفید تھا سوائے اس اگلے حصہ کہ جسکو رسول اکرم sym-1نے مس فرمایا تھا کہ وہ حصہ کالا تھا۔

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں 125 اورامام ابو نعیمsym-4 معرفۃ الصحابۃمیں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔126 اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کے دستِ اطہر سے کئی طرح کے اثرات و برکات کا ظہور ہوتا رہا ہے۔

اسی طرح حضرت یونس بن محمد بن انسsym-5 کے بارے میں بھی یہی منقول ہے کہ ان کے بال بھی دستِ رسولِ اکرم sym-1 کی برکت سے کالے رہے۔چنانچہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

قدم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم المدینة وانا ابن اسبوعین فاتى بى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح راسى وحج بى حجة الوداع وانا ابن عشر سنین ودعا لى بالبركة وقال سموه اسمى ولاتكنوه بكنیتى.
کہ حضور نبی کریم sym-1مدینہ میں تشریف لائے تو میں اس وقت دو ہفتے کا تھا مجھے ان کی خدمت میں لایا گیا انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے حج کروایا جب میں دس سال کا تھا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی اور فرمایا کہ اس کا نام میرے نام پر رکھو مگر اس کی کنیت میری کنیت نہ رکھو۔

حضرت یونسsym-5 کہتے ہیں:

فلقد عمر ابى حتى شاب كل شىء من ابى وما شاب موضع ید النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من راسه ولا من لحیته.127
کہ میرے والد بڑی عمر کے ہوگئے تھے حتیٰ کہ میرے والد کی ہر چیز بوڑھی ہوگئی تھی مگر ان کے سر اور داڑھی پر جہاں جہاں حضور نبی کریم sym-1کے ہاتھ مبارک پہنچے تھے (وہ جوان رہے)۔

اسی طرح حضرت مالک بن عمیر sym-5کے بارے میں بھی یہی ملتا ہے کہ آپ sym-1کے دستِ منور کی برکت سے ان کے بال بھی اپنے اصلی حال میں رہے۔چنانچہ امام طبرانی sym-4ان سے روایت کرتے ہیں:

انه شھد مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یوم الفتح وخیبر والطائف.128
نبی کریم sym-1کے ساتھ میں فتح مکہ، حنین اور طائف میں شریک ہوا۔

اسی طرح حضرت مالک بن عمیر شاعرsym-5 سے روایت ہے:

قلت یا رسول اللّٰه انى امرؤ شاعر فافتنى فى الشعر فقال لان یمتلى ما بین لبتك الى عاتقك قیحا خیر لك من ان تمتلى شعرا.129
میں نے کہا یا رسول اﷲ! میں شاعر ہوں مجھے شعر کے بارے میں فتویٰ دیجئے آپ sym-1نے فرمایا تمہارے حلق سے کندھوں تک پیپ سے بھر جائے یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرے۔

میں نے کہا یا رسول اﷲ! میری خطا معاف کیجئے۔ فرماتے ہیں رسول اﷲ sym-1نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر پھیرا ،پھر اسے میرے سینے تک لے گئے پھر میرے پیٹ پر یہاں تک کہ میں رسول اﷲ sym-1کے ہاتھ کو محسوس کررہا تھا۔فرماتے ہیں مالک بوڑھے ہوگئے اور ان کا سر اور داڑھی سفید ہوگئے لیکن ان کے سر اور داڑھی میں سے جس جگہ رسول اﷲ sym-1کا ہاتھ تھا وہ سفید نہ ہوئے۔

اس روایت کوامام بیہقی sym-4130،امام طبرانی sym-4131اورامام بغوی sym-4ان تینوں ائمہ نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔132 اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کے دستِ مبارک سے صحابہ کرام نے اکثر طور پر برکات کو سمیٹا ہے۔ نبی کریم sym-1بذات خود بھی حسین تھے اور جس شئی کو چھوتے وہ بھی حسین رہتی ۔ چنانچہ جب آپ sym-1نے عمرو بن ثعلبہ sym-5 ، حضرت بشیر بن عقربہ sym-5 اور حضرت عبادہ بن سعد sym-5کے بالوں پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ اس کے بعد سیاہ ہی رہے ۔بالوں کا سیاہ ہونا ایک حسن کی علامت ہے اور یہ حسن ماقبل مذکور صحابہ کرام sym-7کو حضور sym-1کے دست اقدس کی برکت سے ہی نصیب ہوئی۔

دستِ اقدس کا شفائے امراض اور ازالہ آفات ہونا

دستِ اقدس کا شفائے امراض اور ازالہ آفات سے متعلق باب بہت وسیع ہے جس کا حصر ممکن نہیں نبی کریم sym-1سے مختلف مقامات ومواقع پر کثرت کے ساتھ روایات آئی ہیں کہ آپ sym-1نے دستِ مبارک کے چھونے، لعاب دہن لگانے دعا کرنے اور دیگر طریقوں کے ساتھ گوناں گوں قسم کے امراض سے شفا عطا فرمائی ہے جن کے استیعاب اور احاطے کی طرف کوئی راستہ نہیں۔ شفائے امراض کے یہ واقعات ان معجزات سے الگ ہیں جو نبی کریم sym-1سے ادویہ کے خواص میں ظاہر ہوئے اور وہ علم طب کے موافق نکلے۔ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور علمائے اسلام نے ان کے بارے میں جداگانہ مخصوص کتابیں تصنیف فرمائی ہیں اور انہیں طب نبوی کا نام دیا ہے مثلاً ابن قیم، حافظ ذہبی sym-4اور حافظ سیوطی sym-4وغیرہ ائمہ کی تصنیفات ہیں۔ یہ بھی نبی کریم sym-1کے دلائل نبوت اور آیات رسالت میں سے ہے کہ آپ sym-1امی نبی تھے ،آپ نے نہ پڑھا ،نہ لکھا، نہ کسی سے علم طب یا کسی اور علم وفن کا کچھ حصہ سیکھا۔ مزید برآں آپ sym-1ایک ایسی امت میں پروان چڑھے جو بالکل ناخواندہ اور ان پڑھ تھی لہٰذا آپ sym-1نے اس سلسلہ میں جو کچھ ظاہر فرمایا وہ آپ sym-1کے معجزات میں سے ہے ۔ان سے بڑھ کر نبوت محمدیہ کی دلیل اُن طرح طرح کے امراض وعلل کا علاج ہے جو آپ sym-1کے دست اقدس پر آیاتِ قرآنیہ اور اذکار واَدَعیہ کے ذریعے ظاہر ہوا۔

ان سب سے عجیب تر نبی کریم sym-1کا معجزہ وطب روحانی ہے جس پر طب جسمانی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اس روحانی علاج سے حاصل ہونے والی شفاء جسمانی شفاء سے کہیں زیادہ کامل وافضل اور انفع وارفع ہے۔ مراد نبی کریم sym-1کی وہ شفا بخشی ہے جو ایمان لانے والوں کو دوائے اسلام کے ذریعے مرض کفر سے نصیب ہوئی ہے اور یہ صحت کی بہترین قسم ہے جیسا کہ مرض کفر بدترین بیماری ہے۔ آپ sym-1پر ایمان لانے کی برکت سے ظلمات جہالت میں ڈوبے ہوئے بدوؤں کی حالت بدل جاتی ہے۔ ان کے دل نور علم سے منور ہوجاتے ہیں ان کی زبانوں پر حکمت کے چشمے رواں ہوجاتے ہیں، پھر وہ ترقی کرکے علمی میدان میں عظیم مقام حاصل کرلیتے ہیں ان کا ذکر صفحہ دہر پر نقش ہوکر لازوال ہوجاتا ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ ایسے مواقع پر حضور sym-1جو دعا فرمایا کرتے تھے وہ ضرور قبول ہوتی تھی اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان امور کا اظہار بھی ہوجاتا تھا، مگر ایسے موقعوں پر دستِ مبارک جو رکھا جاتا تھا اس کا رکھنا بھی بے سبب نہ ہوتا تھا۔ چونکہ شرح صدر بغیر حکم الٰہی نہیں ہوسکتا تھا اس لیے دعا بھی فرمائی اور عالم اسباب میں ظاہری سبب کی بھی ضرورت ہے اس لیے اپنا دستِ مبارک بھی رکھا تاکہ اس کی بھی تاثیر ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح دوائیں وغیرہ عالم اسباب میں تاثیر کیا کرتی ہیں اس طر ح دستِ مبارک میں بھی تاثیر رکھی گئی تھی جس کا ظہور بے مقامات پر ہوا۔

دست ِ اقدس پھیرنے سے ٹوٹے ہاتھ کا درست ہوجانا

سیدنا عبد الرحمن جامی sym-4فرماتے ہیں:

ایک صحابی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ہم حضور sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہمارے پاس ایک بچہ بھی تھا۔ ایک دن اس کا پہلے ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اس وجہ سے اس نے ہاتھ پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ sym-1نے اسے پاس بلاکر اس کے ہاتھ سے پٹی کھول دی اور اپنا ہاتھ مبارک اس کے ہاتھ پر مل دیا وہ ہاتھ فوراً درست ہوگیا۔133

دست اقدس پھیرنے سے ٹوٹی پنڈلی ٹھیک ہوگئی

ابورافع کا شمار ان بد بخت لوگوں میں سے تھا جو نبی کریم sym-1کی شان میں گستاخیاں کرتے اور آپ sym-1کے دشمنوں کی حمایت کرتے۔ ایک دن حضور sym-1نےاس کی سرکوبی کے لئے 5 بندوں کا ایک گروہ تشکیل دیا اور حضرت عبداللہ بن عتیک sym-5کو ان کا امیر مقرر کیا۔ چنانہ امام ا بن ہشامsym-4 لکھتے ہیں:

فخرج الیه من الخزرج من بنى سلمة خمسة نفر عبداللّٰه بن عتیك ومسعود بن سنان و عبداللّٰه بن انیس ابوقتادة الحارث بن ربعى وخزاعى ابن اسود حلیف لھم من اسلم فخرجوا وامر علیھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عبداللّٰه بن عتیك.134
چنانچہ قبیلہ خزرج کی شاخ بنی سلمہ کے پانچ آدمی یعنی حضرت عبداﷲ بن عتیک، حضرت مسعود بن سنان، حضرت عبداﷲ بن انیس، حضرت ابو قتادہ حارث بن ربیع اور بنی اسلم سے ان کے حلیف حضرت خزاعی بن اسود م sym-5اس مہم پر روانہ ہوئے حضور sym-1نے حضرت عبداﷲ بن عتیک sym-5کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔

پھر یہ گروہ اس لعین شخص کو اس کے منتقی انجام پر پہنچانے کے لئے نکلا۔ اس واقعہ کو امام بخاری روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب sym-5نے فرمایا:

بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى ابى رافع الیھودى رجالاً من الانصار فامر علیھم عبداللّٰه بن عتیك وكان ابو رافع یوذى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم و یعین علیه وكان فى حصن له بارض الحجاز فلما دنوا منه وقد غربت الشمس وراح الناس بسرحھم فقل عبد اللّٰه لاصحابه اجلسوا مكانكم فانى منطلق ومتلطف للبواب لعلى ان ادخل فاقبل حتى دنا من الباب ثم تقنع بثوبه كانه یقضى حاجة وقد دخل الناس فھتف به البواب یا عبداللّٰه ان كنت ترید ان تدخل فادخل فانى ارید ان اغلق الباب فدخلت فكمنت فلما دخل الناس اغلق الباب ثم علق الاغالیق على وتد قال فقمت الى الاقالید فاخذتھا ففتحت الباب وكان ابو رافع یسمر عنده وكان فى علا لى له فلما ذھب عنه اھل سمره صعدت الیه فجعلت كلما فتحت بابا اغلقت على من داخل قلت ان القوم نذروا بى لم یخلصوا الى حتى اقتله فانتھیت الیه فاذا ھو فى بیت مظلم وسط عیاله لا ادرى این ھو من البیت فقلت یا ابا رافع قال من ھذا فاھویت نحو الصوت فاضربه ضربة بالسیف وانا دھش فما اغنیت شیئا وصاح فخرجت من البیت فامكت غیر بعید ثم دخلت الیه فقلت ما ھذا الصوت یا ابا رافع فقال لامك الویل ان رجلا فى البیت ضربنى قبل بالسیف قال فاضربه ضربة اثخنته ولم اقتله ثم وضعت ضیب السیف فى بطنه حتى اخذ فى ظھره فعرفت انى قتلته فجعلت افتح الابواب بابا بابا حتی انتھیت الى درجة له فوضعت رجلى وانا ارى انى قد انتھیت الى الارض فوقعت فى لیلة مقمرة فانكسرت ساقى فعصبتھا بعمامة ثم انطلقت حتى جلست على الباب فقلت لا اخرج اللیلة حتى اعلم اقتلته فلما صاح الدیك قام الناعی على السور فقال انعى ابا رافع تاجر اھل الحجاز فانطلقت الى اصحابى فقلت النجاء فقد قتل اللّٰه ابا رافع فانتھیت الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فحدثته فقال ابسط رجلك فبسطت رجلى فمسحھا فكانھا لم اشتكھا قط.135
رسول اﷲ sym-1نے ابو رافع یہودی کی طرف انصار کے چند مردوں کو بھیجا اور حضرت عبداﷲ بن عتیک sym-5کو ان کا امیر بنایا ۔ ابو رافع رسول اﷲ sym-1کو ایذاء دیا کرتا تھا اور آپ sym-1کے خلاف (آپ کے دشمنوں کی) مدد کرتا تھا وہ سرزمین حجاز کے ایک قلعہ میں رہتا تھا۔ جب انصاری اس کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے مویشیوں کو لے کر جاچکے تھے سو حضرت عبداﷲ sym-5نے اپنے اصحاب سے کہا تم لوگ اپنی جگہوں پر بیٹھو، میں (اس کے قلعہ میں) جارہا ہوں اور دربانوں سے کوئی حیلہ کرتا ہوں شاید میں (قلعہ میں) داخل ہوجاؤں ۔پس وہ آگے بڑھے حتیٰ کہ دروازہ تک پہنچ گئے انہوں نے اپنے آپ کو اپنے کپڑے سے اس طرح ڈھانپ لیا گویا وہ قضاء حاجت کررہے ہیں۔ قلعہ کے تمام لوگ اندر داخل ہوچکے تھے سودربان نے پکار کر کہا اے اﷲ کے بندے! اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آجا کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں ۔(انہوں نے بتایا) سو میں اندر داخل ہوگیا پس میں چھپ کر دیکھنے لگا، جب سب لوگ اندر چلے گئے تو اس نے دروازہ بند کردیا اور چابیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکادیا ۔ انہوں نے بتایا کہ میں چابیوں کی طرف بڑھا اور ان کو اٹھالیا سو میں نے دروازہ کھولا ابو رافع کے پاس رات کو کہانیاں سنائی جارہی تھیں اور وہ اپنے بالاخانے میں تھا جب کہانیاں سنانے والے اس کے پاس سے چلے گئے تو میں (اس کے بالاخانے کی طرف) چڑھا ،اس دوران جتنے دروازےمیں اس تک جانے کے لیے کھولتا تھا ان کو اندر سے بند کرتا جاتا تھا،کیونکہ میں نے سوچا کہ اگر ان لوگوں کو میری خبر ہو بھی گئی تو یہ اس وقت تک میرے قریب نہ آسکیں حتیٰ کہ میں اس کو قتل کرلوں،سو میں جب اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے گھر والوں کے درمیان اندھیرے کمرے میں تھا ۔مجھے نہیں پتا چل رہا تھا کہ وہ گھر میں کس جگہ پر ہے۔پس میں نے کہا اے ابو رافع! اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو میں اس آواز کی طرف بڑھا اور میں نے اس پر تلوار ماری، اس وقت اپنی کاروائی کی وجہ سے میرا دل دھڑک رہا تھا،اس نے چیخ ماری تو میں کمرے سے باہر نکل گیا میں تھوڑی دیر ٹھہر کر پھر اس کے پاس آگیا ۔میں نے کہا اے ابو رافع! یہ کیسی چیخ تھی؟ اس نے کہا تیری ماں مرجائے کوئی مرد گھر میں ہے اوراس نے ابھی مجھ پر تلوار سے وار کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں نے پھر اس پر تلوار مار کر اس کا خون بہادیا اور ابھی میں نے اس کو قتل نہیں کیا تھا۔ پھر میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ میں گھونپی حتیٰ کہ وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی پھر میں نے سمجھ لیا کہ اب میں اس کو قتل کرچکا ہوں ۔پھر میں ہر دروازہ کو کھولتا گیا حتیٰ کہ سیڑھی تک پہنچ گیا سو میں نے اپنا پیر رکھا اور میرا گمان تھا کہ میں زمین تک پہنچ چکا ہوں پس میں چاندنی رات میں گرگیا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ میں نے اپنے عمامہ کو اس پر باندھ لیا پھر میں چل پڑا حتیٰ کہ دروازہ پر بیٹھ گیا پس میں نے (دل میں) کہا میں پوری رات باہر نہیں نکلوں گا حتیٰ کہ میں جان لوں کہ میں نے اس کو قتل کردیا ہے پھر جب مرغ نے اذان دی تو اس وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی خبر دے رہا ہوں ۔میں اپنے اصحاب کی طرف گیا اوران سے کہا جلدی چلو اﷲ تعالیٰ نے ابو رافع کو قتل کردیا پس میں نبی پاکsym-1تک پہنچا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا آپ نے مجھ سے فرمایا اپنی ٹانگ پھیلاؤ میں نے اپنی ٹانگ پھیلائی آپ نے اس پراپنا مبارک ہاتھ پھیرا پس گویا اس میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔

جب حضرت عبداﷲ بن عتیکsym-5 سیڑھی سے گرے تو ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن تب بھی وہاں سے نہ نکلے جب تک کہ ابو رافع کی موت کی خبر نہ سنی۔ جب ابو رافع کی موت کی خبر سنی تو جلد اپنے ساتھیوں سے مل کر چلتے ہوئے مدینہ پہنچے اور اس خوشی میں ان کو درد کا احساس نہیں ہوا۔ جب وہ نبی پاک sym-1کے پاس پہنچے تو آپ sym-1 نے ان کی ٹانگ پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ آپ sym-1کے ہاتھ مبارک کی برکت سے ان کا سارا درد جاتا رہا۔چنانچہ امام بخاریsym-4 روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عتیک sym-5سے رسول اللہ sym-1فرمایا:

فقال ابسط رجلك فبسطت رجلى فمسحھا فكانھا لم اشتكھا قط.136
آپ sym-1نے مجھ سے فرمایا اپنی ٹانگ پھیلاؤ میں نے اپنی ٹانگ پھیلائی آپ نے اس پراپنا مبارک ہاتھ پھیرا پس گویا اس میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔

اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی sym-4لکھتے ہیں:

لما اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مسح علیه فزال عنه جمیع الالم ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم.137
جب وہ نبی sym-1کے پاس آئے تو آپ sym-1نے اس پر ہاتھ مبارک پھیرا تو حضور sym-1کے ہاتھ کی برکت سے سارا درد جاتا رہا۔

اس روایت کو امام ابن عبد البر مالکی sym-4نے بھی نقل کیا ہے۔ 138 بہترین سے بہترین ہڈی جوڑ بھی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو ایک ہی مجلس میں مکمل طور پر صحیح کرنے پر قادر نہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عتیک کی ٹانگ نبی کریم sym-1کے دست اقدس کےفقط پھیرنے سے ہی فورا ٹھیک ہوگئی۔ یہ ان معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جوکہ حضور sym-1کو خاص طور پر عطا کئے گئے اور ان سے صحابہ کرام خوب مستفید ہوئے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے آسیب زدہ ٹھیک ہوگیا

نبی کریم sym-1کے دست شفاء سے نہ صرف جسمانی بیمار اور ظاہری جرح والے لوگ شفایاب ہوتے بلکہ آسیب زدہ لوگ بھی صحتیاب ہوجاتے۔چنانچہ امام احمد sym-4روایت کرتے ہیں کہ حضرت وازع بن عامر عبدی sym-5نے فرمایا:

فقال الوازع یا رسول اللّٰه ان معى خالا لى مصابا فادع اللّٰه له فقال این ھو آتینى به قال فصنعت مثل ما صنع الاشج البسته ثوبىه فاتیته فاخذ من ورائه یرفعھما حتى راینا بیاض ابطه ثم ضرب بظھره فقال اخرج عدو اللّٰه فولى وجھه وھو ینظر بنظر رجل صحیح.139
پھر حضرت وازعsym-5 نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ساتھ میرے ماموں بھی آئے ہیں لیکن وہ بیمار رہتے ہیں، آپ ان کے لیے اﷲ سے دعاء کردیجئے، نبی کریم sym-1نے فرمایا وہ کہاں ہیں؟ انہیں میرے پاس لاؤ چنانچہ میں نے اسی طرح کیا جیسے حضرت اشجsym-5 نے کیا تھا کہ انہیں صاف ستھرے کپڑے پہنائے اور نبی کریم sym-1کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، حضور sym-1نے انہیں پیچھے سے پکڑ کر ان کے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم ان کی بغل کی سفیدی دیکھنے لگے، پھر نبی کریم sym-1نے ان کی پشت پر ایک ضرب لگاکر فرمایا اے دشمن خدا نکل جاء اس نے جب چہرہ پھیر کر دیکھا تو وہ بالکل صحیح اور تندرست آدمی کی طرح دیکھ رہا تھا۔

اس روایت کو امام سیوطی sym-4نے بھی نقل کیاہے۔140اسی طرح کی ایک اور روایت امام احمد نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8نے فرمایا:

ان امراة جائت بولدھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت یا رسول اللّٰه ان به لمما وانه یاخذه عند طعامنا فیفسد علینا طعامنا قال فمسح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صدره ودعا له فثع ثعه فخرج من فیه مثل الجرو الاسود فسعى.141
کہ حضور نبی کریم sym-1کی خدمت میں ایک عورت اپنا بچہ لے کر حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اﷲ! اسے کوئی تکلیف ہے، کھانے کے دوران جب اسے وہ تکلیف ہوتی ہے تو یہ ہمارا سارا کھانا خراب کردیتا ہے، نبی کریم sym-1نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لیے دعاء فرمائی اچانک اس بچے کو قے ہوئی اور اس کے منہ سے ایک کالے بلے جیسی کوئی چیز نکلی اور بھاگ گئی۔(یعنی وہ بچہ شفایاب ہوگیا)

ایک اور موقع پر حضرت ابی بن کعب sym-5بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ sym-1کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی نے آکر عرض کی:

یا نبى اللّٰه ان لى اخا وبه وجع قال وماجعه قال به لمم قال فاتنى به فاتاه به فوضعه بین یدیه فعوذه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بفاتحة الكتاب واربع آیات من اول سورةالبقرة وھاتین الایتین: وَإِلَ ھكمْ إِلَه وَاحِدٌ لاَّ إِلَه إِلاَّ ھوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ. وآیة الكرسى وآیة من آل عمران : شَھدَ اللّٰه أَنَّه لاَ إِلَه إِلاَّ ھوَ. وآیة من الاعراف: إِنَّ رَبَّكمُ اللّٰه الَّذِى خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ. وآخر سورة المومنین: فَتَعَالَى اللّٰه الْمَلِك الْحَقُّ وآیة من سورة الجن: وَأَنَّه تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَة وَلَا وَلَداً. وعشر آیات من اول الصافات وثلاث آیات من آخر سورةالحشر وقل ھو اللّٰه احد والمعوذتین فقام الرجل كانه لم یشك شیئا قط.
یارسول اﷲ! میرا بھائی شدید درد میں مبتلا ہے دریافت کیا اسے کیا تکلیف ہے؟ اس نے جواب دیا وہ آسیب زدہ ہے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ پس اسے آپ sym-1کے پاس لایا گیا، تو آپ sym-1نے اس کے سامنے دستِ مبارک رکھ کر مندرجہ ذیل آیات سے دم فرمایا۔سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی پہلی چار چار آیات : وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ142آیۃ الکرسی سورہ بقرہ کی آخری تین آیات آل عمران کی ایک آیت: شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ143سورہ اعراف کی ایک آیت: اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ144سورہ مومنون کی آخری آیات: فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ145سورہ جن کی ایک آیت:وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدً146 سورۃ صافات کی پہلی دس آیات، سورۃ حشر کی آخری تین آیات، سورۃ اخلاص اور معوذتین تو وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا،گویا اسے کبھی یہ شکایت ہی نہ ہوئی تھی۔147

آسیب کا اگر کسی انسان پر قبضہ ہوجائے تو ان سے عافیت کے ساتھ جان چھڑانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لیکن نبی کریم sym-1کے دست اقدس کی ایک ہی ضرب سے آسیب سے چھٹکارا نصیب ہوگیا کیونکہ یہ جنات و آسیب کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں، آپ sym-1کی ضرب شفاء کی تاب نہ لاسکے۔

دست اقدس پھیرنے سے چہرہ کا زخم ٹھیک ہوگیا

جنگ حنین کے موقع پر حضرت عائذ بن عمر وsym-5 کا چہرہ تیر لگنے سے زخمی ہوگیاجو نبی اکرم sym-1کے دست اقدس کی برکت سے صحتیاب ہوگیا۔چنانچہ اما م حاکم اس کو روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عائذ بن عمروsym-5 نے فرمایا:

اصابتنى رمیة فى وجھى وانا اقاتل بین یدى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم حنین فلما سالت الدماء على وجھى ولحیتى وصدرى تناول النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فسلت الدم عن وجھى وصدرى الى ثندوتى ثم دعا لى. قال حشرج فكان یخبرنا بذلك عائذ فى حیاته فلما ھلك وغسلناه نظرنا الى ما كان یصف لنا من اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى منتھى ما كان یقول لنا من صدره واذا غرة سائلة كغرة الفرس.148
جنگ حنین کے موقع پر میں رسول اﷲ sym-1کے سامنے جنگ میں مصروف تھا، ایک تیر آکر میرے چہرے پر لگا۔ جب خون بہتا ہوا میرے چہرے داڑھی اور سینے کو رنگین کرگیا تو نبی کریم sym-1نے خود اپنے دستِ مبارک سے میرا خون صاف کیا اور میرے لیے دعا فرمائی۔ اس حدیث کے راوی حشرج فرماتے ہیں حضرت عائذ sym-5اپنی زندگی میں یہ واقعہ بیان کیا کرتے تھے، جب ان کا انتقال ہوا ہم نے ان کو غسل دیا تو ان کے بتائے ہوئے واقعہ کے مطابق ہم نے ان کے چہرے، داڑھی اور سینے پر رسول اﷲ sym-1کے ہاتھوں کا اثر دیکھا، گھوڑے کی پیشانی پر سفیدی کی طرح ان کے اعضاء پر دست رسول sym-1کی برکت سے ایک عجیب سی چمک دکھائی دیتی تھی۔

اس روایت کو امام سیوطی sym-4 ،149 امام رویانی sym-4150اور امام طبرانی sym-4 نےبھی نقل کیا ہے۔151

دست اقدس پھیرنے ہاتھ کا پھوڑا ٹھیک ہوگیا

پھوڑا ان امراض میں سے ہے جس کی جڑیں جسم کے اندر تک سرایت کی ہوئی ہوتی ہیں اور اس کے علاج میں کافی وقت لگتا ہے۔ یہی بیماری ابو بسرہ یزید بن مالک sym-5کو لاحق تھی۔امام محمد بن سعد sym-5روایت کرتے ہیں:

وفد ابو سبرة وھو یزید بن مالك الجعفى على النبى ومعه ابناه سبرة وعزیزوقال له ابو سبرة یا رسول اللّٰه ان بظھر كفى سلعة قد منعتنى من خطام راحلتى فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح فجعل یضرب به على السلعة ویمسحھا فذھبت.152
ضرت ابو بسرہ یزید بن مالک جعفی sym-5نبی کریم sym-1کے پاس وفد لیکر گیا، اس کے دو بیٹے بسرہ اور عزیز اس کے ساتھ تھے۔ ابو بسرہ نے کہا یا رسول اﷲ! میرے ہاتھ پر پھوڑا ہے جس کی وجہ سے میں اپنی سواری کی نکیل تک نہیں پکڑ سکتا۔ پس آپ sym-1نے ایک پیالہ منگوایا اور پھر اس کے ساتھ پھوڑے کو مارنے لگے اور اس پر پھیرنے لگے تاآنکہ وہ پھوڑا ختم ہوگیا۔

اس روایت کو امام بیہقی sym-4 نےیوں بیان کیا ہے :

یا رسول اللّٰه! ان لى بظھركفى سلعة قد منعتنى من خطام راحلتى فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح فجعل یضرب به على السلعة ویمسحھا فذھبت.153
یارسول اﷲ! میری ہتھیلی میں پھوڑا ہے جس سے میں اپنی سواری کی نکیل تک نہیں پکڑسکتا ۔پس آپ sym-1نے ایک پیالہ منگوایا اور پھر اس کے ساتھ پھوڑے کو مارنے لگے اور اس پر پھیرنے لگے تاآنکہ وہ پھوڑا ختم ہوگیا۔

پیالہ نہ تو پھوڑے کی دوا ہے اور نہ ہی علاج، لیکن جب دست اقدس سے اس پیالے کی ضربیں پھوڑے پر لگی تو یہ معمولی سا پیالہ بھی شفاء کا آلہ بن گیا اور ابو بسرہ sym-5 کو اس موزی مرض سے فورا نجات نصیب ہوئی۔

دستِ اقدس پھیرنے سے دھدر زخم ٹھیک ہوگیا

دھدر ایک ایسی بیماری ہے جس سے جلد پر شدید الجھن بھی ہوتی ہے اور اگر یہ انسان کے چہرے پر نکل آئے تو اس کے حسن کو ختم کردیتی ہے۔ اس بیماری سے حضرت ابیض بن جمال مرادیsym-5 بھی متاثر ہوئے۔ امام بیہقیsym-4روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابیض بن جمال مرادیsym-5 نے فرمایا:

انه كان بوجھه جدرة یعنى القوباء وقد التمعت وجھه فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح وجھه فلم یمس ذلك الیوم ومنھا اثر.154
کہ ان کے چہرے پر داد کا داغ تھاجس نے اس کے پورے چہرے کو گھیر لیا (اور بدنما کردیا تھا) حضور نبی کریم sym-1نے اس کے لیے دعا فرمائی اور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا بس آپ کا چھونا ہی تھا اس کا نشان بھی نہ رہا۔

امام طبرانیsym-4 کی روایت میں بھی ہے:

انه كان بوجھه حزازة یعنى القوباء فنقمت انفه فدعاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح على وجھه فلم یمس ذلك الیوم وفیه اثر.155
کہ ان کے چہرے پر داد کا داغ تھا جو ناک کو نگل رہا تھا حضور نبی کریم sym-1 نے انہیں بلا کر ان کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا جس سے اس کا نشان بھی باقی نہ رہا۔

کتنا بڑا طبیب حاذق اور ماہر سرجن کیوں نہ ہو، اگر وہ ایسے داد کا علاج کرے تو اس کو ایک زمانہ درکارہے۔ پھر داد (دھدر) اگر زائل بھی ہوجائے تو جس حصے کو دھدر نے متاثر کیا تھا،اس کا اصلی ہیت پر آجانا دشوار ہوتا ہے۔ ایسی سخت بیماری کو نبی کریم sym-1 نے صرف دستِ مبارک پھیر کر دور فرمادیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے کا ورم ٹھیک ہوگیا

ایک موقع پر حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق sym-6کے چہرے پر ورم آگیا تو اس ورم کو دور کرنے کےلئے آپ نبی کریم sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئی ۔ امام سیوطی sym-4 روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر صدیق sym-6 نے فرمایا:

انھا اصابھا ورم فى راسھا ووجھھا فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على راسھا ووجھھا من فوق الثیاب فقال بسم اللّٰه اذھب عنھا سوءہ وفحشه بدعوة نبیك الطیب المبارك المكین عند كفعل ذلك ثلاث مرات فذھب الورم.156
ان کے سر اور چہرے پر ورم آگیا، تو رسول اﷲ sym-1نے کپڑے کے اوپر سے ان کے سر اور چہرے پر دستِ مبارک رکھا اور تین بار دعا مانگی: اللہ اپنے نام سے اپنے پاک مبارک نبی جو تیرے قریب ہے ان کے صدقے ان کو اس کی اذیت اور شدت سے نجات عطا فرما۔

دستِ اقدس پھیرنے سے داڑھ کا درد ٹھیک ہوگیا

جب حضرت یزید بن نوح بن ذکوان sym-5 جب موتہ کی طرف جارہے تھے تو ان کے داڑھ میں تکلیف اٹھی تو شفاء کے لئے نبی کریم sym-1سے استغاثہ کیا۔چنانچہ امام بیہقی sym-4روایت کرتے ہیں حضرت یزید بن نوح بن ذکوان sym-5نے فرمایا:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لما بعث عبداللّٰه بن رواحة مع زید وجعفر الى موتة فقال یا رسول اللّٰه انى اشتكى ضرسى آذانى واشتد على فقال ادن منى والذى بعثنى بالحق لادعون لك بدعوة لا یدعو بھا مؤمن مكروب الا كشف اللّٰه عنه كربه فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على الخد الذى فیه الوجع وقال:اللّٰھم اذھب عنه سوء ما یجد وفحشه بدعوة نییك المبارك المكین عندك. سبع مرات قال فشفاه اللّٰه عزوجل قبل ان یبرح. اللّٰھم اذھب عنه سوء ما یجد وفحشه بدعوة نبیك المبارك المكین عندك .157
نبی کریم sym-1نے حضرت عبداﷲ بن رواحہ sym-5کو حضرت زید sym-5 اور حضرت جعفر طیار sym-5کے ساتھ بھیجا تھا موتہ کی طرف تو اس نے کہا تھا یار سول اﷲ! مجھے داڑھ میں درد ہے وہ مجھے تکلیف دے رہی ہے اور درد شدید ہوگیا آپ نے فرمایا کہ میرے قریب ہوجائیے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بھیجا ہے حق کے ساتھ میں ضرور ایسی دعا کروں گا کہ جو بھی مؤمن تکلیف زدہ اس کے ساتھ دعا کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کردے گا حضور نبی کریم sym-1نے اپنا ہاتھ مبارک ان کے رخسار پر رکھا جس طرف داڑھ میں درد تھا اور دعا پڑھی۔ کہتے ہیں کہ اﷲ نے شام ہونے سے پہلے وہاں سے روانگی سے قبل شفاء دے دی۔

دستِ اقدس پھیرنے سے پیٹ کا درد ٹھیک ہوگیا

حضرت رافع بن خدیج sym-5فرماتے ہیں:

دخلت یوما على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وعنده قدر تفور لحما فاعجبتنى شحمة فاخذتھا فازدردتھا فاشتكیت منھا سنة ثم ذكرته لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال انه كان فیھا نفس سبعة اناسى ثم مسح بطنى فالقیتھا خضراء فو الذى بعثه بالحق ما اشتكیت بطنى حتى الساعة.158
ایک دن میں نبی کریم sym-1کے پاس گیا آپ کے گھر ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا مجھے اس میں سے چربی بڑی پسند آئی جو میں نے نکال کر بڑی جلدی سے منہ میں ڈال لی مگراس کے بعد میں ایک سال تک (معدے میں) اس کی تکلیف میں مبتلا رہا آخر میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم sym-1سے کیا آپ نے فرمایا اس میں سات آدمیوں کا حصہ تھا پھر آپ sym-1نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو وہ چربی تازہ حالت میں قے کے ذریعے باہر آگئی تو اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تب سے آج تک مجھے پیٹ کا کوئی بھی مرض لاحق نہیں ہوا۔

ابن کثیر بھی لکھتے ہیں:

ثم مسح بطنى فالقیتھا خضراء فو الذى بعثه بالحق ما اشتكیت بطنى حتى الساعة.159
پھر آپ sym-1نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو وہ چربی تازہ حالت میں قے کے ذریعے باہر آگئی تو اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تب سے آج تک مجھے پیٹ کا کوئی بھی مرض لاحق نہیں ہوا۔

دست اقدس پھیرنے درد سر کافور ہوگیا

حضرت ابو طفیل sym-5بیان کرتے ہیں:

ان رجلا من بنى لیث یقال له فراس بن عمرو اصابه صداع شدید فذھب به ابوه الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فشكا الیه الصداع الذى به فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فراسا فجلسه بین یدیه فاخذ بجلدةما بین عینیه فجذبھا حتى تنقضت فنبتت فى موضع اصابع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من جبینه شعرةفذھب عنه الصداع فلم یصدع.
قال ابو الطفیل فرایتھا كانھا شعرةقنفذ فقال فھم بالخروج على مع اھل جروزاء قال فاخذہ ابوه فاوثقه وحبسه فسقطت تلك الشعرة فما رآھا شق علیه ذلك فقیل له ھذا ما ھممت به فاحدث توبة فاحدث وتاب.
ال ابو الطفیل فرایتھا قد سقطت فرایتھا بعد ما نبتت.160
کہ ایک آدمی تھا بنولیث میں سے اس کو فراس بن عمرو کہتے تھے اس کو سر میں درد شروع ہوگیا تھا اس کو اس کا والد رسول اﷲ sym-1کے پاس لے گیا تھا اس نے ان کے سامنے اس کے درد سر کی شکایت کی لہٰذا رسول اﷲ sym-1نے فراس کو بلایا اور اس کو اپنے آگے بٹھایا اور حضور sym-1نے اس کی کھال کو پکڑا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اس کو کھینچا اس قدر کہ نشان پڑگیا بعد میں رسول اﷲ sym-1کی انگلیاں لگنے کے مقام پر بال اُگ آئے تھے اس کے ماتھے پر۔ لہٰذا اس کا درد سرجاتا رہا اور اسے کبھی درد سر نہیں ہوا۔

حضرت طفیل sym-5 سے مروی دوسری روایت میں ہے:

ان رجلا ولد له غلام على عھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاتى به النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فدعا له بالبركة واخذ بجبھته فنبتت شعرة فى جبھته كانھا ھلبة فرس فشب .161
کہ ایک آدمی کا لڑکا پیدا ہوا تھا عہد رسول اﷲ sym-1میں وہ اس کو نبی کریم sym-1کے پاس لے کر آیا تھا حضور نبی کریم sym-1نے اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تھی اور اس کی پیشانی سے پکڑا تھا لہٰذا اس کی پیشانی پر بال اُگ آئے تھے جیسے گھوڑے کی گردن یا دم کے سخت بال ہوتے ہیں۔

بڑے سے بڑا طبیب بھی آج تک ایسی دوا نہیں ایجاد کرسکا جس سے فورا بال بھی اُگ آئیں، سر کا درد بھی ختم ہو جائے اور کوئی برے اثرات بھی نہ ہوں (side effect) جبکہ نبی کریم sym-1نے صرف اس جگہ کو اپنی دست اقدس کا شرف بخشا تو ساری تکلیف بھی دور ہوگئی اور اس جگہ بال بھی اُگ آئے حالانکہ آپ sym-1کے دست مبارک پر کسی قسم کی دوا نہیں لگی تھی۔

دست اقدس سے عصا جسم پر پھیرنے سے برص کی بیماری ختم

امام قسطلانیsym-4 فرماتے ہیں:

ان امراة معاذ بن عفراء وكانت برصاء فشكت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح علیھا بعصا فاذھب اللّٰه البرص منھا.162
سیدنا معاذ بن عفراء sym-5 کی بیوی کو برص کی بیماری تھی وہ دربار رسالت میں حاضر ہوئی تو حضور sym-1نے اپنے دستِ مبارک سے اپنا عصا مبارک اس کے جسم پر پھیردیا تو وہ اسی وقت تندرست ہوگئی۔

امام عبد الملک نیشاپوری sym-4 لکھتے ہیں:

ان معاذ بن عفراء تزوج امراة فقیل لھا ان بجنبه برصا فكرھت المراة ان تزف الیه فجاء معاذ الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وشكا الیه ذلك فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اكشف لى عن جنبك فكشف له عن جنبه فمسحه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بعود فذھب البرص عنه.163
معاذبن عفراء نے ایک خاتون سے نکاح کیا تو اسے کہا گیا کہ ان کے پہلو میں برص کی بیماری ہے تو ان کی بیوی کو ان کا زفاف کرناناگوار گزرا۔ اس پر حضرت معاذ حضور sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس بات کا شکوہ کیا۔ نبی sym-1نے فرمایا اپنا پہلو کھولو، انہوں نے اپنا پہلو کھول دیا تو رسول اللہ sym-1نے ایک تنکے سے اس پر مس کیا پس برص (کا مرض) ختم ہوگیا۔

یعنی حضوراكرمsym-1کےدستِ مبارک سےبیماروں کو ایسے امراض سے شفاحاصل ہوجاتی تھی جو بظاہر لا علاج سمجھے جاتے تھے۔

دستِ مبارک سےچشمہ پھوٹنا

اسی دستِ حضوراکرمsym-1 کےکمالات واثرات کےبارے میں حضرت معاذ بن جبل sym-5نےفرمایا:

وقد سبق إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء فسألهما رسول الله صلي الله عليه وسلم هل مسستما من مائها۔ قالا: نعم۔ فسبهما وقال لهما: ما شاء الله أن يقول۔ ثم غرفوا من العين بأيديهم قليلا قليلا حتى اجتمع في شيء، ثم غسل رسول الله صلي الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه ثم أعاده فيها، فجرت العين بماء كثير، فاستسقى الناس ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: يوشك بك يا معاذ! إن طالت بك حياة أن ترى ما ها هنا قد ملىء جنانا۔ 164
اس چشمہ پر ہم میں سے دو آدمی پہلے پہنچے ، چشمہ میں پانی زیادہ سے زیادہ جوتی کے تسمہ جتنا تھا اور وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ: رسول اﷲ sym-1 نے ان دونوں شخصوں سے پوچھا: کیا تم نے اس کے پانی کو چھوا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! نبی کریم sym-1 ان پر ناراض ہوئے اور جو اﷲ تعالیٰ نے چاہا وہ ان کو فرماتے رہے۔ پس لوگوں نے تھوڑا تھوڑا کرکے چلوؤں سے چشمہ کا پانی لیا اور اس کو کسی چیز میں جمع کرلیا پھر رسول اﷲ sym-1 نے اس برتن میں اپنے دست مبارک اور چہرہ انور دھویا اور وہ پانی اس چشمہ میں واپس ڈال دیا۔ وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا حتیٰ کہ لوگوں نے اس سے پانی پیا۔ رسول اﷲsym-1 نے فرمایا : اے معاذ sym-5! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم عنقریب دیکھو گے کہ یہ جگہ باغات سے بھرجائیگی۔

حضورsym-1کے دستِ مبارک کی یہ برکت تھی کہ آنے والےزمانہ میں یہ جگہ لہلہاتے باغوں کا مرقع بن گئی۔

مقامِ حدیبیہ کا گڑھا

حضورsym-1کے دستِ کرم کےفیوض وبرکات کےبارےمیں حضرت مسور بن مخرمہ ﷫ بیان کرتے ہیں :

خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم زمن الحديبية حتى إذا كانوا ببعض الطريق، قال النبي صلي الله عليه وسلم : إن خالد بن الوليد بالغميم في خيل لقريش طليعة، فخذوا ذات اليمين۔ فوالله ما شعر بهم خالد حتى إذا هم بقترة الجيش، فانطلق يركض نذيرا لقريش، وسار النبي صلي الله عليه وسلم حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته، فقال الناس: حل حل۔ فألحت، فقالوا: خلأت القصواء، خلأت القصواء، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: ما خلأت القصواء، وما ذاك لها بخلق، ولكن حبسها حابس الفيل۔ ثم قال: والذي نفسي بيده، لا يسألوني خطة يعظمون فيها حرمات الله إلا أعطيتهم إياها۔ ثم زجرها فوثبت، قال: فعدل عنهم حتى نزل بأقصى الحديبية على ثمد قليل الماء، يتبرضه الناس تبرضا، فلم يلبثه الناس حتى نزحوه وشكي إلى رسول الله صلي الله عليه وسلم العطش، فانتزع سهما من كنانته، ثم أمرهم أن يجعلوه فيه، فوالله ما زال يجيش لهم بالري حتى صدروا عنه.....الخ۔ 165
رسول اﷲ sym-1 (صلح) حدیبیہ کے زمانہ میں (مدینہ منورہ سے) نکلے حتیٰ کہ جب راستہ میں ایک مقام پر پہنچے تو نبی پاک sym-1 نے فرمایا خالد بن ولید (ہماری نقل و حرکت کی جاسوسی کے لیے) مقام غمیم میں قریش کے سواروں کے ساتھ بہ طور مقدمۃ الجیش ہے لہٰذا تم لوگ دائیں طرف کے راستہ سے چلو پس اﷲ کی قسم! خالد بن ولید کو مسلمانوں کے لشکر کا بالکل پتا نہیں چلا حتیٰ کہ جب انہوں نے مسلمانوں کے لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے قریش کو خبر دار کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور حضورsym-1 چلتے رہے حتیٰ کہ جب آپ وادی ثنیۃ پر پہنچے جہاں سے مکہ میں داخل ہونے کے لیے اترتے ہیں تو آپ کی سواری بیٹھ گئی صحابہ اس کو اٹھانے کے لیے "حل، حل" (اٹھو! اٹھو!) کہنے لگے لیکن وہ اسی طرح اَڑی رہی۔ صحابہ نے کہا قصواء اَڑگئی ہے قصواء اَڑگئی ہے تب حضور sym-1 نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ یہ اس کی عادت ہے اس کو اس ذات نے چلنے سے روک لیا ہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا ۔پھر آپ sym-1نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! قریش مجھ سے جب بھی کسی ایسے امر کاسوال کریں گے جس میں وہ اﷲ کی حرمات کی تعظیم کریں گے تو میں ان کو وہ عطاء کروں گا۔ پھر آپ sym-1نے قصواء کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ۔پھر نبی پاک sym-1 صحابہ sym-7 سے آگے نکل گئے حتیٰ کہ حدیبیہ کے آخری کنارے "مقام ثمد" پر قیام فرمایا۔ اس جگہ کم پانی تھا جس کو صحابہsym-7 تھوڑا تھوڑا استعمال کررہے تھے پھر انہوں نے اس گڑھے کا سارا پانی نکال لیا اور رسول اﷲ sym-1 سے پیاس کی شکایت کی گئی حضور sym-1 نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا پھر حضور sym-1 نے ان کو حکم دیا کہ اس تیر کو اس گڑھے میں گاڑدیں پس اﷲ کی قسم! اس گڑھے میں جوش سے پانی ابلنے لگا اور لوگ اس پانی سے سیراب ہوگئےاوروہاں سے روانہ ہوئے۔۔۔الخ۔

یعنی نبی اکرم sym-1کے دستِ اطہر کی برکت سے صحابہ کرام sym-7 کی پیاس کی شکایت دور ہوگئی اور وہ سیراب ہوگئے۔

سات کنکریوں سے کنواں بھرگیا

امام بیہقی sym-4 حضوراکرم sym-1کےہاتھ مبارک کی برکات کےضمن میں روایت نقل کرتےہیں:

فدعا بسبع حصيات فعركهن في يده، ودعا فيهن، ثم قال: اذهبوا بهذه الحصيات، فإذا أتيتم البئر فألقوها واحدة واحدة، واذكروا اسم الله قال الصدائي: ففعلنا ما قال لنا، فما استطعنا أن ننظر إلى قعرها ۔ 166
پس حضور sym-1 نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا: یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو۔فرماتے ہیں: جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

رحمۃ اللعالمین sym-1کےہاتھ مبارک سےکنکریوں کووہ برکت ملی کہ جیسےہی کنویں میں ڈالی گئیں کنواں بابرکت ہوگیا اورپانی کی کثر ت کی وجہ سے کنویں کی تہہ کانظر آنا بند ہوگیا۔

دستِ طیّبہ کامس کرنا

حضرت عمران بن حصین حضوردوعالم sym-1کے دست اقدس کی برکت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

انهم كانوا مع النبي صلي الله عليه وسلم في مسير فادلجوا ليلتهم حتى إذا كان وجه الصبح عرسوا، ‏‏‏‏‏‏فغلبتهم اعينهم حتى ارتفعت الشمس فكان اول من استيقظ من منامه ابو بكر، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يوقظ رسول الله صلي الله عليه وسلم من منامه حتى يستيقظ فاستيقظ عمر فقعد ابو بكر عند راسه فجعل يكبر، ‏‏‏‏‏‏ويرفع صوته حتى استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم فنزل وصلى بنا الغداة فاعتزل رجل من القوم لم يصل معنا فلما انصرف، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ يا فلان ما يمنعك ان تصلي معنا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اصابتني جنابة فامره ان يتيمم بالصعيد، ‏‏‏‏‏‏ثم صلى وجعلني رسول الله صلي الله عليه وسلم في ركوب بين يديه وقد عطشنا عطشا شديدا، ‏‏‏‏‏‏فبينما نحن نسير إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، ‏‏‏‏‏‏فقلنا لها:‏‏‏‏ اين الماء، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ إنه لا ماء، ‏‏‏‏‏‏فقلنا:‏‏‏‏ كم بين اهلك وبين الماء، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ يوم وليلة، ‏‏‏‏‏‏فقلنا:‏‏‏‏ انطلقي إلى رسول الله صلي الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ وما رسول الله فلم نملكها من امرها حتى استقبلنا بها النبي صلي الله عليه وسلم فحدثته بمثل الذي حدثتنا غير انها حدثته، ‏‏‏‏‏‏انها مؤتمة فامر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا اربعين رجلا حتى روينا فملانا كل قربة معنا وإداوة غير، ‏‏‏‏‏‏انه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء ثم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى اتت اهلها، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ لقيت اسحر الناس او هو نبي كما زعموا فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة فاسلمت واسلموا. 167
عمران بن حصین نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم sym-1 کے ساتھ ایک سفر میں تھے، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق جاگے لیکن آپsym-1کو، جب آپsym-1 سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپsym-1 خود ہی جاگتے، پھر عمر بھی جاگ گئے۔ آخر ابوبکر آپsym-1 کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔ اس سے آپ sym-1بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا۔ (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ sym-1 اترے اور آپsym-1 نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ sym-1جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ sym-1 نے اس سے فرمایا: اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے۔ آپ sym-1نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لو (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی۔ عمران sym-5 کہتے ہیں کہ پھر آپ sym-1نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکیزوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ sym-1 کی خدمت میں چلو، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران sym-5 کہتے ہیں، آخر ہم اسے نبی کریم sym-1کی خدمت میں لائے، اس نے آپsym-1 سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لیے واجب الرحم ہے)آپ sym-1کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپsym-1 نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھر لیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی۔ اس کے بعد آپsym-1نے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے (کھانے کی چیزوں میں سے) میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دیں گئیں۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں، وہ واقعی نبی ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیره

حضرت ابو ہریرہ sym-5 سے روایت ہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام sym-7 موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ sym-5 فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آپ sym-1 کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کُل اکیس نکلیں۔ حضور sym-1 نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :

أدع عشرة، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰی شبعوا ثم کذالک حتٰی أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق. 168
دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں ۔آپ sym-1 نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ sym-5 فرماتے ہیں کہ میں حضورsym-1 کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی sym-7 کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی sym-5 شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔

یہ سب کچھ حضور نبی کریم sym-1 کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ sym-5 نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔حضورپُرنورsym-1کا وجودِ مسعودرحمتوں برکتوں اورنعمتوں کا باعث تھا۔جس کا مشاہدہ آپ کے اصحاب نےاپنی آنکھوں سے کیا اوراس سے استفادہ بھی کیا۔

ولید بن عقبہ دستِ اقدس پھیرنے سے محروم رہا

ماقبل میں دستِ اقدس کے لمس مبارک کے اثرات و برکات کا ذکر کیا گیا تھا۔یہاں پر ایک واقعہ ایسا نقل کیا جا رہا ہےکہ جس میں نبی اکرم sym-1کے دست ِ مبارک کےلمس سے محروم ہونے والے شخص کا ذکر ہے۔چنانچہ ولید بن عقبہ بیان کرتے ہیں :

لما فتح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مكة جعل اھل مكة یاتون بصبیانھم فیمسح على رؤوسھم ویدعو لھم فخرجت بى امى الیه وانى مطیب بالخلوق فلم یمسح على رأسى ولم یمسنى.169
رسول اﷲ sym-1نے جب مکہ مکرمہ کو فتح فرمایا تو اہل مکہ اپنے بچوں کو حضور sym-1کی خدمت میں لائے اور حضور sym-1ان کے سروں پر دست اقدس پھیر کر ان کے لیے دعا فرماتے۔ چنانچہ میری والدہ مجھے لے کر آپ کے پاس آئی اس وقت میرے جسم پر خلوق ملا ہواتھا تو حضور sym-1نے میرے سر پر ہاتھ نہ پھیرا اور نہ مجھے چھوا۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام بیہقی sym-4نے کہا:

ھذا لسابق علم اللّٰه فى الولید فمنع بركة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم واخبار الولید حین استعمله عثمان معروفة من شربه الخمر وتاخیره الصلاة وھو من جملة الاسباب التى نقموھا على عثمان حتى قتلوه.170
حضور sym-1کا دست اقدس نہ پھیرنا اس علم غیب کی وجہ سے تھا جو اﷲ تعالیٰ نے ولید کے بارے میں دیا تھا اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ sym-1کو برکت عطا فرمانے سے روک دیا ولید کے حالات کے بارے میں جب کہ وہ حضرت عثمانsym-5 کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا خبریں معروف و مشہور ہیں کہ اس نے شراب پی اور اپنی نماز میں تاخیر کی اور یہ ولید ان اسباب اذیت کا ایک سبب بھی بنا جو حضرت عثمان sym-5کو اذیتیں برداشت کرنی پڑیں اور جس کے نتیجہ میں بلوائیوں نے ان کو شہید کردیا۔

یعنی اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ sym-1کے دستِ اقدس کے لمس کو پانے والے خیر و سعادت کو پالیتےہیں اور کسی وجہ سے محروم رہنے والے خیر و سعادت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

نبی اکرم sym-1سر تا پا اللہ تبارک وتعالی کی خالقیت و واحدیت کی اعظم نشانی تھے اور آپ sym-1کی رسالت عمومی طور پر تاقیامت نوعِ انس وجن کےلیے ہے تو اسی بنا پر آپ sym-1کی ذاتِ مقدسہ سے جو برکات و اثرات و ثمرات اس دنیا فانی میں ظہور پذیر ہوئے تو وہ فنائیت کے برخلاف بقائیت کے مینارہ ثابت ہوئے۔نہ صرف آپsym-1 کا مجموعی طور پر جسمِ اقدس بلکہ آپ sym-1کا ہر عضو ِ مبارک انفرادی طور پر برکات وثمرات کا مظہر اتم ہے جن میں خصوصی طور پر آپ sym-1کے دستِ اطہر و متبرّک کی انوکھی اور نرالی حیثیت ہے۔جس طرح آپ کی نبوت دائمی ہے اسی طرح آپ sym-1کے جسمِ اطہر کی برکات و ثمرات بھی دائمی طور پر ظاہر ہوئے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سطور میں اس بات کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے کہ نبی اکرم sym-1کے دستِ اقدس کی برکات وثمرات سے مستفید ہونے والے صحابہ کرامsym-7 عارضی طور پر نہیں بلکہ دائمی طور پر مستفید ہوئے اور اس دستِ رسول ِ اکرم sym-1کی برکات کا ظہور ان کے تادمِ واپسی پوری زندگی میں محیط رہا۔ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ دستِ رسولِ اکرم sym-1کی برکات صرف ایک شخص تک محدود نہ رہتی تھیں بلکہ جس شخص پر ان برکات و ثمرات کا ظہور ہوتاتھا اس کے ذریعہ سے آگے متعدی بھی ہوجایا کرتی تھیں اور یہ صرف اور صرف رسول اکرم sym-1ہی کی بدولت ہوا کرتا تھا کہ آپ sym-1کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کُل عالمین کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا تھا۔


  • 1  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم،حدیث: 2296، ج -4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 1795
  • 2  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری،حدیث: 7037، ج -9، مطبوعۃ:دار ابن قیم، دمشق، 1422ھ، ص:42
  • 3  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث: 14513، ج -22،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:390
  • 4  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی ، خصائص الکبریٰ ج-2 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:333
  • 5  ایضًٰا، ج-1، ص:82
  • 6  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ،حدیث: 2889، ج -4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:2215
  • 7  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، حدیث 5579، ج -9 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:412
  • 8  محمد بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:49، ج-1،مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 2000ء، ص:196
  • 9  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ، حدیث: 8365، ج-7 ،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:421
  • 10  محی الدین حسین بن مسعود بغوی، مصابیح السنۃ، حدیث: 4787 ، ج -4،مطبوعۃ:دار المعرفۃ ، بیروت، لبنان، 1407 ھ، ص:180
  • 11  حافظ محب الدین طبری، الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1418ھ، ص:143
  • 12  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،حدیث:4481، ج-6، مطبوعۃ: دار ابن قیم،دمشق، 1422ھ، ص:19
  • 13  ایضا،حدیث : 119، ج-1، ص:35
  • 14  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:466
  • 15  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -5 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:308
  • 16  ابو عبداﷲ محمد بن یزید ابن ماجۃ قزوینی، سنن ابن ماجۃ،حدیث: 3548 ، ج -2، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربیۃ ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:1174
  • 17  القرآن، سورۃ یوسف12 : 42
  • 18  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف ، ج-7، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 239-240
  • 19  محمد بن ادریس الشافعی، مسند الشافعی، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1400ھ، ص:30
  • 20  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری ، ج -1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:448
  • 21  محمد بن اسحاق بن العباس الفاکھی، اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ ،حدیث: 2897 ، ج-5 ، مطبوعۃ: دار خضر ، بیروت، لبنان، ص:92
  • 22  اسماعیل بن محمدالاصبھانی، دلائل النبوۃ،حدیث: 236 ، مطبوعۃ: دار طیبۃ، الریاض،السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 182-183
  • 23  ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی،اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دارالکتاب العربی ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:163
  • 24  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ،حدیث:820، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:561
  • 25  اسماعیل بن محمد الاصبھانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 73، مطبوعۃ: دار طیبۃ، الریاض،السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:83
  • 26  عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج -5 ، مطبوعۃ: دارالجیل،بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:80
  • 27  ابوعمر ابن عبدالبرمالکی، الدرر فی اختصار المغازی والسیر ، مطبوعۃ: دارالمعار ف القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:222
  • 28  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-5 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:235
  • 29  ابو داؤد سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد ،حدیث:2681، ج -3 ، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:58
  • 30  ابوعمر ابن عبدالبرمالکی،الدرر فی اختصار المغازی والسیر، مطبوعۃ: دارالمعار ف، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:105
  • 31  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ،حدیث: 1779، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :1403-1404
  • 32  ابوزکریا یحییٰ بن شرف الدین نووی، صحیح مسلم مع نووی ،ج-2 ،مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ کراچی، پاکستان ، (سن اشاعت ندارد)، ص: 102
  • 33  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،حدیث: 4357، ج -5، مطبوعۃ:دار ابن قیم، دمشق، ص:165
  • 34  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبۃ، مصنَّف ابن ابی شیبۃ،حدیث: 32342، ج -6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ،1409ھ، ص:397
  • 35  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:454
  • 36  سلیمان بن موسیٰ حمیری، الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اﷲ ﷺ والثلاثۃ الخلفاء، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص :610
  • 37  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی،، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976ء، ص:172
  • 38  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:228
  • 39  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:48
  • 40  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:235
  • 41  احمد بن علی ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ،حدیث: 4285 ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:430
  • 42  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976ء، ص:178
  • 43  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:231
  • 44  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:46
  • 45  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:231
  • 46  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:46-47
  • 47  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، جامع المسانید والسنن،حدیث: 1086، ج -1 ، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان، 1988ء، ص :530-531
  • 48  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:142
  • 49  علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ دمشق الکبیر، ج -20، مطبوعۃ: دار الفکر بیروت، لبنان، 1995ء، ص:21
  • 50  علاؤالدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال،حدیث:36823 ، ج -13، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص: 281-282
  • 51  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث :7089، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:317
  • 52  قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء ،عمان، 1407ھ، ص:646
  • 53  یحییٰ بن ابی بکر العامری، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل ،ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:231
  • 54  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث :20317، ج -33، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:428
  • 55  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:217
  • 56  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:141
  • 57  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث:2265، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:243
  • 58  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث:20733، ج -34، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:333
  • 59  علی بن احمد ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث:4462، ج-3 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415ھ، ص:493
  • 60  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر،حدیث:35، ج -18، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص:21
  • 61  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:143
  • 62  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم،ج -6، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 1998ء، ص:3337
  • 63  ابوبکر بن ابی عاصم،الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم، ج -6، مطبوعۃ: دار الرایۃ، الریاض، السعودیۃ،1991ء، ص:22
  • 64  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط،حدیث :9096 ، ج-9 ، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:46
  • 65  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث :715، ج-24، مطبوعۃ: مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:282
  • 66  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 3361، ج -4 ،مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1855
  • 67  قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:647
  • 68  یحییٰ بن ابی بکر العامری، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل ،ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:232
  • 69  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:108
  • 70  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:462
  • 71  یوسف بن عبد الرحمن مزی، تہذیب الکمال،حدیث:6594 ، ج -30، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1980ء، ص:296
  • 72  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:107
  • 73  جمال الدین عبد الرحمن ابن الجوزی، تلقیح فھوم اھل الاثر فی عیون التاریخ والسیر ،مطبوعۃ: شرکۃ دار الارقم بن ابی الارقم، بیروت، لبنان، 1997ء، ص:191
  • 74  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حدیث:2710، ج -4 ، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1549
  • 75  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: :9012، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:432
  • 76  قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:647
  • 77  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج -2،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :242-243
  • 78  ابو عبداﷲ محمد بن عبدالواحد حنبلی المقدسی، الاحادیث المختارۃ،حدیث: 72، ج-9،مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، القاھرۃ،مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:90
  • 79  ابوبکر احمد بن عمرو البزار،مسند البزار،حدیث:3502، ج -8 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:430
  • 80  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر،حدیث: 10656، ج -10، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص:279
  • 81  القرآن،سورۃ الاسرائ81:17
  • 82  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبۃ، مصنَّف ابن ابی شیبۃ،حدیث: 36905، ج -7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ، 1409ھ، ص:403
  • 83  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :98-99
  • 84  عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ ، ج -1، مطبوعۃ: مصطفی البابی مصر، 1955ء، ص:637
  • 85  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:250
  • 86  عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق ،حدیث: 20539، ج -11، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ،ص:279
  • 87  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:359
  • 88  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:240
  • 89  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح زرقانی علی المواہب، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:434
  • 90  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:340
  • 91  محمد بن عمر الواقدی، کتاب المغازی ، ج-1، مطبوعۃ: دار العلمی ، بیروت، لبنان، 1989ء، ص:94
  • 92  قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:642
  • 93  ابوبکر محمد بن اسحاق خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ،حدیث:1660، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:81
  • 94  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990ء، ص:51
  • 95  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415ھ، ص:214
  • 96  ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی، معجم الصحابۃ، ج -2، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:187
  • 97  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:69
  • 98  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:127
  • 99  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث: : 20698، ج-34، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:306
  • 100  ایضًا، 4412، ج-7، ص:416-417
  • 101  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین ،حدیث:4273 ، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:9
  • 102  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر،حدیث:874، ج -18، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم ،الموصل، عراق، 1983ء، ص:343
  • 103  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ،ج -1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص :453-454
  • 104  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:276-279
  • 105  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین،حدیث: 4274، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:10
  • 106  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:245
  • 107  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:153
  • 108  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ،حدیث: 190، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:237-238
  • 109  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم،حدیث: 1775، ج -3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:1398
  • 110  قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء عمان، 1407ھ، ص:649
  • 111  عبد الرحمن جامی، شواہد النبوت (مترجم:بشیر حسین ناظم)، مطبوعہ: شمع بک ایجنسی ،، لاہور،پاکستان، 1999ء،ص :180-181
  • 112  ایضًا،ص :273-274
  • 113  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ،حدیث:22211، ج -36، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:545
  • 114  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 115  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: 5803، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:502
  • 116  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 84، ج -17، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:40
  • 117  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: 3184، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:58
  • 118  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:139
  • 119  علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ دمشق الکبیر ، ج -10، مطبوعۃ: دار الفکر بیروت، لبنان،1995ء، ص:300
  • 120  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،حدیث: 190، مطبوعۃ: دارالفکر بیروت ،لبنان، 2005ء، ص:65
  • 121  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:209
  • 122  ایضًا،ص:208
  • 123  ایضًا، ص:215
  • 124  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990ء، ص:303
  • 125  محمد بن اسماعیل بخاری، التاریخ الکبیر ،حدیث :2127، ج-8، مطبوعۃ: دائرۃمعارف الاسلامیۃ، ہند،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:55
  • 126  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ ، ج -5، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع الریاض،السعودیۃ، 1998ء، ص:2645
  • 127  ابوبکر احمد بن حسین الیہقی، دلائل النبوۃ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:213-214
  • 128  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 655، ج -19، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:294
  • 129  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: 7686، ج-5 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:549
  • 130  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 131  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 655، ج -19، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:294
  • 132  ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی، معجم الصحابۃ للبغوی ،حدیث:2069، ج -5 ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:216
  • 133  عبد الرحمن جامی، شواہد النبوت (مترجم: بشیر حسین ناظم)، مطبوعہ: شمع بک ایجنسی ، لاہور،پاکستان، 1999ء،ص:272
  • 134  عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ ، ج -3، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:219
  • 135  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری،حدیث : 4039، ج -5 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، ص:91
  • 136  ایضًا
  • 137  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری ، ج -7، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:345
  • 138  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر مالکی ،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حدیث:1605، ج -3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت،لبنان،1992ء، ص:946
  • 139  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، ج- 39 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 490-491
  • 140  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:27
  • 141  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ،حدیث: 2133، ج -4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:37
  • 142  القرآن، سورۃ البقرۃ02 : 163
  • 143  القرآن، سورۃ آٓل عمران03 : 18
  • 144  القرآن، سورۃ الاعراف 07: 54
  • 145  القرآن، سورۃ المومنون:23:116
  • 146  القرآن، الجن72 : 03
  • 147  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم، المستدرک علی الصحیحین،حدیث: 8269 ، ج -4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:458
  • 148  ایضاً، ص:677
  • 149  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:449-450
  • 150  ابوبکر محمد بن ہارون الرویانی، مسند الرویانی،حدیث: 774، ج -2 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، مصر، 1416ھ، ص:33
  • 151  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 32 ، ج -18، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:20
  • 152  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:246
  • 153  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:176
  • 154  ایضًا، ص:177
  • 155  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 812 ، ج -1، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:279
  • 156  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:116
  • 157  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ،ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:183
  • 158  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس ، بیروت، لبنان،1986ء، ص:615
  • 159  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، جامع المسانید والسنن،حدیث: 2946، ج-2، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:698
  • 160  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:230-231
  • 161  ایضًا
  • 162  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ ،ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:310-311
  • 163  عبد الملک بن محمد بن ابراھیم نیشابوری، شرف المصطفیٰ ﷺ ،حدیث: 1538، ج-4، مطبوعۃ: دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ، 1424ھ، ص:318
  • 164  امیر علاء الدین علی بن بلبان فارسی، صحیح ابن حبان، حدیث: 1595، ج -4، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص : 469-470
  • 165  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2731، مطبوعۃ: دار السلام للنشرو التوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:447
  • 166  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص :127
  • 167  أبو عبد اللہمحمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3571 ،مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع ، الریاض، السعودیۃ، 1419ﻫ ،ص:599
  • 168  عبد الرحمن بن أبي بكر جلال الدين السيوطي، الخصائص الكبرى، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:85
  • 169  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:246
  • 170  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-2 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ ، بیروت، لبنان، ص:246

Powered by Netsol Online