Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺ اور جلوس

Published on: 14-Jul-2023

(حوالہ: علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی sym-1 انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:35، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 1011-1041)

بارہ(12) ربیع الاوّل مسلمانوں کے لیے بڑا خوشی کا دن ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے کسی نہ کسی رنگ میں سرور دو عالم sym-1کی ولادتِ مقدسہ مناتے رہے ہیں جن کو عام طور پر جشن میلاد النبی sym-1یاعید میلاد النبی sym-1کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔محفل میلاد شریف مسلسل اسلامی ممالک میں منعقد کی جاتی رہی ہے اور مسلمانانِ عالم ہمیشہ سےبارہ ( 12)ربیع الاوّل کو بڑے اہتمام ، جوش وخروش اور شان وشوکت کے ساتھ اس دن کو بطور جشن کے مناتے آرہے ہیں کیونکہ ولادت کے شکرانہ کے لیے خود حضور نبی کریم sym-1نے ہر پیر کے دن روزہ رکھا ہے چنانچہ جب نبی کریم sym-1سے اس بارے میں دریافت کیاگیا تو آپsym-1 نے ارشاد فرمایا:

فیه ولدت .1
اس دن میری ولادت ہوئی۔

اسی لیے مسلمانان عالم یوم ولادت میں خوشی وسرور کا اظہا ر کرتےہیں جو کہ جشن کی طرح ہوتا ہے چنانچہ محمد زاہد الکوثری sym-4لکھتے ہیں:

العادة المتبعة فى البلاد الإسلامیة الاحتفاء بالمولد الشریف فى اللیلة الثانیة عشرة من شھر ربیع الاوّل . 2
بلاد اسلامیہ میں یہ مسلسل عمل رہا ہے کہ مسلمان ہمیشہ سےبارہ ( 12 )ربیع الاوّل کی رات کو محفل میلاد کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ بھی خوشی منانے کا ایک انداز ہے کہ نعمت عطا کرنے والےاللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ِعالیہ میں ہدیہ ءِشکر پیش کیا جاتا ہےاور اس نعمت کا چرچا اور تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس مبارک دن کو مسلمان رب تعالیٰ کی نعمتِ کبریٰ یعنی رسول مکرمsym-1 کے ملنے کی وجہ سے کئی طریقوں سے اظہارِ خوشی کرتے ہیں۔پہلے مسلمان صرف محافل کا انعقاد اور صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے پھر بعد میں اہل محبت نے اس خوشی میں جلوس نکالنا شروع کیا۔ جلوس کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے افراد کا کسی خاص موقع پر اکٹھے ہوکر گزرگاہوں میں آناجانا اور بازاروں یا راہوں سے گزرنا۔ اس جلوس میں نعت خوانی ہوتی تھی، قصیدہ بردہ شریف پڑھا جاتا تھا اور علماء کرام تقریریں کرتے تھے۔ نمازوں کے اوقات میں نماز پڑھی جاتی تھی اور کوئی غیر شرعی حرکت نہیں ہوتی تھی۔ اس جلوس کو فرض، واجب اور سنت کا درجہ نہیں دیا جاتا البتہ رسول اﷲ sym-1کے ذکر کی تعظیم اور آپsym-1 کی عظمت کے اظہار کے لیے جلوس نکالا جاتا ہے کیونکہ آج کل کسی شخص کی عظمت وشوکت کے اظہار کا ایک ذریعہ جلوس بھی ہے لہذا اس امرِ کے پیش نظر جلوس نکالنا بلاشبہ ایک امر مستحسن ہے۔عید میلاد النبی sym-1کے موقع پر جلوس نکالنے سے فقط اﷲ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ حضرت محمد رسول اﷲ sym-1کا چرچا کرنا مقصود ہےاورزیادہ سےزیادہ لوگوں کو اس میں شامل کرکے حضور اقدس sym-1کے ساتھ اپنی محبت وعقیدت کا اظہاراور خداوند قدوس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا مطلوب ہے۔

ولادتِ شریفہ کا جلوس

اس جلوسِ میلاد میں تمام افراد انتہائی خوشی ومسرت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں کیونکہ نبی کریم sym-1کی ولادتِ مقدسہ کے موقع پر فرشتوں کی ٹولیاں بھی اسی طرح نکلی تھیں چنانچہ روایت میں مروی ہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ sym-6فرماتی ہیں :

وإذا قائل یقول: خذوا عن أعین الناس، قالت فرأیت رجالا قد وقفوا فى الھواء بأیدیھم أباریق فضة.3
اور ایک کہنے والا کہہ رہا تھا (فرشتو!) انہیں (محمد رسول اﷲsym-1) کو پکڑ کر لوگوں کی آنکھوں سے دور لے جاؤ، آپ فرماتی ہیں میں نے کچھ لوگ (حوریں اور فرشتے) دیکھے کہ ہوا میں (تعظیم کے لیے ) کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں چاندی کی صراحیاں ہیں۔

اسی طرح ایک روایت میں یوں مذکور ہے :

فلما ولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم امتلأت الدنیا كلھا نورا، وتباشرت الملائکة.4
جب نبی کریم sym-1کی ولادت ہوئی تو ساری دنیاروشن ہوئی اور فرشتوں نے ایک دوسرے کے سامنے خوشی کا اظہار کیا۔

اسی حوالہ سے ابن جوزی ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں کہ ان مبارک ومسعود لمحات میں فرشتے دائرے کی صورت میں حضرت آمنہ کے اردگرد کھڑے ہوگئے اورانہوں نے خوشی اور فرحت کے ساتھ حضور نبی معظم sym-1 کی ذات اقدس کے لیے اپنے پَر پھیلائے چنانچہ تسبیح وتہلیل کرنے والے فرشتگان یوں قطار اندرقطار اُترآئے کہ انہوں نے بحروبر اور نشیب وفراز سمیت تمام مقامات کو بھردیا۔حضرت سیّدہ آمنہ مزید فرماتی ہیں کہ میں فرشتوں کی جانب دیکھتی کہ وہ حضور پر نور sym-1 کی بارگاہ جہاں پناہ میں قطار اندر قطار اور فوج در فوج حاضر ہورہے تھے۔ 5

اسی طرح نبی کریم sym-1کی ولادت کے وقت خوشی و مسرت کے لمحات کا ذکر ِکرتے ہوئے امام ابن حجر مکیsym-4لکھتےہیں:

حضور اکرم sym-1کی ولادت کی خبر سن کر تمام ملائکہ پروردگارِ عالم کی حمدوثناء میں رطب اللسان ہوگئے۔۔۔ فرشتے ایک دوسرے کو نبی مختار آقائے نامدار محمد مصطفی sym-1کی آمد آمد کی خوشخبریاں دینے لگے۔۔۔راوی فرماتے ہیں کہ جب جبرئیل sym-9 اہل آسمان سے فارغ ہوئے تو اﷲتعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ایک لاکھ فرشتوں کو لے کر زمین پر اتریں پھر یہ فرشتے زمین کے تمام گوشوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جزیروں اور سمندروں اور تمام اطراف واکناف عالم میں پھیل جائیں یہاں تک کہ ساتوں زمینوں کے باشندوں اور مستقر حوت (جہاں مچھلیاں ٹھہری ہوئی ہوتی ہیں) کے رہنے والوں کوحضور کی تشریف آوری کی بشارت دیں۔ 6

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ولادتِ مبارکہ کے موقع پر نہ صرف فرشتوں کا جلوس حاضر ہوا تھا بلکہ جنتی خواتین اور حورانِ بہشت بھی جمع ہوکر نکل آئی تھیں چنانچہ حضرت سیّدہ آمنہsym-6 فرماتی ہیں:

ثم رأیت نسوة كالنخل طوالا…فقلن لى نحن آسیة امرأة فرعون ومریم ابنة عمران وهؤلاء من الحور العین.7
میں نے دیکھا کہ حسین وجمیل عورتیں جو قد کاٹھ میں کھجور کے درخت کے مشابہ تھیں (انہوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا، میں حیران تھی کہ وہ کہاں سے آگئیں اور انہیں اس واقعہ ولادت کی خبر کیسے ہوگئی)، تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم آسیہ زوجہ فرعون اور مریم بنت عمران ہیں اور یہ ہمارے ساتھ جنت کی حوریں ہیں۔

بفضل اﷲ تعالیٰ جب رسول اﷲ sym-1کی ولادت مبارک ہوئی تو کائنات کی ہر شے نے اپنی فرحت ومسرت کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ موجودات کی بڑی بڑی چیزیں ہی کیا ننھی ننھی چڑیوں نے بھی آمد مصطفی sym-1پر اپنی فرحت کا اظہار کیا اور پھر حور انِ فلک اور ملائکہ نے اجتماعی صورت میں جائے ولادت پرحاضری کا شرف حاصل کیا۔ اسی ہیئت کو آج جلوس کا نام دیا جاتا ہے۔

گنبدِ خضراء کے زائر فرشتوں کا جلوس

یہ ملائکہ کاجلوس نبی مکرم sym-1کی ولادت ہی کے وقت نہیں تھا بلکہ آپ sym-1کے وصال کے بعد بھی روزانہ یہ جلوس آپ sym-1کے مزار انور پر حاضر ہوتا ہے اور جو ایک دفعہ جلوس حاضر ہوجائے تو تا قیامت ملائکہ کے جلوسوں کی کثرت کی بنا پر دوبارہ حاضر نہیں ہوپاتا چنانچہ اس کو اپنی سند سے نقل کرتے ہوئے امام دارمیsym-4 روایت کرتے ہیں :

ان كعبا دخل على عائشة فذكروا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال كعب ما من یوم یطلع إلا نزل سبعون ألفا من الملائكة حتى یحفوا بقبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم ویصلون على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتى إذا أمسوا عرجوا وهبط مثلھم فصنعوا مثل ذلك حتى إذا انشقت عنه الأرض خرج فى سبعین ألفا من الملائكة یزفونه.8
حضرت کعب sym-5سیّدہ عائشہ صدیقہ sym-6کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں نے نبی کریم sym-1کا تذکرہ چھیڑا تو حضرت کعب sym-5نے کہا روزانہ ستر ہزار(70000) فرشتے نیچے اترتے ہیں اور نبی کریم sym-1کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں۔ وہ اپنے پَر اس کے ساتھ مس کرتے ہیں اور نبی کریم sym-1پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے نیچے اترتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ جب نبی کریم sym-1کی قبر مبارک (قیامت کے دن) کشادہ ہوگی، آپ sym-1ستر ہزار فرشتوں کے جلوس میں باہر تشریف لائیں گے۔

امام ابن اسحاقsym-49اور شیخ اصفہانی sym-4نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔10اس حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری sym-4لکھتے ہیں:

یحیطوا (بقبر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم) أى للطیران حوله أو فوقه یلتمسون بركته وقربه ونوره.11
فرشتےرسول اﷲ sym-1کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور (قبر مبارک کے اوپر سے گردو غبار صاف کرنے کے لیے یا انوار قبر سے برکت حاصل کرنے کے لیے ) اپنے پروں کو قبر شریف پر مارتے ہیں۔

یعنی خود اﷲتبارک و تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سرکار دو عالم sym-1کی ولادت مبارکہ کی طرح آپ sym-1کے وصال کے بعد روزانہ جلوس بھیجنے کے سبب آپ sym-1کی تعظیم کروارہا ہے گویا محبوب کریم sym-1کی عظمت ومرتبت اورآپ sym-1پر صلوٰۃ پیش کرنے کے لیے صبح وشام فرشتوں کے جلوس نکلتے رہتے ہیں اور روز قیامت اپنے آقا sym-1کی شان وفضلیت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر آپ sym-1کو اپنے نوری "جلوس"کے جھرمٹ میں ہی لے کر چلیں گے۔

جلوسِ معراج

جب خدائے لم یزل نے اپنے رسول افضل sym-1کو لامکاں کی سیر کرائی تو اس وقت بھی "جلوس"کے مظاہرے ہوئےچنانچہ اسماعیل حقیsym-4 لکھتے ہیں:

ونزل جبریل ومیكائیل وإسرافیل ومع كل واحد منھم سبعون ألف ملك.12
اور حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیلsym-3 (آپ sym-1کو لینے کے لیے ) اترے اور ان میں ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے۔

شب معراج جشن آمد محبوب sym-1 کے موقع پر آسمانوں کو مختلف عبارات کے ساتھ سجایا گیا۔بحکمِ خداوندی آسمانوں کے راستوں کو سجایا گیا اور ان راستوں پر محرابیں بنائی گئیں،پھران محرابوں پرتختیاں آویزاں کی گئیں جن پر مختلف آیات بھی لکھی ہوئی تھیں چنانچہ اس کو نقل کرتے ہوئے علامہ عبد الرحمن صفوری sym-4فرماتے ہیں کہ پہلے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِهٖ6213
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔

دوسرے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ 10714
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

تیسرےآسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

يٰٓاَيُّھا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا 4515
اے نبیِ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

چوتھے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا116
تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں جس نے اپنے (محبوب و مقرّب) بندے پر کتابِ (عظیم) نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔

پانچویں آسمان پرجوتختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ3317
وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے ۔

چھٹے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 12818
بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مؤمنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

ساتویں آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى119
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی ۔

یہ تمام انتظامات اور تیاریاں نبی مکرم sym-1کے جلوسِ شبِ معراج کے موقع پر کی گئی تھیں ۔20 میلاد النبی sym-1کےموقع پرطغرے،کتبے،بینر،پلے کارڈ،لکھی ہوئی تختیاں،محرابیں نیز ان کی سجاوٹ اورگزرگاہوں پر چراغاں یہ سب آج کا مسلمان اپنے نبی کریم sym-1کی ولادت کی خوشی میں اسی لیےکرتا ہےکہ رب تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کو بھی حضور اکرم sym-1کے استقبال کا یہ طریقہ محبوب ہے۔

میدانِ حشر میں جلوس کی کیفیت

قیامت کے دن جب کُل کائنات، میدانِ حشر میں جمع ہوگی تو آپ sym-1کی تعظیم وتکریم کے لیے ایک نہایت ہی عظیم الشان جلوس ہوگا جس میں جھنڈابھی بلند ہوگا، نعت خوانی بھی کی جائیگی اور انسانوں اور فرشتوں کی بڑی تعداد بھی شرکت کرےگی چنانچہ حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:

أنا أول الناس خروجا إذا بعثوا وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطیبھم إذا أنصتواوأنا مبشرهم إذا أبلسوالواء الكرم یومئذ بیدى ومفاتیح الجنة بیدى.21
میں لوگوں میں سب سے پہلے اٹھایاجاؤں گا جب انہیں اٹھایا جائے گا اور میں ان کا قائد ہوں گا جب وہ وفد (جمع) ہوکر چلیں گے اور میں ان کا خطیب ہوں گا جب وہ خاموش ہوں گے اور میں ان کو بشارت دینے والا ہوں گا اور جب وہ مایوس ہوجائیں گے اور کرامت کا جھنڈا(بھی) میرے ہاتھ میں ہوگا اورجنت کی چابیاں اس دن میرے پاس ہوں گی ۔

اسی حوالہ سے حضرت ابو سعید خدری sym-5روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ sym-1نے فرمایا:

أنا سیّد ولد آدم یوم القیامة ولا فخر، وبیدى لواء الحمد ولا فخر، وما من نبى یومئذ آدم فمن سواہ إلا تحت لوائى، وأنا أول من تنشق عنه الأرض ولا فخر.22
قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں، میرے ہاتھ میں حمد (و شکر) کا پرچم ہو گا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی (اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔

یعنی قیامت میں مذکورہ جلوس جس میں اول تا آخر تمام انسان جمع ہوں گے ان کےاس عظیم جلوس کی قیادت نبی مکرم sym-1خود فرمائیں گے۔

معمولاتِ جلوس

میلاد النبی sym-1کے دن مسلمان اظہارِ خوشی کے لیے جو جلوس نکالتے ہیں اس میں مندرجہ ذیل کام ہوتے ہیں:

  1. لوگ ایک منظم جلوس کی شکل میں راستوں اور بازاروں سے گزرتے ہیں۔
  2. نبی مکرم sym-1کی آمد مبارک کی خوشی میں پرچم کشائی کی جاتی ہے۔
  3. خوشی کے ترانے اور محبوب کریم sym-1کی آمد وتشریف آوری کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
  4. آپ sym-1کی تعریف و توصیف بیان کرنےکےلیے نعت خوانی ہوتی ہے۔

جشنِ آمد رسول sym-1کا جلوس نکالنااب تقریباتِ میلاد کا ضروری حصّہ بن چکا ہے اور حضور نبی کریم sym-1کی محبت میں مسلمانانِ عالم جشن عید میلاد النبی sym-1کا جلوس نکالتے ہیں۔مسلمانوں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام sym-7کی سنت ہے جو عہد رسالت مآب sym-1میں موجود تھا کیونکہ عہد رسالت میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرامsym-7 شریک ہوتے تھے۔

عہدِ رسالت مآب کے sym-1جلوس

حضور نبی کریم sym-1جب مکّہ مکرّمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منوّرہ میں تشریف فرما ہوئے تو تمام اہل مدینہ نے اس وقت ایک نہایت ہی تزک واحتشام اور اہتمام وانصرام کے ساتھ ایک منظم جلوس کا انعقاد کیا، جس میں اجتماع عظیم، پرچم کشائی، نعت خوانی، خوشی کے ترانے اور محبوب مکرم sym-1کی آمد وتشریف آوری کے نعرے سبھی کچھ موجودتھے۔واضح رہے کہ اس وقت کی سادگی کے پیشِ نظرجو رنگ ونورجلوس میں نظرآتا ہے وہ اس طور پر نہیں تھا لیکن جملہ اجزائے جلوس اس میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔اس حوالہ سے روایت میں منقول ہے کہ جب حضور نبی کریم sym-1اپنے قدوم میمنت لزوم سے مدینہ طیبہ کو مشرف فرمانے کے لیے پابرکاب تھے تو حضرت بریدہ اسلمی sym-5اپنے ستر ساتھیوں کے ہمراہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور انہوں نے آپ sym-1سے عرض کیا:

لا تدخل المدینة إلا ومعك لواء قال: فحل عمامته، ثم شدها فى رمح، ثم مشى بین یدیه.23
آ پ sym-1مدینہ پاک میں جھنڈے کے بغیر داخل نہیں ہوں گے پھر انہوں نے اپنا عمامہ کھولا اسے اپنے نیزے سے باندھا اور (لہراتے ہوئے) آپ sym-1(کی سواری) کے آگے آگے چلنے لگے۔

معلوم ہوا کہ حضرت سیّدنا بریدہ اسلمی صحابی رسولsym-5 نے ستر( 70)آدمیوں کا جلوس آپ sym-1کی آمد کی خوشی میں نکالا جس میں جھنڈے بھی لہرائے گئے۔

صحابہ کرام sym-7کا جلوس اور نعرے

ان دنوں جب حضور sym-1کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی تو مدینہ منوّرہ کے مرد و زن،بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ ودل فرشِ راہ کیے آپ sym-1کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر جمع ہوجاتے اور دوپہر تک "آمدِ محبوب sym-1"کا انتظار کرکے حسرت ویاس کے ساتھ واپس لوٹ آتے چنانچہ امام نورالدین حلبیsym-4لکھتے ہیں:

ولما سمع المسلمون بالمدینة بخروج رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من مكة كانوا یغدون كل غداة إلى الحرة ینتظرونه حتى یردهم حرّ الظھیرة.24
ادھر جب مدینے کے مسلمانوں کو آنحضرت sym-1کی مکے سے روانگی کی خبر ہوئی تووہ آپ sym-1کے انتظار میں ایک ایک پَل گننے لگے اور آپ sym-1کی راہ دیکھنے کے لیے روزانہ صبح ہی سے باہر نکل کرحرہ کے مقام پر آجاتے اور جب دوپہر کو دھوپ کی تیزی ناقابلِ برداشت ہوجاتی تو واپس مدینے چلے جاتے۔25

لیکن حضور sym-1کی مدینہ تشریف آوری کے دن جب وہ واپس ہونے لگے تو ایک یہودی جو کسی مقصد کے لیے وہاں کسی ٹیلے پر چڑھا تو اس نے رسول اﷲ sym-1اور آپ sym-1کے ساتھیوں کو سفید لباس پہنے ہوئے اور ان سے سراب کو ہٹتے ہوئے دیکھا تو وہ ضبط نہ کرسکا اور بلندو بالا آواز سے اہل مدینہ سے یوں گویا ہوا:

یا معاشر العرب هذا جدكم الذى تنتظرون فثار المسلمون إلى السلاح فتلقوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بظھر الحرة فعدل بھم ذات الیمین حتى نزل بھم فى بنى عمرو بن عوف وذلك یوم الاثنین من شھر ربیع الأول.26
اے عرب کے لوگو! تمہارے وہ بزرگ آگئے ہیں جن کا تمہیں انتظار تھا ۔پس مسلمان اپنے اپنے ہتھیار لے کر دوڑے اور سیاہ پتھریلی زمین پر رسول اﷲ sym-1کا استقبال کیا، آپ sym-1نے ان کے ساتھ دائیں طرف کا راستہ اختیار کیا حتیٰ کہ آپ sym-1نے ان کے ساتھ بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا اور یہ ربیع الاوّل کے مہینے کا پیر کا دن تھا۔

حضرت انس sym-5 کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ بنوعمرو بن عوف کے ہاں آپ چودہ (14) راتیں قیام فرمارہے پھر آپ sym-1نے بنو نجار کے لشکر کو پیغام بھیجا یہاں تک کہ وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آپہنچے۔ چنانچہ مروی ہے:

رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على راحلته وأبو بكر ردفه وملأ بنى النجار حوله حتى ألقى بفناء أبى أیوب.27
رسول اﷲ sym-1اپنی سواری پرہیں، ابوبکر صدیق sym-5آپ sym-1کے پیچھے اور بنونجار کا لشکر آپ sym-1کے ارد گرد ہے حتیٰ کہ آپ sym-1نے حضرت ابوایوب انصاری sym-5 کے صحن میں پڑاؤ ڈالا۔

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل sym-4نے بھی روایت کیا ہے۔28 اسی حوالہ سے حضرت عبداللہ بن سلامsym-5 روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

لما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة انجفل الناس إلیه وقیل: قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فجئت فى الناس لأنظر إلیه.29
رسول اللہ sym-1جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ sym-1کی طرف دوڑ پڑے، اورکہاگیاکہ:اللہ کے رسول sym-1 آ گئےچنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ sym-1کو دیکھوں۔

سنن الترمذی کی دوسری روایت میں یوں منقو ل ہے:

لما كان الیوم الذى دخل فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة أضاء منھا كل شیء .30
جس دن حضور sym-1مدینہ تشریف لائے تو حضور sym-1کی تشریف آوری سے (مدینہ کی) ہر چیز روشن ہوگئی۔

آپ sym-1کی آمدپر اہل مدینہ کی فقید المثال خوشی کو بیان کرتے ہوئے امام نورالدین حلبی sym-4لکھتے ہیں:

وسرى السرور إلى القلوب بحلوله صلى اللّٰه عليه وسلم فى المدینة فعن البراء، قال: ما رأیت أهل المدینة فرحوا بشىء فرحھم برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وعن أنس بن مالك قال: لما كان الیوم الذى دخل فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة أضاء منھا كل شىء وصعدت ذوات الخدور على الأجاجیر: أى الأسطحة عند قدومه صلى اللّٰه عليه وسلم یعلنّ بقولھن: طلع البدر علینا.31
آنحضرت sym-1کے مدینہ منوّرہ پہنچے پر لوگوں کے دلوں میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی، چنانچہ حضرت براء sym-5سے روایت ہے کہ میں نے مدینے والوں کو آنحضرت sym-1کی آمد پر جتنا خوش اور مسرور دیکھا اتنا کبھی کسی موقعہ پر نہیں دیکھا۔حضرت انس sym-5سے روایت ہے کہ جب وہ دن آیا جس میں آنحضرت sym-1مدینے میں داخل ہوئے تو خوشی ومسرت کی وجہ سے گویا سارا شہر جگمگانے لگا، عورتیں چھتوں پر چڑھ کر آنحضرت sym-1کی تشریف آوری کا خوشنما منظر دیکھنے لگیں اور بلند آوازسے نغمے گا گا کر آپ sym-1کو خوش آمدید کہنے لگیں۔ 32

اہل مدینہ کی عورتیں آمد محبوب sym-1پر خوش ہوکر نغمہ سرائی کرتی تھیں اور آپس میں آپ sym-1کے متعلق پوچھتی تھیں کہ ان میں سے کون سے ہمارےرسول مکرم sym-1ہیں چنانچہ اس خوشی کو بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

إن العواتق لفوق البیوت یتراء ینه یقلن: أیھم هو؟ أیھم هو؟ 33
عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں ایک دوسرے کو دیکھ کر پوچھتیں دیکھو! ان میں سے کون ہے؟ان میں سے کون ہے؟

یعنی اہل مدینہ پرخوشی کا عالم طاری تھا کہ آج ہمارے یہاں خدا کا برگزیدہ پیغمبر رونق افروز ہونے والا ہے۔ سڑکیں، گلیاں، بازار اور مکان کی چھتیں پٹی پڑی تھیں اور جدھر نظر اٹھائیں ادھر انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ اس تزک واحتشام کے ساتھ آپ sym-1مدینہ میں داخل ہوئے۔ 34

جب نبی مکرم sym-1قبا سے اس جلوس نما قافلہ کے ساتھ پابہ رکاب ہوکر مدینہ منوّرہ پہنچے تو ہر ایک کی زبان پر فرط ِمحبت کی بنا پرایک نعرہ تھا چنانچہ اس حوالہ سے نقل کرتے ہوئے امام نورالدین حلبی sym-4لکھتے ہیں:

ولما ركب صلى اللّٰه عليه وسلم وخرج من قباء وسار سار الناس معه مابین ماش وراكب أى ولازال أحدھم ینازع صاحبه زمام الناقة شحا: أى حرصا على كرامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیما له حتى دخل المدینة قال: وصار الخدم والصبیان یقولون: اللّٰه أكبر جاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم جاء محمد صلى اللّٰه عليه وسلم ولعبت الحبشة بحرابھا فرحا برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم .35
جب آنحضرت sym-1سوار ہوکر قبا سے نکلے اور مدینے کی طرف چلے توآپ sym-1کے ساتھ بہت سے آدمی بھی تھے جن میں سوار بھی تھے اور پیدل بھی تھے ان میں ہر شخص دوسرے سے الجھ رہا تھا کہ آنحضرت sym-1کی اونٹنی کی لگام پکڑ کر چلنے کی سعادت اسے حاصل ہو، یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ sym-1مدینہ منوّرہ میں داخل ہوگئے۔(راوی کہتےہیں) مدینے کے سب لوگ اور بچے بڑے اس وقت یہ کہتے جاتے تھے:اﷲ اکبر، رسول ﷲ sym-1 تشریف لے آئے،محمد sym-1آگئےاورحبشیوں نے آپ sym-1کی آمد کی خوشی میں نیزہ بازی کے کمالات اور کرتب دکھلائے۔ 36

ان روایات میں جلوس، اجتماع اور لشکر کا پورا پورا حلیہ ونقشہ موجود ہے جس میں شرکاءِ جلوس نبی مکرم sym-1کی آمد مبارک پر نعروں کے ساتھ مدینہ میں داخل ہورہے تھے اور جلوس میلاد النبیsym-1 میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔

آمدِ مصطفیﷺپر صحابہsym-7 کا جشن

نبی مکرم sym-1کی آمدِ مدینہ پر اہل ِمدینہ نے انتہائی مسرت اور عظیم جشن کا اظہار کیا تھاجیساکہ روایت گزری کہ انہیں آپ sym-1کی آمد سے زیادہ کسی چیز پر ایسی خوشی اور فرحت نہیں ہوئی۔ اسی طرح حضرت انس sym-5کی روایت میں اس حوالہ سے یوں منقول ہے:

لما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة لعبت الحبشة لقدومه فرحا بذلك لعبوا بحرابھم.37
جب رسول اللہ sym-1مدینے آئے تو حبشی آپ sym-1کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلے۔

اس کی شرح میں امام نووی sym-4لکھتے ہیں:

لفرحھم بقدوم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وظھور سرورهم به.38
انہوں نے رسول اﷲ sym-1کی تشریف آوری پرفرحت اور آپ sym-1کی آمد پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایسا کیا تھا۔

روایت میں مذکور حبشیوں کے کھیلنےکی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے امام ملا قاری sym-4 لکھتے ہیں:

لعبت الحبشة أى رقصت .39
آپ sym-1کی آمد پرمدینہ کے حبشیوں نے رقص کیا۔

واضح رہے کہ یہاں رقص سے آج کل کا مفہوم مراد نہیں بلکہ حبشیوں نے جونیزوں سے کھیلتے ہوئے اچھل کود کا مظاہرہ کیا تو اس جزوی مشابہت کو رقص کہا گیا جس کو نبی مکرم sym-1کی آمد کی خوشی میں سرانجام دیاگیا تھا ۔اس سے واضح ہوا کہ آمد مصطفی sym-1پر اس طرح کی خوشی کرنا جو یقینی طور پر جلوس میں کی جاتی ہے وہ جائز ومستحسن ہے۔

مدینہ منوّرہ میں نبی کریم ﷺکی آمد

حضور نبی کریم sym-1جس روز مدینہ طیبہ تشریف لائے وہ بارہ( 12) ربیع الاوّل پیر ہی کا دن تھا اور اسی دن صحابہ کرامsym-7 نے حضور sym-1کی آمد کی خوشی میں یہ جلوس نکالا تھا چنانچہ حضرت عاصم بن عدیsym-5 کہتے ہیں:

قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الأول فأقام بالمدینة عشر سنین. 40
حضور نبی کریم sym-1مدینے میں پیر کے دن جب ربیع الاوّل کی بارہ( 12)راتیں گزرچکی تھیں آئے تھے اور آپ مدینے میں دس سال رہے۔

امام واقدیsym-4، 41 امام ابن حبانsym-442اورامام ابن اسحاقsym-443 نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔اسی حوالہ سے نقل کرتے ہوئے امام ابن ہشامsym-4 لکھتے ہیں:

قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة یوم الاثنین حین اشتد الضحاء وكادت الشمس تعتدل لثنتى عشر ةلیل‏ة مضت من شھر ربیع الأول.44
رسول اﷲ sym-1بارہ( 12)ربیع الاوّل بروز پیر مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ دوپہر کا وقت تھا اور سورج عین سر پرآنےوالا تھا۔

یعنی اس دن حضور اکرم sym-1مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو صحابہ کرام sym-7نے حضور نبی کریم sym-1کی آمد پر فرحت ومحبت میں جلوس نکالا اور یا محمد، یا رسول اﷲ sym-1کے نعرے بلند کیے ۔جس طرح موجودہ مدارس کو "مدرسہ صفہ" کی نقل تسلیم کیا جاتا ہے بعینہ موجودہ زمانے میں حضور sym-1کی اس جہانِ رنگ بو میں تشریف آوری پر جلوس نکالنا ، بارہ(12)ربیع الاوّل کو مدینہ منوّرہ میں آپ sym-1کی آمد پر صحابہ کرم sym-5کے جلوس نکالنے کی ہی نقل ہے۔

جلوسِ صحابہ sym-7 اورحدیثِ تقریری

علم ِحدیث کی روشنی میں " تقریر"سے مراد یہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام sym-7نے رسول اﷲ sym-1کے سامنے کوئی عمل کیا اورآپ sym-1نےصحابہ کرامsym-7 کو اس سے منع نہیں فرمایا تو یہ اس عمل کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔ اور علمائے محدثین اس عمل کو "حدیث تقریری" سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ جواز فعل کی دلیل ہے۔ چنانچہ امام شمس الدین سخاویsym-4اس حوالہ سے لکھتےہیں:

والحدیث ضد القدیم واصطلاحا ما أضیف إلى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قولاً له أو فعلاً له أو تقریراً أو صفة حتى الحركات والسكنات فى الیقظة والمنام.45
جس قول ،فعل ،تقریر (سکوت) ، صفت، یہاں تک کہ سونے اور جاگنے کی حرکات و سکنات کی نسبت اور اضافت حضور نبی اکرم sym-1کی طرف ہو وہ حدیث کہلاتی ہے۔

یعنی جو حدیث رسول اﷲ sym-1کی طرف منسوب ہو اس کی تین قسمیں ہیں:

  1. پہلی وہ حدیث جو رسول اﷲ sym-1کا قول مبارک ہو۔
  2. دوسری وہ حدیث جو رسول اﷲ sym-1کا فعل مبارک ہو۔
  3. تیسری وہ حدیث جو تقریری ہو یعنی کوئی قول جو آپ sym-1کے سامنے کہا گیا ہو یا کوئی فعل جو آپ sym-1کی موجودگی میں کیا گیا ہو اور آنحضرت sym-1سے اس پر انکار منقول نہ ہو۔46

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مدینہ منوّرہ میں حضور نبی کریم sym-1کی آمد پر خوشی اور محبت کے اظہار کے لیے صحابہ کرام کا جلوس نکالنا اور آپ sym-1کا صحابہ کرام کے اس فعل پر خاموشی اختیار فرمانااس بات کی واضح دلیل ہےکہ قیامت تک جو مسلمان بھی کسی خوشی ومسرت یا کسی نعمت کے حصول کے موقع پر حدود شرعیہ کے اندر رہ کر جلوس نکالیں گے وہ جائز ومستحسن امر ہوگا اور حضورِ اکرم sym-1سے بڑھ کر اﷲ تبارک وتعالیٰ کی اور کون سی نعمت ہوگی جن کی اس جہان آب وگل میں آمد کے موقع پر مسرت وشادمانی کے لیے جلوس نکالا جائے۔

جلوس میں نعرے لگانا

جلوسِ میلاد النبی sym-1میں آپ sym-1کی آمد کی خوشی میں ایسے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں جن سے شرکاء جلوس میں ایک ولولہ اور جوش و جذبہ ابھرتا ہے اور وہ آپ sym-1کی آمد کے حوالہ سے مزید خوش و خرم ہوتے ہیں ۔ان نعروں کی اصل صحابہ کرام sym-7 کے وہ نعرے ہیں جو انہوں نے رسول مکرم sym-1کے مدینہ منوّرہ آتے وقت لگائے تھے ۔چنانچہ حضرت براء بن عازب sym-5 کی روایت میں منقول ہے:

فصعد الرجال والنساء فوق البیوت وتفرق الغلمان والخدم فى الطرق ینادون: یا محمد، یا رسول اللّٰه، یا محمد، یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.47
مرد وزن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے۔سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے یا محمد! یا رسول اﷲ! یا محمد! یا رسول اﷲ sym-1۔

امام رویانی sym-4کے مطابق اہلیان مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگارہے تھے:

جاء محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم .48
اﷲ کے رسول حضرت محمد sym-1تشریف لے آئے ہیں۔

اسی طرح صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ sym-1نے جب حرہ کی جانب نزول فرمایااور پھر انصار کو پیغام بھیجا تووہ نبی کریم sym-1کی خدمت میں یوں نعرہ لگاتےہوئے حاضر ہوئے:

فقیل فى المدینة: جاء نبى اللّٰه، جاء نبى اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فأشرفوا ینظرون ویقولون: جاء نبى اللّٰه، جاء نبى اللّٰه .49
پس مدینہ میں گونج پڑگئی اﷲ کے نبی آگئے، اﷲ کے نبی آگئے، لوگ اونچی جگہوں پر چڑھتے،آپ sym-1کی زیارت کرتے اور یہ نعرے لگاتے اﷲ کے نبی آگئے، اﷲ کے نبی آگئے۔

صحابہ کرامsym-7 کے مذکورہ الفاظ نعروں کی شکل میں تھے جن کا داعیہ فقط محبتِ رسول sym-1 تھی اور اسی وجہ سے اہلِ ایمان جلو س میلاد النبی sym-1میں آمد مصطفی sym-1 کے نعرے لگاتے ہیں اور ا س سے ان کی خوشی مزید دوبالا ہوجاتی ہے۔اسی طرح ان روایات کو ملانے سے اہل مدینہ کے درج ذیل نعرے سامنے آتے ہیں جو انہوں نے "آمد رسول sym-1"پر لگائے تھے:

یا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم
یا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.50
جاء نبی اﷲصلى اللّٰه عليه وسلم
جاء نبی اﷲ صلى اللّٰه عليه وسلم51
جاء محمد رسول اﷲصلى اللّٰه عليه وسلم
اﷲ اکبر.52

آج میلاد النبی sym-1کے جلسہ، محفل، جشن اور جلوس میں بھی انہی الفاظ و مضمون سے آمد مصطفی sym-1کے نعرے لگائے جاتے ہیں جن پر اہلِ مدینہ کا عمل اور رسول اﷲ sym-1کی مہرِ تصدیق ثبت ہے۔

جلوسِ میلاد میں نعت خوانی

محافلِ میلاد النبی sym-1کا ایک اہم ترین عنصر حضور sym-1کی مدح سرائی اور نعت خوانی ہے۔ اہل اسلام محافلِ نعت منعقد کرکے اپنے محبوب پیغمبر sym-1کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔نعت مصطفی sym-1کو ئی نیا عمل نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔

دورِ صحابہ کرام sym-7سے لے کر آج تک کے ہر دور کے جملہ صالحین امت ،محبین حضور اکرم sym-1اورتمام اکابر وائمہ اسلاف میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے کسی نہ کسی طرح نعت خوانی کا حصہ بن کر حضور اکرم sym-1کی نعت خوانی نہ کی ہو۔ کچھ نے نعتیں لکھیں، کچھ نے چھاپیں اور شائع کیں، کچھ نے نعتیں پڑھیں ، کچھ نے نعتیں سنیں اور محافل منعقد کیں۔ اس معنی میں پوری امت حضور sym-1کی نعت خواں ہے اوراس پر سب کا اتفاق واجماع ہوا۔ پھر بعض تو ان میں اس حوالہ سے ضرب المثل اور عالمی شہرت ومقبولیت کے مالک وحامل ہیں جیسے وہ اصحاب کرام جو شعراء دربار رسالت ہیں مثلاًحضرت حسان بن ثابتsym-5 نیز عارف رومی، مولانا جامی، امام بوصیری وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم۔

نعت خوانی حضور نبی کریم sym-1کا ذکر ہے جوکہ مطلوب ِشرع ہے یعنی اﷲ یہی چاہتا ہے کہ حضور sym-1کے تذکرے ہوتے رہیں چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ارشادفرمایا:

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ453
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔

اسی رفعت شان کے متعلق حضرت ابو سعید خدریsym-5 فرماتے ہیں کہ حضور sym-1 نے فرمایا:

أتانى جبریل فقال: إن ربى وربك یقول: كیف رفعت ذكرك؟ قال. واللّٰه أعلم. قال: إذا ذكرت ذكرت معى.54
میرے پاس جبرائیل امینsym-9 آئے اور کہا بیشک میرا اورآپ کا رب فرماتا ہے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذکر کیسا بلند کیاہے میں نے کہا اﷲ خوب جانتا ہے فرمایا کہ جب میرا ذکر ہوگا تو میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر بھی ہوگا۔

اسی حوالہ سے امام قاضی عیاضsym-4ایک مقام پر لکھتے ہیں:

ومن علاماته مع كثرة ذكره تعظیمه له.55
آپ sym-1کی ذات اقدس سے محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ کثرت سے آپ sym-1کا ذکر ہو نیز آپ sym-1کی تعظیم ہو۔

اس آيت كی تفسیر میں شیخ محمود آلوسی بغدادی sym-4لکھتے ہیں:

وأى رفع مثل أن قرن اسمه علیه الصلوة والسلام باسمه عزوجل فى كلمتى الشھادة وجعل طاعته طاعته وصلى علیه فى ملائكته وأمرالمؤمنین بالصلوة علیه. وخاطبه بالألقاب كیا أیھا المدثر یا أیھا المزمل یا أیھا النبى یا أیھا الرسول وذكره سبحانه فى كتب الأولین وأخذ على الأنبیاء وأممھم أن یؤمنوا به صلى اللّٰه عليه وسلم.56
او ر اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمہ شہادت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملادیا۔ حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپ sym-1پر درود بھیجا اور مومنوں کو درود پاک پڑھنے کاحکم دیا اور جب بھی خطاب کیامعزز القاب سے مخاطب فرمایا جیسے"یایھا المدثر یا ایھا المزمل، یا ایھا النبی، (و) یا ایھا الرسول" ۔ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپsym-1کاذکر ِخیر فرمایا۔ تمام انبیاء اور ان کی امتوں س،ے وعدہ لیا کہ وہ آپsym-1 پر ایمان لے آئیں۔ آج دنیا کا کوئی آباد ملک ایسا نہیں جہاں روزو شب پانچ بار حضور کی رسالت کا اعلان نہ ہورہا ہو۔

یعنی نبی مکرم sym-1کے رفعتِ ذکرکا انتظام خود خالق کائنات نے فرمادیا ہے اور شب وروز اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر کے ساتھ ساتھ نبی مکرم sym-1کا ذکر بھی جوڑدیا ہے ۔جلوس میلا دمیں جو نعت خوانی ہوتی ہے وہ بھی اسی رفعت ذکر کا ہی ایک طریقہ ہے جو کہ شرعاً محمود ہے۔

نعت خوانی خدا کا ذکر ہے

کائنات کا ہر فرد چونکہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے لہٰذا جس کسی کی بھی تعریف کی جائے وہ درحقیقت اﷲ کی تعریف ہوگی۔ حضوراکرم sym-1اﷲ کی قدرت کا سب سے بڑا شاہکار ہیں اور اسی وجہ سے اﷲ تبارک وتعالیٰ کی سب سے بہترین اور سب سے بڑی تعریف وہ ہوگی جو حضوراکرم sym-1کے حوالہ سے ہوگی۔نعت خوانی حضور نبی کریم sym-1کا ذکر اﷲ تبارک وتعالیٰ کی نعمت عظمی ہونے کی وجہ سے در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کا ذکر ہے چنانچہ حدیث قدسی میں منقول ہے:

جعلت تمام الإیمان بذكرك معى وقال أیضاً: جعلتك ذكرا من ذكرى فمن ذكرك ذكرنى.57
(خالق کائنات نے ارشاد فرمایا) میں نے ایمان کا مکمل ہونا اس بات پر موقوف کردیا ہے کہ (اے محبوب) میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکربھی ہو۔ میں نے تمہارے ذکر کواپنا ذکر ٹھہرادیا ہے۔ پس جس نے تمہارا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ 1058
بیشک اللہ نے تمہاری (ہی) طرف نصیحتِ (قرآن) کو نازل فرمایا ہے۔اور رسول (sym-1) کو (بھی بھیجاہے) جو تم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں ۔

اس کے تحت تفسیر روح المعانی میں ہے کہ اس آیت میں ذکر سے مراد نبی کریم sym-1 ہیں۔ "رسولا" اس کا بدل ہے جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ حضور sym-1خود اﷲ کا ذکر ہیں یعنی حضور sym-1کو جس بھی جہت سے دیکھا جائے تو اس سے اﷲ یاد آتا ہے59 تو گویا نبی مکرم sym-1کی تعریف و توصیف کرنا در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد بیان کرنا ہے کیونکہ مخلوق کی تعریف خالق ہی کی تعریف ہے۔

نعت خوانی مطلوبِ شرع

نعت خوانی آپ sym-1کی ذات اقدس سے محبت میں اضافہ کا باعث ہے تو وہ اس حوالہ سے بھی مطلوب ہوئی چنانچہ شارح بخاری امام قسطلانی sym-4لکھتے ہیں:

ومن أقوى أسباب ما نحن فیه سماع الأصوات المطربة بالإنشادات بالصفات النبویة المغربة المعربة.60
حضور sym-1کی طرف شوق وانجذابِ قلب وجوشِ محبت حاصل کرنے کا ایک قوی سبب یہ ہے کہ حضور والا کی نعت شریف مختلف صاف الحانوں میں طرب آمیز آوازوں سے سنی جائے۔

حضور نبی کریم sym-1حضرت حسان sym-5کے لیے مسجد شریف میں منبر شریف رکھواتے تاکہ اس پر بیٹھ کر حضرت حسان sym-5 نعتیہ اشعار پڑھیں چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ sym-6فرماتی ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضع لحسان منبرا فى المسجد یقوم علیه قائما یفاخر عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أو قالت: ینافح عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ویقول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إن اللّٰه یؤید حسان بروح القدس ما یفاخر، أو ینافح عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.61
رسول اللہ sym-1حضرت حسان sym-5کے لیے مسجد میں منبر رکھتے تھے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ sym-1کے لیے فخریہ اشعار پڑھتے تھے۔ یا وہ اپنی شاعری کے ذریعہ رسول اللہ sym-1کا دفاع فرماتے تھے۔ اور رسول اللہ sym-1فرماتے تھے: اللہ حسان کی مدد روح القدس (جبرائیل)کے ذریعہ فرماتا ہے جب تک وہ (اپنے اشعار کے ذریعہ) رسول اللہ sym-1کی جانب سے فخر کرتے یا آپ sym-1کا دفاع کرتے ہیں۔

اسی طرح حضرت مالک بن عوف sym-5نے بھی نبی مکرم sym-1کی نعت خوانی کی ہے چنانچہ امام ابن حجر عسقلانیsym-4لکھتے ہیں:

فقال مالك بن عوف یخاطب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من قصیدة:
ما إن رأيت ولا سمعت بواحد
في النّاس كلّهم كمثل محمّد
أوفى فأعطى للجزيل لمجتدي
ومتى تشأ يخبرك عمّا في غد .62
حضرت مالک بن عوفsym-5 حضور نبی کریم sym-1کو اپنے قصیدے میں مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے سب لوگوں میں (سیّدنا)محمد (sym-1) جیسا نہ کوئی دیکھا نہ سنا وہ جب دیتے ہیں تو بہت عطا کرتے ہیں (اے انسان تو) جب چاہے، رسول اﷲ sym-1تجھے کل (یعنی قیامت) تک کی خبر دے سکتے ہیں۔

یہ سیّدنا مالک بن عوف sym-5 کا کلام ہے جو انہوں نے حضور sym-1کے پاس پیش کیا ، صحابہ کرامsym-7 نے بھی سنا اوران کے اس کلام کو حضور sym-1نے برقرار رکھا تو یہ حدیثِ تقریری ٹھہری جس سے واضح ہوا کہ نعت خوانی کرنا مطلوب شرع ہے اور صحابہ کرام sym-7 کا طریقہ محبت بھی ہے۔

حضرت سواد بن قاربsym-5 اسلام لانے سے پہلے کاہن تھےاوراس وقت جنات ان کے تابع تھا ۔اس نے باربار ان سے کہا حضوراکرم sym-1کی بارگاہ میں حاضری دے کر اسلام لاؤ چنانچہ وہ حاضر ہوئے اور آپ sym-1کی شان میں قصیدہ تیار کرکے گئے ۔جب آپ اسلام لائے تو قصیدہ پیش کیاجسے سن کر آپ sym-1اتنا مسکرائےکہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔سیّدنا سواد بن قارب sym-5نے جو قصیدہ حضور اکرم sym-1کی بارگاہ میں پیش کیا تھا اس کے اشعار یہ تھے:

فأشھد أن اﷲ لاشیٔ غیرہ
وإنک مأمون علی كل غائب
وإنک أدنی المرسلین وسیلة إلی اﷲ
یا ابن الأکر مین الأطایب
فمرنا بما یأتیک یاخیر من مشی
وإن كان فیما جاء شیب الذوائب
وكن لی شفیعاً یوم لا ذو شفاعة
سواک بمغن عن سواد بن قارب.63
پس میں شہادت دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی رب نہیں ہے اور آپ sym-1جملہ غیوب واسرار پر اﷲ تعالیٰ کے امین ہیں۔ بے شک آپ sym-1تمام رسولوں سے زیادہ قرب کا وسیلہ ہیں۔ اے معزز اور اچھے آباؤ اجداد کے نور نظر!لہٰذاآپ sym-1ہم کو اس بات کا حکم دیجئے جو آپsym-1 کے پاس آتی ہیں، اگرچہ اس حکم کی تعمیل میں بال سفید ہوجائیں۔ اور اس روز آپsym-1 میرے شفیع بنیں جس دن آپ sym-1کے سوا کوئی سفار ش کرنے والا نہ ہوگا اور کوئی سواد بن قارب کی طرف سے استغناء (کی سفارش) نہ کرسکے گا۔ حضرت سوادبن قارب نے جب ایمان افروز قصیدہ پڑھا اور شرف اسلام سے مشرف ہوئے تو رسول اکرم sym-1کا چہرہ انور خوشی سے چودھویں کے چاندکی طرح چمکنے لگا اور صحابہ کرام بھی انتہائی فرحت ومسرت کا اظہار فرمانے لگےجو انکے چہروں سے ظاہر تھی ۔

جب نبی مکرم sym-1نے یہ قصیدہ سنا تو حضوراکرم sym-1بے انتہاء خوش ہوئےاورآپ sym-1نے حضرت سوادبن قاربsym-5 کو اس نعت خوانی پر فلاح دارین کی خوشخبری عطا فرمائی چنانچہ حدیث مبارکہ میں حضرت سواد sym-5سے منقول ہے :

قال فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتى بدت نواجذه وقال لى افلحت یا سواد.64
انہوں نےکہا:پس رسول اللہ sym-1مسکرادیےیہاں تک کہ آپ sym-1کی داڑہیں مبارک نظرآگئیں اور آپ sym-1نے مجھ سے فرمایا کہ: اے سواد تم کامیاب ہوگئے۔

یعنی نبی مکرم sym-1اپنی نعت خوانی پر خوش ہوتے تھے اور آپ sym-1نعت خوانوں کو آپ sym-1کی مدح سرائی پر انعامات سے بھی نوازتے تھے ۔

حضرت عباس sym-5کی نعت خوانی

حضرت عباس sym-5نے غزوہ ءِتبوک سے حضور sym-1کی واپسی کے موقع پر آپ sym-1سے آپ sym-1کی شان میں اپنا نظم کردہ ایک طویل قصیدہ پیش کرنے کی اجازت مانگی تو آپ sym-1نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور دعا بھی دی کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے منہ کو خندہ وفرحاں رکھے اور اسے بگڑنے سے محفوظ رکھے۔ انہوں نے بہت بڑے اجتماع میں قصیدہ سنایا جس کے تین اشعار یہ تھے:

وردت نار الخلیل مکتتما
فی صلبہ أنت کیف یحترق
وأنت لما ولدت أشرقت الأر ض
فضاء ت بنورک الأفق
فنحن فی ذلک الضّیاء وفی
النسّور وسبل الرشاد نخترق .65
حضرت ابراہیمsym-9 کو جب آگ کے الاؤ میں ڈالا گیا تو آگ میں ان کے نہ جلنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ sym-1ان کی پشت میں (بصورت نور) جلوہ گر تھے۔ اور آپ sym-1کی جب ولادت باسعادت ہوئی تو آپ sym-1کے نور سے روئے زمین اور آسمان کے افق منور ہوگئے۔ آج ہم جو گمراہی سے بچے ہوئے اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہیں تو یہ سب حضور sym-1کی لائی ہوئی روشنی کی بدولت ہے۔

یعنی نبی مکرم sym-1کی مدح سرائی میں آپ sym-1کی ولادت کا تذکرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ sym-1کے نور منور کی وجہ سے حضرت ابراہیم sym-9 کی آتش نمرود سے نجات دہندگی کو بھی آپ sym-1کی برکت قرار دیا۔

حضرت علی sym-5 کی نعت خوانی

اسی طرح حضرت علی المرتضیsym-5 نے آپ sym-1کی نعت خوانی کی ہے چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضور sym-1کی دعا سے باران رحمت ہوئی۔ اس موقع پرآپ sym-1نےارشاد فرمایاکہ اگرمیرے چچا ابو طالبsym-5 زندہ ہوتے تو اس منظرسے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔ ایسے موقع پر وہ چند اشعار حضوراکرم sym-1کی شان میں پڑھتے جنہیں آپ sym-1 نے سننے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضرت علیsym-5 نے اپنے والد محترم حضرت ابو طالبsym-5 کے نبی مکرم sym-1کی شان میں کہے گئے مدحیہ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا:

وأبیض یستسقی الغمام بوجهه
ثمال الیتامی عصمة للأرامل
یلوذ به الهلاک من آل هاشم
فهم عنده فی نعمة وفواضل.66
وہ حسن وجمال کے پیکر جن کے رخ زیبا کے طفیل بارش طلب کی جاتی ہے، یتیموں کے مأوی، بیواؤں کے ملجاء، بنوھاشم کے تباہ حال لوگ بھی جن کی پناہ ڈھونڈیں اور ان کے ریزہ خوار ہوں۔

اسی طرح بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام sym-7کو حضور sym-1کی نعت گوئی اور نعت خوانی کاشرف حاصل ہوا ہے چنانچہ امام ابن سیرینsym-4 عہد نبوی sym-1کے نعتیہ شعراء میں سے چند کا ذکر یوں کرتے ہیں:

كان شعراء النبى صلى اللّٰه عليه وسلم حسان بن ثابت، وكعب بن مالك، وعبد اللّٰه بن رواحة، فكان كعب بن مالك یخوفھم الحرب، وكان حسان یقبل على الأنساب، وكان عبد اللّٰه بن رواحة یعیرهم بالكفر.67
حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبداﷲ بن رواحہ sym-7کا شمار نبی کریم sym-1کے شعراء میں ہوتا تھا۔ پس حضرت کعب بن مالکsym-5 دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے اور حضرت حسانsym-5 ان کے نسب پر طعن زنی کرتے، اور حضرت عبداﷲ بن رواحہsym-5 انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔

ہر چند کہ یہ خوشی کے ترانے اور آمد مصطفی sym-1کے نعرے "نعت خوانی" کے زمرہ میں ہی آتے ہیں لیکن اہل مدینہ نے صرف انہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ الگ سے نعت خوانی بھی کی اورچھوٹے بڑے بچوں نے مل کر آپ sym-1کی مدینہ منوّرہ آمد کی خوشی میں درج ذیل اشعار بھی پڑھے:

طلع البدر علينا
وجب الشكر علينا
وجب الشكر علينا
ما دعا لله داع
أيها المبعوث فينا
جئت بالأمر المطاع .68
ثنیات الوداع کی طرف سے چودھویں رات کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے، جب تک اﷲ تعالیٰ کو پکارنے والا اس سرزمین پر باقی ہے ہم پر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔اے مبارک آنے والے جو ہم میں پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں آپ sym-1ایسے احکام لے کر آئے ہیں جن کی پیروی اور اطاعت واجب ہے۔ 69

اسی طرح بنونجار کی بچیوں نے الگ سے یہ اشعار بھی پڑھے تھے:

نحن جوار من بنی النجار
یا حبذا محمد من جار .70
ہم بنونجار کی بچیاں ہیں۔ (مبارک ہو!) اےکاش کہ(سیّدنا) محمد(sym-1) ہمارےپڑوسی ہوں۔

حضور نبی کریم sym-1 نے بنی نجار کی بچیوں کی نعت خوانی سن کر ارشاد فرمایا:

أتحببننى؟ قلن: نعم یا رسول اللّٰه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأنا واللّٰه أحبّكنّ ،قالھا ثلاثا.71
کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ انہوں نے عرض کی ہاں! یا رسول اﷲsym-1! آپ sym-1نے فرمایا قسم بخدا! میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ آپ sym-1نے تین بار فرمایا۔

خلاصہءِ بحث یہ ہے کہ ممدوحِ خالق کائنات رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی sym-1 کی مدح خوانی کرنا،آپ sym-1کی نعت پڑھنا، سننا اور محافل نعت منعقد کرنا قرآن وسنت کے عین مطابق جائز اور مطلوب اَمر ہے۔یہ عمل قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جاری ہے جو ایک سچے اور کامل مومن کی نشانی ہے اور جلو سِ میلاد میں بھی یہ نعت خوانی ہوتی ہے جو کہ شرعی طور پر محمود ومطلوب ہونے کی وجہ سے قابل استحسان ہے اور اس میں العیاذ باللہ کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

اہل مدینہ نے ان اشعار میں اپنے عزمِ مصمم کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ آپ sym-1کی آمد پر شکر اور جشن منانا اس وقت تک واجب ہے جب تک کوئی ایک مسلمان بھی خدا کی دعوت دینے کے لیے دنیا میں موجود رہے گا۔ یعنی یہ خوشیاں، یہ مسرتیں، یہ جشن ، یہ نعت خوانی اور آمد مصطفی sym-1 کے یہ نعرے قیامت تک جاری وساری رہیں گے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان میلادِ مصطفی sym-1کے جلسوں، محفلوں اور جلوسوں میں انہی جذبات واحساسات کا اظہارکررہے ہیں۔ 72

میلادِ پاک کا جلوس اور اہلِ حرمین کا عمل

اہل حرمین میلاد پاک کی خوشی میں مختلف محافل کے ساتھ چراغاں کرتے اور جلوس نکالتے تھے جس میں علماء، مشائخ اور شہر کی تمام معزز شخصیات کے علاوہ حاکم وقت بھی شرکت کرتے اور صرف اہل مکّہ ہی اس میں شریک نہ ہوتے بلکہ دور دراز دیہاتوں سے لوگ آتے حتیٰ کہ جدہ شہر سے لوگ جلوس میں شرکت کرنے کے لیے آتے تھے۔ اس میں بعض لوگوں کے ہاتھوں میں فانوس ہوتے، بعض کے ہاتھوں میں جھنڈے ہوتے ۔یہ جلوس مسجد حرام سے شروع ہوتا اور سڑکوں اور شاہراہوں سے گزرتا ہوا محلہ بنی ہاشم میں مولد پاک پر جاتا وہاں جلسہ عام ہوتا اور پھر وہاں سے یہ جلوس مسجد حرام آتا جہاں بادشاہِ وقت علماء ومشائخ کی دستار بندی کرتا۔ آخر میں دعا ہوتی اور بعد ازاں لوگ اپنے گھروں کو رخصت ہوتے۔73اسی حوالہ سے بیا ن کرتے ہوئے علامہ قطب الدینsym-4 لکھتے ہیں:

یستجاب الدعاء فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وهو موضع مشھور یزار إلى الآن.74
حضور sym-1کی ولادت گاہ پر دعا قبول ہوتی ہے۔یہ مقام نہایت مشہور ہے جس کی آج تک زیارت کی جاتی ہے۔

علامہ زرقانی نے بھی بیان کیا ہے کہااہلِ مکّہ دسویں صدی ہجری میں محفل میلاد کا انعقاد خوشی و مسرت سے کیا کرتے تھے جو جشن کا سماں پیش کرتی تھیں چنانچہ علامہ زرقانی مالکیsym-4تحریر فرماتے ہیں:

يحتفلون يھتمون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم ويتصدقون فى لياليه بأنواع الصدقات، ويظھرون السرور به ويزيدون فى المبرات ويعتنون بقراءة قصة مولده صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم، ويظھر عليھم من بركاته كل فضل عميم.75
لوگ آج بھی میلاد النبی sym-1کے مہینہ میں اجتماعات و محافل کا اور دعوتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں انواع واقسام کے صدقات و خیرات کرتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔کثرت سے نیکیاں کرتے اور مولود النبی sym-1کے واقعات کا خصوصی طور سے تذکرہ کرتے ہیں اور ان پر منجانب اللہ برکات اور بے پناہ فضل و احسان کا ظہور ہوتا ہے۔

علامہ قطب الدین حنفی نےبھی اہلِ مکّہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

يزار76مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم المكانى فى الليلة الثانية عشر من شھر ربيع الأول فى كل عام، فيجتمع الفقھاء والأعيان على نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمكة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الكثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفھم بالأعلام الكثيرة ويخرجون من المسجد إلى سوق الليل ويمشون فيه إلى محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلى لمسجد الحرام ويجلسون صفوفاً فى وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدى ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلى الناس على عادتھم، ثم يمشى الفقھاء مع ناظر الحرم إلى الباب الذى يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون وهذه من أعظم مواكب ناظر الحرم الشريف بمكة المشرفة ويأتى الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسكان الأودية فى تلك الليلة ويفرحون بھا.77
ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاوّل کی رات حضور sym-1کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور sym-1کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم ،حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی، بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ sym-1کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔

امام ابن ظہیرہsym-4 مولد النبی sym-1کے حوالے سے اہل مکّہ کا معمول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جرت العادة بمكة فى لیلة الثانى عشر من ربیع الاوّل فى كل عام أن قاضى مكة الشافعى یتھیاء لزیارة هذا المحل الشریف بعد صلوة المغرب فى جمع عظیم منھم الثلاثة ا لقضاة وأكثر الأعیان من الفقھاء والفضلاء وذوى البیوت بفوانیس كثیرة وشموع عظیمة وزحام عظیم ویدعى فیه للسلطان ولأمیر مكة وللقاضى الشافعى بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام ثم یعود منه إلى المسجد الحرام قبیل العشاء ویجلس خلف مقام الخلیل بإزاء قبة الفراشین ویدعو الداعى لمن ذكر آنفا بحضور القضاة وأكثر الفقھاء ثم یصلون العشاء وینصرفون ولم أقف علی أول من سن ذلك سألت مؤرخى العصر فلم أجد عندهم علماء بذلك.78
ہر سال مکّہ معظمہ میں بارہ (12)ربیع الاوّل کی رات کو اہل مکّہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ قاضی مکّہ جو کہ شافعی ہیں مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جمِّ غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں ۔ان لوگوں میں تینوں مذاہب فقہ کے آئمہ، اکثر فقہاء، اور اہل شہر شامل ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ پھر وہاں مولد شریف کے موضوع پر خطبہ ہوتا ہے۔ اور پھر بادشاہ وقت امیر مکّہ اور قاضی شافعی (منتظم ہونے کی وجہ سے)کے لیے دعا کی جاتی ہے اور یہ اجتماع عشاء تک جاری رہتا ہے۔ اور عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں۔ مقام ابراہیم پر اکٹھے ہوکر دعا کرتے ہیں، اس میں بھی تمام قاضی اور فقہاء شریک ہوتے ہیں، پھر عشاء کی نماز ادا کی جاتی ہے اور پھر الوداع ہوجاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرخین سے پوچھنے کے باوجود اس کا علم نہیں ہوسکا۔

ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ اہل مکّہ خود بھی اورآس پاس کے دیگر بستیوں کے رہنے والے بھی میلاد النبی sym-1کا جلوس نکالا کرتے تھے اور اس میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ علمائے عظام اور مشائخ مکّہ بھی انتہائی مسرت اور ادب کے ساتھ شامل ہوتے تھے لہذا جلوس میلاد امت کے اوائل دور سے ہی جاری و ساری ہے اور اس کی وجہ فقط تعظیم رسول sym-1ہے۔

جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے

اگر یومِ وطن منانا ثقافتی نقطہءِ نظر سے درست ہے تو حضور sym-1کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے وہ بھی منانا درست ہے ،اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پربھی چراغاں ہو سکتا ہے ،اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت وافتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم sym-1 کی ولادت کے دن بھی اپنی عزت اور افتخار کو نما یا کرنے کے لیے اس کو بھی امت کی سطح پر منایا جا سکتا ہے ،جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی استدلال کی ضرورت نہیں اسی طرح میلاد النبی sym-1کے جلوس کے جواز پر بھی کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پرجلوس نکالنا بھی فی زمانہ ثقافت کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور sym-1کے میلاد پراگر جلسہ وجلوس اور صلوٰۃ وسلام کا اہتمام کیاجاتا ہے تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔

آج کے دور میں اگر اہل عرب جلوس نہیں نکالتے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ موجودہ عرب کی ثقافت میں جلوس نہیں جبکہ عجم کی ثقافت میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے ثقافت میں بھی نہیں جبکہ یہاں تو ہاکی،فٹبال اور کرکٹ کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے کہ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور ان کا اصل مقصد حضور نبی اکرم sym-1کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے۔ 79

مذکورہ تما م تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی مکرم sym-1کی آمد پر جلوس نکالنا صحابہ کرام کی سنت ہے اور اسی سنت صحابہ کرام کی بنیا دپر امت مسلمہ کے اوّلین دور میں بھی آپ sym-1کی ولادت پر جلوس نکالے جاتے تھے اور اب بھی آپ sym-1کی محبت و مودت میں اہل اسلام جوش و خروش سے اس میں شامل ہوتے ہیں اور آپ sym-1کی نعت خوانی کے ساتھ ساتھ آپsym-1کی آمد کے نعرے بھی لگاتے ہیں اورباری تعالیٰ کی اس نعمت عظمی کے ملنے پر رب تبارک وتعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اس میں تمام شامل چیزیں شرعا جائز ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت یا ممانعت نہیں ہے ۔


  • 1  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:22550، ج-37، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 م، ص: 244
  • 2  شيخ محمد زاهد الكوثرى، مقالات الكوثرى، مطبوعة: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:369
  • 3  أبو سعد عبد الملک بن محمد الخرکوشی، شرف المصطفی، ج-1، مطبوعۃ: دار البشائر الإسلامیۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودية، 1424ھ، ص: 354
  • 4  أبو العباس أحمد بن علی تقی الدین المقریزی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال والأموال والحفدۃ والمتاع، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999 م، ص: 59
  • 5  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی،مولد العروس (مترجم: پروفیسر دوست محمد شاکر)،مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:29-79
  • 6  شہاب الدین احمد بن حجر الہیتمی، نعمت کبریٰ (مترجم: سالک فضلی) ،مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ، پاکستان، 1398 ھ،ص: 47-48
  • 7  أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م ، ص: 210
  • 8  أبو محمد عبد اﷲ بن عبد الرحمن الدارمی، سنن الدارمی، حدیث:95، ج-1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 2000م، ص: 228
  • 9  أبو إسحاق إسماعیل بن إسحاق المالکی، فضل الصلاۃ علی النبیﷺ، حدیث: 102، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1977م، ص: 83
  • 10  أبو الشيخ محمد عبد اﷲ بن محمد الأصبهانى، العظمۃ، حدیث:537، ج-3، مطبوعۃ: دار العاصمۃ، بیروت، لبنان،1408ھ، ص: 1018
  • 11  نور الدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، حدیث: 5955 ، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2002م، ص: 3842
  • 12  أبو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:106
  • 13  القرآن، سورۃ الجمعۃ 62 :2
  • 14  القرآن، سورۃ الأنبیاء 21: 107
  • 15  القرآن، سورۃ الأحزاب 33: 45
  • 16  القرآن، سورۃ الکہف 18: 1
  • 17  القرآن، سورۃ التوبۃ 9: 33
  • 18  القرآن، سورۃ التوبۃ 9: 128
  • 19  القرآن، سورۃ الاسراء 17: 1
  • 20  عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری، نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس، ج-2، مطبوعۃ: المطبعۃ الکاستلیۃ، مصر، 1283ھ، ص: 104
  • 21  أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 6523، ج-13، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودية، 2009م، ص: 131
  • 22  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3148، ج-5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 159
  • 23  أبو الشيخ محمد عبد اﷲ بن محمد الأصبهانى، أخلاق النبی وآدابہ، حدیث: 788، ج-4، مطبوعۃ: دار المسلم للنشر والتوزیع، الرياض، السعودية، 1998م، ص: 65
  • 24  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص: 71
  • 25  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،پاکستان،2009ء، ص: 139
  • 26  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3906، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:60-61
  • 27  ایضاً، صحیح البخاری، حدیث: 3932، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:67-68
  • 28  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 13208، ج-20، مطبوعۃ، موسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 430
  • 29  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2485، ج-4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 233
  • 30  ایضاً، سنن الترمذی، حدیث: 3618، ج-6، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 17
  • 31  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 2013م،ص: 74
  • 32  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،پاکستان،2009ء، ص: 139
  • 33  أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-3، مطبوعۃ:دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 241
  • 34  علامہ حفظ الرحمن، نور البصر فی سیرۃ خیر البشر، مطبوعہ: عارفہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص: 87
  • 35  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 2013م،ص: 79
  • 36  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون(مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،پاکستان،2009ء، ص: 152
  • 37  أبو محمد عبد الحمید بن حمید الكشى، المنتخب من مسند عبد بن حمید، حدیث: 1239، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ، القاہرۃ، مصر، 1988م، ص: 371
  • 38  أبو زکریا یحییٰ بن شرف النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج-18، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی ، بیروت، لبنان، 1392ھ،ص:151
  • 39  نور الدین علی بن سلطان محمد الملا القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 3848
  • 40  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 511
  • 41  أبو عبد الله محمد بن عمر الواقدی،المغازی، ج-3، مطبوعۃ: دار الأعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 1088
  • 42  أبو حاتم محمد بن حبان الدارمي، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 139
  • 43  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 269
  • 44  أبو محمد عبد الملک بن ہشام المعافرى، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی وأولادہ بمصر،1955م، ص: 590
  • 45  أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوی، فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1403ھ، ص: 10
  • 46  سلطان محمود جلالپوری، اصطلاحات المحدثین، مطبوعہ: دار الحدیث ، ملتان،پاکستان،1986 ء، ص:6
  • 47  أبو یعلی أحمد بن علی الموصلی، مسند أبى یعلی، حدیث: 116، ج- 1، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م،ص: 107
  • 48  اأبو بکر محمد بن ہارون الرُّویانی، مسند الرویانی، حدیث: 329، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، القاہرۃ، مصر، 1416ھ، ص:231-232
  • 49  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3911، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:62-63
  • 50  أبو یعلی أحمد بن علی الموصلی، مسند أبى یعلی، حدیث: 116، ج- 1، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م،ص: 107
  • 51  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3911، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان،1422 ھ، ص:62-63
  • 52  أبو بکر محمد بن ہارون الرُّویانی، مسند الرویانی، حدیث: 329، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، القاہرۃ، مصر، 1416ھ، ص:231-232
  • 53  القرآن، سورۃ الشرح 94: 4
  • 54  أبو یعلی أحمد بن علی الموصلی، مسند أبى یعلی، حدیث: 1380، ج- 2، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م،ص: 522
  • 55  قاضی عیاض بن موسی یحصبی المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفيحاء، عمان، الأردن،1407ھ، ص:59
  • 56  شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الألوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج-15، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415 ھ، ص: 389
  • 57  قاضی عیاض بن موسی یحصبی المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1، مطبوعۃ: دارالفيحاء، عمان، الأردن،1407ھ، ص: 63
  • 58  القرآن، سورۃ الطلاق65: 10-11
  • 59  شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الألوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج-14، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415 ھ، ص: 336
  • 60  شیخ أحمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، (ليس التاريخ موجودًا)،ص: 644
  • 61  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2846، ج-4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 435
  • 62  أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، الإصابۃ فی تمیز الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 743
  • 63  أبو الحسن علی بن محمد الماوردی، أعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دار ومکتبۃ الہلال، بیروت، لبنان، 1409ھ، ص: 170
  • 64  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ ، ص: 254
  • 65  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 470
  • 66  أبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، الدعاء للطبرانی، حدیث:2180، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1413ھ، ص:597-598
  • 67  أبو الحسن علی بن أبی الکرم عز الدين ابن الأثیر،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994 م ، ص: 461
  • 68  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 2013م،ص: 74
  • 69  أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان،2009ء، ص: 144
  • 70  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ ، ص: 508
  • 71  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 274
  • 72  ابو الحقائق غلام مرتضی ساقی مجددی، آؤ میلاد منائیں، مطبوعہ: صراط مستقیم پبلی کیشنز ، لاہور،پاکستان، 2009ء، ص: 150
  • 73  مفتی محمد خان قادری، محفل میلاد پر اعتراضات کا علمی محاسبہ، مطبوعہ: کاروان اسلام پبلی کیشنز ، لاہور،پاکستان، 2010ء،ص:124-127
  • 74  قطب الدین محمد بن أحمد نہروانی، إعلام بأعلام بیت اﷲ الحرام، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،(ليس التاريخ موجودًا)، ص: 392
  • 75  أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2012م،ص:262
  • 76  یہ عبارت قدیم مخطوطہ میں تو موجود ہے لیکن مکتبۃ التجاریۃ مکۃ المکرمۃکی مطبوعہ کتاب میں یہ عبارت نہیں ہے۔وہاں صرف یہ عبارت مندرج ہے"وھو موضع مشھور یزار الی لان"۔واللہ اعلم کہ یہ عبارت جان بوجھ کر نہیں ڈالی گئی یا پھر کسی وجہ سے طبع ہونے سے رہ گئی۔(محمد بن احمد النہروانی،کتاب الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام،مطبوعۃ:مکتبۃ التجاریۃ،مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:392) ادارہ میں ایک مطبع نسخہ بصورت سوفٹ کاپی موجود ہے جو مکّہ مکرّمہ سے شائع ہوا ہےاور وہیں سے مذکورہ بالا مکمل عبارت مأخوذ ہےجس کا حوالہ ذیل میں دیا گیا ہے۔(ادارہ)
  • 77  قطب الدین محمد بن احمد نہروانی،کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام فى تاريخ مکۃ المشرفة، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ، المکۃ المکرمۃ، ا لسعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 355 -356
  • 78  محمد بن محمد ابن ظہیرة القرشى، الجامع اللطیف فی فضل مکۃ وأھلھا وبنا ء البیت الشریف، مطبوعۃ: مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:285-286
  • 79  ڈاکٹر محمد طاہر القادری، میلاد النبی ﷺ، مطبوعہ: منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2005ء، ص: 704-705

Powered by Netsol Online