encyclopedia

میلاد النبی ﷺعہد قریب کے علماء کی نظر میں

Published on: 29-Mar-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:23، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 626-661)

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے یوم ولادت روزہ رکھ کر باری تعالیٰ کاشکر ادا فرمانے1 اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سنت کے مطابق2 صحابہ کرام کے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے احوالِ ولادت بیان کرنے3 کی بنا پر امت مسلمہ کے بعد میں آنے والے افراد نے ان کی پیروی کرتے ہوئے ولادت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا تذکرہ کرنے کے لیے محافلِ میلاد کوانتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ اپنی اپنی ثقافت کے لحاظ سے منعقد کیا ہے اورانتہائی عقیدت سے ان مجالس ومحافل کو مناتے چلے آئے ہیں۔اسی طرح عام مسلمان محافل ومجالس کا انعقاد کر کے اس میں تذکرۂ ولادت کرتے اورسنتے ہیں اور خواص مسلمین یعنی علمائےامت اورمفتیان دین اپنی اپنی تصنیفات میں جشن عید میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضائل وبرکات کو بیان کرتے اور اس کے جواز واستحسان کی بابت تفصیلی کلام کرتے ہوئے امت کو ان محافل میلاد کو جاری وساری رکھنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ محافلِ میلاد امت میں رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم وتوقیر اور اطاعت کے جذبات کو دوام عطا کرتی ہیں ۔علمائے اسلاف کی طرح عہدِ حاضر کے علمائے کرام بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمنانے کو باعث اجر وثواب گردانتے ہیں اور اس حوالہ سے انہوں نے کئی کتب ورسائل میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جواز واستحسان کو بیان کیا ہے۔ذیل میں عہدِ قریب کے چند جید علمائے کرام کی آراء کو درج کیا جارہا ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ امتِ مسلمہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمنانے کو نہ صرف جائز اور مستحسن سمجھتی ہے اور بلکہ ہی ساتھ قربِ الہٰی پانے اور رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم کا سبب گردانتی ہے۔

میلاد النبی ﷺشیخ زینی دحلان مکی کی نظر میں

ميلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم وتوقیر میں شامل ہے جس کو کرنے کا حکم مسلمانوں کا دیاگیا ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بعثت کے مقصد کو بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاھدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا8 لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہ ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَة وَّاَصِيْلًا94
بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔

اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیاگیا ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم و توقیر بھی لازمی وضروری ہے اور اسی حکم باری تعالیٰ کے تحت علمائے امت نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جائزومستحسن قراردیا ہے۔ان علماء میں ماضی قریب کے معتبر عالم دین شیخ احمد بن زینی دحلان مکی ہیں جن کی ولادت بارہ سو بتیس( 1232ھ) مکّہ مکرّمہ میں ہوئی۔ آپ اپنے وقت کے انتہائی بلند پایہ عالم دین تھے اورآپ امام احمد رضاخان القادری کے اساتذہ میں شامل ہیں۔5آپ نے بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نبی اکرم کی تعظیم وتوقیر میں شامل ماناہے اور اس کو مستحسن قراردیا ہے چنانچہ شیخ زینی دحلان مکی شافعی اپنی کتاب میں اس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وكان ھؤلاى المانعین للتوسل والزیارة یعتقدون انه لایجوز تعظیم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فحیثما صدر من احد تعظیم له صلى اللّٰه عليه وسلم حكموا على فاعله بالكفر والاشراك، ولیس الامر كما یقولون فان اللّٰه تعالٰى عظم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى القرآن الكریم باعلى انواع التعظیم فیجب علینا ان نعظم من عظمه اللّٰه تعالٰى وامر بتعظیمه، نعم یجب علینا ان لا نصفه بشئى من صفات الربوبیة ورحم اللّٰه البوصیرى حیث قال:
دع ماادّعتہ النصاری فی نبیھم
واحکم بما شئت مدحا فیہ واحتکم
فلیس فى تعظیمه بغیر صفات الربوبیة شئى من الكفر والاشراك بل ذلك من اعظم الطاعات والقربات وھكذا كل من عظمھم اللّٰه تعالٰى كالانبیاء والمرسلین صلوات اللّٰه وسلامه علیه وعلیھم اجمعین كالملائكة والصدیقین والشھداء والصالحین قال تعالى "وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاىِٕرَ اللّٰه فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ" وقال تعالى " وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰه فَھوَخَيْرٌ لَّه عِنْدَ رَبِّه"ومن تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم الفرح ھلیلة ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم واطعام الطعام وغیر ذلك مما یعتاد الناس فعله من انواع البر فان ذلك كله من تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد افردت مسالة المولد وما یتعلق بھابالتالیف واعتنى بذلك كثیر من العلماء فالفوا فى ذلك مصنفات مشحونة بالادلة والبراھین فلاحاجةلنا الى الاطالة بذلك.6
اور یہ توسل وزیارتِ قبور سے منع کرنے والے افراد اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی حددرجہ تعظیم جائز نہیں ہے لہذا جس طرح بھی کسی ایک سے تعظیم رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamصادر ہوتی ہے یہ لوگ اس تعظیم کرنے والے پر کفر وشرک کرنے کا حکم لگادیتےہیں جبکہ در حقیقت معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح یہ لوگ کہتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےقرآن کریم میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو تعظیم کے اعلیٰ انداز سے عظمت عطا فرمائی ہے لہذا ہم سب پر لازم و ضروری ہے کہ ہم اس ذاتِ مقدسہ کی تعظیم کریں جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عظمت عطا فرمائی ہے اور ان کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ہاں البتہ ہم پر یہ بھی لازمی ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو صفات باری تعالیٰ میں سے کسی صفت کے ساتھ متصف نہ کریں اور امام بوصیری پر اللہ تبارک وتعالیٰ رحم فرمائے کہ انہوں نے کہا:
"جو نصاری نے اپنے نبی کے بارے میں الوہیت کا دعوی کیا اس کو چھوڑدےاس کے علاوہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جو تعریف بھی کرنا چاہے وہ کر اور اس پر پختہ رہ"
پس نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم میں علاوہ صفات ربوبیت کے ذرہ برابر کفر و شرک نہیں ہے بلکہ یہ تعظیم اعلیٰ ترین نیکیوں اور قربتوں میں سے ہے۔۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا"اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے"ایک اور جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا"اور جو شخص اﷲ (کی بارگاہ) سے عزت یافتہ چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو وہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے" ۔اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم کےامور میں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شبِ ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا ،دعوت میں لوگوں کو کھانا کھلانا اور اس کے علاوہ وہ افعال سرانجام دینا شامل ہیں جنہیں لوگ نیک اعمال شمار کرتےہیں پس یہ تمام افعال نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم میں سے ہیں۔ اور تحقیق مجلسِ میلاد اور اس کے متعلقات کا مسئلہ ایسا ہے جس میں مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں ، بکثرت علمائے دین نے اس کا اہتمام فرمایا اور دلائل وبراہین سے بھری ہوئی کتابیں اس میں تالیف فرمائیں ہیں لہذا ہمیں اس مسئلہ میں تطویل کلام کی حاجت نہیں۔

شیخ زینی دحلان مکی کی مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم یقیناً واجب و لازم ہے جس کے مختلف طریقے امت میں رائج و نافذ ہیں اور انہیں افعالِ تعظیمِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شبِ ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا اور اس خوشی میں لوگوں کو دعوت دے کر کھانا کھلانا اور مختلف افعالِ حمیدہ جو شبِ ولادت سرانجام دیے جاتےہیں یہ تمام افعال و اعمال آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم کے سبب ہیں لہذا میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمنانے اور اس پر خوشی کے اظہار کے شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مختلف طرق وانداز اپنانےمیں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ شریعتِ مطہرہ میں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم مطلوب ومحمود فعل ہے لہذا میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی محمود ومطلوب ہے۔

میلاد النبی ﷺامام احمد رضا خان القادری کی نظر میں

عالمِ اسلام کے نامور عالم دین، امام احمد رضا خان القادری نےمیلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جوازو استحسان کے حوالہ سے ایک رسالہ تحریر کیا ہے جس میں قرآن وحدیث اور علمائے امت کے اقوال کی بنا پر میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مستحسن قراردیاہے چنانچہ ایک مقام پر وہ مجلس میلاد کے بارےمیں تحریر کرتے ہیں:

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری سب نعمتوں سے اعلیٰ نعمت ہے،یہ تشریف آوری ہے جس کے طفیل دنیا، قبر،حشر،برزخ،آخرت،غرض ہر وقت، ہر جگہ اورہر آن ہم سب ظاہری وباطنی نعمتوں سے بہرمند ہیں۔اپنے رب کی نعمتوں کا چرچا مجلس میلاد میں ہوتا ہے اورمجلس میلاد وہی شئی ہے جس کا حکم رب العزت دے رہا ہے۔ مجلس مبارک کی حقیقت مجمع المسلمین کو حضور اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری و فضائل جلیلہ وکمالات جمیلہ کا ذکر سنانا ہے۔۔۔یہ مجلس آج سے نہیں آدم Alaihis Salamنے خود کی اورکرتے رہے ،ان کی اولا د میں برابر ہوتی رہی،کوئی دن ایسا نہ تھا کہ آدم حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر نہ کرتے ہوں ۔اول روز سے آدمAlaihis Salam کو تعلیم ہی یہ فرمائی گئی کہ میرے ذکر کے ساتھ میرے حبیب و محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکرکیا کرو۔اس کے لیے عملی کاروائی یوں کی گئی کہ جب روح ِالہٰی آدم Alaihis Salamکے پتلے میں داخل ہوئی اور آنکھ کھلی تو عرش پر نگاہ گئی جہاں کلمۂ طیبہ "لاالہ اللہ محمد رسول اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم"لکھا دیکھا تو عرض کی الہٰی یہ کون ہیں جن کا نام پاک تو نے اپنے نام اقدس کے ساتھ لکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ اے آدمAlaihis Salam! یہ تیری اولاد میں سے آخری پیغمبر ہے،اسی کے طفیل میں نے تجھے پیدا کیا اگر وہ نہ ہوتا تو نہ تجھے پیداکرتا اور نہ زمین و آسمان بناتالہذا تو اپنی کنیت" ابو محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)" رکھ۔یعنی آنکھ کھلتے ہی نام پاک بتایا گیا اور پھر ہر وقت ملائکہ کی زبان سے ذکر اقدس سنایا گیا،وہ مبارک سبق عمربھر یاد رکھا کہ ہمیشہ ذکر اور چرچا کرتے رہے۔ جب زمانہ وصال شریف کاآیا توشیث سے ارشاد فرمایا: اے فرزند! میرے بعد تو خلیفہ ہوگا عمادِ تقویٰ و عروۂِ و ثقیٰ کو نہ چھوڑنا او "العروۃ الوثقی "(یعنی) محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر ضرور کرنا کیونکہ میں نے فرشتوں کو دیکھا ہر گھڑی ان کی یاد میں مشغول ہیں۔اسی طور پرآنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چرچا ہوتا رہا اور پہلی انجمن روزِ میثاق جمائی گئی جس میں حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر تشریف آوری ہوا چنانچہ باری تعالیٰ کاارشادمقدس ہے:

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰه مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِه وَلَتَنْصُرُنَّه ۭ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْھدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰھدِيْنَ (81) فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (82)7
ترجمہ:....اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں، (اب پوری نسل آدم کے لیے تنبیہاً فرمایا:) پھر جس نے اس (اقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔

مجلسِ میثاق میں ربُّ العزّت نے حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری کا ذکر بیان فرمایا اور تمام انبیائے کرامAlaihmus Salam نے سنا اور حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی انقیاد و اطاعت کا وعدہ دیا، ان کی نبوت ہی حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مطیع و امتی بننے پر مشروط تھی۔اس سے معلوم ہواکہ ذکر پاک کی سب سے پہلی مجلس ، مجلسِ انبیاء Alaihmus Salamہے جس میں پڑھنے والا اللہ تبارک وتعالیٰ اور سننے والے انبیاء کرامAlaihmus Salamہیں۔غرض اسی طرح ہر زمانے میں حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر ولادت و تشریف آوری ہوتا رہا۔ ہر قرن میں انبیاء و مرسلین سے لےکر ابراہیم و موسیٰ و داؤد وسلیمان و زکریاAlaihmus Salam تک تمام نبی و رسول اپنے اپنے زمانے میں مجلسِ مولودِ حضور اکر Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamترتیب دیتے رہے یہاں تک کہ وہ سب سے آخرمیں ذکرِ شریف سنانے والا،کنواری، ستھری، پاک بتول کا بیٹا جسے اللہ نے بن باپ کے پیدا کیا، جو سارے جہان کے لیے نشانی تھا یعنی سیدنا عیسیٰ Alaihis Salam، جب آپAlaihis Salam تشریف لائے تو حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری کی بشارت دیتے ہوئے تشریف لائےچنانچہ باری تعالیٰ کا ارشادِ مقدس ہے:

وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِى اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّى رَسُوْلُ اللّٰه اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَى يمِنَ التَّوْرٰیة وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِى مِنْۢ بَعْدِى اسْمُه اَحْمَدُ ۭ فَلَمَّا جَاۗءَھمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا ھذَا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ(6)8
ترجمہ:....اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسٰی بن مریم (Alaihas Salam) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ معظّم (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

یہ ہے مجلس میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجو مسلمان آج منعقد کرتے ہیں۔اسی طرح جب زمانہ ولادت شریف کا قریب آیا توملک و ملکوت میں محفل میلاد تھی، فرش پر محفل میلاد تھی اور ملائکہ میں مجلس میلاد ہورہی تھی جیساکہ حضرت سیدہ آمنہ Radi Allah Anhaسے منقول روایات میں تفصیلات مذکورہیں۔ 9

اسی طرح امام احمد رضاخان القادری نےمیلادالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حوالہ سے دو رسائل تحریر کیے ہیں پہلا رسالہ بنام"اقامۃ القیامۃ علی طاعن القیام للنبی تھامۃ" بارہ سو اٹھانوے(1298ھ) میں تحریر فرمایا ہے جس میں اختتامِ محفلِ میلاد میں ہونے والے قیامِ تعظیمی کے جواز و استحسان کے ساتھ ساتھ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استحسان کو بھی بیان کیا ہےاور اس کو تعظیم وتوقیر ِنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکاسبب ہونے کی وجہ سے مستحسن قراردیا ہے ۔ 10دوسرا رسالہ بنام"نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب والوصال"تیرہ سو سترہ (1317ھ) میں تحریر فرمایا ہےجس میں مختلف دلائل وبراہین کی روشنی میں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تاریخِ ولادت اور تاریخِ وصالِ مبارک کو واضح کیا ہے اور یہ دونوں رسائل ان کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔11 اسی مذکورہ فتاویٰ کے ایک دوسرے مقام پر میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بارے میں کیے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ مولود شریف یعنی خاص بیان ولادت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجو کہ منکرات شرعیہ سے خالی ہو جائز ہے۔12 ان مذکورہ بالا اقتباسات سے واضح ہوا کہ امام احمد رضا خان القادری نےمیلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو تعظیم رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سبب قراردیتے ہوئے اس کو مستحسن قراردیاہے اور اپنے فتاوی کے مختلف مقامات پر میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےجواز و استحسان کو ماقبل اسلاف کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح کرکے اس کو کرتے رہنے کی تلقین کی ہے۔

میلادالنبیﷺشیخ صدیق حسن بھوپالی کی نظر میں

اسی طرح چودہویں(14)صدی کے نامور عالم دین شیخ نواب صدیق حسن خان بھوپالی بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جواز واستحسان کے قائل ہیں اور انہوں نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےمیلاد شریف کے حوالہ سے مکمل ایک رسالہ تحریر فرما یا ہے جس کانام"الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صلى اللّٰه عليه وسلم"ہے جس میں انہوں نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حالاتِ ولادت ، واقعاتِ ولادت اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے موقع پر رونما ہونے والے اہم معجزات کو قلمبند کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سفرِ ِمعراج اور چند معجزات کو تحریر فرمایا ہے۔اسی رسالہ میں ایک مقام پر آپ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی کے اظہار کےحوالہ سے شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی وہ عبارت جس میں انہوں نے ابن الحاج کا اقتباس ذکر کرکے اپنی رائے قلمبند کی ہے کو نقل کرتے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ولقد اطنب ابن الحاج فى المدخل فى الانكار على مااحدثه الناس من البدع والاھواء والغناء بالآلات المحرمة عند عمل المولد الشریف فاللّٰه تعالٰى یثیبه على قصده الجمیل ویسلك بنا سبیل السنة فنه حسبنا ونعم الوكیل.13
ابن الحاج نے(اپنی کتاب) "المدخل"میں میلاد شریف کے عمل میں لوگوں کی گھڑی گئیں بدعات ونفسانی خواہشات کا رد وانکار کرنے میں کافی مبالغہ کیا ہے۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے اس نیک کام پر انہیں جزا عطا فرمائے اور ہمیں (ہر کام میں)سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ وہ ہی ہمارے لیے کافی اور بہترین کارساز ہے۔

اس عبارت سے شیخ عبد الحق دہلوی حنفی Rehmatullah Alaih کاعملِ مولد میں صاف انکارِ ضمِ منکرات نکلتا ہے اور عبارت سابقہ سے میلاد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر اظہارِ فرح پایا جاتا ہے سو جس کو حضرت(رسول کرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کے میلاد کا حال سن کر فرحت حاصل نہ ہواور اس نعمت کے حصول پر خد ا کا شکر نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔14

اسی طرح شیخ نواب صدیق حسن بھوپالی اسی رسالہ کے ایک اور مقام پر میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محافل ومجالس کے انعقاد کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم کو اور جملہ اہلِ اسلام کو ایسی توفیقِ خیر رفیقِ حال(عطا) کرےکہ ہم ہر روز کسی قدر ذکرِ میلاد شریف کتبِ معبترہ سے خود پڑھیں یا کسی محبِّ صادق متبعِ واثق سے سن لیا کریں اور فقط کسی یوم، ماہ اور تاریخِ معین پر قصر(حد بندی)نہ کریں۔15

شیخ نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے واضح ہوا کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی کرنا اہلِ ایمان کا طریقہ وشیوہ ہے اور جس کو بھی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادتِ باسعادت کے احوال سن کر خوشی وفرحت نہ ہو تو وہ اہلِ ایمان میں شمار نہیں کیا جاسکتا کہ اہلِ ایمان کے لیے تو بالخصوص نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری سب سے بڑی نعمتِ خداوندی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے لیے اور اس کی یاد دہانی کے خاطر محافل ومجالسِ میلاد کا انعقاد بغیر کسی تعیین کے ہر روز ہی کیا جانا چاہیے۔

میلاد النبی ﷺمولانا رشید احمد گنگوہی کی نظر میں

مولانا رشید احمد گنگوہی جن کا بر صغیر پاک وہند کے بڑے علماء میں شمار کیاجاتا ہے ان کے نزدیک بھی میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محفل جائز ومستحب ہے چنانچہ اپنے ایک فتوی میں جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اپناقول یہ ہے کہ ہمارے لیے اگر مولود شریف کریں تو جائز بلکہ مستحب ہے۔ 16

میلاد النبیﷺمولانا قاسم نانوتوی کی نظر میں

بانیِ دارالعلوم دیوبندمولانا قاسم نانوتوی جو اپنے دور کے مشہور عالم ہیں انہوں نے بھی میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جائز ومستحسن سمجھا ہے چنانچہ سوانحِ قاسمی میں مولانا مناظر احسن گیلانی آپ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے میرٹھ میں مولانا سےدریافت کیا کہ مولوی عبد السمیع صاحب تو مولود شریف کرتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کرتے؟نانوتوی صاحب نے فرمایا کہ انہیں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے محبت زیادہ معلوم ہوتی ہے مجھے بھی اللہ تعالیٰ نصیب کرے۔17اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا قاسم نانوتوی کی ایک حکایت بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ سیوہارہ میں ایک جماعت جس میں مسئلۂِ مولود نزاع کا سبب بنا ہوا تھا تو اس میں مولانا محمد قاسم صاحب سے، کہ اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے، مولود کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ بھائی نہ تو اتنا برا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں اور نہ اتنا اچھا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔18

میلاد النبی ﷺشیخ یوسف نبہانی کی نظر میں

شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی فلسطین کے ایک نامور عالم و صوفی گزرے ہیں جن کی بے شمار کتب ان کے تبحر علمی اور ثقاہتِ نظری کی گواہ ہیں۔آپ نے اپنی تالیف جو "جواہر البحار فی فضائل النبی المختار صلى اللّٰه عليه وسلم"کے نام سے منصہ شہو د پر موجود ہے اس میں مختلف علمائے کبار کے رسائل ِ مولود کو بھی جمع کیا ہے مثلا شیخ ابن حجر الہیتمی کے "مولد ابن حجر " کواس کی شرح سمیت جو شیخ ابن حجر کے بھتیجے سید احمد بن عبد الغنی نے "نثر الدرر علی مولد ابن حجر" کے نام سے کی ہے۔اسی طرح شہاب احمد مقری،شیخ عبد الغنی نابلسی،شیخ محمد مغربی،سید جعفر بن حسن برزنجی،شیخ احمد دردیر اور دیگر کئی کبار علماء ومشائخ کے مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موضوع پر لکھے گئے رسائل کو ذکر کیا ہے۔اسی طرح اپنی دوسری کتاب "حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینصلى اللّٰه عليه وسلم"جو انتہائی معروف ومشہور ہےاس میں بھی شیخ نبہانی نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد کی بابت تفصیلاً کلام کیا ہے اور مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جواز و استحسان سمیت اس کی تاریخ اور امت مسلمہ کے نامور علماء ومشائخ و فقہاء کے اقتباسات سے یہ واضح کیا ہے کہ امت مسلمہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا میلاد اجماعی طور پر مناتی چلی آرہی ہے چنانچہ شیخ نبہانی ابن کثیر سے نقل کرتے ہوئے میلادالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بابت تحریر فرماتےہیں:

قال ابن كثیروھو المشھور عن الجمھور وعلیه اھل مکة قدیماوحدیثا فى زیارتھم موضع مولده صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذالوقت لان السلف والخلف مطبقون علغ عمل المولد فغ الیوم المذكور ولیلته وعلى تسمیة مولده بیوم المولد فى سائر الامصار حتى فى حرم مكة التى ھى محل مولد المختار صلى اللّٰه عليه وسلم.19
ابن کثیر نے کہا: جمہور سے(ولادت نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تاریخ کےبارےمیں) یہی(بارہ ربیع الاوّل کا) قول مشہور ہے اور قدیم و جدید اہل مکّہ اسی پر متفق چلے آرہے ہیں۔ وہ اسی تاریخ کو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جائے ولادت کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔ اس لیے سلف و خلف سب اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ وہ محفل میلاد بارہ ربیع الاوّل کو ہی منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور بارہ ربیع الاوّل کی رات کو ہی عمل مولد کرتے آرہے ہیں اور اس تاریخ کو میلاد النبی کی تاریخ کہتے چلے آرہے ہیں۔ تمام شہروں میں یہی معمول ہے حتیٰ کہ حرم مکّہ میں بھی یہی معمول ہے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جائے ولادت ہے۔

اسی طرح میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی کےاظہار کے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی، امام کمال ادفوی کےحوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

وقال المال الادفوى فى الطالع السعید حكى لناصاحب العدل ناصر الدین محمود بن العماد ان اباالطیب محمد بن ابراھیم السبطى السبطى نزیل قوص احد العلماء العاملین كان یجوز فى المکتب فى الیوم الذى ولد فیه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیقول یا فقیه ھذا یوم سرور اصرف الصبیان فیصرفنا، وھذا منه دلیل على تقریره وعدم انمارت و ثذا الرجل كان فقیھامالكیا مفننافى العلوم متورعا اخذ منه ابو حیان و غیرہ ومات سنة خمس وتسعین وستمائة.20
کمال ادفوی نے"الطالع السعید"میں تحریر کیاہے کہ ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن حماد نے بتایا کہ ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی جو قوص کے رہنےوالے تھے اور باعمل علماء میں سے تھے وہ اپنے دارالعلوم میں نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت مقدسہ کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسہ میں پڑھائی کی چھٹی کرتے اور اساتذہ سے کہتے :اے فقیہ آج خوشی و مسرت کا دن ہے بچوں کو چھوڑدو! تو ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جواز و اثبات اور عدم جواز پر انکار کی دلیل ہے۔یہ عالم مالکیوں کےبہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن گزرے ہیں جو انتہائی تقوی و پرہیزگار ی کے مالک تھے۔علامہ ابو حیان اور دیگر علماء کرام نے ان سے اکتساب علم و فیض کیا ہے اور انہوں نے695ھ میں وفات پائی۔ 21

ان دونوں اقتباسات سے واضح ہوا کہ شیخ نبہانی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی کرنے کو جائز سمجھتے تھے اورامت مسلمہ میں رائج مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی کو بنظر استحسان دیکھتے تھے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ احادیث سے اصلِ میلاد کو ثابت کرنے کا سہرا ابن حجر عسقلانی کے سر ہےلیکن شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے تحریر فرمایا ہےکہ حافظ ابن رجب نے ابن حجر عسقلانی سے پہلے اصلِ میلاد کو مزید ایک حدیثِ مبارکہ سے استخراج کیاہے۔22 جس کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی تحریر فرماتے ہیں:

وفى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لماسئل عن صیام یوم الاثنین ذلك یوم ولدت فیه وأنزلت على فیه النبوة.23 اشارة الى استحباب صیام الأیام التى تجدد فیھا نعم اللّٰه تعالى على عباده فان أعظم نعم اللّٰه على ھذه الأمة اظھار محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لھم وبعثتة وارساله الیھم كما قال تعالى: لقد من اللّٰه على المؤمنین اذ بعث فیھم رسولًا من أنفسھم.24 فان النعمة على الأمة بارساله صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم من النعمة علىھم بایجاد السماء والأرض والشمس والقمر والریاح واللیل والنھار وانزال المطر واخراج النبات وغیر ذلك فان ھذه النعم كلھاقد عمت خلقاً من بنی آدم كفروا باللّٰه وبرسله وبلقائه فبدلوا نعمة اللّٰه كفراً وأما النعمة بارسال محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فان بھا تمت مصالح الدنیا والآخرة وكمل بسببھا دین اللّٰه الذى رضیه لعباده وكان قبوله سبب سعادتھم فى دنیاھم وآخرتھم فصیام یوم تجددت فیه النعم من اللّٰه على عباده حسن جیل وهو من باب مقابلة النعم فى أوقات تجددھا بالشكر ونظیر ھذا صیام یوم عاشوراء، حیث نجى اللّٰه فیه نوحاً من الغرق ونجى فیه موسى وقومه من فرعون وجنوده وأغرقھم فى الیم فصامه نوح وموسى علیھم السلام شكراً فصامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم متابعة لأنبیاء اللّٰه وقال للیھود نحن أحق بموسى منكم وصامه وأمر بصیامه.25
اورحضور پر نور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے جب اس کے بارے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے پوچھا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جواب ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ان ایام میں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خاص نعمت سے نوازا ہو روزہ رکھنا مستحب ہے اور بلاشبہ اس امت کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات ہے۔ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بعثت اور اس امت مرحومہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نبی بناکر مبعوث کرنا بلاشبہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس امت مرحومہ میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مبعوث کرنے کی نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے۔ یہ نعمتیں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں اور ان میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رُسُل کا انکار کیا اوراللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن بعثت محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamوہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا اور آخرت کی مصلحتیں مکمل ہوگئیں۔ اسی کی وجہ سے اللہ کا وہ دین بھی مکمل ہوا جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے منتخب فرمایا: اس کی قبولیت ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔ اس دن ، جس دن بندوں پر اللہ تعالیٰ عظیم احسان فرمائے، روزہ رکھنا اچھا عمل ہے گویا کہ یہ اچھا عمل اس دن ہونے والی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔عاشورہ کے دن کا روزہ بھی اسی وجہ سے رکھا جاتا ہے۔ اس دن حضرت نوحAlaihis Salamکو غرق ہونے سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت موسیٰAlaihis Salam اور آپAlaihis Salamکی قوم نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون کو سمندر میں ہلاک کیا گیا، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح Alaihmas Salamنے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انبیاء کرامAlaihmus Salam کی اتباع کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے یہودیوں سے فرمایا ہم تم سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم اس دن روزہ رکھیں جب حضرت موسیٰAlaihis Salam نے روزہ رکھا تھا۔ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔26

اس کے علاوہ شیخ نبہانی نے شاہِ اربل اور شاہ ِتلمسان کے محفل میلاد اور اس میں ہونے والے تمام تر معاملات کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اورآپ نے بذاتِ خود ایک نظم نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کےبارے میں کہی ہے جس کا نام"النظم البدیع فی مولد الشفیع"رکھا ہے اور اس کو اپنی کتاب"حجۃ اللہ علی العالمین "میں تحریر فرمایا ہے۔27مذکورہ بالا اقتباسات اور تفصیلات سے واضح ہواکہ شیخ نبہانی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محافل و مجالس کے انعقاد اور اس پر خوشی کے اظہار کرنے کو جائز و مستحسن سمجھتے تھے اور اس کا تذکرہ آپ نےاپنی تالیفات وتصنیفات میں جابجا کیا ہے۔

میلاد النبیﷺعلامہ وحید الزماں کی نظر میں

اسی طرح ایک اور نامور عالم دین جن کے بارے میں سید محمد نذیر حسین دہلوی اجازتِ حدیث دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنی تمام مرویاتِ حدیثہ یعنی صحاحِ ستہ وغیرہ کی اجازت مولوی وحید الزماں کو دیتا ہوں جو بڑے زیرک،نہایت روشن دماغ، اور صائب الرائے آدمی ہیں۔یہ علامہ وحید الزماں اپنی ایک کتاب میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جشنِ ولادت کے اظہار کے لیے محفلِ میلاد قائم کرنے میں اختلاف ہے اگر بدعات ومحرمات سے خالی ہوں تو جائز ہے جیساکہ ابن جوزی، ابنِ حجر، سخاوی، سیوطی،قسطلانی اور ابو شامہ نے بیان کیا اور اس کی اصل انہوں نے پیر اور عاشورہ کے روزے رکھنے والی حدیثوں سے نقل فرمائی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ سیوطی نے اس کی اصل حدیث سے نکالی ہے۔۔۔جس طرح عیسیٰ Alaihis Salam کا کرسمس ڈے منایا جاتا ہے اسی طرح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا یومِ میلاد بھی منایا جاتا ہے اور ہم کافروں کی نسبت زیادہ حق دار ہیں کہ حضرت عیسیٰ وموسیٰ Alaihmas Salamاور تمام انبیاء کرام Alaihmus Salamکا یوم(ولادت اور اس جیسے دیگر ایام)منائیں۔28

شیخ وحید الزماں کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محافل کو ائمہ اسلاف نے جائز قراردیا ہے اور مسلمانوں کو انبیاءکرام Alaihmus Salamکے ایام منانے چاہیے۔

میلاد النبی ﷺمولانا اشرف علی تھانوی کی نظر میں

اسی طرح ایک اور معروف عالمِ دین مولانا محمداشرف علی تھانوی کے نزدیک بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی کا اظہار کرنا جائز و مستحسن ہے۔آپ کے مختلف مقامات پر دیے گئے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موضوع پر خطبوں پر مشتمل ایک کتاب کو "میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam"کے نام سے چھاپا گیا ہے جس میں ہر ایک مقام کی تفصیلات بھی رقم ہیں۔اس کے ایک خطبہ میں جس کے متعلق سببِ خطبہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاگیا ہے کہ" اس سال عید میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جابجا چرچا"اس میں مولانا محمد اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:

اس وقت(ماہِ ربیع الاول میں)یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہوئی ؟تو اول تو یہ سوال ہوہی نہیں سکتا کیونکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر مبارک ایسا نہیں کہ اس پر یہ سوال ہوسکے مگر یہ سوال ہمارے کم سمجھ مدعیان محبت اخوان کی بدولت پید ا ہوا ہے اور وہ ،وہ لوگ ہیں جو آج کل مولد میں تخصیصات کے پابند ہیں سو ان حضرات نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذکر کو خاص خاص ازمنہ کے ساتھ مختص کردیا ہے ۔۔۔عجب نہیں کے میرے اس وقت کے اس بیان سے کسی کہ ذہن میں یہ بات آئی ہو کہ یہ بیان بھی شاید اسی وجہ سے ہورہا ہے کہ یہ مہینہ اس بیان کا ہے اور اس کے ذہن میں آنے سے دو قسم کے لوگوں کو دو تعجب پیدا ہوئے ہوں۔متخصصین کو تو یہ تعجب ہے کہ یہ لوگ تو اس تخصیص پر کلام کرتے ہیں پھر خود اس کا ارتکاب کرنے کی کیا وجہ؟کیا ان کے قول وفعل مطابق نہیں ہوتے اور مانعین تخصیصات کو یہ تعجب کہ اس (مولانا محمد اشرف علی تھانوی) نے محققین کا مسلک کیوں چھوڑا؟بہر حال چونکہ ایک خاص جماعت نے ذکر رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو خاص اوقات کے ساتھ خاص کردیا ہے اسی لیے اس وقت میرے اس بیان پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے(جو بلا وجہ ہے کہ ذکر رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے کوئی تخصیصِ وقت نہیں)ورنہ یہ سوال بالکل لایعنی تھا اور یہ کسی مسلمان کے دل میں پید اہو ہی نہیں سکتا۔کیا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر مبارک ایسی چیز ہے کہ اس کی نسبت یہ سوال ہوسکے کہ اس وقت اس ذکر(مولد) کو کیوں اختیار کیا گیا(کہ یہ زمانہ تو ماہ ربیع الاول یعنی ولادتِ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکاہے)حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر مبارک تو ایسی چیز ہے کہ ہر وقت ہر انسان کے رگ وپے میں جاری وساری ہو بلکہ دوسرے اذکار بھی اسی ذکر کی طرف راجع ہوجایا کریں اور اس کو ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے انسان ہر ذکر سے اسی کا ذکر نکال لیتا ہےاور گفتگو کا خاتمہ اسی کے تذکرہ اور یاد پرہوتا ہے۔29

اسی طرح ایک مقام پر قیامِ میلا د کے بارے میں کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

اگر کسی عمل میں عوارضِ غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہئے نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے کیونکہ ایسے امور سے انکار کرنا خیرِ کثیر سے باز رکھنا ہےجیسے قیام مولد شریف۔ اگر آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےنام کی تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں اگر اس سردارِ عالم و عالمیان Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam(روحی فداہ) کے اسم گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا۔ 30

اسی طرح مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے اپنے ایک فتاوی میں ذکر کیا ہے کہ ذکرِ ولادت نبوی شریف Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی مثل دیگر اذکارِ خیرکے ثواب اور افضل ہے اور اگر بدعات سے خالی ہو تو اس سے بہتر کیا ہے۔31ان تینوں اقتباسات سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا محمد اشرف علی تھانوی خود ذکر ِمولد کیا کرتے تھے اور اس کے لیے منعقد کی جانے والی محافل میں شریک ہوا کرتے تھے البتہ تخصیص کے قائل نہیں تھے جو ان کی نظر میں "تخصیص شرعی "تھی اور مقابل کی نظر میں "تخصیص عرفی"اور اس اختلاف رائے کے سبب تخصیص میں تنازع تھا بہر حال نفسِ میلاد میں کوئی کلام نہیں تھا اور اسی وجہ سے قیامِ میلاد کے جواز کو بیان کرتے ہوئے اس کے مستحسن ہونے کو بیان کیا ہے۔

میلاد النبیﷺمفتی احمد یار خان نعیمی کی نظر میں

مفتی احمد یار خان نعیمی نامور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قد آور مفسر قرآن اور حنفی فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور آپ کا شمار بر صغیر کے کبار علماء میں کیا جاتا ہے ۔آپ بھی رسو ل اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد کی خوشی و مسرت کو بنظراستحسان دیکھتے ہیں ۔اس حوالہ سے آپ نے اپنی مشہور کتاب"جاء الحق"میں ایک بحث محفل میلاد کے بارےمیں رقم فرمائی ہے جس کے چند اقتباسات یہاں درج کیے جارہے ہیں ۔ان اقتباسات سے واضح ہوجائےگا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی کے نزدیک محافل ِ میلاد جائز ومستحسن ہیں چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی محفل میلاد کی حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

میلاد شریف کی حقیقت یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت پاک کا واقعہ بیان کرنا،حمل شریف کے واقعات، نورِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی کرامات، نسب نامہ ،شیر خوارگی، حضرت حلیمہ Radi Allah Anhaکے یہاں پرورش حاصل کرنے کے واقعات بیان کرنا اور حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نعت پاک نظم یا نثر میں پڑھنا سب اس کے تابع ہیں۔اب واقعہ ولادت خواہ تنہائی میں پڑھو یا مجلس جمع کرکے، نظم میں پڑھو یا نثر میں کھڑے ہوکر ، بیٹھ کریا جس طرح بھی ہو اس کو میلاد شریف کہا جائے گا۔ محفلِ میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا، اس کے ذکرکے موقعہ پر خوشبو لگانا،گلاب چھڑکنا،شیرینی تقسیم کرنا غرضیکہ ولادت رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی کا اظہار جس جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعث برکت اور رحمت الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔32

اسی طرح مفتی احمد یار خان نعیمی میلاد شریف کی اصل کو قرآن وحدیث اور کبار علماء کے اقوال کی روشنی میں ثابت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

میلاد شریف(کی اصل) قرآن و احادیث،اقوالِ علماء ،ملائکہ اور پیغمبروں کے فعل سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

وَاذْكرُوْا نِعْمَة اللّٰه عَلَيْكمْ733
ترجمہ:.....اور اﷲ کی (اس) نعمت کو یاد کرو جو تم پر (کی گئی) ہے۔

حضور اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تشریف آوری اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور میلاد پاک میں اسی نعمت کا تذکرہ ہوتا ہےلہذا محفل میلاد کرنا اس آیت پر عمل ہے۔اسی طرح ایک اور مقام پر اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشادمقدس ہے:

وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّكَ فَحَدِّثْ1134
ترجمہ:.....اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی دنیا میں تشریف آوری تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے کہ رب تعالیٰ نے اس پر احسان جتایا ہے ،اس کا چرچا کرنا اسی آیت پر عمل ہے۔ آج کسی کے فرزند پیدا ہو تو ہر سال تاریخ پیدائش پر سالگرہ کا جشن کرتا ہے، و کسی کو سلطنت ملی تو ہر سال اس تاریخ پر جشن جلوس مناتا ہے تو جس تاریخ کو دنیا میں سب سے بڑی نعمت آئی اس پر خوشی منانا کیوں منع ہوگا؟ خود قرآن کریم نے حضور کا میلاد جگہ جگہ ارشاد فرمایا چنانچہ ایک جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ جَاۗءَكمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكمْ12835
ترجمہ:.....بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) تشریف لائے۔

اس آیت کریمہ میں تو ولادت کا ذکر ہوا پھر فرمایا "من انفسکم"حضور کا نسب نامہ بیان ہوا کہ وہ تم میں سے یا تمہاری بہترین جماعت میں سے ہیں۔ "حریص علیکم"سے آخر تک حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نعت بیان ہوئی، آج میلاد شریف میں یہ ہی تین باتیں بیان ہوتی ہیں۔ 36

مفتی احمد یار خان نعیمی نے مذکورہ آیات ِقرآنی کے علاوہ دیگر آیات ِ قرآنی اور احادیث مبارکہ سے بھی یہ واضح کیا ہے کہ میلا د النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پُر مسرت موقع پر خوشی کا اظہارکرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے اور اس کی عظیم نعمت ملنے پر اس کا شکریہ ادا کرنا ہے۔میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جواز ہی کے حوالہ سے اجماعِ امت کو بیا ن کرتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں:

ہر زمانہ اور ہر جگہ میں علماء ،اولیاء ،مشائخ اور عامۃ المسلمین اس میلاد شریف کو مستحب جان کر کرتے رہے اوراب بھی کرتے ہیں۔ حرمین شریفین میں بھی نہایت اہتمام سے یہ مجلس پاک منعقد کی جاتی ہے۔ آدمی جس ملک میں بھی جائے مسلمانوں میں یہ عمل ضرور پائےگا۔ اولیاء اﷲ اورعلماء امت نے اس کے بڑے بڑے فائدے اور برکات بیان فرمائی ہیں اور اس تعامل کے حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن مسعودRadi Allah Anhuma سے مروی ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا:
مارآہ المسلمون حسناً فھو عنداللّٰه حسن.37
جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔

۔۔۔ لہٰذا محفل میلاد پاک مستحب ہے۔ حضرت ملاعلی قاری موردالروی میں دیباچہ کے متصل فرماتے ہیں:

لا زال أھل الإسلام یحتفلون فى كل سنته جدیدة ویعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عظیم.38
اہل اسلام آج تک ہرنئےسال میں محفلیں کرتےہیں اورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کاذکر کرتےہیں جس کےتمام فضائل وبرکات ان پرظاہر ہوتےہیں۔

ان عبارات سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ مشرق ومغرب کے مسلمان اس کو اچھا عمل جان کر کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ بڑے بڑے علماء، فقہاء، محدثین ،مفسرین اورصوفیاءAlaihmus Salamنے اس کو اچھا جانا ہے جیسے امام سیوطی، علامہ ابن حجر ہیتمی، امام سخاوی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر وغیرہ۔ تیسری یہ کہ میلاد پاک کی برکت سے سال بھر تک گھر میں امن، مراد پوری ہونا، مقاصد بر آنا حاصل ہوتا ہے۔ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ میلاد شریف بہت مفید محفل ہے۔39

مفتی احمد یار خان نعیمی کے تمام تر اقتباسات سے واضح ہواکہ رسو ل اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد پر خوشی کااظہار کرنا قرآن و حدیث کےمطابق ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ سمیت علمائے امت کا مجموعی معمول رہا ہے اور اس کے کرنے سے باری تعالیٰ کی عظیم نعمت ملنےکا شکریہ بھی ادا ہوتا ہے۔

میلاد النبی ﷺمفتی عبد الرحیم لاجپوری کی نظر میں

اسی طرح اپنے دو رکے ایک فقیہ مفتی عبد الرحیم لاجپوری نے بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جواز کو بیان کیا ہے چنانچہ جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا:

آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت شریفہ کا ذکر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک،لباس،نعلین شریف اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نشست وبرخاست،سونا جاگنا اور دیگر معاملاتِ نبویہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حال بیان کرنا اور سننا مستحب اور نزولِ رحمت وبرکت کا موجب ہے بلکہ آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات والاصفات کے ساتھ جس چیز کوبھی تھوڑی بہت مناسبت ہو جیساکہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نعلین شریفین کی خاک اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بول وبراز بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سواری کے گدھے کا پیشاب وپسینہ کا ذکر بھی ثواب سے خالی نہیں جبکہ احادیثِ صحیحہ اور روایاتِ معتبرہ سے ثابت ہو اور طریقۂ ذکر بھی سنت کے مطابق ہو۔40

مذکورہ علمائے عہدِ قریب کے علاوہ بھی کئی علمائے برصغیر ایسے ہیں جنہوں نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پُرمسرت موقع پر خوشی کے اظہار کو جائز و مستحسن قراردیا ہےا ور ان کا عمل بھی مولود شریف کی محافل میں شریک ہونے کا تھا۔ذیل میں برصغیر کے ایک عظیم ادارہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے شائع کی جانے والی متفقہ طور پر ایک کتاب جس کو علمائے عرب کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں متفقہ طور پر شائع کیا گیا تھا اس کا ایک اقتباس درج کیا جارہا ہے جو اس حوالہ سے مختوم مہر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کتاب کی تصدیقات کرنے والوںمیں دار العلوم دیوبند کے اکابر علماء شامل ہیں جن میں مولانا محمود حسن، مولانا احمد حسن امروہوی ،مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمن،مولانا محمد اشرف علی تھانوی، مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری،مہتمم دار العلوم دیوبندمولانا محمد احمد قاسمی،مفتی کفایت اللہ صاحب،مولانا عاشق الہٰی میرٹھی سر فہرست ہیں اور ان کے علاوہ بھی کئی اکابر علماءجن کی مکمل تعداد چوبیس(24) بنتی ہے ان سب علماء نے اس کتاب میں دیے گئے سوالات کے جوابات کی تصدیق فرمائی ہے چنانچہ اس کتاب میں علمائے عرب کی طرف سے میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حوالہ سےکیے گئے سوال کو نقل کرتے اور پھر اس کا جواب دیتے ہوئےصاحب المہند تحریرفرماتے ہیں:

السوال الواحد والعشرون: أتقولون أن ذكر ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم مستقبح شرعًا من البدعات السیئة المحرمة أم غیر ذلك؟ الجواب: الحاشا أن یقول أحد من المسلمین فضلاً أن نقول نحن أن ذكر ولادته الشریفه علیة الصلاة والسلام، بل وذكر غبار نعاله و بول حماره صلى اللّٰه عليه وسلم مستقبح من البدعات السئیة المحرمة. فالأ حوال التى لھا أدنى تعلق برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ذكرھا من أحب المندوبات وأعلى المستحبات عندنا سواء، كان ذكر ولادته الشریفة أو ذكر بوله وبزاره وقیامه وقعوده ونومه ونبھته، كماھو مصرح فى رسالتنا المسماة بالبراھین القاطعة فى مواضع شتى منھا وفى فتاوى مشائخنا رحمھم اللّٰه تعالى كما فى فتوى مولانااحمد على المحدث السھارنفورى تلمیذ الشاه محمد اسحٰق الدھلوى ثم المھاجر المكى ننقله مترجما لتکون نمونة عن الجمیع سئل رحمه اللّٰه تعالى عن مجلس المیلاد باى طریق یجوز وباى طریق لایجوز فاجاب بان ذكر الولادة الشریفة لسیدنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بروایات صحیحة فى أوقات خالیة عن وظائف العبادات الواجبات وبكیفیات لم تكن مخالفة عن طریقة الصحابة وأھل القرون الثلاثة المشھود لھا بالخیر، وبالاعتقادات التى موھمة بالشرك والبدعة وبالآداب التى لم تكن مخالفة عن سیرة الصحابة التى ھى مصداق قوله صلى اللّٰه عليه وسلم : ماأنا علیه وأصحابى وفى مجالس خالیة عن المنكرات الشرعیة موجب للخیر والبركة بشرط أن یكون مقروناً بصدق النیة والإخلاص واعتقاد كونه داخلاً فى جملة الأذكار الحسنة المندوبة غیر مقید بوقت من الأوقات فإذا كان كذلك لانعلم أحد من المسلمین أن یحكم علیه یكونه غیر مشروع أوبدعة...الى آخر الفتوى فعلم من ھذا انا لاننكر ذكرولادته الشریفة بل ننكر على الامورالمنكرة التى انضحت معھا كما شھدتموھافى المجالس المولودیة التى فى الھند من ذكر الروایات الواھیات الموضوعة واختلاط الرجال والنساء و الاسراف فى ایقاد الشموع والتنزیینات و اعتقاد كونه واجباً بالطعن والسب و التكفیر علٰى من لم یحضر معھم مجلسھم و غیرھا من المنكرات الشرعیة التى لایكاد یوجد خالیامنھا فلوخلامن المنكرات حاشا ان نقول ان ذكرالولادة الشریفة منكروبدعة وكیف یظن بمسلم ھذا القول الشنیع فھذاالقول علینا ایضا من افتراءات الملاحدة الدجالین الكذابین خذلھم اللّٰه تعالى .41
اکیسواں(21)سوال:کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح، سیئہ، حرام (معاذاللہ) ہے یا اور کچھ؟جواب:حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نعلین اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعت سئیہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے: خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ "براہین قاطعہ" میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے اور ہمارے مشائخ کے فتوی میں مسطور ہے چنانچہ شاہ محمد اسحاق صاحب دہلوی مہاجر مکی کے شاگرد مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کا فتوی عربی میں ترجمہ کرکے ہم نقل کرتے ہیں تاکہ سب کی تحریرات کا نمونہ بن جائے۔مولانا سے کسی نے سوال کیا تھا کہ مجلسِ میلاد شریف کس طریقہ سے جائز ہے اور کس طریقہ سے ناجائز تو مولانانے اس کایہ جواب لکھاکہ سیدنا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت شریف کا صحیح روایت سے ان اوقات میں ذکر کرنا جو عباداتِ واجبہ سے خالی ہوں، ان کیفیات سے جو صحابہ کرام اور ان اہلِ قرونِ ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہوں جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت (رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)نے دی ہے، ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں، ان آداب کے ساتھ جو صحابہ کرام کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضرت(رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کے ارشاد"ماأنا علیہ وأصحابی"کی مصداق ہے، ان مجالس میں جو منکراتِ شریعہ سے خالی ہوں سببِ خیر و برکت ہے بشرطیکہ صدقِ نیت اور اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جائے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اَذکارِ حسنہ کے ذکرِ حسن ہے اور کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ پس جو اجتماع ایسا ہوگا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا۔۔۔الخ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ہم ولادتِ شریفہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امورکے منکر ہیں جو ان کے ساتھ مل گئے ہیں جیسا کہ ہندوستان کے مولود کی مجلسوں میں آپ نے خود یکھا ہے کہ واہیات موضوع روایات بیان ہوتی ہیں، مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، چراغوں کے روشن کرنے اور دوسری آرائشوں میں فضول خرچی ہوتی ہے اوراس مجلس کو واجب سمجھ کر جو شامل نہ ہوں اس پر طعن و تکفیر ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ اور منکرات شرعیہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی مجلسِ میلاد خالی ہو۔پس اگر مجلسِ مولود منکرات سے خالی ہو تو حاشا کہ ہم یوں کہیں کہ ذکر ولادت شریفہ ناجائز اور بدعت ہے اور ایسے قول شنیع کا کسی مسلمان کی طرف کیوں کر گمان ہوسکتا ہے پس ہم پر یہ بہتان جھوٹے ملحد دجالوں کا افتراء ہے۔ خدا ان کو رسوا کرے ۔۔۔

مذکورہ بالا اقتباس دار العلوم دیوبند کی متفقہ شائع کردہ کتاب"المہند علی المفند"سے ماخوذ ہےاس میں موجود مذکورہ بالا سوال وجواب سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان علمائے اعلام کا میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں متفق علیہ قول جواز و استحسان کا ہے البتہ ان کے نزدیک دیگر علمائے امت کی طرح منکرات و محرمات سے اجتناب لازمی وضروری ہے۔

میلاد النبی ﷺاحمد سعید شاہ کاظمی کی نظر میں

حضرت احمد سعید شاہ کاظمی جوعہدقریب کے مایہ ناز عالم دین اور اہل علم ودانش میں "رازیِ دوراں"کے لقب سے مشہو رو معروف ہیں آپ نے بھی محفل میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے منانے اورا س پر خوشی کے اظہار کو جائز ومستحسن گردانا ہے اور اس حوالہ سے آپ نے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے جس میں رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ابتدائی تخلیقی مراحل اور احوالِ ولادت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بچپن ولڑکپن،جوانی وکہولت کے چند واقعات بیان کرنے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی میں منعقد کی جانے والی محافل میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اہمیت کو بیان کیا ہے اور اس پر قرآن و حدیث سے دلائل دیے ہیں نیزاس کے جواز و استحسان کو بیا ن کرتے ہوئے علمائے امت کے اقوال کو بھی بیان کیاہےچنانچہ شیخ احمد قسطلانی کی عبارت کو نقل کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

بعض لوگ میلاد شریف کی محفل کو منعقد کرنے اور ربیع الاول میں خیرات وصدقات واظہارِ فرحت وسرور کو بدعت سمجھتے ہیں جبکہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ شارح ِبخاری شیخ قسطلانی اپنی کتاب "مواہب اللدنیہ"میں مسلمانوں کی میلادالنبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی کو یوں بیان کیا ہے:

ولا زال أھل الاسلام یحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ویعلمون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون السرور ویزیدون فى المبرات و یعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم ومما جرب من خوّاصه انه امان فى ذلك العام وبشرى عاجلة بنیل البغیة والمرام فرحم اللّٰه امرأ اتخذ لیالى شھر مولده المبارك اعیادا.42

ترجمہ:..... ہمیشہ سے اہل اسلام نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں اور ربیع الاوّل کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اظہار مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں ،میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں اور ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہرحال فیض یاب ہوتا ہے۔میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خواص میں سے مجرب یہ ہے کہ یہ عمل جس سال میں منعقد ہواس منعقدہ مکمل سال کے لیے امن کا باعث ہے۔ مقاصد کی فوری بار آوری کے لیے خوشخبری ملتی ہے۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص پررحم کرے جو میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مہینہ کی راتوں کوعید یں مناتا ہے۔

شیخ قسطلانی کی عبارت نقل کرکے علامہ سعید احمد شا ہ کاظمی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں:شیخ قسطلانی کی عبارت سے حسبِ ذیل امور ثابت ہوئے:

  1. ماہ ربیع (ربیع الاول شریف) میں انعقادِ محفلِ میلاد اہل ِاسلام کا طریقہ رہا ہے۔
  2. کھانے پکانے کا اہتمام، انواع واقسام کے خیرات وصدقات ماہِ میلاد کی راتوں میں اہلِ اسلام ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں۔
  3. ماہِ ربیع الاول میں خوشی ومسرت وسرور کا اظہار شعار ِمسلمین ہے۔
  4. ماہِ میلاد کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنا مسلمانوں کا پسندیدہ طریقہ چلا آیا ہے۔
  5. ماہِ ربیع الاول میں میلاد شریف پڑھنا اور قرأت میلادِ پاک کااہتمامِ خاص کرنا مسلمانوں کا محبوب طرز عمل رہا ہے۔
  6. میلاد کی برکتوں سے میلاد کرنے والوں پر اﷲ تبارک وتعالیٰ کا فضلِ عمیم ہمیشہ سے ظاہر ہوتا چلا آیا ہے۔
  7. محفلِ میلاد کے خواص سے یہ مجرب خاصہ ہے کہ جس سال میں محافل میلاد منعقد کی جائیں تووہ تمام سال امن وامان سے گزرتا ہے۔
  8. انعقاد ِمحافل ِمیلاد مقصود ومطلب پانے کے لیے بشریٰ عاجلہ (جلد آنے والی خوشخبری) ہے۔
  9. میلاد پاک کی راتوں کو عید منانے والے مسلمان اﷲ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کےاہل ہیں۔43

اس کے علاوہ علامہ احمد سعید شاہ کاظمی نے اپنے اسی رسالہ میں محفل میلاد میں ہونے والے قیام کے جواز کو دلائل اور اقوال علماء کے ذریعہ سے ثابت کیا ہے اور آخر میں اس بات کی نشاندہی فرمائی ہے کہ رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی خوشی کا اظہار کرنا اور اس کے تذکرہ کے لیے محفلِ میلاد سجانا اور اس میں قیام کرنا یہ نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور امت کے علماء وزعماء اس کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺپیر کرم شاہ الازہری کی نظر میں

عہدِ قریب کے ایک اور مایہ ناز مفسر وسیرت نگار جن کا علمی وعملی دنیا میں ایک قد آور نام ہے یعنی جسٹس پیر کرم شاہ الازہری جنہوں نے تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ سیرت طیبہ پر بھی بہترین کتاب بنام" ضیاء النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam" تحریر کی ہے جو کہ اہل نظر و فکر اور عوام الناس میں یکساں مقبول ہوئی ۔آپ نے اس میں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے حوالہ سے منائی جانے والی خوشی کے اثبات پر بھی کلام کیا ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ نبی اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی خوشی کرنا ملت ِ اسلامیہ کا ابتداء ہی سے طرز و شیوہ رہا ہے چنانچہ وہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد کی بابت کلا م کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

غلام ِمصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہر زمانہ میں اپنے رب کریم کی اس نعمت کبریٰ کا شکر ادا کرتے آئے ہیں۔ زمانے کے تقاضے کے اعتبار سے شکر کے انداز گومختلف تھے لیکن جذبۂتشکر ہر عمل کا روح رواں رہا اور جو خوش بخت اس نعمت کی قدر وقیمت سے آگاہ ہیں وہ تا ابد اپنی فہم اور استعداد کے مطابق اپنے رحیم وکریم پروردگار کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔یہ ایک بدیہی امر ہے کہ جب کسی کو کسی انعام سے بہرہ ورکیا جاتا ہے تو اس کا دل مسرت وانبساط کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اس نعمت کی جتنی قدر وقیمت اور اہمیت ہوگی، اسی نسبت سے اس کی مسرت وانبساط کی کیفیت ہوگی لیکن جس چیز کے ملنے پر خوشی کے جذبات میں تلاطم پیدا نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کی اس شخص کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اگر یہ چیز اسے نہ ملتی تب بھی اسے افسوس نہ ہوتا، مل گئی ہے تو اسے کوئی خوشی نہیں، شمع جمال مصطفویSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پروانے ایسے قدر ناشناس نہیں۔ نبوت کا ماہِ تمام طلوع ہوا تو ان کی زندگی کے آنگن میں مسرتوں اور شادمانیوں کی چاندنی چٹکنے لگی، ان کے دلوں کے غنچے کھل کر شگفتہ پھول بن گئے۔ وہ یہ جانتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ اس احسان عظیم پر شکر کا حق ادا نہیں کرسکتے پھر بھی وہ اپنی سمجھ کے مطابق بارگاہ ِرب العزت میں سجدہ شکر میں گرگئے، اس کی حمد وثنا کے گیت گانے لگے اور اس کے محبوب کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حسنِ سرمدی پر اپنے دل وجان کو نثار کرنے لگے۔بعض مدعیانِ علم ودانش فرزندانِ اسلام کے ان مظاہرِ تشکر ومسرت کو دیکھ کر غصہ سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے ان شکر گزار بندوں پر طعن وتشنیع کے تیروں کی موسلا دھار بارش شروع کردیتے ہیں۔ کیا ان حضرات نے کبھی اس فرمان الہٰی کا بدقتِ نظر مطالعہ فرمایا ہے؟ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْاھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ5844
ترجمہ:.....فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں حکم دیا جارہا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہو تو منہ بسور کر نہ بیٹھ جایا کرو اوراپنی ہانڈیوں کو اوندھانہ کردیا کرو، جو چراغ جل رہا ہے اس کو بھی نہ بجھا یا کرو کیونکہ یہ اظہارِ تشکر نہیں بلکہ کفرانِ نعمت ہے۔ ایسا نہ کرو بلکہ "فلیفرحوا" یعنی خوشی اور مسرت کا مظاہرہ کیا کرو۔ یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ اظہارِ مسرت کا کیا طریقہ ہوتا ہے کیونکہ جب دل میں سچی خوشی کے جذبات امڈ کر آتے ہیں تو اپنے ظہور کے لیے وہ خود راستہ پیدا کرلیتے ہیں۔امت اسلامیہ صدیوں سے اﷲ تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ پر اپنے جذبات تشکر وامتنان کا اظہار کرتی رہی ہے۔ ہر سال ہر اسلامی ملک کے ہر چھوٹے بڑے گاؤں اور شہر میں عید میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمنانے کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ ان راتوں اور ان دنوں میں ذکر وفکر کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی شانِ کبریائی اور اس کے محبوبِ مکرم ،شفیع المذنبین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شان رفعت ودلربائی کے تذکرے کیے جاتے ہیں، سامعین کو اس دینِ قیم کے احکامات سے آگاہ کیا جاتا ہے، علماء تقریریں کرتے ہیں، ادباء مقالے پڑھتے ہیں، شعراء اپنے منظوم کلام سے اظہارِ عقیدت ومحبت کرتے ہیں ،صلوٰۃ وسلام کی روح پرور صداؤں سے ساری فضا معطر اور منور ہوجاتی ہے، اہلِ خیر کھانے پکاکر غرباء ومساکین میں تقسیم کرتے ہیں، صدقات و خیرات سے ضرورت مندوں کی جھولیاں بھردیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گلشن اسلام میں از سرِنو بہار آگئی ہے۔45

اس مذکورہ بالا اقتباس میں پیر کرم شا ہ الازہری نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی کے حوالہ سے آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی کرنا ہی شکرانِ نعمت ہے اور ناشکری یہ ہے کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعاد ت پر کسی قسم کی کوئی خوشی ومسرت کا اظہار نہ کیا جائے۔

میلاد النبی ﷺڈاکٹر مسعود احمد کی نظر میں

اسی طرح عہدِ قریب کے ایک اور عالمِ دین جن کے علم و فضل اور تحقیقاتِ علمیہ کوبرّ ِ صغیر ہند و پاک میں ایک نمایاں مقام حاصل ہےیعنی ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی۔ آپ کے علمی تبحرو برتری کا اندازہ مجد الف ثانی کے حوالہ سے کی جانےو الی آپ کی خدمات سے کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی درجنوں تصانیف کئی ملکوں سے مستقل شائع ہو رہی ہیں جو ہمہ جہت موضوعات کو محیط ہیں اوران میں قرآنیات، سیرت، سائنس،اصلاح اور تصوف شامل ہیں۔ آپ نے بھی میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جواز و استحسان کو مختلف رسائل وجرائد میں بیان کیا ہے چنانچہ ایک رسالہ میں آپ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جس دن اﷲ کے محبوبوں کی زندگی میں کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے اس دن کو "ایام اﷲ "میں شمار کرلیا جاتا ہے اورواقعہ کو "شعار اﷲ" قرار دے دیا جاتا ہے۔ظہور قدسی پانچ سو انہتر(569ء) میں پیر کے روز ہوا،جب یہ خوشخبری آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چچا ابولہب کو اس کی کنیز ثویبہ نے سنائی تو ابولہب نے خوشخبری سنتے ہی اس کو آزاد کردیا۔۔۔ جب ہم قرآن حکیم کو دیکھتے ہیں تو وہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری پر بطور خاص احسان جتایا جارہا ہے۔ اﷲ کی نعمتیں توبہت ہیں بے حدو بےشمار مگر جان نعمت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی ہیں اسی لیے احسان جتایا جارہا ہے۔امام ابن جوزی کے حوالے سے لکھتے ہیں:یہ عمل(مولود) ہمیشہ سے حرمین شریفین مکّہ ومدینہ میں مصر ویمن وشام، تمام بلاد عرب اور مشرق ومغرب میں ہر جگہ کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری وساری ہے اور وہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محفلیں قائم کرتے ہیں اور لوگ جمع ہوتے ہیں اور ماہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، غسل کرتے ہیں، عمدہ عمدہ لباس پہنتے ہیں ،زیب وزینت اور آراستگی اور عطر وگلاب چھڑکتے ہیں،ان دنوں خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں اور جو کچھ میسر ہوتا ہے نقد و جنس وغیرہ میں سے خوب دل کھول کر لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔میلاد مبارک کے سننے اور پڑھنے پر زیادہ تزک واحتشام کرتے ہیں اور اس اظہار مسرت وخوشی کی بدولت خوب اجروثواب اور خیر وبرکت، سلامتی وعافیت، کشادگی رزق،مال ودولت، اولاد، پوتوں،نواسوں ،میں زیادتی ہوتی ہے اور آباد شہروں میں امن وامان اور سلامتی اور گھروں میں سکون وقرار نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محفل میلاد کی برکت سے رہتا ہے۔46یہ تھے اس محدث وقت کے تاثرات جو عالم ِاسلام میں آج سے تقریباً نوسو (900)سال پہلے پیدا ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ محفل میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاب ایک عالمی حقیقت بن چکی اور متفقہ طور پر ملت اسلامیہ کا اس پر عمل ہے عملاً پوری دنیا ئےاسلام میں اس روز خوشی اور مسرت کا سماں ہوتا ہے۔آج تمام اسلامی دنیامیں جشن عید میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمتفقہ طور پر منایاجاتا ہے۔47

اسی طرح ڈاکٹر مسعود احمد نقشبندی اپنی ایک اور کتاب جس میں انہوں نے علیحدہ عنوانات قائم کر کے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محافل ومجالس،اس کے جشن منانے اور اس کی خوشی و مسرت کے اظہار کے سلسلے کے حوالہ سے تفصیلات رقم کی ہیں نیز قرآن وحدیث ،تعاملِ صحابہ اورامتِ مسلمہ کے مشائخ وعلماء کے اقتباسات سے تاریخ میلاد کو اور اس کے استحسان کو بیا ن کیا ہے۔ اس کتاب کے ایک مقام پرنبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی کے اظہار کے جواز کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتےہیں:

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں پر بہت سے احسانات فرمائے،بہت سے انعامات فرمائے،پھر فرمایا کہ ان کو گنتے گنتے تھک جاؤگے لیکن گن نہیں سکوگے مگر اتنے احسانات میں،اتنے سارے انعامات میں صرف ایک انعام کو جتایا گیا جس میں کوئی توبات تھی ،کوئی تو راز تھا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِه وَيُزَكيْھمْ وَيُعَلِّمُھمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكمَة ۰ۚوَاِنْ كانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِى ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ16448
ترجمہ:.....بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

ان کا آنا محض ایک بشر کا آنا نہ تھا بلکہ پیکرِ بشری میں ایک نور کا آنا تھا،صادق وامین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا آنا تھا،رؤوف رحیم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا آنا تھا،خاتم النبیین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا آنا تھا،شافع ِ محشر Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا آنا تھا جب ہی تو قرآنِ حکیم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے یومِ ولادت کو یادگار بنا دیا ، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آمد پر خوشیاں منانے اورشادیاں رچانے کاحکم فرمایا چنانچہ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّھا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكمْ مَّوْعِظَة مِّنْ رَّبِّكمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِى الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَھدًى وَّرَحْمَةلِّلْمُؤْمِنِيْنَ57قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ5849
ترجمہ:..... اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت (بھی)۔فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

بے شک سرکارِ دوعالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری ایک ایسی نعمت ہے جس کی کوئی قیمت نہیں،جو انمول ہے، جوبےبہا ہے، ساری کائنات ایک طرف اور یہ نعمت ایک طرف۔50

اس مذکورہ بالا اقتباس میں ڈاکٹر مسعود احمد نے قرآن مجید کی روشنی میں نبی اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی خوشی کے اظہار کے جوا زکو بیان کیا ہے اور اس سے آگے مزید احادیث اور مشائخ وعلمائےکبار کے حوالوں سے اس بات کو تفصیل سے لکھا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی قرآن وسنت اور امت مسلمہ کے اجماعی طرزِ عمل کے موافق ومطابق ہے اور اس پُر مسرت موقع پر خوشی کا اظہار کرنا مستحسن اور امرِ الہٰیہ کے مطابق ہے نیز شکر ِ باری تعالیٰ کا ایک اجماعی طریقہ بھی ہے۔

میلاد النبیﷺغلام رسول سعیدی کی نظر میں

عہدِ قریب کے ایک اور نامور مفسر ومحدث و فقیہ جن کی لکھی گئی تفسیر و شروحاتِ حدیث سے ان کی فقاہتِ نظری اور تبحرِ علمی واضح ہوتی ہے یعنی علامہ غلام رسول سعیدی، آپ کے نزدیک بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا یہ قرآنی احکامات کے موافق عمل ہے البتہ اس میں راہ پاجانے والی خرافات کو ختم کیا جانا چاہیے نہ کہ نفسِ میلاد ہی کو ناجائز سمجھ کر اس سے روکنا چاہیے چنانچہ اس حوالہ سے وہ تفصیل سے وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

میلاد میں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کا ذکر ہوتا ہے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضائل ومناقب اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے شمائل وخصائل کا بیان ہوتا ہے اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا کوئی انکار کرسکے کیونکہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یحییٰ اور دیگر انبیاء Alaihmus Salamکے فضائل اور خصائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور خود نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تشریف آوری اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے محامد ومحاسن کا بھی بکثرت ذکر ہے۔مسلمانوں کے نزدیک رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی منانا اور سال کے تمام ایام میں عموماً اور ماہ ربیع الاول میں خصوصاً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کا ذکر کرنا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضائل ومناقب اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے شمائل وخصائل کو مجالس اور محافل میں بیان کرنا جائز اور مستحب ہے ۔اسی طرح صدقات وخیرات کے ہدایا کا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جناب عالی میں ایصالِ ثواب کرنا اہل اسلام اور بزرگان دین کا معمول ہے۔عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ہر اچھے کام میں بعض دنیا دار برائی اورفسق وفجور کے پہلو نکال لیتے ہیں، مثلاً عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کی اجتماعی عبادات اور خوشی کے ایام ہیں لیکن ان ایام کو میلہ کی شکل دے دی گئی ہے اور پارکوں اور تفریح گاہوں میں عورتوں اور مردوں کا مخلوط اجتماع ہوتا ہے ۔۔۔ ان تمام جگہوں پر بلند آواز سے لاؤڈ اسپیکر پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے، جگہ جگہ میلہ لگتا ہے جس میں ناچ گانا اور تمام خرافات ہوتی ہیں، ان ناجائز امور اور غیر شرعی حرکات کی بناء پر کوئی مسلمان شخص یہ نہیں کہتا کہ چونکہ عیدین کے ایام میں یہ غیر شرعی امور ہوتے ہیں اس لیے عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز بندکر دی جائے یا عید کے دن خوشی نہ منائی جائے۔لوگ نہادھوکر ،نئے کپڑے بدل کر ،عیدگاہوں میں نہ جائیں کہ اس سے ان خرافات کا دروازہ کھلتا ہے ۔عید کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور اگر کسی سنت پر عمل کرنے سے بے شمار حرام کاموں کا دروازہ کھلتا ہو تو اس سنت کو ترک کردینا چاہیے۔ ۔۔اسی طرح نکاح میں بالعموم گانے باجے عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات اور دیگر خرافات ہوتی ہیں لیکن اس کی بناء پرنکاح کو مذموم یا ممنوع نہیں کہا جاتا، اس لیے اگر بعض جگہ محافلِ میلاد میں کوئی خرابی ہوتی ہے تو اس سے محفل ِمیلاد کو بند نہیں کیا جائے گا۔ 51

اس مذکورہ بالا اقتباس میں علامہ غلام رسول سعیدی نے محفلِ میلاد کی اصل کو بیان کرتے ہوئے اس میں ہونے والی خرافات کے سد باب کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے کہ محافلِ میلاد کو خرافات کی وجہ سے بند نہیں کیا جاسکتا البتہ ان خرافات کو ختم کرنا ہی ضروری ہے اور محافلِ میلاد کا انعقاد بھی لازمی ہے جس سے مسلمانوں کی علمی وعملی ونظری تربیت کا سامان میسر آتا ہے۔

میلاد النبی ﷺسید محمد علوی مالکی کی نظر میں

اسی طرح عہد قریب کے متبحر عالم شیخ علامہ سید محمد علوی مالکی بھی ان علماء میں شامل ہیں جو میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مستحسن قراردیتے ہیں اورآپ نے اس اور اس جیسے دیگر مسائل کے حوالہ سے ایک تصنیف "مفاھیم یجب ان تصحّ"تحریر فرمائی ہے جس میں آپ نےمیلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے صحیح مفہوم اور اس کے جواز و استحسان کو بیان کیاہے چنانچہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےصحیح مفہوم اور اس حوالہ سے بعض حضرات کے مغالطے کو دور کرتے ہوئے شیخ علوی مالکی تحریر فرماتے ہیں:

ومن التصورات الفاسدة التى تقع فى اذھان بعض الناس انھم یظنون: اننا ندعو الة الاحتفال بالمولد فى لیلة مخصوصة دون سائر العام ومادرٰى ھذا المغفل ان الاجتماعات تعقد لاجل لاجل المولد المولد النبوى فیه مكة والمدینة بشكل منقطع النظیر فى كل الایام العام...وھذه مجالس المولد النبوى تنعقد بفضل اللّٰه تعالى فى جمیع لیالى السنة ولایكاد یمر یوم او لیلة الاوھںا مجلس وھناك محفل ونحن ننادى بان تخصیص الاجتماع بلیلة واحدة دون غیرھا ھو الجفوة الكبرى لرسول صلى اللّٰه عليه وسلم...ان ینصحوھم ویرشدوھم الى الخیر والفلاح ویحذروھم من البلاء و البدع والشر والفتن.52
لوگوں کے ذہنوں میں یہ فاسد تصورات پائے جاتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق ہم سال بھر میں صرف ایک مخصوص رات میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محافل منعقد کرتے ہیں، اس غافل شخص کو معلوم نہیں کہ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ طیّبہ میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سلسلے میں سال بھر ایسے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو بے مثال ہوتے ہیں۔حرمین شریفین میں جب بھی کوئی خوشی کا موقع آتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم صرف ایک رات میں سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر کرتے ہیں اور تین سو انسٹھ (359)راتوں میں اس ذکر سے غافل ہوجاتے ہیں وہ ہم پر افتر اءپردازی کررہا ہے اور واضح جھوٹ بولتا ہے۔ یہ مجالسِ میلاد، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن رات منعقد ہوتی ہیں اور کوئی دن یا رات ایسےنہیں گزرتے جس میں یہاں یا وہاں محفل ِ میلادمنعقد نہ ہوتی ہو۔ ہم ببانگ ِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان محافل کو ایک وقت چھوڑ کر کسی رات کے ساتھ خاص کرنا یہ رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ساتھ انتہاء درجہ کی زیادتی ہے۔اور یہ اجتماعات دعوت الی اللہ کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ مبلغین اور علماء کا فرض ہے کہ وہ ان اجتماعات کے ذریعے امت مسلمہ کو سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اخلاق و آداب، احوال و سیرت اور معاملات و عبادات سے آگاہ کرتے رہیں، انہیں نصیحت کریں اور خیر و فلاح کی طرف بلائیں اورمصیبتوں ، بدعتوں اور شر وفتنوں سے انہیں ڈرائیں۔

یعنی شیخ علوی مالکی ان مجالس ومحافل میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تزکیہ و طہارتِ قلبی کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور ا س کو امت کے لیے نبی امتSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے تعلق استوار کرنے کا سبب گردانتےہیں۔اسی طرح شیخ علوی مالکی نے شیخ ملا علی قاری کی مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر لکھی گئی"المورد الروی فی المولد النبوی صلى اللّٰه عليه وسلم"نامی کتاب کے مقدمہ میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جواز واستحسان کوبیان کیا ہے چنانچہ وہ اس کتاب کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:

الأول إننا نقول بجواز الاحتفال بالمولد الشریف والاجتماع لسماع سیرته والصلاة والسلام علیه وسماع المدائح التى تقال فى حقه وإطعام الطعام وإدخال السرور على قلوب الأمة.الثانیة: إننا لا نقول بسنیة الاحتفال بالمولد المذكور فى لیلة مخصوصة بل من اعتقد ذلك فقد ابتدع فى الدین لأن ذكره صلى اللّٰه عليه وسلم والتعلق به یجب أن یكون فى كل حین ویجب أن تمتلأ به النفوس نعم إن فى شھر ولادته یكون الداعى أقوى لاقبال الناس واجتماعھم وشعورھم الفیاض بارتباط الزمان بعضه ببعض فیتذكرون بالحاضر الماضى وینتقلون من الشاھد إلى الغائب.الثالثة: إن ھذا الاجتماعات ھى وسیلة كبرى للدعوة إلى اللّٰه وھى فرصة ذھبیة ینبغى أن لا تفوت بل یجب على الدعاة والعلماء أن یذكروا الأمة بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم بأخلاقه وآدابه وأحواله وسیرته ومعاملته وعبادته وأن ینصحوھم ویرشدوھم إلى الخیر والفلاح ویحذروھم من البلاء والبدع والشر والفتن وإننا دائما بفضل اللّٰه ندعو إلى ذلك ونشارك فى ذلك ونقول للناس لیس المقصود من ھذه الاجتماعات مجرد الاجتماعات والمظاھر بل إن ھذه وسیلة شریفة إلى غایة شریفة وھى كذا وكذا ومن لم یستفد شیئا لدینه فھو محروم من خیرات المولد الشریف.53
اول: ہم اس کے قائل ہیں کہ محفل میلاد شریف منعقدکرنا، سیرت نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سننے،صلوٰۃ وسلام پڑھنے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نعتیں سننے کے لیے اجتماع کرنا،اس موقع پر کھانا کھلانا، اور امت کے قلوب میں مسرت پیدا کرنا بلاشبہ جائز ہے۔دوم:کسی ایک ہی مخصوص شب میں جلسۂِ میلادِ مذکور کو ہم سنت نہیں کہتے ہیں بلکہ جو اس کا اعتقاد رکھے اس نے دین میں ایک نئی بات پیدا کی۔ کیونکہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذکر وفکر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محبت سے دلوں کا ہمہ وقت اور ہر لمحہ لبریز رہنا ضروری ہے۔ ہاں ! آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے مہینے میں لوگوں کی توجہ اور چھلکتے ہوئے جذبات و احساسات کے اسباب ودواعی زیادہ مضبوط اورقوی ہوتے ہیں کیونکہ زمانہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتا ہے۔ موجودہ موقع کو دیکھ کر لوگ گزشتہ کو یاد کرتے ہیں اور حاضر کو پاکر غائب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔سوم: یہ محافل واجتماعات،دعوت الی اﷲ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں اور یہ ایک سنہرا موقع ہے جس کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے بلکہ علماء ومبلغین پر فرض ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اخلاق وآداب،احوال وکردار اور عبادات ومعاملات کے ذریعہ امت کو یاد دلاتے رہیں، انہیں نصیحت کریں، انہیں خیر وفلاح کی دعوت دیں اور بلاء و آزمائش، منکر وبدعت اور شرور وفتن سے ڈراتے رہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ ہم مسلمانوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں، اس میں حصہ لیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ: اے لوگو! ان اجتماعات سے محض اجتماعات ومظاہر مقصود نہیں بلکہ یہ ایک نہایت اچھے مقصود کے لیے ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور وہ مقاصد فلاں اور فلاں ہیں۔ اور جو اس سے اپنے دین کے لیے کچھ نہ حاصل کرے وہ میلاد مبارک کی برکتوں سے محروم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ محفل میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی کوئی مخصوص کیفیت نہیں کہ صرف اسی کا التزام کیا جائے اور اسی کو لوگوں پر لازم قرار دیا جائے بلکہ ہر کام جو لوگوں کو دعوت خیردے، ہدایت پر جمع کرے، اور انہیں دینی و دنیوی منفعت کی راہ دکھلائے اس سے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکامقصود پورا ہوجاتا ہے۔مدائح سننے کے لیے بھی اگر ہم جمع ہوں جن میں ذکر ونعتِ حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے غزوات اور فضائل وخصائلِ حمیدہ سنے اور سنائے جائیں اور واقعاتِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنہ بھی پڑھیں جنہیں لوگ پسندیدہ اور رائج سمجھ کر عام طور پر پڑھتے ہیں (یہاں تک کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محفل نامکمل رہ جاتی ہے) ان مذکورہ چیزوں کے ساتھ خطیبوں اور واعظوں کے مواعظ وارشادات اور قراء کی تلاوت قرآن حکیم بھی سنیں تو یہ سبھی میلادالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamشریف میں داخل ہے اور میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مفہوم اس سے بھی پورا ہوجاتا ہے میرا خیال ہے کہ اس سے کسی کو اختلاف نہ ہوگا۔54

ان مذکورہ بالا قتباسات سے واضح ہوجاتا ہے کہ سید محمد علوی مالکی کے نزدیک بھی میلادالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجائز ومستحسن امر ہے اور اس کے ذریعہ سے امتِ مسلمہ کی علمی ونظریاتی بنیادوں کومضبوط کیاجاسکتا ہے اور امت کا تعلق رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے مزید پختہ کیاجاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اجتماعات کو قرب الہٰی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف دعوت کا سبب قراردیتے ہیں اوراسی طرح علمائے کرام امتِ مسلمہ کو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سیرت طیبہ سے روشناس کروانے کی ذمہ داری سے عہدہ براہونے کےلیے ان اجتماعات کوایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

میلاد النبیﷺڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نظر میں

اسی طرح عہد حاضر کی ایک اور مایہ ناز شخصیت جن کا علمی تبحر ،ثقاہتِ نظری اور علمی وعملی میدان میں ان کی خدمات مسلمہ ہیں یعنی ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب، ان کے نزدیک بھی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسلمانانِ عالم کےلیے انتہائی خوشی کا موقع ہے جس سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوسکتی اورمیلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موقع پر خوشی کے اظہار کےسلسلے میں منعقد کی جانے والی محافل ِمیلاد مسلمانانِ عالم کی علمی و عملی ،نظری وفکری، ایمانی واعتقادی اور انقیاد ی واطاعتی تربیت کے لیے لازمی وضروری ہیں جن کے ذریعہ مسلمانانِ عالم کا رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسےپختہ قلبی تعلق پید اہوتا ہے ۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مضمون پر ایک ضخیم کتاب بھی تصنیف کی ہے جس میں اس موضوع کے اکثر پہلوؤں کی تفصیلا ت پر روشنی ڈالی ہے اور بالخصوص میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی معاشرتی حیثیت کو تفصیل کے ساتھ رقم کیا ہے چنانچہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے موقع پر خوشی کے اظہارکے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

جشنِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت کی تاریخی خوشی میں مسرت وشادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کو میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔حضور سرور کائنات Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamخود بھی اپنے یوم ولادت کی تعظیم فرماتے اور اس کائنات میں اپنے ظہورِ وجود پرسپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا اپنے یوم ولادت کی تعظیم وتکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کے طور پر شکر بجا لانا حکمِ خداوندی تھا کیونکہ حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی کے وجودِ مسعود کے تصدق وتوسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔جشنِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر درود وسلام جیسے اہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب ونظر میں ذوق وشوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ صلوٰۃ وسلام بذات خودشریعت میں بے پناہ نواز شات وبرکات کا باعث ہےاس لیے جمہور امت نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا انعقاد مستحسن سمجھا ہے۔سیرت طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂِ محبتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فروغ کے لیے محفل میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے، اِسی لیے جشن میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا تذکرہ اور اسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔جشن میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ایک اہم مقصد محبت وقربِ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حصول وفروغ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا احیاء ہے اور یہ احیاء منشاءِ شریعت ہے۔حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضائل وکمالات کی معرفت ایمان باﷲ اور ایمان بالرسالت میں اضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم وتوقیر ایمان کا پہلا بنیادی تقاضا ہے اور میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سلسلہ میں مسرت وشادمانی کا اظہارکرنا، محافل ذکر و نعت کا انعقاد کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا اﷲ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے سب سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں احسانات وعنایات اور نوازشات کا مستحق ٹھہرایا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس احسانِ عظیم کو جتلایا ہے۔جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اﷲ رب العزت نے قرآن حکیم کی عظمت وشان کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے اسی طرح ماہ ربیع الاول کے امتیاز اور انفرادیت کی وجہ بھی اس میں صاحب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہ مبارک حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت کے صدقے جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ ۔۔قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل ورحمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسنِ انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان اندھیروں کو چاک کردیا جو صدیوں سے شبِ تاریک کی طرح ان پر مسلط تھے اور نفرت وبغض کی وہ دیواریں گرادیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم کیے ہوئے تھیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاذْكرُوْا نِعْمَتَ اللّٰه عَلَيْكمْ اِذْ كنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا10355
ترجمہ:.....اور اپنے اوپر (کی گئی) اﷲ کی اس نعمت کو یادکرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔

ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کورشتۂِ اخوت ومحبت میں پرودینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخِ عالم پیش کرنے سے قاصر ہےلہٰذا میلاد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر خوشی منانا اور شکرِ الہٰی بجا لانا امت مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔56

ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے موقع پر خوشی کے اظہار کے سلسلے میں محافلِ میلاد کے انعقاد کی معاشرتی اہمیت بہت زیادہے جو مسلمانانِ عالم کی علمی و نظریاتی تربیت کے لیے لازمی ہے اور ان محافل سے مسلمانانِ عالم کا رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے قلبی تعلق استوار ہوکر مضبوط ہوتا ہے جس سے دینِ الہٰی پر عمل کرنا آسان تر ہوجاتا ہے۔

میلاد النبﷺشیخ محمد عبدہ یمانی کی نظر میں

عہد قریب ہی کے ایک عرب عالم شیخ محمد عبدہ یمانی جو کئی کتابوں کے مصنف اور کئی اداروں کے سربراہ تھے جن کی کتابوں سے ان کے تبحر علمی کا اندازہ ہوجاتا ہے انہوں نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موضوع پر ایک کتاب"الاحتفال بالمولد النبوی الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم "کے نام سے تحریر فرمائی ہے اور اس میں اس کے جوازو استحسان کو بیان کیا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سید الانبیاء والمرسلین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سیرت طیبہ کو سننے کے لیے اجتماع منعقد کرنا ایک محبوب و پسندیدہ امر ہے اور اسلامی فضا میں اختراعات و انحرافات کے بغیر ان مجالسِ سیرت کے انعقاد میں بہت سی فضیلتیں ہیں ۔ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سیرت کا ذکر ہر وقت ہو رہاہے اور سیرت طیبہ سننے کے ساتھ لوگوں کا تعلق برابر بڑھ ر ہا ہے ۔ صرف ربیع الاول کا مہینہ ہی اس کے لیے خاص نہیں اگر چہ یہی وہ ماہ مبارک ہے جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جنم لیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے مقدس مہینے میں ایک دعوت دینے والا، لوگوں کو قریب لانے ، ان کو جمع کرنے ، ان کی توجہ مبذول کرانے اور ان کے ذہنوں کا زمانے کے ساتھ تعلق جوڑنے کے زیادہ قابل ہوتا ہے چنانچہ لوگ زمانۂِ حال کے ذریعے ماضی کو یاد کرتے ہیں اور حاضرینِ مجلس علم کو ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو موجود نہیں ہوتے ۔ حقیقت تو یہی ہے ۔ اگرچہ میلاد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے استقبال کے ساتھ ربیع الاول کے مہینے میں مسلمانوں کا یہ تعلق قائم ہے ، تاہم اہل علم کسی مخصوص رات کو میلاد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جشن منانے کو سنت نہیں سمجھتے اور اس فعل کو ایک ایسی بدعت شمار کرتے ہیں جس کا ارتکاب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے صحابہ نے نہیں کیا مگر میلاد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا استقبال ہر وقت اور ہر جگہ واجب ہے ، ہم حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر درود سلام بھیجتے ہیں کیونکہ خدائے عزوجل کا فرمان ہے :

اِنَّ اللّٰه وَمَلٰۗىِٕكتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِى ۭ يٰٓاَيُّھا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْه وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا5657
ترجمہ:.....بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

بے شک رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محبت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سیرت سے فرحت و مسرت حاصل کرنا ایک مسلمان کے لیے بہت سی بھلائیوں کا موجب ہے اس لیے کافر بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت باسعادت سے فیض یاب ہوا تھا او روہ کافر ابو لہب تھا۔۔۔ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے یومِ ولادت کو بڑی اہمیت دیتے تھے، اس دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس نعمتِ کبریٰ اور وجودِ مسعود کا شکر بجا لاتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو عطا فرمایاتھا جس سے ہر شے فیض یاب ہوئی تھی۔ اس تعظیم کا اظہار آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamروزہ رکھ کر فرماتے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ Radi Allah Anhoکی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے پیر کے روزے کے متعلق ہوچھا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا "اس دن میری ولادت ہوئی تھی اور مجھ پر وحی کا نزول ہوا تھا"58۔۔ ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے یوم ولادت منانے کے یہی معنی ہیں لیکن اس کی صورتیں مختلف ہیں مگر اس کا معنی موجود ہے، خواہ اس کا مطلب روزہ رکھنا ہو یا کھانا کھلانا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذکرِ خیر کی مجلس منعقد کرنا ہو یا نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر درودو سلام بھیجنا ہو یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی عادات و اطوار کے بارے میں سننا ہو (سب اس میں شامل ہیں) ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت پر خوشی کا اظہار پسندیدہ اور مطلوب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْاھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ5859
ترجمہ:..... فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

لہذااللہ تعالیٰ۔۔۔نے ہمیں رحمتِ الہٰی پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِيْنَ10760
ترجمہ:.....اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔61

ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کے مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہو اکہ رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی خوشی کرنا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا مسلمانوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے اور اس طرح کرنے سے رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سیرت طیبہ کو جاننے اور سمجھنےکے ذریعہ اس پر عمل پیرا ہونے کے ذرائع میسر آتے ہیں۔

مذکورہ بالا عہد ِقریب کے تمام علمائے اسلام کے اقتباسات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا میلاد منانااور اس پر خوشی کا اظہار کرتےہوئے محافل ومجالسِ میلاد کا انعقادکرنا جائز ومستحسن ہےاور امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر اس پُرمسرت موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ملنے پر حکمِ الہٰیہ کے تحت خوشی کرتی ہے اور اس کو شکرِ خداوندی کے طور پر مناتی ہے جس میں عوام تو عوام امت مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام شامل ہوتے ہیں اور اس کو بنظرِ استحسان دیکھتےہوئے مسلمانانِ عالم کےدلوں میں سرورِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محبت واطاعت کے جذبہ کی پختگی کا مظبوط سبب سمجھتےہیں جس سے ان کی علمی و عملی تربیت ہوتی ہے۔


  • 1  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 2  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، جامع الترمذی، حدیث:3607، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:1069
  • 3  ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28،مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001م،ص:49
  • 4  القرآن،سورۃ الفتح8:48-9
  • 5  امام احمد رضا خان القادری نے اپنے پہلے حج کے موقع پر شیخ الحرم شیخ زینی دحلان شافعی سے حدیث،فقہ و اصول، تفسیر اور دیگر علوم میں سندِ اجازت حاصل کی تھی اور آپ اپنے استاذ گرامی کا ذکر والہانہ انداز میں کیاکرتے تھے۔شیخ الحرم کا وصال مبارک تیرہ سو چار( 1304ھ) میں ہوا اور مدینہ منورہ کےجنت البقیع میں دفن ہوئے۔( امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویہ،ج-1،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:12)
  • 6  شیخ سید احمد بن زینی دحلان مکی، الدرر السَّنیۃ فی الرد علی الوھّابیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ الاحباب، دمشق، السوریۃ، 2003م، ص:50-51
  • 7  القرآن، سورۃ آل عمران 3: 81 - 82
  • 8  القرآن،سورۃالصّف61: 6
  • 9  امام احمد رضا خان القادری،المیلاد النبویۃ فی الالفاظ الرضویۃ،مطبوعہ:قادری رضوی کتب خانہ،لاہور،پاکستان،2010ء،ص:28-31
  • 10  امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:495-553
  • 11  ایضاً، ص:405-428
  • 12  امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویہ،ج-29،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:205
  • 13  شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ما ثبت باالسُنّۃ فی الایام والسَّنَۃ، مطبوعۃ: مجتبائی دھلی، دھلی، الھند، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:79
  • 14  شیخ نواب صدیق حسن خان بھوپالی، الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃﷺ(رسائلِ میلادِ رسول عربیﷺ)، مطبوعہ: مکتبہ حنفیہ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص:11-12
  • 15  ایضاً، ص:105
  • 16  مولانا رشید احمد گنگوہی ، باقیاتِ فتاویٰ رشیدیہ، مطبوعہ: دار الکتاب ،لاہور،پاکستان، 2012ء، ص:578
  • 17  مولانا مناظر احسن گیلانی، سوانحِ قاسمی،ج-1، مطبوعہ:مکتبہ رحمانیہ،لاہور،پاکستان،1373ھ، ص:471
  • 18  مولانا محمد اشرف علی تھانوی ، ارواحِ ثلاثہ، ج-1، مطبوعہ:مکتبہ عمر فاروق،کراچی،پاکستان،2009ء، ص:213
  • 19  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:421
  • 20  ایضا، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید الرسلینﷺ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:177
  • 21  شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان،2013ء،ص:383-384
  • 22  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:394
  • 23  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری،جامع صحیح مسلم، حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 24  القرآن ،سورۃآل عمران3: 164
  • 25  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2005، ص: 177 -178
  • 26  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان،2013ء،ص:384-385
  • 27  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005، ص: 178
  • 28  شیخ وحید الزماں ، ہدیۃ المہتدی، مطبوعہ: میو پریس، دہلی،ہند،(سنِ اشاعت ندارد)،ص:46
  • 29  مولانا محمد اشرف علی تھانوی، میلاد النبیﷺ، مطبوعہ: مکتبہ ابو بکر عبد اللہ، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص:14-15
  • 30  ایضا ، امداد المشتاق، مطبوعہ: ممتاز اکیڈمی ،لاہور،پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 88
  • 31  ایضا ، امداد الفتاویٰ، ج-5،مطبوعہ: مکتبہ سید احمد شہید ،لاہور،پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 230
  • 32  مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ ، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:230
  • 33  القرآن، سورۃ المائدہ 5: 7
  • 34  القرآن، سورۃ الضحیٰ 93 :11
  • 35  القرآن، التوبۃ9: 128
  • 36  مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ ، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:231
  • 37  ابو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4465، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، 1990م، ص:83-84
  • 38  نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی المولد النبوی، مطبوعۃ: مرکز تحقیقات اسلامیۃ، لاہور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)،ص: 21
  • 39  مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ ، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:234-236
  • 40  مفتی عبد الرحیم لاجپوری دیوبندی، فتاویٰ رحیمیہ، ج-2، مطبوعہ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:72
  • 41  مولانا خلیل احمد سہارنبوری، المہند علی المفند، مطبوعۃ: نفیس منزل، لاہور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:60-63
  • 42  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:78
  • 43  سيد احمد سعید کاظمی،میلاد النبیﷺ( رسائل میلاد النبیﷺ)، مطبوعہ: قادری رضوی کتب خانہ، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص :191-194
  • 44  القرآن، سورۃ یونس 10: 58
  • 45  جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2013ء،ص:45-47
  • 46  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی،مولد النبیﷺ(مترجم:مفتی غلام معین الدین) ،مطبوعہ:مکتبہ حنفیہ،لاہور،پاکستان،2011ء، ص:70
  • 47  ڈاکٹر محمد مسعود احمد،جشن بہاراں( رسائل میلاد النبیﷺ)، مطبوعہ: قادری رضوی کتب خانہ، لاہور،پاکستان، 2008ء، ص:229-238
  • 48  القرآن، سورۃ آل عمران164:3
  • 49  القرآن ، سورۃ یونس10: 58
  • 50  ڈاکٹر محمد مسعود احمد، جانِ جاناںﷺ، مطبوعہ: ادارہ مسعودیہ، کراچی ، پاکستان،1998ء، ص:63-64
  • 51  علامہ غلام رسول سعیدی، شرح صحیح مسلم، ج-3، مطبوعہ: فرید بک اسٹال ، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:169-170
  • 52  الدکتور محمد بن علوی المالکی الحسنی، مفاہیم یجب ان تُصحح، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 309 -310
  • 53  الدکتور محمد بن علوی المالکی الحسنی، مقدمۃ المورد الروی فی المولد النبوی للملا علی القاری، مطبوعۃ: مرکز تحقیقات اسلامیۃ، لاہور، باکستان،(لیس التاریخ موجوداً)،ص: 21
  • 54  الدکتور محمد بن علوی المالکی الحسنی، رسائل میلاد النبی ﷺ (مترجم: یٰسین اختر مصباحی عظمی) ، مطبوعہ: قادری رضوی کتب خانہ، لاہور،پاکستان، 2008ء، ص:202-214
  • 55  القرآن، سورۃ آل عمران3: 103
  • 56  ڈاکٹر محمد طاہر القادری، میلاد النبیﷺ ، مطبوعہ:منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2007ء، ص:35-50
  • 57  القرآن، سورۃ الاحزاب56:33
  • 58  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 59  القرآن، سورۃ یونس 10: 58
  • 60  القرآن، سورۃ الانبیاء107:21
  • 61  ڈاکٹر محمد عبدہ الیمانی، الاحتفال بالمولد النبوی الشریفﷺ(مترجم: محمد طفیل ضیغم)، مطبوعہ: ہجویری بک شاپ، لاہور، پاکستان، 2012ء، ص:21-23

Powered by Netsol Online