encyclopedia

غزوۂ مریسیع | دیگر نام، اسباب و نتائج، اہم واقعات

Published on: 07-Aug-2025

غزوہ مُریسیع جس کو غزوہ بنو مصطلق بھی کہا جاتا ہے جو سن 5 ہجری میں مسلمانوں اور بنی المصطلق کے درمیان لڑا گیا۔ 1 یہ صرف دشمن کے خلاف ایک جنگی معرکہ نہیں تھا بلکہ دورِ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں اس کے کئی سماجی، سیاسی اور اخلاقی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ 2 اس غزوہ کے دوران کئی اہم واقعات پیش آئے جن میں واقعہ افک اور منافقین کی سازشیں شامل تھیں۔ 3

غزوہ کے دو نام اور وجہ تسمیہ

اس غزوہ کو دو ناموں یعنی غزوہ مریسیع اورغزوہ بنوالمصطلق سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو غزوہ مریسیع اس لئے کہا گیا کیونکہ یہ معرکہ مریسیع کے مقام پر لڑا گیا جو پانی کے ایک ذخیرہ کا نام تھا جو مدینہ منورہ سے تقریبا 170 میل کے فاصلہ پر واقع مقام قدید کے قریب تھا۔ 4 اس غزوہ کا دوسرا نام غزوہ بنو المصطلق ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ غزوہ قبیلہ بنو مصطلق کے خلاف لڑا گیا جو کہ قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک شاخ تھی۔ مصطلق ان کے اجداد میں سے ایک شخص کا لقب تھا جس پر اس قبیلہ کی شاخ کا نام رکھا گیا تھا۔ 5

غزوہ مصطلق کا سبب

بنومصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا۔ اسے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خطرہ محسوس ہونے لگا تو اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کی تیاری شروع کردی۔ 6 حارث بن ابی ضرار نے مختلف قبائل کو اکٹھا کرکے مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب بنو مصطلق کی اس سازش کی خبر ملی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دشمن کے حملے سے پہلے ہی ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ 7

غزوہ کی تیاری اور روانگی

حضرت محمد مصطفٰی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور ایک لشکر ترتیب دیا جس میں مہاجرین و انصار دونوں شامل تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ میں حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کو نگران مقرر کیا اور خود لشکر کے ساتھ مقام مُریسیع کی طرف روانہ ہوئے۔ اس غزوہ میں منافقین کی ایک بڑی جماعت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ شریک سفر تھی۔ 8 راستہ میں ایک مشکوک شخص کی سرگرمی نظر آئی جسے فوراًگرفتار کرکے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے پیش کردیا گیا۔ اس سے تفتیش کی گئی لیکن اس نے کوئی بات بتانے اور معلومات دینے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے نہیں مانا۔ اس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عمر Radi Allah Anho کو اس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ بنو مصطلق کو جب اپنے جاسوس کے قتل کی خبر پہنچی تو ان کی دہشت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ 9

جنگ کا آغاز

جب مسلمان مقام مُریسیع پہنچے تو وہاں بنی المصطلق پہلے سے موجود تھے۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho کے ہاتھ میں اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ Radi Allah Anho کے پاس تھا۔ 10 رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عمر Radi Allah Anho کو حکم دیا کہ ان کو اسلام اور امن کی دعوت دیں لیکن بنو مصطلق نےاس دعوت کو پس پشت ڈالتے ہوئے جنگ کی ابتدا کردی اور تیر پھینکنا شروع کردیے۔ 11 رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام کو بھرپور جواب دینے کا حکم فرمایا۔ مسلمانوں کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے مخالف لشکر کے پاؤں اکھڑنے لگے اور ان کے 10 لوگ مارے گئے جبکہ مسلمانوں کی جانب سے ایک صحابی شہید ہوئے۔ 12

مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح اور مال غنیمت

بنو مصطلق کے 10 لوگ مارے گئے اور باقی ماندہ لشکر کو قیدی بنالیا گیا۔ ان قیدیوں میں قبیلے کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی حضرت جویریہ Radi Allah Anha اور 200 کے قریب دیگر مرد و زن بھی شامل تھے۔ قیدیوں کے علاوہ مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر 2000 اونٹ اور لگ بھگ 5000 بکریاں بھی حاصل ہوئیں۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابو نضلہ طائی Radi Allah Anho کو مدینہ منورہ فتح کی خوشخبری دینے کے لیے روانہ فرمایا اور خود لشکر اور مال غنیمت کے ساتھ بعد میں مدینہ منورہ پہنچے۔ 13

حضرت جویریہ Radi Allah Anha سے حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نکاح

جب حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ پہنچنے اور مال غنیمت تقسیم کیا گیا تو حضرت جویریہ Radi Allah Anha حضرت ثابت بن قیس بن شماس Radi Allah Anho کے حصہ میں آئیں جن سے انہوں نے عقد کتابت کرلیا۔ حضرت جویریہ Radi Allah Anho نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی آزادی کے لیے مدد طلب کی۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کا مالِ کتابت ادا کیا اور ان کو نکاح کی پیشکش فرمائی جسے انہوں نے بخوشی قبول کرتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نکاح فرمالیا۔ اسلام لانے سے قبل آپ Radi Allah Anha کا نام ''برّہ'' تھا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کا نام بدل کر جویریہ رکھ دیا۔ 14 جب صحابہ کرام کو معلوم ہوا کہ حضرت جویریہ Radi Allah Anha اب امّ المؤمنین بن چکی ہیں اور جو قیدی ان کے پاس ہیں وہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سسرالی بن چکے ہیں تو اس احترام میں انہوں نے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا۔ 15

حضرت جویریہ Radi Allah Anha کے والد کا قبول اسلام

حضرت جویریہ Radi Allah Anha کے والد کو جب اپنی بیٹی کے قید ہونے کا علم ہوا تو وہ اپنی بیٹی کو چھڑانے کے لیے اپنے ساتھ کئی اونٹ بطور فدیہ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ کے قریب وادی عقیق میں دو قیمتی اونٹ چھپا کر باقی ماندہ اونٹوں کے ساتھ دربار نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں پیش ہوئے اور اپنی صاحبزادی کوچھڑانے کے موضوع پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بات کی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی بات سن کر ان سے دریافت فرمایا کہ وہ دو قیمتی اونٹ کہاں ہیں جووہ ساتھ لائے تھے۔ یہ سن کر حارث بن ابی ضرار سکتے میں آگئے اور فوراً کلمہ پڑھ لیا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کا نبی ہی پوچھ سکتا ہے جس کو خدا نے اس کا علم دیا ہو۔ ان کے کلمہ پڑھنے سے ان کی پوری قوم نے بھی کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگئے۔ 16

غزوہ بنو مصطلق کے اہم واقعات

غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں کئی اہم واقعات پیش آئے جنہوں نے امت کے لیے قیمتی دینی رہنمائی فراہم کی۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے طفیل تیمم جیسی عظیم سہولت نازل ہوئی، واقعہ افک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکدامنی ظاہر کی، اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا نفاق بے نقاب ہوا۔ صحابہ کرام کا جذبۂ ایمان، نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حکمت، اور قرآن کی رہنمائی اس غزوے کی نمایاں جھلکیاں ہیں۔

تیمم جیسی عظیم سہولت

حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عادت مبارکہ تھی کہ جب سفر پرتشریف لے جاتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے اور ان میں سے کسی کو اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ غزوہ مریسیع کے لیے جاتے ہوئے حضرت ام ّسلمہ Radi Allah Anha اور حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے نام قرعہ نکلا۔ غزوہ سے واپسی پر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا ہار کہیں گم گیا۔ اس کی تلاش میں پورا لشکر رُکا رہا۔ کچھ لوگوں نے جب شکایت کی کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی وجہ سے تاخیر ہورہی ہے تو اس بات پر حضرت ابو بکر Radi Allah Anho حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو ڈانٹنے لگے 17 اور زور سے ان کے پہلو میں کچوکا لگا یا۔ لشکر جس جگہ رکا ہوا تھا وہاں دور تک پانی نہیں تھا اس لیے لشکر وضو کے لیے فکر مند تھا۔ اسی اثنا میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر تیمم کی آیات نازل ہوئیں اور یوں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے طفیل امت کو تیمم جیسی نعمت اور عظیم رخصت نصیب ہوئی۔ تیمم کا حکم ملنے کے بعد حضرت اسید بن حضیر Radi Allah Anho آل ابو بکر کے بارے میں فرمانے لگے:

‌ما ‌هي ‌بأول ‌بركتكم ‌يا ‌آل ‌أبي ‌بكر. 18
اے ابو بکر ( Radi Allah Anho ) کے خاندان والوں یہ تمہاری (وجہ سے امت کو ملنے والی) پہلی برکت نہیں ہے۔

دوڑ کا مقابلہ

غزوہ سے واپسی پرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک ہموار جگہ پر حضرت عائشہ Radi Allah Anha سےدوڑ کا مقابلہ کیا جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان سے سبقت لے گئے۔ 19 اسی غزوہ سے واپسی میں ایک مقام پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اونٹوں کی دوڑ کرائی جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اونٹنی ''قصواء'' نے حصہ لیا اور مقابلہ جیت لیا جس کو حضرت بلال Radi Allah Anho چلا رہے تھے۔ اسی طرح گھڑ سواری کا مقابلہ بھی ہوا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ''لزاز'' اور ''ظرب'' نامی گھوڑے دوڑائے گئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ظرب گھوڑے کو ابو اسید Radi Allah Anho چلا رہے تھے اور وہ یہ مقابلہ جیت گئے۔ 20

عبداللہ بن ابی بن سلول کی فضول گوئی

غزوہ بنو مصطلق کے اسی سفر میں ایک مقام پر پانی حاصل کرتے ہوئے ایک انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان تکرار ہو گئی۔ معاملہ بڑھا تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا کہ جن لوگوں نے مہاجرین کو کھلا پلا کر پالا پوسا ہے یہ ان پر ہی جرّی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے درمیان افتراق اور تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اس نے مزید زہر گھولتے ہوئے کہا:

...لئن ‌رجعنا ‌إلى ‌المدينة ‌ليخرجن الأعز منها الأذل!... 21
اگر ہم مدینہ واپس لوٹے تو عزت والے کمتر لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیں گے۔

پھر انصار کی طرف متوجہ ہو کرمزید شر انگیز گفتگو کی۔ اس کی یہ ساری گفتگو حضرت زیدبن ارقم Radi Allah Anho نے سن لی اور ساری بات رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بتائی۔ حضرت عمر Radi Allah Anho تک یہ بات پہنچی تو آپ Radi Allah Anho نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے عرض کی کہ وہ عباد بن بشر Radi Allah Anho کو حکم دیں کہ وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کا سر قلم کردیں۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عمر Radi Allah Anho کو یہ فرماتے ہوئے اس فعل سے منع کیا کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کروارہے ہیں۔ عبد اللہ بن ابی کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ قسمیں کھانے لگا کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ یہ سن کر کچھ لوگ حضرت زید بن ارقم Radi Allah Anho کے متعلق فرمانے لگے کہ شاید اس نوجوان کو گفتگو سننے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے سورۃ المنٰفقون نازل فرما کر اس رئیس المنافقین کا چہرہ بے نقاب کردیا۔ 22

عبداللہ بن ابی کے بیٹے کا جذبہ ایمانی

عبداللہ بن ابی بن سلول کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ Radi Allah Anho جو کہ مخلص مسلمان تھے اس موقع پر اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عبداللہ بن ابی بن سلول کے قتل کی ذمہ داری خود انہیں سونپ دیں تاکہ ان کے دل میں اس بارے میں کوئی خلش نہ رہے کہ ان کے باپ کو کسی اور نے قتل کیا ہے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کا یہ ایمانی جذبہ دیکھتے ہوئے انہیں تسلی دی اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھ بہتری والا معاملہ کرنے کا یقین دلایا۔ 23 واپسی میں حضرت عبداللہ Radi Allah Anho مدینہ منورہ سے باہر اپنے والد عبداللہ بن ابی بن سلول کے راستہ میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ آج عزت والے ذلت والوں کو نکالیں گے یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کواس بات کا علم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کو اپنے والد کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے سے منع فرمایا۔ 24

واقعہ افک

اس غزوے سے واپسی پر ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جسے واقعہ افک کہا جاتا ہے۔ واپسی کے دوران سیدہ عائشہ Radi Allah Anha قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئیں اور وہاں ان سے ان کا ہار گم ہوگیا جس کی تلاش میں انہیں کافی وقت لگ گیا۔ ان کے ہودج کو اٹھانے پر معمور صحابہ کرام نے پالان اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا کیونکہ وہ دبلی پتلی تھیں اس لیے ان لوگوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ ہودج میں نہیں ہیں۔ جب حضرت عائشہ Radi Allah Anha واپس آئیں تو قافلہ جاچکا تھا۔ وہ وہیں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ 25 حضرت صفوان بن معطل Radi Allah Anho کی ذمہ داری تھی کہ وہ لشکر کے آخر میں رہیں۔ انہوں نے جب حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو درخت کے نیچے تشریف فرما دیکھا تو احترام کے ساتھ انہیں اپنی سواری پر بیٹھایا اور خود پیدل چل کر آپ Radi Allah Anha کو لشکر تک لے آئے۔

اس واقعہ کی بنیاد پر منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha پر بہتان لگایا، جس سے مدینہ میں فتنہ برپا ہو گیا۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو شروع میں اس بات کا علم نہیں تھا۔ جب ان کو پتہ چلا تو وہ بہت روئیں اور اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر یہ وقت بہت سخت تھا۔ جب اس بات کو كافی دن گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورہ النور کی آیات نازل فرما کر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی پاکدامنی ثابت فرمائی اور ان کی برأت کا اعلان فرمایا۔ 26

غزوہ کے نتائج و ثمرات

غزوہ مصطلق کے بعد مسلمانوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بروقت حکمت عملی نے فتنہ کو سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم کردیا۔ 27 ثانیاً مسلمانوں نے قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آکر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔ 28 اس کے ساتھ ہی منافقین کے بارے میں واضح احکامات نازل ہوئے، جنہوں نے اسلامی معاشرے میں ان کے کردار کو بے نقاب کردیا۔


  • 1  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 470
  • 2  ابو الربیع سلیمان بن موسی الكلاعي، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله(ﷺ) والثلاثة الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:457
  • 3  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 416-440
  • 4  محمد بن أحمد باشميل، من معارک الإسلام الفاصلۃ: موسوعۃ الغزوات الکبریٰ، ج-3، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 82
  • 5  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 470
  • 6  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-4، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 344
  • 7  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 203
  • 8  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 279
  • 9  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 378
  • 10  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 337
  • 11  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 378
  • 12  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 48
  • 13  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس ﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 470
  • 14  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 379-380
  • 15  ابو الربیع سلیمان بن موسی الكلاعي، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله والثلاثة الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:457
  • 16  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 474
  • 17  ابو الفتح محمد بن محمدابن سید الناس اليعمري، عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 139- 140
  • 18  حسن بن محمد المشاط المالکی، انارۃ الدجی فی مغازی خیر الوریٰ ﷺ، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، 1426ھ، ص: 481-480
  • 19  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 427
  • 20  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-4، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 353
  • 21  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 416
  • 22  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 290- 292
  • 23  أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-7، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 23
  • 24  ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 162
  • 25  ابو الفتح محمد بن محمدابن سید الناس اليعمري، عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 133-134
  • 26  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی، امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 213-216
  • 27  محمد الغزالي السقا، فقه السيرة، مطبوعة: دارالقلم، دمشق، السورية، 1427ه، ص: 288
  • 28  أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية لابن هشام، ج-2، مطبوعة: شركة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاهرة، مصر، 1955م، ص: 295

Powered by Netsol Online