encyclopedia

لعاب مصطفٰی ﷺ

Published on: 22-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 50، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 666-746)

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سراپا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عالمین کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ہر لمحہ خلق خداوند سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت و برکت کا امین ہے۔جس کی سب سے واضح دلیل قرآن مجید میں موجود سورۃ الانفال کی آیت کریمہ ہے۔1 لہٰذا جو ذات قدسی اس شرف و عظمت کی حامل ہو اس کی ذات مقدس سر تاپا امن وسکون ،سلامتی و راحت کا باعث ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن بھی حیرت انگیز کمالات وبرکات کا حامل تھا۔

لعاب (آب دہن) ایک قسم کا فضلہ ہے جو زبان کی جڑ کے نیچے کے دو سوراخوں سے منہ میں آتا رہتا ہے تاکہ زبان اور منہ ہر وقت تر رہے۔ ہر چند کہ یہ ایک فضلہ ہے لیکن نہایت کار آمد ہے۔ چونکہ یہ زبان کی جڑ سے پیدا ہوتا ہے اور پیغمبران خدا کی زبان ،وحی الٰہی کی مبلغ ہوتی ہے اس لئے اس میں یمن وبرکت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تسبیح و تہلیل ،ذکر واذکار، تلاوتِ قرآنِ مجید اور درود شریف میں مشغول رہنے، خطبہ وتذکیر، خلق اﷲ کو ارشاد وہدایت اور تفسیر و حدیث کی تدریس میں لگے رہنے سے بزرگان دین کے لعاب و دم میں بھی برکت پیدا ہوجاتی ہے اور ان سے بیمار شفا پاتے ہیں۔جب یہ اولیاء امت کا حال ہے تو نبیِ امت سید الانبیاء Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب اقدس کی برکات و ثمرات و خیرات کا اندازہ بلاشبہ قیدِ بیان سے وراء ہے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن زخمیوں اور بیماریوں کے لیے شفاء اور زہروں کے لیے تریاق اعظم تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب ِدہن خوشبو دار اور نہایت ہی مہک دار تھا اسے اگر مریض استعمال کرتا تو شفا پاتا اور اگر غمگین شخص اس سے برکت حاصل کرتا تو غم خوشی سے بدل جاتا، زخم پر لگانے سے زخم مندمل ہوجاتا، جس کے منہ میں وہ جاتا اس سے خوشبوآتی، جس پانی کو اس سے برکت حاصل ہوجاتی تو اگر وہ کھارا ہوتا تو میٹھا ہوجاتا اور اس میں خوشبو ومہک پیدا ہوجاتی ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعابِ دہن کی برکات کے واقعات بلامبالغہ سینکڑوں ہیں۔ مثلاحضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho کے پاؤں مبارک میں غارثور کے اندر سانپ نے کاٹا اور اس کا زہر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن مبارک سے اتر گیا اور زخم اچھا ہوگیا۔2 حضرت علی Radi Allah Anho کے آشوب چشم کے لیے یہ لعابِ دہنِ مبارک شفاء العین بن گیا۔3 حضرت خبیب بن فدیک کی آنکھوں کی روشنی اس لعاب ِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وجہ سے واپس لوٹ آئی۔4

مہکتا لعابِ مبارک

اگر انسان مسواک نہ کرے تو اس کے منہ سے سانس کی صورت میں جو ہوا باہر آتی ہے وہ ہر بدبو سے زیادہ بدبو دار ہوتی ہے، اور اگر مسواک کی پابندی کرے تو اگرچہ اس کے منہ سے بدبو نہیں آتی تاہم خوشبو بھی نہیں آتی۔ کیونکہ مسواک کا کام صرف بدبو کو ختم کرنا ہے خوشبو پیدا کرنا نہیں۔ لیکن رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دہن اقدس سے نکلے ہوئے سانس اور لعاب کی خوشبو بہتر سے بہتر عطر سے بھی زیادہ عمدہ تھی۔ چنانچہ حضرت انس Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

صحبت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عشر سنین وشممت العطر كله فلم اشم نكھة اطیب من نكھة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.5
میں دس برس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صحبت میں رہا ہوں اور میں نے ہر قسم کا عطر سونگھا ہے لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے منہ مبارک کی مہک سے زیادہ عمدہ مہک نہیں سونگھی۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تو سراپا خوشبو تھے اسی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب مبارک بھی اسی صفت کا حامل تھا۔کتبِ سیر و احادیث میں اَمراض کی شفاء کےمتعلق کثیر تعدادمیں روایات موجود ہیں کہ کس طرح حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ سے صحابہ کرامRadi Allah Anhum فیضیاب ہوا کرتے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن کو بھی امت کے لیے باعثِ شفاء بنادیا۔اور اس سے بڑھ کر عظمت ِمصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کیا ہوسکتی ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں تشریف لانے والے صحابہ کرام Radi Allah Anhumکی بیماریاں اور پریشانیاں تو مختلف تھیں لیکن ان بیماریوں اور پریشانیوں کا علاج آپ ﷺنے اﷲ تعالیٰ کی عطا سے ایک ہی دواء یعنی لعاب دہن سے فرمادیا۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب مبارک ہر درد کی دواء

رسول ِاکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن ہر مرض کے لیے سب سے بڑھ کر اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha بیان کرتی ہیں :

ان النبن صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقول للمریض: بسم للّٰه تربة ارضنا بریقة بعضنا یشفى سقینا باذن ربنا. 6
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مریض کے لیے اس طرح دعا کرتے تھے:اﷲ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی سے جو ہمارے بعض کے لعابِ دہن کے ساتھ مخلوط ہے، ہمارے بیمار کو شفاء ملتی ہے ہمارے رب کے حکم سے۔

امام نووی اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

معنى الحدیث انه اذا اخذ من ریق نفسه على اصبعه السبابة ثم وضعھا على التراب فعلق به شىء منه ثم مسح به الموضع العلیل ا والجریح قائلا الكلام المذكورفى حالة المسح.
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنا لعاب دہن اپنی انگشتِ شہادت پر لگاتے اور پھر اس کو مٹی7 کے اوپر رکھتے،جب مٹی اس کے ساتھ لگ جاتی تو پھر اس انگلی کو بیمار کی جگہ پر رکھتےیا زخم کی جگہ پر رکھتے اور انگلی رکھتے وقت یہ دعا فرماتے۔

حدیث میں موجود عاء کے الفاظ میں لفظ ارضنا کے حوالہ سےتشریح کرتے ہوئے علامہ نووی فرماتے ہیں:

قیل المراد بارضنا ارض المدینة خاصة لبركتھا وبعضنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لشرف ریقه فیكون ذلك مخصوصا.8
ہماری زمین سے مراد ہے مدینہ کی زمین کیونکہ اس کی خاص برکت ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :ہم میں سے بعض کا لعاب دہن اس سے مراد ہے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن بہت عظیم ہے لہٰذا یہ دعا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مخصوص ہے۔

مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنا لعاب دہن مریض کے مرض والے حصہ پر لگاتے تاکہ لعاب دہن کی وجہ سے مرض مکمل ٹھیک ہوجائے اور فی الواقع وہ مرض نہ صرف ٹھیک ہوتا بلک اس کے اثرات تا دیر قائم بھی رہتے۔

لعاب مبارک سے حضرت علی Radi Allah Anhoکی شفایابی

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعابِ اقدس سے حضرت علی Radi Allah Anho کی آنکھیں بھی جنگ خیبر کے دوران صحت یاب ہوئی ہیں۔جب خیبر کے لیے لشکر تیا ر ہورہا تھا تو حضرت علی Radi Allah Anho ابتداء میں شامل نہ ہوسکے تھے۔پھر جب آپ نے اس حوالہ سے سوچا تو آپ بعد میں لشکر میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت سلمہ بن اکوع Radi Allah Anha بیان کرتے ہیں :

كان على قد تخلف عن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى خیبر وكان به رمد فقال: انا اتخلف عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخرج على فلحق بالنبى صلى اللّٰه علیه وسلم.9
حضرت علی Radi Allah Anhoآشوبِ چشم کی تکلیف کے باعث جنگ خیبر کے لیے روانہ ہونے والے لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پیچھے رہ گیا ہوں تو پھر آپRadi Allah Anho نکلے اور حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے جاملے۔

پھر جب حضرت علی المرتضٰی Radi Allah Anhoپہنچے تو آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تبھی آپ جنگ میں تشریف نہیں لا سکے تھے۔دوسری طرف دوسر ے دن بھی معرکہ بے نتیجہ رہا۔تو اس وقت رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا کہ کل میں اسے علم دونگا جو اللہ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا محب ہے اور اللہ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا محبوب بھی ہے اور ۔چنانچہ ااسی حوالہ سے امام محمد بن سعد لکھتے ہیں:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم خیبر: لادفعن الرایة الى رجلاً یحب اللّٰه ورسوله ویحبه اللّٰه ورسوله و یفتح علیه.10
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خبیر کے دن فرمایا: میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جواﷲ عزوجل اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو محبوب رکھتا ہے اور اﷲ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسے دوست رکھتے ہیں اور وہ محصور یہود کے قلعہ کوفتح کرے گا۔

امام ابن ہشام Rehmatullah Alaihسے اس طرح منقول ہے:

فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : لاعطین الرایة غداً رجلاً یحبه للّٰه ورسوله یفتح للّٰه على یدیه لیس بفرار.11
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :میں کل ایسے آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائے گا وہ بھاگنےوالا نہیں۔

امام نسائی Rehmatullah Alaihکی روایت میں جو انہوں نے فضائل الصحابۃ میں نقل فرمائی ہے اس میں فتح کی بشارت کا بھی ذکر ہے۔چنانچہ اس میں یوں منقول ہے:

قال یوم خیبر:لاعطین ھذه الرایة غدا یفتح اللّٰه على یدیه یحب اللّٰه ورسوله ویحبه اللّٰه ورسوله.12
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا یا وہ شخص جھنڈا پکڑے گا جس سے اﷲ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam محبت کرتے ہیں یافرمایا :جو اﷲ اوراس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا۔

جب تیسرے دن کا طلوع آفتاب ہوا تو صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اس محب و محبوب مرد ہونے کی تمنا تھی چنانچہ حضرت سہل بن سعد Radi Allah Anhoسے مروی ہے:

فلما اصبح الناس غدوا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كلھم یرجون ان یعطاھا فقال: این على بن ابى طالب؟ فقالوا :ھو یا رسول اللّٰه یشتكى عینیه قال: فارسلوا الیه فاتى به فبصق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى عینیه ودعا له فبرأ حتى كان لم یكن به وجع فاعطاہ الرایة.13
پس جب صبح ہوئی تو تمام لوگ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس جمع ہوگئے۔ ان میں سے ہر ایک کی امید تھی کہ پرچم اسے عطا کیا جائے گا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا :یا رسول اﷲSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! علی کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: انہیں لے آؤ اورپھر انہیں لایا گیا تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا فرمائی تو وہ ٹھیک ہوگئیں پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔

اس روایت کو امام مسلم نے بھی نقل کیا ہے۔ 14 اسی طرح حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoاس روایت کو بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

فقالوا یشتكى عینیه قال فبصق نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى كفیه ومسح بھما عینى على ودفع الیه الرایة ففتح للّٰه على یدیه.15
صحابہ کرامRadi Allah Anhum نے کہا: ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے: حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho فرماتے ہیں: پس اﷲ کے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی ہتھیلیوں میں لعاب دہن لگایا اور دونوں ہتھیلیوں کو حضرت علی Radi Allah Anhoکی آنکھوں پر پھیرااورپرچم ان کو عطافرمایاتو اﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح عنایت فرمائی۔

یعنی حضرت علی المرتضیٰ Radi Allah Anhoکے آشوبِ چشم کا مرض رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دہنِ اقدس کے لعاب ِ سے ٹھیک تو ہواہی اور ساتھ میں سریع الاثر بھی رہا کہ آپRadi Allah Anho فورا میدان ِجنگ میں جانے کےلیے تیا رہوگئے۔اسی طرح امام حافظ ابوبکراحمدبن حسین بیہقی نے بھی اس روایت کو تحریر کیا ہے۔ 16

اس کی مزید توضیح و تشریح درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جس کےراوی حضرت بریدہ اسلمی Radi Allah Anho ہیں۔چنانچہ آپ سے مروی ہے:

حاصرنا خیبر فاخذ اللواء ابوبكر ولم یفتح له واخذ من الغد عمر فانصرف ولم یفتح له واصاب الناس یومئذ شدة وجھد فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: انى دافع لوائى غدا الى رجل یحب للّٰه ورسوله ویحبه للّٰه ورسوله لا یرجع حتى یفتح له وبتنا طیبة انفسنا ان الفتح غدا فلما اصبح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صلى الغداة ثم جاء قام قائما ودعا باللواء ورمى اللواء والناس على مصافھم فما منا انسان له منزلة عند الرسول صلى اللّٰه علیه وسلم الا وھو یرجو ان یكون صاحب اللواء فدعا على بن أبى طالب وھو أرمد فتفل فى عینیه، ومسح عنه، ودفع إلیه اللواء، ففتح اللّٰه له، قال: أنا فیمن تطاول لھا.17
ہم نے خیبر کامحاصرہ کیا تو حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho نے پرچم تھاما اور ان پرخیبر فتح نہ ہوا۔پھر دوسرے روز حضرت عمر Radi Allah Anhoنے پرچم تھاما تو وہ بھی لوٹ آئے اور ان پر بھی خیبر فتح نہ ہوا اور اس دن لوگوں کو بہت شدت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: کل میں اپنا پرچم ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کو محبوب رکھتے ہیں ۔ وہ فتح حاصل کیے بغیر واپس نہیں لوٹے گا تو ہم نے اطمینان سے رات بسر کی کہ کل ضرور فتح نصیب ہوگی۔ پس جب رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صبح فرمائی تو نماز فجر پڑھائی، پھر آکر قیام فرمایا اور پرچم اٹھایا اور لوگ اپنی صفوں میں تھے ۔پس ہم میں سے جس شخص کی بھی رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاں کچھ اہمیت تھی وہ امید کرتا رہا کہ وہی پرچم تھامنے والا ہوگالیکن آپ نے حضرت علی بن ابی طالبRadi Allah Anhuma کو بلایا حالانکہ وہ آشوب ِچشم میں مبتلا تھے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور ان کی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا۔ پھر پرچم تھمایا اور اﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطا فرمائی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو پرچم کے امید وار تھے۔

حضرت بریدہ اسلمیRadi Allah Anho کی دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت یوں وارد ہوئی ہے:

فدعا على وھو ارمد فتفل فى عینیه ونھض معه من الناس من نھض فلقى اھل خیبر فاذا مرحب یرتجز وھو یقول:
قد علمت خیبر انی مرحب
شاکی السلاح بطل مجرب
اذا اللیوث اقبلت تلھت
اطعن احیانا وحینا اضرب.18
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علیRadi Allah Anho کو بلایا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا اور حضرت علی Radi Allah Anhoکے ساتھ کچھ لوگ تیار ہوگئے ۔حضرت علیRadi Allah Anho اہل خیبر کے سامنے ہوئے تو مرحب یہ اشعار پڑھتے ہوئے سامنے آیا:
اہل خیبر جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں!
ہتھیار بند، بہادر اور تجربہ کار ہوں۔
جب میرے سامنے شیر آئیں تو غبار ہوجاتے ہیں۔
کبھی میں زخمی کرتا ہوں اور کبھی گردن اُڑا دیتا ہوں۔
پھر حضرت علیRadi Allah Anho اور اس کے درمیان دو دو ہاتھ ہوئے،پھر اچانک حضرت علی Radi Allah Anhoنے اس پر ایسا وار کیا کہ آپ Radi Allah Anhoکی تلوار نے اس کے سر کو چیر کر رکھ دیا جس سے اُس کے دماغ کی سفیدی ظاہر ہوگئی اور پورے لشکر نے آپ کی ضربِ کاری کی آواز سنی۔ پس ابھی آپRadi Allah Anho کے لشکر کی آخری صف کی نوبت بھی نہ آئی کہ اﷲ تعالیٰ نے پہلی ہی صف والوں کو فتح عطا فرمادی۔

سیدہ اُم موسی Radi Allah Anhaفرماتی ہیں کہ میں نے حضرت علیRadi Allah Anho کو فرماتے ہوئے سنا:

لارمدت ولا صدعت مذ دفع الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الرایة یوم خبیر.19
جب سے خیبر والے دن رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مجھے جھنڈا عطا فرمایا، اس دن سے نہ کبھی مجھے آنکھوں میں تکلیف ہوئی ہے اور نہ کبھی میرے سر میں درد ہوا ہے۔

اس حدیث مبارکہ کو دس سے زیادہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum نے روایت کیا ہے چنانچہ اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانیRehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وفى الباب عن اكثر من عشرة من الصحابة سردھم الحاكم فى الاكلیل وابو نعیم والبھیقى فى الدلائل.20
اس باب میں دس سے زیادہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumسے حدیث منقول ہے جسے امام حاکم نے اپنی کتاب الاکلیل میں امام ابو نعیم نے (حلیۃ الاولیاء میں) اور امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک کا حضرت علی Radi Allah Anhoپر اثر

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک کا صرف یہ ہی اثر نہ ہوا کہ آپ کی دکھتی آنکھیں اچھی ہوگئیں بلکہ لعابِ مبارک کے اور بھی کافی اثرات رونما ہوئے ۔مثلا اس لعابِ دہن کی برکت سے اس دن سے آخری عمر تک انہیں کبھی سردی اور گرمی محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی آنکھیں خراب ہوئیں۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت ابو لیلیٰ Radi Allah Anhoسے مروی ہے:

انه قال: لعلى وكان یسیر معه ان الناس قد انكروا منك شیئا انك تخرج فى البرد بالملائتین وتخرج فى الحر فى الخشن والثوب الغلیظ؟ فقال: لم تكن اولم تكن معنا بخیبر. قال: بلى. قال: بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بعث ابابكر وعقد له لواء فرجع وبعث عمر وعقد له لواء فرجع بالناس. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: لاعطین الرایة رجلا یحب للّٰه ورسوله ویحبه للّٰه ورسوله لیس بفرار فارسل الى وانا ارمد فتفل فى عینى فقال: اللھم اكفه اذى الحر والبرد.قال: ما وجدت حرا بعد ذلك ولا بردا.21
انہوں نے حضرت علی Radi Allah Anhoسے عرض کیا جبکہ وہ آپ Radi Allah Anhoکے ساتھ چل رہے تھے کہ لوگ آپ کی ایک عادت پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپRadi Allah Anho موسم سرما میں نرم وملائم لباس پہن کر نکلتے ہیں اور موسم گرما میں موٹا اور سخت لباس؟ آپ Radi Allah Anhoنے فرمایا: کیا تم خیبر میں ہمارے ساتھ نہیں تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ (تھے) تو فرمایا: رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابوبکر صدیق کو بھیجا اور ان کے لیے ایک پرچم مقرر کیا لیکن وہ لوٹ آئے پھر حضرت عمر Radi Allah Anhoکو بھیجا اور ان کے لیے ایک پرچم باندھا تو وہ بھی لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ آئے پھر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں ایسے شخص کو پرچم عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو محبوب رکھتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فرار ہو نےوالا نہیں ہے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مجھےبلانےآدمی بھیجا جبکہ میں آشوب چشم میں مبتلا تھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا پھر فرمایا: اے اﷲ! اس کو گرمی اور سردی کی اذیت سے محفوظ فرما ۔سیدناعلی Radi Allah Anhoنے فرمایا :اس کے بعد میں نے کبھی گرمی اور سردی کو محسوس نہیں کیا۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب ِ دہن کی برکات

غزوہ ذی قرد جو محرم 7ہجری میں پیش آیا تھا اس میں حضرت ابو قتادہ انصاری Radi Allah Anhoکے چہرے پر تیر لگنے سے زخم ہوگیاتھاتو وہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ابوقتادہ انصاریRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

ادركنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم ذى قرد فنظر الى وقال اللّٰھم بارك له فى شعرہ وبشره وقال: افلح وجھك قتلت مسعدة قلت: نعم. قال: فما ھذا الذى بوجھك؟ قلت: سھم رمیت به قال: فادن منى فدنوت منه فبصق علیه .فما ضرب على قط ولا قاح.22
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے غزوہ ذی قرد میں مجھے پایا تو میری طرف دیکھا اور دعا فرمائی۔ اے اﷲ! ان کے بالوں اور چہرے میں برکت عطا فرما۔پھر فرمایا: اﷲ تمہارے چہرے کو تروتازہ رکھے تم نے مسعدہ کو قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا:جی یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam توفرمایا: یہ تمہارے چہرے پر کیسا نشان ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ تیر کا زخم ہے۔ فرمایا :میرے قریب ہوجاؤ تو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب آگیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے اوپر لعاب دہن لگایا تو کوئی نشان باقی نہ رہا ،نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔

حضرت ابو قتادۃRadi Allah Anho آخری عمر تک صحت یاب ہی رہے۔کسی بھی قسم کا ضعف آپRadi Allah Anho میں نہیں تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام واقدی فرماتے ہیں:

قال: فما ھذا الذى بوجھك؟ قلت :سھم رمیت به یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. قال: فادن منى. فدنوت منه فبصق علیه فما ضرب على قط ولا قاح. فمات ابو قتادة وھو ابن سبعین سنة وكانه ابن خمسة عشرة سنة.23
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :یہ تمہارے چہرے پر کیا نشان ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ تیر کا زخم ہے یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تو فرمایا: میرے قریب ہوجاؤ تو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب آگیا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے اوپر لعاب دہن لگایا تو کوئی نشان باقی نہ رہا نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔ حضرت ابوقتادہ نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی مگر دعائے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی برکت سے پندرہ سال کے لگتے تھے۔

اسی طرح قاضی عیاض فرماتے ہیں:

وبصق على اثرسھم فى وجه ابى قتادة فى یوم ذى قرد قال: فما ضرب على ولا قاح.24
غزوہ ذی قرد کے موقع پر حضرت ابو قتادہ Radi Allah Anho کے چہرے پر تیر لگنے سے زخم ہوگیا تو وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے زخم پر لعاب دہن لگایا تو نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔

لہٰذا معلوم ہو اکہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن نہ صرف انتہائی متبرک ہے بلکہ اس سے بڑھ کرشفاءِ عاجلہ اور اس سے بھی بڑھ کر شفاء ِ مستقلہ ومستمرہ کا اکسیرِ اعظم ہے۔

لعاب دہن سانپ کے زہر کا تریاق

سیدنا صدیق ِ اکبر Radi Allah Anhoکو ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں جب سانپ نے ڈسا تو اس وقت بھی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن ہی تھا جس نے یارِ غار کو اس موذی و مہلک مرض سے چھٹکارا دلوایا۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت فاروق اعظمRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

ذكره عنده ابوبكر فبكى وقال: وددت ان عملى كله مثل عمله یوما واحدا من ایامه ولیلة واحدة من لیالیه اما لیلتة فلیلة سا رمع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى الغار فلما انتھیا الیه قال: واللّٰه لا تدخله حتى ادخل قبلك فان كان فیه شىء اصابنى دونك فدخل فكسحه ووجد فى جانبه ثقبا فشق ازاره وسدھا به وبقى منھا اثنان فالقمھما رجلیه ثم قال: لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادخل فدخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ووضع راسه فى حجره فنام فلدغ ابوبكر فى رجله من الحجر ولم یتحرك مخافة ان ینتبه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: مالك یا ابا بكر؟ قال: لدغت فداك ابى وامى فتفل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فذھب ما یجده ثم انتقض علیه وكان سبب موته واما یومه فلما قبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارتدت العرب وقالوا: لا نؤدى زكوة. فقال: لو منعونی عقالا لجاھدتھم علیه. وقلت: یا خلیفة رسول اللّٰه! تالف الناس وارفق بھم. فقال: لى اجبار فى الجاھلیة وخوار فى الاسلام انه قد انقطع الوحى وتم الدین اینقص وانا حى.25
ان کے سامنے حضرت صدیق اکبرRadi Allah Anho کا تذکرہ ہوا تو وہ روپڑے اور فرمانے لگے: میں چاہتا ہوں کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال (قدر وقیمت کے اعتبار سے) حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho کے صرف ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے۔ یا ان کی ایک رات کے عمل کے برابر ہوجاتے یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا جب وہ دونوں اس غار پر پہنچے اور حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے غار میں داخل ہونا چاہا تو حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anhoنے کہا: خدا کے واسطے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں، پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (جیسے سانپ بچھو وغیرہ) ہو تو وہ مجھے ضرر پہنچائے نہ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اور (یہ کہہ کر) آپ (حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پہلے) غار میں داخل ہوگئے اسے صاف کیا۔ انہوں نے غار کی ایک جانب سوراخ دیکھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور دو سوراخ (اس وجہ سے) باقی رہ گئے (کہ ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا)ان کے منہ پر انہوں نے اپنے دونوں پاؤں رکھ دئیے (تاکہ کسی زہریلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے) پھر انہوں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے! چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho کی گود میں رکھ کر سوگئے۔ اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho کے پاؤں میں کاٹ لیا لیکن (وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار نہ ہوجائیں۔آخرکار (شدت تکلیف سے) ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرہ مبارک پر گرے (جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھ کھل گئی) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ( ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو) پوچھا: ابوبکر ! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر قربان مجھے (کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے) کاٹ لیا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے (یہ سن کر) اپنا لعاب دہن مبارک (ان کے پاؤں پر کاٹی ہوئی جگہ پر) لگادیا اور (تکلیف واذیت کی) جو کیفیت ان کو محسوس ہورہی تھی وہ فوراً جاتی رہی۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anhoپر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی۔ایک ان کا وہ دن (کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میری زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرار پائیں) وہ دن تھا جب رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دنیا سے رحلت فرمائی اور بعض عرب قبائل مرتد ہوگئے تھے ان (قبائل کے) لوگوں نے کہا تھا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anhoکا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ (زکوۃ میں اونٹ کے پاؤں کے باندھنے کی بقدر) رسی بھی دینے سے مجھے انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے (ان کا یہ فیصلہ سن کر) عرض کیا تھا: اے خلیفہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam (یہ بڑا نازک موقع ہے) آپ کو لوگوں سے الفت اور نرمی کا سلوک کریں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے (بڑے تیکھے لہجہ میں) مجھے جواب دیا تھا تم زمانہ جاہلیت میں تو بڑے غیور و بہادر اور قوی و غصہ ور تھے؟ اور اب اپنے زمانہ اسلام میں بزدل وپست ہمت ہوگئے ہو؟ اس حقیقت کو نہ بھولو کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور دین مکمل ہوچکا ہے ۔ ایسی صورت میں دین کمزور و ناقص ہوجائے، ایسا میں اپنی زندگی میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن موذی سے موذی اور خطرناک سے خطرناک مرض کے لیے شفاء ہے خواہ وہ مرض کتنا ہی زیادہ سریع الاثر ہی کیوں نہ ہو اس کے اثر سے پہلے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب مبارک اپنی برکات کو اس مرض پر طاری کردیتا ہے۔

حضرت خالد بن ولیدRadi Allah Anho پر لعاب دہن کا فوری اثر

حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoکا شمار جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے اسلام کے لیے آپRadi Allah Anho کی بے شمار خدمات ہیں۔ آپ نے اسلام لانے کے بعد ساری زندگی جہاد کے میدانوں میں گزاری۔ہر میدان میں آپ نے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے اور اسی بہادری پر آپ کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف سے سیف اﷲ کا لقب ملا۔حضرت سیدنا صدیق اکبر Radi Allah Anhoنے حضرت خالد بن ولیدRadi Allah Anhoکو جنگ کا پرچم عطا کیا اور فرمایا :

انى سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول: نعم عبد اللّٰه واخو العشیرة خالد بن الولید سیف من سیوف اللّٰه سله اللّٰه على الكفار.26
میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو فرماتے سنا کہ اﷲ تعالیٰ کا بہترین بندہ اور خاندان کا فرد خالد بن ولید ہے یہ اﷲ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے کافروں کے لیے سونتا ہے۔

غزوہ حنین کے موقع پر بھی آپ بڑی بہادری کے ساتھ لڑے یہاں تک کہ آپ بہت سخت زخمی ہوگئے۔چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ازہر Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں

ان خالد بن الولید بن المغیرة جرح یومئذ وكان على الخیل خیل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال ابن الازھر: قد رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بعدما ھزم اللّٰه الكفار ورجع المسلمون الى رحالھم یمشى فى المسلمین ویقول: من یدل على رحل خالد بن الولید ؟قال: فمشیت او قال: فسعیت بین یدیه وانا محتلم. اقول: من یدل على رحل خالد ؟حتى حللنا على رحله فاذا خالد بن الولید مستند الى مؤخرة رحله فاتاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنظر الى جرحه.قال الزھرى: وحسبت انه قال: ونفث فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.27
حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho زخمی ہوگئے تھے وہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گھوڑے پر سوار تھے، کفار کی شکست کے بعد میں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسلمانوں کے درمیان جوکہ جنگ سے واپس آرہے تھے چلتے جارہے ہیں اور فرماتے جارہے ہیں کہ: خالد بن ولید Radi Allah Anhoکے خیمے کا پتہ کون بتائے گا؟ وہ کہتےہیں: میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے آگے یہ پکارتےہوئےچلناشروع کردیا: خالد بن ولید Radi Allah Anhoکے خیمے کا پتہ کون بتائے گا؟ یہاں تک کہ ہم ان کے خیمے پر جاپہنچے۔ وہاں حضرت خالد بن ولیدRadi Allah Anho اپنے کجاوے کے پچھلے حصے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ اتنے میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آکر ان کا زخم دیکھا۔امام زہری فرماتے ہیں: میراگمان ہےکہ راوی نے کہاکہ پھر اس پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا لعاب دہن لگادیا۔

امام ابو عوانہ Rehmatullah Alaihبھی اسی حوالہ سے روایت کرتے ہیں:

فاتاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنظر الى جرحه.قال الزھرى: وحسبت انه قال ونفث فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.28
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آکر حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoکا زخم دیکھا۔امام زہری Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں : میراگمان ہےکہ راوی نے فرمایا : پھر اس پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا لعاب دہن لگادیا۔

اسی طرح امام بن حبان نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 29 حضرت عبدالرحمن بن ازہر Radi Allah Anho اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:

ان خالد بن الولید جرح یوم حنین فتفل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جرحه فبرأ.30
حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho جنگ حنین میں زخمی ہوگئے تورسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے زخم پر اپنا لعاب ِمبارک لگادیا تو وہ اچھے ہوگئے۔

اس روایت کوامام مغلطائی یوں نقل فرماتے ہیں:

وسماہ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سیف اللّٰه ولما جرح یوم حنین نفث النبى صلى اللّٰه علیه وسلم على جراحه فبرئت.31
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خالد بن ولید کا نا م سیف اللہ رکھا اور جب حضرت خالد بن ولید حنین کے موقع پر زخمی ہوئے تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے زخم پر لعابِ دہن لگایا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔

متذکرہ بالا احادیث سے معلوم ہواکہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعابِ دہن مرض کے لیے اکسیر تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سریع الاثر بھی تھا جس سے مرض فورا ٹھیک ہوجاتا تھا۔

لعاب ِ رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حارث بن اوسRadi Allah Anho

حضرت حارث بن اوس بن معاذ بن نعمان انصاریRadi Allah Anho یہ جلیل القدر صحابی رسول حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anhoکے بھتیجے ہیں۔ جب کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے چند صحابہ کرام Radi Allah Anhumروانہ ہوئے تو حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anhoنے ان سے فرمایا میرے بھتیجے حارث بن اوس Radi Allah Anhoکو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام محمد بن سعد بصری لکھتے ہیں:

شھد الحارث بن اوس بدراً وكان فیمن قتل كعب بن الاشرف واصابه بعض اصحابه تلك اللیلة بسیفه وھو یضربون كعبا فكلمه فى رجله فنزف الدم فاحتمله اصحابه حتى اتو به الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وشھد بعد ذلك احدا قتل یومئذ شھیداً فى شوال على راس اثنین وثلاثین شھرا وكان یوم قتل ابن ثمان وعشرین سنة.32
حارث بن اوس جنگ بدر میں شریک ہوئےاوران لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کیا۔ اس رات جب ان کے کچھ ساتھیوں نے کعب بن اشرف پر حملہ کیا تو ان کی تلوار سے آپ کی ٹانگ زخمی ہوگئی۔ آپ کے ساتھی نے آپ کی توجہ دلائی کہ خون بہہ رہا ہے اورپھر آپ کے ساتھی آپ کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس لے آئے۔ اس کے بعد آپ جنگ احد میں شریک ہوئے جو شوال میں 32 ماہ بعد ہوئی آپ اس جنگ میں شہید ہوئے اس وقت آپ کی عمر 28 برس تھی۔

آپ بدر میں شریک تھے۔کعب بن اشرف یہودیوں کا بہت بڑا سردار تھا۔کعب بن اشرف ہر وقت اپنے اشعار میں سرکار دو عالم ﷺاور صحابہ کرام Radi Allah Anhum اجمعین کی ہجو کرتا تھا۔ اسی وجہ سے اس یہودی کو واصل ِ جھنم کیا گیا۔چنانچہ امام محمد بن سعد بصری لکھتے ہیں:

ثم سریة قتل كعب بن الاشرف الیھودى وذلك لاربع عشرة لیلة مضت من شھر ربیع الاول على راس خمسة و عشرین شھراً من مھاجر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكان سبب قتله انه كان رجلاً شاعراً یھجو النبى صلى اللّٰه علیه وسلم واصحابه ویحرض علیھم ویؤذیھم فلما كانت وقعة بدر كبت وذل وقال: بطن الارض خیر من ظھرھا الیوم.33
اس کے بعد کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا سریہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہجرت کے پچیسویں مہینے 14 ربیع الاول کو ہوا ۔وہ شاعر تھا حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور آ پ کے اصحاب کی ہجو کرتا تھا مخالفت پر لوگوں کو برانگیختہ کرتا اور ایذادیتا تھا غزوہ بدر ہوا تو وہ ذلیل وسرنگوں ہوگیا اور کہا کہ آج زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے۔

اس کی مزید تفصیل اس روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت جابر Radi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من لكعب بن الأشرف، فإنه قد آذى اللّٰه ورسوله؟ فقام محمد بن مسلمة فقال: یا رسول اللّٰه! أتحب أن أقتله؟ قال: نعم قال: فأذن لى أن أقول شیئا قال: قل فأتاه محمد بن مسلمة فقال: إن ھذا الرجل قد سألنا صدقة، وإنه قد عنانا وإنى قد أتیتك أستسلفك، قال: وأیضا واللّٰه لتملنه، قال: إنا قد اتبعناه، فلا نحب أن ندعه حتى ننظر إلى أى شىء یصیر شأنه، وقد أردنا أن تسلفنا وسقا أو وسقین... فقال: نعم، ارھنونى، قالوا: أى شىء ترید؟ قال: ارھنونى نساءكم، قالوا: كیف نرھنك نساءنا وأنت أجمل العرب، قال: فارھنونى أبناءكم، قالوا: كیف نرھنك أبناءنا، فیسب أحدھم، فیقال: رھن بوسق أو وسقین، ھذا عار علینا، ولكنا نرھنك اللأمة قال سفیان: یعنى السلاح ، فواعده أن یأتیه، فجاءہ لیلا ومعه أبو نائلة، وھو أخو كعب من الرضاعة، فدعاھم إلى الحصن، فنزل إلیھم، فقالت له امرأته: أین تخرج ھذہ الساعة؟ فقال إنما ھو محمد بن مسلمة، وأخى أبو نائلة، وقال غیر عمرو، قالت: أسمع صوتا كأنه یقطر منه الدم، قال: إنما ھو أخى محمد بن مسلمة ورضیعى أبو نائلة إن الكریم لو دعى إلى طعنة بلیل لأجاب، قال: ویدخل محمد بن مسلمة معه رجلین . قیل لسفیان: سماھم عمرو؟ قال: سمى بعضھم ، قال عمرو: جاء معه برجلین، وقال: غیر عمرو: أبو عبس بن جبر، والحارث بن أوس، وعباد بن بشر، قال عمرو: جاء معه برجلین، فقال: إذا ما جاء فإنى قائل بشعره فأشمه، فإذا رأیتمونى استمكنت من رأسه، فدونكم فاضربوه، وقال مرة: ثم أشمكم، فنزل إلیھم متوشحا وھو ینفح منه ریح الطیب، فقال: ما رأیت كالیوم ریحا، أى أطیب، وقال غیر عمرو: قال: عندى أعطر نساء العرب وأكمل العرب، قال عمرو: فقال أتأذن لى أن أشم رأسك؟ قال: نعم، فشمه ثم أشم أصحابه، ثم قال: أتأذن لى؟ قال: نعم، فلما استمكن منه، قال: دونكم، فقتلوه، ثم أتوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فأخبروه.34
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا کیونکہ اس نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کو (بہت زیادہ) ایذاء دی ہے۔ پس حضرت محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا ہاں! انہوں نے کہا پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں (اس کو خوش کرنے کے لیے) کچھ باتیں کہوں؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: تم کہہ دینا ۔حضرت محمد بن مسلمہRadi Allah Anho اس کے پاس پہنچے اور اس سے کہا: یہ شخص ہم سے صدقہ کا سوال کرتا ہے اور اس نے ہم کو تھکادیا ہے اور میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ تم ہمیں کچھ قرض دو۔ اس نے کہا: ابھی دیکھنا یہ شخص تم کو ملال اور اکتاہٹ میں مبتلا کردے گا۔ حضرت محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho نے کہا: بے شک ہم نے اس کی پیروی کی ہے اور ہم اس کو اس سے پہلے چھوڑنا نہیں چاہتے حتیٰ کہ ہم دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں ایک وسق یا دو وسق(چھ من یا بارہ من) اناج قرض دو ۔۔۔کعب بن اشرف نے کہا: ہاں! (مگر) تم میرے پاس کچھ گروی رکھو۔ میں نے پوچھا: تم کیا گروی رکھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: تم اپنی عورتیں گروی رکھو۔ حضرت محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho نے کہا: ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس کیسے گروی رکھ سکتے ہیں؟ حالانکہ تم حسین ترین مرد ہو۔ اس نے کہا: پھر تم اپنے بیٹے گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: ہم تمہارے پاس اپنے بیٹے کیسے گروی رکھ سکتے ہیں؟ پھر کوئی شخص ان میں سے کسی کو طعنہ دے گا کہ یہ ایک من یا دو من اناج کے عوض گروی رکھا گیا تھا اور یہ بات ہم پر باعثِ عار ہوگی۔ لیکن ہم تمہارے پاس لامہ گروی رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ: اس سے مراد ہتھیار ہیں۔ پھر اس نے ان سے ملاقات کا وعدہ کر لیا پس وہ اس کے پاس رات کو آئے اور ان کے ساتھ کعب کا رضاعی بھائی ابونائلہ بھی تھا اس نے ان کو قلعہ کی طرف بلالیا پس وہ ان کی طرف جانے لگاتواس کی بیوی نے اس سے کہا: تم اس وقت کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا: یہ صرف محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho ہے اور اس کے ساتھ میرا بھائی ابو نائلہ ہے۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بیان کیا: اس کی بیوی نے کہا: میں ایسی آواز سن رہی ہوں جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے کہا: یہ صرف میرا بھائی محمد بن مسلمہ ہے اور میرا دودھ شریک بھائی ابو نائلہ ہے۔ شریف آدمی کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ چلا جاتا ہے۔ راوی نے کہا: اس نے محمد بن مسلمہ کو اور ان کے ساتھ دو اور مردوں کو داخل کرلیا۔سفیان سے پوچھا گیا :کیا عمرو نے ان دو مردوں کا نام لیا تھا؟ انہوں نے کہا: بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو نے کہا تھا: ان کے ساتھ دو مرد آئے اور عمرو کے علاوہ ابو عبس بن جبر اور حارث بن اوس ۔ باد بن بشر نے بیان کیا کہ: عمرو نے کہا کہ: ان کے ساتھ دو مرد آئے پس انہوں نے ان کو سمجھایا کہ جب وہ آئے گا تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا پس جب تم یہ دیکھو کہ میں نے اس کے سر پر قابو پالیا ہے تو تم اس کو پکڑ کر مار ڈالنا۔ اور ایک مرتبہ یہ کہا کہ پھر میں اس کا سرسونگھوں گا۔ پھر کعب ان کی طرف چادر لپیٹے ہوئے آیا اور اس سے بہت عمدہ خوشبو آرہی تھی محمد بن مسلمہ نے کہا: میں نے آج تک اتنی نفیس خوشبو نہیں پائی۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بتایا کہ کعب نے کہا: میرے پاس عرب کی سب سے حسین اور کامل عورت ہے جو ہر وقت خوشبو میں بسی رہتی ہے۔ عمرو نے بتایاکہ محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho نے کہا: کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں تمہارے سر کوسونگھ لوں؟اس نے کہا: ہاں! پھر انہوں نے سونگھا پھر انہوں نے اپنے اصحاب کو سونگھایا۔ پھر کہا: کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں! پس جب انہوں نے اس کے سر پر قابو پالیا تو کہا: اب اس کو پکڑ کر مارڈا لو۔ سو انہوں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر انہوں نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آکر اس کے قتل کی خبر دی۔

گويا ان خوش نصيب صحابہ كرام Radi Allah Anhum ميں جنهوں نے كعب بن اشرف كو قتل كيا حارث بن اوس بهي شامل تهے اور بقيہ افراد کا ذکر درج ذیل ہے:

  1. حضرت محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho
  2. حضرت ابو نائلہ سلکان بن سلامہ بن وقش Radi Allah Anho
  3. عباد بن بشر بن وقش اشہلی Radi Allah Anho
  4. ابو عبس بن جبر حارثی Radi Allah Anho

امام طبری نے بھی ان صحابہ کرام Radi Allah Anhumکا ذکر کیا ہے۔35 محدث کبیر امام بدر الدین عینی اس یہودی کے قتل کے دوران حضرت حارث بن اوس کو لگنے والے زخم اور پھر بارگاہ رسالت میں پہنچ کر لعاب دہنِ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے صحتیابی کا تذکرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

وفى روایة عروة وضربه محمد بن مسلمة فقتله واصاب ذباب السیف الحارث بن اوس واقبلوا حتى اذا كانوا بجرف بعاث تخلف الحارث ونزف فلما افتقدہ اصحابه رجعوا فاحتملوه ثم اقبلوا سرعا حتى دخلوا المدینة.وفى روایة الواقدى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تفل على جرح الحارث بن اوس فلم یؤذه.36
عروہ کی روایت ہے کہ حضرت محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho نے اس پر تلوار ماری اور اس کو قتل کردیا اور حضرت الحارث بن اوس Radi Allah Anho کو تلوار کی نوک لگی۔ حتیٰ کہ جب وہ مقام جرف بعاث پر پہنچے تو حضرت حارث Radi Allah Anho کے زخم سے بہت خون نکلا اور وہ پیچھے رہ گئے ۔ جب ان کے اصحاب نے ان کو گم پایا تو وہ واپس گئے اور ان کو اٹھا کر لائے اور جلدی جلدی روانہ ہوئے یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے۔امام واقدی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت الحارث بن عوف Radi Allah Anho کے زخم پر لعابِ دہن ڈالا پھر ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

اس کی مزید تشریح امام بیہقی Rehmatullah Alaih یوں فرماتے ہیں:

ان الحارث بن اوس اصابه بعض اسیافھم فجرح فى راسه ورجله قالوا: فاحتملناه فجئنا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم آخر اللیل وھو قائم یصلى فسلمنا علیه فخرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الینا فاخبرناہ بقتل عدو للّٰه فتفل على جرح صاحبنا فرجعنا الى اھلینا.37
حضرت حارث بن اوس Radi Allah Anhoکو ان کے بعض ساتھیوں کی تلوار لگ گئی تھی جس سے ان کے سر میں اور پیر میں زخم آگیا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ اس کو رات کے آخری حصے میں اٹھاکر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس لے آئے تھے جبکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ پھرہم نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سلام کیا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمارے پاس باہر تشریف لائے۔ ہم نے ان کو اﷲ کے دشمن کے قتل کی خبر دی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہمارے زخمی ساتھی کے زخم پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور ہم اپنے اپنے گھروں میں واپس چلے گئے تھے۔

اسی طرح امام محمد بن عمر واقدیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

فتفل فى جرحه فلم یؤذه.38
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا اس کے بعد زخم میں تکلیف نہ رہی۔

امام سیوطی Rehmatullah Alaih نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔39 امام ابن حجر عسقلانی نے اسی حوالہ سے ایک مرسل روایت بھی ذکر کی ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

وفى روایة الواقدى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تفل على جرح الحارث بن اوس فلم یؤذه. وفى مرسل عكرمة فبزق فیھا ثم الصقھا فالتئمت.40
امام واقدی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت الحارث بن عوف Radi Allah Anho کے زخم پر لعابِ دہن لگایا پھر ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔اور حضرت عکرمہ کی مرسل روایت میں ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس زخم والی جگہ پر لعاب اطہر لگاکر اس کو چمٹا دیا تو وہ زخم فوراً بھر گیا اور ٹھیک ہوگیا۔

ان مذکورہ بالا احادیث سے جہان یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہجو کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور صحابہ کرامRadi Allah Anhum نے اسے قتل بھی کردیا وہیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس دوران جس صحابی Radi Allah Anho کو تلوار کا زخم لگا اسے صحابہ کرامRadi Allah Anhum جلد از جلد بارگاہ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں لے آئے اور اس کا زخم رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن سے فورا شفایاب ہوگیا۔

حضرت حبیب بن فدیک Radi Allah Anho کی بصارت پر لعاب مبارک کے اثرات

لعاب دہنِ رسول ِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اسی برکت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت حبیب بن فدیکRadi Allah Anho ایک مروی روایت میں ذکر فرماتے ہیں:

خرج به الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وعیناه مبیضتان لا یبصر بھما شیئا فساله مااصابه قال: كنت امرن جملا لى فوقعت رجلى على بیض حیة فاصیب بصرى فنفث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى عینیه فابصر قال: فرایته یدخل الخیط فى الابرة وانه لابن ثمانین سنة وان عینیه لمبیضتان.41
( ان کے والد )انہیں لیکر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف نکلے۔ ان کی دونوں آنکھیں بے نور ہوچکی تھیں اور انہیں ان آنکھوں سے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دریافت فرمایا :تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا :میں اپنا اونٹ سدھا رہا تھا کہ ایک سانپ کے انڈوں پر میرا پاؤں پڑگیا تو میری نظر جاتی رہی۔ پس نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا تو ان کی بصارت لوٹ آئی۔حضرت خبیب فرماتے ہیں:میں نے انہیں اسی سال کی عمر میں سوئی میں دھاگا ڈالتے ہوئے دیکھا جبکہ ان کی دونوں آنکھیں سفید تھیں۔

یعنی ان کی آنکھوں کی روشنائی نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوئی بلکہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید تیزی آتی گئی اسی لیے 80 سال کی عمر میں بھی وہ اس قدر باریک کام کے بجا لانے میں کسی خارجی مدد کے محتاج نہ تھے۔

اسی طرح امام سیوطی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

فكان لا یبصر بھما شیئا فنفث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى عینیه فابصر فرایته یدخل الخیط فى الابرة وھو ابن ثمانین.42
انہیں دونوں آنکھوں سے کچھ بھی نظر نہ آتا تھا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر ڈالا اور وہ بینا ہوگئے۔ سب کچھ نظر آنے لگا۔ میں نے انہیں اسی سال کی عمر میں سوئی میں دھاگا ڈالتےتھے۔

اسی حوالہ سے امام بیہقی Rehmatullah Alaihنے دلائل النبوۃ میں ایک باب بھی باندھا ہے :

باب ماجاء فى نفثه فى عینین كانتا مبیضتین لا یبصر صاحبھما بھما حتى ابصر.43
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن کی برکت سے ایک آدمی کی سفید شدہ آنکھوں کی بینائی ٹھیک ہوجانےکاباب۔

جس میں امام بیہقیRehmatullah Alaih نے اسی حوالہ سے کئی راوایات کا تذکرہ کیا ہے۔

صحابی کےزخمی کندھے پرلعاب مبارک کا اثر

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سرتاپا باعث رحمت و امن و سکون تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعابِ دہن بھی انتہائی متبرک تھا ۔ اسی وجہ سے صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی زندگی میں کئی حادثات میں اس لعابِ پاک کی وجہ سے بہاریں آئیں۔چنانچہ اس حوالہ سے ایک روایت منقول ہے جس میں حضرت خبیب بن یسافRadi Allah Anho ذکر فرماتےہیں:

اتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم انا ورجل من قومى فى بعض مغازیه فقلنا: انا نشتھى معك مشھدا. قال: اسلمتم. قلنا: لا.قال: فانا لا نستعین بالمشركین على المشركین. قال: فاسلمت وشھدت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاصابتنى ضربة على عاتقى فخانتنى فتغلقت یدى فاتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فتفل فیھا والزقھا فالتامت وبرات وقتلت الذى ضربنى ثم تزوجت ابنة الذى ضربته فقتلته و حدثتنى فكانت تقول: لا عدمت رجلا وشحك ھذا الوشاح فاقول: لاعدمت رجلا عجل اباك الى النار.44
ایک غزوہ کے موقع پر میں اور میری قوم کا ایک شخص حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔ ہم نے عرض کی کہ ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ جہاد میں یعنی میدان شہادت میں جانا چاہتے ہیں ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا : کیا تم مسلمان ہوچکے ہو؟ ہم نے بتایا: نہیں۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیتے۔ کہتے ہیں:میں مسلمان ہوگیا اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حاضر ہوگیا ۔ وہاں میرے کندھے پر زخم آگیا جس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ میں نے اس کو ہاتھ سے بند کرلیا اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس میں اپنا لعاب دہن مبارک لگایا اور چپکا دیا لہٰذا وہ زخم مندمل ہو گیا اور درست ہوگیا ۔پھرمیں نے اس کو قتل کردیا جس نے مجھے زحم لگایا تھا اس کے بعد میں نے اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرلیا جس کو میں نے قتل کیا تھا۔ایک مرتبہ اس نے مجھ سے بات کرتے ہوئےکہا: افسوس کی بات ہے تم نے اس مرد کو گم کردیا جس نے آپ کو یہ ہار پہنایا ۔میں نےجواب دیا: افسوس تیرے باپ نےجہنم کی جانب جانے میں جلدی کی۔

امام قاضی عیاض مالکی Rehmatullah Alaihاس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنگ بدر میں حضرت خبیب بن یساف کے مونڈھے پر ایک ایسی ضرب لگی جس سے مونڈھے کی ایک کروٹ لٹک پڑی جس کو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے لعاب دہن لگاکر ٹھیک کردیا۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

فردہ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ونفث علیه حتى صح.45
تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس لٹکی ہوئی کروٹ کو اس کی جگہ پر رکھ کر اوپر اس پر اپنا لعاب مبارک لگا دیاتو وہ مونڈھا بالکل صحیح ہوگیا۔

آبِ دہن مبارک عجیب نسخہ جامعہ تھا کہ ہر مرض کی دوا اور محتاج کا درمان تھا۔ غور کیجئے جب صحابہ کرام Radi Allah Anhumلعاب مبارک کی تاثیرات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے تو ان کے نزدیک اس لعاب مبارک کی وقعت اور شان کیا ہوگی؟ اسی وجہ سے وہ ان برکات کے حصول کے ہر وقت طالب رہتے تھے جو اﷲ تعالیٰ نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعابِ مبارک میں رکھی تھیں۔

لعابِ مبارک سے کاندھے کی شفایابی

حضرت خبیب بن عبد الرحمن Radi Allah Anhoسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر والے دن حضرت خبیب بن عدی Radi Allah Anho کو شدید ضرب لگی جس کی وجہ سے ان کا کندھا ایک جانب سےنیچے کی طرف جھک گیا۔جس کا علاج انہوں نے بارگاہ نبوی ﷺمیں آکر کروایا۔چنانچہ اس حوالہ سے روایت میں مذکور ہے:

فتفل علیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولامه ورده فانطبق.46
پھر اس جگہ پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لعاب دہن لگایا اور اس زخم کو باندھ کر اس کندھے کو اپنی جگہ لوٹا دیا تووہ پہلے کی طرح پیوست ہوگیا۔

یہ خاصیت صرف رسول اکرم سیدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن کی ہے کہ اس لعاب دہن سے نرم اشیاء تو صحیح و سالم ہوتی ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مضبوط اور ٹھوس اشیاء بھی صحیح و سالم ہوجاتی ہیں۔ایسا لگتا ہے گویا کہ یہ کبھی خراب ہوئی ہی نہ تھیں۔

لعابِ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور زخمی ہاتھ

حضرت معاذ بن عمرو بن الجموح اور حضرت معوذ Radi Allah Anhumaان دونوں بھائیوں نے مل کر جنگ بدر میں ابوجہل کو قتل کیا تھا۔چنانچہ امام حافظ طبرانیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

معاذ بن عمرو بن الجموح الانصارى ثم الخزرجى بدرى وھو قاتل ابى جھل بن ھشام.47
معاذ بن عمر وبن جموح انصاری خزرجی بدری،جنہوں نے ابو جہل ابن ہشام کو قتل کیا تھا۔

اسی طرح امام ابن اسحاق Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ان ھذا معاذ بن عمرو قتل ابا جھل.48
بلاشبہ معاذ بن عمر و نے ابو جہل کوقتل کیا تھا۔

اس کی مزید تفصیل امام بخاری حضرت عبد الرحمن بن عوفRadi Allah Anho سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

بینا انا واقف فى الصف یوم بدر فنظرت عن یمینى وشمالى فاذا انا بغلامین من الانصار حدیثة اسنانھما تمنیت ان اكون بین اضلع منھما فغمزنى احدھما فقال: یا عم ھل تعرف ابا جھل؟ قلت: نعم! ما حاجتك الیه یا ابن اخى؟ قال: اخبرت انه یسب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم والذى نفسى بیده لئن رایته لا یفارق سوادى سوادہ حتى یموت الاعجل منا. فتعجبت لذلك فغمزنى الاخر. فقال: لى مثلھا فلم انشب ان نظرت الى ابى جھل یجول فى الناس قلت: الا ان ھذا صاحبكما الذى سالتمانى فابتدراه بسیفیھما فضرباه حتى قتلاه ثم انصرفا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخبراه. فقال: ایكما قتله؟ قال كل واحد منھما: انا قتلته. فقال: ھل مسحتما سیفیكما؟ قالا: لا. فنظر فى السیفین فقال: كلا كما قتله سلبه لمعاذ بن عمرو الجموح. وكانا معاذ بن عفراء ومعاذ بن عمرو بن الجموح.49
غزوۂ بدر کے دن جب میں صف میں کھڑا ہوا تھا تو میں نے اپنی دائیں اور بائیں جانب دیکھا تو اس وقت انصار کے دو کمسن نوجوان لڑکے تھے۔ اس وقت میں نے یہ تمنا کی کہ کاش! میں ان سے زیادہ قوی لڑکوں کے ساتھ ہوتا ۔پھر ان دونوں میں سے کسی ایک نے مجھے اشارہ کرکے کہا :اے چچا! کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! تمہیں اس سے کیا کام ہے اے میرے بھتیجے؟ اس نے کہا :مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر میں نے اس کو دیکھ لیا تو میں اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا حتیٰ کہ ہم میں سے جس کی موت پہلے مقدر کی گئی ہے وہ مر نہ جائے۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا تواتنے میں دوسرے نے مجھے اشارہ کیا اوراس نے بھی اسی طرح کہا ۔پھر تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے دیکھا کہ ابوجہل لوگوں کے درمیان گھوم رہا تھا ۔میں نے کہا سنو! جس شخص کے متعلق تم نے سوال کیا تھا وہ یہ رہا ۔پس وہ دونوں اپنی اپنی تلواریں لے کر جھپٹے اور اس پر وار کیے حتیٰ کہ ان دونوں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر دونوں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس جاکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کے قتل کی خبر دی توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے؟ تو ان میں سے ہر ایک نے کہاکہ میں نے اس کو قتل کیا ہے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواروں کو صاف کرلیا ہے؟ ان دونوں نے کہاکہ نہیں۔ پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان دونوں کی تلواروں کو دیکھا پس فرمایا: تم دونوں نے اس کو قتل کیا ہے۔ اور اس سے چھینا ہوا سامان معاذ بن عمرو بن الجموحRadi Allah Anho کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان حضرت معاذ بن عفراءRadi Allah Anho اور معاذ بن عمرو بن الجموح Radi Allah Anho تھے۔

اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی شافعیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

وشھد معاذ ھذا العقبة وبدرا وھو احد من قتل ابا جھل. وقال ابن اسحاق فى المغازى: حدثنى ثور عن عكرمة عن ابن عباس قال: قال معاذ بن عمرو الجموح: سمعت القوم یقولون: ابو الحكم لایخلص الیه. فجعلته من شانى فصمدت نحوه فحملت علیه فضربته ضربة فاطنت قدمه… الخ.وفى المغازى ایضا ان عكرمة بن ابى جھل ضرب معاذ بن عمرو فقطع یده فبقیت معلقة حتى تمطى علیھا فالقاھا وقاتل بقیة یوم.50
حضرت معاذ Radi Allah Anhoبیعت عقبہ میں شریک تھے اور غزوہ بدر میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ ابو جہل کے قتل کرنے والوں میں سے بھی ہیں۔ابن اسحاق مغازی میں فرماتے ہیں کہ ثور نے مجھے بتایا کہ عکرمہ ابن عباس Radi Allah Anhumaسے روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموح Radi Allah Anhoنے کہا : میں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سناکہ اس تک پہنچنا بہت مشکل لیکن میں اس کی تاک میں رہا ۔آخر میں اس کی طرف لپکا اور ایسی زبردست ضرب لگائی کہ اس کے پاؤں کٹ گئے۔مغازی میں یہ بھی اضافہ ہے کہ پھر ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے معاذ بن عمرو پر حملہ کیا اور ان کا ہاتھ کٹ گیا لیکن ابھی ساتھ ہی لٹک رہا تھا کہ انہوں اس پر پاؤں رکھ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کو بدن سے جدا کردیا اور پھر جہاد و لڑائی میں مصروف ہوگئے۔

آپ کی وفات حضرت عثمان ذوالنورین Radi Allah Anho کی خلافت میں ہوئی۔چنانچہ امام ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:

مات زمن عثمان.51
آپ کی وفات حضرت عثمان ذوالنورینRadi Allah Anho کی خلافت میں ہوئی۔

جب آپ کا بازو کٹ گیا تو آپ اس بازو کو اٹھاکر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں آئے حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور اسے اپنی جگہ چمٹادیا سو وہ اپنی جگہ جڑگیا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

وقطع ابو جھل یوم بدر معوذ بن عفراء فجاء یحمل یده فبصق علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم والصقھا فلصقت.52
غزوہ بدر کے موقع پر ابو جہل نے سیدنا معوذ بن عفراء Radi Allah Anhoکا ہاتھ (بازو) کاٹ دیا پھر وہ اپنا بازو اٹھائے ہوئے حاضر خدمت بارگاہ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہوئے۔تو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر لعاب اقدس لگایا اور اسے اپنی جگہ چپکادیا سو وہ اپنی جگہ دوبارہ جم گیا۔

اسی طرح امام ابن سید الناس Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

فجاء یحمل یده فبصق علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم والصقھا فلصقت.53
اپنا بازو اٹھائے ہوئے حاضر خدمت بارگاہ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہوئے۔تو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر لعاب اقدس لگایا اور اسے اپنی جگہ چپکادیا سو وہ اپنی جگہ جم گیا۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن ہر مرض کے لیے شفاء کا باعث تھااورجس سے مرض انتہائی سرعت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا تھا۔

لعاب ِ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے زخمی سینہ شفایاب ہوگیا

حضرت کلثوم بن حصینRadi Allah Anho ابو رھم غفاری کی کنیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ بیت رضوان میں شریک تھے اور فتح مکہ کے موقعہ پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام بغوی فرماتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مضى لسفره یعنى فى غزوة الفتح واستخلف على المدینة.54
فتح مکہ کے موقعہ پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔

اسی طرح امام محمد بن سعد بصری فرماتے ہیں:

وشھد معه احدا ورمى یومئذ بسھم فوقع فى نحره فجاء الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فبصق علیه فبراء.55
وہ جنگ احد میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ شریک ہوئے اس روز ان کے گلے میں تیر لگا تو وہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں آئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لعاب مبارک لگا دیا تو آپ صحت یاب ہوگئے۔

اسی طرح امام ابن عبد البر مالکی 56، قاضی عیاض،57 امام سخاوی58 اور ابن حجر عسقلانی ان سب نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 59

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک سے زخمی انکھ کی شفایابی

حضرت قتادہ بن نعمان ابن زید ابن عامر اوسی آپ حضرت ابو سعید خدری Radi Allah Anho کے ماں شریک بھائی ہیں اور ان دونوں کی ماں انیسہ بنت قیس نجاریہ ہے۔آپ کی کنیت ابو عبداﷲ ہے۔آپ تمام غزوات میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ شریک ہوئے اور پینسٹھ (65) سال کی عمر میں حضرت فاروق اعظمRadi Allah Anho کے دور خلافت میں وفات پائی اور فاروق اعظم Radi Allah Anhoنے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ امام سہیلی حضرت قتادہ بن نعمانRadi Allah Anho کے بارے میں فرماتے ہیں:

یہ حضرت ابو سعید خدری Radi Allah Anhoکے اخیافی بھائی ہیں یعنی ماں شریک بھائی ۔آپ ہی وہ شخص ہیں جنہیں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بار بار سورہ اخلاص پڑھتے دیکھا تو فرمایا واجب ہوگئی (یعنی جنت )آپ کا واقعہ مؤطا شریف میں مذکور ہے۔ 60

جنگ بدر ،اُحد یا جنگ خندق میں حضرت قتادہ بن نعمان Radi Allah Anhoکی آنکھ زخمی ہوگئی اور اس کا ڈھیلہ بہہ کر رخسار پر آگیا۔ آپ اسے ہاتھ میں لے کر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ اقدس میں آئے توحضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگاکراس ڈھیلہ کو اپنی جگہ پر رکھ دیا۔اس کے بعد وہ بالکل صحیح ہوگئی اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی کونسی آنکھ میں زخم آیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن عبد البر مالکی فرماتے ہیں:

شھد بدرا والمشاھد كلھا واصیبت عینه یوم بدر وقیل یوم الخندق وقیل یوم احد فسالت حدقته فارادوا قطعھا ثم اتوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فدفع حدقته بیده حتى وضعھا موضعھا ثم غمزھا براحته وقال: اللّٰھم اكسھا جمالا فجاء ت وانھا لاحسن عینیه وما مرضت بعده.61
حضرت قتادہ بن نعمان Radi Allah Anho غزوہ بدر میں حاضر تھے اور اس کے بعد تمام مشاہد (جنگوں)میں حاضر رہے۔ غزوہ بدر میں ان کی آنکھ نکل گئی تھی، دوسرا قول ہے کہ غزوہ خندق میں نکلی تھی، تیسرا قول ہے کہ غزوہ احد میں نکلی تھی۔ان کی آنکھ کا ڈھیلہ آنکھ سے نکل کر ٹکا ہوا تھاتو صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے ارادہ کیا کہ اس کو کاٹ دیں۔ پھر وہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آئےتوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی آنکھ کے ڈھیلہ کو اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور اس کی جگہ پر رکھا دیا اورپھر اپنی ہتھیلی سے اس کو دبایا اور دعا کی: اے اﷲ! اس آنکھ کو حسن وجمال عطا فرما۔ پس ان کی وہ آنکھ دونوں آنکھوں میں سے زیادہ خوبصور ت ہوگئی اور اس کے بعد ان کی آنکھ میں کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔

حضرت نعمان بن قتادہ Radi Allah Anhoاس حوالہ سے خود فرماتے ہیں کہ میں احد کے روز نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے کھڑے ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تیروں سے دفاع کررہا تھا کہ ایک تیر میری آنکھ میں لگا جس سے میری آنکھ کا حلقہ باہر آپڑا۔ میں اسے ہاتھ میں لیکر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف بھاگا اور رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ بے کس پناہ میں پہنچ گیا۔چنانچہ مروی ہے:

فلما راه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى كفى دمعت عیناه فقال: اللّٰھم ان قتادة قد اوجه نبیك بوجھه فاجعلھا احسن عینیه واحدھما نظرا فكانت احسن عینیه واحدھما نظرا.62
جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے میری ہتھیلی پردیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دعا مانگی، اے اﷲ! قتادہ کو بچا جس طرح اس نے تیرے نبی کے چہرے کا دفاع کیا اس کی آنکھ کو زیادہ خوبصورت اور تیز فرما۔ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعا کا یہ اثر ہوا ہےکہ وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی۔

امام حاکم نیشاپوری نے اس روایت کو یوں بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہیں:

وشھد قتادة بن النعمان العقبة مع السبعین من الانصار وكان من الرماة المذكورین من اصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شھد بدرا واحد ورمیت عینه یوم احد فسالت حدقته على وجنته فاتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ان عندى امراة احبھا وان ھى رات عینى خشیت تقذرھا فردھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بیده فاستوت ورجعت وكانت اقوى عینیه واصحھما بعد ان كبر وشھد ایضا الخندق والمشاھد كلھا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكانت معه رایة بنى ظفر فى غزوة الفتح.63
حضرت قتادہ بن نعمان Radi Allah Anhoنے ستر انصاری صحابہ کرام Radi Allah Anhumکے ہمراہ عقبہ میں شرکت کی تھی۔ جنگ بدر و احد میں شرکت کی اور جنگ احد میں تیر اندازوں میں بھی یہ شامل تھے۔ جنگ احد کے موقع پر ان کی آنکھ پر تیر لگا جس کی وجہ سے ان کی آنکھ باہر آگئی تھی۔ یہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! میری بیوی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ اگر اس نے میری یہ پھوٹی ہوئی آنکھ دیکھ لی تو مجھے خدشہ ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگ جائے گی۔رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی آنکھ اس کے مقام پر لگا کر درست فرمادی توان کی بینائی لوٹ آئی بلکہ اس آنکھ کی بینائی دوسری سے زیادہ ہوگئی اور بڑھاپے کے عالم میں بھی یہ آنکھ سلامت رہی۔ آپ جنگ خندق اور تمام غزوات میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہمراہ شریک ہوئے اور فتح مکہ کے موقع پر بنی ظفر کا جھنڈا انہی کے ہاتھوں میں تھا۔

سہیلی Radi Allah Anhoنے حضرت جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anhoسے اس کو یوں روایت کیاہے:

اصیبت عین رجل منا یوم احد وھو قتادة بن نعمان حتى وقعت على وجنته فاتینا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: ان لى امراة احبھا واخشى ان راتنى ان تقذرنى فاخذھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بیده وردھا الى موضعھا وقال: اللّٰھم اكسبه جمالا. فكانت احسن عینیه واحدھما نظرا وكانت لاترمد اذا رمدت الاخرى.64
اُحد کے روز ہمارے ایک ساتھی حضرت قتادہ بن نعمان Radi Allah Anho کی آنکھ زخمی ہوگئی حتیٰ کہ آنکھ کا ڈھیلا آپ Radi Allah Anhoکے رخسار پر لٹکنے لگا۔ ہم آپ Radi Allah Anhoکو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں لے آئے۔ آپ Radi Allah Anhoنے عرض کی: مجھے اپنی زوجہ سے محبت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ جب وہ مجھے ایک آنکھ کے بغیر دیکھے گی تو نفرت کرے گی۔ یہ سن کر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آنکھ کا ڈھیلا اپنے دست اقدس سے پکڑ کر دوبارہ اپنے مقام پر رکھا اور دعا فرمائی: اے اﷲ !اسے حسن وجمال عطا فرما۔ (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس دعا کی برکت سے) وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ روشن تھی۔ جب دوسری آنکھ کو آشوبِ چشم ہوتا تو یہ تندرست رہتی۔

اسی طرح حضرت ابو سعید خدری Radi Allah Anho اپنے بھائی حضرت قتادہ بن نعمان Radi Allah Anho سے روایت کرتے ہیں:

اصیبت عیناى یوم بدر فسقطتا على وجنتى فاتیت بھما النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاعادھما مكانھما وبزق فیھما فعادتا تبرقان.65
بدر کے روز میری آنکھیں باہر نکل گئی تھیں میں اسی حالت میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس حاضر ہوا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا لعاب مبارک لگاکر انہیں اپنی جگہ رکھ دیا اس کے بعد وہ بالکل صحیح ہوگئی تھیں۔

امام بیہقیRehmatullah Alaih حضرت قتادہ بن نعمانRadi Allah Anho سے ا س کو یوں روایت کرتے ہیں:

رمیت بسھم یوم بدر ففقئت عینى فبصق فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ودعا لى فما اذانى منھا شى.66
غزوہ بدر والے دن مجھے تیر لگا اور اس نے میری آنکھ پھوڑ کر شگاف کردیا، پھر سیدنا رسول اﷲ نے اس میں لعاب مبارک لگایا اور میرے لیے دعا فرمائی، لہٰذا اس میں سے کسی شئی نے مجھے تکلیف نہیں پہنچائی۔

امام ابویعلی Rehmatullah Alaihنے جنگ ِ بدر کے دوران اس کے وقوع ہونے کا ذکرکیا ہے۔چنانچہ وہ روایت کرتے ہیں:

عن قتادة بن النعمان انه اصیبت عینه یوم بدر فسالت حدقته على وجنته فارادوا ان یقطعوھا فسأل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: لا. فدعا به فغمز حدقته براحته فكان لا یدرى اى عینیه اصیبت.67
حضرت نعمان بن قتادہ Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ غزوہ بدر میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی اور اس کا ڈھیلہ بہہ کر رخسار پر آگیا۔ لوگوں نے چاہا کہ اسے کاٹ کر الگ کردیں تو انہوں نے اس سلسلہ میں رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے دریافت کیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: نہیں (ایسا نہ کرو) ۔پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت قتادہRadi Allah Anho کو بلاکر اپنی ہتھیلی سے ان کی آنکھ کا ڈھیلا اس کی جگہ پر دبادیا تو انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی کونسی آنکھ میں زخم آیا تھا۔

امام ابن عبد البر Rehmatullah Alaihاس واقعہ کا زمانہ و مقام بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

قال ابو عمر: الاصح وللّٰه اعلم ان عین قتادة اصیبت یوم أحد.68
ابو عمر نے فرمایا: اللہ ہی بہترجانتا ہے درست یہ کہ جنگ اُحد میں حضرت قتادہ کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی۔

امام بیہقی نے اس پر باقاعدہ ایک باب باندھا ہے جس میں اس روایت کو ذکر کیا ہے۔چنانچہ آپ نے یوں باب باندھا:

من وقوع عین قتادة بن النعمان على وجنته ورد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عینه الى مكانھا وعودھا الى حالھا.69
قتادہ بن نعمان کی آنکھ کو اپنی جگہ درست کردینا اوراس کا اپنی اصلی حالت پرآجانا باوجودیکہ آنکھ کی پُتلی اس کے چہرے پر بہہ گئی تھی۔

اسی حوالہ سے عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت ہے:

ان قتادة بن النعمان سقطت عینه على وجنته یوم احد فردھا رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فكانت احسن عینیه واحدھا.70
حضرت قتادہ بن نعمانRadi Allah Anho کی آنکھ جنگ احد میں زخمی ہوگئی تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے واپس اٹھاکر رکھ دیا تو وہ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت ہوگئی۔

ٹھیک ہونے کے بعد اس آنکھ کی حالت کو امام واقدیRehmatullah Alaih یوں بیان فرماتے ہیں:

وكان یقول بعد ان اسن: ھى وللّٰه اقوى عینى وكانت احسنھما.71
حضرت قتادۃ اپنی عمر کے آخری حصہ میں فرمایا کرتے تھے : قسم بخدامیری دونو ں آنکھوں میں وہ آنکھ(جس کو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لعاب دہن سے ٹھیک کیا تھا) زیادہ قوی اور حسین ہے۔

ایک روایت میں اس طرح آتا ہے:

فردھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاستوت ورجعت وكانت اقوى عینیه واصحھما بعد ان كبر.72
پھررسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس ڈھیلے کو اس کی جگہ لوٹا دیا جس کی وجہ سے وہ درست اور صحیح ہوکر اپنی جگہ لوٹ گئی اور دونوں آنکھوں میں سے یہ آنکھ زیادہ صحیح اور قوی ہوگئی تھی حالانکہ آپRadi Allah Anho بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔

حضرت قتادۃ کی اولاد سے ایک شخص چند لوگوں کی معیت میں حضرت عمر بن عبد العزیز Radi Allah Anho کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزRadi Allah Anho نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواباً یہ شعر کہے:

أنا ابن الذى سالت على الخد عینه... فردت بكف المصطفى أیما رد فعادت كما كانت لأول أمرھا ... فیا حسن ما عین ویا حسن ما خد.73
میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کی آنکھ اس کے رخسار پر بہہ گئی پھر محمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دست اقدس کے ذریعے اسے اپنے اصلی مقام پر لوٹا دیا گیا۔جب وہ آنکھ اپنے مقام پر واپس آئی تو پہلے کی طرح صحیح و سالم تھی اور کیا ہی اس حسن وجمال کی شان تھی جو آپ کی آنکھ اور رخسار پر ظاہر ہوگیا۔

یہ شعر سن کر حضرت عمر بن عبد العزیز Radi Allah Anho نےایک شعر کہاجس کا ترجمہ ہے کہ وہ خوبیاں کوئی ایسی نہ تھیں کہ دودھ کے دوبڑے پیالے ہوں جن میں پانی ملا ہوا ہو پھر وہ بعد میں پیشابوں کی شکل اختیار کرجائیں۔پھر حضرت عمر بن عبد العزیز Radi Allah Anho نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور گراں قدر انعام سے نوازا۔74

متذکرہ بالا حوالہ جات سے واضح ہو اکہ مرض کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو بس اس کو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہنِ اقدس سے لمس پانے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ صحت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اب انہی روایات کا بغور مطالعہ فرمائیں تو واضح ہوگا کہ ایک وہ آنکھ جو ظاہری طور پر بالکل ہی بہہ گئ ہے اور جس کے صحیح ہونے کا امکان تک ختم ہوگیا ہے اس کو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے لعاب دہن لگا کر ایسا ٹھیک کیا کہ وہ بینائی اور حسن میں اس آنکھ سے بھی بڑھ گئی جو آنکھ پہلے سے ٹھیک اور اپنی اصلی حالت پر تھی ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ لعاب دہن رب تبارک وتعالیٰ کے اس محبوبِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ہے جس کے منہ مبارک کی شان کو خود خالق کائنات قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے۔75

حضرت ابو ذرRadi Allah Anho کی انکھ پر لعاب مبارک کااثر

سیدنا ابو ذر غفاری Radi Allah Anhoکا شمار مشہور صحابہ کرامRadi Allah Anhum میں ہوتا ہے جنگ اُحد میں آپ کی بھی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے لعاب مبارک لگاکر اس کو ٹھیک کردیا تھا۔چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن حارث اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:

اصیبت عین ابى ذر یوم احد فبزق فیھا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فكانت اصح عینیه.76
غزوہ اُحد میں حضرت ابوذر غفاری Radi Allah Anhoکی آنکھ زخمی ہوگئی، تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس میں لعاب دہن لگایا جس کی وجہ سے وہ دوسری آنکھ سے زیادہ صحیح ہوگئی۔(یعنی اس کی بینائی دوسری آنکھ کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوگئی)

دنیا میں آنکھوں کی روشنی اور بینائی کے لیے استعمال ہونے والی ادویات صرف گرتی ہوئی بینائی کو روکنے کا کام کرتی ہیں ۔ آج تک کسی بھی ایسی دواء کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کے استعمال سے بینائی پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوگئی ہو سوائے اس کے کہ آنکھوں کی سرجری ہوجائے اور اس میں بھی اس بات کا امکان ہی رہتا ہے کہ آنکھ کی بینائی تیز ہو۔ واضح رہے کہ یہ لگی ہوئی آنکھ یا آنکھوں کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ نکلی ہوئی اور بھی پھٹ اور بہہ کر نکلی ہوئی آنکھوں کی بات ہورہی ہے جس کو لعاب مصطفیٰ کی برکت نصیب ہوتی تو وہ اپنی روشنی اور بینائی میں پہلے سے زیادہ تیز بلکہ ہمیشہ کے لیے صحت مند اور تندرست ہوگئیں۔

تیر لگی ہوئی انکش پر لعاب مبارک کا اثر

حضرت رافع بن مالک انصاریRadi Allah Anho کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اور خزرج میں سب سے پہلے اسلام آپ ہی لائے تھے۔ آپ جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جنگ کے دوران آپ کی آنکھ زخمی ہوگئی جس پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا لعاب دہن مبارک لگایا اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئی۔اسی حوالہ سے حضرت رافع بن مالک Radi Allah Anhoفرماتے ہیں:

لما كان یوم بدر تجمع الناس على امیة بن خلف فاقبلت الیه فنظرت الى قطعة من درعه قد انقطعت من تحت ابطه فطعنته بالسیف فیھا طعنة فقتلته ورمیت بسھم یوم بدر ففقئت عینى فبصق فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثم دعا لى فما آذانى فیھا شىء.77
جنگ بدر کے دن کافی سارے لوگوں نے امیہ بن خلف کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔میں اس کی طرف متوجہ ہوا تومیں نے اس کی زرہ کو دیکھ لیا کہ اس کی بغل کے نیچے ایک جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ چنانچہ میں نے تلوار کا وہیں پر وار کیا اور اس کو قتل کر ڈالا۔پھر جنگ بدر میں میری آنکھ میں ایک تیر آکر لگا جس کی وجہ سے میری آنکھ ضائع ہوگئی۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس آنکھ میں اپنا لعاب دہن لگایا اور دعا فرمائی مجھے کسی قسم کا کوئی درد وغیرہ محسوس نہیں ہوا۔

حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب مبارک غذاء بھی ہے

بعض اوقات اہل بیت نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب بھوک سے نڈھال ہوجاتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سیدہ فاطمہRadi Allah Anha اور حسنین کریمین Radi Allah Anhumکے منہ میں لعاب دہن ڈالتے یا اپنی زبان ان کے منہ میں رکھ دیتے جس سے ان کی بھوک پیاس ختم ہوجاتی۔چنانچہ حضرت ابو جعفر Radi Allah Anhoسے روایت ہے :

بینما الحسن مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذ اعطش فاشتد ظماه فطلب له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ماء فلم یجد فاعطاه لسانه فمصه حتى روى.79
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس حضرت امام حسنRadi Allah Anho موجود تھے کہ انہیں پیاس لگی اور تشنگی بڑھتی رہی پانی اس وقت موجود نہ تھا چنانچہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دے دی انہوں نے اس کو چوسا حتیٰ کہ وہ سیراب ہوگئے اور تشنگی رفع ہوگئی۔

اسی طرح حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے غلام حضرت اسحاق بن ابی حبیبہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

أن مروان بن الحكم أتى أبا ھریرة فى مرضه الذى مات فیه، فقال مروان لأبى ھریرة: ما وجدت علیك فى شىء منذ اصطحبنا إلا فى حبك الحسن والحسین. قال: فتحفز أبو ھریرة فجلس، فقال: أشھد لخرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، حتى إذا كنا ببعض الطریق سمع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صوت الحسن والحسین وھما یبكیان وھما مع أمھما، فأسرع السیر حتى أتاھما، فسمعته یقول لھا: ما شأن ابنى؟ فقالت: العطش. قال: فأخلف رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى شنة یبتغى فیھا ماء، وكان الماء یومئذ أغدارا، والناس یریدون الماء، فنادى: ھل أحد منكم معه ماء؟ فلم یبق أحد إلا أخلف بیده إلى كلابه یبتغى الماء فى شنة، فلم یجد أحد منھم قطرة، فقال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: ناولینى أحدھما. فناولته إیاه من تحت الخدر... فأخذه فضمه إلى صدره وھو یطغو ما یسكت، فأدلع له لسانه فجعل یمصه حتى ھدأ أو سكن، فلم أسمع له بكاء، والآخر یبكى كما ھو ما یسكت، فقال: ناولینى الآخر. فناولته إیاه ففعل به كذلك، فسكتا فما أسمع لھما صوتا، ثم قال: سیروا. فصدعنا یمینا وشمالا عن الظعائن حتى لقیناه على قارعة الطریق، فأنا لا أحب ھذین وقد رأیت ھذا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟.80
مروان بن حکم، حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho کے پاس اس بیماری میں آئے جس میں آپRadi Allah Anho نے وصال فرمایا۔ مروان نے حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho سے کہا: جب سے ہماری ملاقات ہوئی ہے میں نےآپRadi Allah Anho کے پاس سوائے حسن اور حسینRadi Allah Anhuma کی محبت کے کوئی شے نہیں پائی۔حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoنے حرکت کی اور اس کے بعد بیٹھ گئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکلےابھی ہم آدھے راستے میں تھے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے امام حسنRadi Allah Anho اور امام حسین Radi Allah Anhoکے رونے کی آواز سنی۔دونوں اپنی والدہ کے پاس تھےتوحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تیزی سے چلے اور دونوں کے پاس آئے۔ میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوفرماتے ہوئے سنا: میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ حضر ت سیدہ Radi Allah Anhaنے عرض کی: ان کو پیاس لگی ہے۔حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho فرماتے ہیں: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک مشکیزہ کی طرف پانی تلاش کرنے کے لیے گئے اور ان دنوں پانی نہیں مل رہا تھااورلوگ بھی پانی چاہتے تھے۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بلند آوازسےفرمایا: کیا تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟ کسی کے پاس پانی نہیں تھاسوائے اس کے جو پیچھے چھوڑ آئے تھے،ان میں سے کسی سے پانی کا قطرہ تک نہ ملا۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک مجھے دو۔ حضرت سیدہRadi Allah Anha نے پردے کے نیچے سے آپ کو پکڑایا۔۔۔۔حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho فرماتے ہیں: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پکڑا اور سینے سے لگایا پھر بھی وہ خاموش نہیں ہورہے تھے۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں داخل کی اور وہ چوسنے لگے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئےپھر میں نےان کے رونے کی آواز نہ سنی۔جب یہ خاموش ہوگیاتو دوسرا رونے لگاتو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: دوسرا مجھے پکڑاؤ! حضرت سیدہ نے پکڑایا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ دونوں خاموش ہوگئے اوردونوں کے رونے کی آواز نہ سنی پھر فرمایا: چلو! ہم آپ کی سواری کے دائیں اور بائیں جانب چلنے لگے یہاں تک کہ ہم آپ کو راستے کے آخر میں ملے۔ حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoنے مروان سے کہا: میں ان دونوں سے محبت نہ کروں؟ جبکہ میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ کرتے دیکھا ہے۔

اسی طرح اس روایت کو محدث امام یوسف مزیٔ Rehmatullah Alaihنے بھی روایت کیا ہے۔ 81

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک سے شفایابی

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن کی کئی برکات ہیں جو بے شمار ہیں۔اسی برکت کے حوالہ سے حضرت جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anhuma ذکر کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں :

خرجنا فى غزوة ذات الرقاع حتى اذا كنا بحرة واقم عرضت امراة بدویة بابن لھا فجاء ت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت: یا رسول اللّٰه ! ھذا ابنى قد غلبنى علیه الشیطان. فقال: ادنیه منى. فادنته منه. فقال: افتحى فمه. ففتحته فبصق فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ثم قال: اخسا عدو للّٰه وانا رسول اللّٰه . قالھا ثلاث مرات ثم قال: شانك بابنك لیس علیه باس فلن یعود الیه شىء مما كان یصیبه.82
ہم غزوہ ذات الرقاع میں نکلے یہاں تک کہ جب ہم سخت گرمی میں تھے تو ایک بدوی عورت اپنے بیٹے کو لے کر ملی۔ وہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں آئی اور عرض کی: اے اﷲ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! یہ میرا بیٹا ہے اس پر شیطان کا غلبہ ہے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اس کو میرے قریب کر۔ اس نے آپ کے قریب کیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اس کا منہ کھولو۔اس نے اس کا منہ کھولا رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا پھر فرمایا: اے اﷲ کے دشمن نکل جا! میں اﷲ کا رسول ہوں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ کلمات تین بار کہےپھر فرمایا: تیرے بیٹے کے ساتھ تیرے کام کااس پر کوئی گناہ نہیں سو اس کو جو تکلیف پہنچ چکی وہ پہنچ چکی اب اس کی طرف سے کوئی چیز ہرگز نہ لوٹے گی۔

اسی طرح امام ابن ابی شیبہ Rehmatullah Alaihنے اس روایت کوان الفاظ میں ذکر کیاہے:

فعرضت لنا امراة معھا صبى لھا فقالت: یارسول اللّٰه! ان ابنى ھذا یاخذه الشیطان كل یوم مرارا. فوقف بھا ثم تناول الصبى فجعله بینه وبین مقدم الرحل ثم قال: اخسا عدو للّٰه انا رسول اللّٰه ثلاثا ثم دفعه الیھا.83
ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ ہمارے سامنے آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میرے اس بیٹے کو شیطان ہر روز کئی کئی بار پکڑلیتا ہے۔ بس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس عورت کے پاس ٹھہر گئے اور بچے کو لے کر اپنے اور اپنے کجاوہ کے اگلے حصہ کے درمیان کرلیا پھر تین بار فرمایا: اے اللہ کے دشمن دور ہوجا میں اللہ کا رسول ہوں ۔ پھر اسے اس کی ماں کو لوٹا دیا۔

اس کو مزید تفصیل سے بیان کرتے ہوئےامام سیوطی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

واخرج البزار والطبرانى فى الاوسط وابو نعیم عن جابر قال: خرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى غزاة ذات الرقاع حتى اذا كنا بحرة واقم عرضت امراة بدویة بابن لھا فقالت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ! ھذا ابنى قد غلبنى علیه الشیطان ففتح فاه فبزق فیه وقال: اخس عدو للّٰه انا رسول اللّٰه ثلاثا ثم قال: شانك بابنك لن یعود الیه شىء مما كان یصیبه فلما رجعنا جاء ت المراة فسالھا عن ابنھا فقالت: ما اصابه شىء مما كان یصیبه.84
امام بزار، امام طبرانی اور امام ابو نعیم رحمہم اﷲ نے حضرت جابر Radi Allah Anhoسے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہمراہ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے جب ہم حرہ اوراَقم کے مقام پر پہنچےتو ایک بدو عورت اپنا بچہ لیکر حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے اس بچے پر جن کا غلبہ ہے پس نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کا منہ کھول کر اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تین بار فرمایا: اے دشمن خدا! دور ہو میں اﷲ کا رسول ہوں۔ پھر فرمایا: اپنے بچے کو لے جاؤ اب وہ جن دوبارہ نہیں آئے گا۔ جب ہم جنگ سے لوٹےتو وہ عورت حاضر ہوئی،حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس عورت سے اس کے بچے کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے کہا : نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن لگانے کے بعد وہ جن دوبارہ نہیں آیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت یعلی بن مرہ Radi Allah Anhoسےبھی مروی ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

ان امراةاتت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بابن لھا فقالت: ان ابنى ھذا قد اصابه لمم. فتفل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فیه ثم قال: بسم للّٰه محمد رسول اللّٰه اخسا عدو للّٰه. قال: فلم یضره شىء بعد.85
ایک صحابیہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس اپنے بیٹے کو لے کر آئیں انہوں نے کہا :میرے بیٹے کو جنون طاری ہوگیا ہے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس بچے کے منہ میں لعاب دہن ڈالا پھر یہ (کلمات ارشاد) فرمائے: اﷲ تعالیٰ کے نام سے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ کے رسول ہیں اےاﷲ تعالیٰ کے دشمن دفع ہوجا۔ راوی فرماتے ہیں کہ: اس کے بعد اس بچے کو کسی چیز نے نقصان نہیں پہنچایا۔

اسی طرح امام حلبیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وفى ھذه الغزوة جاء ته صلى اللّٰه عليه وسلم امراته بدویة بابن لھا فقالت: یا رسول اللّٰه! ھذا ابنى قد غلبنى علیه الشیطان. ففتح فاه فبزق فیه وقال: اخسا عدو للّٰه انا رسول اللّٰه. ثم قال صلى اللّٰه عليه وسلم : شانك بابنك لن یعود الیه شىء مما كان یصیبه اى فكان ذلك.86
اسی غزوہ میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس ایک بدوی عورت اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور کہنے لگی:یا رسول اﷲ! یہ میرا بیٹا ہے اس پر شیطان کا غلبہ ہے!حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کا منہ کھولا اور اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر فرمایا: اے دشمن خدا! دور ہو میں اﷲ کا رسول ہوں۔پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس عورت سے فرمایا:تمہارا بیٹا ٹھیک ہوگیا اس کو جو کچھ روگ تھا اب کبھی نہیں ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

ان روایات سے معلوم ہواکہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب اقدس ہر بیماری کے لیے شفاء ہے خواہ وہ آسیب زدہ ہی کیوں نہ ہو۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب مبارک حافظہ کا نسخہ اعظم

اس لعاب اقدس کی برکت کے حوالہ سےحضرت عثمان بن ابی العاصRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

شكوت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سوء حفظى للقرآن قال ذلك شیطان یقال له: خنزب. ادن منى یا عثمان ثم تفل فى فمى فوضع یده على صدرى فوجدت بردھا بین كتفى. فقال: یا شیطان اخرج من صدر عثمان. قال: فما سمعت شیئا بعد ذلك الا حفظته.87
میں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس بات کی شکایت کی کہ قرآن حکیم میرے سینے سے نکل جاتا ہے (یعنی یاد نہیں رہتا) تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :یہ شیطان ہے جسے خنزب کہتے ہیں۔ تم میرے قریب آؤ اے عثمان! پھر آپ نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور میرے سینے پر دست مبارک رکھ دیا ۔میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی پھرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اے شیطان عثمان کے سینے سے نکل جا ۔کہتے ہیں کہ پھر میں جو چیز بھی سنتا مجھے یاد رہتی۔

اسی طرح امام ابن ماجہ Rehmatullah Alaih حضرت عثمان بن ابی العاصRadi Allah Anho سے روایت کرتے ہیں:

لما استعملنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على الطائف جعل یعرض لى شىء فى صلاتى حتى ما ادرى ما اصلى فلما رایت ذلك رحلت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: ابن ابى العاص؟ قلت: نعم یا رسول اللّٰه. قال: ماجاء بك؟ قلت: یا رسول اللّٰه! عرض لى شىء فى صلواتى حتى ما ادرى ما اصلى. قال: ذاك الشیطان ادنه فدنوت منه فجلست على صدور قدمى. قال: فضرب صدرى بیده وتفل فى فمى وقال: اخرج عدو للّٰه. ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال: الحق بعملك. قال: فقال عثمان: فلعمرى ما احسبه خالطنى بعد.88
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب مجھے طائف کا گورنر بنایا تو میرے دل میں اس قسم کے خیالات آنے لگے کہ مجھے یہ بھی یاد نہ رہتا کہ کتنی نمازیں پڑھنی ہیں۔ جب میں نے یہ حالت دیکھی تو سفر کرکے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے مجھے دیکھ کر کہا :ابو العاص کے بیٹے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: کیسےآناہوا؟ میں نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سن کر فرمایا:آگے آؤ۔میں ادب سے دو زانو سامنے بیٹھ گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک رکھا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تین بار ارشاد فرمایا :اے اﷲ کے دشمن نکل جا۔ اس کے بعد فرمایا:اے عثمان اپنے کام پر جاؤ۔ حضرت عثمانRadi Allah Anho کہتے ہیں: اﷲ کی قسم اس روز سے اس قسم کے شیطانی وسوسے میرے دل میں کبھی پیدا نہ ہوئے۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن نہ صرف ظاہری امراض کے لیے شفاء کا اکسیر اعظم ہے بلکہ باطنی و نفسیاتی امراض کے لئے بھی ا س کا درجہ اکسیرِ اعظم ہی کا ہے۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب مبارک نسخہ کیمیاء

جس طرح رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات عالیہ تمام تر برکات و ثمرات کی جامع ہے اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن بھی ہر طرح کے امراض کے لیے کلی شفاء ہے۔چنانچہ اس پر مزید روشنی درجِ ذیل روایت سے پڑتی ہے جس کو حضرت اسامہ بن زید Radi Allah Anho روایت کرتے ہیں:چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

خرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الى الحجة التى حجھا حتى اذا كنا ببطن الروحاء نظر الى امراة تومه فحبس راحلته فلما دنت منه قالت: یا رسول اللّٰه! ھذا ابنى والذى بعثك بالحق ما افاق من یوم ولدته الى یومه ھذا. قال: فاخذه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم منھا فوضعه فیما بین صدره وواسطة الرحل ثم تفل فى فیه وقال اخرج یا عدو للّٰه فانى رسول اللّٰه. قال: ثم ناولھا ایاه وقال: خذیه فلا باس علیه. قال اسامة: فلما قضى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حجته انصرف حتى اذا نزل بطن الروحاء اتته تلك المراة بشاة قد شوتھا فقالت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم! انا ام الصبى الذى لقیتك به فى مبتدئك. قال: وكیف ھو ؟قال: فقالت: والذى بعثك بالحق ما رابنى منه شیء بعد.89
ہم لوگ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حج کے لئے نکلے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حج کیا تھا حتیٰ کہ جب ہم بطن وادی ورحاء میں پہنچے توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک عورت آتی ہوئی نظر آئی ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی سواری روک لی پھر جب وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب آئی تو بولی: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! یہ میرا بیٹا ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، جس دن سے میں نے اس کو جنم دیا ہے تب سےآج تک یہ صحیح طرح سے ہوش میں نہیں آیا۔ راوی کہتے ہیں : رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے عورت سے اس کو لے لیا اور اس بچہ کو اپنے سینے اور پالان کے درمیانی لکڑی کے درمیان رکھ دیا۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس بچہ کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: نکل جا اے اﷲ کے دشمن میں اﷲ کا رسول ہوں۔کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہ بچہ اس عورت کو دے دیا اور فرمایا: اس کو اب اس پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔حضرت اسامہ فرماتے ہیں: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب اپنا حج پورا کرچکے تو لوٹ آئے حتیٰ کہ جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وادی روحاء میں پہنچے تو وہ عورت ایک بھنی ہوئی بکری لے کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آئی اور بولی :یا رسول اﷲ! میں اس بچے کی ماں ہوں جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شروع میں ملی تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا کہ وہ بچہ کیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے بعد تو مجھے اس کی بیماری (یا جن وغیرہ) کا شک بھی نہیں گزرا۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک سے جنون کا خاتمہ

لعاب دہن اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس برکت کے اظہارکے بارے میں حضرت اُم جندبRadi Allah Anha فرماتی ہیں:

رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عند جمرة العقبة راكبا ووراء ه رجل یستره من رمى الناس فقال: یا ایھا الناس لا یقتل بعضكم بعضا ومن رمى جمرة العقبة فلیرمھا بمثل حصى الخذف. قالت: ورایت بین اصابعه حجرا قالت: فرمى ورمى الناس. قالت: ثم انصرف فجاء ت امراة ومعھا ابن لھا به مس قالت: یا نبى للّٰه ابنى ھذا فامرھا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فدخلت بعض الاخبیة فجاء ت بتور من حجارة فیه ماء فاخذه بیده فمج فیه ودعا فیه واعاده فیه ثم امرھا. فقال: اسقیه واغسلیه فیه. قالت: فتبعتھا فقلت: ھیتى لى من ھذا الماء. فقالت: خذى منه فاخذت منه حفنة فسقیته ابنى عبدللّٰه فعاش فكان من بره ماشاء للّٰه ان یكون قالت: ولقیت المراة فزعمت ان ابنھا برى وانه غلام لا غلام خیر منه.90
میں نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جمرہ عقبہ پر دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سواری پر سوار تھے اور ان کے پیچھے آدمی تھا جو ان کو چھپا رہا تھا لوگوں کی رمی سے۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا تھا: اے لوگو! تم میں سےکوئی ایک دوسرے کو قتل نہ کرے اور جو شخص جمرہ عقبہ کی رمی کرے اس کو چاہئے کہ وہ ٹھیکری کی مثل چھوٹی کنکری سے کرے۔ کہتی ہیں: میں نے ان کی اُنگلیوں کے درمیان پتھر دیکھا۔مزید کہتی ہیں: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے رمی کی پھر لوگوں نے بھی رمی کی پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لوٹ آئے۔ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا اس کو کوئی بیماری تھی (یا اس پر اثر تھا) اس نے کہا :یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میرا یہ بیٹا بیمار ہے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کو حکم دیا تو وہ بعض خیموں میں سے ایک پتھر کا برتن لے آئی اور اس میں پانی لائی۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس میں سے ہاتھ سے پانی لے کر کلی کرکے اس میں ڈال دی اور دعا کرکے وہ ہاتھ اس میں ڈال دئیے پھر اس سے کہا: اس کو پلائے اور اس سے نہلائے۔ کہتے ہیں: میں اس عورت کے پیچھے پیچھے گئی میں نے کہا: مجھے بھی اس میں سے تھوڑا سا پانی دیجئے۔ اس نے کہا : اس میں سے لےلو۔ میں نے اس میں سے لے لیا میں نے اپنے بیٹے عبداﷲ کو پلایا وہ زندہ رہا اور نیک بنا۔کہتی ہے :میں اس عورت سے ملی میں نے گمان کیا کہ اس کابیٹا صحت یاب ہوگیا اور وہ ایسا لڑکا بن گیا کہ اس سے بہتر کوئی نہیں تھا۔

ایک سال کے بعد بچہ کی کیاحالت ہوئی؟ اس حوالہ سے امام ابو نعیم کی روایت میں یوں ذکر ہے:

قالت: فلقیت المراة من الحول فسالتھا عن الغلام، فقالت: برا وعقل عقلا لیس كعقول الناس.91
حضرت اُم جندب Radi Allah Anha فرماتی ہیں:میں ایک سال بعد اس عورت سے ملی اور بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا :اسے شفاء مل گئی اور وہ ایسا عقل مند اور دانا ہے کہ اس کی عقل عام لوگوں کی عقلوں کی طرح نہیں ہے۔

محمد بن یوسف صالحی Rehmatullah Alaihکی روایت میں مزید جملہ یوں مذکور ہے:

وعقل عقلا لیس كعقول الناس.92
اور وہ ایسا عقل مند اور دانا ہے کہ اس کی عقل عام لوگوں کی عقلوں کی طرح نہیں ہے۔

یعنی کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب دہن سے مریض صحت یاب تو ہوتا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ لعاب دہن کی برکات کی وجہ سے وہ جگہ اپنی قوّت و توانائی اور حسن میں بھی شدید تر ہوجاتی تھی جیساکہ ماقبل تمام روایات سےواضح ہوجاتا ہے۔

لعاب مبارک سے ناسور کا کامیاب علاج

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی برکت کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کالعابِ دہن اتنا با برکت ہوگیا تھاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جس مقصد کے لیے استعمال فرمانا چاہتے تو فرمالیتے۔چنانچہ اسی برکت کو بیان کرتے ہوئے محمد بن ابراہیم سے مرسلاً روایت ہے:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اتى برجل برجله قرحة قد اعیت على الاطباء فوضع اصبعه على ریقه ثم رفع طرف الخنضر فوضع اصبعه على التراب ثم رفعھا فوضعھا على القرحة ثم قال:باسمك اللّٰهم ریق بعضنا بتربة ارضنا لیشفى سقیمنا باذن ربنا. باسمك اللّٰهم ریق بعضنا بتربة ارضنا لیشفى سقیمنا باذن ربنا.93
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت اقدس میں ایک شخص لایا گیا جس کے پاؤں پر پھوڑا تھا اور اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے تھے ۔حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے چھنگلی پر لعاب دہن لگایا اور پھر اسے زمین پر رکھ کر اس کے پھوڑے پر رکھا اور یہ دعا ارشاد فرمائی: اے اللہ ! ہم میں سے بعض کے لعاب ، ہماری زمین کی مٹی کے ذریعے ہمارے بیماروں کو شفا ملے ہمارے رب کے حکم سے۔

امام ابن النجار ی Rehmatullah Alaihکی روایت میں یوں مذکورہے:

ثم وضع اصبعه التى تلى الابھام على التراب بعد ما مسھا بریقه.94
پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انگوٹھے کے بعد والی (شہادت کی ) انگلی اپنے لعاب مبارک میں مس کرنے بعد مٹی پر رکھی۔

یعنی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا لعاب دہن اپنی انگشتِ مبارک پر لگا کر اس پر مٹی لگائی اور پھر اس کو مریض کی مرض والی جگہ پر رکھا اور دعا فرمائی جس سے اس کا مرض ٹھیک ہوگیا۔

لعاب مبارک جلے ہوئے ہاتھ کا مرہم

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن جس زخم یا مرض پر لگتا اسے بالکل اسی طرح ٹھیک کردیتا جیسا کہ وہ پہلے صحیح و سالم تھا ۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت محمد بن حاطب Radi Allah Anhoفرماتے ہیں:

وقعت على یدى القدر فاحترقت فانطلقت بى امى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فجعل یتفل علیھا ویقول :اذھب الباس رب الناس واحسبه قال: واشف انت الشافى.95
میرے ہاتھ پر ہانڈی گری تو وہ جل گیا پھرمیری والدہ مجھے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس لے آئیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس پر لعاب دہن لگایا اور یہ دعا پڑھی:اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما اور شفاء عطاء فرما کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے۔

اسی طرح حضرت محمد بن حاطب Radi Allah Anho کی والدہ حضرت اُم جمیل Radi Allah Anha کہتی ہیں:

اقبلت بك من ارض الحبشة حتى اذا كنت من المدینة على لیلة او لیلتین طبخت لك طبیخا ففنى الحطب فخرجت اطلبه فتناولت القدر فانكفات على ذراعك فاتیت بك النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقلت: بابى وامى یا رسول اللّٰه ھذا محمد بن حاطب فتفل فى فیك ومسح على راسك ودعا لك وجعل یتفل على یدیك ویقول: اذھب الناس رب الناس واشف انت الشافى لا شفاء الا شفاؤك شفاء لا یغادر سقما فقالت فما قمت بك من عنده حتى برات یدك.96
ایک مرتبہ میں تمہیں (یعنی حضرت محمد بن حاطب Radi Allah Anho کو) سرزمین حبشہ سے لے کر آرہی تھی۔جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لئے کھانا پکانا شروع کیااور اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہوگئیں۔ میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی پر ہاتھ مارا اور وہ اُلٹ کر تمہارے بازو پر گرگئی پھر میں تمہیں لے کر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! میرے ماں باپ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر قربان ہوں، یہ محمد بن حاطب ہے ۔نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تمہارے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیر کر تمہارے لئے دعاء فرمائی ۔نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب دہن ڈالتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرمااور شفاء عطاء فرما کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے ا ورتیرے علاوہ کسی کی شفاء نہیں ہے، ایسی شفاء عطاء فرما جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے ۔میں تمہیں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس سے لے کر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہوگیا۔

امام ابن حبان نے 97 اور امام بیہقی Rehmatullah Alaih98 نے بھی اس روایت کو یوں ہی ذکر کیا ہے۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک سے رسولی کا فوری طور پر ختم ہوجانا

عموما ہوتا یہ ہے کہ مرض کسی دواء سے ختم تو ہوجاتا ہے لیکن اس کا نشان ختم نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تو وہی نشان ایک بار پھر مرض کی شکل اختیا ر کرلیتا ہے۔لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن جس مرض پر لگ جاتا تو وہ مرض ختم تو ہوتاہی تھا لیکن ساتھ ساتھ اس کا نشان بھی ایسا ختم ہوتا تھاکہ مریض خود اس جگہ کو دیکھ کر اندازہ نہیں لگا پاتا کہ ا س جگہ کبھی کوئی مرض بھی تھا۔رسول ِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعابِ دہن کی اسی برکت کو حضرت شرحبیل Radi Allah Anho جعفی یوں بیان فرماتے ہیں:

اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وبكفى سلعة فقلت: یارسول اللّٰه ھذه السلعة قد آذتنى تحول بینى وبین قائم السیف ان اقبض علیه عنان الدابة. فقال: ادن منى.فدنوت منه. فقال لى: افتح كفك. ففتحتھا ثم قال: اقبضھا فقبضتھا ثم قال: ادن منى فدنوت منه فقال: افتحھا ففتحتھا فنفث فى كفى ووضع كفه على السلعة فما زال یطحنھا بكفه حتى رفعھا عنھا وما ادرى این اثرھا.99
میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آیا جب کہ میرے ہاتھ پر رسولی نکلی ہوئی تھی ۔میں نے کہا: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! یہ رسولی مجھے بہت تکلیف دے رہی ہے اس کی وجہ سے میں تلوار کا دستہ نہیں پکڑسکتا اورجانور کی باگ نہیں پکڑسکتا ۔فرمایا :میرے قریب آؤ۔میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب ہوا فرمایا: ہاتھ کو کھولو ۔میں نے کھول دیا پھر فرمایا : بند کرو۔ میں نے بند کیا پھر کہا: میرے قریب ہو۔ میں قریب ہوا فرمایا: کھولو۔ میں نے کھولا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے میری ہتھیلی میں دم کیا اورتھتکارا (جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب دہن قطرہ قطرہ ہوکراس پر گرا) اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی ہتھیلی رسولی پر رکھ لی اور اس کو ہتھیلی سے رگڑتے رہے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی ہتھیلی اس کے اُوپر سے اُٹھالی میں نہیں جانتا کہ اس کا اثر کہاں تھا (گویا کہ رسولی کا نشان ہی باقی نہ رہا)۔

امام طبرانی Rehmatullah Alaih کی روایت میں بھی اسی طرح ذکر ہے۔ 100 اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے رسولی والی جگہ پر لعاب دہن لگا کر اس پر اپنا ہاتھ بھی پھیرا یہاں تک کہ رسولی کا نام ونشان فورا بغیر کسی تاخیر کے ختم ہوگیا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لعاب مبارک کا ایک مشرک پر اثر

مذکورہ بالا روایات پڑھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ لعابِ اقدس کی رحمتیں اور برکتیں صرف مسلمانوں کے لیے ہی خاص تھیں بلکہ اس کی برکات و ثمرات غیر مسلوں کے لیے بھی اسی طرح جاری تھی جس طرح ایک مسلمان کے لیے۔چنانچہ ملاعب الاسنہ نامی شخص کے پیٹ میں سخت درد رہتا تھا۔ اس نے ایک شخص کو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس بغرضِ شفا بھیجا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ایک ڈھیلا زمین سے لے کر اس پر تھوکا اور فرمایا کہ اس کو پانی میں گھول کر پلادو ۔جب اسے وہ پانی پلایا گیا تو فوراً صحت یاب ہوگیا۔ چنانچہ امام ابو نعیم اصفہانی بئرمعونہ کے واقعہ میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وفى ھذه القصة قال: واقبل ابو براء سائرا وھو شیخ ھرم فبعث بابن اخیه لبید بن ربیعة بھدیة فرس فرده النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقال: لا اقبل ھدیة مشرک ولو قبلت لقبلت ھدیة ابى براء. فقال لبید: ما كنت اظن ان احدا من مضر یرد ھدیة ابى براء قال: قد بعث یستشفیك من وجع كانت به الدبیلة فتناول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حبوة من الارض اى مدرة فتفل فیھا ثم ناوله ایاھا فقال: دفھا بماء ثم اسقھا ایاہ ففعل فبرأ.101
اسی قصہ بئر معونہ میں یہ بھی ہے کہ ابوبراء (عامر بن مالک ملاعب الاسنہ) جو کہ بہت بوڑھا تھا، چلتا ہوا آیا اور اپنے بھتیجے لبید بن ربیعہ کے ہاتھ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس ایک گھوڑا بطور ہدیہ بھیجا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اسے لوٹا دیا اور فرمایا: میں کسی مشرک کا ہدیہ نہیں لیتا اور اگر لیتا ہوتا تو ابوبراء کا ہدیہ ضرور لے لیتا۔ لبید نے کہا: میں یہ گمان نہیں کرسکتا کہ بنو مضر کا کوئی شخص ابوبراء کا ہدیہ لوٹادے پھر لبید نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے کہا: ابوبراء نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اپنے پیٹ (معدہ) کی تکلیف میں مبتلاء ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے اس کی دواء چاہتا ہے ۔نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے زمین سے مٹھی بھرخاک اٹھائی اور اس میں کچھ لعاب دہن ڈالا پھر اسے دیتے ہوئے فرمایا: اسے پانی میں ملانا اور اسے پانی پلادینا ۔اس نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہوگیا۔

اسی حوالہ سے امام سیوطی روایت کرتے ہیں:

واخرج الواقدى وابو نعیم عن عروة انه ملاعب الاسنة ارسل الى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یستشفیه من وجع كان به الدبیلة فتناول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مدرة من الارض فتفل فیھا ثم ناولھا ایاه فقال دفھا بماء ثم اسقھا ایاه ففعل فبرا ویقال انه بعث الیه بعكة عسل فلم یزل یعلقھا حتى برأ.102
امام واقدی اور امام ابو نعیم بحوالہ عروہ نقل کرتے ہیں کہ ملاعب الاسنہ نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں درد سے شفا حاصل کرنے کے لئے پیغام بھیجاکیونکہ اسے پھوڑانکلاہوا تھا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مٹی کا ایک ڈھیلا لیکر اس میں لعاب دہن ملایا پھر اس کے حوالے کردیا اور فرمایا: اس میں پانی ملاکر اسے پلاؤ۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا تو اسے درد سے نجات مل گئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کی طرف شہد کی ایک کپی بھیجی جو اس نے پوری استعمال بھی نہ کی کہ اس کو شفا ہوگئی۔

اسی طرح احمد بن علی بن عبد القادر تقی الدین المقریزی بھی نقل کرتے ہیں:

ارسل الى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یستشفیه من وجع كان به الدبیلة فتناول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مدرة من الارض فتفل فیھا ثم ناوله وقال: دفھا بماء ثم اسقھا ایاه ففعل فبرأ.103
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مٹی کا ایک ڈھیلا لیکر اس میں لعاب دہن ملایا پھر اس کے حوالے کردیا اور فرمایا : اس میں پانی ملاکر اسے پلاؤ چنانچہ ایسے ہی کیا گیاتو اسے درد سے نجات مل گئی۔

اسی طرح اس روایت کوامام واقدینے بھی ذکر کیا ہے۔104 مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ لعاب مبارک میں خاص قسم کی تاثیر تھی اسی وجہ سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کے پہنچانے کی یہ تدبیر کی کہ پہلےڈھیلے پر اپنا لعاب ڈالا وہ ڈھیلے میں جذب ہوگیا پھر وہ ڈھیلا پانی میں گھول کر پلایا گیا تو اس کی تاثیر یہ ہوئی کہ ایک مضر بیماری جاتی رہی۔

لعاب مبارک سے کچلی ہوئی پنڈلی کی فوری صحتیابی

اس حوالہ سے حضرت معاویہ بن الحکم سلمی Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

كنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فانزل اخى على بن الحكم فرسه خندقا فقصرت الفرس فدق جدار الخندق ساقه فاتینا به النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على فرسه فمسح ساقه فما نزل عنھا حتى برأقال معاویة بن الحكم فى قصیدة له:
فأنزلها علي وهي تهوي
هوي الدلو مقرعة لسدل
فقال محمد صلى عليه
مليك الناس هذا خير فعل
لعالك فاستمر بها سويا
وكانت بعد ذاك أصح رجل.105

ہم رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہم رکاب تھے میرے بھائی علی بن حکم نے اپنے گھوڑے کو خندق پر سے چھلانگ لگوائی مگر وہ کود نہ سکاتو خندق کی دیوار سے ان کی پنڈلی کچل گئی۔ ہم ان کو گھوڑے پر اٹھاکر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں لائےتو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ا ن کی پنڈلی پر اپنا دست مبارک پھیراتو وہ گھوڑے سے اترنے سے پہلے ہی اچھے ہوگئے۔حضرت معاویہ بن حکم نے اس واقعہ کو اپنے قصیدے میں یوں بیان کیا ہے:

علی نے گھوڑے کو کدوایا تو وہ اس طرح گراجیسے بھرا ہوا ڈول گرتا ہے۔
فرمایا نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جوکہ لوگوں کے تاجدار ہیں یہ تو بہت اچھا فعل ہے۔

تم اپنے اس حسن عمل پرکار بند رہواور اس کے بعد ان کا یہ پاؤں دوسرے پاؤں سے زیادہ صحیح رہا۔
امام ابن عبد البر مالکیRehmatullah Alaihان اشعار میں یہ شعر بھی لکھتے ہیں:

فعصب رجلہ فسما علیھا
سمو الصقر صادف یوم ظل.106
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کے پاؤں کو پٹی باندھی تو وہ گھوڑے پر یوں چڑھا جیسے ابر آلود دن میں باز بلندی کی طرف اٹھتا ہے۔

اس مرض کی فورا شفایابی کے حوالہ سے امام بیہقی Rehmatullah Alaihذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وما نزل عن فرسه فمسحھا وقال: بسم للّٰه فما آذاه منھا شىء.107
ابھی گھوڑے سے نہیں اترا تھا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس پر ہاتھ مبارک پھیر دیا اور پڑھا بسم اﷲ لہٰذا اس کو اس سے کوئی ایذاء باقی نہ رہی۔

اسی طرح امام ابو عبداﷲ محمد بن موسیٰ مراکشی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وكذلك نفث على ساعد على بن الحكم یوم الخندق لما انكسرت فبرى مكانه وما نزل عن فرسه.108
اور اسی طرح غزوہ خندق والے دن حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت علی بن حکم Radi Allah Anhoکی کلائی پر جب وہ ٹوٹ گئی تھی لعاب دہن مبارک لگایا تو فی الفور ٹھیک ہوگئی اور وہ گھوڑے سے بھی نہیں اترے تھے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ لعاب دہن رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے ہر قسم کا مرض اور ہر قسم کا زخم ٹھیک ہوجاتا ہے۔

لعاب مبارک کا اونٹ پر فوری اثر

روایت میں آتا ہے کہ حضرت خلاد بن رافع Radi Allah Anhoاور ان کے بھائی حضرت رفاعہ Radi Allah Anho ایک لاغر اونٹ پر سوار ہوکر بدر کی طرف روانہ ہوئے اور نیت یہ کی کہ اس کو وہاں پہنچ کر قربان کردیں گے۔راستہ میں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے ملاقات ہوئی تو معاملہ عرض کیا۔چنانچہ روایت میں اس طرح منقول ہے:

فلما انتھیا الى قرب الروحاء برك البعیر قال: فقلنا: اللّٰھم لك علینا ان انتھینا الى بدر ان ننحره فرآنا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: ما بالكما؟ فاخبرناه فنزل النبی صلى اللّٰه عليه وسلم فتوضا ثم بزق فى وضوئه ثم امرھما ففتحا فم البعیر فصب فى جوفه ثم على راسه ثم على عنقه ثم على غاربه ثم على سنامه ثم على عجزه ثم على ذنبه ثم قال: صلى اللّٰه عليه وسلم اللّٰھم احمل رفاعة وخلادا. فقمنا نرحل: فادركنا اول الركب فلما انتھینا الى بدر برك فنحرناه وتصدقنا بلحمه.109
جب روحاء کے قریب پہنچے تو اونٹ بیٹھ گیا حضرت خلاد Radi Allah Anhoنے منت مانی کہ اگر ہم بدر تک پہنچ گئے تو اے اﷲ! ہم یہ اونٹ تیری رضا کے لئے قربان کردیں گے۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ہمیں دیکھ کر فرمایا:تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے؟ تو ہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ساری صورتحال عرض کی پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسواری سے اتر آئے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے وضو فرمایا پھر وضو کے پانی میں لعاب دہن ڈال کر انہیں حکم دیا (کہ وہ پانی اونٹ کے منہ میں ڈالیں) چنانچہ انہوں نے اونٹ کا منہ کھول کر پانی اس کے پیٹ تک پہنچایانیز اس کے سر اور گردن پر بھی ڈالا، پھر اس کی پیٹھ، کوہان اور پچھلے حصہ پر ڈالا۔ اس کے بعد نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے یہ دعا فرمائی: اے اﷲ! خلاد اور رفاعہ کو اس اونٹ پر سوار ہونے کی توفیق عطا فرما۔بعد ازاں ہم نے کوچ کیا اور اس اونٹ کی سرعت رفتاری کے باعث کارواں کے پہلے حصے کو جالیا جب بدر پہنچے تو اونٹ بیٹھ گیا پس ہم نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ بدر سے واپسی کے مقام پر اس اونٹ کو ذبح کیا۔اسی حوالہ سے امام واقدی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

فقلنا یا رسول اللّٰه !برك علینا فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بماء فتمضمض وتوضا فى اناء ثم قال: افتحا فاہ ففعلنا ثم صبه فى فیه ثم على راسه ثم على عنقه ثم على حاركه ثم على سنامه ثم على عجزه ثم على ذنبه ثم قال: اركبا. ومضى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فلحقناه اسفل المنصرف وان بكرنا لینفربنا حتى اذا كنا بالمصلى راجعین من بدر برك علینا.110
پس ہم نے کہا: یا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! ہمارا اونٹ بیٹھ گیا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پانی منگوایا اور برتن میں کلی کرکے وضو فرمایا پھر فرمایا: اس کا منہ کھولو اور ہم نے ایسا ہی کیا ۔پھرآپ ﷺنے اس کے منہ میں پانی ڈالا پھر اس کے سر پر پھر گردن پر پھر اس کی پیٹھ پر پھر کوہان پر پھر اس کے پچھلے حصہ پراور پھر اس کی دم پر پانی ڈالا پھر فرمایا :دونوں سوار ہوجاؤ۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamروانہ ہوگئے پس ہم ان سے مضرف کے قریب جاملے ، جبکہ ہمارا جانور تیز دوڑنے لگا یہاں تک بدر سے واپس میں نماز کی جگہ پہنچے تو وہ بیٹھ گیا۔

لعابِ مبارک سے لکنت کی شفایابی

حضرت ابو الیمان بشیر بن عقربہ جہنی Radi Allah Anhoجن کے والد حضرت عقربہRadi Allah Anho جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تھےجیساکہ روایت میں ہے:

وقتل ابوه عقربة مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.111
حضرت بشیر Radi Allah Anhoکے والد حضرت عقربہRadi Allah Anho حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ (جنگ اُحدمیں شامل تھے ) شہید ہوگئے تھے۔

آپ ہی وہ خوش نصیب صحابی ِرسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہیں جن کو روتے ہوئے جب حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دیکھا تو فرمایا:

اما ترضى ان اكون انا ابوك وعائشة امك.112
تمہیں پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ بنوں اور عائشہ تمہاری ماں ؟

امام بخاری Rehmatullah Alaihنے بھی اس کو روایت کیا ہے ۔113 اس پر مزید روشنی اس روایت سے پڑتی ہے جسے حضرت بشیر بن عقربہ Radi Allah Anho سے ابن عساکر نے نقل کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہیں:

لما قتل ابى یوم احد اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وانا ابكى فقال: یا حبیب ما یبكیك اما ترضى ان اكون انا ابوك وعائشة امك؟ فمسح على راسى فكان اثر یده من راسى اسود وسائرہ ابیض وكانت بى رتة فتفل فیھا وقال لى: مااسمك؟ قلت: بحیر. قال: بل انت بشیر.114
جب میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تو میں روتا ہوا نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :تم کیوں رو رہے ہو ،کیا تمہیں پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ بنوں اور عائشہ ( Radi Allah Anha) تمہاری ماں؟ اس کے بعد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے میرے سر پر اپنا دست کرم پھیرا جس کا اثر یہ ہوا کہ میرے سر کے وہ بال سیاہ رہے جہاں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دست مبارک رکھا تھا اور باقی بال سفید ہوگئے۔ میری زبان میں گرہ تھی تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس پر اپنا لعاب دہن ڈالاجس سے گرہ کھل گئی نیز آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: میرا نام بحیر ہے۔ فرمایا:بلکہ تمہارا نام بشیر ہے۔

امام علی بن حسام الدین ہندی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 115 لعاب دہن کی تاثیر کے بارے میں خود حضرت بشیرRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

فكانت فى لسان عقدة فنفث النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فى فانحلت من لسانى.116
میری زبان میں لکنت تھی حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے میرے منہ میں لعاب دہن مبارک ڈالا تو فوری طور پر میری زبان کی لکنت ختم ہوگئی۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک سے حضرت بشیرRadi Allah Anho کی جو گرہ کھل گئی یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس قسم کی عقدہ کشائیاں ہمیشہ ہوا کرتی تھیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کا نام اس لیے بدل دیا کہ بحیر کے معنی بدی اور عیب کے ہیں اور آپ کو ایسا نام پسند نہ تھا جس کے معنی برے ہوں۔

لعاب مبارک کی گھٹی سےمالداری

حضرت عبداﷲ بن عامر بن کریزRadi Allah Anho ہجرت کے چار سال کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بار ے میں امام حاکمRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

استعمله عثمان بن عفان على البصرة وعزل ابا موسى الاشعرى فقال ابو موسى: قد اتاكم فتى من قریش كریم الامھات والعمات والخالات یقول: بالمال فیكم ھكذا وھكذا او كان كثیر المناقب وھو الذى افتتح خراسان واحرم من نیسابور شكراً اللّٰه تعالى وعمل السقایات بعرفة.117
حضرت عثمان Radi Allah Anhoنے بصرہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری Radi Allah Anhoکو معزول کرکے ان کو وہاں کا عامل بنایا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری Radi Allah Anhoنے (اپنے معزولی کے حکم کے بعد) فرمایا تھا :اے لوگو! تمہارے پاس قریش کا ایسا جوان آیا ہے جس کا ننھیال اور ددھیال سب شرفاء ہیں۔ مال سے ان کو دلچسپی نہیں ہےاور بہت فضیلتوں کے مالک ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس نے خراسان کو فتح کیا اور نیشاپور سے احرام باندھا اور عرفات میں حاجیوں کو پانی پلایا کرتاتھا۔

اسی حوالہ سے امام ابن سعد Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

فلما كان عام عمرة القضاء سنة سبع وقد م رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مكة معتمراً حمل الیه ابن عامر وھو ابن ثلاث سنین فحنكه فتلمظ وتثاء ب فتفل رسول اللّٰه فى فیه وقال: ھذا ابن السلمیة؟ قالوا: نعم. قال: ھذا ابننا وھو اشبھكم بنا وھو مسقى. فلم یزل عبد للّٰه شریفا وكان سخیا كریما كثیر المال والولد.118
7ہجری میں جب عمرہ قضاء ہوا اور رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamعمرہ کے لیے تشریف لائے تو ابن عامر Radi Allah Anhoکو جو تین سال کے تھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس لایا گیا ۔حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے کھجور چبا کر ان کے تالو میں لگادی انہوں نے زبان سے نکال کر اسے چاٹا اور اپنا منہ کھول دیا حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈال دیا اور فرمایا : یہ سلمیہ کا بیٹا ہے؟ لوگوں نے عرض کی: جی ہاں۔ فرمایا:یہ ہمارا بیٹا ہے اور تم سب سے زیادہ ہمارا مشابہ ہے اور وہ سیراب ہوگا۔ حضرت عبداﷲ Radi Allah Anhoہمیشہ شریف رہے اور سخی،کریم اور بہت مال واولاد والے تھے۔

امام بیہقی Rehmatullah Alaihنے تو ا س بات کو بیان کرنے کے لیے باقاعدہ یوں باب باندھا ہے:

باب ماجاء فى تفله فى فم عبدللّٰه بن عامر بن كریز وما اصابه من بركته.
باب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا عبداﷲ بن عامر بن کریز کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالنا اور اس کو اس کی برکت پہنچنا۔

اس باب میں امام بیہقی نے ایک روایت ذکر کی ہے جس میں حضرت ابو عبیدہ نحوی Radi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

ان عامر بن كریز اتى بابنه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو ابن خمس سنین او ست سنین فتفل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فیه فجعل یزدرد ریق النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ویتلمظ فقال النبی صلى اللّٰه عليه وسلم: ان ابنك ھذا مسقى. قال: فكان یقال: لو ان عبدللّٰه قدح حجرا اماھه یعنى خرج من الحجر الماء من بركته.119
حضرت عامر بن کریز Radi Allah Anho اپنے بیٹے کو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس لے آیا جب وہ پانچ یا چھ سال کا تھا۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا ۔وہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے منہ کے پانی کو پینے اور مزہ لینے یعنی چٹخارے لینے لگا تونبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :بے شک تیرا یہ بیٹا سیراب ہوگا ۔کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا اگر حضرت عبداﷲ بن عامر Radi Allah Anhoپتھر پر تیر مارتا تھا تو اس کو پگھلادیتا تھا یعنی پتھر میں سے پانی نکلتا تھااور یہ سب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی برکت سےتھا۔

اسی طرح حضرت حنظلہ بن قیس بیان کرتے ہیں:

ان عبدللّٰه بن عامر بن كریز اتى به النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو صغیر فقال: ھذا شبھنا وجعل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یتفل علیه ویعوذه فجعل عبدللّٰه یتسوع ریق رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم : انه لمسقى فكان لا یعالج ارضا الا ظھر له الماء.120
حضرت عبداﷲ بن عامر بن کریز Radi Allah Anhumaکو بچپن میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ میں پیش کیا گیاتو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :یہ تو ہمارے ہی جیسا ہے پھر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنا لعاب دہن ان کے جسم پر مل کر دعا فرمائی۔ حضرت عبداﷲ Radi Allah Anhoنے رسول اﷲSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن مبارک نگل لیا نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:یہ سیراب ہوگا چنانچہ وہ کسی بھی جگہ کھدائی کرتے، وہاں سے پانی نکل آتا۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن نہ صرف مرض کی شفاء یابی کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعابِ مبارک باعثِ برکت ورحمت بھی ہے کہ جس کو اس سے حصہ نصیب ہوگیا اس کا مقام و مرتبہ معاشرہ میں کسی نہ کسی درجہ میں ممتاز و مشرف رہا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک سے بقرار ماں کو قرار

حضرت حارثہ بن سراقہ انصاریRadi Allah Anho یہ انصار میں سے پہلے صحابی ہیں جو اُحد میں شہید ہوئے۔ چنانچہ حضرت انس Radi Allah Anhoسے روایت ہے:

ان حارثة ابن الربیع جاء نظارا یوم احد وكان غلاما فاصابه سھم غرب فوقع فى ثغرة نحره فقتله فجاء ت امه الربیع فقالت: یا رسول اللّٰه ! قد علمت مكان حارثة منی فان یكن من اھل الجنة فساصبر والا فسترى ما اصنع. قال: یا ام حارثة! انھا لیست بجنة واحدة ولكنھا جنان كثیرة وھو فى الفردوس الاعلى قالت: فساصبر.121
حضرت حارثہ بن ربیع Radi Allah Anho اُحد کے دن آئے، یہ ابھی کم سن تھے کہ ان کو گلے میں تیر لگا اور یہ شہید ہوگئے ۔حضرت حارثہ Radi Allah Anho کی والدہ آئیں اورعرض کی: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! آپ حارثہ کا مقام مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اگر وہ جنتی ہے تو میں صبر کرتی ہوں اور اگر وہ جنتی نہیں تو پھر دیکھیے گا کہ میں کیا کرتی ہوں۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: اے اُم حارثہ ! وہ ایک جنت میں نہیں بلکہ کئی جنتوں میں ہے اور وہ فردوس اعلیٰ میں ہے۔اس پر آپ Radi Allah Anho کی والدہ نے کہاپھر تو میں صبر کرتی ہوں۔

اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امام واقدی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

ودعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باناء من ماء فغمس یده فیه ومضمض فاہ ثم ناول ام حارثة فشربت ثم ناولت ابنتھا فشربت ثم امرھمافنضحتا فى جیوبھما ففعلتا فرجعتا من عند النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وما بالمدینة امرأتان أقر أعینا منھما ولا أسر.122
اس کے بعد حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا۔ اس میں اپنا ہاتھ ڈبویا پھر کلی کرکے اس میں ڈالی اور وہ برتن ام حارثہ Radi Allah Anhoکے حوالے کیا۔ اس نے اس میں سے پی کر اپنی بیٹی کو دیا تو اس نے بھی پیا۔پھر انہیں حکم دیا کہ اس پانی کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی جب وہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس سے لوٹیں تو پورے مدینہ منورہ میں ان سے زیادہ کوئی ٹھنڈی آنکھ والی عورت نہ تھیں۔

لعاب مبارک کی برکت سے بے حیائی کا ازالہ

حضرت ابوامامہ Radi Allah Anhoسے مروی ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک خاتون تھی جس کا وطیرہ یہ تھا کہ جو منہ میں آتا کہہ دیتی تھی۔ حیا اس میں ذرہ بھر بھی نہ تھی اورلوگ اس سے تنگ تھے۔ایک دن وہ رحمت دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس آئی اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس وقت خشک کیا ہوا گوشت تناول فرمارہے تھے۔اس نے کہا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس میں سے مجھے بھی کچھ دیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس میں سے اسے کچھ دیا مگر اس نے یہ کہتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کردیاکہ نہیں بس وہی لوں گی جو آپ کے منہ مبارک میں ہے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے اپنے مبارک منہ سے کچھ حصہ نکال کر اسے دیا جو اس نے کھالیا۔ اس کے شکم میں لعابِ مبارک جانے کی دیر تھی کہ اس کی کیفیت ہی بدل گئی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

فلم یعلم من تلك المراة بعد ذلك الا مر الذى كانت علیه من البذاء والذرابة.123
پس اس خاتون میں فحش گوئی اور بے حیائی کا کوئی نام و نشان تک نہ رہا۔

امام طبرانی نےبھی اس روایت کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔124 اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت ابوامامہ Radi Allah Anho نے بھی بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہیں :

جاء ت امراة بذیئة اللسان الى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو یأكل قدیدا فقالت: الا تطعمنى؟ فناولھا مما بین یدیه فقالت: لا الا الذى فى فیك. فاخرجه فاعطاھا فالقته فى فمھا فأكلته فلم یعلم منھا بعد ذلك الامر الذى كانت علیه من البذاء والذرابة.125
ایک فحش گو عورت حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں حاضر ہوئی اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس وقت خشک گوشت تناول فرمارہے تھےتو اس نے عرض کی: کیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمجھے نہیں کھلائیں گے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اسے اپنے سامنے سے عطا فرمایا۔ اس نے کہا: نہیں! مجھے وہ عطا فرمائیں جو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے منہ میں ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے منہ مبارک سے نکالا اور اسے عنایت فرمایا۔ اس نے اسے اپنے منہ میں ڈال لیا اور کھاگئی۔ اس کے بعد اس کی ساری بے حیائی اور فحش گوئی ختم ہوگئی۔

اس روایات سے بخوبی واضح ہوا کہ رسولِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعابِ دہن نہ صرف ظاہری و باطنی امراض کے لیے شفاء بلکہ اس سے بڑھ کر یہ حیاء و پاکدامنی کے لیے بھی اکسیر تھا۔

حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhumaبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دیتے تھے حتیٰ کہ بزرگوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کو اپنے قریب بٹھاتے۔ایک روز حضرت عمر Radi Allah Anho نے حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma سے مخاطب ہوکر کہا:

انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم دعاك یوما فمسح راسک وتفل فى فیك فقال: اللّٰھم فقھه فى الدین وعلمه التاویل.126
ایک دن میں نے دیکھا کہ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے تجھے بلایا تیرے سر پر ہاتھ پھیرا اور تیرے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈال کر یہ دعا فرمائی: اے اﷲ اسے دین میں بصیرت اور تاویل کا علم عطا فرما۔

یہی وہ وقت تھا جس کے بعد سے عبداللہ ابن عبّاس Radi Allah Anhuma کو قرآنی علوم کے ماہرین میں شامل کیا جانے لگا اور ان کا سینہ قرآن پاک کے لئے کھول دیا گیا۔رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن نہ صرف امراض ظاہرہ وباطنہ کے لیے مفید ہے بلکہ معنوی لحاظ سے بھی انتہائی بابرکت و رحمت ہے۔جس کااندازہ حضرت عبد اللہ بن عباسRadi Allah Anho کی قرآن دانی سے بدرجہ اتم واضح ہوجاتا ہے۔

لعاب مبارک سے صحابی کے سر کی حفاظت

خیبر کا یہودی یسیر بن رزام جنگ کرنے کے لیے بنوغطفان کو جمع کرتا تھا ۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عبداﷲ بن رواحہRadi Allah Anho کو ایک جماعت کے ساتھ اس کی طرف بھیجا۔ ان میں حضرت عبداﷲ بن انیس Radi Allah Anhoبھی تھے۔چنانچہ امام ابن ہشام فرماتے ہیں:

وضربه الیسیر بمخرش فى یده من شوحط فأمَّه ومال كل رجل من اصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على صاحبه من یھود فقتله الا رجلا واحدا أفلت على رجلیه، فلما قدم عبد للّٰه بن انیس على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم تفل على شجته فلم تقحْ ولم تؤذه.127
یسیر بن رزام نے شوحط کی ایک شاخ سے حضرت عبداﷲ بن انیسRadi Allah Anhoپر حملہ کردیا جو اس کے ہاتھ میں تھی اور آپ کے سر کو زخمی کردیا۔ صحابہ کرامRadi Allah Anhum یہودیوں پر پل پڑے اور انہیں قتل کردیا مگرایک آدمی پیدل ہی بھاگ گیا ۔جب حضرت عبداﷲ بن انیسRadi Allah Anho رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کے زخم پر لعاب دہن لگایا تو ان کے زخم میں نہ پیپ پڑی اور نہ ہی زخم نے انہیں کوئی تکلیف دی۔

اسی حوالہ سے امام ابو نعیمRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

ولم یصب من المسلمین احد وقدموا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبصق فى شجة عبد للّٰه فلم تقح ولم تؤذه.128
مسلمانوں میں سے کوئی بھی شہید نہ ہوا پھر یہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس آئے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عبداﷲ بن انیسRadi Allah Anhum کے زخمی سر پر اپنا لعاب دہن لگایا تو نہ اس میں پیپ پڑی اور نہ درد والم کا احساس رہا۔ (زخم جلد درست ہوگیا)۔

امام بیہقیRehmatullah Alaih نے تو باقاعدہ اس پر یوں باب بھی باندھا ہے:

باب ذكر سریة عبد للّٰه بن رواحة الى یسیر بن رزام الیھودى وما ظھر فى شجة عبد للّٰه بن انیس من الصحة ببركة بصاق النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیھا.
عبداﷲ بن رواحہRadi Allah Anho کا یسیر بن رزام یہودی کی طرف سریہ کاذکر اور اس کی طرف سے حضرت عبداﷲ بن انیس Radi Allah Anhoکو زخمی کرنے پھر اس پر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب دہن لگانے سے برکت کا ظہورکے ذکر میں باب ۔

اور پھر اس باب میں ایک روایت ذکر کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:

عن ابن شھاب قال: بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عبد اللّٰه بن رواحة فى ثلاثین راكبا فیھم عبد للّٰه بن انیس السلمى الى الیسیر ابن رزام الیھودى حتى اتوہ بخیبر وبلغ رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم انه یجمع غطفان لیغزوه بھم فاتوہ فقالوا: ارسلنا الیك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لیستعمك على خیبر فلم یزالوا به حتى تبعھم فى ثلاثین رجلا مع كل رجل منھم ردیف من المسلمین فلما بلغوا قرقرةثبار وھى من خیبر على ستة امیال ندم الیسیر فاھوى بیده الى سیف عبد اللّٰه بن انیس ففطن له عبد اللّٰه فزجر بعیره ثم اقتحم یسوق بالقوم حتى اذا استمكن من الیسیر ضرب رجله فقطعھا واقتحم الیسیر وفى یده مخرش من شوحط فضرب به وجه عبد اللّٰه شجة مامومة كل رجل كل رجل من المسلمین على ردیفه فقتله غیر رجل واحد من الیھود اعجزھم شدا ولم یصب من المسلمین احد وقدموا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبصق فى شجة عبد اللّٰه بن انیس فلم تقح ولم توذه حتى مات.129
امام ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں : رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے عبداﷲ بن رواحہ کو یسیر بن رزام یہودی کی طرف تیس سواروں کے ساتھ بھیجا ان میں عبداﷲ بن انیس سلمی Radi Allah Anhoبھی تھے۔ یہ لوگ اس کے پاس خیبر میں آئے ۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو خبرملی تھی کہ وہ یہودی قبیلہ غطفان کو جمع کررہا ہے تاکہ وہ یہودی ان کے ساتھ مل کر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے جنگ کرے۔ یہ لوگ اس کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا :ہمیں تیرے پاس رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بھیجا ہے تاکہ تجھے خیبر پر عامل مقرر کردیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اس کے ساتھ اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ وہ ان کے تابع اور پیچھے ہولیا ۔تیس آدمیوں میں سے ہر آدمی کے ساتھ سواری پر ایک مسلمان پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔حتیٰ کہ جب وہ لوگ مقام قرقرہ ثبار پر پہنچےجو خیبر سے کچھ میل کے فاصلے پر تھا تویسیر نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ حضرت عبداﷲ بن انیسRadi Allah Anho کی تلوار کی طرف جھکایا حضرت عبداﷲ Radi Allah Anhoنے سمجھ لیا۔ اس نے اپنے اونٹ کو جھڑکا اور سواروں میں گھس گیا حتی کہ جب اس کو موقع ملا اس نے تلوار مارکر یسیر کی ٹانگ کاٹ دی یسیر سواروں میں گھس گیا مگر اس کے ہاتھ میں ایک کھونٹی یا بیت تھا۔ اس نے اسے عبداﷲ Radi Allah Anhoکے منہ پر مارا جس سے اس کے سر میں گہرا زخم لگ گیا اس کے بعد شدید جنگ شروع ہوئی۔ ان مسلمانوں نے ان سب یہودیوں کو قتل کردیا جو ایک ایک کے پیچھے سوار تھے۔ صرف ایک آدمی یہودی بچ گیا مگر مسلمانوں میں کوئی ایک بھی قتل نہیں ہوا۔ یہ لوگ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس لوٹ آئے تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عبداﷲ بن انیس Radi Allah Anhoکے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا جس کی وجہ سے نہ زخم خراب ہوا اور نہ ہی اس کو ایذا ہوئی حتیٰ کہ اپنے وقت پر ہی ان کا انتقال ہوا۔

ان روایات سے واضح ہو ا کہ سر پر لگنے والا گہرا زخم لعاب دہن کی تاثیر اور اعجاز وکمال سے وہ فوراً اچھا ہوگیا۔

لعاب کی برکت نے روزہ دار بنا دیا

حضرت رُزینہ Radi Allah Anhaیہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خادمہ تھیں اور حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زوجہ حضرت صفیہRadi Allah Anha کی باندی تھیں۔چنانچہ امام ابو نعیم Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

رزینة مولاة صفیة زوج النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.130
رزینہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ Radi Allah Anhaکی باندی ہیں۔

اسی حوالہ سے امام بیہقی Rehmatullah Alaihباب باندھتے ہیں:

باب ماجاء فى تفله فى افواہ المرتضعین یوم عاشوراء فتكفوا به الى اللیل
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا یوم عاشوراء میں شیرخواروں کے منہ میں لعاب دہن ڈالنا کہ وہ رات تک اسی پر رُکے رہتے تھے۔

اس میں ایک روایت کا ذکر کرتےہوئے آپ نقل فرماتے ہیں:

عن امھا امیمة قالت: قلت لامة للّٰه بنت رزینة مولاة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: یا امة للّٰه! اسمعت امك رزینة تذكر انھا سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یذكر صوم یوم عاشوراء؟ قالت: نعم! كان یعظمه ویدعو برضعائه ورضعاء ابنته فاطمة ویتفل فى افواھھم ویقول للامھات لا ترضعنھن الى اللیل.131
حضرت امیمہ Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں کہ میں نے امۃ اﷲ بنت رزینہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی باندی سے کہا: اے امۃ اﷲ!کیا آپ نے اپنی ماں رزینہ Radi Allah Anhaسے ا س بارے میں کچھ سنا تھا کہ انہوں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو صوم یوم عاشوراء کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہو؟ وہ بولی: جی ہاں! حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamیوم عاشوراء کو عظمت دیتے تھے اور دودھ پیتےبچوں کو بلواکر ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالتے اوران کی ماؤں سے کہتے تھے کہ ان کو رات تک دودھ نہ پلائیں۔

اسی کو امام ابو نعیم Rehmatullah Alaihاس طرح روایت کرتے ہیں:

فقلت لھا: اما سمعت من امك تذكر فى صوم عاشوراء اشیاء؟ فقالت: نعم! حدثتنى ام رزینة انھا سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یعظمه حتى ان كان لیدعو بصبیانه وصبیان فاطمة المراضیع فى ذلك الیوم فیتفل فى افواھھم ویقول لامھاتھم: لاترضعوھم الى اللیل.132
پس میں نے ان سے کہا :کیا آپ نے اپنی والدہ سے عاشورہ کے روزہ کے بارے میں کوئی چیز سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! مجھے ام رزینہ نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے سنا کہ آپ یوم عاشوراء کی تعظیم فرماتے تھے یہاں تک کہ اگر کسی کے بچے ہوتے تو بچوں سمیت انہیں بلاتے اور حضرت سیدہ فاطمہ Radi Allah Anhaکے بچوں کو بھی بلاتے جو ان دنوں میں دودھ پیتے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamان بچوں کے منہ میں لعاب دہن ڈالتے اور ان کی ماؤں سے فرماتے انہیں رات تک دودھ نہ پلائیں۔

امام ابن ابی عاصم شیبانی Rehmatullah Alaihنے بھی اس روایت کو ذکرکیا ہے۔133 امام طبرانی Rehmatullah Alaihکی روایت میں یوں منقول ہے:

ویتفل فى افوافھم فكان ریقه یجزئھم.134
ان بچوں کے دہنوں میں اپنا لعاب دہن ڈالتے اورحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن ان کے لیےکافی ہوجاتا۔

اسی حوالہ سےامام سیوطیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

واخرج البیھقى وابو نعیم عن رزینة مولاة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم عاشوراء كان یدعو برضعائه ورضعاء ابنته فاطمة فیتفل فى افواھھم ویقول للامھات: لاترضعنھم الى اللیل فكان ریقه یجزیھم.135
امام بیہقی اور ابو نعیم نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی باندی رزینہRadi Allah Anhuma سے روایت کی کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے یوم عاشوراء کو شیر خوار بچوں اور سیدہ فاطمہ Radi Allah Anhaکے بھی شیر خوار بچوں کو بلاتےاور ان کے دہنوں میں اپنا لعاب دہن ڈالتے اور ان کی ماؤں سے فرماتے: رات تک انہیں دودھ نہ پلانا پس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن ان کے لیےکافی ہوجاتا۔

متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن انسانی غذاء کے لیے بھی کافی و وافی ہے کہ جن بچوں کے منہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنا لعاب ِدہن ڈالتے تو وہ رات تک دودھ کے لیے نہیں روتے تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاکیزہ لعاب نے بدبو کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن انتہائی سرعت کے ساتھ اپنے اثرات کو اپنے سے لمس پانے والی اشیاء کی طرف منتقل کردیاکرتا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت عمیرہ بنت مسعود Radi Allah Anha سے روایت ہے :

دخلت على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ھى واخواتھا یبایعنه وھن خمس فوجدنه وھو یاكل قدیدا فمضع لھن قدیدة ثم ناولنى القدیدة فمضغتھا كل واحدة منھن قطعة فلقین للّٰه وما وجدن لافواھھن خلوفا.136
وہ خود اور ان کی بہنیں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس بیعت کے لئے حاضر ہوئیں جو پانچ بہنیں تھیں تو انہوں نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو قدید (سُکھایا ہوا گوشت) کھاتے پایا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے چپایا ہوا تھوڑا سا قدید آپ کو عنایت فرمایا تو(آپ فرماتی ہیں)ہم سب نے اس میں سے بانٹ کر کھالیا ۔اب بجز میرے وہ سب بہنیں اگرچہ وفات پاچکی ہیں پر کسی کے منہ میں کبھی بدبونہ پائی گئی۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن جب کسی انسان کے منہ میں جانے کے بعد اپنا یہ اثر ظاہر کرے کے زندگی بھر کے لیے اس کے منہ سے بدبو ختم کردے تو خود سرورِ عالم حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے منہ مبارک کا کیا عالم ہوگاجو اس لعاب دہن کا منبع و ماخذ ہیں اور جہاں یہ لعاب بنتا تھا۔

لعاب دہن کا اثر محمد بن ثابت Radi Allah Anho پر

اس لعاب مبارک کے اُس اثر و برکت کو بیان کرنے کے لیے جس کا ظہور محمد بن ثابت بن قیس پر ہوا امام بیہقی Rehmatullah Alaihنے یوں باب باندھا ہے:

باب :ماجاء فى تحنیكه محمد بن ثابت بن قیس بن شماس وبزاقه فى فیه وما ظھر فى ذلك ببركته من الاثار.
باب: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا محمد بن ثابت بن قیس بن شماس کی تحنیک کرنا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالنا اور اس کی برکت کے آثار کا ظاہر ہونا۔

اور اس باب میں ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے امام بیہقی Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن ثابت بیان کرتے ہیں:

ان اباہ ثابت بن قیس فارق جمیلة بنت عبد اللّٰه بن ابى وھى حامل بمحمد فلما ولدته حلفت ان لا تلبنه من لبنھا فدعا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبزق فى فیه وحنكه بتمر عجوة وسماہ محمداً وقال: اختلف به فان اللّٰه رازقه فاتیته الیوم الاول والثانى والثالث فاذا امراة من العرب تسال عن ثابت ابن قیس فقلت لھا: ما تریدین منه؟ انا ثابت .فقالت: رایت فى منامى ھذه اللیلة كانى ارضع ابنا له یقال له :محمداً. فقال :فانا ثابت وھذا ابنى محمد. قال :واذا درعھا بنعصر من لبنھا.137
ان کے والد حضرت ثابت بن قیس Radi Allah Anhoنے جمیلہ بنت عبداﷲ بن اُبی کو طلاق دے دی تھی اور وہ حاملہ تھی (محمد ان کے پیٹ میں تھے)۔ جب اس نےمحمد بن ثابت کو جنم دیا تو قسم کھائی کہ اس کو اپنادودھ نہیں پلائے گی۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس بچے کو منگواکر اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور عجوہ کھجور چبا کر اس کے تالو پر لگائی اور بچے کا نام محمد رکھا اور فرمایا :اس کے پاس آنا جانا رکھو بے شک اﷲ تعالیٰ اس کو رزق دینے والا ہے۔ لہٰذا میں آج پہلے دن اور دوسرے اور تیسرے دن اس کے پاس آیا۔ اچانک ایک عورت عرب میں پوچھتی پھر رہی تھی ثابت بن قیس کے بارے میں۔ میں نے اس عورت سے پوچھا : تم اس سے کیوں ملنا چاہتی ہو؟ میں ثابت ہوں۔ وہ بولی : میں نے آج رات خواب میں دیکھا گویا میں اس کے بیٹے کو دودھ پلارہی ہوں جس کا نام محمد ہے۔ انہوں نے بتایا : میں ہی ثابت ہوں اور یہ ہے میرا بیٹا محمد۔کہتے ہیں: یہ سنتے ہی اس عورت کی قمیص یا دوپٹے سے دودھ نچڑ کر ٹپکنے لگا۔

اس طرح امام حاکم Rehmatullah Alaihنے بھی اس روایت کو بیان کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے:

فدعا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبزق فى فیه وحنكه بتمر عجوة وسماه محمداً.138
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس بچے کو منگواکر اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور عجوہ کھجور چپا کر اس کے تالو پر لگائی اور بچے کا نام محمد رکھا۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب مبارک زخمی پنڈلی کا مرہم

حضرت سلمہ بن اکوع Radi Allah Anha بہت انتہائی طاقتور تھے اور آپ کا شمار بہادر صحابہ کرام Radi Allah Anhum میں ہوتا ہے۔چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

وكان من الشجعان ویسبق الفرس عدوا وبایع النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عند الشجرة على الموت.139
بہادروں میں آپ کا شمار ہوتا تھااور اپکی دوڑ کی رفتار اتنی تیز تھی کہ گھوڑے سے آگے نکل جاتے۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھ پر درخت کے پاس جان قربان کرنےکی بیعت کی تھی۔

غزوہ خیبر میں آپ کی پنڈلی زخمی ہوگئی توآپ حضور کی بارگاہ میں آئے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے تین مرتبہ لعاب دہن اس زخم پر لگایا تو آپ فی الفور ٹھیک ہوگئے۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت یزید بن ابوعبید Radi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

رایت اثر ضربة فى ساق سلمة فقلت: یا ابا مسلم ما ھذه الضربة؟ فقال: ھذه ضربة اصابتنى یوم خیبر. فقال الناس: اصیب سلمة فاتیت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فنفث فیه ثلاث نفثات فما اشتكیتھا حتى الساعة.140
میں نے حضرت سلمہ بن اکوع Radi Allah Anhaکی پنڈلی مبارک پر ضرب (چوٹ) کا نشان دیکھا تو میں نے کہا اے ابو سلمہ یہ چوٹ کیسی ہے؟ سیدنا سلمہ Radi Allah Anhaنے فرمایا: غزوہ خیبر میں یہ چوٹ مجھے لگی تھی، تو لوگوں نے کہا سلمہ زخمی ہوگیا ۔پھر میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس جگہ پر تین مرتبہ لعاب دہن لگایا اور اس دن سے ابھی تک مجھے اس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

امام بیہقی Rehmatullah Alaihنے اس واقعہ کو درج ذیل باب میں بھی ذکر کیا ہے:

باب ماجاء فى نفث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى جرح سلمة بن الاكوع یوم خیبر وبروہ ذلك.141
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سلمہ بن اکوع Radi Allah Anhoکے زخم پر (اپنا لعاب دہن) تُھتکارنا خیبر والے دن اور اس کا ٹھیک اور تندرست ہوجانا۔

صحابی کے جسم پرلعاب مبارک کا اثر

طبرانی میں حضرت عتبہ بن فرقدRadi Allah Anho جنہوں نے حضرت فاروق اعظمRadi Allah Anho کے عہد مبارک میں موصل کو فتح کیاتھا ان کے بارے میں ان کی اہلیہ ام عاصم Radi Allah Anhaسے مروی ہے کہ ہم عتبہRadi Allah Anho کی چار بیویاں تھیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے خاوند کی خاطر ایک دوسری سے زیادہ اور اچھی خوشبو استعمال کرتیں۔ لیکن اس کے باوجود عتبہ Radi Allah Anhoکے جسم کی خوشبو ہماری خوشبو پر غالب رہتی اسی طرح جب عتبہ Radi Allah Anhoکسی محفل یااجتماع میں جاتے تو لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ یہ خوشبو کہاں سے لاتے ہیں؟ ایسی خوشبو تو یہاں میسر نہیں۔ ایک دن ہم تمام خواتین نے ان سے پوچھا کہ ہم خوشبو لگانے میں مبالغہ سے کام لیتی ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کے جسم کی خوشبو بغیر خوشبولگائے اس پر غالب آجاتی ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟ اس پر حضرت عتبہ Radi Allah Anhoنے یہ واقعہ سنایا۔

اخذنى الشرا على عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاتیته فشكوت ذلك الیه فامرنى ان اتجرد فتجردت وقعدت بین یده والقیت ثوبى على فرجى فنفث فى یده و مسح ظھرى وبطنى فعقب بى ھذا الطیب من یومئیذ.142
میرے جسم پر رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ظاہری حیات میں پھنسیاں نکل آئیں تو میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر ان کے بارے میں عرض کیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مجھے کپڑے اتارنے کا حکم دیا میں کپڑے اتارکر اور ستر ڈھانپ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سامنے بیٹھ گیا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے دست مبارک پر دم فرماکر میری پشت اور پیٹ پر پھیرا جس دن سے میرے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دست مبارک پھیرا ہے اسی دن سے میرا جسم اس عمدہ خوشبو سے لبریز رہتا ہے۔

یہاں مقصود ان کی پھنسیوں کا علاج تھا مگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب اقدس نے ان کے جسم پر ایسا اثر کیا کہ نہ صرف ان کو پھنسیوں اور بیماری سے نجات ملی بلکہ جسم کو ہمیشہ کے لیے خوشبودار بنادیا ۔حالانکہ اعلیٰ سے اعلیٰ خوشبو بھی استعمال کرنے سے اس کا اثر دوچار روز باقی رہتا ہے اس کے بعد اس کا ازالہ ہوجاتا ہے مگر لعاب دہن مصطفویٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تاثیر دیکھئے کہ اس نے جسم کو ہمیشہ کے لیے معطر کردیا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب مبارک باعث برکت

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن ہر اس برکت و فائدہ کے لیے کارگر اور مفید تھا جس کے لیے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس کو استعمال کرنے کا ارادہ فرماتے۔جیسا کہ ما قبل میں مختلف نوعیتوں کی کئی ایک روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں۔اسی طرح جب یہ لعاب دہن کھانے کی اشیاء میں ملایا جاتا تو وہ بابرکت ہوجاتیں۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

لما حفر الخندق رایت بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم خمصا شدیدا فانكفات الى امراتى فقلت: ھل عندك شیء ؟فانى رایت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خمصا شدیدا. فاخرجت الى جرابا فیه صاع من شعیر ولنا بھیمة داجن فذبحتھا وطحنت الشعیر ففرغت الى فراغى وقطعتھا فى برمتھا ثم ولیت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت:لاتفضحنى برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وبمن معه فجئته فساررته فقلت: یا رسول اللّٰه! ذبحنا بھیمة لنا وطحنا صاعا من شعیر كان عندنا فتعال انت ونفر معك. فصاح النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: یا اھل الخندق! ان جابرا قد صنع سورا فحى ھلا بكم. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لا تنزلن برمتكم ولا تخبزن عجینكم حتى اجىء. فجئت وجاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یقدم الناس حتى جئت امراتى. فقالت: بك وبك. فقلت: قد فعلت الذى قلت فاخرجت له عجینا فبصق فیه وبارك ثم عمد الى برمتنا فبصق وبارك ثم قال: ادع خابزة فلتخبز معك واقدحی من برمتكم ولا تنزلوھا وھم الف فاقسم باللّٰه لقد اكلوا حتى تركوه وانحرفوا وان برمتنا لتغط كما ھى وان عیننا لیخبز كما ھو.143
جب خندق کھودی گئی تومیں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں شدید بھوک دیکھی۔ میں اپنی بیوی کےپاس آیااور اس سے کہا :کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں شدید بھوک کا اثر دیکھا ہے۔ پس اس نے میری طرف اپنا تھیلا نکالا جس میں ایک صاع (چار کلو گرام) جَو تھے اور ہمارے پاس ایک بکری کا بچہ تھا۔ سو میں نے اس کو ذبح کیا اور (میری بیوی نے) جَو کو پیسا۔پھر میری بیوی بکری کے بچے کو ذبح کرتے ہوئے جَو پیس کر فارغ ہوگئی اور میں نے گوشت کے ٹکڑے کرکے اس کو دیگچی میں ڈالا۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا: مجھے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور آپ کے اصحاب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔ سو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوا اور چپکے سے کہا: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! میں نے اپنے بکری کے بچہ کو ذبح کیا ہے اور ہم نے ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔سو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتشریف لائیں اور چند اصحاب آپ کے ساتھ ہوں۔ تب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بلند آواز سے فرمایا: اے اہل خندق! جابر نے تمہارے لیے کچھ تیار کیا ہے۔ سوتم آؤ! پھر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: تم دیگچی کو (چولہےسے) نہ اتارنا اور نہ روٹی پکانا شروع کرنا حتیٰ کہ میں پہنچ جاؤں۔ پھر میں آیا اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی لوگوں کے ساتھ آگئے حتیٰ کہ میں اپنی بیوی کے پاس آیاتو اس نے کہا: اﷲ تمہارے ساتھ بُرا کرے! (تم اتنے لوگوں کو لے کر آگئے اور کھانا تھوڑا ہے!) میں نے بتایا کہ میں نے وہی کیا تھا جو تم نے کہا تھا۔ میری بیوی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سامنے گوندھا ہوا آٹا لائی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا کی۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ہماری دیگچی کا قصد کیا اور اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا کی۔پھر فرمایا: روٹی پکانے والی کو بلاؤ جو تمہارے ساتھ روٹیاں پکائے اور اپنی دیگچی سے پیالہ میں سالن ڈالو اور دیگچی کو چولہے سے نہ اتارنا۔ وہ (اہل خندق) ایک ہزار تھے پس میں اﷲ کی قسم کھاکر بتاتا ہوں کہ ان سب نے کھانا کھالیا حتیٰ کہ بچادیا اور وہ واپس چلے گئے اور ہماری دیگچی میں سالن پہلے کی طرح اُبل رہا تھا اور ہمارے گوندھے ہوئے آٹے سے اسی طرح روٹیاں پک رہی تھیں۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ آٹے اور سالن میں جب حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنا لعاب مبارک ڈالا تو قلیل مقدار میں ہونے کے باوجود کھانا بہت زیادہ لوگوں کے لیے کافی ہوگیا اور چند آدمیوں کا کھانا ایک ہزار آدمیوں نے کھایا لیکن پھر بھی کھانا بچ گیا۔جہاں یہ واضح ہوا وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نبوت کی نشانی بھی تھی۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک سے سخت چٹان کا نرم ہوجانا

لعاب دہن کی برکت و ثمرات کا اندازہ لگانا واقعی ایک مشکل امر ہے۔لعاب دہن کثیر الفوائد ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب خصوصیات کا بھی حامل ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق بیان کرتے ہیں:

وكان فى حفر الخندق احادیث بلغتنى فیھا من اللّٰه تعالى عبرة فى تصدیق رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتحقیق نبوته عاین ذلك المسلمون.فكان مما بلغنى ان جابر بن عبد اللّٰه كان یحدث انه اشتدت علیھم فى بعض الخندق كدیة فشکوھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فدعا باناء من ماء فتفل فیه ثم دعا بماء شاءاللّٰه ان یدعو به ثم نضح ذلك الماء على تلك الكدیة فیقول من حضرھا: فوالذى بعثه بالحق نبیا لا نھالت حتى عادت كالكثیب ما ترد فاسا ولا مسحاة.144
خندق کی کھدائی کے متعلق مجھ تک ایسے واقعات پہنچے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تصدیق اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نبوت کی حقانیت کا ثبوت ہے اورمسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا۔(اس خندق کے حوالے سے مجھے جو کچھ پہنچا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ) سیدنا جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anho بیان کرتے ہیں : خندق کھودنے کے دوران ایک سخت چٹان آگئی اور اس کو توڑنا صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے لئے بہت مشکل ہوگیا تو صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ میں اس کےمتعلق عرض کی۔ پس حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پانی کا ایک برتن منگوایا پھر اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا پھر جتنا اﷲ تعالیٰ نے چاہا دعا فرمائی۔ پھر اس پانی مبارک کو اس سخت چٹان پر ڈال دیا۔وہاں موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا :اس ذات کی قسم جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا وہ چٹان سراب کی طرح ہوگئی اور ریت کے ٹیلے کی طرح بہہ گئی، نہ کلہاڑی چلانی پڑی اور نہ بیلچہ اور کدال مارنی پڑی۔

امام بیہقی Rehmatullah Alaih نے بھی اس روایت کو امام ابن اسحاق کے حوالے سے بیان کیاہے۔ 145حضرت داؤدAlaihis Salam کا یہ معجزہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں لوہے کو موم کردیا تھا۔جیساکہ باری تعالی کا ارشاد مقدس ہے:

وَاَلَنَّا لَه الْحَدِیدَ10146
اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے لعاب میں یہ تاثیر رکھدی کہ انتہائی مضبوط ترین چٹان کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب دہن کے ذریعہ پگھلادیا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب کی دشمنوں پر ہیبت

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک میں وہ روحانی اثر تھا کہ اس کی برکت سے تمام شیطانی اثرات ختم ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ دشمن بھی اس لعاب مبارک سے ڈرتے تھے۔چنانچہ امام ابن اسحاقRehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں:

یلقى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة فیقول: یا محمد !ان عندى العوذ فرسا اعلفه كل یوم فرقا من ذرة اقتلك علیه. فیقول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : بل انا اقتلك ان شاء اللّٰه. فلما رجع الى قریش وقد خدشه فى عنقه خدشا غیر كبیر فاحتقن الدم. قال: قتلنى واللّٰه محمد. قالواله: ذھب واللّٰه فؤادك واللّٰه ان بك من باس. قال: انه قد كان قال لى بمكة: انا اقتلك، فوللّٰه لو بصق على لقتلنى. فمات عدواللّٰه بسرف وھم قافلون به الى مكة.147
ابی بن خلف جب مکہ میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے ملتا تو کہا کرتا: اے محمد ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) میرے پاس ایک عود نامی گھوڑا ہے جسے میں روزانہ ایک فرق (تین صاع) مکئی کے دانے کھلاتا ہوں۔میں اس پر سوار ہوکر (معاذ اللہ)تمہیں قتل کروں گا۔ اس کی یہ بڑائی سن کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamفرماتے: تو نہیں بلکہ میں تجھے موت کے گھاٹ اتاردوں گا ان شاء اﷲ۔ چنانچہ (اُحد میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھوں) یہ بدبخت زخمی ہوکر قریش کی طرف لوٹا تو بظاہر اس کی گردن پر ایک معمولی سی خراش آئی تھی جس کا خون بھی رک گیا تھا لیکن اس نے قریش سے کہا: قسم بخدا! مجھے محمد ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نے قتل کردیا ہے۔ لوگ اسے کہنے لگے: بخدا! تم نے ہمت ہاردی ہے تجھے کوئی زخم تو لگانہیں بس معمولی سی خراش آئی ہے۔ وہ کہنے لگا: انہوں نے مجھے مکہ میں کہا تھا: میں تجھے قتل کروں گا۔ اس لئے خدا کی قسم!اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو وہ تھوک ہی مجھے ہلاک کردیتا۔چنانچہ کفار قریش کا لشکر مکہ واپس آرہا تھا تو سرف کے مقام پر اس دشمن خدا کی موت واقع ہوئی۔

لعاب رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے معذور ہاتھ کی فوری شفایابی

حضرت جرھد الاسلمیRadi Allah Anho اہل صفہ میں شامل تھے اور مدینہ منورہ میں یزید کی حکومت کے آخری ایام میں وفات پائی۔آپ Radi Allah Anhoسے ہی یہ روایت مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو حضور نبی کریم کے سامنے کھانا رکھا تھا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مجھ سے فرمایا:

یا جرھدكل فمد یده الشمال لیاكل وكانت الیمین مصابة فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: كل بالید الیمنى. فقال: انھا مصابة فنفث علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فما اشتكیتھا بعد حتى مات.148
اے جُرھد کھانا کھاؤ۔ تو آپRadi Allah Anho نے اپنا بایاں ہاتھ کھانے کے لئے بڑھایا کیونکہ دایاں ہاتھ زخمی تھا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا:دائیں ہاتھ سے کھاؤ آپ Radi Allah Anhoنے عرض کی وہ زخمی ہے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس پر لعاب اقدس لگایا اس کے بعد وصال تک مجھے تکلیف نہیں ہوئی۔

اسی طرح اس لعاب مبارک کے اثر و برکت کو بیان کرتے ہوئےحضرت سائب بن یزیدRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

عوذنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بفاتحة الكتاب تفلا.149
سیدنا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سورہ فاتحہ شریف پڑھ کر لعاب دہن لگاکر مجھے اﷲ تعالیٰ کی پناہ میں دیا۔

لعاب رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے متبرک کنویں

جن کنوؤں کو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مشرف اور متبرک فرمایا ان کی تعداد بہت ہے۔ جن میں سے سات اس وقت بھی موجود ہیں ۔ یہ وہ مقدس کنوئیں ہیں جنہیں یہ شرف ملا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamان پر تشریف لے گئے،وضو فرمایا، لعاب ِدہن ڈالا اور اس کا پانی پیا۔

بیر بضاعہ :یہ کنواں مدینہ منورہ کے شامی باب کے نزدیک واقع ہے۔ جب کوئی سیدنا حمزہ بن مطلب کے مزار کے راستے پر چلے تو چلنے والے کے داہنی جانب واقع ہوگا۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبیر بضاعہ پر آئے اور ایک ڈول پانی طلب فرماکر وضو کیا اوربقیہ پانی مع لعابِ دہن مبارک کنوئیں میں ڈال دیا۔ جس دن سےاس کنویں میں نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنا لعاب دہن ڈلا تھا اس دن سے وہ پانی شفا بخش ہوگیا تھا ۔چنانچہ امام رویانی لکھتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ساعدی Radi Allah Anhoفرماتے ہیں:

وان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم برك فى بئر بضاعة وبصق فیه.150
بے شک نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بضاعۃ کے کنویں کو بابرکت بنایا اور اس میں لعاب مبارک ڈالا۔

حضرت مروان بن ابی سعید المعلی Radi Allah Anhoسے روایت ہے :

وبصق فیھا وبرك.151
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےبئر بضاعۃ میں لعاب مبارک ڈالا اوراسےبابرکت بنایا۔

حضرت سہل بن سعد ساعدی Radi Allah Anhoفرماتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم نزل فى بٔر بضاعة وبصق فیھا.
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبئر بضاعۃ میں اترے اور اس میں لعاب دہن ڈالا۔

حضرت ابو اسید الساعدی Radi Allah Anhoسے روایت ہے :

انه له بئرا بالمدینمة یقال لھا بئر بضاعة قد بصق فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فھى یتبرك بھا ویتیمن بھا.153
مدینہ طیبہ میں ان کا ایک کنواں تھا جسے بئربضاعۃ کہا جاتا تھا آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس میں لعاب دہن ڈالا تھا جس کی وجہ سے یہ سراپا برکت بن گیا تھا ،اس سے برکت حاصل کی جاتی تھی۔

صحابہ کرام Radi Allah Anhumمیں جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کو اس پانی سے غسل دیا جاتا تو شفا یاب ہوجاتا تھا۔چنانچہ حضرت عباس بن سہل ساعدیRadi Allah Anho اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

سمعت عدة من اصحاب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیھم ابو اسید وابو حمید وابى سھل بن سعد یقولون: اتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بئر بضاعة فتوضا فى الدلو وردہ فى البئر ومج فى الدلو مرة اخرى وبصق فیھا وشرب من مائھا وكان اذا مرض المریض فى عھده صلى اللّٰه عليه وسلم یقول: اغسلوہ من ماء بضاعة فیغسل فكانما حل من عقال.154
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبضاعہ کے کنوئیں پر آئے اور ایک ڈول میں وضو فرماکر کنوئیں میں ڈال دیا دوسری بار ڈول میں کلی فرمائی اور لعاب دہن ڈالا اور اس میں سے پانی پیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے عہد مبارک میں جب کوئی بیمار ہوتا تو فرماتے : اس کو بضاعہ کے پانی سے غسل دے دو۔پس اسے غسل دیا جاتا تو یوں معلوم ہوتا گویا اس کی (بیماری کی) رسی کھول دی گئی ہے۔

اسی طرح اس حوالہ سے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیقRadi Allah Anhuma بیان کرتی ہیں کہ:

كنا نغسل المرضى من بئر بضاعة ثلاثة ایام فیعافون.156
ہم بیماروں کو بئربضاعۃکے پانی سے مسلسل تین دن نہلاتے تو اﷲ کے فضل وکرم سے بیمار صحت یاب ہوجاتے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک سے کنویں کے پانی میں خوشبو کا پیدا ہوجانا

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجن کنوؤں میں لعاب ِمبارک ڈالتے تو ان میں آپ کے لعاب اقدس کی وجہ سے مہک پیدا ہوجاتی ۔ چنانچہ اس حوالہ سے حضرت وائل بن حجرRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

اتى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بدلو من ماء فشرب من الدلو ثم مج فى الدلو ثم صب فى البئر ا و شرب من الدلو ثم مج فى البئر ففاح منھا مثل ریح المسك.157
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس پانی کا ایک ڈول لایا گیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس ڈول سے پانی پیا اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ڈول میں کلی ڈال دی پھر اس کو کنویں میں انڈیل دیا یا یوں کہا : ڈول سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پانی پیا پھر کلی کنوئیں میں ڈال دی لہٰذا اس کنویں سے ایسی خوشبو مہکی جیسے مشک کی خوشبو ہوتی ہے۔

اسی حوالہ سے امام طبرانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

ففاح منھا مثل ریح المسك.158
اس کنویں سے ایسی خوشبو مہکی جیسے مشک کی خوشبو ہوتی ہے۔

مدینہ المنورۃ کا سب سے شیریں کنواں

اس حوالہ سے حضرت انسRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یصلى فیطیل القیام وان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بال فى بئر فى دارہ قال: فلم یكن فى المدینة بئر اعذب منھا. قال: وكانوا اذا حضروا استعذب لھم منھا وكانت تسمى فى الجاھلیة البرود.159
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنماز ادافرماتے توطویل قیام فرماتے اورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کے گھر کے کنویں میں بول مبارک فرمایا ۔ جب سے مدینہ طیبہ میں اس کنویں سے زیادہ شیریں پانی کسی جگہ کا نہ تھا۔انہوں نے کہا: اورجب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان کےلیےاس میں سے پانی نکالا۔جاہلیت میں یہ البرود کہلاتاتھا۔

اسی طرح امام قاضی عیاض Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وبزق فى بئر كانت فى دار انس فلم یكن بالمدینة اعذب منھا.160
اور حضرت انس Radi Allah Anhoکے کنوئیں میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے لعاب دہن مبارک ڈالا جو ان کے گھر میں تھا سو مدینہ میں اس سے بڑھ کر کوئی کنواں زیادہ میٹھا نہ تھا۔

لعاب مبارک سے پانی میں مٹھاس

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک کی شان تو اپنی جگہ، صرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبارک سے کھارے کنویں کا نام تبدیل ہونے ہی سے کنواں شیریں ہوجاتا تھا۔چانچہ اس حوالہ سے امام زبیر بن بکار Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى غزوة ذى قرد على ماء یقال له بیسان فسال عنه فقیل: اسمه یا رسول اللّٰه بیسان وھو مالح. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لابل ھو نعمان وھو طیب. قال: فغیر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اسمه فغیره للّٰه تبارك و تعالى ببركته صلى اللّٰه عليه وسلم فاشتراه طلحة بن عبیدللّٰه ثم تصدق به.161
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamغزوہ ذی قرد میں ایک پانی (کے چشمے) پر سے گزرے،اس کا نام بیسان تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو بتایا گیا کہ اس کا نام بیسان ہے اور یہ نمکین ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: نہیں یہ نعمان ہے اور اس کا پانی شیریں وعمدہ ہے۔ پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کا نام بدل دیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی کا ذائقہ تبدیل کردیا۔ بعد ازاں حضرت طلحہ Radi Allah Anho نے اسے خرید کر راہ خدا میں صدقہ کردیا۔

اسی طرح امام سلیمان بن موسیٰ حمیریRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لا بل اسمه نعمان وھو طیب. فغیر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الاسم وغیر للّٰه تعالى الماء.162
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :نہیں یہ نعمان ہے اور اس کا پانی شیریں وعمدہ ہے۔ پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کانام بدل دیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی کا ذائقہ تبدیل کردیا۔

اسی چشمے کو صدقہ کرنے سے حضرت طلحہRadi Allah Anho کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ سے فیاض کا لقب ملا ۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

فغیر اسمه فاشتراه طلحة ثم تصدق به فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: ما انت یا طلحة الا فیاض.فبذلك قیل له طلحة الفیاض.163
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کا نام تبدیل کردیا حضرت طلحہ Radi Allah Anhoنے اسے خرید کر وقف کردیا جس پر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:طلحہ تم تو بڑے فیاض ہو۔چنانچہ اسی وجہ سے انہیں "طلحہ فیاض"کہا جانے لگا۔

یمن کے کنویں کی شیرینی

حضرت ھمام بن نفیل السعدیRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ میں یمن سے رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! ہم نے پانی کے لیے ایک کنواں کھودا ہے مگر اس کا پانی نہایت ہی کھارا اور نمکین ہے جو پینے کے قابل نہیں ہے۔تو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کاحل یوں فرمایا:

فدفع الى ادواة فیھا ماء فقال: صبه فیھا فصببته فعذبت فھى اعذب ماء بالیمن.164
مجھے(حضرت ھمام Radi Allah Anho)آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے برتن دیا جس میں پانی تھا اور حکم دیا اسے کنویں میں ڈال دینا جب وہ پانی ہم نے کنویں میں ڈالا تو وہ اتنا شیریں ہوگیا کہ یمن کے تمام کنوؤں سے اس کا پانی مٹھاس میں بڑھ گیا۔

مدینہ کے کنووں میں برکت

مذکورہ کنووں کے علاوہ بھی چند دیگر کنویں ہیں جن میں بیرارِیس بھی شامل ہے۔ یہ کنواں یہودیوں میں سے ایک شخص کے نام سے منسوب ہے جس کا نام اریس تھا ۔یہ مسجد قبا کے قریب مغرب کی جانب ہےاوراس کا پانی نہایت لطیف و شیریں ہے۔ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جس وقت اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا تھا اسی وقت سے اس کے پانی میں لطافت اور شیرینی پیدا ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے یہ شیریں نہ تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے ابراہیم بن طہمان سے مروی ہے کہ انہیں یحیا بن سعد نے بتایا :

ان انس بن مالك اتاھم بقباء فساله عن بئر ھناك فدللته علیھا فقال: لقد كانت ھذه وان الرجل لینضح حماره فتنزح فیستخرجھا له فجاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فامر بذنوب للسقى فاما ان یكون توضا منه او تفل فیه ثم امر به فاعید فى البئر فما نزحت بعد.165
ان کے ہاں قباء میں تشریف لائے انہوں نے وہاں موجودکنویں کے بارے میں پوچھا میں انہیں وہاں لے گیا انہوں نے فرمایا :یہاں کنواں تھا اس میں اتنا قلیل پانی تھا کہ ایک شخص اپنے گدھے کو پانی پلاتا تو اس کا پانی ختم ہوجاتا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پینے کے لیے ایک ڈول پانی منگوایا۔ اس سے وضوء کیا یااس میں لعاب دہن ڈالاپھر وہ پانی کنویں میں پھینک دیا گیا اس کے بعد کبھی اس کا پانی ختم نہ ہوا۔

ایک اور کنواں بئیر بنی خطمہ کے بارے میں بھی اسی طرح روایت میں ذکر ہے ۔چنانچہ ابن زبالہ Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں:

اتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بنى خطمة فصلى فى بیت العجوز ثم خرج منه فصلى فى مسجد بنى خطمة ثم مضى الى بئرھم ذرع فجلس فى قفھا فتوضا وبصق فیھا.166
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبنو خطمۃ کے ہاں تشریف لائے ایک بڑھیا کے گھر نماز پڑھی پھر وہاں سے باہر تشریف لائے مسجد بنی خطمۃ میں نماز پڑھی۔ پھر ان کے کنویں کی طرف گئے اس کی بلندی پر بیٹھ گئے وہاں وضو فرمایا اور اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔

ایک انصاری Radi Allah Anhoصحابی بیان کرتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بصق فى بئر بنى خطمة.167
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بئر بنی خطمہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔

ایک اور کنویں کے بارے میں محمد بن حارثہ انصاریRadi Allah Anho اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم سمى بئر بنی امیة من الانصار الیسیرة وبرك علیھا وتوضا وبصق فیھا.168
بلاشبہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انصار کے بنو امیہ نامی کنویں کا نام تبدیل فرماکر یسیرہ رکھا اور برکت کی دعا فرمائی اور وضوء فرمایا اور اس میں اپنا لعاب دہن بھی ڈالا۔

اسی طرح حضرت براء بن عازبRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

انھم كانو مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الحدیبیة الفا واربعمائة او اكثر فنزلوا على بئر فنزحوھا فاتوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاتى البئر وقعد على شفیرھا ثم قال: ائتونى بدلو من مائھا فاتى به فبصق فدعا. ثم قال: دعوھا ساعة فارووا انفسھم وركابھم حتى ارتحلوا.169
حدیبیہ کے روز رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہمراہ چودہ سو افراد یا اس سے بھی کہیں زیادہ تھے پس ہم نے ایک کنوئیں کے پاس پڑا ؤ ڈالا۔ جب ہم اس کنوئیں کا سارا پانی نکال چکے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں حاضر ہوگئے پس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکنوئیں پر تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے اس کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا : پانی کا ایک ڈول لاؤ۔ پس وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں پیش کردیا گیا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس میں لعاب دہن مبارک ڈالا پھر دعا کی اس کے بعد فرمایا : ایک ساعت ٹھہرے رہو ۔اس کے بعد سب نے خود بھی پیاس بجھائی اور سواریوں کو بھی پانی پلایا یہاں تک کہ روانہ ہوئے ۔

اسی طرح حضرت عمرو بن شقیق بن عبداﷲ بن عمیر سدوسیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں :

جاء باداوة من عند النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد غسل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیھا وجھه ومضمض فیه وبزق فى الماء وغسل یده وذراعیه ثم ملا الاداوة وقال :لاتردن ماء الا ملات الاداوة على ما بقى فیھا فاذا اتیت بلادك فرش به تلك البقعة واتخذه مسجدا. قال: فاتخذوه. قال عمرو: وقد صلیت انا فیه.170
وہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس ایک برتن لے کر آئے تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس میں اپنا چہرہ مبارک دھویا اور پانی میں کلی کی اور پانی میں لعاب ڈالا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں کلائیاں دھوئیں پھر وہ برتن بھر گیا اور فرمایا: اس برتن سے پانی بھراہی رہے گا جو اس میں باقی ہے۔ پس جب تو اپنے شہر میں آئے اس کو ایک جگہ پر بہانا اور اس جگہ کو مسجد بنانا ۔کہا :انہوں نے وہاں مسجد بنائی حضرت عمرو فرماتے ہیں میں نے اس جگہ میں نماز پڑھی ہے۔

حضرت ملا علی قاریRehmatullah Alaih اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

اشارة الى ان ما اصاب بدنه علیه السلام لایطرقه تغیر بل ھو باق على غایة كماله الذى حصل له بواسطة ملامسته لتلك الاعضاء الشریفة فكل ما مسه اكسبه طیبا… الخ.قال ابن حجر وفیه التبرك بفضله علیه السلام ونقله الى البلاد ونظیرہ ماء زم زم فانه علیه السلام كان یستھدیه من امیر مكة لیتبرك به اھل المدینة ویوخذ من ذلك ان فضله وارثیه ان العلماء والصالحین كذلك.171
اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بدن مبارک سے جو جو چیز ملی ہو اس پر تغیر طاری نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اپنے اس انتہائی کمال پر باقی رہتا ہے جو اس کو اعضاء شریف کے ساتھ ملامست کی وجہ سے حاصل ہوا تھا پس ہر وہ چیز کہ جس کو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے چھوا ہو تو یہ چھونا اس میں پاکیزگی اور اچھائی ہی کو پیدا کرتا ہے۔۔الخ

امام ابن حجر Rehmatullah Alaihنے فرمایا ہے: اس حدیث میں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہے اور دوسرے شہروں میں اس کو نقل کرنا بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کی نظیر زم زم کا پانی ہے بے شک حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamامیر مکہ سے زم زم ہدئیے میں طلب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعے اہل مدینہ تبرک حاصل کریں اور اس حدیث سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺکے وارثین علماء و صلحاء کا بچا ہوا بھی اسی طرح ہے۔

شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaihاس کی شرح میں فرماتے ہیں:

دریں حدیث استحباب تبرك است به بقیه آب وضوئے وپس مانده آں حضرت ( صلى اللّٰه عليه وسلم)و نقل آں ببلاد ومواضع بعیده مانند آب زمزم وآں حضرت ( صلى اللّٰه عليه وسلم)چوں در مدینه مى بود آب زمزم را ازحاكم مكه مى طلبید وتبرك مى ساخت وفضله وارثانِ اوكه علماء وصلحاء اند وتبرك بآثار وانوار ایشاں ھم بریں قیاس است.172
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی اور پس خوردہ سے تبرک حاصل کرنا اور اس کو دور دراز ممالک میں منتقل کرنا آبِ زمزم کی طرح جائز ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام جب مدینہ میں تھے تو مکہ کے حاکم سے آبِ زمزم طلب فرمایا اور تبرک حاصل کیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے وارثین علماء و صلحاء کے آثار وتبرکات وانوار کو اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔

اب تک کی مذکورہ روایات تمام کی تما م دور رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے پیش کی گئیں ہیں۔اب چند دیگر روایات دور رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بعد کی پیش کی جارہی ہیں جن سے یہ واضح ہوگا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اپنی امت پر شفقت و رحمت بعد از وصال بھی قائم و دائم ہے۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ہر چیز بھی اب بھی اسی طرح فیّاض ہے جس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ظاہری زندگی میں تھی۔

لعاب رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور شیخ عبد القادر جیلانی Rehmatullah Alaih

چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن الملقن طبقات الاولیاء میں حضور شیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

ان الشیخ عبد القادر الجیلى قال: رایت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قبل الظھر فقال لى: یا بنى لم لا تتكلم؟ قلت: یا ابتاه انا رجل اعجمى كیف اتكلم على فصحاء بغداد؟ فقال لى: افتح فك. ففتحته فتفل فیه سبعا وقال: تكلم على الناس وادع الى سبیل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة. فصلیت الظھر وحبست وحضرنى خلق كثیر فارتج على فرایت علیا قائما بازائى فى المجلس .فقال: یا بنى لم لا تتكلم؟ فقلت: یا ابتاه قد ارتج على. فقال: افتح فك. ففتحته فتفل فیه ستا قلت: لم لاتكملھا سبعا؟ قال: ادبا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ثم توارى عنى فتكلمت.173
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی Radi Allah Anhoفرماتے ہیں :میں نے ایک مرتبہ ظہر کی نماز سے پہلے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کی (بیداری میں)تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مجھ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! تم گفتگو اور وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کی :ابو جان !میں ایک عجمی شخص ہوں بغداد کے فصحاء کے سامنے کیسے گفتگو کرسکتا ہوں؟ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مجھے ارشاد فرمایا: اپنا منہ کھولو۔ سو میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے میرے دہن میں سات مرتبہ لعاب اقدس ڈالا اور ارشاد فرمایا: اب تم لوگوں کے سامنے گفتگو (وعظ ونصیحت) کرو اور حکمت اور خوبصورت وعظ ونصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلاؤ۔ چنانچہ میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا اور مخلوق کا ایک جم غفیر میرے پاس وعظ سننے کے لیے حاضر ہوا تو میری طبیعت بوجھل سی ہونے لگی اور مجھے گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ سو اسی دوران میں نے اسی مجلس میں اپنے مقابل سیدنا علی Radi Allah Anhoکو دیکھا آپ Radi Allah Anhoحالت قیام میں موجود تھے تو آپ Radi Allah Anhoنے مجھے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: اے میرے بیٹے! وعظ کیوں نہیں کرتے؟ تو میں نے عرض کی: ابو جان! مجھ پر گھٹن سی چھاگئی ہے۔ تو آپ Radi Allah Anhoنے ارشاد فرمایا :اپنا منہ کھولو۔ سو میں نے منہ کھولا تو آپ Radi Allah Anhoنے چھ مرتبہ میرے منہ میں لعاب اقدس ڈالا۔ میں نے حضرت علی Radi Allah Anhoسے عرض کی: آپ Radi Allah Anhoمکمل سات بار اپنا لعاب اقدس میرے منہ میں کیوں نہیں ڈال رہے؟ آپ Radi Allah Anhoنے ارشاد فرمایا: بیٹا کہیں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات اقدس کے ساتھ برابری نہ ہوجائے۔بعد ازاں حضرت علیRadi Allah Anho میرے سامنے سے روپوش ہوگئے اور میں خوب وعظ ونصیحت کرنے لگا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب کا اثر علامہ تفتازانی پر

اسی طرح امام شہاب الدین ابن العماد حنبلی شیخ الاسلام سید البلغاء حضرت سعد الدین تفتا زانی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

وحكى بعض الافاضل ان الشیخ سعد الدین كان فى ابتداء طلبه بعید الفھم جدا ولم یكن فى جماعة العضد ابلد منه ومع ذلك فكان كثیر الاجتھاد ولم یویسه جمود فھمه من الطلب وكان العضد یضرب به المثل بین جماعته فى البلاد فاتفق ان اتاه الى خلوته رجل لا یعرفه فقال له: قم یا سعد الدین لنذھب الى السیر. فقال: ما للسیر خلقت انا لا افھم شیئا مع المطالعة فكیف اذا ذھبت الى السیر ولم اطالع؟ فذھب وعاد وقال له: قم بنا الى السیر. فاجابه بالجواب الاول ولم یذھب معه. فذھب الرجل وعاد وقال له مثل ما قال اولا. فقال: ما رایت ابلد منك. الم اقل لك ما للسیر خلقت؟ فقال له: رسول للّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یدعوك. فقام منزعجا ولم ینتعل بل خرج حافیا حتى وصل به الى مكان خارج البلد به شجیرات، فرأى النّبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى نفر من أصحابه تحت تلك الشجیرات فتبسم له، وقال:نرسل إلیك المرّة بعد المرّة ولم تأت. فقال: یا رسول اللّٰه ما علمت أنك المرسل وأنت أعلم بما اعتذرت به من سوء فھمى وقلة حفظى، وأشكو إلیك ذلك. فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: افتح فمك وتفل له فیه ودعا له، ثم أمره بالعود إلى منزله وبشّره بالفتح فعاد وقد تضلع علما ونورا. فلما كان من الغد اتى الى مجلس العضد وجلس مكانه فاورد فى اثناء جلوسه اشیاء ظن رفقته من الطلبة انھا لا معنى لھا لما یعھدون منه فلما سمعھا العضد بكى وقال: امرك یا سعد الدین الى فانك الیوم غیرك فى ما مضى ثم قام من مجلسه فیه وفخم امره من یومئذ.174
بعض افاضل نے یہ حکایت بیان کی ہے کہ شیخ سعد الدین شروع زمانہ طالب علمی میں انتہائی کُند ذہن تھے اور علامہ عضد الدین کے تلامذہ میں ا ن سے زیادہ کُند ذہن کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ طلب علم میں کوشاں رہتے تھے اور آپ کو طلب علم سے آپ کے فہم کا جمود مایوس نہ کرتا تھا ۔اور علامہ عضد الدین اپنے تلامذہ کے درمیان آپ ہی کی کُند ذہنی کی مثال دیتے تھے۔اتفاقا ایک دن تنہائی میں آپ کے پاس ایک ایسا شخص آیا جسے آپ پہنچانتے نہ تھے، اس نے آپ سے کہا: اے سعدالدین! اٹھو ہم سیر کے لئے چلتے ہیں۔ حضرت سعد الدین نے عرض کی: مجھے سیر کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ باوجود مطالعہ کرنے کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تو اس وقت میرا کیا حال ہوگا جب میں مطالعہ کئے بغیر آپ کے ساتھ سیر کو چل پڑوں گا؟ وہ شخص چلا گیا اور پھر واپس لوٹ آیااور حضرت سعد الدین سے کہا: اٹھو ہمارے ساتھ سیر کرنے کے لیے چلو۔آپ نے انہیں پہلا جواب دیا اور ان کے ساتھ نہ گئے۔وہ شخص چلا گیا اور واپس لوٹ آیا اور اس نے علامہ سعد الدین سے پہلے کی طرح کہا۔ تو علامہ سعد الدین نے فرمایا: تم سے بڑا کُند ذہن میں نے نہیں دیکھا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا کہ مجھے سیر کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ تو اس شخص نے علامہ سے فرمایا: تمہیں سیدنا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبلارہے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد الدین بے قراری کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور جوتا بھی نہ پہنا بلکہ ننگے پاؤں چل پڑے۔ یہاں تک کہ شہر کے باہر ایسی جگہ جا پہنچے جہاں درختوں کا جھنڈ تھا۔تو ان چند درختوں کے جھنڈ کے نیچے انہوں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو صحابہ کرام کی ایک جماعت میں دیکھا۔ حضر ت سعد الدین کو دیکھ کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسکرا پڑے۔ اور ارشاد فرمایا:ہم بار بار تمہیں بلارہے ہیں اور تم آتے ہی نہیں۔حضرت سعد الدین نے عرض کی: یارسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمجھے بلارہے ہیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے اپنے کم حافظہ اور بدحافظہ ہونے کی وجہ سے معذرت کی ہے اور میں اس چیز کی جناب کے سامنے شکایت بھی کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انہیں ارشاد فرمایا: اپنا منہ کھولو پھر سیدنا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کے منہ میں لعاب اقدس ڈالا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔پھر ان کو اپنے گھر کی طرف جانے کا حکم ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی ان کو کامیابی کی نوید بھی سنادی۔ چنانچہ علامہ سعد الدین جب واپس لوٹے آپ علم ونور میں کامل واکمل ہوچکے تھے۔ اگلے دن جب آپ عضد الدین کی مجلس میں آئے اور اپنی نشست پر بیٹھے اور ادھر ہی بیٹھے بیٹھے چند اعتراضات دقیقہ وارد کئے۔ آپ کے ساتھی طلبہ یہ سمجھنے لگے کہ یہ بے تکّے اعتراضات ہیں کیونکہ وہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ کُند ذہن ہیں، لیکن جب شیخ عضد الدین ﷫نے ان اعتراضات کو سنا تو روپڑے اور فرمایا :اے سعد الدین! تمہارے اعتراضات کا حل میرے ذمہ ہے، بلاشبہ جو تم کل تھے اس طرح آج نہیں ہو۔ پھر علامہ عضد الدین اپنی مسند تدریس سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس جگہ علامہ سعد الدین کو بٹھادیا اور اس دن سے علامہ سعد الدین کی علامہ عضد الدین ایجی خوب تعظیم وتکریم کرنے لگے۔

سید احمد انصاری مالکی نے شرح علی صلوات القطب الدردیر میں لکھا ہے کہ دلائل الخیرات شریف کی تالیف کا سبب یہ ہے کہ اس کے مؤلف شیخ محمد بن سلیمان الجزولی نے ایک مرتبہ نماز پڑھنے کا ارادہ فرمایا۔ وضو کرنے کے لیے اٹھے مگر کنویں سے پانی نہ پایا، اسی دوران وہ ادھر ہی کھڑے تھے کہ ایک چھوٹی سی بچی نے ان کو اونچے مکان سے دیکھ لیا بچی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے اپنے بارے میں جب اسے بتایا تو بچی کہنے لگی آپ کے تو ہر طرف خیر کے چرچے ہیں مگر آپ کنویں سے پانی نکالنے میں حیران وپریشان کھڑے ہیں۔اس بچی نے کنویں میں تھوک ڈال دی سو اس کا پانی سطح زمین پر کثرت کے ساتھ بہنے لگا۔ سیدی شیخ محمد بن سلیمان جزولی نے وضو فرماکر اس بچی سے دریافت فرمایاکہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں! بتاؤ یہ مرتبہ تمہیں کس وجہ سے ملا ہے؟تو وہ بچی کہنے لگی:

بكثرة الصلاة على من كان اذا مشى فى البئر الاقفر تعلقت الوحوش باذیاله صلى اللّٰه عليه وسلم.175
اس ذات اقدس پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے سے مجھے یہ مرتبہ ملا ہے جو بے آب وگیاہ میدان میں جب چلتے ہیں تو وحشی جانور بھی ان کے دامن رحمت کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔

اس کے بعد شیخ محمد بن سلیمان جزولی نے حلف اُٹھالیا کہ میں ضرور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات اقدس پر درود شریف پڑھنے کی فضیلت پر ایک عمدہ کتاب تحریر کروں گا۔پھر انہوں نے دلائل الخیرات شریف تالیف فرمائی۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب دہن دواء، شفاء اور تبرک ہے جو ہر زخم کا مرہم اور ہر غم کا مداوا ہے۔ انسانی لعاب کے بارے میں انسانی تصورات اگرچہ کہ نہایت محدود ہیں کہ وہ صرف انسانی دہن میں پیدا ہونے والا سیال ہے جو زبان کو تر اور کھانے کو چبائے جانے کے بعد حلق سے معدہ کی طرف اتارنے میں مددگارو معاون مادہ ہے۔ رہی یہ بات کے اس میں کوئی کرامت و براکات ہوسکتی ہیں تو شاید یہ سب کچھ انسانی علم و تجربہ کے لحاظ سے عجیب بات ہے۔ آج بھی ہر خاص و عام انسان کا لعابِ دہن وہ کمال نہیں دکھا سکتا جو اعجاز حضور ختمی المرتبت کے لعابِ دہن میں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رب تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم مبارک کے ہر ہر عضو کو سراپا سلامتی اور شفاء بنایا تھا۔ اسی طرح آپ کا لعاب مبارک بھی وہ منبع خیرو برکات تھا کہ پانی کم ہو اور اس میں مل جائے تو زیادہ ہوجائے، پانی کھاریٰ ہو تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لعاب مبارک کے ملنے سے میٹھا ہوجاتا، ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑ جاتی۔ نکلی ہوئی آنکھ کا ڈھیلا پہلے سے زیادہ مضبوط اور روشن ہوجاتا، کٹے ہوئے بازو پر لعاب مبارک کے لگنے کی دیر ہوتی تو وہ ایسا جڑ جاتا گو یا کہ کبھی مقطوع ہوا ہی نہ ہو بلکہ پہلے سے زیادہ اس میں قوت و طاقت آجاتی یہی حالت ٹوٹے ہوئے پاؤں اور پنڈلی کی تھی جہاں جہاں لعابِ دہن اور دست اقدس کا لمس پہنچتا وہاں وہاں صحت، تندرستی اور شفاء ساتھ ساتھ پہنچتی۔ اسی لیے امی جان سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ"جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنا لعابِ دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفا یابی کے لیے یہ مبارک الفاظ دھراتے بسم اللّٰه، تربۃ أرضنا، بریقۃ بعضنا، یشفی سقیمنا، باذن ربنا ۔ کبھی کبھار صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اسم مبارک لے کر براہ راست مجروح و مقطوع جگہوں پر لگا کر اس کو جوڑدیتے تو وہ جگہیں فوراً جڑ جایا کرتی تھیں۔ صلی اللّٰه علیہ و آلہ وسلم ۔


  • 1  القرآن،سورۃ الانفال33:08
  • 2  ولی الدین محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح ، حدیث: 6034، ج-3،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:1700-1701
  • 3  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1807، ج- 3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :143-144
  • 4  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، حدیث:31804، ج- 6،: مکتبۃ الرشد ،الریاض،السعودیۃ، 1409ﻫ، ص:328
  • 5  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:286
  • 6  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 5745، ج -7، مطبوعۃ: دار طوق النجاۃ، دمشق، السوریۃ،1422 ھ ، ص:133
  • 7  مٹی سے اشارہ ہے حضرت آدم کی پیدائش کی طرف کیونکہ وہ مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور لعاب دہن سے اشارہ ہے نطفہ کی طرف ہے۔گویا کہ آپﷺ نے یوں کہا کہ اے اﷲ! تو نے پہلے اس بندہ کو مٹی سے پیدا کیاپھر ذلیل پانی سے پیدا کیا یعنی نطفہ سے تو تجھ پر آسان ہے کہ تو اس کو اسی دنیا میں شفاء دے دے۔(محمود بن احمد بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،ج -21، حدیث: 5745،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :270-296)
  • 8  محمود بن احمد بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، حدیث: 5745، ج -21، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،ص :270-269
  • 9  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3499، ج- 3، مطبوعہ دارابن کثیر، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:1357
  • 10  محمد بن سعد ،طبقات الکبری ، ج-2، مطبوعۃ: دا رصادر،بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:110
  • 11  عبدالملک بن ہشام ،السیرۃ النبویہ المعروف سیرت ابن ہشام ، ج- 4،مطبوعۃ: دارالجیل، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:305
  • 12  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی،السنن الکبریٰ، حدیث :46 -48،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2001،ص :15-16
  • 13  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:2406، ج- 4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:1872
  • 14  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1807، ج- 3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :1433-1434
  • 15  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ ،حدیث :8349، ج -7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء،ص:413
  • 16  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:206
  • 17  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ، حدیث :8346، ج -7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء، ص:412
  • 18  ایضاً
  • 19  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:213
  • 20  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت،لبنان، 1379ھ، ص:476
  • 21  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ، حدیث :8345، ج- 7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء، ص:411
  • 22  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:416
  • 23  محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان،1989ء، ص:545
  • 24  قاضی عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج- 1،مطبوعۃ:دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:618
  • 25  ولی الدین محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح ، حدیث: 6034، ج-3،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:1700-1701
  • 26  شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث :2206، ج -2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:217-216
  • 27  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 16811، ج- 27، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان،2001ء، ص:366
  • 28  ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ، مستخرج ابی عوانۃ، حدیث:6750-6751، ج- 4، مطبوعۃ:دار المعرفۃ ، بیروت، لبنان،1998ء، ص :277-278
  • 29  محمد بن حبان ، صحیح ابن حبان، حدیث: 7090، ج-15، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1988ء، ص:565
  • 30  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:450
  • 31  علاؤالدین مغلطائی بن قلیج، اکمال تہذیب الکمال، حدیث: 1346، ج- 4، مطبوعۃ: الفاروق الحدیثۃ للطباعۃ والنشر، القاهرة، مصر، 2001ء، ص:155
  • 32  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج- 3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان، 1990ء، ص:334
  • 33  محمد بن سعد بصری ، الطبقات الکبیر ، ج- 2 ،مطبوعہ مکتبۃ الخانجی بالقاھرۃ، القاهرة، مصر،2001مء، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :28-29
  • 34  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، ج- 5، حدیث: 4037، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:90
  • 35  ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ الطبری ،ج -2، مطبوعۃ: دار المعارف ، القاہرۃ، مصر ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:489
  • 36  محمود بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،ج -17، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، ص:133
  • 37  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:399
  • 38  محمد بن عمر الواقدی، کتاب المغازی، ج- 1،مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء، ص:190
  • 39  ایضاً
  • 40  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج- 7،مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت،لبنان،1379ھ، ص:340
  • 41  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، حدیث:31804، ج- 6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ، 1409ﻫ، ص:328
  • 42  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:115
  • 43  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص:173
  • 44  ایضًا، ص:178
  • 45  عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج- 1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:622
  • 46  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:98
  • 47  سلیمان بن احمد طبرانی، طبرانی کبیر ،ج -20، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص:177
  • 48  ابو الحسن علی بن ابی المکرم ابن اثیر ،اسد الغابۃ ، حدیث: 4962، ج -4،مطبوعۃ: دار الفکر, بیروت،لبنان، ص:426
  • 49  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3141، ج -4، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:91
  • 50  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث: 8069، ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ﻫ،ص :113-114
  • 51  عبد الرحمن بن محمد ابن ابی حاتم ،الجرح والتعدیل ،ج -8 ،مطبوعۃ: حیدر آباد دکن ہندوستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:245
  • 52  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج-2 ،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:622
  • 53  محمد بن محمد ابن سید الناس، عیون الاثر، ج -1،مطبوعۃ: دار القلم ، بیروت،لبنان، 1993ء، ص:304
  • 54  ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی، معجم الصحابۃ ،ج -5،مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:140
  • 55  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان، 1990ء، ص:184
  • 56  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ، حدیث: 2209، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1327
  • 57  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج-2، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ﻫ، ص:620
  • 58  شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی، التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ ، حدیث:3542، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:397
  • 59  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث: 9907، ج -7،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1415ﻫ، ص:119
  • 60  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج-6،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:7
  • 61  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر مالکی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 2107، ج- 3، مطبوعۃ: دار الجیل بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1275
  • 62  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:12،مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:8
  • 63  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم،مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 5281، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990 ء، ص:334
  • 64  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج-6،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:7-8
  • 65  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، حلیۃ الاولیاء ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1409ء، ص:337
  • 66  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:100
  • 67  ابویعلی احمد بن علی موصلی، مسند ابو یعلی، حدیث:1549 ، ج- 3، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء،ص:120
  • 68  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر مالکی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 2107، ج- 3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت،لبنان، 1992ء، ص:1275
  • 69  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان1405ھ، ص :251-252
  • 70  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، حدیث:32364، ج- 6،مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ،الریاض،السعودیۃ، 1409ھ، ص:400
  • 71  محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء،ص:242
  • 72  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:253
  • 73  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج-6،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:7-10
  • 74  ایضاً
  • 75  القرآن، سورۃ النجم3:53-4
  • 76  ابویعلی احمد بن علی موصلی، مسند ابو یعلی ، حدیث:1550، ج- 3، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء،ص: 122-121
  • 77  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط ، حدیث:9124، ج- 9، مطبوعۃ: دار الحرمین ،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:59
  • 79  علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ دمشق الکبیر، ج- 13،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت،لبنان، 1995ء، ص:221
  • 80  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،ج-3 ، حدیث: 2656،مطبوعۃ: مكتبة ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:50
  • 81  یوسف بن عبد الرحمن المزی ، تہذیب الکمال ، حدیث: 1248، ج -6،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1980ء، ص:231
  • 82  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط ، حدیث: 9112، ج-9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :52-53
  • 83  ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث:31754، ج -6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ، 1409ﻫ، ص:321
  • 84  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:373
  • 85  احمد بن محمد بن اسحاق الدینوری ، عمل الیوم واللیلۃ ، حدیث:633، مطبوعۃ: دار القبلۃ للثقافۃ الاسلامیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:587
  • 86  علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ ،ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،1427ھ، ص:371
  • 87  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ۔ ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت،لبنان، 1986ء، ص :466
  • 88  ابو عبداﷲ محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی، سنن ابن ماجہ، حدیث:3548، ج- 2، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :1174
  • 89  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص :25
  • 90  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -5،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ﻫ، ص :444
  • 91  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ،ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس ،بیروت، لبنان،1986ء، ص :464
  • 92  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد،ج -10،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:34
  • 93  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت ، لبنان،1405ﻫ، ص :170
  • 94  محب الدین محمد بن محمود ابن النجار ، الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ ،مطبوعۃ: دار الارقم بن ابی الارقم، ص:42
  • 95  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 1290، ج-2، مطبوعۃ : دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:518
  • 96  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 15453، ج- 24،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :191
  • 97  محمد بن حبان بستی، صحیح ابن حبان، ج-7، حدیث: 2977،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، لبنان،1993ء، ص :242-243
  • 98  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان ،1405ﻫ،، ص :175
  • 99  ایضًا،ص :176
  • 100  سلیمان بن احمد طبرانی ، المعجم الکبیر ، حدیث: 7215، ج- 7، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :306
  • 101  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ،ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت،لبنان، 1986ء، ص :514-513
  • 102  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -2،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:118
  • 103  احمد بن علی بن عبد القادر تقی الدین المقریزی ،امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج -1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999ء، ص :184
  • 104  محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1 ،مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء، ص :350
  • 105  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ، حدیث: 4958، ج -4،مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1998ء،ص :1974
  • 106  ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث:2433، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل بیروت،لبنان،1992ء، ص:141
  • 107  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،1405ﻫ، ص :185
  • 108  ابوعبداﷲ محمد بن موسیٰ المزالی المراکشی، مصباح الظلام فی المستغیثین یخیر الانام ،مطبوعۃ: نوریہ رضویہ، لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص :152
  • 109  کمال الدین محمد بن موسیٰ دمیری، حیاۃ الحیوان الکبریٰ ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1424ھ، ص :193-194
  • 110  محمد بن عمر الواقدی، المغازی ،ج-1، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء، ص :25
  • 111  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ،ج -1،مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 1998ء،ص :399
  • 112  ابو عبداﷲ محمد بن اسحاق ابن مندہ ، معرفۃ الصحابۃ لابن مندہ، مطبوعۃ: جامعۃ الامارات العربیۃ المتحدۃ،الامارات العربیۃ المتحدۃ، 2005ء، ص :252
  • 113  محمد بن اسماعیل بخاری ، تاریخ الکبیر، حدیث: 1751، ج-2، مطبوعۃ: دائرۃ المعارف الاسلامیۃ، ہند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 78
  • 114  علی بن حسن ابن عساکر دمشقی ، تاریخ دمشق الکبیر، ج -10،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1995ء، ص :300
  • 115  علاؤالدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، حدیث: 36862، ج -13، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1981ء، ص :298
  • 116  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 10،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1993 ء، ص :19
  • 117  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین ، حدیث: 6696، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:741
  • 118  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-5،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:33
  • 119  ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،1405ﻫ، ص :225
  • 120  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین ، حدیث: 6697، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:741
  • 121  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 3234، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:231
  • 122  محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1409ء، ص :94
  • 123  نور الدین علی بن ابوبکر ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 14138، ج-8 ، مطبوعۃ: مکتبۃ القدسی، القاھرۃ، 1994ء، ص:312
  • 124  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج- 8، حدیث: 7903،مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ،ص :231
  • 125  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1993ء، ص:31
  • 126  ابوبکر محمد بن حسین الاجری بغدادی، الشریعۃ، حدیث: 1748، ج- 5، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ، 1999ء، ص:2266
  • 127  عبد الملک بن ہشام معافری ، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ،ج-2 ،مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاہرۃ، مصر، 1955ء، ص:619
  • 128  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ، حدیث: 444، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس ،بیروت،لبنان، 1986ء، ص :516
  • 129  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-4 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،1405ﻫ، ص:293 -294
  • 130  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، ج- 6،مطبوعۃ: دار الوطن الریاض،السعودیۃ،1998 ء، ص :3334
  • 131  ایضاً
  • 132  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، حدیث: 7645، ج- 6، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ، 1998ء ، ص :3334-3335
  • 133  ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی، الاحاد والمثانی، حدیث: 3437، ج- 6،مطبوعۃ: دار الرایۃ، الریاض،السعودیۃ، 1991ء، ص :207
  • 134  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 2568، ج- 3، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص :84
  • 135  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص،الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :105
  • 136  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 852، ج-24، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :341
  • 137  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-6 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص:227
  • 138  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 2838، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:228
  • 139  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث: 3401، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415 ھ، ص:127
  • 140  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4206 ، ج-5 ، مطبوعۃ: دمشق، 1422 ﻫ، ص :133
  • 141  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان 1405ھ، ص :251
  • 142  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث: 98، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، عراق، 1983ء، ص:77
  • 143  محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری، حدیث: 4102، ج- 5، مطبوعۃ: دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:108-109
  • 144  عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویۃ ،ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی مصر، 1955ء، ص:218
  • 145  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص:415
  • 146  القرآن،سورۃ سبا10:34
  • 147  عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویۃ، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاہرۃ، مصر، 1955ء، ص:84
  • 148  علاؤالدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال ، حدیث: 35373، ج -12،مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1981ء، ص:368
  • 149  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط ، حدیث: 6761، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ،ص:115
  • 150  ابوبکر محمد بن ہارون الرویانی، مسند الرویانی، حدیث:1101، ج- 2،مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ ، مصر، 1416ﻫ، ص:228
  • 151  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1990ء، ص:390
  • 153  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ،ج -7،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:225
  • 154  عبد الملک بن محمد نیسابوری، شرف المصطفیٰ ،ج -3،مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ، السعودیۃ، 1424ھ، ص:432
  • 156  علی بن عبداﷲ بن احمد سمہودی، خلاصۃ الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،ج-2، مطبوعۃ: مصر،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:430
  • 157  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 18838، ج-31، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:134
  • 158  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج-22، حدیث: 119،مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:51
  • 159  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 366، ج-1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروتء، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ص:444
  • 160  قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ﻫ، ص:639
  • 161  عبد الملک بن محمد نیسابوری، شرف المصطفیٰ، ج- 3،مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ،السعودیۃ، 1424ﻫ، ص:430
  • 162  سلیمان بن موسیٰ حمیری، الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اﷲ ﷺ والثلاثۃ الخلفاء ،ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب، العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1420ﻫ، ص:453
  • 163  احمد بن علی ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث:4285، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415 ھ، ص:430
  • 164  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین سیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:76
  • 165  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ،ج- 7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 ء، ص:222
  • 166  ایضًا، ص:227
  • 167  ایضًا
  • 168  عمر بن شبہ بصری، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ،ج-1،مطبوعۃ: مطبع جدۃ، جدۃ،السعودیۃ،1399ﻫ، ص:161
  • 169  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری، حدیث: 4151، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 2005ء، ص:1018
  • 170  سلیمان بن احمدطبرانی، طبرانی الاوسط، حدیث: 1957، ج- 2، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :271-272
  • 171  نورالدین علی بن سلطان القاری ، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث :716، ج-2،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002ء، ص:603
  • 172  شیخ عبد الحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات، ج-1،مطبوعہ: نو لکشور، لکھنؤ،ہند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:331
  • 173  یوسف بن اسماعیل نبہانی، سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:388
  • 174  شہاب الدین ابن العماد حنبلی ، شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، ج- 8،مطبوعۃ: دار ابن کثیر، دمشق، السوریۃ، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:548
  • 175  یوسف بن اسماعیل نبہانی، سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:159

Powered by Netsol Online