Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

جسمِ اطہر کی خوشبو

Published on: 07-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 7، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 206-219)

رسول اکرم sym-1کی تخلیق اللہ رب العز ت کی تمام مخلوقات میں سب سے احسن و اجمل و ارفع ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تباک وتعالی نے قرآن مجید فرقان حمید مین جابجا کئی مقامات پر نبی اکرم sym-1کے اعضاء بدنی کا تذکرہ فرمایاہے۔نبی محتشم sym-1کا ہر ہر عضو بے نظیر و بے مثال ہے اور آپ sym-1کا ہر وصف تما م اوصاف سے بڑھ کر حسین و جمیل ہے۔حضور نبی کریم sym-1کے جسم اطہر کے جملہ اوصاف حسینہ میں سے ایک وصف جمیل یہ بھی ہے کہ آپ sym-1کا بدن مبارک خوشبودار تھا،اگرچہ کہ کثرت کے ساتھ خوشبو استعمال فرماتے تھے لیکن خوشبو کی محتاجی نہ تھی۔ آپ sym-1کے جسم ِاقدس کی خوشبو اتنی نفیس و دلربا تھی کہ اس کو ایک بار سونگھنے والا زندگی بھر کے لیے اس کا گرویدہ ہوجاتا۔ جہاں آپ sym-1خوشبوکو پسند فرماتے وہیں آپ sym-1کے بدن مبارک سے بھی نہایت نفیس خوشبو پھوٹتی تھی جس سے صحابہ کرام کا مشام جاں معطر رہتا۔ جسمِ اطہر کی اپنی خوشبو ہی اتنی نفیس تھی کہ کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہ تھی۔ دنیا کی ساری خوشبوئیں جسمِ اطہر کی خوشبوئے دلنواز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں ۔

جسمِ مبارک ولادت سے ہی خوشبو میں رچا بسا ہوا تھا

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ sym-1کے جسم اطہر کو خوشبودار ہونےکا اعجاز بعد کے کسی دور میں نہیں بلکہ آپ sym-1کی ولادت کے وقت سے ہی حاصل تھا۔امام ابونعیمsym-4اور امام خطیب بغدادیsym-4نے حضور نبی کریم sym-1کی والدہ ماجدہ سیّدہ حضرت آمنہsym-6 کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اﷲ sym-1کا اس کائنات میں ظہور ہواتو نبی کریم sym-1کی والدہ ماجدہ سیّدہ حضرت آمنہ sym-6نے اس وقت کے حالات یوں بیان فرمائے:

نظرت الیه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا ھو كالقمر لیلة البدر وریحه یسطع كالمسك الاذفر.1
میں نے حضور sym-1کی زیارت کی تو میں نے آ پ sym-1کے جسم اطہر کو چودھویں رات کے چاند کی طرح پایا جس سے تروتازہ کستوری کی خوشبو کے حلے پھوٹ رہے تھے۔

اسی طرح آپ sym-1کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہsym-6 بیان کرتی ہیں:

لما دخلت به الى منزل لم یبق منزل من منازل بنى سعد الا شممنا منه ریح المسك والقیت محبته صلى اللّٰه علیه وسلم فى قلوب الناس حتى ان احدھم كان اذا نزل به اذى فى جسده اخذ كفه صلى اللّٰه علیه وسلم فیضعھا على موضع الاذى یتبرأ باذن اللّٰه تعالىٰ سریعا وكذلك اذا اعتل لھم بعیرا او شاة فعلوا ذلك.2
جب میں آپ sym-1کو لے کر اپنے گھرمیں داخل ہوئی تو قبیلہ بنی سعد کے تمام گھروں میں کستوری کی خوشبو آنے لگی۔ لوگوں کے دلوں میں آپ sym-1کی محبت اس قدر پیدا ہوگئی کہ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ sym-1کے دستِ اقدس کو پکڑ کر اپنے جسم پر لگاتااور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وہ فی الفور صحت مند ہوجاتا۔ اسی طرح ان کا اگر کوئی اونٹ بکری وغیرہ بیمار ہوجاتا تو آپsym-1کے دستِ اقدس کو اس کے جسم پر لگاتے جس سے وہ تندرست ہوجاتا۔

امام بیہقیsym-4کی روایت میں ہے کہ سیّدہ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں:

یعلم اللّٰه منزلا من منازل من بنى سعد بن بكر الا وقد شممنا منه ریح المسك الاذفر.3
اﷲ بہتر جانتا ہے کہ میں جس جس گھر میں ان کو لے کر گئی وہیں وہیں کستوری کی تیز خوشبو ان سے ہم نے محسوس کی۔

حضرت ابوطالب sym-5کا بارگاہِ رسالت مآب sym-1میں خراجِ عقیدت

امام فخر الدین رازیsym-4اپنی مشہور تفسیر رازی میں حضرت ابوطالب sym-5کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے بھائی حضرت عباس sym-5کو کہاکہ آپ کو میں وہ بات نہ بتاؤں جو میں نے(سیّدنا) محمد (sym-1) سے دیکھی ہے۔حضرت عباس sym-5نے کہا کہ ہاں مجھے ضرور بتائیں اس پر حضرت ابو طالب sym-5نے درج ذیل واقعہ بیان کیا:

جب سے حضور نبی کریم sym-1میرے پاس آئے ہیں مجھے آپ sym-1سے اتنی محبت ہوگئی ہے کہ میں رات اور دن میں ایک گھڑی بھی ان سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا حتی کہ رات کو بھی میں آپ sym-1کو اپنے پاس سلاتا ہوں ۔ آپ sym-1کی عادت مبارکہ تھی کہ (بیرونی) کپڑے پہن کر سوتے تھے اور(بیرونی)کپڑے اتارکر سونا بھی آپ sym-1کو بالکل بھی پسند نہ تھا۔ایک رات میں نے کہا کہ آپ(بیرونی)کپڑے اتار دیں اور پھر سوئیں تو میں نے آپ sym-1کے چہرۂ اقدس سے محسوس کیا کہ یہ بات آپsym-1کو پسند نہیں لیکن چونکہ میری بات کو آپ sym-1ٹالنا بھی نہ چاہتے تھےتوآپ sym-1نے فرمایا:اے چچا میں (بیرونی)کپڑے اتارتا ہوں مگر اپنے چہرے کو دوسری طرف کرلیجیے تاکہ میرے ننگے جسم کو آپ نہ دیکھ پائیں کہ میرے جسم کو (اس حال میں بھی ) دیکھنا کسی کے لیے جائز نہیں۔حضرت ابوطالبsym-5 کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا مگر میں نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا تاکہ یہ کپڑے اتارلیں۔ جب آپ sym-1کپڑے اتار کر بستر پر لیٹےتومیں بھی بستر پر لیٹالیکن۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا ہے۔آپsym-5 ایک اور بات کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

واللّٰه ما ادخلته فراشى فاذا ھو فى غایة اللین و طیب الرائحة كانه غمس فى المسك.4
                         ترجمہ:.... خدا کی قسم جب میں انہیں اپنے بستر پر لٹاتا تو آپ sym-1کا جسم اطہر نہایت ہی نرم و نازک اور اس طرح خوشبو دار تھا جیسے وہ کستوری میں ڈبویا ہوا ہے ۔

مدینۃ المنورۃ کی معطر گلیاں

حضور نبی کریم sym-1کے جسم اطہر کو اﷲ تعالیٰ نے اس طرح خوشبو دار بنایا تھا کہ جس جگہ، گلی اورراستے سے آپ sym-1کا گذر ہوجاتا تو وہ خوشبو سے مہک اٹھتے۔ راہیں قدم بوسی کا اعزاز حاصل کرتیں اور خوشبوئیں جسمِ اطہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتیں۔بعد میں گزرنے والا ہر شخص یہ محسوس کرلیتا کہ اس راہ سے اﷲ تعالیٰ کے محبوب sym-1کا گذر ہوا ہے کیونکہ وہ ان راستوں پر ایسی خوشبو پاتا جو آپ sym-1ہی کے جسم اطہر کا حصہ تھی۔چنانچہ حضرت جابر sym-5اس کیفیت کا ذکر یوں کرتے ہیں:

ان النبى لم یسلك طریقا او لایسلك طریقا فیتبعه احد الاعرف انه قد سلكه من طیب عرفه او قال من ریح عرقه.5

حضور نبی کریم sym-1جس بھی راستے سے گزرتے تھے تو آپ کے پیچھے جانے والا کوئی بھی شخص آپ sym-1کی خوشبو یا پسینہ مبارک کی خوشبو سے جان لیتا تھا کہ آپsym-1وہاں سے گزرے تھے۔

نیز اسی طرح امام بخاریsym-4نے اس حدیث کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے

عن جابر لم یكن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یمر فى طریق فیتبعه احد الا عرف انه سلكه من طیب عرقه.6
حضرت جابر بن عبداﷲsym-5 بیان کرتے ہیں: حضور sym-1جس راستے سے بھی گزر تے بعد میں آنے والا شخص خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ ادھر سے حضور sym-1کا گزر ہوا ہے۔

اسی طرح"الاحادیث المختارۃ" میں حضرت انس sym-5کی حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مر فى طریق من طرق المدینة عرف بریح الطیب.7
ہم حضور sym-1کے طلوع فجر کے وقت مسجد میں داخل ہونے کو آپsym-1 کی مہکتی خوشبو سے پہچان لیتےتھے۔
قال ما كنا نعرف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الا بریح الطیب.8
ہم حضور sym-1کو آپ کی خوشبو سے ہی پہنچانتے تھے

حضرت عبداﷲ بن مسعودsym-8 کی حدیث مبارکہ کو امام ابن عدیsym-4نے اس سند اور ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

عن عبداللّٰه قال: كنا نعرف رسول صلى اللّٰه علیه وسلم دخوله مع طلوع الفجر الى المسجد بریح الطیب.9
ہم حضور sym-1کے طلوع فجر کے وقت مسجد میں داخل ہونے کو آپ sym-1 کی مہکتی خوشبو سے پہچان لیتےتھے۔

اس حدیث مبارکہ کو امام دارمیsym-4نے مرسلاً اس سند اور ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

عن ابراھیم قال: كان رسول صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف باللیل بریح الطیب.10
حضرت ابراہیم بیان کرتے ہیں: نبی کریم sym-1کی خوشبوکی مہک کی وجہ سے رات کے وقت بھی آپ کو پہچان لیا جاتا تھا۔

اسی طرح امام ابو یعلی الموصلیsym-4روایت کرتے ہیں:

عن انس قال :كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مر فى الطریق من طرق المدینة وجد منه رائحة المسك قالوا: مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى ھذا الطریق الیوم.11
حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں : جب رسول اﷲ sym-1مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستے سے گزرتے تو اس راستے سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور لوگ کہتے تھے کہ: رسول اﷲ sym-1اسی راستے سے گزرے ہیں۔

امام ابن حجر عسقلانیsym-4لکھتے ہیں:

وروى ابو یعلى والبزار باسناد صحیح.12
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور امام بزاررحمہما اﷲنے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

معطر جسم اور حدیث ثُنائی

رسول اکرم sym-1کا جسم اطہر انتہائی معطر تھا۔امام ابو حنیفہsym-5نے ایک حدیث ثُنائی اس حوالہ سےروایت کی ہے۔ یہ حدیث مبارکہ امام اعظم sym-5کی ثنائیات میں شمار ہوتی ہے جس کی سند میں حضور نبی کریم sym-1تک صرف دو واسطے ہیں۔ اول تابعی ہیں اور پھر صحابی ۔یعنی پہلے راوی ابو زبیرsym-4تابعی ہیں اور دوسرے جلیل القدر صحابی رسول sym-1حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری sym-8ہیں۔چنانچہ مسند میں منقول ہے:

عن ابى حنیفة عن ابى الزبیر عن جابر قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف بریح الطیب اذا اقبل من الییل.13
حضرت امام ابو حنیفہsym-4ابو الزبیر سے وہ حضرت جابر sym-4سے روایت کرتے ہیں کہ :نبی پاک sym-1جب رات کو تشریف لاتے تو آپ کی مبارک خوشبو سے ہم آپ کو پہچان لیتے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں منقول ہے:

عن عبداللّٰه بن مسعود ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یعرف باللیل اذا اقبل الى المسجد بریح الطیب.14
وہ حضرت عبداﷲ بن مسعود sym-8سے مروی ہے کہ رسول اﷲ sym-1رات کو جب مسجد میں تشریف لاتے تو اپنی پاکیزہ خوشبوسے پہچان لیے جاتے تھے۔

خوشبومبارک گویا جسمِ اطہر کا جز تھی

حبیبِ خدا سیّد الانبیاء sym-1کا جسد مبارک ساری مخلوق سے اعلیٰ ،افضل، اطیب، اطہر اوراکرم ہے تو اسی وجہ سے حبیب خدا sym-1کے جسم پاک کا اعجاز اور کمال بھی سب سے اعلیٰ وافضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شفیع اعظم رحمتِ دو عالم sym-1کے جسم پاک سے ہر وقت ایسی خوشبو مہکتی تھی کہ جہاں کی کوئی خوشبو اس خوشبو مبارک کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ مہک اور خوشبو آپ sym-1کے جسمِ اطہر کی تھی نہ کہ استعمال کردہ خوشبو کی۔ کیونکہ آپ sym-1اس خوشبو کے محتاج نہ تھے بلکہ آپ sym-1خوشبو استعمال نہ بھی فرماتے تو پھر بھی یہی کیفیت رہتی۔چنانچہ امام نووی sym-4لکھتے ہیں کہ اﷲ رب العزت نے آپ sym-1کو جن خصوصیات سے نوازا ان میں سے آپ sym-1کے جسمِ اطہر کا خوشبو دار ہونا بھی شامل ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

كانت ھذه الریح الطیبة صفته وان لم یمس طیبا.15
پاکیزہ مہک حضور sym-1کے جسم اطہر کی صفات میں سے تھی اگرچہ حضور sym-1نے خوشبو استعمال نہ بھی فرمائی ہوتی۔

محدث امام اسحاق بن راہویہ sym-4فرماتے ہیں:

ان ھذه الرائحة الطیبة كانت رائحة رسول اللّٰه من غیر طیب.16
یہ پیاری مہک آپ sym-1کے جسمِ اطہر کی تھی نہ کہ اس خوشبو کی جسے آپ sym-1استعمال فرماتے تھے۔

امام خفاجی sym-4حضور sym-1کی اس منفرد خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

یجد المصافح من طیب یده...ریحھا الطیبة طبعیا خلقیا خصه للّٰه به مكرمة ومعجزة لھا.17
آپ sym-1سےمصافحہ کرنےوالےکو آپ sym-1کےہاتھ مبارک سےخوشبوملتی۔۔۔ اﷲ تعالیٰ نے بطور کرامت ومعجزہ آپ sym-1کے جسمِ اطہر میں خلقتاً اور طبعاً مہک رکھ دی تھی۔

اسی طرح شیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4لکھتے ہیں:

یکے از طبقات عجیب آنحضرت طیب ریح است كه ذاتى وے صلى اللّٰه علیه وسلم بود بى آنكه استعمال طیب از خارج كند و ھیچ طیب بداں نمى رسد.18

حضور sym-1کی مبارک صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بغیر خوشبو لگائے حضور sym-1کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو آتی جس کا مقابلہ کوئی خوشبو نہیں کرسکتی۔

اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوریsym-4فرماتے ہیں:

وقد كان صلى اللّٰه علیه وسلم طیب الرائحة وان لم یمس طیبا كما جاء ذلك فى الاخبار الصحیحة لكنه كان یستعمل الطیب زیادة فى طیب الرائحة.19
احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جناب رسالت مآب sym-1 کے جسمِ اطہر سے خوشبو کی دلآویز مہک بغیر خوشبو لگائے آتی رہتی۔البتہ آپ sym-1خوشبو کا استعمال فقط خوشبو میں اضافہ کے لیے کرتے۔

خوشبوئے جسمِ اطہر sym-1وصال کے بعد

انسانی جسم سے جب روح پرواز کرجاتی ہے تو اس کے بعد وہ بے اختیار ہوجاتا ہے اور جسم کی تروتازگی بحال نہیں رہتی ۔ لیکن جسمِ مصطفوی sym-1کا یہ بھی امتیاز ہے کہ وصال کے بعد وہ نہ صرف تروتازہ رہا بلکہ اس کی وہ مہک بھی اسی طرح قائم رہی جس طرح قبل از وصال تھی۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت علی sym-5فرماتے ہیں:

غسلت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فذھبت انظر مایكون من المیت فلم اجد شیئا فقلت طبت حیا ومیتا وسطعت منه ریح طیبة لم نجد مثلھا قط.20
میں نے رسالت مآب sym-1کو غسل دیا۔ جب میں نے حضور نبی کریم sym-1کے جسمِ اطہر سے خارج ہونے والی کوئی ایسی چیز نہ پائی جو دیگر مُردوں سے خارج ہوتی ہے تو پکار اٹھا کہ اﷲ کے محبوب! آپ sym-1 ظاہری حیات اور بعد از وصال دونوں حالتوں میں پاکیزگی کا سرچشمہ ہیں۔ (غسل کے وقت) حضور sym-1کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو کے حلّے شروع ہوئے کہ ہم نے کبھی ایسی خوشبو نہ سونگھی۔

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:

فاح ریح المسك فى الیت لما فى بطنه.21
تمام گھر اس خوشبو سے مہک اٹھا جو آپ sym-1 کے شکم اطہر میں موجود تھی۔

شہر رسول ﷺمہک اٹھا

حضرت ملا علی قاری sym-4فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب شکم اطہر پر ہاتھ پھیرا تو:

انتشر فى المدینة.22
پورا مدینہ اس خوشبو سے مہک اٹھا۔

اسی طرح اُم المومنین حضرت ام سلمہsym-6 سے روایت ہے:

وضعت یدى على صدر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم مات فمر بى جمع آكل، واتوضا، ما تذھب ریح المسك من یدى.23
میں نے وصال کے بعد حضور نبی کریم sym-1کے سینۂ اقدس پر ہاتھ رکھا۔ اس کے بعد مدت مدت گزرگئی، کھانا بھی کھاتی ہوں، وضو بھی کرتی ہوں (یعنی سارے کام کاج کرتی ہوں) لیکن میرے ہاتھ سے مشک کی خوشبو نہیں گئی۔

اسی حوالہ سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہsym-6 فرماتی ہیں:

قالت: قبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وراسه بین سحرى ونحرى. قالت: فلما خرجت نفسه لم اجد ریحا قط اطیب منھا.24
جب حضور نبی کریم sym-1کا وصال شریف ہوا تو حضور نبی کریم sym-1میری گود میں تھے اور جب روح مقدسہ نے پرواز کی تو ایسی خوشبو مہکی کہ میں نے اس جیسی خوشبو کبھی نہیں پائی۔

حضرت علی sym-5سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم sym-1کی تدفین سے فارغ ہوچکے تو سیّدہ عالم حضرت فاطمہsym-6 قبر انور پر حاضر ہوئیں ۔چنانچہ اس حوالہ سے روایت میں منقول ہے:

فاخذت قبضة من تراب القبر فوضعته على عینھا وبكت وانشات:
ما ذا على من شم تربة احمد
ان لا یشم مدى الزمان غوالیا.25
انہوں نےتربتِ مبارک کی خاک اٹھاکر آنکھوں سے لگائی توآنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ نے یہ شعر پڑھا:جس شخص نے آپsym-1 کی تربت مبارک کی خاک کی خوشبو کو سونگھ لیا اسے اس کے بعد دنیا میں کسی خوشبو کی ضرورت نہیں رہتی۔

پسینہ مبارک کی خوشبو

رسول اکرم sym-1کے جسم اطہر سے تو خوشبو کے حلہ اٹھتے ہی تھے۔ساتھ ساتھ نبی اکرم sym-1کے پسینہ مبارک بھی خوشبودار تھا۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت فاروق اعظمsym-5 سے روایت ہے:

كان ریح عرق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ریح المسك بابى وامى لم ار قبله ولا بعده احدا مثله.26
حضور نبی کریم sym-1کے مبارک پسینے کی خوشبو مشک سے بڑھ کر تھی۔میرےماں باپ ان پرقربان حضور نبی کریم sym-1جیسا نہ کوئی آپ sym-1سے پہلے میں نے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔

حضور نبی کریم sym-1کا مبارک پسینہ کائنات ارض وسماوات کی ہر خوشبو سے بڑھ کر خوشبو دار تھا۔ خوشبوؤں کے جھرمٹ میں یہ خوشبو اعلیٰ اور افضل ترین تھی،پسینے کی خوشبو لاجواب اور بے مثال تھی۔چنانچہ حضرت انسsym-5 سے روایت ہے:

ولا شممت مسكة ولا عنبرة اطیب من رائحة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.27
میں نے رسول اﷲ sym-1سے زیادہ خوشبودار نہ کسی عنبر کو سونگھا نہ کسی مشک کو۔

تاجداد کائنات sym-1کے مبارک پسینے کا ذکرِ جمیل حضرت علیsym-5 ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

كان عرق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى وجھه اللؤلؤ وریح عرق رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اطیب من ریح المسك الاذفر.28
حضور نبی کریم sym-1کے چہرۂ انور پر پسینے کے قطرے خوبصورت موتیوں کی طرح دکھائی دیتے اور اس کی خوشبو عمدہ مشک سے بڑھ کر تھی۔

اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئےعلامہ خفاجیsym-4لکھتے ہیں:

انه طیب العنصر لكنه لما اتصل بالملا الاعلىٰ والجنان وھبت علیه نفحات القدس از داد وكان له صلى اللّٰه علیه وسلم طیب لایشبه طیب الدنیافله طیب ذاتى وطیب مكتسب من العالم القدس لایفارقه وھو اطیب الطیب.29
یہ مسلم ہے کہ آپ sym-1کا جسم اطہر خوشبو دار تھا لیکن معراج کے موقعہ پر جب آپ کا گزر ملاء اعلیٰ جنان سے ہوا اور تجلیات باری تعالیٰ کے انوار کی فضاؤں نے آپ sym-1کے جسمِ اطہر کومس کیا تو اب اس کی جھلک بھی دکھائی دیتی۔ حالانکہ پہلے بھی آپ sym-1کے جسم میں ایسی خوشبو تھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی خوشبو نہیں کرسکتی تھی ۔(گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ) آپ sym-1کے جسمِ اطہر میں دو طرح کی خوشبوئیں تھیں۔ ایک تو ذاتی (جو ولادت سے پہلے ہی موجود تھی)اور ایک کسبی جو عالم قدس و انوار کا مظہر تھی اور یہ خوشبو بھی پھر آ پ sym-1کے جسمِ اطہر کا حصہ بن گئی اور یہ خوشبو سب خوشبوؤں سے بڑھ کر تھی۔

یہ خوشبو مبارک دائمی تھی

رسول اللہ sym-1کی یہ خوشبو کوئی عارضی خوشبو نہیں تھی بلکہ دائمی تھی جو وصال کے بعد بھی اسی طرح ہے جس طرح وصال سے پہلے تھی۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ملا علی قاریsym-4فرماتے ہیں:

اعلم انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان طیب الریح دائما.30
جان لو! کہ آپ sym-1کی خوشبو ہمیشہ پاکیزہ تھی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ آپ sym-1جن راستوں سے گزرجاتے وہ آپ sym-1کے جسمِ اطہر کی خوشبو سے مہک اٹھتے تھے۔ اس پر اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت ہوسکتی ہے کہ آج چودہ سو سال گزرجانے کے باوجود مدینہ طیبہ کی سرزمین اور آب و ہوا اسی خوشبو سے معطر ہے ۔آج بھی مدینہ منورہ کے سبزہ زار اور درو دیوار سے ایسی دلآویز مہک اٹھتی محسوس ہوتی ہے جو امتی کے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔چنانچہ امام ابن بطال مالکیsym-4لکھتے ہیں:

واقام بھا یجد من تربتھا وحیطانھا رائحة طیبة.31
جس کو بھی مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوگی وہ اس شہر پاک کی مٹی اور در و دیوار سے ایک دلآویز خوشبو پائے گا۔

اسی طرح علامہ یاقوت حمویsym-4لکھتے ہیں:

ومن خصائص المدینة انھا طیبة الریح وللعطر فیھا فضل رائحة لا توجد فى غیرھا.32
مدینہ پاک کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی آب وہوا خوشبودار ہے اور وہاں کے عطر میں ایسی مہک ہوتی ہے جو اس کے علاوہ کہیں اور نہیں۔

کیونکہ اس کی آب وہو امیں خوشبوئے رسول sym-1ایسی رچ بس گئی ہے کہ ہر چیز پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔اسی طرح شیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4لکھتے ہیں:

بدانكه ھنوز از در و دیوار مدینه طیبه ارواح فالحیت كه محبان یشامه محبت آنرامى دریابند وشاید كه استشام شمه ازیں بشامه ذوق بعضى از جویاى مشتاق نیز رسیّده باشد.33
اب بھی مدینہ کے درد دیوار خوشبوؤں سے رچے بسے ہوئے ہیں اور اہل محبت اپنے شامہ محبت کے ذریعے ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اسی حوالہ سے بات کرتے ہوئےامام الاشبیلیsym-4بیان کرتے ہیں:

لتربة المدینة نفحة لیس طیبھا كما عھد من الطیب بل ھو عجیب من الاعاجیب.34
مدینہ کی مٹی میں ایک خصوصی مہک ہے ۔ایسی نہیں جیسی کسی بھی خوشبو میں ہوتی ہے بلکہ یہ عجائبات میں سے ہے۔

رسول کریم sym-1کے مقدس ہاتھ میں خوشبو

حضور sym-1کے تمام جسم اطہر کی طرح ہاتھ مبارک ہمیشہ خوشبودار رہتے بلکہ جو شئے آپ sym-1کے ہاتھ مبارک کو مس کرتی اس سے بھی کافی دیر تک خوشبو آتی رہتی۔چنانچہ حضرت وائل بن حجر sym-5سے مروی ہے:

لقد كنت اصافح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم او یمس جلدى جلده فأتعرقه فى یدى بعد ثالثة أطیب ریحا من المسك.35
میں حضور نبی کریم sym-1سے مصافحہ کرتا تھا یا آپ کی جلد میری جلد سے مس کرتی تھی ،میں ان کےپسینہ کواپنے ہاتھوں میں لےلیتاتھاتین رات بعد بھی اس سے مشک سےبھی عمدہ خوشبو آتی تھی۔

رسول اکرم sym-1کا لمس اور مہک

آپ sym-1کا جسمِ اطہر اس طرح خوشبودار تھا کہ اگر کسی بھی شخص کا جسم آپ sym-1کے ساتھ مس ہوجاتا تو اس میں بھی مہک پیدا ہوجاتی ۔مثلاً اگر کسی نے آپ sym-1سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی تو اس کے ہاتھوں میں خوشبو ہی خوشبو ہوتی۔ اگر آپ sym-1نے کسی کے جسم پر دست شفقت پھیر دیا تو اس کے جسم سے خوشبو آتی رہتی ۔جس بچے کے سر پر آپ sym-1اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیتے وہ اس کی برکت سے آنے والی خوشبو کی وجہ سے اس طرح دوسروں سے ممتاز ہوجاتاکہ ہر کوئی کہتا اس کے سر پر رسول اﷲ sym-1نے ہاتھ پھیرا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ sym-6 بیان فرماتی ہیں:

وكان كفه كف عطار مسھا طیب او لم یمسھا به یصافحه المصافح فیظل یومھا یجد ریحھھا ویضع یده على راس الصبى فیعرف من بین الصبیان من ریحھا من رائحه.36
آپ sym-1دنیوی خوشبو استعمال فرمائیں یا نہ فرمائیں آپ sym-1کے مبارک ہاتھ ہر وقت اس طرح خوشبو دار رہتے جس طرح کسی عطار(خوشبو بیچنےوالے) کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص آپ sym-1سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرلیتا تو تمام دن اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی۔ اسی طرح اگر آپ sym-1کسی بھی بچے کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیتے تو وہ بچہ اس کی خوشبو سے تمام بچوں سے ممتاز ہوجاتا۔

اسی حوالہ سے امام بخاری sym-4روایت کرتے ہیں:

قال: فاخذت بیده فوضعتھا على وجھى فاذا ھى ابرد من الثلج واطیب رائحة من المسك.37
(راوی حضرت ابو جحیفہ ) بیان کرتے ہیں: میں نے بھی حضور sym-1کے دست اقدس مبارک کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا تو حضور sym-1کا مبارک ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔

رسول اکرم sym-1کی خوشبو اور صحابیsym-5

حضرت عتبہ بن فرقد sym-5صحابی رسولsym-1کے بارے میں ان کی اہلیہ ام عاصم sym-6سے مروی ہے کہ ہم عتبہ sym-5کی چار بیویاں تھیں اور سب ایک دوسرےسے بڑھ کر زیادہ اور اچھی خوشبو استعمال کرتیں۔ اس کے باوجود عتبہ sym-5 کے جسم کی خوشبو ہماری خوشبو پر غالب رہتی تو ہمارے پوچھنے پر حضرت عتبہ sym-5 نے یہ واقعہ سنایا:

اخذنى شراء على عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاتیته فشكوت ذلك الیه فامرنى ان اتجرد فتجردت وقعدت بین یده والقیت ثوبى على فرجى فنفث فى یده و مسح ظھرى وبطنى فعقب بى ھذا الطیب من یومئیذ.38
میرے جسم پر رسالت مآب sym-1کی ظاہری حیات میں پھنسیاں نکل آئیں میں نے آپ sym-1کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر ان کے بارے میں عرض کیا۔ آپ sym-1نے مجھے کپڑے اتارنے کا حکم دیا ،میں نے کپڑے اتارے اور ستر ڈھانپ کر آپ sym-1کے سامنے بیٹھ گیا ۔آپ sym-1نے اپنے دست مبارک پر دم فرماکر میری پشت اور پیٹ پر پھیرا ۔ اسی دن سے میرا جسم اس عمدہ خوشبو سے لبریز رہتا ہے۔

کسی شے یا مادی چیز میں خوشبو کا ہونا عقلاً، نقلاً اور مشاہدۃً ایک بدیہی امر ہے۔ مثلاً پھول، پتے، ٹہنیاں، پودے اور ہرن کے نافہ میں مشک وغیرہ ایسا معاملہ ہے جس کو ہر شخص سونگھ اور محسوس کرسکتا ہے۔ دنیا کی تمام خوشبوئیں مادی اشیاء سے ہی حاصل کی جاتی ہے خواہ ان کو براہ راست حاصل کیا جائے یا باالواسطہ، اس لیے دنیاوی طور پر کسی بھی چیز سے کشید کرکے اگر خوشبو حاصل کرلی جائے تو اس پر کسی قسم کی حیرت و اسعتجاب کا معاملہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے اپنے مقرب بندوں کو ظاہرا ًو باطناً اتنا نظیف، پاک اور طیب و طاہر بنایا ہے کہ ایک طرف ان سے ہر قسم کی کثافت و نجاست کو دور کیا دوسری طرف ان کے مقدس اجسام مبارک کو انتہائی خوشبودار بنایا۔


  • 1  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-1، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:215
  • 2  ایضاً، 1993ء، ص:387
  • 3  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:142
  • 4  محمد بن عمر بن حسن فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب التفسیر الکبیر، ج -31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:196
  • 5  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:66 ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 6  محمد بن اسماعیل بخاری، التاریخ الکبیر، حدیث، 1273 ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:399
  • 7  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الواحد حنبلی المقدسی،الاحادیث المختارۃ، حدیث: 2560 ، ج -7 ، مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1410ھ ،ص :129-130
  • 8  عبداﷲ بن عدی بن عبداﷲ الجرجانی، الکامل فی ضعفاء الرجال ، حدیث: 1218، ج -5 ، مطبوعۃ: دار الفکر ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:48
  • 9  ایضًا: ص:210
  • 10  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث: 65 ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 11  احمد بن علی بن المثنی ابو یعلی الموصلی، مسند ابو یعلی، حدیث: 3125 ، ج -5 ، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:433
  • 12  ابن حجر عسقلانی شافعی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج -6 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان (لیس التاریخ موجودًا)، ص :573-574
  • 13  ابو محمد عبداﷲ بن محمد بن یعقوب حارثی، مسند ابی حنیفۃ للحارثی، حدیث: 44 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 2008ء، ص:29
  • 14  ابو محمد عبداﷲ بن محمد بن یعقوب حارثی، مسند ابی حنیفۃ للحارثی، حدیث: 871 ، ج -1، مطبوعۃ: المکتبۃ الامدادیۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2010ء، ص :487-488
  • 15  ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی، شرح صحیح مسلم للنووی، ج -2 ، مطبوعۃ: قدیمی کتب خانہ کراتشی، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:256
  • 16  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:88
  • 17  احمد بن محمد بن عمر خفاجی ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -2 ، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 13
  • 18  الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج -1 ، مطبوعہ: منشی لول کشور ،بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:29
  • 19  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:109
  • 20  قاضی عیاض بن موسی مالکیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:89
  • 21  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص:169
  • 22  ایضًا
  • 23  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -7 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:219
  • 24  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 24905 ، ج -41 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:391
  • 25  محب الدین ابو عبداﷲ محمد بن محمود ابن النجار، الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ، مطبوعۃ: شرکۃ دار الارقم بن ابی الارقم، المکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:139
  • 26  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:85
  • 27  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 2330، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 2000ء، ص:1027
  • 28  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:86
  • 29  احمد بن محمد بن عمر خفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:12
  • 30  علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2 ، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 31  علی بن خلف ابن بطال، شرح صحیح البخاری لابن بطال، ج-4 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ،الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص :544-555
  • 32  شہاب الدین ابو عبداﷲ یاقوت الحموی، معجم البلدان ، ج -5 ، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995ء، ص:87
  • 33  الشیخ عبد الحق دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج -1 ، مطبوعۃ: منشی لولکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:24
  • 34  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:290
  • 35  سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر، حدیث : 68 ، ج -22 ، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:30
  • 36  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:85
  • 37  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3553 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع،الریاض،السعودیۃ، 2000ء، ص:597
  • 38  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث : 98 ، ج-1 ،مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاھرۃ، مصر ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:77

Powered by Netsol Online