Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

حسن و جمال مصطفیٰ ﷺ

Published on: 03-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 4، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 150-188)

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ پاک sym-1کو ان عظمت ورفعت اورفضائل وکمالات سے نوازا جو کسی کو عطا نہیں کیے گئے۔آپ sym-1کو حُسنِ کل بنایا اور آپ sym-1کے جسمِ اطہر کو بے مثال پیدا فرمایا۔ رسول اﷲ sym-1دیگر انبیاء ورسلsym-3کی طرح کسی ایک قبیلہ کی طرف اور وہ بھی محدود وقت کے لیے نبی بناکر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے تاقیام قیامت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ حضور sym-1کی ذات اقدس وہ آفتاب تھی جس کی روشنی ظاہر و باطن کو اپنے انوار سے منوّر کرنے والی تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ حضور نبی کریم sym-1کے باطنی محاسن کے ساتھ ساتھ آپ sym-1کے ظاہری وجسمانی محاسن بھی تمام انبیاء سابقین sym-3سے اعلیٰ وبرتر ہوں کیونکہ یہ مظاہرِ جسم باطن کی عظمت کے گواہ ہیں۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم sym-1کے ظاہر و باطن کو اتنی عظمتیں اور وسعتیں دیں کہ کوئی اس کی ہمسری کا گمان بھی نہ کرسکے۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب sym-1کو وہ حسن و جمال عطا فرمایا جس کی تعریف و توصیف سے زبان عاجز ہے۔مکمل وجودِ مصطفےٰ sym-1حسن و جمال کا ایسا مظہر ہےکہ اس حسنِ کُل کے سامنے حسنِ یوسفsym-3 ایک تابش کی مانندہےاور حضرت یوسف کا حسن آپ sym-1کے حسنِ باکمال کا ایک حصہ ہے۔ آفتاب وماہتاب آپ sym-1سے روشنی حاصل کرتے ہیں، کائنات کی چمک دمک اور ضیاپاشیاں آپ sym-1کی نورانیت کا صدقہ ہیں اور دنیا بھر کے حسین و جمیل حسن محمد sym-1کی ایک جھلک ہیں۔

آپﷺکے حسن وجمال کی ایک جھلک حسنِ یوسف sym-9

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیّدنا یوسف sym-9کو حضور اکرم sym-1کا نصف حسن عطا کیا ۔ اس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت انس sym-5سے مروی ہے اوراس کو نقل کرتے ہوئےامام شامی صالحیsym-4 لکھتے ہیں:

عن انس رضي الله عنه قال: مابعث للّٰه نبیا الاحسن الوجه حسن الصوت وكان نبیكم احسنھم وجھا وصوتا.1
حضرت انسsym-5 سے روایت ہے کہ آپ sym-1نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے جو نبی بھی مبعوث کیا اس کا چہرہ اور آواز خوبصورت تھی تمہارے نبی کریم sym-1چہرہ اور آواز کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین ہیں ۔

شمائل ترمذی میں حضرت قتادہ sym-5 کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

عن قتاده قال مابعث للّٰه نبیا الاحسن الوجه حسن الصوت وكان نبیكم صلى اللّٰه علیه وسلم حسن جالوجه حسن الصوت.2
حضرت قتادہsym-5 سے روایت ہے فرماتے ہیں: اﷲ تعالیٰ نے جو نبی بھی مبعوث کیا اس کا چہرہ اور آواز خوبصورت تھی اورتمہارے نبی کریم sym-1چہر ہ اور آواز کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین ہیں۔

اسی پر روشنی ڈالتے ہوئے امام ابو نعیم اصفہانی sym-4لکھتے ہیں:

فان قیل: فان یوسف موصوف بالجمال على جمیع الانبیاء والمرسلین بل على الخلق اجمین. قلنا: ان جمال محمد صلى اللّٰه علیه وسلم الذى وصفه به اصحابه لا غایة وراء ه اذ وصفوه بالشمس الطالعة او كالقمر لیلة البدر واحسن من القمر ووجھه كانه مذھبة یستنیر كاستنارة القمر وكان عرقه صلى اللّٰه علیه وسلم له رائحة كالمسك الاذفر.3
اگر کہا جائے کہ سب انبیاء کی نسبت حضرت یوسفsym-9 کے حسن و جمال کا چرچا چہاردانگِ عالم میں ہے بلکہ آپsym-9 کو تمام خلق خدا سے حسین تر کہا جاتا ہے۔تو ہم کہیں گے کہ نبی کریم sym-1کے حسن کی تعریف جیسے آپ sym-1کے صحابہ نے کی ہے اس کے بعد حسن کا کوئی دوسرا تصور ہی نہیں ہوسکتا ۔صحابہ کرام sym-7نے آپ sym-1کو چمکتا ہوا آفتاب اور چودہویں رات کا بدر کامل کہا ہے۔ صحابہ کرام sym-7کی زبان میں رخِ مصطفی sym-1کے بالمقابل چاند کا حسن بھی پھیکا تھا۔ بعض صحابہ sym-7کے مطابق آپ sym-1کا زریں چہرہ چمکتے ہوئے ماہتاب کی طرح ضوفشاں رہتا تھا اور آپ sym-1کے پسینہ کی خوشبو مہکتی مشک سے میل کھاتی تھی۔

اسی طرح محدث کبیر امام جلال الدین سیوطی sym-4 لکھتے ہیں:

قال ابو نعیم: اعطى یوسف من الحسن ما فاق به الانبیاء والمرسلین بل والخلق اجمعین ونبینا صلى اللّٰه علیه وسلم اوتى من الجمال مالم یوته احد ولم یوت یوسف الا شطر الحسن واوتى نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم جمیعه.4
حضرت ابو نعیم فرماتے ہیں : حضرت یوسفsym-9 کوتمام انبیاء ومرسلین بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ حسن وجمال دیاگیا تھے۔ مگر ہمارے نبی اوراﷲ کے حبیب sym-1کو وہ حسن وجمال عطا ہوا جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔حضرت یوسفsym-9 کو حسن وجمال کا ایک جز ملا تھا اور آپ sym-1کو حسنِ کُل دیا گیا۔

حسنِ مصطفیٰﷺاور انسانی بصارت کی محدودیت

رہی بات کہ چہار دانگِ عالم میں حسنِ یوسفsym-9 کا چرچہ کیسے ہےتو اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم sym-1کا حسن اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت ظاہر ہی نہیں ہواورنہ اسی حسن کامل کا ذکر ہر مخلوق کی زبان زدِ عام ہوتا۔اس حوالہ سے روشنی ڈالتے ہوئے امام عبد الملک بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری sym-4لکھتے ہیں:

قال ابو سعد رحمه للّٰه:لم یظھر لنا تمام حسنه صلى اللّٰه علیه وسلم لانه لو ظھر لما طاقت اعیننا رؤیته.5
امام ابو سعد نیشاپوری sym-4فرماتے ہیں :سرکارد و عالم sym-1 کا تمام حسن ہمارے لیے ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ اگر حضور نبی کریم sym-1اپنے تمام حسن کے ساتھ جلوہ فرما ہوتے تو ہماری آنکھیں ان کی دید کی طاقت نہ رکھتیں۔

اسی طرح امام زرقانی sym-4 لکھتے ہیں:

وقد حکى القرطبى فى كتاب الصلاة عن بعضھم انه قال: لم یظھرلنا تمام حسنه صلى اللّٰه علیه وسلم لانه لو ظھر لنا تمام حسنه لما اطاقت اعیننا رؤیته صلى اللّٰه علیه وسلم.6
امام قرطبیsym-4 کتاب الصلوٰۃ میں بعض علماء سے روایت کرتے ہیں فرمایا: سرکار دو عالم sym-1کا تمام حسن ہمارے لیے ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ اگر حضور نبی کریم sym-1اپنے تمام حسن کے ساتھ جلوہ فرما ہوتے تو ہماری آنکھیں ان کی دید کی طاقت نہ رکھتیں۔

اس لیے مولا کریم نے اپنی حکمت بالغہ سے اپنے محبوب sym-1کے حسن وجمال کو صرف اتنا ظاہر ہونے دیا جس کی لوگ تاب لاسکیں اور چشمہ فیض کے قریب پہنچ کر اپنی پیاس بجھا سکیں۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے محبوب sym-1کے حسن و جمال کی ساری اداؤں کا احاطہ کرلے تو یہ ممکن نہیں۔

چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلویsym-4فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد شاہ عبد الرحیمsym-4 کو خواب میں حضور نبی کریم sym-1کی زیارت نصیب ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ sym-1! زنان مصرنے حضرت یوسفsym-9 کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بعض لوگ انہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہوجاتے تھے لیکن کیا سبب ہے کہ آپ sym-1کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں؟ اس پر نبی کریم sym-1نے فرمایا میرے اﷲ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے اگر وہ کما حقہ آشکار ہوجاتا تو لوگوں پر محویت وبے خودی کا عالم اس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسفsym-9 کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا۔ 7

اسی طرح اس حوالہ سے امام محمد مہدی فاسیsym-4الشیخ ابو محمد عبد الجلیل القصری sym-4کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وحسن یوسف وغیرہ جزء من حسنه لانه على صورة اسمه ولولا ان للّٰه تبارك وتعالىٰ ستر جمال صورة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم بالھیبة والوقار واعمى عنه آخرین لما استطاع احد النظر الیه بھذه الابصار الدنیویة الضعیفة.8
حضرت یوسف sym-9 اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن وجمال حضور sym-1کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ sym-1کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کیے گئے ہیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی sym-1کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ sym-1کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ sym-1کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔

آپ sym-1سرتا قدم حسن مجسم تھے اوریہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ جسدِ اطہر کے کس حصہ کا صوری کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھورہا ہے ؟صحابہ کرام sym-7آپ sym-1کے سراپائے حسن کو دیکھ کر بےخود اور مبہوت ہوکر رہ جاتے اور آپ sym-1کے حسن سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذات مصطفوی sym-1کا حسن سرمدی اظہار وبیان سے ماورا تھا اور اہل عرب زبان وبیان کی فصاحت وبلاغت کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود بھی اسے کما حقہ بیان کرنے سے عاجز تھے۔

حسن مصطفیٰ ﷺکا بے مثل وبے مثال ہونا

حضرت علی بن ابی طالبsym-5 جیسی شخصیت کاآپ sym-1کے حسن ِسراپا کے بارے میں فرمان مبارک جو حضور sym-1کی تعریف کرتے کرتے آخر میں اعترافِ عجز کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لم ارقبله ولا بعده مثله.9
ان جیسا حسین و جمیل نہ کبھی پہلےدیکھانہ بعدمیں۔

یعنی کہ آپ sym-1کےحسن بے مثال کا یہ عالم تھا کہ زبان کو عالم حیرت میں یہ کہنا پڑا کہ ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعد۔

حضرت علیsym-5 یمن تشریف لائے تو بیت المقدس کے ایک یہودی عالم نے حضور sym-1کے حلیہ مبارک کے بارے میں آپ سے سوال کیا ۔جب آپ sym-5نےتعریف کرتے ہوئے آخر میں اعتراف عجز کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعدتو اس یہودی عالم نے کہا:

یاعلى انى اصبت فى التوراة ھذه الصفة وقد ایقنت ان لا اله الا للّٰه وان محمدا رسول اللّٰه.10
اے علی! میں نے تورات میں بھی آخری نبی کی یہی نشانیاں پڑھی ہیں اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ بلا شبہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور (سیّدنا)محمد sym-1اللہ کے رسول ہیں۔

اسی طرح رسول اکرم sym-1کے حسنِ کامل کو بیان کرنے سے انسان کے عجز کو تحریر کرتے ہوئے حضرت ملا علی قاریsym-4 رقمطراز ہیں:

(یقول ناعته) اى: واصفه اجمالا عجزا عن بیان جماله وكماله تفصیلا لم ارقبله ولا بعده مثله علیه الصلوٰة والسلام اذ لیس فى الناس من یماثله فى جمال ولا فى الخلق من یشابھه على وجه الكمال.11
حضور sym-1کی تعریف کرنے والا حضور sym-1کے جمال اور کمال کے تفصیلی بیان سے عاجز آکر اجمالاً یوں کہتا ہے کہ میں نے حضور sym-1جیسا نہ حضور sym-1سے قبل دیکھا نہ حضور sym-1کے بعد۔اس لیے کہ تمام لوگوں میں ایسا کوئی نہیں جو جمال میں حضور sym-1کے مماثل ہو اور نہ مخلوق میں ایسا ہے جو علیٰ وجہ الکمال حضور sym-1سے مشابہ ہو۔

نیز حضرت ملا علی قاری sym-4اس فرمان مبارک ’’لم ارقبلہ ولا بعدہ مثلہ ‘‘12کے تحت اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

اى مماثلا ومساویا له فى جمیع مراتب الكمال خلقا فى الاحوال وھذا فذلكة شاھدة لعجزه عن مراتب وصفه ومناقب نعتة.13
یعنی کوئی ایسا نہیں جو تمام مراتب کمال اور خلقا (وخلقا)تمام احوال میں حضور sym-1کے مماثل اور برابر ہو۔ اور یہ ایسا خلاصہ ہے جو حضور sym-1کے مراتب وصف اور مناقب نعت سے عاجزی پہ شاہد ہے ۔

آپ sym-4ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

فھذه فذلكة مشتملة على اظھار العجز عن غایة وصفه ونھایه نعته.14
یعنی کوئی ایسا نہیں جو تمام مراتب کمال اور خلقا (وخلقا)تمام احوال میں حضور sym-1کے مماثل اور برابر ہو۔ اور یہ ایسا خلاصہ ہے جو حضور sym-1کے مراتب وصف اور مناقب نعت سے عاجزی پہ شاہد ہے ۔

حضرت خالد بن ولید sym-5جیسے جلیل القدر صحابی رسول sym-1جن کوامت نبى sym-1‘‘سیف اللّٰه’’ کے لقب سے پکارتی ہے وہ بھی اسی عجز کو بیان کرتے ہیں۔چنانچہ روایت میں ہے کہ کسی سائل کے جواب میں آپ sym-5فرماتے ہیں:

فقال له سید ذلك الحه صف لنا محمداصلى اللّٰه علیه وسلم فقال: اما انى افصل فلا لعجزى عن التفیل لان صفاته لا یمكن الاحاطة بھا.15
قبیلہ کے سردار نے حضرت خالد بن ولید sym-5سے پوچھا کہ ہمیں حضرت محمد رسول اﷲ sym-1کی تعریف سنائیں تو حضرت خالد sym-5 نے فرمایا کہ میں حضور sym-1کی تعریف مفصل طور سے بیان کروں؟ایسا تو نہیں ہو سکتا اس لیے کہ میں تفصیل بیان کرنے سے عاجز ہوں۔کیونکہ حضور sym-5کے (حسن وجمال وکمالات و) صفات کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔

سیف اللہ حضرت خالد بن ولید sym-5کے اس قول سے ظاہر ہوا کہ آپ کی نظر میں اوصاف سیدِ دو عالم کا احاطہ و حصر ممکن نہیں۔ حضور sym-1کے لیے ہر کمال ثابت ہے بلکہ ہر کمالِ متصورہ سے فزوں ہے۔ جب سیف اﷲ جیسی شخصیت توصیف ِسیدِدو عالم sym-1سے کما حقہ عاجز ہے تو آج کا بندہ اس حسن وجمال کو کیسے بیان کرسکتا ہے؟

جمالِ محمدی ﷺکا دلیل نبوت ہے

قرآن نے آیت نور میں اس بات کو بڑے ہی حسین پیرائے میں بیان کیا ہے کہ اگر آپ sym-1اعلان نبوت نہ بھی کرتے تو آپ sym-1کی زیارت سے مشرف ہونے والے لوگ آپ sym-1کے حسن و جمال اور محاسن وکمالات کو دیکھ کر از خود محسوس کرلیتے کہ آپ sym-1اﷲ کے نبی ہیں۔چنانچہ اس رمزِ خلقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

یكادُ زَیتُھا یضِىءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْه نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ یھدِى اللّٰه لِنُورِه مَن یشَاءُ.16
قریب ہے اس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور علی نور ہے اﷲ تعالیٰ اپنے نور کے لیے جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔

اس آیت کریمہ کے تحت امام شامی صالحیsym-4 نفطویہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

وقال نفطویه رحمه للّٰه تعالىٰ فى قوله تعالىٰ یكادُ زَیْتُھا یضِىءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْه نَارٌ ھذا مثل ضربه للّٰه تعالىٰ لنبیه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول: یكاد نظره یدل على نبوته وان لم یتل قرآنا كما قال ابن رواحة.17
نفطویہsym-4نے رب تعالیٰ کے اس فرمان "قریب ہے اس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے"کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ضرب المثل رب تعالیٰ نے اپنے نبی کریم sym-1کے لیے بیان کی ہے یعنی آپ sym-1کی نگاہ ناز ہی آپ sym-1کی نبوت پر دلالت کرتی تھی اگرچہ آپ sym-1قرآن پاک کی تلاوت نہ بھی کریں جیسا کہ ابن رواحہsym-5 کا کہناہے۔

مذکورہ بالا عبارت میں مصنف نے صحابی ِ رسول sym-1حضرت عبداﷲ بن رواحہ sym-5کے اس شعر کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں آپ sym-5نے اسی بات کو اپنے منفرد انداز میں بیان فرمایا ہے۔چنانچہ ان اشعار کو نقل کرتے ہو ئے اما صالحی تحریر فرماتے ہیں:

لو لم تکن فیه آیات مبینة
كانت بداھة نبیک بالخبر.18
اگر آپ sym-1کے پاس واضح معجزات نہ بھی ہوتے پھر بھی آپ sym-1کا سراپا آپ sym-1کے بارے میں سچی خبر بتادیتا۔

اسی طرح حضرت علامہ آلوسی sym-4اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

یكادزیت استعدادہ صلوات للّٰه تعالىٰ وسلامه علیه لصفاه وزكاه یضى ولولم یمسه نور القرآن. روى البغوى عن محمد بن كعب القرظى تكاد محاسن محمد صلى اللّٰه علیه وسلم تظھر للناس قبل ان یوحى الیه.19
اگر نورِقرآن آپ sym-1کو مس نہ بھی کرتا تب بھی آپ sym-1اپنی پاکیزگی اور کمالِ حسن کی وجہ سے جگمگا اٹھتے۔ امام بغوی sym-4نے امام محمد بن کعب قرظی sym-4کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ آپ sym-1کے محاسن وکمالات نزول وحی سے قبل بھی لوگوں پر واضح و ظاہر تھے۔

اسی حوالہ سے روشنی ڈالتے ہوئے قاضی ثناء اﷲ پانی پتی sym-4لکھتے ہیں :

سیّدنا ابن عباسsym-8 نے حضرت کعب الاحبار sym-4سے کہا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے فرمایا:

ھذا مثل ضربه للّٰه لنبیه صلى اللّٰه علیه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیھا النبوة یكاد نور محمد صلى اللّٰه علیه وسلم وامرہ یتبین للناس ولو لم یتكلم انه نبى كما كان یكاد ذلك الزیت.20
یہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی sym-1کی مثال بیان کی ہے "مشکوٰۃ "سے آپ sym-1کا سینہ اقدس، "زجاجہ " سے قلب انور اور اس میں "مصباح "سے مراد نور نبوت ہے۔ یعنی اگر آپ ﷺاپنے منہ سے اعلان نبوت نہ بھی کرتے تب بھی آپ sym-1کے انوار و کمالات سے آپ sym-1کی نبوت واضح ہوجاتی۔

مشرف بن فارضsym-4 نے رسول اکرم sym-1کے حسن وجمال کو بیان کرنے سے عجز کو اپنے اشعار میں بہت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ان کے اشعار نقل کرتے ہوئے امام صالحی لکھتے ہیں:

و علی تفنن واصفیه بحسنه
یفنی الزمان وفیه ما لم یوصف.21
آپ sym-1کے سراپا کو بیان کرنے والے گونا گوں افراد کا زمانہ ختم ہوگیا ہے مگر آپ sym-1کا ایک وصف بھی(کماحقہ ) بیان نہیں ہوسکا۔

اسی حوالہ سے اشعار کہتے ہوئے عاشقِ رسول امام بوصیری sym-4 فرماتے ہیں:

فھو الذي تم معناہ وصورته
ثم اصطفاہ حبیبا بارئ النسم
منزہ عن شریک فی محاسنه
فجوھر الحسن فیه غیر منقسم
أعيا الورى فهم معناه فليس يرى
في القرب والبعد فيه غير منفحم
کالشمس تظھر للعینین من بعد
صغیرۃ وتکل الطرف من امم.22

آپ sym-1وہ ذات بابرکات ہیں جس کی صورت اور سیرت مکمل ہوگئی تو خالق کائنات نے آپ sym-1کو اپنا حبیب منتخب کرلیا۔آپ sym-1اس امر سے بالاتر ہیں کہ آپ sym-1کے اوصاف میں کوئی شریک ہوسکے آپ sym-1کا جو ہر ِحسن تقسیم نہیں ہوسکتا۔آپ sym-1کے کمالات کے سمجھنے سے قوم کو عاجز کردیا گیا ہے خواہ کوئی آپ sym-1کے قریب ہے یا بعید وہ آپ sym-1کے کمالات بیان کرنے سے عاجز ہی ہے۔ آپ sym-1کی مثال سورج کی سی ہے جو دور سے آنکھوں کو چھوٹا دکھائی دیتا ہے اور وہ نزدیک سے آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔

اسی طرح علی بن ابی وفا sym-4نے آپ sym-1کے حسن وجمال میں کتنے خوبصورت اشعار کہے ہیں:

كم فيه للأبصار حسن مدهش
كم فيه للأرواح راح مسكر
سبحان من أنشاه من سبحاته
بشرا بأسرار الغيوب يبشر
فخر الملاح بحسنهم وجمالهم
وبحسنه كل المحاسن تفخر
فجماله مجلى لكل جميلة
وله منار كل وجه نير
إنما مثلوا صفاتك للناس
كما مثل النجوم الماء.23

آپ sym-1میں کتنا ہی حسن ہے جو دیکھنے والے کو مدہوش کردیتا ہے آپ sym-1کے حسن میں ارواح کے لیے کتنی ہی لذت اندوز راحت ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی قدرت سے ایک کامل بشر پیدا کیا جو غیب کے اسرار کی بشارت دیتے ہیں۔حسین لوگ اپنے حسن وجمال پر فخر کرتے ہیں جبکہ ہر ہر محاسن آپ sym-1کے حسن پر فخر کرتا ہے۔

آپ sym-1کا جمال ہر خوبصورتی کی جلوہ گاہ ہے ہر اعتبار سے آپ sym-1کی ہرجانب ایک روشن مینار ہے۔ انہوں نے صفات میں حضور sym-1کی جلوہ گری کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اس طرح ہے جس طرح پانی میں ستاروں کا عکس ہے جو ستاروں کی حقیقت کو ظاہر کرنے سے عاجز ہے۔

حضور سرورِکونین sym-1کی ذات ِ قدسیہ حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ sym-1ہی کے دم قدم سے ہیں۔اس بزم ہستی میں آپ sym-1ہی کی وہ شخصیت ہے جس میں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کے تمام کمالات ومحامد بدرجۂ اتم سمودیے گئے ہیں۔حسن وجمال کے سب نقش ونگار آپ sym-1کی صورت اقدس میں بدرجہ اتم اس خوبی سے جمع کردیے گئے ہیں کہ ازل تا ابد اس خاکدان ہستی میں ایسی مثال ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ عالم انسانیت میں سرورِ کائنات فخر موجودات نبی اکرم sym-1بحیثیت عبد کامل ظاہری وباطنی حسن وجمال کے اس مرتبہ کمال پر فائز ہیں جہاں سے ہر حسین کو حسن کی اور ہر جمیل کو جمال کی خیرات نصیب ہورہی ہے۔

یہ پیکرِحسن وجمال دھوکہ نہیں دے سکتا

حضرت طارق بن عبداﷲ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہمارا قافلہ مدینہ طیبہ کے باہر آرام کے لیے رکا۔ اتنے میں حضور نبی کریم sym-1وہاں تشریف لے آئے اوراس وقت ہم آپ sym-1سے شناسا نہ تھے۔ ہمارے پاس سرخ رنگ کا اونٹ تھا جو حضور نبی کریم sym-1کو پسند آگیا ۔آپ sym-1نے اونٹ کے مالک سے اسے خریدنے کا اظہار فرمایا اوربالاخر سودا طے ہوگیا۔ چونکہ اس وقت آپ sym-1کے پاس اس کی قیمت نہیں تھی توآپ sym-1نے قیمت بھجوانے کا وعدہ فرمایا اور اونٹ لے کر چل دیے ۔جب آپ sym-1روانہ ہوچکے تو اہل قافلہ میں چہ میگویاں ہونے لگیں کہ کسی نے اس شخص کا نام تک نہیں پوچھا مبادا یہ شخص وعدہ پورا نہ کرے۔ لوگ اس قسم کی قیاس آرائیاں کر ہی رہے تھے کہ قافلہ سالار کی بیوی اہلِ قافلہ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی:

وللّٰه لقد رایت رجلا كان وجھه شقة القمر لیلة البدر انا ضامنة لثمن جملكم اذ أقبل رجل فقال:انا رسول رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الیكم ھذا تمركم فكلوا واشبعوا واكتالوا واستوفوا فاكلنا حتى شبعنا واكتلنا واستوفینا.24
اﷲ کی قسم میں نے اس شخص کی زیارت کی ہے اس کا چہرہ چودہویں کے چاند سے بڑھ کر خوبصورت ہے ایسا شخص کبھی دھوکہ نہیں کرسکتا اور میں آپ sym-1کی رقم کی ضامن ہوں۔جب شام کا وقت ہوا تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں رسول اللہ sym-1کا قاصد ہوں ۔یہ کھجوریں بھی خوب پیٹ بھر کر کھالو اور اپنی قیمت بھی پوری کرلو ۔ہم نے خوب پیٹ بھر کرکھایا بھی اور اپنی قیمت بھی پوری کی۔

اسی حوالہ سے امام شامی صالحی sym-4لکھتے ہیں

وقال طارق بن عبید:اقبلنا ومعنا ظعینة حتى نزلنا قرییا من المدینة فاتانا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: الظعینة مارایت وجھا اشبه بالقمر لیلة البدر من وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم .25
حضرت طارق بن عبیدsym-5 نے فرمایا: ہم عازم سفر ہوئے ہمارے ہمراہ ہودج میں ایک عورت بھی تھی حتیٰ کہ ہم مدینہ طیبہ کے قریب اترے۔ حضور نبی کریم sym-1ہمارے پاس تشریف لائے اس عورت نے کہا میں نے کسی کا چہرہ نہیں دیکھا جو چودہویں کے چاند سے ملتا جلتا ہو مگر آپ sym-1کا چہرہ سب سے زیادہ ماہِ کامل سے ملتا تھا۔

جلوہ حسنِ مصطفیٰ ﷺ

ربِّ کریم نے آپ sym-1کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اس کا ظہور کامل ہوجاتا تو انسانی آنکھ اس کے جلووں کی تاب نہ لاسکتی جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا۔لیکن بشری طاقت کے مطابق صحابہ کرام sym-7 نے آپ sym-1کے کمال ِحسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔چنانچہ امام بخاری sym-4 روایت کرتے ہیں کہ حضرت براء sym-5 بیان کرتے ہیں :

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعا وقد رأیته فى حلة حمراء مارأیت شیئا أحسن منه.26
حضور sym-1کا قد مبارک متوسط تھا میں نے آپ sym-1کو سرخ رنگ کے حلہ یعنی دوچادروں میں لپٹا ہوا دیکھا میں نے آپ sym-1سے زیادہ کسی چیز کو حسین نہیں دیکھا۔

نیز امام بخاری sym-4حضرت براء sym-4سے ہی ایک دوسری روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت براء sym-5نے فرمایا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا.27
رسول اﷲ sym-1کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔

اسی طرح امام ترمذی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن جابر بن سمرة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فلھو عندى احسن من القمر.28
حضرت جابر بن سمرہ sym-5 فرماتے ہیں: میں نے حضور sym-1کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں (کبھی) آپ sym-1کی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف تو آپ sym-1میرے نزدیک چاند سے یقیناًزیادہ حسین تھے۔

جمال روئے مصطفی ﷺاور چاند

روایت میں منقول ہے کہ حضرت براء بن عازب sym-5 سے کسی شخص نے نبی اکرم sym-1 کے حسنِ بے مثال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ کا جواب یوں تھا:

اكان وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مثل السیف؟فقال لا بل مثل القمر.29
کیا رسول اﷲ sym-1کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟تو انہوں نے جواباکہا:‘‘نہیں ’’ بلکہ مثل ماہتاب تھا۔

یہ تشبیہات سب تقریبی ہیں ورنہ ایک چاند کیا ہزار چاند میں بھی حضور اقدس sym-1جیسا نور نہیں ہوسکتا۔اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی شافعی sym-4 لکھتے ہیں:

سائل کا مقصد یہ تھا کہ کیا رسول اﷲ sym-1کا چہرہ تلوار کی طرح لمبوترا تھا؟حضرت البراء sym-5نے جواب دیا: وہ چاند کی طرح گول تھا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ سائل کا مقصد یہ تھا کہ کیا آپ ﷺکا چہرہ تلوار کی طرح روشن اور چمک دار تھا؟ توحضرت البراء sym-5نے جواب دیا:نہیں! وہ تلوار سے بڑھ کر روشن اور چمک دار اور چاند کی طرح تھا۔30

اسی طرح حدیثِ مذکور کی شرح کرتے ہوئے علامہ محمد فضیل بن فاطمی مغربی مالکی sym-4لکھتے ہیں:

حضرت البراء sym-5نے آپ sym-1کے چہرہ کو چاند سے تشبیہ دی سورج سے نہیں دی کیونکہ انہوں نے چاند سے تشبیہ دے کر آپ sym-1کے چہرہ کی ملاحت کا ارادہ کیا تھا ۔جبکہ سورج کے ساتھ تشبیہ سے اشراق اور چمک کا ارادہ کیا جاتا ہے۔دوسرے صحابہ نے آپ sym-1کے چہرہ کو سورج کے ساتھ بھی تشبیہ دی ہے اور ان تشبیہات سے مقصود یہ ہے کہ سب سے حسین چیز کے ساتھ آپ sym-1کے چہر ہ کو تشبیہ دی جائے ورنہ چاند یا سورج، سب آپ sym-1کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور سب آپ sym-1کے نور سے روشن ہیں۔سو یہ تمام چیزیں فروع ہیں اور اصل آپ sym-1کا نور ہے۔ 31

اسی طرح امام یوسف نبہانی sym-4رسول اکرم sym-1کے چہرہ اقدس کو چاند سے تشبیہ دینے کی وجوہات کو تحریرکرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ اکثر حضرات نے قمر سے تشبیہ دی ہے کیونکہ قمر کو مکمل طور پر دیکھا اور مانوس ہواجاتا ہے،دیکھنے سے ایذأ نہیں ہوتی بخلاف شمس کے۔ اسی لیے آپ sym-1کے اسماء گرامی میں سے ایک قمر ہے یہی وجہ ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ نے آپ sym-1کا استقبال کرتے ہوئے یوں کہا:

طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للہ داعی.32
ہم پر چودھویں کا چاند ثنیات الوداع پہاڑی سے طلوع ہواہے تو ہم پراللہ کا شکر لازم ہے۔ جو اﷲ کی طرف بلانے والے ہیں۔

عربی زبان میں جمالِ مصطفیﷺکی تشبیہات

یہ تمام تشبیہات عرب کے رسم ورواج کے مطابق دی گئیں ہیں ورنہ کوئی چیز آپ sym-1کے صفات خلقیہ و خُلقیہ میں سے کسی کے عشر عشیر کے برابر کبھی نہیں ہوسکتی۔چنانچہ امام قسطلانی sym-4 فرماتے ہیں:

ھذه التشبیھات الواردة فى حقه علیه الصلوٰة والسلام انما ھى على سبیل التقریب والتمثیل والا فذاته اعلىٰ.33
اسلاف نے آقا sym-1کے اوصاف کا جو تذکرہ کیا ہے یہ بطور تمثیل ہے ورنہ آقا sym-1کی ذات اقدس اور مقام اس سے بہت بلند ہے۔

حضرت حسن مجتبیٰ sym-5نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ sym-5سے عرض کی کہ حضور نبی کریم sym-1کا حلیہ مبارک مجھے بتائیے آپ نے جواب دیا۔

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما یتلالاوجھه تلالو القمر لیلة البدر...الخ.34
حضور sym-1لوگوں کی نگاہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان دکھائی دیتے تھے حضور sym-1کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔

اسی طرح اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہsym-6 بیان کرتی ہیں :

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دخل علیھا مسرورا تبرق اساریر وجھه فقال الم تسمعى ما قال المدلجى لزید واسامة وراى اقدامھما ان بعض ھذه الاقدام من بعض.35
رسول اﷲ sym-1ان کے پاس خوش خوش تشریف لائے آپ sym-1 کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا تو آپ sym-1نے فرمایا کیاتم نے نہیں سنا کہ مدلجی نے زید اور اسامہ sym-8کے متعلق کیا کہا ہے؟ اس نے ان دونوں کے قدم دیکھ کر کہاکہ یہ بعض قدم بعض قدموں کا جز ہیں۔

اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ sym-6 سے منقول روایت تحریر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر رقمطراز ہیں:

عن عائشة قالت كنت قاعدة اغزل وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخصف نعله قالت فنظرت الیه فجعل جبینه یعرق وجعل عرقه یتولد نورا قالت فبھت قالت فنظر الى فقال ما لك یا عائشة؟ قالت فقلت: یا رسول! نظرت الیك فجعل جبینك یعرق وجعل عرقك یتولد نورا ولو راك ابو كبیر الھذلى لعلم انك احق بشعره قال وما یقول ابوكبیر؟ فقلت یقول:
ومبرا من كل غبر حیضة
وفساد مرضعة وداء مغیل
واذا نظرت الی اسرة وجھه
برقت كبرق العارض المتھلل.36

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6 بیان کرتی ہیں کہ میں چرخا کات رہی تھی اور حضور نبی کریم sym-1میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے۔آپ sym-1کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کو چرخا کاتنے سے روک دیا۔پس میں آپ sym-1کو دیکھ رہی تھی کہ آپ sym-1نے فرمایا تجھے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا آپ sym-1کی پیشانی مبارک پہ پسینے کے قطرے ہیں جو نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ sym-1کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ sym-1ہی ہیں۔ حضور sym-1نےفرمایا:وہ کیا شعر کہتاہے؟میں نےکہا:وہ کہتا ہے: وہ ہرناپاک خون اور موذی دودھ پلانےوالی دایہ سے محفوظ ہے۔جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کی پیشانی کی لکیریں ایسےچمکتی ہیں جیسےآسمان پربجلی کی لکیریں چمکتی ہیں۔

آپ ﷺکاحسن مثلِ آئینہ

رسول اکرم sym-1کا حسن ایک آئینہ کی مثل تھاجس میں آپ sym-1کا سرور وغم واضح جھلکتا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابو نعیم اصفہانی sym-4 ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6 کی روایت میں لکھتے ہیں:

وكان صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا وانورھم لونا لم یصفه واصف قط بمعنى صفته الا شبه وجھه بالقمر لیلة البدر یقول: ھو احسن فى اعین الناس من القمر یعرف رضاه وغضبه فى سرار وجھه كان صلى اللّٰه علیه وسلم اذا رضى او سر فكان وجھه المرآة واذا غضب تلون وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واحمرت عیناه.37
آپ sym-1کا رخ انور سب سے حسین تر اور رنگ سب سے روشن ترتھا۔ جب بھی کسی نے آپ sym-1کا حلیہ بیان کرنا چاہا تو آپ sym-1کو چودھویں رات کے ماہ کامل سے تشبیہ دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ بلکہ اسے یہ کہنا پڑتا کہ آپ sym-1تو چاند سے بھی زیادہ حسین ہیں۔آپ sym-1کی خوشی اور غصہ آپ sym-1کے چہرہ کے خطوط سے واضح ہوجاتا جب آپ sym-1خوشی اور مسرت میں ہوتے تو چہرہ آئینے کی مانند روشن ہوجاتا اور حالت غضب میں چہرے کا رنگ بدل جاتا اور آنکھیں سرخ ہوجاتیں ۔

آپ sym-1کی حالت مسرت وانبساط کا نقشہ سیّدنا ابوبکر صدیق sym-5 نے یوں کھینچا ہے:

امین مصطفی للخیر یدعوا
كضوء البدر زایله الظلام
لو كنت من شئ سوى بشر
كنت المنور لیلة البدر.38

وہ برگزیدہ امین جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے۔ اور چہرہ انور کی تابانی ایسے ہے جیسے اندھیرے میں بدر کامل ضوفشاں ہو۔ اگر آپ sym-1آدمی نہ ہوتے تو چودھویں رات کے ماہ تاباں ہوتے۔

تو لوگ جناب صدیق اکبر sym-5 کی تصدیق کرتے اور کہتے کہ ہاں آپ sym-1ایسے ہی ہیں۔اور حضرت عمر فاروق sym-5 آپ sym-1کا چہرہ دیکھ کر زہیر بن ابی سلمیٰ کا شعر زبان پر لے آتےتو سننے والے پکار اٹھتے کہ ہاں آپ sym-1ایسے ہی ہیں۔

آپ sym-1کی پھوپھی عاتکہ بنت عبد المطلب نے بھی آپ sym-1کے ہجرت کرجانے کے بعد آپ sym-1کے فراق میں یوں کہا تھا:

عینی جودا بالدموعاالسواجم
علی المصطفیٰ كالبدر من ال ھاشم
علی المرتضیٰ للبر والعدل والتقی
وللدین والدنیا مقیم المعالم.39

میری آنکھو! چھم چھم آنسو بہاؤ۔ اس برگزیدہ ہستی پر جو آل ہاشم میں ایسے ہے جیسے رات میں بدر کامل ہو۔اس پر جو اپنے حسن کردار اور عدل و تقویٰ کے سبب پسندیدہ تر اور دینی و دنیوی علوم کا مخزن ہے۔

محدث امام ابو عبداﷲ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی sym-4 نے اس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6 فرماتی ہیں :

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا وانورھم لونا لم یصفه واصف قط الا شبه وجھه بالقمر لیلة البدر وكان عرقه فى وجھه مثل اللؤلؤ اطیب من المسک الاذفر.40
رسول اﷲ sym-1تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور خوش رنگ تھے جس کسی نے بھی آپ sym-1کی توصیف کی اس نے آپ sym-1کو چودہویں کے چاند سے تشبیہ دی۔ چہرہ مبارک میں موتی کی مانند آپ sym-1پسینہ اطہر کے قطرات چمکتے نظر آتے تھے جو ازفر اور مشک سے بھی عمدہ قسم کی خوشبو سے مزین ہوتے۔

اسی طرح سیّدنا کعب بن مالک sym-5 فرماتے ہیں:

وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا سر استنار وجھه حتى كانه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه.41
جب حبیب مکرم sym-1کسی بات پر خوش ہوتے تو آپ sym-1کا چہرہ انور چمک اٹھتا گویا کہ آپ sym-1کا چہرہ انور چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم لوگ دیکھ کر پہچان جاتے تھے۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام بیہقی sym-4 لکھتے ہیں:

وكان احسن الناس وجھا وانورھم لونا لم یصفه واصف قط بلغتنا صفته الا شبه وجھه بالقمر لیلة البدر ولقد كان یقول من كان یقول منھم. لربما نظرنا الى القمر لیلة البدر فنقول ھو احسن فى اعیننا من القمر ازھر اللون نیر الوجه بتلالا تلالو القمر. یعرف رضاه وغضبه فى سروره بوجھه كان اذا رضى او سرفكان وجھه المرآة وكانما الجدر تلاحك وجھه واذا غضب تلون وجھه واحمرت عیناه.42
آپ sym-1سب لوگوں سے حسین ترین چہرے والے تھے اوررنگ کے اعتبار سے سب سے زیادہ روشن۔ آپ sym-1کی صفت جس طرح ہم تک پہنچی ہےتو کسی وصف بیان کرنے والے نےاس طرح بیان نہیں کی مگر ان سب نے آپ sym-1کو چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔تحقیق ان میں سے جو بھی کہتا تو یہ کہتا کہ ہم بسا اوقات موازنہ کرنے کے لیے کبھی چاند کو دیکھتے تو کہتے کہ حضور sym-1ہماری نظروں میں چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں۔آپ sym-1پھولوں جیسے چہرے والے تھے اورچہرہ ایسے چمکتا تھا جیسے چودہویں کا چاند چمکتا ہے۔آپ sym-1کی خوشی اور ناراضگی آپ sym-1کے چہرے سے عیاں ہوجاتی تھی۔ جب آپ sym-1خوش ہوتے اور راضی ہوتے تو آپ sym-1کا چہرہ ایسے لگتا جیسے آئینہ ہے گویا کہ آپ sym-1کے چہرے میں دیواریں نظرآتیں۔ جب آپ sym-1غضب ناک ہوتے تو آپ sym-1کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور آپ sym-1کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں۔

اسی مذکورہ پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے امام زرقانی حاشیہ زرقانی علی المواہب میں نہایہ ابن اثیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

انه علیه الصلوٰة والسلام كان اذا سر فكان وجھه المرآة التى ترى فیھا صور الاشیاء وكان الجدر تلاحك وجھه اى یرى الجدر فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم .43
جب حضور sym-1مسرور و خوش ہوتے تو آپ sym-1کا چہرہ مثل آئینے کے ہوجاتا کہ اس میں اشیاء کا عکس نظر آتا اور دیواریں آپ sym-1کے چہرہ میں نظر آجاتیں۔

حسنِ مصطفیﷺاورحضرت اُم معبد sym-6

سیرت کی کتابوں میں حضرت اُم معبد عاتکہ بن خالد sym-6سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں حضرت ام معبدsym-6 نے رسول اکرم sym-1کے حلیہ اقدس کوبیان کیا ہے۔جس سے حسن و جمالِ مصطفیٰ sym-1بھی واشگاف ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس روایت میں حضرت اُم معبدsym-6 بیان کرتی ہیں :

رسول اﷲ sym-1جس وقت مکّے سے نکالے گئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ان میں حضور نبی کریم sym-1، حضرت ابوبکر ،ان کے غلام عامر بن فہیرہsym-5 اور ان کو راستہ بتانے والے حضرت عبداﷲ بن اریقط لیثیsym-5 تھے۔ یہ لوگ قبیلہ بنو خزاعة کی ایک بوڑھی خاتون اُم معبد خزاعیہ کے خیموں کے پاس سے گزرے تو یہ خاتون اپنے خیمے کے صحن میں بیٹھی تھی۔ قبائلی دستور کےمطابق اس خاتون سے کھانے کے لیے گوشت یا کھجور مانگا گیا تاکہ اس بوڑھی اماں سے یہ چیزیں خرید لیں ۔مگر ان حضرات کواس کے پاس کوئی بھی چیز نہیں ملی اور ان کے پاس زادِ سفر بھی ختم ہوچکا تھا جس کی وجہ سے یہ حضرات قحط اور بھوک کی کیفیت میں تھے۔
اُم معبد نے کہا، اﷲ کی قسم اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہوتی تو ہم تمہیں اس کو ذبح کرنے سے بھی نہ روکتے۔ رسول اﷲ sym-1کی نظر اتنے میں خیمے کے کونے میں ایک بکری پر پڑی۔آپ sym-1نے پوچھا کہ یہ بکری کیسی ہے اے اُم معبد؟ اس نے بتایا کہ یہ ایسی کمزور بکری ہے جو بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک چل کر نہیں جاسکتی اس لیے یہ خیمے میں باندھ رکھی ہے۔ حضور sym-1نے پوچھا کیا اس بکری کے پاس دودھ ہے؟ اس نے بتایا کہ نہیں یہ دودھ دینے سے معذور ہے۔ حضور sym-1نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اس کا دودھ دوہنے کی اجازت دیں گی؟ وہ بولی کہ میرے ماں باپ آپ sym-1پر قربان اگر آپ sym-1کو اس کے پاس دودھ نظر آئے تو ضرور دوہ لیں۔
چنانچہ اجازت ملنے کے بعد حضور sym-1نے اس بکری کو اپنے پاس منگواکر اس کی دودھ دانی پر ہاتھ پھیرا، اﷲ تعالیٰ کا نام لیا، اُم معبد کی بکری کے لیے اور اُم معبد کے لیے دعا فرمائی تو بکری نے دودھ دینے کے لیے اپنی ٹانگیں کھول دیں اتنے میں اس کے تھنوں سے دودھ بہنے لگا توآپ sym-1نے دودھ دوہنا شروع کردیا ۔حضور sym-1نے دودھ کے لیے برتن منگوایا جو تین سے دس آدمیوں کے لیے کافی ہوسکتا تھا ۔حضور نبی کریم sym-1نے خود اپنے ہاتھ سے ان میں دودھ نکالا یہاں تک کہ وہ اوپر تک بھر گیا۔ اس کے بعد حضور نبی کریم sym-1نے پہلے اُم معبد کو دودھ پینے کو دیا اور وہ پی کر خوب سیر ہوگئیں۔ پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا انہوں نے بھی شکم سیر ہوکر پیا پھر رسول اﷲ sym-1نے خود پیا اور سب خوش ہوگئے۔ اس کے بعد دوبارہ آپ sym-1نے بکری کا دودھ نکالا اور اس کے برتن بھردئیے اور اس دودھ کو اُم معبد کے پاس رہنے دیا اور اس دودھ کی قیمت بھی اسکو ادا کردی اور اس سے کوچ کرگئے۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اُم معبد کا شوہر دوسری بکری لائے پہنچ گیا جو کہ بھوکی اور کمزور تھی اور اس وجہ سے آہستہ چل رہی تھی۔
ابو معبد نے جب اتنی فراوانی سے گھر میں دودھ دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا کہ اےاُم معبد یہ اتنا دودھ کہاں سے آیا؟ بکریاں تو دور چراگاہ میں تھیں اور جبکہ گھر میں کوئی دودھ والا جانور بھی نہیں ہے؟ اُم معبد نے بتایا کہ نہیں، بات یہ نہیں ہے اور فرمایا :

فقالت لا وللّٰه الا انه مر بنا رجل مبارك من حاله كذا وكذا قال صفیه لى یا ام معبد قالت رایت رجلا ظاھر الوضاء ةابلج الوجه حسن الخلق لم تعبه نحلة ولم تزر به صعلة وسیم قسیم. وقال محمد بن موسىٰ وسیما قسیما. فى عینه دعج وفى اشفاره غطف وفى صوته صھل وفى عنقه سطع وفى لحیته كثاثة ازج اقرن. ان صمت فعلیه الوقار وان تكلم سما وعلاه البھاء اجمل الناس وابھاء من بعید، واحلاہ واحسنه من قریب. حلو المنطق، فصل، لا نزر ولا ھزر. كأن منطقه خرزات نظم ینحدرن. ربعة لا یأس من طول، ولا تقتحمه عین من قصر، غصنا بین غصنین فھو أنضر الثلاثة منظرا، وأحسنھم قدرا، له رفقاء یحفون به ان قال أنصتوا لقوله، وان أمر تبادروا الى أمره، محفود محشود لا عابس ولا مفند صلى اللّٰه علیه وسلم...الخ.44

ترجمہ...... ام معبد نے کہا :نہیں بخدا یہاں ایک نہایت بابرکت ہستی تشریف لائی تھی جن کی یہ کچھ صورت حال تھی وہ کہنے لگا مجھے ان کا حلیہ اور شکل و صورت بیان کرو۔کہنے لگی میں نے دیکھا وہ ایک نہایت حسین انسان تھے دمکتا چہرہ تھا۔ پورا جسم حسن کا ایک حسین پیکر تھا۔ نہ پیٹ بڑھا ہوا تھا نہ سر چھوٹا تھا۔ الغرض ہر ہر عضو میں ایک عجیب دل کشی اور نظر نوازی تھی آنکھیں موٹی اور سیاہ۔ پلکیں خم دار اور آواز میں ایک رعب اور وقار، گردن ایک گونہ کشادہ، داڑھی گھنی، ابروبڑے باریک دراز اور باہم ملے ہوئے جب وہ خاموش ہوتے تو چہرے سے جلال ٹپکتا اور گویا ہوتے تو حسن جھلکتا۔ دور سے دیکھو تو حسن و جمال کا پیکر ہیں اور قریب سے مشاہدہ کرو تو کرم و اخلاق کا مظہر ہیں گفتگو ازحد شیریں تھی جس میں کچھ الجھاؤتھا نہ بدگوئی، آپ sym-1کی باتیں کیا تھیں موتیوں کا ایک شکستہ ہار تھا، جس کے موتی تسلسل سے جھڑرہے ہوں۔ میانہ قد تھا، نہ اتنا لمبا کہ عجیب سا لگے اور نہ اتنا چھوٹا کہ حقیر نظر آئے بلکہ دونوں کے درمیان کا درجہ تھا جو ان دونوں سے زیادہ جاذب نظر اور حسین ہوتا ہے۔ آپ sym-1کے ساتھ کچھ ساتھی بھی تھے جو آپ sym-1کاانتہائی احترام کرتے تھے۔ جب آپ sym-1کوئی ارشاد فرماتے تو وہ خاموش ہوکر سنتے اور جب کسی کام کا حکم دیتے تو اسے پورا کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ۔میں نے آپ sym-1سے بڑھ کر کسی کو محترم اور مخدوم نہیں پایا درشت روئی اور تند خوئی آپ sym-1کے قریب بھی نہ پھٹکی تھی۔

اسی طرح امام دارمیsym-4 روایت کرتے ہیں:

عن ابى عبیدة بن محمد بن عمار بن یاسر قال قلت للربیع بنت معوذ ابن عفراء: صفى لنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. فقالت: یا بنى لو رایته رایت الشمس طالعة.45
حضرت ابو عبید بن محمد بن عمار بن یاسر sym-4فرماتے ہیں: میں نے حضرت ربیع بنت معوذ سے عرض کیاکہ آپ حضور sym-1کی صفات بیان کریں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: بیٹےاگر تو سرکار دو عالم sym-1کے چہرہ انور کو دیکھے تو تو کہے گویا سورج نکلا ہوا ہے۔

اس کی تشریح کرتے ہوئےامام شامی صالحی sym-4لکھتے ہیں:

قال الطیبی رحمه للّٰه تعالىٰ: قولھا "لقلت الشمس طالعة" اى: لرایت شمسا طالعة جردت من نفسه الشریفة شمسا.46
امام طیبی sym-4نے کہا ہے: ان کے قول ”لقلت الشمس طالعۃ“ اس کا معنی ہے کہ گویا کہ تم دیکھتے کہ سورج نکل آیا ہے آپ sym-1کے نفس پاک سے ہی سورج کو نکالا گیا ہے۔

حضرت حلیمہ سعدیہsym-6 اور حضورﷺکی خوبصورتی

حضرت حلیمہ سعدیہsym-6 مکّہ مکرّمہ میں جب نبی کریم sym-1کو لینے کے لیے آئیں تو آپ sym-1کو بعد از ولادت پہلی باردیکھ کر سراپا حیرت بن گئیں اور ان تاثرات کو بیان کرتے ہوئے آپsym-6 نے فرمایا:

فاشفقت ان اوقظه من نومه لحسنه وجماله فدنوت منه رویدا فوضعت یدى على صدره فتبسم ضاحكا ففتح عینیه ینظر الى فخرج من عینیه نور حتى دخل خلال السماء.47
حضور sym-1کو ان کے حسن وجمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہوگئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ sym-1مسکراکر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور نبی کریم sym-1کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔

حسن مصطفی ﷺکی پاکیزہ چمک

حضور sym-1کے حسنِ دلرُبا کو چاندی سے ڈھال کر بنائی گئی دیدہ زیب اشیاء سے تشبیہ دیتے ہوئے حضرت ابوہریرہsym-5 فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كأنما صیغ من فضه... الخ.48
حضور نبی کریم sym-1(مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں۔

اسی طرح کی دوسری روایت منقول ہے کہ جس میں حضرت ابوہریرہ sym-5نے فرمایا:

ما رایت شیئا احسن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كأن الشمس تجرى فى وجھه.49
میں نے کوئی بھی چیز رسول اﷲ sym-1سے خوبصورت اور حسین نہیں دیکھی گویا کہ سرکار دو عالمsym-1کے چہرہ انور میں سورج رواں دواں ہے۔

اس کی تشریح کرتے ہوئے امام شامی صالحی sym-4لکھتے ہیں:

قال الطیبى: شبه جریان الشمس فى فلكھا بجریان الحسن فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم. ومنه قول الشاعر:
یزیدک وجھہ حسنا
اذا ما زدتہ نظرا
وﷲ در القائل
لم لا یضی ء بک الوجود ولیلہ
فیہ صباح من جمالک مسفر
فبشمس حسنک کل یوم مشرق
وببدر وجھک کل لیل مقمر.50
امام طیبی sym-4فرماتے ہیں: سورج کے فلک میں چمکنے کو آپ sym-1کےچہرہ انور میں حسن کے رواں ہونے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس سے شاعر کا یہ قول بھی ہے"ان کا چہرہ حسن میں تمہارے لیے اور اضافہ کردے گا جب تم ان کی زیارت کے لیے نظر کا اضافہ کرو گے"اور کسی شاعر نے کتنا خوب کہاہے: آپ sym-1کی وجہ سے کائنات اور اس کی رات روشن کیوں نہ ہو۔ اس میں آپ sym-1کے جمال کی روشن صبح ہے۔ آپ sym-1کے حسن کے سورج کی وجہ سے ہر دن روشن ہے آپsym-1کے چہرہ کے چاند کی وجہ سے ہر رات چاندنی والی ہے۔

صحابہ sym-7کا بیانِ حسنِ مصطفیٰ ﷺ

جب کبھی صحابہ کرامsym-7 کسی ایسے شخص کو پالیتے جس نے آپ sym-1کی زیارت نہ کی ہوتی تو اسے اپنے پاس بٹھاتے اور پھر نبی کریم sym-1کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے تاکہ امتی اپنے نبىsym-1کی محبت کو اپنے دل میں نقش کرلیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ sym-5کا معمول تھا کہ جب کسی شخص کو پالیتے جس نے محبوب خدا کے حسن و جمال کا نظارہ نہ کیا ہوتا تو اسے کہتے : کیا میں تمہیں نبی اکرم sym-1 کےشمائل نہ بتاؤں؟ آپ sym-1نرم وگدازقدموں، دراز پلکوں والےتھےآپ sym-1کا پیٹ بڑھاہوانہیں تھا۔اگرآپ sym-1سامنےکی جانب متوجہ ہوتے تو پورےجسم کے ساتھ اوراگرپیچھےکی جانب متوجہ ہوتے تو بھی پورےجسم کےساتھ پلٹتے ۔اس کے بعد کہتے: میرے ماں باپ آپ sym-1پر قربان میں نے آپ sym-1کی مثل نہ آپ sym-1سےپہلے اورنہ بعد کوئی دیکھا۔51

اسی طرح حضرت ابو طفیل sym-5 نے ایک دفعہ طواف کے بعد اعلان فرمایا لوگو آؤ مجھ سے اپنے آقا sym-1کے بارے میں جو پوچھنا ہے پوچھ لو ۔لو گوں نے آپ سے عرض کیا ہمیں آقا sym-1کے حسن وجمال کے بارے میں بتائیےکہ آپ sym-1کا حسن وجمال کیسا تھا؟تو انہوں یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:

كان ابیض ملیحا مقصدا.52
آپ sym-1گورےخوبصورت تھےنہ بہت موٹےنہ بہت کمزور(لاغر)۔

اسی طرح ایک صحابیہsym-6 کے حوالہ سے امام بیہقی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن ابى اسحاق الھمدانی عن امراة من ھمدان سماھا قالت: حججت مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فرایته على بعیر له یطوف بالكعبة بیده محجن علیه بردان احمران تكاد تمس منكبه اذا مر بالحجر استلمه بالمحجن ثم یرفعه الیه فیقبله. قال ابو اسحاق فقلت لھا: شبھیه. قالت: كالقمر لیلة البدرلم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم .53
حضرت ابو اسحاق ہمدانیsym-4 ایک ہمدانی عورت سے روایت کرتے ہیں اس نے اس کا نام ذکر کیا تھا ۔ اس نے کہا کہ میں نے نبی کریم sym-1کے ساتھ کئی بار حج کیا۔ میں نے آپsym-1کوان کے اونٹ پر کعبے کا طواٗف کرتےدیکھا۔ ان کے ہاتھ میں عصاتھا۔ حضور نبی کریمsym-1کے اُوپر دو سرخ چادریں تھیں جو آپ sym-1کے کندھوں تک پہنچتی تھیں۔ جب آپ sym-1حجر اسود کے ساتھ گزرتے تھے توعصا کے ساتھ اس کا استلام کرتے تھے۔ پھر اس کو اپنی طرف اٹھالیتے اور اس کو بوسہ دیتے تھے۔ حضرت ابو اسحاق sym-4نے کہا :میں نے اس عورت سے کہا :حضور sym-1کی مشابہت کس چیز سے تھی؟ کہا: جیسے چودہویں رات کا چاند ہوتا ہے۔میں نے آپ sym-1کی مثل نہ آپ sym-1سے پہلے دیکھا نہ آپ sym-1کے بعد۔

اسی طرح امام طبرانی sym-4روایت کرتے ہیں:

حضرت ابو قرصافہ sym-5فرماتے ہیں کہ جب میں اورمیری والدہ اور میری خالہ حضور نبی کریم sym-1کی بیعت کرکے واپس آئے تو میری والدہ اور میری خالہ نے کہا:

ما راینا مثل ھذا الرجل احسن منه وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.54
ہم نے اس شخص کی مثل خوبصورت چہرے والا، پاکیزہ لباس والا، نرم اور میٹھے کلام والا کوئی نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے وقت ان کے منہ سے نور نکلتا ہے۔

آپﷺکی جسمانی وجاہت

حضرت انس sym-5نے نبی کریم sym-1کی مسلسل دس سال خدمت کی۔آپ sym-5 نبی اکرم sym-1کے جسمانی حسن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كل شىء حسن قد رایت فمارایت شیئا قط احسن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.55
میں نے ہر حسین چیز دیکھی ہے لیکن میں نے حضور نبی کریم sym-1 سے بڑھ کر حسین وجمیل چیز نہیں دیکھی۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت انس sym-5 فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة ولیس بالطویل ولا بالقصیر حسن الجسم وكان شعره لیس بجعد ولا سبط اسمر اللون اذا مشى یتكفاء.56
حضور نبی کریم sym-1درمیانے قد والے تھے نہ ہی بہت لمبے تھے اور نہ بہت پست قامت بلکہ آپ sym-1کا جسم مبارک نہایت خوبصورت تھا۔ آپ sym-1کے بال نہ بہت زیادہ گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے۔آپ sym-1کا رنگ مبارک گندمی تھا جب آپ sym-1چلتے تو طاقت سے چلتے اور دائیں بائیں مائل ہوجاتے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ sym-1کے جسم کو‘‘حَسن’’کہا گیا ہے، یہاں‘‘حَسن’’سے مراد ظاہری حُسن ہے۔ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کو معنوی، اخلاقی اور صفاتی حسن سے مالا مال فرمایا تھابالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے آپsym-1کو ظاہری جسمانی حُسن سے بھر پور طور پر نوازا تھا۔چنانچہ امام بخاری sym-4 ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

كان احسن الناس وجھا واحسنه خلقا.57
یعنی چہرے کے لحاظ سے آپ sym-1بہت خوبصورت تھے اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی سب سے اچھے اور نہایت حسین تھے۔

اسی طرح حضرت انس sym-5 سے ایک اور حدیث مروی ہے:

كان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس واجود الناس واشجع الناس .58
یعنی آپ sym-1تمام لوگوں سے بہت حسین تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ sym-1کی تینوں قِوٰی (غضبیہ، عقلیہ اور شہوانیہ) کی کمال خوبیوں کو بیان کردیا گیا ہے۔ کیونکہ قوتِ غضبیہ سے خوبی شجاعت کا اظہار ہوتا ہے اور قوت ِشہوانیہ کی اصلاح وارتقاء سے جود وسخاء وجود میں آتی ہے۔ قوتِ عقلیہ کے حسن سے معتدل مزاجی، صفائی قلب، عمدگئِ طبع اور کمال عقل رونماہوتا ہے ۔اس طرح آپ sym-1تمام ظاہری اور حسی محاسن و فضائل کے ساتھ ساتھ معنوی اور صفاتی بلندیوں اور بے مثال کمالات سے سرفراز تھے۔

جمالِ مصطفیﷺکی حقیقت مستور تھی

رب کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدار کائنات sym-1کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کرسکے۔ انوار محمدی sym-1کو اس لیے پردوں میں رکھا گیا کہ انسانی آنکھ جمالِ مصطفی sym-1کی تاب ہی نہیں لاسکتی۔ اﷲ ربُّ العزت نے آپ sym-1کا حقیقی حسن وجمال مخلوق سے مخفی رکھا۔جیسا کہ امام زرقانیsym-4 کے حوالہ سے ایک قول پیچھے گزرا کہ حضور sym-1کا حسن وجمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آقائے کائنات sym-1کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور sym-1کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔59

اسی حوالے سے امام یوسف نبہانیsym-4 حافظ ابن حجر مکی sym-4کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

حضور اقدس sym-1کا حسن ِذات عمدہ اخلاق اور روشن صفات کی دلیل ہے کیونکہ آپ sym-1اوصاف وکمالات کی انتہا پر پہنچے جہاں کسی نبی کی بھی رسائی نہیں ۔۔۔ الخ۔اس سے معلوم ہوا کہ حسن کامل کی حقیقت آپ sym-1ہی ہیں جو اور کسی میں تقسیم نہیں ہوتیں اور اگر اس کو تقسیم کردیا جائے تو وہ کامل ومکمل نہیں رہتا۔ بعض ائمہ کا یہ قول ہےکہ اگر حضور sym-1کا پورا حُسن ظاہر ونمایاں ہوتا تو ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔60

اسی طرح حضور نبی کریم sym-1کے حسن وجمال کا ذکر جمیل حضرت عمرو بن العاصsym-5 ان الفاظ میں کرتے ہیں:

وما كان احد احب الى من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا اجل فى عینى منه وما كنت اطیق ان املا عینی منه اجلالا له ولو سئلت ان اصفه ما اطقت لانى لم اكن املا عینى منه.61
میرے نزدیک رسول اﷲ sym-1سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ sym-1سے حسین تر تھا ۔میں حضور رحمتِ عالم sym-1کے مقدس چہرہ کو اس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا اگرکوئی مجھے آپ sym-1کے محامد ومحاسن بیان کرنے کے لیے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ( حضور رحمت عالم sym-1کے حسن جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ sym-1کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔

انسانی آنکھ کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت جو اپنے آقا sym-1کی بارگاہ بیکس پناہ میں درُودوں کے گجرے اورسلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے وہ آپ sym-1کا روئے منوّر دیکھ کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا کرتے تھے۔چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:

لما نظرت الى انوارہ صلى اللّٰه علیه وسلم وضعت كفى على عینى خوفا من ذھاب بصرى.62
میں نے جب حضور sym-1کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کیا تو اپناہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیا ۔ اس لیے کہ (روئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہوجاؤں۔

حضرت حسان بن ثابتsym-5 نے حضور نبی کریم sym-1کے کمال حسن کو بڑے ہی دلپذیر انداز میں بیان کیا ہے آپ sym-5 فرماتے ہیں:

واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء.63

آپ sym-1سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ sym-1سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ sym-1کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دکھائی دیتا ہے) جیسے آپ sym-1کے رب نے آپsym-1کی خواہش کے مطابق آپ sym-1کی صورت بنائی ہے۔

اسی حوالہ سےشیخ عبد الحق محدث دہلوی sym-4 فرماتے ہیں:

آنحضرت بتمام از فرق تاقدم ھمه نور بود كه دیده حیرت درجمال با كمال وى خیره میشد مثل ماه وآفتاب تاباں وروشن بود، واگر نه نقاب بشریت پوشیده بودى ھیچ كس رامجال نظر وادراك حسن او ممكن نبودى.64
حضور رحمت عالم sym-1سر انور سے لے کر قدم پاک تک نور ہی نور تھے ۔آپ sym-1کے حسن وجمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں۔ آپsym-1کا جسم اطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر وتاباں تھا، اگر آپ sym-1کا جلوہ ہائے حُسن، لباس بشری میں مستور نہ ہوتا تو روئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہوجاتا۔

ملا علی قاری sym-4فرماتے ہیں:

ان جمال نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى غایة الكمال...لكن للّٰه ستر عن اصحابه كثیرا من ذلك الجمال الزاھر والكمال الباھر اذ لو برز الیھم لصعب النظر الیه علیھم.65
ہمارے نبی کریم sym-1کا حسن وجمال اوج کمال پر تھا۔۔۔ لیکن رب کائنات نے حضور sym-1کے جمال کو صحابہ کرام sym-7پر مخفی رکھا اگر آپ sym-1کا جمال پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو ان پرحضور sym-1کے روئے تاباں کی طرف آنکھ اٹھانا بھی مشکل ہوجاتا۔

اسی حوالہ سے ملا علی قاریsym-4 ایک دوسرے مقام پر قصیدہ بردہ شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:

انه اذا ذكر على میت حقیقى صارحیا حاضرا واذا ذكر على كافر و غافل جعل مؤمنا وھول ذاكرا لكن للّٰه تعالىٰ ستر جمال ھذا الدر المكنون وكمال ھذا الجوھر المصون لحكمة بالغة و نكتة سابقة ولعلھا لیكون الایمان غیبیا والامور تكلیفیا لا لشھود عینیا والعیان بدیھیا اولئلا یصیر مزلقة لاقدام العوام و مزلة لتضر الجمال بمعرفةالملك العلام.66
اگر خدائے رحیم وکریم حضور sym-1کے اسم مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اس کی برکت سے مردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دور ہوجائیں اور غافل دل ذکر الہٰی میں مصروف ہوجائے۔ لیکن رب کائنات نے اپنی حکمت کاملہ سے حضور sym-1کے اس انمول ومحفوظ جوہر کے جمال وکمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید رب کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس ایمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اورمشاہدۂ حقیقت اس کے منافی ہے۔ حضور sym-1کے حسن وجمال کو مکمل طور پر اس لیے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلو کا شکار ہوکر معرفت الہٰی سے ہی غافل نہ ہوجائیں۔

حضرت اویس قرنی sym-5اور حسنِ مصطفیﷺ

حضرت اویس قرنیsym-5 کے بارے میں روایت منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری کے باعث زندگی بھر حضور نبی کریم sym-1کی خدمت اقدس میں بالمشافہ زیارت کے لیے حاضر نہ ہوسکے۔لیکن سرکار دو عالم sym-1کے ساتھ والہانہ عشق و محبت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ حضور نبی کریم sym-1اکثر صحابہ کرام sym-7سے اپنے اس عاشق زار کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ sym-1نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ میرے وصال کے بعد اویس قرنی sym-5کے پاس جاکر اسے یہ خرقہ دے دینا اور اسے میری امت کے لیے دعائے مغفرت کے لیے کہنا۔

حضور نبی کریم sym-1کے وصال کے بعد حضرت عمرsym-5 اور حضرت علیsym-5 حضرت اویس قرنیsym-5 سے ملاقات کے لیے ان کے آبائی وطن قرن پہنچے اور انہیں آپ sym-1کا فرمان سنایا ۔اثنائے گفتگو حضرت اویس قرنی sym-5نے دونوں جلیل القدر صحابہ sym-8سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی فخر موجودات sym-1کا دیدار بھی کیا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو مسکرا کر کہنے لگے:

لم تریا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الا ظله.67
تم نے حضور نبی کریم sym-1کے حسن و جمال کا محض پر تو دیکھا ہے۔

ملاعلی قاری sym-4 بعض صوفیاء کرام کے حوالے سے فرماتے ہیں:

قال بعض الصوفیة اكثر الناس عرفوا للّٰه عزوجل وما عرفوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لان حجاب البشریة غطت ابصارھم.68
بعض صوفیا فرماتے ہیں: اکثر لوگوں نے اﷲ رب العزت کا عرفان تو حاصل کرلیا لیکن حضور نبی کریم ﷺکا عرفان انہیں حاصل نہ ہوسکا اس لیے کہ بشریت کے حجاب نے ان کی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔

اسی حوالہ سے شیخ عبد العزیز دباغsym-4فرماتے ہیں:

وان مجموع نوره صلى اللّٰه علیه وسلم لو وضع على العرش لذاب... ولو جمعت المخلوقات كلھا ووضع علیھا ذلك النور العظیم لتھافتت وتساقطت.69
اگر حضور sym-1کے نور کامل کو عرش عظیم پر ظاہر کردیا جاتا تو وہ بھی پگھل جاتا۔اس طرح اگر تمام مخلوقات کو جمع کرکے ان پر حضور sym-1کے نورِ مقدسہ کو ظاہر کردیا جاتا تو وہ فنا ہوجاتے۔

عقل ِ انسانی میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟تو شیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4 اسی بات کی نشان دہی کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

انبیاء مخلوق اند از اسماء ذاتیه حق واولیاء از اسماء صفاتیه وبقیه كائنات از صفات فعلیه وسیدرسل مخلوق ست از ذات حق وظھور حق در وے بالذات ست.70
تمام انبیاء رسلsym-3تخلیق میں اللہ رب العزت کے اسمائے ذاتیہ کے فیض کا پر تو ہیں اور اولیا ء (اللہ کے)اسمائے صفاتیہ کا اور باقی تمام مخلوقات صفات فعلیہ کا پر تو ہیں لیکن سیّد المرسلین sym-1کی تخلیق ذات حق تعالیٰ کے فیض سے ہوئی اور حضور نبی کریم sym-1ہی کی ذات میں اللہ رب العزت کی شان کا بالذات ظہور ہوا ۔

اسی مسئلے پر امام قسطلانیsym-4فرماتے ہیں:

لما تعلقت ارادة الحق تعالىٰ بایجاد خلقه وتقدیر رزقه ابرز الحقیقة المحمدیة من الانوار الصمدیة فى الحضرة الاحدیة ثم سلخ منھا العوالم كلھا علوھا وسفلھا على صورة حكمه.71
جب خدائے بزرگ وبرتر نے عالم خلق کو ظہور بخشنے اور اپنے پیمانہ عطا کو جاری فرمانے کا ارادہ کیا تو اپنے انوار صمدیت سے براہ راست حقیقت محمدیہ sym-1کو بارگاہ احدیت میں ظاہر فرمایا اور پھر اس ظہور کے فیض سے تمام عالم پست و بالا کو اپنے امر کے مطابق تخلیق فرمایا۔

اسی لیے حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا تھا:

یا ابابكر! والذى بعثنى بالحق! لم یعلمنى حقیقة غیر ربى.72
اے ابوبکر! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاکہ میری حقیقت میرے پروردگار کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔

حضور نبی کریم sym-1کا فرمان مذکورہ بالا تمام اقوال کی نہ صرف توثیق کرتا ہے بلکہ ان پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتا ہے۔

حسن وجمالِ مصطفی ﷺکی عظمتوں کا راز دان

جس طرح اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب sym-1کی ذات مقدسہ کی حقیقت کو اپنی مخلوقات سے مخفی رکھا اورتجلیات مصطفی sym-1کو پردوں میں مستور فرمایا اسی طرح آپ sym-1کے اوصاف ظاہری کو بھی وہی پروردگار عالم خوب جانتا ہے۔ محدثین، مفسرین اور علمائے حق کا یہ اعتقاد ہے کہ حضور sym-1کے اوصاف ظاہری کی حقیقت بھی مکمل طور پر مخلوق کی دسترس سے باہر ہے۔ اس ضمن میں آپ sym-1کے صحابہ کرام sym-7اور تابعین عظام نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ بطور تمثیل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ رسول محتشم sym-1کی حقیقت کو ان کے خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا اس لیے کہ آں ذات پاک مرتبہ دان محمد sym-1است۔

اسی حوالہ سے امام ابراہیم بیجوریsym-4فرماتے ہیں:

ومن وصفه صلى اللّٰه علیه وسلم فانما وصفه على سبیل التمثیل والا فلا یعلم احد حقیقة وصفه الا خالقه.73
جس کسی نے حضورsym-1کے اوصاف بیان کیے بطور تمثیل ہی کیے ہیں۔ ورنہ ان کی حقیقت ان کےبنانےوالے(اﷲ) کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔

اسی طرح امام علی بن برہان الدین حلبی sym-4فرماتے ہیں:

كانت صفاته صلى اللّٰه علیه وسلم الظاھرة لا تدرك حقائقھا.74
حضور sym-1کی صفات ظاہرہ کے حقائق کا ادراک بھی ممکن نہیں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4 اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

مرا در تكلم در احوال وصفات ذات شریف وى وتحقیق آں حر جے تمام است كه آں متشابه ترین متشابھات است نزد من كه تاویل آں ھیچ كس جز خدا نداند وھر كسے ھر چه گوید برقدر واندازه فھم ودانش گوید واو صلى اللّٰه علیه وسلم از فھم و دانش تمام عالم برتراست.75
میں نے حضور sym-1کے محامد ومحاسن پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہمیشہ ہچکچاہٹ محسوس کی ہے کیونکہ (میں سمجھتا ہوں کہ) وہ ایسے اہم ترین متشابہات میں سے ہیں کہ ان کی حقیقت پروردگار عالم کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ جس نے بھی حضور نبی کریم sym-1 کی توصیف بیان کی اس نے اپنے فہم وفراست کے مطابق بیان کی اور حضور sym-1کی ذات اقدس تمام اہل عالم کی فہم و دانش سے بالا ہے۔

حسن مصطفی ﷺپر ایمان اساسِ دین ہے

اقلیم رسالت کے تاجدار حضور رسالت مآب sym-1مسندِ محبوبیت پر یکتا وتنہا جلوہ افروز ہیں۔ آپ sym-1کا باطن بھی حسنِ بے مثال کا مرقع اورظاہر بھی انوار وتجلیات کا آئینہ دار ہے ۔جہاں نقطہ کمال کی انتہاء ہوتی ہے وہاں سے حسن وجمال مصطفی sym-1کی ابتدا ہوتی ہے۔ آپ sym-1کے حسن وجمال کو بے مثل ماننا ایمان وایقان کا بنیادی جز ہے ۔کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ نبی بے مثال sym-1کو باعتبار صورت و سیرت اس کائنات ہست وبود کی تمام مخلوقات سے افضل واکمل تسلیم نہ کرلے۔

ان تصریحات کے پیش نظر ائمہ امت اور فقہائے کرام نے ایمانیات کے باب میں بیان کیا ہے کہ کسی شخص کا ایمان اس وقت مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ محبوب خدا sym-1کو باعتبار صورت وسیرت روئے زمین پر ابد الآباد تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں سے افضل واکمل تسلیم نہ کرلے۔ اور جو چیز ایمان کا مرکز ہے اس کے بیان سے ایمان کو جلا نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سے ملاعلی قاری sym-4فرماتے ہیں:

من تمام الایمان به اعتقاد انه لم یجتمع فى بدن آدمى من المحاسن الظاھرة الدالة على محاسنه الباطنة ما اجتمع فى بدنه علیه الصلوة والسلام.76
کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ اعتقاد نہ رکھے کہ بلاشبہ آپ sym-1کے وجود اقدس میں ظاہری وباطنی محاسن وکمالات ہر شخص کی ظاہری وباطنی خوبیوں سے بڑھ کر ہیں۔

اسی طرح اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام ابن حجر مکی ہیتمیsym-4 تحریر فرماتے ہیں:

جان لو کہ نبی sym-1پر مکمل ایمان تب ہوگا جب یہ اعتقاد ہو کہ آدمی کے جسم میں جتنے محاسن ظاہر ہوسکتے ہیں وہ سب نبی sym-1کے جسم میں موجود تھے اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ محاسنِ ظاہرہ محاسنِ باطنہ اور اخلاق زکیہ پر دلیل ہوتے ہیں اوران محاسن میں کوئی شخص آپ sym-1سے بڑھ کر ہے اور نہ ہی آپsym-1کے برابر ہے۔ 77

اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوریsym-4 فرماتے ہیں:

ومما یتعین على كل مكلف ان یعتقد ان للّٰه سبحانه تعالىٰ اوجد خلق بدنه صلى اللّٰه علیه وسلم على وجه لم یوجد قبله ولا بعده مثله.78
مسلمانان عالم اس بات پر متفق ہیں کہ ہر شخص کے لیے سرکار دو عالم sym-1کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ رب کائنات نے حضور sym-1کے بدن اطہر کو اس شان سے تخلیق فرمایا ہے کہ آپ sym-1سے پہلے اور آپ sym-1کے بعد کسی کو آپ sym-1کے مثل نہ بنایا۔

اسی طرح امام قسطلانی sym-4تحریر فرماتے ہیں:

اعلم ان من تمام الایمان به صلى اللّٰه علیه وسلم الایمان بان للّٰه تعالىٰ جعل خلق بدنه الشریف على وجه لم یظھر قبله ولا بعده خلق آدمى مثله صلى اللّٰه علیه وسلم . 79
جان لو کہ ایمان کی تکمیل کے لیے (بندۂ مومن کا) یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نہ تو حضور sym-1سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کسی کو آپ sym-1کی مثل حسین وجمیل بنایا۔

حضور sym-1کی ذات گرامی پر ایمان کی تکمیل کے موضوع پر امام سیوطیsym-4 فرماتے ہیں:

من تمام الایمان به علیه الصلوٰة والسلام الایمان به بانه سبحانه خلق جسده على وجه لم یظھر قبله ولا بعده مثله.80
ایمان کی تکمیل کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ رب کائنات نے حضور sym-1کا وجود اقدس حسن وجمال میں بے نظیر وبے مثال تخلیق فرمایا ہے۔

اسی عقیدہ کی صراحت کرتے ہوئے امام عبدالرؤف منادی sym-4 فرماتے ہیں:

وقد صرحوا بان من كمال الایمان اعتقاد انه لم یجتمع فى بدن انسان من المحاسن الظاھرة ما اجتمع فى بدنه صلى اللّٰه علیه وسلم.81
تمام علماء نے اس امر کی تصریح کردی ہے کہ کسی انسان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ عقیدہ نہ رکھے کہ حضور sym-1کی ذاتِ اقدس میں پائے جانے والے محامد ومحاسن کا کسی دوسرے شخص میں موجود ہونا ممکن ہی نہیں۔

یہی امام عبد الرؤف منادی sym-4اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

من تمام الایمان به علیه الصلوٰة والسلام الایمان به بانه سبحانه خلق جسده على وجه لم یظھر قبله ولابعده.82
تکمیل ایمان کے لیے اس بات کا ماننا ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کا جسد اطہر حسن وجمال میں بے نظیر و بے مثال بنایا ہے۔

شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی امام ابن حجر مکی sym-4 کے قول کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

انه یجب علیك ان تعتقد ان من تمام الایمان به علیه الصلوٰة والسلام الایمان بان للّٰه اوجد خلق بدنه الشریف على وجه لم یظھر قبله ولا بعده فى آدمى مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.83
(اے مسلمان!) تیرے اوپر واجب ہے کہ تو اس اعتقاد کو حضور sym-1پر ایمان کامل کا تقاضا سمجھے کہ اﷲ تعالیٰ نے جس طرح حضور sym-1کے جسم مبارک کو حسین وجمیل اور کامل بنایا ہے اس طرح آپ sym-1سے پہلے یا بعد میں کسی بھی شخص کو نہیں بنایا۔

ان تمام ائمہ کے اقوال سے واضح اور ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم sym-1کے وجود ِ مسعود کو عالم رنگ وبو میں سب سے اکمل و احسن واجمل و افضل مانا جائے کہ ایمان کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔

تذکرہ جمال محمدی ﷺاساسِ حبِّ رسول sym-1ہے

ذکر حسن وجمال مصطفوی سے داعیہ محبت جنم لیتا ہے جو ایمان کی بنیاد ہے۔یہ بات مسلّم ہے کہ دل میں حضور sym-1کی محبت کا داعیہ پیدا کیے بغیر انسانی اعمال وافعال کی اصلاح کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔ داعیہ محبت کے بغیر اصلاح عمل کا ہر قدم ریا کاری اور منافقت پر محمول ہوگا، اطاعت واتباع وہی مقبول و محبوب ہے جس کی بنیاد فقط محبت ہو۔

محبت کامل اطاعت واتباع کی مقتضی ہے جب تک کسی کے قلب وباطن میں حضور sym-1کی ذات اقدس سے محبت بدرجہ اتم جاگزیں نہ ہوگی نہ اطاعت کی روح پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں وہ لذت اور چاشنی آسکتی ہے جو ایمان کو کمال تک پہنچانے کے لیے لازم ولابدی ہے۔

بدیں سبب حقیقی اور کامل ایمان اسی صورت میں ممکن ہے جب حضور sym-1کی صورت وسیرت کے ہر پہلو اور ہر گوشے سے رشتہ محبت اتنا مستحکم اور مضبوط تر ہو کہ بندۂ مومن کے ہر عمل پر اس کی چھاپ نمایاں نظر آئے۔اسی حوالہ سے شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی sym-4 لکھتے ہیں:

وذلك لینال مقام محبته الصادقة لان المعرفة سبب المحبة فكلما زادت المعرفة بمحاسن المحبوب زادت المحبة له.84
(ان محاسن کا جاننا) اس لیے ضروری ہے تاکہ محبت صادقہ نصیب ہو کیونکہ محاسن کی معرفت محبت کا سبب ہے اور جیسے جیسے محبوب کے محاسن سے انسان آگاہ ہوتا ہےویسے ویسے اس کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔

حضرت ثمامہ بن اثال sym-4 جب ایمان لائےتو فرمایا:

فقد اصبح وجھك احب الوجوه الى ... الخ.85
اب آپ sym-1کا چہرہ میرے نزدیک تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔

حضور ﷺکے شمائل وفضائل سے بے پروائی۔۔۔ایمان ہے

اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کی ذاتِ اقدس کو جو فضائل ومحاسن عطا فرمائے ہیں کتاب وسنت نے انہیں بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحابہ کرام sym-7سے لے کر آج تک تمام علماء امت نے ان کو حرزجاں بنایا ہےاورحق تو یہ ہے کہ ان سے غفلت برتنا یا ان کو اہم تصور نہ کرنا شرعا ًبہت بڑا جرم ہے۔

قرآن کریم نے یہود کی برائیوں میں سے اہم برائی یہ بیان کی ہے کہ وہ آپ sym-1کے فضائل کے بیان کو پسند نہیں کرتے تھے۔امام ابوبکر الاجری sym-4 فضائلِ نبیsym-1 سے غفلت برتنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قبئح بالمسلمین ان یجھلوا معرفة فضائل نبیھم صلى اللّٰه علیه وسلم وما خصه للّٰه عزوجل به من الكرامات واشرف فى الدنیا و الاخرة. 86
اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کو دنیا و آخرت میں جو فضائل ومحاسن اور خصائص عنایت فرمائے ہیں ان سے جہالت (بے خبری) مسلمانوں کے لیے انتہائی مکروہ اور قبیح ہے۔

بیانِ شمائل وخصائل مظہرِ ایمان ہے

اس ضمن میں ایک اصول اور نسخہ کیمیا ہے جسے ہر شخص اپنے ایمان کی پہنچان کے لیے بروئے کارلاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہادئ برحق حضور sym-1کے ذکر جمیل سے اس کا ظاہر وباطن کیا اثر قبول کرتا ہے؟اگر آپsym-1 کے سراپا مبارک، حسن وجمال اور شمائل وفضائل کے ذکر سے کوئی انسان اپنے دل کے اندر راحت وفرحت محسوس کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل کی زمین بحمداﷲ ایمان سے شاداب وآباد ہے کیونکہ دل کی زمین کی صفائی اور نظافت و پاکیزگی آپ sym-1کی ذات وصفات سے محبت ہی سے ممکن ہے اور اسی سے ایمان کا پودا نمو پاکر شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

اس کے برعکس اگر ذکرِ مصطفوی sym-1سے دل لذت وحلاوت کی بجائے معاذ اللہ اکتاہٹ، بے رغبتی اور بیزاری محسوس کرے، حلیہ مبارک اور شمائل نبوی کے بیان سے طبیعت کو فرحت وراحت اور سرور وانبساط کی بجائے وحشت وتکدر ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا خانۂ دل آقائے دوجہاں sym-1کی محبت والفت سے خالی ہے۔چنانچہ امام بخاری حضرت انسsym-5 سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:

عن انس قال: قال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : لا یؤمن احدكم حتى اكون احب الیه من والده و ولده والناس اجمعین.87
حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲsym-1نے فرمایا :تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ترہوجاؤں۔

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:

ثلاث من كن فیه وجد حلاوة الایمان ان یكون للّٰه ورسوله احب الیه مما سواھما وان یحب المرء لا یحبه الا للّٰه وان یكره ان یعود فى الكفر كما یكره ان یقذف فى النار.88
تین باتیں جس میں ہوگی وہ حلاوت(چاشنی) ایمان پاجائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مومن کے نزدیک اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول sym-1سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے کرےاور تیسری بات یہ کہ کفر سے نجات پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتاہو۔

اس حدیث میں ایمان کی بنیاد اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ sym-1کی محبت کو بتایا گیا۔ اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کرکے اس کی غیر معمولی اہمیت بھی بتادی گئی جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ محبت رسول sym-1ہی اصلِ ایمان ہے۔

اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی sym-4لکھتے ہیں:

ان للّٰه تعالىٰ اوجب على المومنین ان یحبوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فوق محبة الآباء والابناء والازواج والعشیرة والتجارة والاموال واوعد من تخلف عن تحقیق ذلك بالعقاب فقال سبحانه قل ان كان آباء كم وابناء كم واخوانكم الآیة 89 ولاریب ان اسباب المحبة ترجع الى انواع الجمال والكمال والنوال كما قرره الامام الغزالى وغیره. فاذا كان الرجل یحب لكرمه او بشجاعته او لحلمه او لعلمه او لتواضعه او لتعبده او تقواه او لزھده وورعه او لكمال عقله او وفور نعمه او جمال ادب او حسن خلقه او فصاحة لسانه او حسن معاشرة او كثرة بره و خیره او لشفقته ورحمته او نحو ذلك من صفاة الكمال فكیف اذا تاصلت واجتمعت ھذه الصفات الكاملة وغیرھا من صفات الكمال فى رجل واحد وتحققت فیه او صاف الكمال ومحاسن الجمال على اكمل وجوھھا الا و ھوالسید الا كرم سیدنا محمدصلى اللّٰه علیه وسلم الذى ھو مجمع صفات الكمال ومحاسن الخصال قد ابدع للّٰه تعالى صورته العظیمة وھیئته الكریمة وطوى فیه انواع الحسن والبھاء بحیث یقول كل من نعته لم یرقبله ولا بعده مثله.90
اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر یہ لازم و واجب کردیا ہے کہ وہ نبی کریم sym-1کو اپنے والدین، اولاد، بیوی، خاندان، تجارت اور اموال سے بڑھ کر محبوب سمجھیں اور اس کے خلاف کرنے والے کو عذاب کی وعیدسنائی ہے ۔جیساکہ ارشاد ربانی ہے: اے محبوب(sym-1 ) فرمادیجیے: اگر تم اپنے والدین اولاد اور بھائی۔۔۔(الآیۃ) بلا شبہ اسباب محبت کی وجوہ یہ ہی ہوسکتی ہیں ،حسن وجمال کمال اور احسان امام غزالی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ جب کسی آدمی سے اس کی ایک صفت کی وجہ سے محبت کی جاتی ہے مثلاً اس کاکرم یا اس کی بہادری حلم یا علم یا تواضع یا عبادت وتقویٰ یا زہد وورع یاکمال عقل یا بہتر فہم یا جمال ادب یا حسن اخلاق یا فصاحت زبان یابہتر برتاؤ یا کثرت نیکی یاشفقت و رحمت یا اس کی مثل کسی اور وجہ سے اور جب یہ تمام صفات ایک شخصیت میں جمع ہوجائیں اور یہ تمام اوصاف و محاسن اپنے شباب وکمال پر بھی ہوں تو اس وقت اس شخصیت سے محبت کا عالم کیا ہوگا اور یہ شخصیت ہمارے آقا sym-1کی ہے کیونکہ آپsym-1 تمام صفات کاملہ اور محاسن فاضلہ کے جامع ہیں اﷲ تعالیٰ نے آپsym-1 کی عظیم ہیئت و صورت اتنے احسن انداز پر بنائی ہے کہ تمام حسن وجمال کی خوبیاں اس طرح جمع ہوگئی ہیں کہ آپ sym-1کا وصف کرنے والا ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ آپ sym-1کی مثل کونہ پہلے کوئی دیکھا گیا اور نہ ہی بعد میں دیکھا جائےگا۔

تذکرہ حُسن وجمال مصطفوی تصورِ رسولﷺکا ذریعہ ہے

آپ sym-1کے حسن وجمال، جسمِ اطہر اورصورتِ مبارکہ کے تذکرے سے ایک عظیم فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کا دل ودماغ اور ذہن آپ sym-1کے تصور سے مالامال اور معمور ہوجاتا ہے۔ کبھی آپ sym-1کا حسین وجمیل رخ ِانور کبھی واللیل زلفیں، کبھی پر انوار جبین ِمقدس، کبھی نرم وملائم دستِ اقدس اور کبھی معطر ومطہر جسم کا تصور ذہن کو معطر کیے رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے تابعین صحابہ کرام sym-7سے آپsym-1کے بارے میں سوال کرتے تھے کہ آپ sym-1کا چہرہ مبارک کیسا تھا؟ آپ sym-1کی گفتگو کیسی تھی؟ آپsym-1کی رفتارکیسی تھی؟ حتی کہ آپ sym-1کے جسم کے ہر ہر عضو کے بارے میں پوچھتے تھے۔حضرت امام حسن مجتبی بھی آپ sym-1کے حسن مبارک کے بارےمیں سوال کیا کرتے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

سالت خالى ھند بن ابى ھالة وكان وصافا عن حلیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وانا اشتھى ان یصف لى منھا شیئا اتعلق به... الخ.91
میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ (جو حضور sym-1کےاوصاف بیان کیاکرتےتھے) سے آپ sym-1کے بارے میں پوچھا مقصد یہ تھا کہ میں ان اوصاف کے ذریعے اپنے دل کو آپsym-1کی طرف متوجہ کروں۔۔۔الخ۔

حضرت امام حسن sym-5کے الفاظ "انا اشتھی ان یصف لی منھا شئ اتعلق بہ " (میں چاہتا ہوں کہ ان اوصاف کے ذریعے آپ sym-1کی حسین وجمیل صورت کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرلوں) واضح طور پر اس بات پر دال ہیں کہ صحابہ کرامsym-7 حضور نبی کریم sym-1کی حسین یادوں کے ساتھ ساتھ آپ sym-1کی شخصیت مبارکہ کو اپنے قلوب واذہان میں ہر وقت محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں رہتے اور وہ آپ sym-1کی ہر ہر ادا کو کبھی بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے بلکہ جب بھی آپ sym-1کے حسن وجمال کا تذکرہ چھڑتا تو ہر صحابی آپ sym-1کی کسی نہ کسی ادا کا اسی طرح ذکر کرتا جیسے وہ اب بھی اس حیات آفریں منظر کا مشاہدہ کررہا ہے۔

حضور sym-1کے حسن و جمال کا نظارہ کرنے والی آنکھیں الف الف مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ان کی نگاہیں کائنات کی سب سے حسین ہستی کا دیدار کرتی رہیں، حضور اکرم sym-1کےجمال و جلال کی اسیر رہیں اور آپ sym-1ہی کے روئےزیبا کے دیدارِ فرحت آثار پوری زندگی پر فزت وربّ ِالکعبۃ کا نعرہ مارتے ہوئے بلا خوف و ہچکچاہٹ جام شہادت نوش فرمالیتے۔ چشم فلک نے محبت و فدائیت کے ایسے واقعات کبھی نہ دیکھے تھے اور نہ ہی حضور sym-1جیسا پیکر حسن و جمال دیکھا تھا۔

اہل ِ اسلام کی خوش نصیبی ہے کہ محدثین اور سیرت نگاروں کی کاوشوں سے وہ تمام احادیث جن میں آپ sym-1کے حسن و خلق و خلق کا ذکر ہے ان کو محفوظ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

`


  • 1  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص: 12
  • 2  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 314، مطبوعۃ: دارالحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء ، ص: 150
  • 3  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص: 606
  • 4  عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین سیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص : 309
  • 5  عبد الملک بن محمد بن ابراہیم، شرف المصطفیٰﷺ ،ج-2،مطبوعۃ:دارالبشائر الاسلامیۃ،مکۃالمکرمۃ، السعودیۃ، 1424ھ، ص: 104
  • 6  محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:241
  • 7  شاہ ولی اﷲ، الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ الشیخ،کراتشی، باکستان، 1410ھ، ص: 161
  • 8  محمد مہدی بن احمد بن علی یوسف، مطالع المسرات، مطبوعۃ: مکتبۃنوریۃرضویۃ، لاہور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 394
  • 9  احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، حدیث:746 ، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 143- 144
  • 10  علاؤ الدین علی متقی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، حدیث: 1656، ج-7، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص: 172
  • 11  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج- 1، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)،ص: 29-28
  • 12  احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، حدیث : 746، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 143-144
  • 13  نور الدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث: 5782، ج -9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002ء، ص: 3700
  • 14  ایضًا:حدیث :5790 ، ص:3704
  • 15  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب ،ج -5،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:240
  • 16  القرآن، سورۃ النور 35: 24
  • 17  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:13
  • 18  ایضاً
  • 19  شہاب الدین محمود بن عبداﷲ آلوسی، تفسیر روح المعانی، ج-9، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت ،لبنان، 1415ھ، ص:363
  • 20  قاضی محمد ثناء اﷲ المظہری، التفسیر المظہری، ج -6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشیدیۃ ،کراتشی، باکستان ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :5261-5262
  • 21  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:13-14
  • 22  شرف الدين البوصيرى، قصيدة البردة، مطبوعة: دار البيروتى، دمشق، السورية، 1426ھ، ص:227
  • 23  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:13-14
  • 24  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:381
  • 25  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:10
  • 26  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث :5848، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:1219
  • 27  ایضًا: حدیث:3549، ص :743
  • 28  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:9، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت ،لبنان، 1988، ص:14
  • 29  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3552، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ،مصر، 2003ء، ص:744
  • 30  احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج -4 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت ،لبنان ، 1416ھ، ص:688-689
  • 31  محمد فضیل بن فاطمی مغربی مالکی، الفجر الساطع علی الصحیح الجامع، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، 1430ھ، ص:328
  • 32  یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ حامدیۃ، لاہور ، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:253
  • 33  احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت ،لبنان، 1991ء،ص:249
  • 34  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:414، ج -22 ، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ، القاھرۃ ،مصر، ص :155-156
  • 35  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3555، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان ، المنصورۃ ،مصر،2003ء، ص:744
  • 36  ابو الفداءاسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1997ء ،ص :401
  • 37 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی ، دلائل النبوۃ ، ج-2 ، مطبوعۃ :دار النفائس ،بیروت، لبنان، 1986ء، ص:638
  • 38  ایضًا
  • 39  ایضًا
  • 40  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، 1996ء،ص:536
  • 41  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3556، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ،مصر2003ء، ص:744
  • 42  احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:300
  • 43  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج -5 ، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:257
  • 44  احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص 276-279
  • 45  عبداﷲ بن عبد الرحمن الدارمی، سنن الدارمی، حدیث:61، ج -1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع المملکۃ العربیۃ السعودیۃ ،2000ء،ص:204
  • 46  محمد بن یوسف صالحی شامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی القاھرۃ، مصر ، 1997ء ص:11
  • 47  یوسف بن اسماعیل النبہانی، الانوار المحمدیۃمن مواھب اللدنیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول، ترکی، 1014ء، ص:29
  • 48  احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:241
  • 49  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث :8943 ، ج -14، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت، لبنان 2001ء،ص:506
  • 50  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی القاھرۃ، مصر، 1997ء ص:11
  • 51  محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:318
  • 52  احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، ج-39، حدیث: 23797، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ،لبنان 2001ء، ص:215
  • 53  احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:199
  • 54  سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر، حدیث2518 ، ج -3 ، مطبوعۃ: مکتبۃابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر ، 1984ء،ص:18
  • 55  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:12
  • 56  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث :1754، ج -4، مطبوعۃ: مكتبة مصطفى بابى، مصر، 1975ء،ص :233
  • 57  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3549، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ،مصر، 2003ء، ص:743
  • 58  ايضًا:حدیث: 2820، ص:595
  • 59  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:241
  • 60  یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1998ء، ص:101
  • 61  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، ج -1، حدیث:121 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، ص :112
  • 62  یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:450
  • 63  حسان بن ثابت، دیوان حسان بن ثابت، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:21
  • 64  شیخ عبد الحق دھلوی، مدارج النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: نو لکشور، بھارت، (لیس التاریخ موجودا)، ص :137
  • 65  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، )لیس التاریخ موجودًا)، ص:9
  • 66  نور الدین علی بن سلطان القاری،الزبدۃ فی شرح البردۃ، مطبوعہ: قدیمی کتب خانۃ، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 67  عبد المحمود ابن الشيخ نور الدائم الطيبى، الشمائل المحمدية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:48
  • 68  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-1، مطبوعۃ: نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودا)، ص :10
  • 69  عبد العزیز الدباغ، الابریز، مطبوعۃ: طابع عبد الحمید الحنفی، مصر، (لیس التاریخ موجودا)، ص:271
  • 70  شیخ عبد الحق دھلوی، مدارج النبوۃ، ج -2، مطبوعۃ: نو لکشور، بھارت، (لیس التاریخ موجودا)، ص:771
  • 71  احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1991ء،ص:55
  • 72  محمد مہدی بن احمد بن یوسف فاسی، مطالع المسرات مطبوعہ: مکتبہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد، باکستان، (لیس التاریخ موجودا)، ص :129
  • 73  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی، مصر، ص:19
  • 74  علی بن برہان الدین حلبی،السیرۃ الحلبیۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1400ھ، ص :434
  • 75  شیخ عبد الحق دھلوی، شرح فتوح الغیب مطبوعۃ: نو لکشور بھارت،( سن اشاعت ندارد)،ص:340
  • 76  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج -1، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع،کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :10
  • 77  شہاب الدین احمد بن الحجر الہیتمی، اشرف الوسائل الی فہم الشمائل، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص:32
  • 78  ابراہیم بن محمد بیجوری،المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی مصر، (لیس التاریخ موجودا)، ص:14
  • 79  احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1991ء،ص :248
  • 80  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیرﷺ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:27
  • 81  عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی، شرح الشمائل برحاشیہ جمع الوسائل، ج -1، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:22
  • 82  عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی، فیض القدر شرح الجامع الصغیر، ج -5، مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، 1356ھ، ص:71
  • 83  یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، 1998ء، ص:101
  • 84  عبداﷲ سراج الدین شامی، سیّدنا محمد رسول اﷲﷺ ، مطبوعۃ:مطابع الاصیل، حلب، سوریا، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:7
  • 85  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:4372، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص :904
  • 86  ابوبکر محمد بن الحسین الاجری،الشریعۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، 1990ء ،ص:1385
  • 87  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:15 ،مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ، مصر، 2003ء، ص:16
  • 88  ایضًا:حدیث:16
  • 89  القرآن، سور التوبۃ24: 9
  • 90  عبداﷲ سراج الدین شامی، سیّدنا محمد رسول اﷲﷺ ، مطبوعۃ:مطابع الاصیل حلب سوریا، (لیس التاریخ موجودا)، ص:6
  • 91  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت لبنان، 1998ء ، ص:12-11

Powered by Netsol Online