Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

کاندھائے مصطفٰی ﷺ

Published on: 12-Dec-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، ڈاکٹر عمران خان، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 53، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 788-790)

نبی اکرم sym-1سر تاپا اللہ تبارک وتعالی کی وحدانیت کی دلیل ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یقین ہوجاتا تھا کہ ان کا پیغام صدق وصفا پر مبنی ہے۔ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اللہ تبارک وتعالی نے آپ sym-1کو حسن وجمال کا عظیم الشان پیکر رعنا بنایا تھا۔اسی طرح اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضور sym-1کے کندھوں کو بھی باکمال شان عطا فرمائی تھی۔ آپ sym-1کے کندھے مبارک جسم اطہر کی مناسبت کے لحاظ سے انتہائی موزوں مضبوط اور پُر گوشت تھے۔امام فخر الدین رازی sym-4فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو جہل حضور sym-1کو پتھر مارنے کے ارادہ سے آیا تو :

راى على كتفیه ثعبانین فانصرف مرعوبا.1
اس نے دوش اقدس پر دو بڑے بڑے اژدھے دیکھے تو ڈر کر بھاگ گیا۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس وقت واقعتاً وہ دونوں اژدھے مجسم صورت میں آپ sym-1کے کندھوں پر موجود تھے بلکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ sym-1کی حفاظت کا خدائی انتظام تھا کہ قتل کے ارادہ سے آنے والا یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر ڈر کر بھاگ گیا۔

مبارک کندھوں کی قوت و طاقت

حضرت علیsym-5 فرماتے ہیں رسول اﷲ sym-1مجھے اپنے ہمراہ لے کر چل دئیے اور کعبۃ اﷲ میں لے گئے پھرآپ ﷺنے مجھ سے فرمایا:

اجلس فجلست الى جنب الكعبة فصعد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بمنكبى ثم قال لى انھض كھضت فلما راى ضعفى تحته قال لى اجلس فنزلت وجلست ثم قال لى یا على اصعد على منكبى فصعدت على منكبیه ثم نھض بى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما نھض بى خیل الى لو شئت نلت افق السماء فصعدت فوق الكعبة وتنحى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال لى الق صنمھم الاكبر صنم قریش وكان من نحاس موتدا باوتاد من حدید الى الارض فقال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عالجه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول لى ایه ایه جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل كان زھوقا فلم ازل اعالجه حتى استمكنت منه فقال اقذفه فقذفته فتكسر وتردیت من فوق الكعبة فانطلقت انا والنبی صلى اللّٰه علیه وسلم نسعى وخشینا ان یرانا احد من قریش وغیرھم قال على فما صعد به حتى الساعة.ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه.2
بیٹھ جاؤ، میں کعبہ کے پہلو میں بیٹھ گیا رسول اﷲ sym-1میرے کندھوں پر سوار ہوگئے اور مجھے فرمایا اٹھو! میں اٹھا۔لیکن جب آپ sym-1نے میری کمزوری اور ضعف کو دیکھا تو مجھے فرمایا بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا، پھر آپ sym-1نے مجھ سے کہا اے علی ! تم میرے کندھوں پر چڑھو، میں آپ sym-1کے کندھوں پر چڑھ گیا، پھر رسول اﷲ sym-1نے مجھے اوپر اٹھایا ۔جب آپ sym-1نے مجھے اوپر اٹھالیا (تو اس قدر بلند ہوچکا تھا کہ ) مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو آسمان کے کناروں کو ہاتھ لگا سکتا ہوں۔ پھر میں کعبہ کے اوپر چڑھ گیا اور رسول اﷲsym-1نیچے سے ہٹ گئے۔ پھر آپsym-1نے مجھے فرمایا ان کے بڑے بت کو گراؤ۔ وہ قریش کا بت تھا جو تانبے کا بنا ہوا تھا اور لوہے کی کیلوں کے ساتھ زمین کے ساتھ ٹھونکا ہوا تھا۔ مجھے رسول اﷲ sym-1نے فرمایا اس کا علاج کردو اور رسول اﷲ sym-1مجھے کہہ رہے تھے اور کرو اور کرو: حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا‘‘میں اس کو مسلسل توڑتا رہا حتیٰ کہ اس کو زمین سے اکھیڑ ڈالا، آپ sym-1نے فرمایا اس کو پھینک دو، میں نے اس کو پھینک دیا تو وہ ٹوٹ گیا اور میں نے کعبہ کے اوپر سے نیچے چھلانگ لگادی پھر میں اور نبی کریم sym-1تیز تیز چلتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کیونکہ ہمیں خدشہ تھا کہ قریش یا دوسرے قبیلے کا کوئی آدمی ہمیں نہ دیکھ لے۔حضرت علی sym-5 فرماتے ہیں:آج تک رسول اﷲ sym-1نے اور کسی کو (اپنے کندھوں پر) نہیں چڑھایا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریsym-4 اور امام مسلمsym-4 نے اس نقل نہیں کیا۔

حضرت علی sym-5فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے بت کو توڑنے کے لیے مجھ کو کندھوں پر چڑھایا تو ان کندھوں کی قوت کا یہ عالم تھا کہ :

انى لو شئت نلت افق السماء.3
اگر میں چاہتا تو میں آسمان کے کنارے تک پہنچ جاتا۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4 لکھتے ہیں:

زمین پر اترتے ہی حضرت علی sym-5نے مسکرانا شروع کردیا۔حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا اے علی کس بات پر ہنس رہے ہو؟عرض کیا: یا رسول اﷲ میں نے اتنی بلند جگہ سے چھلانگ لگائی مگر مجھے چوٹ نہیں آئی۔ اس پر حضور نبی کریمsym-1 نے فرمایا:

چگونه الم بتور سید وحال آنكه بردارنده تو محمد باشد وفرود آرندہ تو جبریل.4
تجھے چوٹ کیسے لگتی حالانکہ تجھے اوپر لے جانے والا میں تھا اور نیچے لانے والا جبریل امین۔

ابن سبع اور رزین آپ sym-1کے خصائص کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

انه كان اذا جلس یكون كتفه اعلى من جمیع الجالسین.5
کہ جب آپ sym-1لوگوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ sym-1کا کندھا مبارک سب سے اونچا ہوتا۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کے کاندھے مبارک انتہائی مضبوط اور توانا تھے اور آپsym-1ان مضبوط کاندھوں کے ساتھ نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔

انسانی جسم میں سر کے بعد دھڑ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر اعضائے رئیسہ انسانی وجود میں دھڑ کے حصہ میں ہوتے ہیں اور یہ حصہ کاندھوں سے شروع ہوتا ہے ۔ آپ sym-1کے کاندھے مبارک مضبوط اور خوبصورتی کے ساتھ بھرے ہوئے تھے، کمزور اور پتلے ہرگز نہ تھے۔ کیونکہ کمزور کاندھے عموماً کمان کے دونوں کناروں کی مانند اٹھ جایا کرتے ہیں اور جسمانی رعب و دبدبہ اور بدنی خوبصورتی وجاہت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ جبکہ آقا کریم sym-1 کے کاندھے مبارک پر ازگوشت تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہایت مضبوط بھی تھے۔ اس سے زیادہ کیا مضبوطی کا تصور ہوسکتا ہے کہ حضرت علیsym-5 جیسے مضبوط جسم کی شخصیت آپ sym-1کے کاندھے مبارک پر سوار ہو اور آپ sym-1کے لیے ان کو اٹھانا قطعاً دشوار محسوس نہ ہو۔ یہی وہ کاندھے تھے جن پر معنوی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے بارِ نبوت و کارِ رسالت کا نہایت مہتم باالشان بوجھ رکھ کر ان مبارک کاندھوں کی قوت کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط کردیا تھا ۔ سلام ہو آپ sym-1کی عظمت و شان اور مبارک کا ندھوں پر۔


  • 1  احمد بن عمر بن حسن فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب التفسیر الکبیر ،ج- 32، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ﻫ، ص: 314
  • 2  ابو عبدﷲ محمد بن عبدﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 3387، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :398
  • 3  ابوبکر بن ابی شیبہ الکوفی، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث: 36907، ج -7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409ﻫ، ص :403
  • 4  الشیخ عبد الحق الدھلوی ، مدارج النبوۃ، ج -2، مطبوعۃ: منشی لولکشور، ھند، (لیس التاریخ موجوداً )، ص :291
  • 5  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً )، ص:116

Powered by Netsol Online