encyclopedia

مجلسِ میلاد النبی ﷺ اور قیام فی السلام

Published on: 27-May-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:34، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 938-1006)

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت اور تعظیم ایمان ہے اور اس تعظیم کے مختلف طریقے مسلمانوں میں رائج ہیں ۔ان میں سے ایک کھڑے ہوکر درود سلام پڑھنا بھی ہے جوخصوصاً ساعتِ ولادت میں مسلمان کھڑے ہوکر پڑھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں غایتِ تعظیم کا ایک انداز کھڑے ہوکر سلام یا خراجِ عقیدت پیش کرنا بھی ہے۔کسی بھی ملک کا ترانہ پیش کیاجائے تو بڑے سے بڑا آدمی خواہ مہمان ہویا میزبان جب تک ملکی یا قومی ترانہ پڑھاجاتا ہے وہ کھڑے ہوکر ادب واحترام سےترانہ پڑھتا یا خاموش رہتا ہے۔ترانہ کا احترام اتنا کیاجاتا ہے کہ ہرحرکت کو روک کر کھڑے ہوکر با ادب طریقہ سے ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔ترانہ میں ادب واحترام کا یہ پہلو اختیا رکرنااس ملک جس کا ترانہ پڑھا جارہا ہے کا احترام گردانا جاتا ہے۔سرورِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ادب واحترام مسلمان کے لیے ہر دوسری چیز سے بڑھ کر ہے جس کی وجہ سے وہ بارگاہِ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں کھڑے ہو کر سلام پیش کرنا زیادہ بہتر تصوّرکرتا ہے ورنہ سلام تو پاکی کی حالت میں بیٹھ کر بھی پیش کیاجاسکتا ہے۔ بعض لوگ اس کو بھی ناجائز کہتے ہیں بلکہ بعض تو اس کو شرک تک کہہ دیتے ہیں۔ یہ لو گ کہتے ہیں کہ مسند احمد میں حضرت عبادہ کی روایت سے فرمان نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam موجود ہے جس میں نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

لایقام لى إنما یقام للّٰه تبارك وتعالىٰ.1
میرے لیے قیام نہ کیاجائے کیونکہ قیام فقط اﷲ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے ۔

یعنی اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ قیام تعظیمی فقط اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے لہذا کسی اور کے لیے قیام تعظیمی شرک ہے۔2

اس حدیث اور اسی طرح کی دیگر احادیث جن سے استدلال کرکے قیامِ تعظیمی کو شرک و بدعت کہا جاتا ہے اس کی صحیح تشریح اور وضاحت اس مقالے کے آخر میں بیان کی جائے گی۔سر دست سب سے پہلے قیامِ میلاد اور قیام تعظیمی کی وضاحت اور اس کے شرعی دلائل بیان اور اس سے متعلقہ چیزیں بیان کی جارہی ہیں۔

محفلِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں بہ حالت قیامِ حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات ستودہ صفات پر سلام عرض کرنا محبان مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا خاصہ ہے اور یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ جس طرح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات ِ ظاہری میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم وتوقیر اہل اسلام پر واجب تھی اور صحابہ کرام نہایت محتاط رہتے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ادب واحترام میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے، اسی طرح آج بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم وتوقیر اُمت پر واجب ہےجیساکہ اﷲ تبارک وتعالیٰ اس کا حکم دیتےہوئےارشاد فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّھا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِى وَلَا تَجْھرُوْا لَه بِالْقَوْلِ كجَھرِ بَعْضِكمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ23
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔

اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ کے آداب اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے گفتگو کا طریقہ سکھا رہا ہے کہ جب تمہیں وہاں شرف باریابی نصیب ہو اور ہم کلامی کی سعادت حاصل ہو تو خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے ورنہ ذرا سی غفلت اور بے پروائی سے تمہارے سارے اعمال حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام ضائع ہوجائیں گے۔

یہ حکم جس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات ظاہری میں قابل اطاعت تھا بالکل اسی طرح نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وصال کے بعد بھی اسی طرح قابل اطاعت ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:

وقال العلماء: یكره رفع الصوت عند قبره صلى اللّٰه عليه وسلم كما كان یكره فى حیاته صلى اللّٰه عليه وسلم لأنه محترم حیا وفى قبره صلى اللّٰه عليه وسلم دائماً.4
اہل علم نے (اس آیت کے اترنے کی وجہ سے) یہ بات کہی ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے روضۂ انور کے پاس بھی بلند آواز سے اپنی طرف متوجہ کرنا منع ہے جیسا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات طیبہ میں ممنوع تھا اس لیے کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حیات ظاہری میں محترم ہیں تو اپنے روضۂ انور میں بھی ہمیشہ کے لیے محترم ہیں۔

اسی حوالہ سےامام قاضی عیاضRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

واعلم أن حرمة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بعد موته و توقیره و تعظیمه لازم كما كان حال حیاته وذالك عند ذكرہ صلى اللّٰه عليه وسلم و ذكر حدیثه وسنته وسماع اسمه وسیرته ومعاملة آله وعترته وتعظیم أھل بیته وصحابته.5
جان لو بے شک نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عزت وحرمت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم وتوقیر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وفات کے بعد بھی اسی طرح ضروری و لازم ہے جس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ظاہری حیات میں ضروری و لازم تھی اور اس کا اظہار خاص طور پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذکر مبارک اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حدیث شریف کی تلاوت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سنت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نام مبارک اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سیرت طیبہ کے سنتے وقت ہونا چاہیے۔

امام اسماعیل حقی قرآن کریم کی آیت مبارکہ"و ما کان لکم ان تؤ ذوا رسول اﷲ"6 کے تحت اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

والحاصل أنه یجب على الأمة أن یعظموہ علیه الصلوة والسلام ویوقروه فى جمیع الأحوال فى حال حیاته و بعد و فاته فإنه بقدر ازدیاد تعظیمه و توقیره فى القلوب يزداد نورالایمان.7
اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ امت محمدیہ (علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم ) پر حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم و توقیر ہر حالت میں واجب ولازم ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات ظاہری میں بھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وصال کے بعد بھی کیونکہ دلوں میں جتنی حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم بڑھے گی اتنا ہی نورِایمان بڑھے گا۔

محفل میلاد یا محفل نعت کے دوران آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر سلام پڑھتے وقت احتراماً کھڑے ہونا اسی ادب وتعظیم کا تسلسل ہےاور اس پر یقیناً انوار وبرکات الہٰیہ کا نزول ہوتا ہے کیونکہ یہ حکم شرع کی پاسداری ہےاور ادب کا یہ خوشنما انداز یقیناً جاری رہنا چاہیےکیونکہ قیام سے خود قیام نہیں بلکہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات کا ادب متصوّر ہے جو نصِّ قرآنی کی روشنی میں مسلمان کے ایمان کا حصّہ ہے۔

قیامِ میلاد کی وضاحت

قیامِ میلاد حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تشریف آوری کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ہی میلاد منانے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس مجلس میں تشریف لارہے ہیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد پر قیام کررہے ہیں بلکہ یہ قیام میلاد دراصل قیام محبت، فرحت اور خوشی کے اظہار کے لیے ہیں۔اسی طرح خصوصی طور پر مسلمان اس گھڑی میں محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس دنیا میں تشریف لائے اور شرکائے محفلِ میلاد صرف علامتی طور پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذکر کے احترام میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پیش کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کسی ملک کے جھنڈے کو سلام اور سیلوٹ علامتی ہوتا ہے اور اصل مقصود اس ملک کی عزت و توقیر ہوتی ہے۔

محفلِ میلاد میں قیام ذکرِ حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ادب اور ولادت پاک کو یاد کرنے کے لیے ہوتا ہے۔بے شک حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت باسعادت اس قدر شانِ جمال اور عظمتِ بے مثال کی حامل ہے کہ اس کا ذکر بھی بہت فضیلت کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی تعظیم اِس اَمر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم کھڑے ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات والا صفات پر سلام پیش کریں، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اَوصافِ حمیدہ کی تحسین کریں اور ذکرِ حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں نہایت درجہ اَدب وتعظیم کا مظاہرہ کریں جو قیام میں عملاً کیاجاتا ہے۔

قیام ِمیلاد دراصل قیامِ فرحت ہے

وہ ساعتیں جب اس دنیائے آب وگل میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تشریف آوری ہوئی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے دامن میں بے انتہاء خوشی ،مسرت اور فرحت کی دولت لے کر منصّہ عالم پر ظہور پذیر ہوئے ان ساعتوں میں اس متاعِ عظیم کی یاد میں قیام کرنا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت میں سرشارہو کر میلاد پڑھنا سرورِ ایمان کا اِظہارہے۔احادیث اس قیام کا جواز فراہم کرتی ہیں اوربارگاہِ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں صلوٰۃ وسلام اور نعت و قصائدپیش کرنا سنت قرار پاتا ہے جس کی تائید تمام ائمہ حدیث کی روایات اور اَقوال سے ہوتی ہے۔ 8

اس مسئلۂِ قیامِ میلاد کا تعلق بھی اسی تعظیمِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ہےکیونکہ مسلمان حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذکر کے وقت تعظیماً ومحبتاً کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق عبادت کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ مسلمان قیامِ عبادت نہیں کرتے بلکہ قیام تعظیمی کرتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

قیام کی متعدد صورتوں میں سے ایک قیامِ سلام ہے۔ حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات ستودہ صفات پر صلوٰۃ وسلام اَدب وتعظیم سے سرشار کیفیت میں کھڑے ہوکر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ قیام متعدد درجاتِ قیام کا مجموعہ ہےمثلاً قیامِ محبت، قیامِ فرحت، قیامِ تعظیم، قیامِ ذکر اور قیامِ صلوٰۃوسلام۔ جب محفلِ میلاد میں قیامِ سلام کی بات کی جاتی ہےجس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں سلام پڑھا جاتا ہے تو پھر قیام اور عدمِ قیام کی تمیز پر مبنی ساری بحث محض سعی لاحاصل ہے۔ اس کا میلاد سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ قیام، قیامِ استقبال ہے ہی نہیں ۔ درحقیقت یہ قیام، تعظیم کےلیے ہوتا ہے بلکہ اس پر مستزاد قیامِ فرحت اور قیامِ محبت اس کا محرک ہے۔ قیام کی یہ تمام صورتیں بلاخوفِ تردید حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سنت پر مبنی ہیں اور اس پر کسی قسم کی اختلاف رائے موجود نہیں ہے۔

قیامِ میلاد مستحب ہے

قیام میلاد ایک مستحب اور محبوب عمل ہے نہ فرض ہے اور نہ ہی کوئی شخص اس کو واجب سمجھتا ہے چنانچہ مفتی احمدیار خان نعیمی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں پر محض بہتان ہے کہ وہ قیامِ میلاد کوواجب سمجھتے ہیں۔ نہ کسی عالم دین نے لکھا کہ قیام واجب ہے اور نہ تقریروں میں کہا، عوام بھی یہی کہتے ہیں کہ قیام اور میلاد شریف کارِ ثواب ہے ۔ 9

اس مسئلہ میں مستند علماء کی جتنی بھی کتب دستیاب ہیں ان سب میں قیامِ میلادالنبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں صرف استحباب کا دعویٰ موجود ہےاور یوں تمام علماءاس پر متفق ہیں کہ قیامِ میلاد صرف مستحب ہے۔امام احمد رضا خان القادریRehmatullah Alaihسے سوال ہوا کہ قیام مولود شریف فرض ہے ، واجب ہے یا سنت ہے؟تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ قیام مجلس مبارک مستحب ہے۔10 اسی طرح حضرت علامہ سیّد دیدار علی شاہ محدث الواری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں کہ قیام ہذا کا مستحب و مستحسن ہونا ثابت ہے۔ 11

یعنی قیامِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک مستحب امر ہے جس میں استحباب تعظیم و توقیرِ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وجہ سے ہے نہ کہ اس سے بڑھ کر واجب یا سنت وغیرہ جس کی تصریح علمائے اسلاف نے اپنی اپنی کتب میں بیان فرمادی ہے۔

عبادت وتعظیم میں امتیاز

ایک امر ہے تعظیم اوردوسرا امر ہےعبادت، عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کی کی جاتی ہے اور تعظیم دین میں ہر افضل شخص کی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پرایک مقدس جگہ ہے وہاں عبادت کرنے کے فوائد اور زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن اس جگہ کی عبادت نہیں کی جاتی بلکہ اس جگہ سے برکت حاصل کی جاتی ہے البتہ اس جگہ کی تعظیم کی جاتی ہے ۔اس کی مزید وضاحت ایک حدیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے جس کو امام ابن شہاب Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری Radi Allah Anho نے خبردی :

أن عتبان بن مالك وهو من أصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ممن شھد بدراً من الأنصار أنه أتى رسول صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: یارسول اللّٰه قد أنكرت بصرى وأنا أصلى لقومى فإذا كانت الأمطار سال الوادى الذى بینى وبینھم لم أستطع أن آتى مسجدهم فأصلى بھم ووددت یا رسول اللّٰه أنك تأتینى فتصلى فى بیتى فاتخذه مصلى قال: فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: سأفعل إن شاء اللّٰه. قال عتبان: فغدا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبوبكر حین أرتفع النھار فاستأذن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فأذنت له فلم یجلس حین دخل البیت ثم قال: أین تحب أن أصلى من بیتك؟ قال: فأشرت له إلى ناحیة من البیت فقام رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فكبر فقمنا فصففنا فصلی ركعتین ثم سلم.12
حضرت عتبان بن مالک انصاریRadi Allah Anho رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اصحاب میں سے ہیں اور وہ ان انصار میں سے ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے تھے وہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! میری بصارت بہت کم زور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارش ہوتی ہے تو میرے اور ان کے درمیان جو وادی ہے وہ بہنے لگتی ہے اور میں ان کی مسجد میں جانے کی اور انہیں نماز پڑھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یا رسول اﷲ! میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں پس میں اس جگہ کو مصلیٰ بنالوں ۔ راوی نے کہا کہ پس رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا میں ان شاء اﷲ عنقریب ایسا کروں گا۔ حضرت عتبانRadi Allah Anho نے بیان کیا پس دوسرے روز دن چڑھنے کے بعد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho آگئے اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اجازت طلب کی تو میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اجازت دی۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیٹھے نہیں اور فرمایا تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہوکہ میں نمازاداکروں؟میں نےگھر کی ایک جانب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اشارہ کیا پس رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوگئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تکبیر پڑھی پھر ہم بھی کھڑے ہوگئے اور ہم نے صف بنائی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیردیا ۔

اﷲ کے سوا عبادت کی نیت سے کسی کے لیے سجدہ کرنا کفر ہے اورسجدہ اﷲ ہی کو کیا جاتا ہے۔ یہ صحابی رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اﷲ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے گھر میں ایسی جگہ مختص کررہے ہیں جہاں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پائے اقدس لگے ہوں ۔ ایک طرف فاروق اعظم Radi Allah Anhoجیسے عظیم صحابی ابراہیم Alaihis Salamکے پائے اقدس لگنے والی جگہ کو مصلیٰ بنارہے ہیں تو دوسری طرف جلیل القدر صحابی رسول حضرت عتبان بن مالک انصاریRadi Allah Anho حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پائے اقدس لگنے والی جگہ کو۔اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نوویRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

فى هذا الحدیث أنواع من العلم وفیه التبرك بآثار الصالحین وفیه زیارة العلماء والصلحاء والكبار وأتباعھم وتبریكھم إیاهم.13
اس حدیث میں کئی قسم کے علوم و معارف ہیں اور اس میں بزرگان دین کے آثار سے تبرک اور علماء، صلحاء اور بزرگوں اور ان کے ماننے والوں کی زیارت اور ان سے برکات کا حصول ثابت ہے۔

اور ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے منسوب ہر چیز کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے اور اس کی تعظیم بھی کی جاتی ہے چانچہ اسی حوالہ سے قاضی عیاض مالکی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ومن إعظامه وإكباره إعظام جميع أسبابه، وإكرام مشاهده وأمكنته من مكة والمدينة، ومعاهده وما لمسه صلى اللّٰه عليه وسلم أو عرف به.14
حضور Alaihis Salamکی تعظیم وتوقیر میں سے یہ بھی ہے کہ حضور کےتمام ترمتعلقات جیسےمکّہ اورمدینہ میں حضور کے مکانات، وہ اشیاء جن کو حضور سے نسبت رہی اور جن کوحضور نے مس فرمایا اور جوحضور کی نسبت سے مشہورہوئی ان سب کی تعظیم کرے۔

اصحابِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عبادت تو اﷲ کی کررہے ہیں مگر اس جگہ کی تعظیم کر رہے ہیں جہاں سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سجدہ کیا ہے۔یہی تعظیم اور عبادت میں فرق ہے گو کہ بظاہر دونوں ایک جیسے ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور وہ فرق کرنے والی چیز نیت ہے کہ اگر قیام عبادت کی نیت سے ہو تو شرک اور اگر فقط تعظیم کی نیت سے ہوتو جائز۔

قیامِ تعظیمی کا معنی واقسام

قیامِ تعظیمی کا معنی یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں عظمت والے لوگوں کو آتا دیکھ کر ان کے استقبال اور ان کی تعظیم میں کھڑے ہوجائیں ۔اسی حوالہ سے بیان کرتے ہوئے محمد روح اﷲ نقشبندی لکھتے ہیں:

یہ قیام تعظیم کے لیے ہے جس سے احترام کا اظہار ہوتا ہے جیسے امتی کا قیام نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے ،اولاد کا والدین کے لیے، مریدین کا شیخ کے لیے، شاگردوں کا استاد کے لیے اور چھوٹوں کا بڑوں کے لیے ۔یہ قیام کسی کی عزت و کرامت اور شرف بزرگی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور کسی کے تقدس واحترام کے پیش نظر بھی۔ 15

اس قیام تعظیمی کی دو قسمیں ہیں جن میں ایک حرام اور دوسری جائز ہے۔حرام کا حکم اس شخص کے حق میں ہے جو تکبر کی وجہ سے یہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں۔جواز کا حکم اس شخص کے حق میں ہے جس کے لیے تعظیم کی غرض سے لوگ کھڑے ہوں لیکن خود اس کے دل میں اس کی طلب نہ ہو جیسے کسی ولی اﷲ، عالم دین، ماں باپ وغیرہ کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا وہ اسی میں شامل ہے۔اسی طرح عبادت کی نیت سے قیام کرنا صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اس کے سوا کسی کے لیے بھی عبادت کی نیت سےکھڑا ہونا شرک و کفر ہے ۔

شرعی لحاظ سے اقسامِ قیام

شریعت میں قیام یعنی کھڑا ہونا چھ طرح کا ہے۔ قیام جائز ،قیام فرض، قیام سنت، قیام مستحب، قیام مکروہ، قیام حرام اوران میں سے ہر ایک کے پہچاننے کا قاعدہ بھی مختلف ہے ۔ ان قواعد سے قیام میلاد کا حال خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ یہ قیام مستحب ہے۔

پہلی قسم

دنیاوی ضروریات کے لیے کھڑا ہونا جائز ہےجس کی سینکڑوں مثالیں معاشرہ میں موجود ہیں مثلاً کھڑے ہوکر عمارت بنانااور دیگر دنیاوی کاروبار کرنا وغیرہ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوة فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰه وَاذْكرُوا اللّٰه كثِيْرًا لَّعَلَّكمْ تُفْلِحُوْنَ1016
پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

اب ظاہر ہے کہ یہ منتشر ہونا کھڑے ہوکر ہوگا جس سے رزق تلاش کیا جائےگا لہذا یہ قیام یا دیگر ضروریات کے لیے اس جیساقیام جائز ہے۔ اسی طرح جب اپنے استاذ یا باپ یا کسی دوست کو ملنے کے لیے جاتے ہیں تو جب ملاقات ہوتی ہے تو پہلے کھڑے کھڑے سلام کہتے ہیں اور جس کو ملنے کے لیے جاتے ہیں وہ بھی استقبال کرتے ہوئے کھڑے ہوکر سلام کا جواب دیتا ہے یہ سب کچھ جائز ہے۔

دوسری قسم

شرعی طور پر قیام کی دوسری قسم فرض ہے جو پنج وقتہ نماز اور واجب نماز میں ہوتا ہے کیونکہ اس قیام کا حکم فرض نماز ادا کرنے کےلیے باری تعالیٰ نے دیا ہےچنانچہ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَقُوْمُوْا لِلّٰه قٰنِتِيْنَ23817
اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔

یعنی اگر کوئی شخص قدرت رکھتے ہوئے بیٹھ کر نمازادا کرے تو یہ نماز ادا نہ ہوگی کیونکہ فرض و واجب نماز میں قیام فرض ہے جس کو بنا شرعی عذر ترک نہیں کیا جاسکتا۔

تیسری قسم

چند موقعوں پر کھڑا ہونا سنت ہے اولاً تو کسی دینی عظمت والی چیز کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا ۔اسی لیے آب زمزم اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے چنانچہ حضرت ابن عباس Radi Allah Anhumaبیان کرتے ہیں :

سقیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من زم زم فشرب وهو قائم.18
میں نے حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زم زم سے پلایا تو حضور اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کھڑے ہوکر اسے پیا۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یشرب من ماء زم زم قائماً.19
میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کھڑے ہوکرزم زم کا پانی پیتے ہوئے دیکھا۔

اسی طرح وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہوکر پینا بھی مسنون ہے چنانچہ حضرت امام حسین Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں :

دعانى أبى على بوضوء فقربته له فبدأ فغسل كفیه ثلاث مرات قبل أن یدخلھما فى وضوئه ثم مضمض ثلاثاً واستنثر ثلاثا ثم غسل وجھه ثلاث مرات ثم غسل یده الیمنى إلى المرفق ثلاثا ثم الیسرى كذلك ثم مسح برأسه مسحة واحدة ثم غسل رجله الیمنى إلى الكعبین ثلاثا ثم الیسرى كذلك ثم قام قائما فقال: ناولنى فناولة الذى فیه فضل وضوئه فشرب من فضل وضوئه قائما فعجبت فلما رآنى قال: لا تعجب فإنی رأیت أبا ك النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یصنع مثل ما رأیتنى صنعت یقول لوضوئه هذا ویشرب فضل وضوئه قائما.20
میرے والد حضرت علیRadi Allah Anho نے مجھ سے وضو کا پانی طلب کیا تو میں نے وضو کا پانی لاکر حاضر خدمت کیا۔ آپRadi Allah Anho نے وضو کی ابتداء یوں کی کہ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی کی اور تین دفعہ ناک صاف کی۔ پھر تین دفعہ منہ دھویا پھر دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا بعد ازاں بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا۔ پھر اپنے سر ِمبارک پر ایک دفعہ مسح کیا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور پانی پکڑانے کا حکم فرمایا۔ میں نے وہی برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا حاضر خدمت کیا۔ آپ نے کھڑے کھڑے اس میں سے پانی پیا۔ مجھے تعجب ہوا پھر آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا حیران نہ ہو! کیونکہ میں نے تمہارے نانا جان حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسی طرح وضو فرماتے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیتے تھے۔

امام طحاوی Rehmatullah Alaihنے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ 21 اسی طرح حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے روضہ مبارکہ پر اﷲ تبارک وتعالیٰ حاضری نصیب فرمادے تو نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑاہونا سنت ہے چنانچہ فتاوی عالمگیری میں کتاب الحج کے آخر میں نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے روضۂ مبارکہ کی زیارت کے آداب کو بیان کرتے ہوئے یہ مسئلہ ذکر کیا گیا ہے:

ویقف كما یقف فى الصلوة ویمثل صورته الكریمة البھیة كأنه نائم فى لحده عالم به یسمع كلامه.22
روضہ مطہرہ کے سامنے ایسے کھڑا ہو جیسے کہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور اس جمال پاک کا نقشہ ذہن میں جمائے گویا کہ سرکار اپنی قبر انور میں آرام فرما ہیں۔ اس کو جانتے ہیں اور اس کی بات سنتے ہیں۔

اسی کو بیان کرتے ہوئے ملاعلی قاری مکیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

أنه صلى اللّٰه عليه وسلم عالم بحضورك وقیامك وسلامك أى بل بجمیع أفعالك وأحوالك وأرتحالك ومقامك.23
بے شک رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تیری حاضری اور تیرے کھڑے ہونے اور تیرے سلام بلکہ تیرے تمام افعال واحوال وکوچ ومقام سے آگاہ ہیں۔

ایسا اس لیے کیاجاتا ہے کہ روضہ اقدس پر کھڑے ہوکر درود وسلام پیش کیا جاتا ہے اور یہ نظرانہ پیش کرنا حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhoکا طریقہ بھی ہے جس کوبیان کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن دینار Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

رأیت عبداللّٰه بن عمر یقف على قبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ویصلى على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وأبى بكر و عمر.24
میں نے حضرت عبداﷲ بن عمرRadi Allah Anhuma کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے دیکھا اور وہ حضور ﷺ،حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق Radi Allah Anhumaپر درود (و سلام) پڑھتے تھے۔

اسی طرح حضرت نافع Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں :

أن ابن عمر كان إذا قدم من سفر دخل المسجد ثم أتى القبر فقال: السلام علیك یا رسول اللّٰه السلام علیك یا أبا بكر السلام علیك یا أبتاه.25
بے شک حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhumaجب سفر سے واپس آتے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مسجد میں داخل ہوتے پھر قبر انور کے پاس آکر فرماتے السلام علیک یا رسول اﷲ! السلام علیک یا ابا بکر! السلام علیک اےاباجان۔

امام عبد الزارقRehmatullah Alaih نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔26اسی حوالہ سے امام ذہبیRehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

فمن وقف عند الحجرة المقدسة ذلیلا مسلما مصلیا على نبیه فیا طوبى له فقد أحسن الزیارة وأجمل التذلل والحب وقد أتى بعبادة زائدة على من صلى علیه فى أرضه أو فى صلاته إذ الزائر له أجر الزیارة وأجر الصلاة علیه والم صلى علیه فى سائر البلاد له أجر الصلاة فقط فمن صلى علیه واحدة صلى اللّٰه علیه عشرا.27
کس قدر خوش نصیب ہے وہ انسان جو حجرہ اقدس کے پاس تضرع و عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود وسلام کی ڈالیاں نچھاور کرے اس لیے کہ اس نے اچھی طرح زیارت کی ،تضرع و انکسار کی دولت اور کمال محبت سے سرشار رہا ۔اس نے اس شخص سے بہتر عبادت کی جس نے اپنی سرزمین پر یا اپنی نماز میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود و سلام پیش کیا اس لیے کہ زیارت کرنے والا زیارت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود بھیجنے کا اجر پاتا ہے اور دوسرے شہروں میں درود بھیجنے والے صرف درود بھیجنے کا اجر پاتے ہیں تو جو شخص ایک بار حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود بھیجتا ہے اﷲ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

اسی حوالہ سے ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں:

فإذا أتینا المسجد النبوى
صلینا التحیة أولاً ثنتان
ثم انثنینا للزیارة نقصد القبر
الشریف ولو على الأجفان
فنقوم دون القبر وقفة خاضع
متذلل فی السر والإعلان
فکأنه فی القبر حى ناطق
فالواقفون نواكس الأذقان
ملكتھم تلکالمهابة فاعترت
تلک القوائم كثرۃ الرجفان .28
جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کریں۔پھر روضہ انور کی زیارت کا قصد کریں چاہے پلکوں پر چل کر ہی حاضری کا شرف کیوں نہ حاصل کرنا پڑے۔پھر باطنا ً وظاہرا ًانتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔یہ احساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی قبر ِانور میں زندہ ہیں اور کلام فرماتے ہیں پس (وہاں) کھڑے ہونے والوں کا سر (ادباً تعظیماً) جھکا رہے۔ بارگاہ نبوی میں یوں کھڑے ہوں کہ رعب مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہوں۔

یعنی نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قبر انوار پر درود وسلام کا نظرانہ پیش کرتےہوئے وہاں تعظیماً قیام کرنا وہ بھی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر یہ سنت ہے کیونکہ تعظیم ِ رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یہی تقاضہ ہے جیساکہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں قیام بھی اسی تعظیم کے سبب کیا جاتا ہے۔اسی طرح مومنین کی قبروں پر فاتحہ پڑھے تو قبلہ کو پشت اور قبر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونا سنت ہے چنانچہ عالمگیری میں ہے:

یخلع نعلیه ثم یقف مستدبرالقبلة مستقبلاً لوجه المیت.29
اپنے جوتے اتاردے اور کعبہ کی طرف پشت اور میت کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو۔

اسی طرح امام طحطاوی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

والمستحب فى زیارة القبور أن یقف مستدبر القبلة مستقبلاً وجه المیت وأن یسلم.30
زیارت قبور کے وقت مستحب ہے کہ قبلہ کی طرف پشت اور میت کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اور سلام کرے۔

شافعی مذہب کے مشہور اور مستند محدث امام یحییٰ بن شرف الدین نووی بھی لکھتے ہیں:

المستحب فى زیارة القبور أن یقف مستدبر القبلة مستقبلاً وجه المیت یسلم.31
زیارت قبور کے وقت مستحب ہے کہ قبلہ کی طرف پشت اور میت کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اور سلام کرے۔

اسی طرح مسجد جاتے وقت درود شریف پڑھنے کا حکم ہے تو مسجد میں آنے والا کھڑے کھڑے ہی اس پر عمل پیرا ہوگاتو گویا حالت قیام میں ہی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خودپر "صلوٰۃ و سلام"پڑھا جس سے معلوم ہوا کہ قیام کی حالت میں "صلوٰۃ و سلام" پڑھنا بھی سنت ہے ۔اس حوالہ سے منقول روایت کو حضرت ابو حمید الساعدیRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

إذا دخل أحدكم المسجد فلیسلم على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ثم لیقل اللّٰھم افتح لى أبواب رحمتك وإذا خرج فلیقل اللھم إنی أسألك من فضلك.32
جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر سلام بھیجے پھر کہے اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں ۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ Radi Allah Anhoسے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :

اذا دخل احد كم المسجد فلیسلم على النبی صلى اللّٰه عليه وسلم ولیقل اللّٰھم افتح لى ابواب رحمتک واذا خرج فلیسم على النبی صلى اللّٰه عليه وسلم ولیقل اللھم اعصنی من الشیطان الرحیم 33
جب تم میں کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہے کہ وہ حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر سلام بھیجے اور یہ کہے اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب باہر نکلے تو حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر سلام بھیجے اور کہے اے میرے اللہ مجھے شیطان مردود سے بچا۔

اسی طرح خطیب جب خطبۂِ جمعہ میں درود شریف پڑھتا ہے تو منبر پر کھڑے ہوکر ہی پڑھتا ہے تو ان تمام تر تفصیلات سےمعلوم ہوا کہ مذکورہ قیام سنت ہیں۔

چوتھی قسم

شرعی طور پر قیام کی ایک قسم مکروہ قیام کی ہے جو کہ چند جگہوں پر کیا جاتا ہے۔ اولاً آب زمزم اور وضو کے سوا کسی دوسرے پانی کو پیتے وقت کھڑا ہونا بلاعذر مکروہ ہے۔ دوسرے دنیادار کی تعظیم کے لیے دنیاوی لالچ سے کھڑا ہونا بلاعذر مکروہ ہے۔ تیسرے کافر کی تعظیم کے لیے اس کی مالداری کی وجہ سے کھڑا ہونا مکروہ ہےچنانچہ اس حوالہ سے فتاوی عالمگیری میں مذکور ہے:

وإن قام تعظیما له من غیر أن ینوى شیئًا مما ذكرنا أو قام طمعاً لغناہ كره له ذلك.34
اگر کسی کافرکے لیے سوائے مذکورہ صورتوں کے تعظیماًکھڑا ہو یا اس کی مالداری کے طمع میں کھڑا ہو تو مکروہ ہے۔

اسی طرح جو شخص اپنی تعظیم کرانا چاہتا ہو تو اس کی تعظیم کے لیے بھی کھڑا ہونا مکروہ ہے۔اب تک کی ذکر کردہ تفصیل سے قیام کی چند اقسام واضح ہوگئیں ،اب درجِ ذیل سطور میں قیام تعظیم اور اس کے شرعی احکام کے حوالہ سے جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔

قیامِ تعظیمی کے جواز پر دلائل

پہلے اس قیام کے جواز کے حوالہ سے چند روایات درج کی جارہی ہیں تاکہ اس کا شرعی حکم سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہو چنانچہ حضرت ابو سعید خدریRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

لما نزلت بنو قریظة على حكم سعد هو ابن معاذ بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وكان قریباً منه فجاء على حمار فلما دنا قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: قوموا إلى سیّد كم.35
جب بنو قریظہ ابن معاذ Radi Allah Anhoحضرت سعد کے فیصلہ (کو مان کر قلعہ) سے اتر آئے اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو بلایا تھا اور وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب تھے تو وہ ایک گدھے پر سوار ہوکر آئے پس جب وہ قریب پہنچے تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا : اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔

امام بیہقی اس حدیث مبارکہ کو یوں نقل کرتےہیں:

فلما دنا قریباً من المسجد قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: للأنصار قوموا إلى سیّد كم أو خیركم.36
جب حضرت سعد Radi Allah Anhoمسجد نبوی کے قریب پہنچے تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے میں سے بہترین شخص کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔

یعنی خود نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرات صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اپنے سردار کےلیے کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے اور امام بیہقی نے اس کو اپنا مستدل بھی بنایا ہے۔

امام بیہقی Rehmatullah Alaihکا استدلال

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی شافعی Rehmatullah Alaihنے اپنی تین کتابوں میں اس حدیث مبارکہ کو لانے سے پہلےاس کےلیے درج ذیل نام سے ایک باب باندھاہے:

باب ما یذكر فى القیام لأهل العلم وغیرهم على وجه الإكرام.37
آدمی کا اہل علم وغیرہ کے لیے بطور تعظیم واکرام کھڑے ہونےکا باب۔

اسی طرح اپنی دوسری کتاب میں اس کے لیے یوں باب باندھا ہے:

فصل فى قیام المرء لصاحبه على وجه الإكرام والبر.38
آدمی کا اپنے دوست یا ساتھی یا بزرگ کے لیے بطور تعظیم و اکرام کھڑے ہونےکی فصل۔

اور اسی طرح اپنی تیسری کتاب میں اس حدیث کےلیے یوں باب باندھاہے:

باب قیام الرجل لأخیه على وجه الإكرام.39
اپنے بھائی کے لیے تعظیماً کھڑے ہونےکا باب۔

عام طور پرمحدثین کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ حدیث سے اخذ کردہ مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے اس کے نام سے باب باندھ کر اس کے ذیل میں اس حدیث کو ذکر کرتےہیں جیساکہ امام بیہقی نے بھی یہی کیا ہے۔

امام ابن بطال Rehmatullah Alaihکا استدلال

اسی حدیث مبارکہ سے امام ابن بطال نے بھی استدلال کیا ہے جس کو بیان کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانیRehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قال ابن بطال فى هذا الحدیث: أمر الإمام الأعظم بإكرام الكبیر من المسلمین ومشروعیة إكرام أهل الفضل فى مجلس الإمام الأعظم والقیام فیه لغیره من أصحابه والزام الناس كآفة بالقیام إلى الكبیر منھم.40
امام ابن بطال Rehmatullah Alaihنے کہا کہ حضرت سعد Radi Allah Anhoکی حدیث سے ثابت ہوا کہ سربراہ مملکت کو مسلمان بزرگ کی تعظیم کا حکم دینا چاہیے اور سربراہ مملکت کی مجلس میں ارباب فضیلت کی تکریم کرنا اور ان کے لیے قیام کرنا مشروع ہے۔ اور تمام لوگوں پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنے بزرگ کے آنے پر اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔

یعنی اس مذکورہ حدیث مبارکہ سے امام ابن بطال نے بھی قیام تعظیمی کے جواز کا ہی استدلال کیا ہے جیساکہ دیگر ائمہ نے اسی مسئلہ کواخذ کیا ہے۔

امام نووی Rehmatullah Alaihکا استدلال

اس مذکور ہ حدیث میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhumسےحضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anhoکے لیے فرمایا کہ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو ۔امام نووی Rehmatullah Alaihبھی اس حدیث سے مذکورہ استدلال کرتے ہیں چنانچہ وہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

فیه إكرام أهل الفضل وتلقیھم بالقیام لھم إذا أقبلوا هكذا احتج به جماهیر العلماء لاستحباب القیام قال القاضى ولیس هذا من القیام المنھى عنه وإنما ذاك فیمن یقومون علیه وهو جالس ویمثلون قیاما طول جلوسه قلت القیام للقادم من أهل الفضل مستحب وقد جاء فیه أحادیث ولم یصح فى المنھى عنه شئى صریح وقد جمعت كل ذلك مع كلام العلماء علیه فى جزء وأجبت فیه عما توهم المنھیى عنه.41
اس ارشاد میں اصحاب فضیلت کی تکریم ہے اور جب وہ آئیں تو ان کے آنے پر کھڑے ہونے کی تعلیم اور تلقین ہے جمہور علماء نے اس حدیث سے قیام تعظیم کو ثابت کیا ہے۔ قاضی عیاض مالکی نے کہا ہے کہ یہ وہ قیام نہیں ہے جو ممنوع ہے جو قیام ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص بیٹھا ہو اور جب تک وہ بیٹھا رہے لوگ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے رہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اصحاب فضلیت جب آئیں تو ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا مستحب ہے اس کے ثبوت میں بہت احادیث ہیں اور اس کی ممانعت میں کوئی صحیح اور صریح حدیث نہیں ہے اور میں نے اس مسئلہ میں ایک رسالہ لکھا ہے جس میں احادیث اور عبارات علماء کو جمع کیا ہے اور مانعین کے توہمات کا زالہ کیا ہے۔

ان تمام تر عبارات ِ ائمہ اسلاف سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ نبی اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anhoکے لیے قیام کا حکم دیا اور اس سے تمام ائمہ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ کسی صاحب فضیلت کے لیے قیام تعظیمی کرنا جائز ہے۔

قیامِ تعظیمی صحابہRadi Allah Anhum کی سنت

قیامِ تعظیمی نہ یہ کہ صرف جواز کا درجہ رکھتا ہے بلکہ یہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی بھی سنت ہے کیونکہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے تعظیماً کھڑے ہوتے تھے چنانچہ حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho فرماتے ہیں :

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یجلس معنا فى المجلس یحدثنا فإذا قام قمنا قیاماً حتى نراه قد دخل بعض بیوت أزواجه.42
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھا کرتے ہم سے گفتگوکے لیے۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی کسی زوجہ مطہرہ کےحجرہ میں داخل ہوجاتے ۔

امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaihنے مسند احمد 43 اورامام نسائیRehmatullah Alaih نے اپنی دو کتابوں سنن نسائی 44 اورسنن الکبریٰ میں 45اس حدیث کو روایت کیا ہے اوریہ حدیث صراحتاً قیام تعظیمی پر دلیل ہے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ"حتی نراہ قد دخل بعض بیوت ازواجہ"یعنی "یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی کسی زوجہ مطہرہ کےحجرہ میں داخل ہوجاتے" میں واضح ثبوت ہے کہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumاس وقت تک سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم میں کھڑے رہتے جب تک کہ سرکار Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے گھر میں داخل نہ ہوتے اور یہی قیام تعظیمی ہے جوکہ در حقیقت صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی سنت ہے۔

اسی طرح اس حدیث مبارکہ کو جس دوسری سند سے روایت کیاگیا ہےاس میں یہ الفاظ آتے ہیں "قمنا لہ"یعنی صحابہ کرام Radi Allah Anhum فرماتے ہیں ہم سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے کھڑے ہوتے تھے جو کہ قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoفرماتے ہیں :

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا قام قمنا له.46
جب رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوتے تو ہم بھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam (کی تعظیم) کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

كنا نقعد مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بالغدوات فإذا قام إلى بیته لم نزل قیاما حتى یدخل بیته.47
ہم صبح کےاوقات میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مسجد نبوی میں ہی بیٹھا کرتے تھے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam گھر جانے کے لیے کھڑے ہوتے تو جب تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے گھر میں داخل نہ ہوجاتے ہم کھڑے رہا کرتے تھے۔

حدیث مبارکہ میں موجود الفاظ"لم نزل قیاما حتی یدخل بیتہ"کے الفاظ کے ساتھ امام بیہقیRehmatullah Alaih ،48امام ابن عساکر Rehmatullah Alaih49اور امام سیوطی Rehmatullah Alaih50 نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔یہ روایت بھی قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہے۔اسی طرح امام ابن مفلح مقدسی Rehmatullah Alaihنے قیام تعظیمی کے جواز پر جن احادیث کو پیش کیا ہے ان میں سے ایک یہ حدیث مذکورہ بھی ہے۔51

اسی طرح حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں :

ما رأیت أحدا أشبه سمتا ودلا وهدیا برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى قیامھا وقعودها من فاطمة بنت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قالت وكانت إذا دخلت على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قام إلیھا فقبلھا وأجلسھا فى مجلسه وكان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إذا دخل علیه قامت من مجلسھا فقبلتة وأجلسقة فى مجلسھا.52
میں نے چال چلن و خصلت و عادت اور اٹھنے بیٹھنے میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مشابہ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ Radi Allah Anhaسے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی یہ عادت تھی کہ جب وہ آتیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی جب ان کے پاس تشریف لےجاتےتو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوتیں بوسہ لیتیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی جگہ بٹھاتیں ۔ 53

اس میں بھی قیام تعظیمی کی صراحت موجود ہے چنانچہ اسی حوالہ سے ملا علی قاری Rehmatullah Alaihاس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

فیه ایمآء إلى ندب القیام لتعظیم الفضلآء والكبرآء.54
اس میں اشارہ ہے کہ اکابر وفضلاء کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا مندوب ہے۔

اس حدیث مبارکہ سے بھی یہی معلوم ہوا کہ فضلاء کے لیے قیام تعظیمی جائز ہے۔

حضرت جبریل Alaihis Salamکا تعظیماً کھڑا ہونا

حدیثِ جبریل 55 جس میں حضرت جبریل Alaihis Salam نے ایک آدمی کی شکل میں آکر حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سوالات کیے تھے اس میں بھی قیام تعظیمی پر دلیل موجود ہے اور اسی وجہ سے اس کو ذیل میں مکمل ذکر کیاجارہا ہے چنانچہ امام حارثی Rehmatullah Alaihروایت کرتے ہیں:

عن أبى حنیفة عن علقمة عن یحیى بن یعمر قال: بینا مع صاحب لى بمدینة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذ أبصرنا بعبد اللّٰه بن عمر فقلت لصاحبى هل لك أن نأتیه فنسأله عن القدر؟ قال: نعم فقلت: دعنى حتى أكون أنا الذى أسأله فإنى أعرف به منك قال: فانتھینا إلى عبد اللّٰه فقلت: یا أبا عبدالرحمن إنا نتقلب فى هذه الأرض فربما قدمنا البلدة بھا قوم یقولون لا قدر فبما نرد علیھم؟ قال: أبلغھم منى أنى منھم برى ولو أنى وجدت أعوانا لجاهدتھم ثم أنشأ یحدثنا قال: بینما نحن مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مومعه رهط من أصحابه إذا أقبل شباب جمیل أبیض حسن اللمة طیب الریح علیه ثیاب بیض فقال: السلام علیك یارسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم السلام علیكم قال: فرد علیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورددنا معه فقال: أدنو یارسول اللّٰه؟ قال: أدنه فدنا دنوة أو دنوتین ثم قام موقراً له ثم قال: أدنو یارسول اللّٰه؟ فقال: أدنه فدنا حتى الصق ركبته بركبة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: أخبرنى عن الإیمان قال: أن تؤمن باللّٰه وملائكته وكتبه ورسله ولقائه والیوم الآخر والقدر خیرہ وشره من اللّٰه فقال: صدقت قال فعجبنا من تصدیقه لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قوله صدقت كأنه یعلم قال: فاخبرنى عن شرائع الإسلام ماهى؟ قال: إقام الصلوة وایتاء الزكوة و حج البیت لمن استطاع إلیه سبیلا وصوم رمضان والاغتسال من الجنابة قال: صدقت فعجبنا لقوله صدقت قال: أخبرنى عن الإحسان ما هو؟ قال: الإحسان أن تعمل للّٰه كأنك تراه فان لم تكن تراه فانه یراك قال فاذا فعلت ذلك فانا محسن قال نعم قال صدقت قال فاخبرنى عن الساعة متى هى قال ما المسئول عنھا باعلم من السائل ولكن لھا شرائط فقال ان اللّٰه عنده علم الساعة وینزل الغیث ویعلم ما فى الارحام وما تدرى نفس ماذا تكسب غداً وما تدرى نفس باى ارض تموت ان اللّٰه علیم خبیر قال صدقت ثم انصرف ونحن نراہ قال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على بالرجل فقمنافى إثرہ فما ندرى أین توجه ولا رأینا شیئا فذكرنا ذلك للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: هذا جبرئیل أتاكم یعلمكم معالم دینكم واللّٰه ماأتانى بصورة إلا وأنا أعرفه فیھا إلا عذه الصورة.56
حضرت امام ابو حنیفہRehmatullah Alaih علقمہ بن مرثد الحضرمیRehmatullah Alaih سے وہ یحییٰ بن یعمر Rehmatullah Alaih سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں میں اپنے ہمراہی کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ طیبّہ میں قیام پذیر تھا کہ اچانک حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anha نظر آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا چاہتے ہو کہ ہم ان کے پاس جاکر تقدیر کا مسئلہ پوچھیں۔اس نے کہا جی ہاں! میں نے کہا رہنے دو میں خود جاکر ان سے پوچھتا ہوں تمہاری نسبت میرا ان سے زیادہ تعارف ہے ، یحییٰ بن یعمر Rehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم حضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhuma کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا اے ابو عبد الرحمن! ہم ایسی قوم ہیں کہ اس زمین پر سفر کرتے رہتے ہیں تو بعض اوقات ہم ایسے شہر میں جاتے ہیں جہاں ایک قوم تقدیر کا انکار کرنے والی ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو ہم کیا جواب دیں۔انہوں نے فرمایا ان لوگوں سے کہہ دو کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں اور اگر مجھے مدد گار (ساتھی) مل گئے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔پھر آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی، ارشاد فرمایا کہ ہم صحابہ کی ایک جماعت رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک نہایت سفید رنگ کا شخص جس کی زلفیں کندھوں پر لٹکی ہوئیں، خوشبو میں مہکتا ہوا سفید کپڑے پہنے ہوئے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر السلام علیک یا رسول اﷲ اور السلام علیکم کہا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بھی سلام کا جواب دیا اور ہم نے بھی پھر اس نے ادب سے کہا کہ کیا میں قریب آسکتا ہوں یا رسول اﷲ؟ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا آجاؤ تو وہ ایک دو قدم اور قریب ہوا۔ پھر کھڑے ہوکر دوبارہ پوچھا کہ یا رسول اﷲ کیا اور قریب ہوجاؤں؟ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ ہاں قریب آؤ وہ قریب آبیٹھا۔ اور اپنے گھٹنے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گھٹنوں سے جوڑ لیے۔ پھر بولا مجھے ایمان کی حقیقت بتائیے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر کے خیر و شرہونے کی دل سے تصدیق کرو۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔حضرت عبداﷲ کہتے ہیں کہ اس کا صدقت کہنا اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تصدیق کرنا ہمارے لیے حیرانی کا باعث ہوا۔ گویا کہ وہ پہلے سے جانتا ہے۔ پھر کہنے لگا مجھے ارکان اسلام کے بارے میں بتائیے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زکوۃ اداکرنا، بیت اﷲ کا حج کرنا جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت سے غسل کرنا۔اس نے کہا: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سچ فرمایا اور راوی فرماتے ہیں: ہمیں اس کی تصدیق پر تعجب ہوا گویا وہ جانتا ہے۔پھر اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے کہ وہ کیا ہے؟ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو ہر عمل کو اس طرح سر انجام دے کہ گویا اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اگر تجھ کو یہ حالت نصیب نہ ہو تو کم از کم یہ خیال کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: جب میں اس طرح عمل کرنے لگوں تو میں محسن ہوجاؤں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے عرض کی : آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں کہ وہ کب وقوع پذیر ہوگی؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا : جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا لیکن اس کی کچھ علامات نشانیاں ہیں پھر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی" بے شک قیامت کا علم اﷲ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کس سرزمین پر مرے گی، بے شک اﷲ تعالیٰ بہت جاننے والا خوب بتانے والا ہے"۔ اس نے کہا: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سچ فرمایا ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور ہم اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس بلا لاؤ۔ چنانچہ ہم اس کے تعاقب میں جانے کے لیے کھڑے ہوگئے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس طرف چلا گیا ہے اور نہ ہم اس کا کچھ نشان پاسکے سو ہم نے یہ بات نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ذکر کی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے وہ تمہیں تمہارے دین کے احکام سکھانے آئے تھے۔ اﷲ کی قسم وہ جس شکل و صورت میں بھی میرے پاس آئے میں نے انہیں پہچان لیا ماسوا اس شکل و صورت کے۔

مسند امام اعظم کی دیگر مرویات میں بھی "ثم قام موقراً لہ"کے الفاظ موجود ہیں چنانچہ امام ابن خسرو بلخی Rehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس آنے والے سے ارشاد فرمایا:

أدنه فدنا رتوة أو رتوتین ثم قام.57
قریب ہوجاؤ چنانچہ وہ ایک دو قدم آگے ہو گیا پھر نبی کے سامنے تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔

اسی طرح ان الفاظ کومسند امام اعظم کے ایک اور راوی امام خوار زمی Rehmatullah Alaihنے بھی روایت کیاہے 58 اوراس حدیث مبارکہ کے الفاظ "ثم قام موقرا لہ"میں قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہے۔

اس حدیث کو مسند احمد میں بھی نقل کیا گیا ہے جس میں امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaihان الفاظ کو بھی نقل کرتے ہیں:

قالذلك مراراً ما رأینا رجلا أشد توقیراً لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا.59
اس نے تکرارکےساتھ یہ کہاکہ ہم نے اس سے زیادہ نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عزت و توقیر کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔

امام ابن طہمان خراسانیRehmatullah Alaih کی روایت میں درج ذیل الفاظ منقول ہیں:

ولا أشد توقیراً لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم منه.60
اور(ہم نے) اس سےزیادہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تکریم کرنےوالانہیں دیکھا۔

امام مروزی Rehmatullah Alaihکی روایت میں تو یہاں تک منقول ہے کہ اس کی رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیےبے حد تعظیم و توقیر دیکھ کرہمیں حیرانی ہوئی چنانچہ ان کی روایت میں درج ذیل الفاظ منقول ہیں :

ثم قام فتعجبنا لتوقیره رسول اللّٰه.61
پھروہ کھڑاہو اوراس کےرسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ایسی توقیرکرنےپرہم حیران تھے ۔

ان مذکورہ تمام مروی عبارات سے یکساں طور پر یہ بات سامنے آتی ہےکہ قیام تعظیمی کےلیے کھڑا ہونا جائز ہے اور اس میں اور قیام عبادت میں یہی فرق ہے کہ عبادت کے لیے قیام اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ مختص ہے جبکہ قیام تعظیمی کسی بھی صاحب فضیلت کے لیے کیا جاسکتا ہے جس میں شرعی طور پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔

فرشتوں کے لیے کھڑا ہونا

حضرت انسRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

أن جنازة مرت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقام فقیل: إنھا جنازة یھودى فقال إنا قمنا للملائكة.62
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس جنازہ گزرا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوگئے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کہا گیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا ہم فرشتوں کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔

امام نسائی Rehmatullah Alaih نے اپنی دو کتابوں میں سنن نسائی63 اورسنن الکبریٰ 64میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اوراس حدیث میں موجود "انا قمنا للملائکۃ"کے الفاظ قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہیں۔فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے پر کئی احادیثیں موجود ہیں جن میں یہ واضح موجود ہے کہ قیام تعظیمی حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور صحابہ کرام Radi Allah Anha کی سنت مبارکہ ہے۔

قیام کا حکم تعظیم کے لیے تھا

یہ کھڑے ہونے کا حکم فرشتوں کی تعظیم کے لیے تھا اور خود بھی حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے اور صحابہ کرامRadi Allah Anha کو بھی فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا حکم دیتے بلکہ ایک حدیث میں اس طرح بھی مروی ہے کہ حضرت ثوبانRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

خرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى جنازة فرأى ناسا ركبانا فقال: ألا تستحیون أن ملائكة اللّٰه على أقدامھم وأنتم على ظھور الدواب.65
ہم نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ایک جنازے میں شریک ہوئے پس لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا کیا تم حیا نہیں کرتے کہ خدا کے فرشتے اپنے قدموں پر ہیں (یعنی پیدل چل رہے ہیں) اور تم جانوروں کی پیٹھوں (یعنی پشتوں) پر سوار ہو۔

امام ابوداؤدRehmatullah Alaih اس حدیث کو اپنی سند سے یوں روایت کرتےہیں:

عن ثوبان أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أتى بدابة وهو مع الجنازة فأبى أن یركبھا فلما انصرف أتى بدابة فركب فقیل له: فقال أن الملائكة كانت تمشى فلم أكن لأركب وهم یمشون فلما ذهبوا ركبت.66
حضرت ثوبانRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس جانور لایا گیادرآنحالیکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سوار ہونے سے انکار فرمایا پھر جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لوٹے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس جانور لایا گیا توآ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس پر سوار ہوگئے ۔اس کے بارے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پوچھا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ فرشتے اس جنازے کے ساتھ چل رہے تھے اس لیے میں سوار نہیں ہوا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں۔پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہوگیا۔

ان تمام احادیث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ کسی کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا جائز ہے خواہ وہ آنکھوں کے سامنے موجود نہ ہو تب بھی کھڑا ہواجاسکتا ہے۔

کسی غائب کے لیے قیامِ تعظیمی

اگر وہ ذات جس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہواجائے وہ آنکھوں کے سامنے موجود نہ بھی ہو تب بھی اس کےلیے قیام تعظیمی جائز ہے چنانچہ اس حوالہ سے ذیل میں درج حدیث مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن عمروRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

سأل رجل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال یا رسول اللّٰه تمر بنا جنازة الكافر أفنقوم لھا؟ فقال: نعم قوموا لھا فإنكم لستم تقومون لھا إنما تقومون إعظاماً یقبض النفوس.67
ایک آدمی نے نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پوچھا یا رسول اﷲ! اگر ہماے پاس سے کسی کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم کھڑے ہوجائیں؟ نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:ہاں اس وقت بھی کھڑے ہوجایا کرو تم کافر کے لیے کھڑے نہیں ہورہے تم اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہورہے ہو جو روح کو قبض کرتی ہے۔

امام طحاوی Rehmatullah Alaihنے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے 68 اور اس میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ کسی ایسے شخص کے لے قیامِ تعظیمی کرنا جو کہ آنکھوں کے سامنے موجود نہ ہو تب بھی یہ قیام تعظیمی کرنا جائز ہے۔

اسی طرح کوئی کسی پیارے کا ذکر سنے یا کوئی اور خوشی کی خبر سنے تو اسی وقت کھڑا ہوجانا بھی مستحب اور سنت صحابہRadi Allah Anhum ہونے کے ساتھ ساتھ سنت اسلاف رحمۃ اللہ علیہم بھی ہےچنانچہ اس حوالہ سے صریح حدیث درج ذیل ہے جس ميں منقول ہے کہ نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وفات کے بعد حضرت عثمانRadi Allah Anho انتہائی غمزدہ تھے یہاں تک کہ حضرت عمر Radi Allah Anhoکے گزرنے اور ان کے سلام کرنے کا بھی انہیں معلوم نہ ہوسکا۔پھر حضرت ابو بکرRadi Allah Anhoکی بیعت خلافت کے بعد جب حضرت عثمان Radi Allah Anhoسے حضرت ابوبکر Radi Allah Anhoنے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا مجھے معلوم ہی نہیں کہ حضرت عمر Radi Allah Anhoکب گزرے اور انہوں نے کب سوال کیا۔پھرحضرت عثمان Radi Allah Anhoنے شیطانی وساوس کے بارے میں حضرت ابو بکر Radi Allah Anhoسےکہا:

توفى اللّٰه عزوجل نبیه صلى اللّٰه عليه وسلم قبل أن نسأله عن نجاة هذا الأمر قال أبوبكر قد سألته عن ذلك قال فقمت إلیه فقلت له بأبى أنت وأمى أنت أحق بھا.69
اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنے پاس بلالیا اور میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس (شیطانی وساوس) سے صحیح سالم نجات پانے کا کیا راستہ ہوگا؟ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے معلوم کرچکا ہوں یہ سن کر میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اس کے متعلق دریافت کرنے کے زیادہ حقدار تھے۔ 70

امام ابوبکر عبد الرزاقRehmatullah Alaih نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے71 اور اس میں وضاحت بھی موجود ہےکہ حضرت عثمان Radi Allah Anhoنے نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سوال نہ کرسکنے کی حسرت کی بنا پر صدیق اکبر Radi Allah Anhoسے اپنا مدعا بیان کیااورجواب ملنے پر حضرت عثمانRadi Allah Anho فرطِ محبتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں کھڑے ہوگئے تھے اور قیامِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی اسی فرطِ محبتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وجہ سےہوتا ہے۔

قیامِ میلاد کی وجوہات

محفل میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں قیام درج ذیل وجوہات کی بنا پر کیا جاتا ہے جن کی تفصیل بالترتیب ذیل میں ذکر کی جارہی ہیں:

  1. یہ قیام ذکر ولادت کی تعظیم کے لیے ہے۔
  2. حدیث کے مطابق نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی جان، اولاد، والدین اور مال ومتاع سب سے زیادہ محبوب ہونے چاہیے ۔
  3. ذکر ولادت پر کھڑا ہونا سنت سلف صالحین ہے۔
  4. ولادت پاک کے وقت ملائکہ درِدولت پر کھڑے ہوئے تھے اس لیے ولادت کے ذکر پر کھڑا ہونا فعل ملائکہ سے مشابہ ہے۔
  5. حضور Alaihis Salamنے اپنے اوصاف ، اپنا نسب شریف اور اپنا تذکرۂِ ولادت منبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا تو اس قیام کی اصل یہ قیامِ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہے جس کی وجہ سے مسلمان ذکرِ ولادت کے وقت کھڑے ہوکراس سنت نثرونظم میں پورا کرتے ہیں۔
  6. شریعت نے اس کو منع نہیں کیا اور ہر ملک کے عام مسلمان اس کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے۔
  7. اﷲ تعالیٰ نےجمیع انسانیت کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کا حکم دیا ہے اور قیامِ میلاد بھی تعظیم میں شامل ہے۔
  8. جس چیز کو دینی عظمت حاصل ہو وہ شعائر اﷲ ہیں ان کی تعظیم کرنا ضروری ہے اور ذکر ولادت بھی شعائر اﷲ ہے لہٰذا اس کی تعظیم کے لیے قیام کرنا ہی بہتر ہے۔

قیام ِمیلاد کی پہلی وجہ اوراس کی تفصیل

میلاد شریف میں درود و سلام کھڑے ہوکر پڑھنا ایک مستحب عمل ہے۔ اس میں معلم و مقصود کائنات Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم اور توقیر بھی ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کا اظہار بھی کیونکہ معلمِ کائنات Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت اصلِ ایمان ہے۔میلاد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہو یا قیام میلاد وغیرہ یہ سب حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم و محبت سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر وہ تعظیم جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو چنانچہ امام احمد رضا خان القادری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم و توقیر مسلمان کا ایمان ہے اور اس کی خوبی قرآن عظیم سے مطلقاً ثابت ہے۔۔۔پس بوجہ اطلاق آیات حضور اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم جس طریقے سے کی جائے گی حسن و محمود رہے گی اور خاص خاص طریقوں کے لیے ثبوت جدا گانہ درکار نہ ہوگا۔ ہاں اگر کسی خاص طریقہ کی برائی بالتخصیص شرع سے ثابت ہوجائے گی تو وہ بے شک ممنوع ہوگا جیسے حضور اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سجدہ کرنا یا جانوروں کو ذبح کرتے وقت بجائے تکبیر حضور کا نام لینا۔ 72

قیام ِمیلاد کی دوسری وجہ

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم ومحبت ایمان کی اصل ہے اﷲ رب العالمین کی محبت و عظمت کے بعد مومن کے پاس اصل سرمایہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت و عظمت ہے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت ہی کی وجہ سے ہر اس شے کی عظمت و محبت ہوگی جسے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جانب ادنی انتساب اور وابستگی ہوگی۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہم پر اپنی ذات اقدس اور اپنی وحدانیت کی تصدیق کے ساتھ دیگر اشیاء لازم کیں ہیں مثلاً ہمارے دلوں میں اس کی تعظیم، اجلال، ہیبت، خوف، رضا، توکل وشکر ہو ہماری زبانوں پر اس کی ثناء، ذکر، حمد وقرأت اور ہمارے جوارح سے نماز جیسے اعمال ہوں۔اسی طرح اس نے اپنے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات کی اور رسالت کی تصدیق کے ساتھ یہ چیز بھی لازم کی ہے مثلاً ہمارے دلوں میں ان کی تعظیم، توقیر ومحبت، ہماری زبانوں پر درود، اذان، نماز، خطبہ میں شہادت رسالت اور ہمارے جوارح پر لازم ہے کہ ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی ہر شیٔ سے مقدم جانیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے ہر شیٔ قربان کردیں ۔ اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے ہم پر فرض کیا اسے نبھائیں ۔اسی حوالہ سے امام زرقانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

اعلم أن المحبة كما قال صاحب "المدارج" هى المنزلة التى يتنافس فيھا المتنافسون وإليھا يشخص العاملون، وإلى علمھا شمر السابقون وعليھا تفانى المحبون وبروح نسيمھا بروح العابدون فھى قوت القلوب وغذاء الأرواح وقوة العيون وهى الحياة التى من حرمھا فھو من جملة الأموات والنور الذى من فقده فى بحار الظلمات والشفاء الذى من عدمه حلت بقلبه جميع الأسقام واللذة التى من لم يظفر بھا فعيشه كله هموم وآلام وهى روح الإيمان والأعمال والمقامات والأحوال التى متى خلت منھا فھى كالجسد الذى لا روح فيه تحمل أثقال السائرين إلى بلد لم يكونوا إلا بشق الأنفس بالغيه وتوصلھم إلى منازل لم يكونوا بدونھا أبدًا وأصليھا وتبوؤهم من مقاعد الصدق إلى مقامات لم يكونوا لولا هى داخليھا وهى مطايا القوم التى سراهم فى ظھورها دائمًا إلى الحبيب وطريقھم الأقوم الذى يبلغھم إلى منازلھم الأولى من قريب تاللّٰه لقد ذهب أهلھا بشرف الدنيا والآخرة إذ لھم من معيةمحبوبھم أوفر نصيب.73
جان لو کہ بے شک مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت (جیسا کہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں کہا ہے) ایسا بلند مرتبہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے میں سبقت کرنے والے سبقت لے جاتےہیں اور اس کے حاصل کرنے میں عاملین مجتہدین اپنی نظریں اٹھاتے ہیں اور اس کی معرفت کے لیے سابقین کوشش کرتے ہیں ، اسی حب مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے عالی رتبہ حاصل کرنے میں عشّاقانِ سیّدِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک دوسرے سے غلبہ چاہتے ہیں۔ اسی حب نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نسیم کی راحت سے عابد لوگ راحت پاتے ہیں۔ یہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت دلوں کی خوراک ، روحوں کی غذا اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ یہ حب محبوب خدا وہ حیات ہے جو اس سے محروم ہے وہ مُردوں میں شمار ہے۔ یہ وہ نور ہے کہ جس کے پاس یہ مفقود ہے تو وہ تاریکیوں (ظلمات) کے سمندروں میں غرق ہے۔ یہ وہ شفا ہے جس کے پاس یہ معدوم ہے تو اس کے دل میں تمام امراض طویلہ داخل ہوگئے۔ یہ وہ لذّت ہے جو اس سے محروم رہا تو اس کا سلب عیش غموں اور دردوں والا ہوا۔ یہ حب حبیب خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایمان، اعمال (صالحہ) ،مقامات (عُلیہ)، حالات (رفیعہ)، کی وہ روح ہے جب یہ چاروں اس حب نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے خالی ہوں تو یہ چاروں چیزیں اس جثہ کی طرح ہیں کہ جس میں روح نہ ہو۔یہ سرکار Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےشہرکی طرف سیر کرنے والوں کے بوجھ کو اٹھاتی ہے جس تک وہ اپنی جانوں کومشقت دیے بغیر نہیں پہنچ سکتے اور یہ حب نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کو ایسے منازل عالیہ و مقامات رفیعہ تک پہنچادیتی ہے کہ اس حب رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بغیر وہ کبھی ان منازل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ یہ حب محبوب خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کو ملیک مقتدر کے حریم قدس میں مجالس صدق کے ایسے مقامات میں بٹھاتی ہے کہ وہ واصلین حضرت الوہیت اس حب حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بغیر کبھی اس میں داخل نہ ہوسکتے۔ یہ حب مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قوم واصلین الی اﷲ کی وہ سواری ہے کہ ان کو اپنے ظہور اور نورانیت میں رات کے اول اور درمیانے اور آخری حصہ میں ہمیشہ محبوب حقیقی کے میدان قرب میں سیر کراتی ہے ۔ یہ وہ مضبوط راستہ ہے کہ ان کو پہلی منزل یعنی بہشت میں عنقریب بغیر دخول عذاب کے پہنچادے گا۔ اﷲ کی قسم محبین و عشاقانِ سیّد عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دارین کا شرف لے گئے اس لیے کہ ان کو حب حبیب خدا کی وجہ سے معیت محبوب سے وافر حصہ ملا (اگرچہ بظاہر دور ہیں بباطن ہر وقت پیش حضور ہیں)۔

اسی طرح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت کے حوالہ سے حضرت انسRadi Allah Anho روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

لا یؤمن أحدكم حتى أكون أحب إلیه من والده و ولده والناس أجمعین.74
تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والدین، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے عزیز تر نہ ہوجاؤں۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

ثلاث من كن فیه وجد حلاوة الإیمان: أن یكون اللّٰه ورسوله أحب إلیه مما سواهما، وأن یحب المرء لا یحبه إلا للّٰه، وأن یكره أن یعود فى الكفر كما یكره أن یقذف فى النار.75
تین باتیں جس میں ہوں گی وہ حلاوت ِایمان پاجائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مؤمن کے نزدیک اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سب سے زیادہ محبوب ہوں اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے کرے ۔ تیسری بات یہ کہ کفر سے نجات پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتاہو۔

اس حدیث میں ایمان کی بنیاد اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت کو بتایا گیا ہے اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کرکے اس کی غیر معمولی اہمیت بھی بتادی گئی ہےجس سے واضح ہوجاتا ہے کہ محبت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اصل ایمان ہے۔ اسی حوالہ سے علامہ سراج الدین شامیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

إن اللّٰه تعالٰى أوجب على المؤمنین أن یحبوا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فوق محبة الآباء والأبناء والأزواج والعشیرة والتجارة والأموال وأوعد من تخلف عن تحقیق ذلك بالعقاب فقال سبحانه: قل إن كان آباء كم وأبناء كم وإخوانكم الآیة ولاریب أن أسباب المحبة ترجع إلى أنواع الجمال والكمال والنوال كما قرره الإمام الغزالى وغیره. فإذا كان الرجل یحب لكرمه أو بشجاعته أو لحلمه أو لعلمه أو لتواضعه أو لتعبده أو تقواه أو لزهده وورعه أو لكمال عقله أو وفور نعمه أو جمال أدب أو حسن خلقه أو فصاحة لسانه أو حسن معاشرة أو كثرة بره و خیره أو لشفقته ورحمته أو نحو ذلك من صفاة الكمال فكیف إذا تأصلت واجتمعت هذه الصفات الكاملة وغیرها من صفات الكمال فى رجل واحد وتحققت فیه أوصاف الكمال ومحاسن الجمال على أكمل وجوهھا ألا و هوالسیّد الأكرم سیّدنا محمدصلى اللّٰه عليه وسلم الذى هو مجمع صفات الكمال ومحاسن الخصال قد أبدع اللّٰه تعالى صورته العظیمة وهیئته الكریمة وطوى فیه أنواع الحسن والبھاء بحیث یقول كل من نعته لم یرقبله ولا بعده مثله.76
اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر یہ لازم و واجب کردیا ہے کہ وہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے والدین، اولاد، بیوی، خاندان، تجارت اور اموال سے بڑھ کر محبوب سمجھیں اور اس کے خلاف کرنے والے کو عذاب کی وعیدسنائی ہے۔ارشاد ربانی ہے: اے محبوب فرمادیجیے اگر تم اپنے والدین اولاد اور بھائی۔۔۔ (الی آخر الآیۃ) اور اسباب محبت کی وجوہ یہ ہی ہوسکتی ہیں حسن وجمال، کمال اور احسان۔ امام غزالی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ جب کسی آدمی سے اس کی ایک صفت کی وجہ سے محبت کی جاتی ہے مثلاً اس کاکرم یا اس کی بہادری، حلم یا علم ،تواضع یا عبادت وتقویٰ اور زہد وورع، کمالِ عقل یابہتر فہم ، جمالِ ادب یا حسنِ اخلاق، فصاحتِ زبان یابہتر برتاؤ ، کثرت ِنیکی یاشفقت و رحمت یا اس کی مثل کسی اور وجہ سے۔پھر جب یہ تمام صفات ایک شخصیت میں جمع ہوجائیں اور یہ تمام اوصاف و محاسن اپنے شباب وکمال پر بھی ہوں تو اس وقت اس شخصیت سے محبت کا عالم کیا ہوگا ۔یہ شخصیت ہمارے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمام صفات کاملہ اور محاسن فاضلہ کے جامع ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عظیم ہیت و صورت اتنے احسن انداز پر بنائی ہے کہ تمام حسن وجمال کی خوبیاں اس طرح جمع ہوگئی ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وصف بیان کرنے والا ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مثل نہ کبھی پہلےدیکھا اورنہ بعد۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم ومحبت ایمان کی اصل ہے اور کھڑے ہوکر درود شریف پڑھنا یہ بھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کی ایک دلیل ہے۔ نیز اس عمل میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ادب اور اجلال کا اظہار ہے اور ہر وہ فعل جس سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ادب اور اجلال کا اظہار ہوتا ہو اس کا کرنا فقہاء کے نزدیک مستحسن ہے چنانچہ امام الہمام حنفیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

و ما یفعله بعض الناس من النزول بقرب من المدینة والمشى على أقدامه إلى أن یدخلھا حسنٌ، وكل ما كان أدخل فى الأدب والإجلال كان حسنا.77
بعض لوگ مدینہ کے قریب سواری سے اترجاتے ہیں اور پیدل چل کر مدینہ میں داخل ہوتے ہیں ان کا یہ فعل مستحسن ہے اور ہر وہ فعل جس کا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ادب اور اجلال میں زیادہ دخل ہو اس کو کرنا مستحسن ہے۔

اسی طرح اس حوالہ سے امام ابن حجر مکی الہیتمی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

جس نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم و شان میں مبالغہ کیا ہر اس طریقہ سے جس سے تعظیم میں اضافہ ہو اور یہ مبالغہ ذات باری تعالیٰ تک نہ لے جائے تو وہ حق تک پہنچا اور اس نے اﷲ کی ربوبیت اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رسالت کی حدوں کی پاسداری کی اور یہ وہ قول ہے جو کہ افراط و تفریط سے مبرّاءاور پاک ہے۔78

اﷲ رب العالمین کی محبت و عظمت کے بعد مومن کے پاس اصل جو سرمایہ ہے وہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت و عظمت ہے اور جس قدر یہ محبت و عظمت دل و دماغ میں راسخ ہوگی اسی قدر دیار رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زیارت کی اہمیت اور فوقیت نمایاں اور آشکارا ہوگی۔ اﷲ رب العالمین کی محبت و عظمت کے ساتھ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت و عظمت ایک لازمی اور فطری تقاضا ہے اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت و عظمت کے بعد ہر اس شے کی عظمت و محبت ہوگی اور شوق واشتیاق ہوگا جسے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جانب ادنی انتساب اور وابستگی ہوگی۔ 79 اسی طرح امام عبد الوہاب شعرانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

ثم إعلم أن كل ما مال إلى التعظیم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا ینبغى لاحد البحث فیه ولا المطالبة بدلیل خاص فیه فإن ذلك سوء أدب فقل ما شئت فى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على سبیل المدح لا حرج.80
پھر اس بات پر یقین رکھ کہ (ہرقول، فعل، تقریر، تحریر) وہ چیز جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کی طرف مائل ہو کسی کو بھی اس میں بحث ومباحثہ سے گریز کرنا چاہیےاور نہ ہی اس ضمن میں کسی مومن کی یہ شان ہے کہ وہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم پر دلیل کو طلب کرےکیونکہ یہ بلاشک وشبہ بے ادبی ہے توجوجی چاہے حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حق میں بطریق مدح بیان کر کہ اس میں کسی قسم کا حرج نہیں۔

اس حوالہ سے امام سبکیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

أمر علی الدیار دیار لیلی
أقبل ذا الجدار و ذا الجدار
و ما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا .81
میں لیلیٰ کے مکانات پر سے گزرتا ہوں تو اس دیوار اور اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں۔ مکانات کی محبت نے میرے دل کو نہیں گھیرا، لیکن اس کی محبت نے جو ان مکانات میں رہا۔

ان تمام مذکورہ بالا عبارات کا خلاصہ یہ ہوا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت چونکہ اصل ایمان ہے لہذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ادنی تعلق رکھنے والی اشیاء کی تعظیم بھی ایمان ہی کاحصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں قیام کرتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود وسلام پڑھاجاتا ہے اور یہ قیام بھی اسی تعظیم وتوقیر رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سبب ہے۔

قیامِ میلاد کی تیسری وجہ

ذکر ولادت پر کھڑا ہونا سنت سلف صالحین ہے تمام مسلمان میلاد شریف کو بڑی عقیدت سے مناتے تھے اور اس میں قیام بھی کرتے تھے چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلویRehmatullah Alaih جلیل القدر محدث کا بھی یہی عمل رہا ہے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا عمل

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے تذکرہ والی مجلس میں خود شیخ عبدالحق محدث دہلویRehmatullah Alaih کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ آپ بھی اس میں قیام فرماتے تھے چنانچہ اپنی کتاب میں خود اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

اے اﷲ میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جسے آپ کے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں میرے تمام اعمال میں فساد نیت موجود رہتی ہے۔ البتہ مجھ حقیر فقیر کا ایک عمل صرف تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی وانکساری محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود و سلام بھیجتا رہا ہوں۔اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے زیادہ تیری خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے؟ اس لیے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بیکار نہ جائے گا بلکہ یقیناً بارگاہ میں قبول ہوگا اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے ذریعہ دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔82

یعنی شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaihکو اپنے اعمال جن میں علم ِحدیث وفقہ وغیرہ کی خدمت شامل ہے ان سب کے باوجود اس پر ناز ہے کہ وہ میلاد شریف مناتے ،اس میں قیام کرتے ہوئےدرود شریف پڑھتے ہیں ۔ یعنی تقریباًپانچ سو (500) سال پہلے بھی ہندوستان کی سرزمین پر میلاد شریف اور اس میں قیام کو بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم مناتے تھے اور اس میلاد اور قیام کو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک محبوب اور مقبول عمل سمجھتے تھے۔

ساتویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث امام سبکی Rehmatullah Alaihسے بھی حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ذکرِ مبارک سن کر تعظیماً کھڑے ہونا ثابت ہے ۔آپ مسلمہ امام، محقق، حافظ، مفسر، مجتہد، متکلم، أصولی، نحوی، مناظر، قاضی القضاۃ اورشیخ الاسلام ہیں اور آپ کا پورانام تقی الدین أبو الحسن علی بن عبد الکافی سبکی شافعیRehmatullah Alaih ہے۔آپRehmatullah Alaihکے بحرالعلوم ہونے پر سب کا اتفاق ہے چنانچہ صاحب طبقات الشافعیۃ اس کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ولایختلف اثنان فى أنه البحر الذى لایساجل فى ذلك.83
کسی کا اس میں اختلاف نہیں کہ آپ(علوم کا ) ایسا سمندر ہیں جن کااس (میدان)میں کوئی مقابلہ نہیں۔

اسی طرح امام ابن حجر مکی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

الإمام المجمع على جلالته واجتھاده.84
وہ امام (سبکی Rehmatullah Alaih )جن کی جلالتِ علمی و اجتہاد پر اجماع ہے۔

ایک اور مقام پر امام تاج الدین سبکی Rehmatullah Alaihتحریرفرماتے ہیں:

ولا یختلف اثنان فى أنه أعلم أهل الأرض فى كل علم.85
اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ آپ تمام علوم میں اہلِ زمین کےسب سے بڑے عالم ہیں۔

اتنے بڑے عالم نے بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تذکرہ کے وقت قیام کیا ہے اور آپ کے ساتھ ساتھ تمام ہم عصر علماء نے بھی اسی طرح قیام کیا چنانچہ امام برہان الدین الحلبی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

ومن الفوائد انه جرت عادة كثیر من الناس بذكر وضعه صلى اللّٰه عليه وسلم أن یقوموا تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم وهذا القیام بدعة لا أصل لھا أى لكن هى بدعة حسنة لأنه لیس كل بدعة مذمومة وقد قال سیّدنا عمر فى اجتماع الناس لصلاة التراویح نعمت البدعة وقد قال العز بن عبد السلام أن البدعة تعتریھا الأحكام الخمسة وذكر من أمثلة كل مایطول ذكره ولا ینا فى ذلك قوله صلى اللّٰه عليه وسلم إیاكم ومحدثات الأمور فإن كل بدعة ضلالة وقوله صلى اللّٰه عليه وسلم من أحدث فى أمرنا أى شرعنا مالیس منه فھو ورد علیه لأن هذا عام أرید به خاص فقد قال إمامنا الشافعى قدس اللّٰه سره ما أحدث و خالف كتابا أوسنة أو إجماعا أو أثرها فھو البدعة الضلالة وما أحدث من الخبر...لم یخالف شیئا من ذلك فھو البدعة المحمودة وقد وجد القیام عند ذكر اسمه صلى اللّٰه عليه وسلم من عالم الأمة ومقتدى الأئمة دینا وورعا الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشایخ الإسلام فى عصر وفقد حكى بعضھم أن الإمام السبكى اجتمع عنده جمع كثیر من علماء عصره فانشد منشد قول الصرصرى فى مدحه صلى اللّٰه عليه وسلم:
قلیل لمدح المصطفی الخط بالذھب
علی ورق من خط أحسن من كتب
وأن ینھض الأشراف عند سماعه
قیاما صفوفا أو جثیا علی الركب
فعند ذلك قام الإمام السبكى رحمه اللّٰه وجمیع من فى المجلس فحصل أنس كبیر بذلك المجلس ویكفى مثل ذلك فى الاقتداء.86
اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہ عادت جاری ہوگئی ہے کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیدائش مبارک کا ذکر سنا فوراً حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور یہ قیام بدعت ہے۔ جس کی کوئی اصل نہیں۔ یعنی بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔حضرت عمر نے تراویح کی جماعت قائم کرکے فرمایا یہ اچھی بدعت ہے اور علامہ عزالدین ابن سلام نے فرمایا بدعت کی پانچ قسمیں ہیں اور بدعت کی یہ اقسام رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس حدیث کے خلاف نہیں ہیں جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ نئے کاموں سے بچو کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور جس نے ہمارے امر (دین) میں ایسا کام ایجاد کیا جو اس سے نہ ہو وہ مردود ہے۔ ان احادیث میں بدعت کا عام معنی نہیں بلکہ خاص معنی مراد ہے (یعنی بدعت سیئہ) ہمارے امام شافعی Rehmatullah Alaihنے فرمایا جو چیز کتاب، سنت، اجماع یا اقوال صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعت ضلالہ ہے اور جو نیک کام ایجاد کیا جائے اور وہ ان (اصول شرعیہ) کے خلاف نہ ہو بدعت محمودہ ہے۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذکر مبارک کے وقت (آسمانی مخلوقات اور ملائکہ کا)قیام پایا گیا ہے۔ امت محمدیہ کے جلیل القدر عالم امام تقی الدین سبکی Rehmatullah Alaihجو دین اور تقویٰ میں ائمہ کے مقتداء ہیں ،اس پر ان کے دور کے ہمعصر تمام علماء و مشائخ اسلام نے ان کی اتباع کی چنانچہ منقول ہے کہ امام سبکی Rehmatullah Alaihکے پاس ان کے ہمعصر علماء کرام بکثرت جمع ہوئے۔ ایک مداح رسول نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدح میں امام صرصریRehmatullah Alaihکے یہ اشعار پڑھے: اگر چاندی پر سونے کے حروف سے بہترین کاتب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدح لکھے تب بھی کم ہے۔ بیشک عزت و شرف والے لوگ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ذکر جمیل سن کر صف بستہ قیام کرتے ہیں یا گھٹنوں پر دوزانو ہوجاتے ہیں۔یہ اشعار سن کرامام سبکی اور تمام اہل مجلس مشائخ وعلماء بھی کھڑے ہوگئے اور اس وقت بڑا انس حاصل ہوا۔ مجلس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس قسم کے واقعات مشائخ علماء کی اقتداء کے بارے میں کافی ہوتے ہیں۔

اس حوالہ سے امام احمد رضا خان القادریRehmatullah Alaih تحریر کرتے ہیں کہ یہ امام صرصری صاحب قصیدہ نعتیہ وہ ہیں جنہیں علامہ محمد بن علی شامی نے سبل الہدی والرشاد میں اپنے زمانہ کا حسان اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا محبِ صادق فرمایا اور امام اجل حضرت امام الائمہ تقی الملۃ والدین سبکیRehmatullah Alaih کی جلالت شان ورفعت مکان تو آفتاب نیروز سے زیادہ روشن ہے یہاں تک کہ مانعین کے پیشوا مولوی نذیر حسین دہلوی اپنے ایک مہری فتوے میں ان کوبالاجماع امامِ جلیل و مجتہدِ کبیر تسلیم کرتے ہیں اور اس زمانے کے اعیانِ علماء و مشائخِ اسلام کا ان کے ساتھ اس پر موافقت فرمانا بحمداﷲ تعالیٰ متبعین سلف صالحین کے لیے ایک کافی سند ہے جس کو دیکھتے ہوئے علامہ حلبی نے ارشاد فرمایاکہ اقتداء کے لیے اس قدر کثیر علماء کا عمل کافی ہے۔87

جن اشعار کو سن کر بطور تعظیماً امام سبکی Rehmatullah Alaihکھڑے ہوئے تھے یہ اشعار بقول امام ذہبی " سیّد الشعراء" 88 امام صرصری حنبلی Rehmatullah Alaihکے قصیدہ کے ہیں جن کے بارے میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

الصرصرى المادح یحیى بن یوسف بن یحیى بن منصور بن المعمر بن عبد السلام الشیخ الإمام العلامة البارع جمال الدین أبو زكریا الصرصرى الشاعر المادح الحنبلى البغدادى وشعره فى مدائح رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مشھور ودیوانه فى ذلك معروف غیر منكور ولد سنة ثمان وثمانین وخمسمائة وسمع الحدیث والفقه واللغة ویقال أنه كان یحفظ صحاح الجوهرى بكمالھا وصحب الشیخ على بن ادریس تلمیذ الشیخ عبد القادر وكان ذكیا یتوقد ینظم على البدیھة سریعا أشیاء حسنة فصیحة بلیغة وقد نظم الکافى للشیخ موفق الدین بن قدامة ومختصر الخرقى وأما مدائحه فى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فیقال أنھا تبلغ عشرین مجلدا.89
امام یحییٰ بن یوسف بن یحییٰ بن منصور بن المعمر بن عبد السلام شیخ امام علامہ، جو کئی قسم کے علوم میں یکتا فاضل تھے جمال الدین ابو زکریا الصرصری فاضل مادح، حنبلی، بغدادی، آپ کے اشعار کا بڑا حصہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدح میں ہے اور آپ کا دیوان اس بارے میں مشہور و معروف ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ لغت میں آپ کو صحاح الجوہری مکمل طور پر حفظ تھی اور آپ نے شیخ عبد القادر Rehmatullah Alaihکے شاگرد شیخ علی بن ادریس Rehmatullah Alaihکی صحبت اختیار کی۔ آپ تیز فہم تھے اور نور سے منورتھے اور آپ فی البدیہہ سرعت کے ساتھ فصیح و بلیغ اشعار نظم کرتے تھے اور آپ نے موفق الدین بن قدامہ کی تالیف الکافی اور مختصر الخرقی کو بھی نظم کیا ہے اور حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں آپ کی جو مدائح ہیں ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بیس جلدوں تک پہنچتی ہیں ۔

امام صرصری نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خواب میں زیارت بھی کی تھی چنانچہ امام ابن رجب حنبلی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

أبوزكریا شاعر العصر وصاحب الدیوان السائر فى الناس فى مدح النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فكان حسان وقته… وكان قد رأى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى منامه وبشره بالموت على السنة ونظم فى ذلك قصیدة طویلة معروفة.90
ابوزکریا شاعر ِعصراورحسّانِ وقت نعت نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےایسےشاعرتھےجن کا دیوان لوگوں میں رائج رہا۔انہوں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خواب میں دیکھاآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں موت بر سنت کی خوشخبری دی، انہوں نےاس پرمشہورطویل قصیدہ تحریرفرمایا۔

اسی طرح یحیی بن یوسف اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

وكان قدر آہ صلى اللّٰه عليه وسلم فى منامه قال الشیخ رحمه اللّٰه تعالىٰ ورضى عنه فلما رأیته صلى اللّٰه عليه وسلم قبلت فمه الشریف وقلت أشھد أن هذا الفم الذى أنزل علیه الوحى وقال لى صلى اللّٰه عليه وسلم وأنا أشھد أنك مت على السنة بلفظ الماضى فاستیقظ من منامه وشرع فى نظم هذه القصیدة الشریفة بمدحه صلى اللّٰه عليه وسلم ویذكر فیھا اعتقادہ ویمدح الصحابة العشرة كل واحد منھم على انفرادة.91
انہوں نے نبی اکر م Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خواب میں دیکھاتھا۔ شیخ رحمہ اللہ نے کہاجب میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کودیکھاتو میں نے ان کےمنہ شریف کابوسہ لیااورکہامیں گواہی دیتاہوں کہ بےشک یہ وہ منہ مبارک ہےجس پروحی نازل ہوئی(اورانہوں نے مجھ سے فرمایا)اورمیں گواہی دیتاہوں کہ تم سنت پرفوت ہوئےہو۔ماضی کےلفظ سےفرمایا۔پس وہ(شیخ)نیندسےبیدارہوگئےاورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شان میں قصیدۃ شریفہ لکھنا شروع کردیا۔جس میں وہ اپناعقیدۃ بیان کرتےہیں اورفردافردا عشرہ مبشرہ کی بھی مدح سرائی کرتے ہیں۔

علامہ خلیفہ رومیRehmatullah Alaih اپنی مشہور کتاب "کشف الظنون" میں امام صرصری حنبلیRehmatullah Alaih کے اس دیوان کے بارے میں لکھتے ہیں:

دیوان الصرصرى هو الشیخ جمال الدین أبى زكریا یحیى بن یوسف الصرصرى الضریر الحنبلى المتوفى سنة ست و خمسین وستمائة فى الزهد ومدح النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.92
دیوان صرصری جمال الدین ابو زکریا یحیى بن یوسف صرصری الضریر حنبلی متوفی چھو سو چھپن (656ھ) زہد اورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نعت ومدح میں تالیف ہے۔

یعنی کہ امام تقی الدین السبکی Rehmatullah Alaihامام صرصری جو انتہائی متقی وعالم شخص تھے ان کے کہے گئے اشعار پر نہ یہ کہ صرف خود تعظیماً کھڑے ہوئے بلکہ آپRehmatullah Alaihکی اقتداء میں تمام موجود معاصرعلمائےعظام نے بھی قیام کیا ۔

امام برزنجی کا قول

قیام میلادالنبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مستحسن ہونے کے بارے میں مدینہ منوّرہ کے عظیم عالم دین امام علامہ سیّد جعفر بن حسن برزنجی المدنی المتوفی 1177ہجری لکھتے ہیں:

قد استحسن القیام عند ذكر مولد الشریف ائمة ذو روایة ودرایة طوبى لمن كان تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم غایت مرامه ومرماه.93
بے شک حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذکر ِولادت کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن سمجھا ہے جو صاحب روایت ودرایت تھے تو شادمانی اس کے لیے ہے جس کی مراد و مقصودخالصتاً حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم ہے۔

اسی طرح شیخ عبد الرحیم السیوطی الجرجانی المالکی اپنی کتاب"شرح المولد البرزنجی" میں لکھتے ہیں:

أى عدہ حسنا وحكم باستحبابه شرعا.94
یعنی انہوں نے اسے حسن شمارکیا اورشرعی طورپرمستحب ہونےکا حکم دیا۔

نیز یہی امام جعفر بن حسن ابن عبد الکریم الشہیر بالبرزنجی Rehmatullah Alaihنےچارسو( 400) سے زائد اشعار پر مشتمل ایک مبارک قصیدہ لکھا ہے جس کا نام "محل القیام"رکھا ہے اور اس میں یہ شعرکہاہے:

وقد سن أھل العلم والفضل والتقی
قیاماً علی الأقدام مع حسن إمعان .95

اہل علم وفضل وتقوی نے حسن سماعت کےساتھ پیروں پرکھڑےہونےکوایجادکیاہے۔

گویہ مولود اور قیام و سلام آج سےتقریباًدو سو پینتالیس( 245) سال پہلے سر زمین مدینہ پر لکھا گیا ہے جسے امام یوسف نبہانی Rehmatullah Alaihنے اپنی کتاب جواہر البحارمیں مکمل نقل کیاہے اور ابتدا میں اس بارے میں یوں تحریر فرمایا ہے:

هذا المولود الشھیر الذى لیس له نظیر وهو مخترعة فیما أعلم.96
یہ مولود مبارک مشہورو معروف ہے اس کی کوئی مثل نہیں اور یہ ایجادکیاہواہےمیرےعلم کےمطابق۔

ان مذکورہ تمام عبارات سےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تذکرہ کرتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے تعظیماً کھڑے ہونا یہ ائمہ اسلاف کا طریقہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ خصوصا امام حلبیRehmatullah Alaihکے اقتباس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذکر ولادت کے وقت کھڑا ہونا یہ معروف طریقہ ہے اور امام سبکی Rehmatullah Alaihاور دیگر ان کے ہمعصر علماء اسلام اس کے لیے کھڑے ہوتے تھے اور اقتداء کےلیے اتنی قدر کافی ہے۔97

قیامِ میلاد کی چوتھی وجہ

یہ قیام کرنا فرشتوں کا عمل ہے یعنی فرشتے کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھتے ہیں تو جو کوئی بھی کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھتا ہے وہ فرشتوں کی سنت پر عمل کرتا ہے چنانچہ امام دارمی Rehmatullah Alaihایک روایت نقل کرتے ہیں جس کے لیے انہوں نے پہلے اس نام سے باب باندھا کہ "باب ما اکرم اﷲ تعالیٰ نبیہ صلى اللّٰه عليه وسلم بعد موتہ"یعنی "یہ باب نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وصال کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوجو بزرگی عطا کی اس بارے میں ہے "اور پھر اس کے تحت یہ حدیث مبارکہ روایت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:

عن نَبْیه بن وهب أن كعبا دخل على عائشة فذكروا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال كعب ما من یوم یطلع إلا نزل سبعون ألفا من الملائكة حتى یحفوا بقبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم ویصلون على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتى إذا أمسوا عرجوا وهبط مثلھم فصنعوا مثل ذلك حتى إذا انشقت عنه الأرض خرج فى سبعین ألفا من الملائكة یزفونه.98
نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں حضرت کعب Radi Allah Anho سیّد ہ عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تذکرہ چھیڑا تو حضرت کعب Radi Allah Anhoنے کہا: روزانہ ستر ہزار فرشتے نیچے اترتے ہیں اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں وہ اپنے پَر اس کے ساتھ مس کرتے ہیں اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے نیچے اترتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قبر مبارک (قیامت کے دن) کشادہ ہوگی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam -ستر ہزار فرشتوں کے جلوس میں باہر تشریف لائیں گے۔

قاضی ابن اسحاق Rehmatullah Alaih99 اورقاضی ابو الشیخ اصفہانیRehmatullah Alaih ان دونوں ائمہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے100 جس سے واضح ہورہا ہے کہ روزانہ ستر ہزار ملائکہ نبی اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے روضہ انور کو گھیر تے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود وسلام پیش کرتے ہیں۔اس کی شرح کرتے ہوئےامام ملا علی قاری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

یحیطوا (بقبر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم) أى للطیران حوله أو فوقه یلتمسون بركته وقربه ونوره.101
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور قبر مبارک کے ارد گردیا اوپراڑنے کے لیےاور انوارِ قبر سے برکت حاصل کرنے کے لیےاپنے پروں کو قبر شریف پر مارتے ہیں۔

خود اﷲ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وفات کے بعد بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کروارہے ہیں اور وہ بھی کھڑے ہوکر درود شریف کے ذریعے یعنی ستر ہزار (70000) فرشتے صبح کو آتے ہیں جو کھڑے ہوکر درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں پھر وہ شام کو چلے جاتے ہیں اور دوسرے ستر ہزار فرشتے شام کو آتے ہیں اور صبح تک کھڑے ہوکر درود و سلام پیش کرتے ہیں۔جس سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر باادب درود و سلام پڑھنا یہ فرشتوں کے عمل کےموافق اور سنت ہے۔اسی طرح حضرت عمار بن یاسرRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

إن اللّٰه وكل بقبرى ملكا أعطاه أسماع الخلائق فلا یصلى على أحد إلى یوم القیامة إلا أبلغنى باسمه واسم أبیه هذا فلان بن فلان قد صلى علیك.102
بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتے کو مقرر فرمایا ہےجس کو تمام مخلوق کی سماعت عطا کی ہے۔ پس میری امت میں سے قیامت تک جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر کہے گا اے محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )! فلاں فلاں شخص نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود پڑھا ہے۔

اس تقرری کی وضاحت ایک دوسری روایت میں مروی ہے جس میں قیام کی صراحت ہے چنانچہ منقول ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

إن اللّٰه تعالى أعطى ملكا من الملائكة أسماء الخلق فھو قائم على قبرى إلى يوم القيامة لا يصلى على أحد صلاة إلا سماه باسمه واسم أبيه.103
بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے ملائکہ میں سے ایک فرشتہ کو تمام مخلوقات کے نام دیے ہیں اور وہ تاقیامت میری قبر پر کھڑا ہوا ہے۔جو بھی کوئی مجھ پر درود پڑھتاہے تو وہ فرشتہ (مجھے)اس کا اور اس کے والد کا نام بتاتا ہے۔

اس کی شرح کرتے ہوئےامام زرقانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

أى قوة یقتدربھا على سماع ما ینطق به كل مخلوق من إنس وجن وغیرهما.104
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے کو ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ انسان اور جن اور اس کے سوا تمام مخلوق الہٰی کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو سنتا ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں موجود"فھو قائم علی قبری"اور اسی طرح "وکل بقبری ملکا" کے الفاظ کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھنے کے جواز پر واضح دلیل ہیں اوراس سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے یہ فرشتہ کھڑے ہوکر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں درود شریف پڑھتا ہے ،امتیوں کا سلام ان کا نام بمع والد کا نام لےکر عرض کرتا ہے اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھنا یہ فرشتوں کا طریقہ ہے اور اس لیے قیام میلاد میں کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھاجاتا ہے کہ یہ فرشتوں کی بھی سنت ہے۔

قیامِ میلاد کی پانچویں وجہ

کئی روایات میں منقول ہے کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے اوصاف ، اپنا نسب شریف اور اپنا تذکرۂولادت منبر پر کھڑے ہوکر بیان کیا ہے تو گویا کہ کھڑے ہوکر رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اپنی ولادت کاتذکرہ کرنا ہی قیام میلاد کی اصل ہے۔ اس حوالہ سے کئی احادیث مروی ہیں جن میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے اوصاف اور ولادت کا تذکرہ فرمایا ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں مروی ہے :

العباس الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فكانه سمع شیئا فقام النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على المنبر فقال من انا قالوا انت رسول اللّٰه علیك السلام قال انا محمد بن عبداللّٰه بن عبدالمطلب ان اللّٰه خلق الخلق فجعلنى فى خیرهم ثم جعلھم قبائل فجعلنى فى خیرهم قبیلة ثم جعلھم بیوتا فجعلنى فى خیرهم بیتا وخیرهم نفسا.105
حضرت عباسRadi Allah Anho بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے گویا کہ انہوں نے کوئی بات سنی تھی۔ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا میں کون ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں آپ پر سلام ہو۔ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبداﷲ بن عبد المطلب ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے بہترین رکھا۔ پھر ان کے دو گروہ بنائے تو مجھے اچھے گروہ میں رکھا۔ پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا۔ پھر ان کے خاندان بنائے تو مجھے ان میں سے اچھے خاندان میں رکھا۔ اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔

امام احمد بن حنبلRehmatullah Alaih نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے106 جس میں واضح ہے کہ نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کھڑے ہو کر اپنی ولادت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں منقو ل ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

انى عند اللّٰه مكتوب بخاتم النبيين، وان آدم لمنجدل فى طينته وساخبركم باول ذلك: دعوة ابى ابراهيم وبشارة عيسى ورؤيا امى التى رات حين وضعتنى انه خرج منھا نور اضاءت لھا منه قصور الشام.107
بلا شبہ مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت خاتم النبیین لکھا گیا تھا جب حضرت آدمAlaihis Salam مٹی میں گوند ے ہوئے تھےاور عنقریب میں تمہیں اس معاملہ کی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم Alaihis Salamکی دعا ،حضرت عیسی Alaihis Salamکی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کاوہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا کہ ان کے بطن ِ مبارک سے ایسا ایک نور نکلا جس سے ملک ِشام کے محلات جگمگا اٹھے۔

اسی حوالہ سےبیان کرتے ہوئے واثلہ بن اسقع Radi Allah Anhoکہتے ہیں کہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا :

إن اللّٰه اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفى من بنی إسماعيل كنانة، واصطفى من بني كنانة قريشاً، واصطفى من قريش بنى هاشم، واصطفانى من بني هاشم.108
بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیمAlaihis Salam کی اَولاد میں سے اِسماعیلAlaihis Salam کو منتخب فرمایا، اِسماعیل Alaihis Salamکی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو،قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں مجھے منتخب فرمایا۔

حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anho نے یوں روایت کیا ہے:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال:بعثت من خیر قرون بنى آدم قرنا فقرنا حتى كنت من القرن الذى كنت فیه.109
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا میری پیدائش بنی آدم کے اس خاندان میں ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں بنی آدم کی جماعتوں میں افضل رہا ہے یہاں تک کہ میں اس جماعت میں پیدا ہوا جس میں پیدا ہوا۔

مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ خود حضورِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا حالِ ولادت ِباسعادت مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر مختلف انداز سے کئی بار ذکر فرمایاہے۔جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے تذکرۂِ ولادت جمعۃ المبارک کے خطبات میں کیا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ قیام کی حالت میں ہی ہوتا ہے اوررسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کایہ قیام فرمانا میلاد شریف میں قیام میلاد پر صریح ثبوت ہےچونکہ خود نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا میلاد کھڑے ہوکر بیان فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ امتی بھی قیام کی حالت میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تذکرہ کرتے ہیں اور اسی حالت میں درو و سلام بھی پڑھتے ہیں۔

قیامِ میلادکی چھٹی وجہ

اس قیام میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جواز کی چھٹی وجہ یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ شرعًا تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم مطلوب وممدوح ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانان عالم اس قیام کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ اس قیام کا مقصد حضورنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم ہے اور اکثر بلاد وامصار میں قیام کا عمل جاری ہے۔ شرق اور غرب کے علماء نے اسے مستحسن سمجھا ہے اور جس چیز کو مسلمان مستحسن سمجھیں وہ خدا کے نزدیک بھی اچھی ہے چنانچہ اس حوالہ سے روایت کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن مسعود Radi Allah Anho ارشاد فرماتے ہیں:

مارآه المسلمون حسناً فھو عنداللّٰه حسن.110
جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔

یہی وجہ ہےکہ علمائےامت کا تعامل بھی ایک دلیل کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ امت مسلمہ کے کثیر علمائے امت نے اس قیام میلاد کو مستحسن کہاہے اور حدیث مذکور کے تناظر میں ان کثیر علماء امت کا اس عمل کومستحسن کہنا اس کے جواز کے لیے کافی ہے کیونکہ اس طر ح کا تعامل ،اجماع کے قائم مقام ہوتا ہے چنانچہ امام ابن ہمام حنفیRehmatullah Alaih ایک مقام پرلکھتے ہیں:

التعامل كالاجماع.111
تعامل امت اجماع کی طرح ہے۔

اسی لیے اس قیام میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جواز پر علماء امت کا تعامل اجماع کی جگہ ہے اور اس قیام کے جواز پر گویا کہ اجماع ہے۔یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی کتب میں بے شمار مقامات پر اس حدیث سے یہ استدلال ملتا ہے چنانچہ امام سرخسی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

لكنه استحسن وجوزه لأنه عمل الناس وقد استحسنوه وقد قال صلى اللّٰه عليه وسلم مارآه المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن.112
مگراس کو مستحسن کیا اورجائزقراردیاکیونکہ یہ لوگوں کاعمل ہےاورانہوں نے اسےمستحسن قراردیاہے اور تحقیق نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا بھی ہے کہ جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔

اسی طرح امام بابرتی حنفی Rehmatullah Alaihایک مقام پر لکھتے ہیں:

وما لم ینص علیه فھو محمول على عادات الناس لأنھا أى عادات الناس دلالة على جواز الحكم فیما وقعت علیه لقوله علیه الصلوةوالسلام ما رآه المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن.113
اورجس پر کوئی نص(دلیل شرعی)موجودنہ ہووہ عمل لوگوں کی عادات پرمحمول ہےکیونکہ لوگوں کی کوئی بھی عادت جوازکےحکم پردلیل ہےجس کےبارےمیں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کافرمان موجود ہے کہ جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔

اسی مذکورہ حدیث اور فقہاء کے استدلال سے واضح ہوتا ہے کہ قیام میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جائز ہے اور اس پر عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علمائےعظام کا تعامل بھی موجود ہے جو کہ جواز کے لیے کافی ہے۔114

قیامِ میلاد کی ساتویں وجہ

محافل میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں کیے جانے والا قیام چونکہ تعظیم رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے ہوتا ہے اوراﷲ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کا حکم دیا ہے لہذایہ قیام تعظیم میں شامل ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰك شَاهدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا8 لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْه وَتُوَقِّرُوْه وَتُسَ بِّحُوْه بكرَة وَّاَصِيْلًا9115
بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔

خالق ِکائنات عزوجل نے تعظیم مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو واجب اور ضروری قرار دیا کہ اس کے بغیر تکمیل ایمان ناممکن ہے اور تعظیم رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم کو مطلق رکھا کہ تم تعظیم کا جو بھی طریقہ اختیار کرو وہ درست ہے چنانچہ امام سیوطیRehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

عن ابن عباس فى قوله و تعزروه یعنى الإجلال و توقروه یعنى التعظیم یعنى محمدا صلي اللّٰه عليه وسلم.116
عبداﷲبن عباسRadi Allah Anhuma سے، اﷲ کے اس فرمان"وتعزروہ" کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں اس سے تعظیم مراد ہےاور "وتوقروہ" کے معنی بھی تعظیم کے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کی جائے۔

اسی آیت کی تفسیر میں اما م مبرد کے قول کو نقل کرتے ہوئےعلامہ ملا علی قاری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قال المبرد وتعزروه اى تبالغوا فى تعظیمه.117
امام مبرد نے کہا "و تعزروہ" کا معنی ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم میں مبالغہ کرو۔

اسی طرح مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ صاوی مالکیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

ویؤخذ من هذه الآیة أن من اقتصر على تعظیم اللّٰه وحده أوعلى تعظیم الرسول وحده فلیس بمؤمن بل المؤمن من جمع بین تعظیم اللّٰه تعالى وتعظیم رسوله ولكن التعظیم فى كل بحبه فتعظیم اللّٰه تنزیھه عن صفات الحوادث و وصفه بالكمالات وتعظیم رسوله اعتقاد أنه رسول اللّٰه حقا وصدقا لكافة الخلق بشیرا و نذیرا إلى غیر ذلك من أوصافه السنیة وشمائله المرضیة.118
اس آیت یعنی" وتعزروہ وتوقروہ "سے ثابت ہوا کہ جوصرف تعظیم خداکرے یا صرف تعظیم رسول کرے وہ مومن نہیں۔ بلکہ مومن وہ ہے جو تعظیم خدا وتعظیم مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دونوں کرے۔ لیکن ہر ایک کی تعظیم اس کی شان کے مطابق ہوگی پس اﷲ تعالیٰ کی تعظیم رب کو صفات حوادث سے منزہ بتانا اور وصف کمالات سے موصوف ماننا ہے اور تعظیم رسول یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھنا کہ حضور اﷲ کے سچے رسول ہیں تمام مخلوق کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔ علاوہ ازیں حضور کے عالی مرتبہ اوصاف اور پسندیدہ خصلتوں کا معتقد ہو۔

یعنی اس عبارت کاخلاصہ یہ ہے کہ اوّل یہ لوگ اﷲ ورسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر ایمان لائیں،دوم یہ کہ حضرت محمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کمال تعظیم وتوقیر کریں اور سوم یہ کہ خالق کائنات کی عبادت واطاعت میں رہیں۔ ان ہر سہ بنیادی مقاصد دینیہ کی ترتیب ملاحظہ ہوکہ سب سے پہلے ایمان کو اور سب سے آخر میں اپنی عبادت کو اور بیچ میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کمال تعظیم وتوقیر کو رکھا ہےگویاتعظیمِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایمان وعبادت میں ایسی ہے جیسے بدن میں جان یا مکان میں مکین۔

قیامِ میلاد کی آٹھویں وجہ

قیام میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عظمت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استعارہ کی حیثیت اختیار کرچکاہے اور جس چیز کو بھی دینی عظمت حاصل ہو وہ شعائر اﷲ میں شامل ہوجاتی ہے جس کی تعظیم کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ تعظیم ہی تقوی کی نشانی ہے جیسا کہ اللہ تباک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

َمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰه فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ32119
اورجوشخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتاہےتویہ( تعظیم) دلوں کےتقوی میں سےہے۔

یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اورمناسک وغیرہ کی تعظیم کرنا جواللہ یا اللہ والوں کےساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانےجاتےہیں اوریہ تعظیم وہی لوگ بجالاتےہیں جنہیں دلوں کا تقویٰ نصیب ہوگیاہو اور ذکر ولادت بھی شعائر اﷲ ہے لہٰذا اس کی تعظیم کرنا بھی دلوں کے تقوی میں شامل ہے اور اس کےلیے بہترین طریقہ قیام ہی ہے۔ان تمام مذکورہ بالا وجوہات سے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قیامِ تعظیمی کا جواز و استحسان واضح ہوگیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ تعظیم تو شرعا مطلوب و محمود ہیں اور صحابہ کرام Radi Allah Anhumسمیت ملائکہ بھی تعظیم مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں قیام کرتے ہیں جس کو امت مسلمہ نے اپنی محافل میلاد میں اپنایا ہوا ہے۔

قیامِ میلاد میں علمائے اعلام کی رائے

شیخ الدلائل شیخ عبد الحق محدث آلہ آبادی Rehmatullah Alaihنے اپنی کتاب "الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الأعظم صلي اللّٰه عليه وسلم"میں پورا ایک باب باندھا ہے جس میں انہوں نے قیام کے وقت ذکرِ ولادت کے جواز کے بارے میں تقریبا دس صفحات پر مشتمل داد تحقیق پیش کی ہے۔اس میں آپ Rehmatullah Alaihعلامہ محمد کرامت علی دہلوی Rehmatullah Alaihکی کتاب"السیرۃ المحمدیۃ و الطریقۃ الأحمدیۃ‘"سےایک اقتباس نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

جرت عادة كثیر من الناس أنه إذا سمعوا بذكر وضعه أن یقوموا تعظیما له وقد وجد القیام عند ذكر اسمه الشریف من الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشائخ الإسلام فى عصره.120
لوگوں کی یہ عادت جاری ہے کہ جس وقت اس عالم میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تشریف آوری کا ذکر سنتے ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کے واسطے قیام کرتے ہیں اور آنحضرت کے اسمِ مبارک کے ذکر کے وقت امام سبکیRehmatullah Alaihسے قیام پایا گیا ہے اور اس امر میں علماء وقت نے ان کی اتباع کی ہے۔

اسی حوالہ سےحضرت شاہ احمد سعید مجددی فاروقیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

باقى ماند كلام درقیام وقت ذكر ولادت شریف آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم پس بدانید كه قیام براى تعظیم سرور عالم صلى اللّٰه عليه وسلم درحالت حیات آنجناب از صحابه كرام ثابت گردیده است عن أبی هریرة قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یجلس معنا فى المسجد یحدثنا فإذا قام قمنا قیاما حتى نراه قد دخل بعض بیوت أزواجه مشکاة المصابیح واعلم أن حرمة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بعد موته وتعظیمه وتوقیره لازم كما كان حال حیاته وذلك عند ذكره صلى اللّٰه عليه وسلم وذكر حدیثه وسنته وسماع اسمه وسیرته ومعاملة آله وعترته وتعظیم أهل بیته وصحابته شفا.121
رہا آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تذکرۂِ ولادت مبارکہ کے وقت کھڑا ہونے کا مسئلہ تو حضور سرورِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات طیبہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا صحابہ کرام Radi Allah Anhumسے ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoفرماتے ہیں ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مسجد میں باتیں کیا کرتے تھے جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے تاوقتیکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی کسی زوجہ محترمہ کے حجرۂ ِمبارکہ میں داخل ہوجاتے۔یہ جان لو! حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم وتوقیر جس طرح حیات طیبہ میں لازم تھی اسی طرح بعد از وصال بھی لازم ہے اور حضور سیّد عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم اس وقت ہوگی جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ذکر کرے، حدیث بیان کرے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سنت بیان کرے یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اسم شریف اور سیرت پاک سنے۔

اسی طرح شیخ الدلائل نےحضرت علامہ عثمان بن حسن دمیاطی شافعی ازہری مکی جوعلامہ احمد زینی دحلان مکیRehmatullah Alaihکے استاد اور علوم میں ماہرِ فن تھے 122 ان کا اقتباس نقل کیا ہےجس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:

القیام عند ذكر ولادة سیّد المرسلین صلى اللّٰه عليه وسلم أمر لاشك فى استحبابه واستحسانه و ندبه یحصل لفاعله من الثواب الأوفر والخیر الأكبر لأنه تعظیم أى تعظیم للنبى الكریم ذى الخلق العظیم الذى أخرجنا اللّٰه به من ظلمات الكفر إلى الإیمان و خلصنا اللّٰه به من نار الجھل إلى جنات المعارف والإیقان فتعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم فیه مسارعة إلى رضاء رب العلمین وإظھارأ قوى شعائر الدین ومن یعظم شعائر اللّٰه فإنھا من تقوى القلوب ومن یعظم حرمة اللّٰه فھو خیر له عند ربه.123
قرأ ت مولد شریف میں ذکر ولادتِ سیّد المرسلین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وقت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کے لیے قیام کرنا بے شک مستحب و مستحسن ومندوب ہے جس کے کرنے والےکو ثوابِ کثیر و فضلِ کبیر حاصل ہوگا کہ وہ تعظیم ہے ۔کیسی ہی تعظیم ہےاس نبی کریم صاحب ِخلقِ عظیم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جن کی برکت سے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نےہمیں ظلماتِ کفر سے نورِ ایمان کی طرف لایا اور ان کے سبب ہمیں دوزخِ جہل سے بچا کر بہشت معرفت و یقین میں داخل فرمایا تو حضور اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم میں خوشنودی رب العالمین کی طرف دوڑنا ہے اور قوی ترین شعائرِ دین کا آشکارا ہونا ہے اور جو تعظیم کرے شعائر خدا کی تو وہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے اور جو تعظیم کرے خدا کی حرمتوں کی تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے یہاں خوب بہتر ہے۔

اسی طرح اس قیام کے استحسا ن کے بارے میں بیان کرتے ہوئے امام احمد رضا خان القادری Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

قد اجتمعت الأمة الحمدیة من أهل السنة والجماعة على استحسان القیام المذكور وقد قال صلى اللّٰه عليه وسلم: لا تجتمع أمتى على الضلالة.124
بے شک امت مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اہل سنت و جماعت کا اجماع واتفاق ہے کہ یہ قیام مستحسن ہے اور بے شک حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرماتے ہیں: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔

شیخ امام ابو زید کی طرح امام علامہ مدالقی Rehmatullah Alaihنے بھی قیام میلاد کو مستحسن لکھا ہے چنانچہ وہ تحریرفرماتے ہیں:

جرت عادة القوم بقیام الناس إذا انتھى المداح إلى ذكر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم وهى بدعة مستحبة لما فیه من اظھار السرور والتعظیم.125
یعنی عادت قوم کی جاری ہے کہ جب مدح خواں ذکرِ میلاد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تک پہنچتا ہے تو لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں اوریہ بدعت مستحبہ ہے کہ اس میں نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیدائش پر خوشی اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کا اظہار ہے۔

ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ کبار علمائےکرام اس قیامِ میلاد کے نہ صرف جواز کے قائل ہیں بلکہ وہ اس قیام کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں۔

خاتمۃ المحدثین سیّد احمد زینی دحلان مکی کا فتویٰ

اسی قیام میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استحسان کے حوالہ سے خاتمۃ المحدثین مولانا سیّد احمد زینی دحلان مکی قدس سرہ اپنی کتاب مستطاب "الدرالسنیہ " میں تحریر فرماتے ہیں:

ومن تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم الفرح بلیلة ولادته وقراءة المولد والقیام عند ذكر ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم وإطعام الطعام وغیر ذلك مما یعتاد الناس فعله من أنواع البر فإن ذلك كله من تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد أفردت مسألة المولد و ما یتعلق بھا بالتالیف واعتنى بذلك كثیر من العلماء فألفوا فى ذلك مصنفات مشحونة بالأدلة والبراهین فلاحاجة لنا إلى الإطالة بذلك.126
امورِتعظیمِ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شب ولادت کی خوشی کرنا اور مولد شریف پڑھنا اور ذکر ولادت اقدس کے وقت کھڑا ہونا اور مجلس شریف میں حاضرین کو کھانا کھلانا اور ان کے سوا نیک اعمال جو مسلمانوں میں رائج ہیں وہ سب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم سے ہیں اور یہ مسئلہ مجلس میلاد اور اس کے متعلقات کا ایسا ہے جس میں مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں اور بکثرت علمائے دین نے اس کا اہتمام فرمایا اور دلائل وبراہین سے بھری ہوئی کتابیں اس میں تالیف فرمائیں ہیں۔پس ہمیں اس مسئلہ میں تطویل کلام کی حاجت نہیں۔

یعنی شیخ زینی دحلان کی نظر میں بھی یہ قیام مستحب ہے اور اس مسئلہ میں بکثرت علماء اعلام نے تالیفات رقم کی ہیں جن سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا ہے۔

شیخ المشائخ علامہ جمال بن عبداﷲ مکی کا فتویٰ

اسی طرح شیخ المشائخ، خاتمۃ المحققین، إمام العلماء، مفتی الحنفیۃ بمکۃ شیخ علامہ جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی اپنے فتاویٰ میں قیام میلاد کے استحسان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

القیام عند ذكر مولد ه الأعطرصلى اللّٰه عليه وسلم استحسنه جمع من السلف فھو بدعة حسنة.127
حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادتِ مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام کو ایک جماعتِ سلف نے مستحسن کہا ہے پس وہ بدعت حسنہ ہے۔

اسی طرح مذکورہ فتوی کی تصدیق کرنے والےشیخ مفتی مالکیہ حسین بن ابراہیم مکی مالکی خود ایک جگہ فرماتے ہیں:

استحسنه كثیر من العلماء وهو حسن لما یجب علینا تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم.128
اسے بہت سےعلماء نے مستحسن رکھا اور وہ حسن ہے کہ ہم پر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم واجب ہے۔

ان مذکورہ علمائے اعلام کے فتووں کے موافق نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم میں قیام ِمیلاد مستحسن ہے جس میں کئی علماء کرام کا اجماع شامل ہے۔

حسین بن ابراہیم مفتی مالکیہ کا فتویٰ

اسی طرح مفتی شیخ حسین ابراہیم مغربی مالکی Rehmatullah Alaihاپنے فتاویٰ"قرۃ العین بفتاویٰ علماء الحرمین"میں میلاد میں قیام کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

وأقول: قد جرى على استحسان ذلك القيام تعظيمًا له صلى اللّٰه عليه وسلم عمل من يعتد بعمله فى أغلب البلاد الإسلامية، وهو مبنى على ما للنووى من جعل القيام لأهل الفضل من قبيل المستحبات إن كان للاحترام لا للرياء وألف فى ذلك جزءًا مستقلاً وأقوى ما استدل به حديث البيھقى فى سننه أن عائشة قالت: ما رأيت أحدًا كان أشبه كلامًا وحديثًا من فاطمة برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وكانت إذا دخلت عليه رحب بھا وقام إليھا فأخذ بيدها وقبلھا….وبالجملة فالقیام عند ذكر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ووضع امه له تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم بدعة حسنة.129
اورمیں کہتاہوں کہ: نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کےلیےکھڑےہونےکاعمل مستحسن ہےجوبھی اس کی رغبت رکھتاہےبلاداسلامیہ میں اسےکرتاہے۔یہ امام نووی کی رائےپرمبنی ہے۔ اہل فضل وعلم کےنزدیک اگریہ محض احترام کی خاطرریاء سےپاک ہوتومستحب ہے اورانہوں نے اس بارےمیں مستقل جزء تالیف فرمایا۔اوراس میں سب سےقوی دلیل امام بیہقی کی وہ حدیث ہےجس سےاستدلال فرمایا وہ ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaکی روایت جس میں آپRadi Allah Anha نے فرمایا: میں نے انداز گفتگو اورکلام میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مشابہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بیٹی حضرت فاطمہ Radi Allah Anhaسے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی یہ عادت تھی کہ جب وہ آتیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے۔۔۔ اجمالی طورپر یہ ہےکہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت اوراس وقت جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوجنم دیااس وقت کھڑےہوکرتعظیم کرنابدعت حسنہ ہے۔

اسی طرح سراج العلماء عبداﷲ سراج مکی مفتی حنفیہ تحریر فرماتے ہیں:

توارثه الأئمة الأعلام وأقره الأئمة والحكام من غیر نكیر منكر ورد رآد ولھذا كان حسنا ومن یستحق التعظیم غیره صلى اللّٰه عليه وسلم ویكفى أثر عبداللّٰه بن مسعودما رآه المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن.130
یہ قیام مشہورو معروف اماموں میں متوارث چلا آتا ہے اور اسے ائمہ و حکام نے برقرار رکھا اور کسی نے رد وانکار نہ کیا لہٰذا یہ مستحب ٹھہرا اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سوا اور کون مستحق تعظیم ہے اور سیّدنا عبداﷲ بن مسعود Radi Allah Anhumaکی حدیث کافی ہے کہ جس چیز کو اہل اسلام نیک سمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی نیک ہے۔

اسی طرح علامہ سیّد احمد بن علوی مالکی نے اپنی کتاب"حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم" میں میلاد شریف میں کھڑے ہوکر درود و سلام کے جواز پر پورا ایک باب درج ذیل نام سے باندھا ہے:

باب استحسان العلماء لقیام المولد وبیان وجوهه.131
علماء کامیلادنبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں قیام کومستحسن قراردینااوراس کی وجوہات بیان کرنےکاباب۔

شیخ علوی مالکی نےاس باب میں کافی دلائل سے اس قیامِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جواز واستحسان ثابت کیا ہے۔ اسی طرح مفتی عمر بن ابی بکر شافعی نے اس کے استحباب واستحسان پر تصریح فرمائی ہے۔ فتاوائے علمائے حرمین محترمین میں مفتیِٔ مکّہ معظّمہ مولانا محمد بن حسین کتبی حنفی اور رئیس العلماء شیخ المدرسین مولانا جمال حنفی اور مفتیِٔ مالکیہ مولانا حسین ابراہیم مکی اور سیّد المحققین مولانا احمد بن زین شافعی اور مدرس مسجد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مولانا محمد بن محمد غرب شافعی اور مولانا عبد الکریم بن عبد الحکیم حنفی مدنی اور فقیہ جلیل مولانا عبد الجبار حنبلی بصری نزیل مدینہ منوّرہ اور مولانا ابراہیم بن محمد خیار حسینی شافعی مدنی کی مہریں ہیں اور اصل فتویٰ مزین بخطوط ومواہیر علمائے ممدوحین فقیر نے بچشم خود دیکھا اور مدتوں فقیر کے پاس رہا جن میں اکثر مسائل ِمتنازع فیہا پر بحث فرمائی ہے۔ 132

علمائےمدینہ ومکّہ کے نزدیک میلادو قیام مستحب ہے

اسی طرح علمائے مدینہ کے نزدیک بھی قیام ِمیلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مستحب ہے اور یہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کا ایک سبب ہے چنانچہ اس حوالہ سے امام احمد رضا خان القادری Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

والحاصل أن ما یصنع من الولائم فى المولد الشریف وقرآءته بحضرة المسلمین وانفاق المبرات والقیام عند ذكر ولادة الرسول الأمین صلى اللّٰه عليه وسلم ورش ماء الورد والقاء البخور و تزیین المكان و قرآءة شى من القرآن والصلوة على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم واظھار الفرح والسرور فلا شبھة فى أنه بدعة حسنة مستحبة وفضیلة شریفة مستحسنة.133
خلاصہ مقصود یہ ہے کہ میلاد شریف میں ولیمے کرنا اور حال ولادت مسلمانوں کو سنانا اور خیرات ونیک اعمال بجالانا اور ذکر ولادت رسول امین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وقت قیام کرنا اور گلاب چھڑکنا اور خوشبوئیں سلگانا اور مکان آراستہ کرنا اور کچھ قرآن پڑھنا اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود بھیجنا اور فرحت و سرور کا اظہار کرنا بے شک بدعت حسنہ مستحبہ،باعث ِفضل وشرف اور استحسان ہے۔

اسی طرح درج ذیل فتوی پر مولانا عبد الجبار وابراہیم بن خیار سمیت تیس(30) علماء کی مہریں ہیں اور فتوائے علمائے مکّہ معظّمہ میں میلاد و قیام کا استحباب علمائے سلف سے نقل کرکے فرماتے ہیں:

فالمنكر لھذا مبتدع بدعة سیئة مذمومة لإنكاره على شى حسن عند اللّٰه والمسلمین كما جاء فى حدیث ابن مسعود قال: ما رآه المسلمون حسنا فھو عند اللّٰه حسن. والمراد من المسلمین هھنا الذین كملوا الاسلام كالعلماء العالمین و علماء العرب و المصر والشام والروم والاندلس كلھم رواه حسنا من زمان السلف إلى الآن فصار الاجماع والأمر الذى ثبت به اجماع الأمة فھو حق لیس بضلال قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا تجتمع أمتى على الضلالة فعلى حاكم الشرع تعزیر المنكر.134
پس مجلس وقیام کا منکر بدعتی ہے اور اس منکر کی بدعت سیئہ ومذمومہ کہ اس نے ایسی چیز پر انکار کیا جو خدا اور اہل اسلام کے نزدیک نیک تھی جیسا کہ حدیث ابن مسعود Radi Allah Anhumaمیں آیا ہے کہ جس چیز کو مسلمان نیک اعتقاد کریں وہ خدا کے نزدیک نیک ہے اور یہاں مسلمانوں سے کامل مسلمان مراد ہیں جیسے علمائے باعمل اور اس مجلس و قیام کو عرب و مصر و شام وروم و اندلس کے تمام علمائے سلف نے آج تک مستحسن جانا تو اجماع ہوگیا اور جو امر اجماع امت سے ثابت ہو وہ حق ہے گمراہی نہیں۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرماتے ہیں میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ پس حاکم شرع پر لاز م ہے کہ منکر کو سزا دے۔

اس فتویٰ پر حضرت سیّد العلماء احمد دحلان مفتی شافعیہ و جناب عبد الرحمن سراج مفتی حنفیہ و مولانا حسن مفتی حنابلہ و مولانا محمد شرقی مفتی مالکیہ سمیت مزید پینتالیس (45) علماء کی مہریں ہیں۔پھر اس کے بعد آپRehmatullah Alaihنے مکی و مدنی وفرنگی محلی کے درج ذیل علمائے اعلام کے نام نقل کیے ہیں جو اس قیام کے جواز و استحباب کے قائل ہیں:

(1)محمد امین مفتی حنفی Rehmatullah Alaih۔(2) جعفر حسین البرزنجی مفتی شافعیRehmatullah Alaih ۔(3) عبد الجبار مفتی حنبلیRehmatullah Alaih۔ (4) جمال الدین سیّد Rehmatullah Alaih۔(5) ابراھیم بن خیارRehmatullah Alaih۔(6) سیّد یوسفRehmatullah Alaih ۔(7) السیّد محمد علیRehmatullah Alaih۔(8) السیّد عبداﷲ بن سیّد احمد Rehmatullah Alaih۔(9) محمد بن احمد رفاعیRehmatullah Alaih۔(10) عمر بن علیRehmatullah Alaih۔(11) علی حریریRehmatullah Alaih ۔(12) سیّد مصطفیRehmatullah Alaih۔(13) سراج احمدRehmatullah Alaih۔ (14) حسن ادیب Rehmatullah Alaih۔ (15) ابوالبرکاتRehmatullah Alaih ۔ (16) عبدالقادر مشاطRehmatullah Alaih۔(17) حضرت سیّد سالمRehmatullah Alaih ۔(18) احمد الحبشی Rehmatullah Alaih۔ (19) محمد نور سلیمانی Rehmatullah Alaih۔(20) عبدالرحیم البرعیRehmatullah Alaih۔(21) محمد عثمان کردی Rehmatullah Alaih۔ (22) قاسم Rehmatullah Alaih۔(23) عبد العزیز ہاشمی Rehmatullah Alaih۔ (24) یوسف رومیRehmatullah Alaih۔ (25) محسنRehmatullah Alaih ۔(26) مبارک بن سعیدRehmatullah Alaih۔(27) حامد Rehmatullah Alaih۔(28) محمد ہاشم بن حسنRehmatullah Alaih۔(29) عبداﷲ بن علیRehmatullah Alaih۔(30) عبدالرحمن الصفوی Rehmatullah Alaih۔

اسی طرح علماء مکّہ معظّمہ میں یہ شامل ہیں: (1) حضرت عبدالرحمن سراج حنفیRehmatullah Alaih۔ (2)حضرت احمد دحلان مفتی شافعی Rehmatullah Alaih۔(3)حضرت حسن مفتی حنبلی Rehmatullah Alaih۔ (4)حضرت محمد شرفی مفتی مالکی Rehmatullah Alaih۔(5) حضرت عبدالرحمن جمال حنفی Rehmatullah Alaih۔ (6)حضرت حسن طیب حنفیRehmatullah Alaih۔(7) حضرت سلیمان عیسیٰ حنفی Rehmatullah Alaih۔ (8)حضرت عبدالقادر خوگیر حنفیRehmatullah Alaih۔ (9)حضرت ابراہیم القیس حنفیRehmatullah Alaih۔ (10) حضرت محمد جاراﷲ حنفیRehmatullah Alaih۔ (11) حضرت احمداﷲ عثمانی حنفی Rehmatullah Alaih۔(12)حضرت عبدالقادر شمس حنفی Rehmatullah Alaih﷫(13) حضرت عبدالرحمن آفندی حنفی Rehmatullah Alaih۔(14)حضرت احمد ابو الخیر حنفیRehmatullah Alaih ۔(15) حضرت عبدالقادر مکی حنفی Rehmatullah Alaih۔ (16) حضرت محمد سعید حنفی Rehmatullah Alaih۔ (17)حضرت عبدالمطلب حنفی Rehmatullah Alaih﷫ (18) حضرت کمال احمد حنفی Rehmatullah Alaih۔(19)حضرت الادیب محمد سعید حنفی Rehmatullah Alaih۔ (20)حضرت علی جودہ حنفیRehmatullah Alaih۔ (21)حضرت سیّد عبداﷲ کوشک حنفی Rehmatullah Alaih۔ (22)حضرت حسین عرب حنفی Rehmatullah Alaih۔ (23)حضرت ابراہیم نوموسی حنفیRehmatullah Alaih۔ (24)حضرت احمد امین حنفیRehmatullah Alaih۔ (25)حضرت شیخ فردوس حنفیRehmatullah Alaih۔ (26) حضرت عبدالرحمن عجمی حنفیRehmatullah Alaih ۔ (27)حضرت عبداﷲ قماشی حنفیRehmatullah Alaih۔(28) حضرت محمد بااجل حنفیRehmatullah Alaih۔(29) حضرت عبداﷲ مشاط حنفیRehmatullah Alaih ۔ (30) حضرت محمد سیوطی حنفیRehmatullah Alaih۔(31) حضرت علی رہتی شافعیRehmatullah Alaih ۔(32)حضرت محمد صالح زواری شافعیRehmatullah Alaih۔(33) حضرت محمد حبیب اﷲ شافعیRehmatullah Alaih ۔(34) حضرت احمد النحراوی شافعیRehmatullah Alaih۔(35)حضرت عبداﷲ زواری شافعیRehmatullah Alaih۔(36) حضرت سلیمان عقبی شافعی Rehmatullah Alaih۔(37)حضرت سیّد عمر شبطی شافعی Rehmatullah Alaih۔(38) حضرت عبدالحمید عثمانی شافعی Rehmatullah Alaih۔(39)حضرت مصطفی عقیقی شافعیRehmatullah Alaih۔ (40) حضرت منصور شافعی Rehmatullah Alaih﷫ (41)حضرت منشاوی شافعیRehmatullah Alaih﷫ (42) حضرت محمد راضی شافعیRehmatullah Alaih ۔135ان تمام علماء اور دیگر کئی دیا ر وامصار کے علماء اعلام کے جواز واستحسان پر دیے گئے فتاوؤں کا تذکرہ کرنےکے بعد آخر میں امام احمد رضاخان القادریRehmatullah Alaih تحریر فرماتے ہیں:

بالجملہ سردست اس قدر کتب وفتاوے ،افعال واقوالِ علماء ائمہ سے اس قیام مبارک کے استحسان و استحباب کی سند صریح حاضر ہے جس میں سو (100) سے زائد ائمہ و علماء کی تحقیق و تصدیق روشن و ظاہر ہے۔ساتھ ہی ساتھ رسالہ غایۃ المرام میں علمائے ہند کے فتوے چھپے ہیں جس میں پچاس (50) سے زیادہ مہر و دستخط ہیں۔ اب مصنف انصاف کرے آیا اس قدر علماء مکّہ معظّمہ ، مدینہ منوّرہ، جدہ ،حدیدہ ،روم، شام، مصر ،دمیاط، یمن، زبید، بصرہ، حضرموت ، حلب ، حبش، برزنج ، برع ، کر د ،داغستان ،اندلس اور ہند کا اتفاق ارباب عقول کے لیے قابل قبول نہ ہوگا۔ 136

ان تمام مذکور ہ بالا اقتباسات ، اقوال ائمہ اور مختلف ممالک کے مفتیان عظام کے فتاووں سے یہ بات بالکل بدیہی طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں قیام کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ یہ ایک مستحب امر ہے اور اس میں شرعی ممانعت نہیں ہے۔اس کے استحباب کی وجہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم ہے جو کہ شرعی طور پرمطلوب و مقصود ہے اور اسی وجہ سے مختلف ممالک کے مسلمان اور خصوصا ًعلمائے اعلام اس قیامِ میلادالنبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بنظرِ استحسان جانتے ہیں اور جس کو مسلمان استحسان کی نظر سے دیکھیں وہ بقول ابن مسعود اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں بھی مستحسن سمجھا جاتا ہے۔137

قیامِ میلاد اور علماء دیوبند

اسی طرح یہ قیامِ میلاد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی Rehmatullah Alaihکے ہاں بھی بنظر استحسان ہی دیکھا جاتا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے خودلکھتے ہیں کہ فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں۔ 138

اسی طرح اس قیامِ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں کلا م کرتے ہوئےمولانا اشرف علی تھانوی تحریر فرماتے ہیں:

اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیے نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے کیونکہ ایسے امور سے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہےجیسے قیام مولد شریف۔ اگر آنحضرت کےنام کی تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں اگر اس سردار عالم و عالمیان (روحی فداہ) کے اسم گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا۔139

قیامِ میلاد پرشبہات کا ازالہ

کھڑے ہوکر درودوسلام پڑھنے اور بالخصوص ساعتِ ولادت میں کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھنے کو بعض لوگ شرک تک کہہ دیتے ہیں ۔ ان کے بقول ان کی دلیل مسند احمد میں حضرت عبادہ Radi Allah Anhoکی روایت ہے جس میں درج ذیل فرمان نبوی موجود ہے:

فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : لایقام لى إنما یقام للّٰه تبارك وتعالىٰ.140
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :میرے لیے قیام نہ کیا کریں کیونکہ قیام فقط اﷲ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے ۔

حدیثِ مبارکہ کے درج بالا حصہ سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامِ تعظیمی فقط اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے لہذا کسی اور کے لیے تعظیماً قیام کرنا شرک کے مترادف ہے۔141

یقام ﷲ کی صحیح تشریح

اس اعتراض کے جواب میں اولاً بات یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ"لایقام لی انما یقام ﷲ تبارک وتعالیٰ" مکمل حدیث ہے ہی نہیں بلکہ حدیث کے بعض الفاظ ہیں جنہیں سیاق کلام سے علیحدہ کر کے مذکورہ مطلوبہ مفہوم مرادلیا گیا ہے جو کہ حقیقی طور پر غیر تحقیقی رویہ ہے۔اصل حدیث مبارکہ تحریر کرنے کے بعد مذکورہ اعتراض کا جواب دیا جائےگا۔روایت میں منقول یہ ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خلاف باتیں کیں اس کے جواب میں یہ فرمایا گیا تھا:

فقال أبوبكر: قوموا نستغیث برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا المنافق فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا یقام لى إنما یقام للّٰه
پس حضرت ابوبکرRadi Allah Anho نےفرمایا اٹھواس منافق پررسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں استغاثہ کرتےہیں۔پس رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےفرمایا: میرےلیےکھڑانہیں ہواجاتابلکہ اللہ کےلیےکھڑےہواجاتاہے۔

اس حدیث میں قیام ِتعظیمی کی بات ہی نہیں ہو رہی چنانچہ محمد بن عبد الوہاب اس حدیث کے مشابہ مسند احمد کی حدیث کو یوں نقل کرتے ہیں:

وقد كان فى زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم منافق یؤذى المؤمنین فقال بعضھم قوموا بنا نستغیث برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا المنافق فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أنه لا یستغاث بى وإنما یستغاث باللّٰه.142
نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےزمانےمیں ایک منافق تھا جومؤمنین کو ایذا دیاکرتاتھاپس بعض مؤمنین نےکہاکہ اٹھواس منافق پررسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سےاستغاثہ کرتےہیں۔ اس پرنبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےفرمایاکہ مجھ سے استغاثہ نہیں کیاجاتابلکہ اللہ سےاستغاثہ کیاجاتاہے۔

یہاں"قام" کا معنی قیام ہے ہی نہیں بلکہ مدد کرنے کے ہیں چہ جائیکہ اس سے قیامِ تعظیمی کے خلاف پر دلیل قائم کی جائے کیونکہ یہ مفہوم دیگر مذکورہ احادیث کے برخلاف اور متعارض ہے۔مذکورہ حدیث سے قیام تعظیمی مرادلینا درج ذیل حدیث مبارکہ کے بھی خلاف ہے جس میں حضرت عبداﷲ بن عمرRadi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں:

سأل رجل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال یارسول اللّٰه تمر بنا جنازة الكافر أفنقوم لھا؟ فقال نعم قوموا لھا فإنكم لستم تقومون لھا إنما تقومون اعظاماً للذى یقبض النفوس.143
ایک آدمی نے نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پوچھا یا رسول اﷲ! اگر ہمارے پاس سے کسی کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم کھڑے ہوجائیں؟ نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا ہاں اس وقت بھی کھڑے ہوجایا کرو تم کافر کے لیے کھڑے نہیں ہورہے تم اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہورہے ہو جو روح کو قبض کرتی ہے۔

اس حدیث میں قیام کی اجازت موجود ہے اگرچہ کہ کافر کے جنازہ کی بنا پر نیت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت و جلالت ہوگی لیکن نفس قیام کی اجازت دینا معترضین کے اختراعی مفہوم کو رد کررہاہےکیونکہ ان کے نزدیک قیام عبادت ہے اور عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہےلہٰذا کسی اور کے لیے قیام شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے میلاد کی محفل میں قیام ناجائز ہے۔ یہ اعتراض لغو ہے کیونکہ اگر قیام عبادت کا حصہ ہے اور صرف خدا کے لیے ہے تو پھر قعود یعنی بیٹھنا اور لیٹنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کی رُو سے یہ تینوں ہی اﷲ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہیں چنانچہ عقلمند افراد کی نشاندہی کرتے ہوئےارشاد باری تعالیٰ ہے:

الَّذِيْنَ يَذْكرُوْنَ اللّٰه قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِھمْ 144
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اﷲ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

اس آیہ کریمہ میں عبادت اور ذکر الٰہی کرنے کی تین حالتیں بیان ہوئی ہیں اٹھنا، بیٹھنا اور لیٹنا۔ اگر قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے تو پھر بیٹھنا اور لیٹنا کس کے لیے ہے؟ آیت کی رُو سے بیٹھنا بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہوگیا اور لیٹنا بھی اﷲ کے لیے خاص ہوگیا۔اب اگر قیام کو شرک مان لیا جائے تو قعود اور لیٹنے کی حالتیں بھی شرک قرار پائیں گی کیوں کہ یہ بھی ذکر الٰہی اور عبادت الٰہی کا جزو ہیں ؟ لہٰذااس سے یہ واضح ہوا کہ ان حرکات وسکنات کو صرف عبادت اور ذکر الٰہی کے لیے خاص کردینا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

عبادت کی مختلف حالتیں فی نفسہ عبادت نہیں

یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حالتیں فی نفسہ عبادت ہیں نہ ان کا شرک سے کوئی تعلق ہے کیوں کہ عبادت میں اصل چیز سنت اور نیت ہے جس کے بارے میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا فرمان ہے:

إنما الأعمال بالنیات.145
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

کوئی عمل نیت کے بغیر مقبول نہیں ہوتا لہٰذا دورانِ قیام ہاتھ باندھنے کا بھی عبادت سے کوئی تعلق نہیں جب تک کہ اس میں نیت کو شامل نہ کرلیا جائے۔ از روئے فقہ وشرع قیام کے فرائض وواجبات میں ہاتھ کا باندھنا شامل نہیں بلکہ قیام محض کھڑے ہونے کی حالت کو کہتے ہے۔ یہ ایک جداگانہ عمل ہے جس کا ہاتھ باندھنے یا نہ باندھنے سے کوئی تعلق نہیں۔ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی طریقوں میں وہ جس طرح بھی قیام کریں سب حالتیں فقہ کی رُو سے جائز ہیں۔ کون سی حالت اﷲتعالیٰ کے لیے ہے اور کون سی اﷲ تعالیٰ کے لیے نہیں، اس کے تعین کا دار ومدار نیت پر ہے، اگر قیام عبادت کی نیت سے کیا جائے تو پھر اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک ہوگا، اگر تعظیم کے لیے ہو تو پھر شرک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عبادت اور تعظیم میں یہ فرق بہرحال ملحوظ رکھنا لازمی ہے کہ یہ حالت عبادت کے لیے ہے اور یہ تعظیم کے لیے۔ اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ عبادت کا تعلق نیت سے ہے قیام سے نہیں، قیام مطلق کھڑے ہونا ہے، اس کا ہاتھوں کے ساتھ تعلق نہیں، کھولے جائیں یا باندھے جائیں برابر ہے۔

قیام عبادت ہے تو نماز کی باقی حالتیں کیا ہیں؟

اگر ہم اَرکان نماز پر غور کریں تو نماز کی حالتوں میں قیام کے بعد رکوع وسجود، قومہ اور قعدہ اس کا حصہ ہیں۔ قیام نماز کا حصہ ہے تو قعود بھی نماز کا حصہ ہے، قیام عبادت ہے تو قعود (بیٹھنا) بھی عبادت ہے، قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے تو قعود بھی اُسی کے لیے ہے۔ یہ سب حالتیں نماز کے فرائض وواجبات میں شامل ہیں اور قابل غور بات یہ ہے کہ تشہد میں اﷲ تعالیٰ نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر سلام بھیجنا بھی شامل کردیا ہے اور اسے نماز کا جزوِ لاینفک بنادیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ حالتیں غیر خدا کے لیے شرک ہوتیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نماز میں شرک کے مرتکب ہورہے ہوتے مگر ایسا نہیں کیوں کہ یہ حالتِ قعود وقیام اﷲ تعالیٰ کے لیے عبادتاً ہیں اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے تعظیماً ہیں اگر دوران نماز حالت قعود میں حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر درود وسلام عبادت الٰہی شمار نہیں ہوا تو نماز سے باہر قیام کو عبادت الٰہی کیسے تصور کرلیا جائے۔اس تمام تر بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قیام فی نفسہ عبادت نہیں ہے بلکہ اس کے عبادت قرار پانے کا دارومدار نیت پر ہے۔ قیام ایک جائز عمل ہے خواہ وہ تعظیم کے لیے ہو یا نہ ہو۔146

قیامِ تعظیمی پردیگر شبہات

بعض لوگ کسی کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کو جائز نہیں سمجھتے ۔ ان لوگوں کی طرف سے جو شبہات پیش کیے جاتے ہیں اور اپنے دلائل میں وہ جن احادیث مبارکہ کو بنیاد بناکر اپنے مؤقف پر استدلال کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں چنانچہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو کوئی بھی شخص رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے زیادہ محبوب نہ تھا لیکن اس کے با وجود حضرت انس Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

وكانوا إذا رأوہ لم یقوموا لما یعلمون من كراهیته لذلك.147
وہ لوگ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسے ناپسند کرتے ہیں۔

اسی طرح امام ولی الدین تبریزی Rehmatullah Alaih کی روایت میں اس طرح کے قیام کی مذمت کے بارے میں یہ روایت مروی ہے:

من سره أن یتمثل له الرجال قیاماً فلیتبوأ مقعدہ من النار.148
جس کو پسند ہو کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں وہ اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈے۔

اسی طرح اس قیام کی مذمت میں حضرت ابی امامہ Radi Allah Anhoکی روایت میں یوں منقول ہے:

لا تقوموا كما یقوم الأعاجم.149
عجمی لوگوں کی طرح نہ کھڑے ہوا کرو۔

معترضین کہتے ہیں کہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ زندگی میں بھی اگر کوئی بڑا آدمی آئے تو اس کی تعظیم کے لیے کھڑا نہ ہواجائے چہ جائیکہ میلاد شریف میں تعظیمی قیام کیا جائے کہ اس میں تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آتے بھی نہیں ہیں تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟

مذکورہ شبہات کا ازالہ

مذکورہ بالااحادیث میں مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا گیا ورنہ جن احادیث میں قیامِ تعظیمی کے جواز کو بیان کیا گیا ہے اس کے خلاف ہوگا بلکہ ان احادیث میں حسب ذیل امور سے ممانعت ہے اپنے لیے قیام چاہتا ہو اورلوگ دست بستہ سامنے کھڑے ہوں اوراسی طرح لوگ کھڑے ہوں اور پیشوا درمیان میں بیٹھا رہے اس طرح کے دونوں قیام منع ہیں۔

پہلی حدیث کا مفہوم

حضرت انس Radi Allah Anhoکی روایت کردہ پہلی حدیث جس میں منقو ل ہے کہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھ کر اس لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسے ناپسند کرتے ہیں۔150اس پہلی حدیث کے ماتحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

وحاصل آنكه قیام وترك قیام بحسب زمان واحوال واشخاص مختلف گر دو وازیں جا است كه گاهے نه طروند.151
خلاصہ یہ ہے کہ قیام تعظیمی کرنا اور نہ کرنا زمانہ اور حالات اور اشخاص کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے کبھی تو حضور کے لیے قیام کیا اور کبھی نہ کیا ۔

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کبھی تو حضور Alaihis Salam کی تشریف آوری پر کھڑے ہوجاتے تھے اور کبھی نہیں کیونکہ حالتیں مختلف ہوتی تھیں ایسا نہیں تھا کہ کھڑے ہوتے ہی نہیں تھے جیساکہ حضرت ابو ہریرہRadi Allah Anho کی روایت میں ہے کہ جب نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے۔152

دوسری اور تیسری حدیث کا مفہوم

اسی طرح دوسری حدیث جس میں منقول ہوا کہ جس کو پسند ہو کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں وہ اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈے153 اور تیسری حدیث جس میں منقول ہے کہ عجمی لوگوں کی طرح نہ کھڑے ہوا کرو 154 ان دونوں احادیث کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلویRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

قیام مكروه بعینه نیست بلكه مكروه محبت قیام است از كسیكه قیام كرده شدہ است برائے وى اگردے محبت قیام نه دار وقیام برائے وى مكروه نبود قاضى عیاض مالكى گفته كه قیام منھى عنه درحق كسى است كه نشسته باشد وایستادہ باشد پیش وے مردم تانشتن وى چنانكه دو حدیث بیابد درقیام تعظیم برائے اهل دنیا بجھت دنیائے ایشاں وعید شدید وارد شدو مكروه است.155
خود قیام مکروہ نہیں بلکہ قیام چاہنا مکروہ ہے اگر وہ قیام نہ چاہتا ہو تو اس کے لیے مکروہ نہیں ہے۔ قاضی عیاض نے فرمایا کہ قیام اس کے لیے منع ہے جو کہ خود تو بیٹھا ہو اور لوگ کھڑے ہوں اور دنیا داروں کے لیے قیام تعظیمی میں وعید آئی ہے اور وہ مکروہ ہے۔

یعنی شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaih کی بیان کردہ تشریحات کاخلاصہ یہ ہے کہ اولاً تو مطلق قیام منع نہیں ہے اور دوم یہ کہ خود قیام مکروہ نہیں بلکہ قیام چاہنا مکروہ ہے جس پر حدیث کے الفاظ"من سرہ أن یتمثل لہ الرجال قیاماً"صریح دلیل ہیں یعنی کبروغرور اور ریاء کے لیے قیام مکروہ ہےنہ کہ مطلق قیام منع ہے۔اسی طرح اس مفہوم کو بیان کرتے ہوئے محدث امام بیہقی شافعی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

فإنما هى واللّٰه أعلم إذا كان القیام على وجه التعظیم لا التكریم مخافة الكبر.156
بلاشبہ وہ اللہ ہی بہترجانتاہے(کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قیام سے منع کرنا) اس تعظیم کے لیے تھا جس میں تکبر کا اندیشہ ہو نہ کہ تکریم کی وجہ سے۔

اسی طرح امام طبری Rehmatullah Alaihان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

إنما فیه نھى من یقام له عن السرور بذلك لا من یقوم إكراما له.157
اس میں اس کے لیے قیام کرنے سے ممانعت ہے جو اس قیام سے خوش ہوتا ہو اور اس کو منع نہیں فرمایا جو کسی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوتا ہو۔

اسی حوالہ سے امام ابو القاسم عبد الرحمن السہیلی Rehmatullah Alaihجواز کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وليس هذا بمعارض لحديث معاوية عنه صلى اللّٰه عليه وسلم أنه قال: من سره أن يمثل له الرجال قياما فليتبوأ مقعده من النارويروى: يستجم له الرجال لأن هذا الوعيد إنما توجه للمتكبرين وإلى من يغضب أو يسخط ألا يقام له وقد قال بعض السلف يقام إلى الوالد برا به وإلى الولد سرورا به وصدق هذاالقائل فإن فاطمة رضى اللّٰه عنھا كانت تقوم إلى أبيھا صلى اللّٰه عليه وسلم برا به وكان هو صلى اللّٰه عليه وسلم يقوم إليھا سرورا بھا رضى اللّٰه عنھا، وكذلك كل قيام أثمره الحب فى اللّٰه والسرور بأخيك بنعمة اللّٰه والبر بمن يحب بره فى اللّٰه تبارك وتعالى، فإنه خارج عن حديث النھى واللّٰه أعلم.158
یہ حدیث حضرت معاویہRadi Allah Anho سے مروی حدیث کے معارض نہیں جس میں ہے "جسے یہ پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے" ایک روایت میں ہے " یستجم لہ الرجال"کیونکہ یہ وعید متکبروں کے لیے ہے یا ان لوگوں کے لیے ہے کہ اگر لوگ ان کے لیے کھڑے نہ ہوں تو وہ غضبناک اور ناراض ہوجائیں۔بعض علمائے سلف نے فرمایا نیکی کی نیت سے والد کے لیے کھڑا ہونا اور خوشی کے اظہار کے طور پر بیٹے کے لیے کھڑا ہونا ٹھیک ہے۔یہ قول اس وجہ سے سچا ثابت ہوجاتا ہے کیونکہ حضرت فاطمہ Radi Allah Anhumaحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں مقصود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی تھا اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت فاطمہRadi Allah Anhuma کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے مقصود ان کی آمد پر خوشی کا اظہار تھا اسی طرح ہر وہ قیام جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کے نتیجہ میں ہو(مسلمان) بھائی پر اﷲ کی نعمت(کی وجہ سے) اس پر خوشی کے اظہار کے طور پر ہو اور اﷲ کی رضا کی خاطر اس کے ساتھ حسن سلوک کے طور پر ہو جو اس حسن سلوک کو پسند کرتا ہو تو یہ جائز ہوگا یہ صورتیں حضرت معاویہRadi Allah Anho سے مروی حدیث کی نہی سے خارج ہوں گی۔واللہ اعلم۔

انہی احادیث کی تشریح کرتے ہوئےامام ابن الملک حنفی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وهذا الوعید فیمن سلك فیه طریق المتكبرین لقرینة السرور للمثول واما اذا لم یطلب ذلك وقاموا من تلقاء انفسھم طلبا للثواب والتواضع فلاباس به.159
اوریہ وعید اس کےلیےہے جومتکبروں کاراستہ اختیارکرے۔کھڑےہونےوالےکی تمثیل کرنے والے کے لیےخوشی کےقرینہ کی وجہ سے۔جبکہ اگرآنےوالا اس کی طلب نہ رکھےاوراستقبال کرنےوالےخودبخودثواب کی طلب اورانکساری سےکھڑےہوجائیں تو حرج نہیں۔

اسی طرح اس مفہوم کی تائید میں امام نووی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

قال القاضى عیاض لیس هذا من القیام المنھى عنه وانما ذلك فیمن یقومون علیه وهو جالس و یمثلون له قیاماً طول جلوسه.160
قاضی عیاض نے فرمایا کہ یہ قیام ممنوع قیاموں میں سے نہیں۔ممانعت جب ہے کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوں اور وہ بیٹھا ہو۔ اور لوگ اس کے بیٹھے رہنے تک کھڑے رہیں۔

مذکورہ بالا محدیثین کی عبارات سے واضح ہوا کہ ایسے قیام کی ممانعت ہے جس سے تکبر کا شیبہ ہو نہ کہ مطلق قیام کی ممانعت اور اس مفہوم کی تائید حدیث مبارکہ میں موجود تشبیہ سے بھی ہورہی ہے کہ عجمی اپنے بادشاہوں کے سامنے ان کے تکبر کی وجہ سے بیٹھتے نہیں تھے جس سےنبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے روکا ہے ۔وہ قیام جو تکریم و تعظیم کےلیے ہو اس کا تو خود نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو حکم دیا ہے جیساکہ انصار صحابہ Radi Allah Anhumکو حضرت سعد بن معاذRadi Allah Anho کی تکریم وتعظیم کے لیے قیام کا حکم دیتے ہوئےارشاد فرمایا تھا کہ اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔161ا س سے معلوم ہوا کہ اصل قیام ممنوع نہیں ہے بلکہ وہ قیام ممنوع ہے جس سے تکبر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوجیساکہ عجمی بادشاہوں کےلیے یہ قیام ہوتا تھا۔

مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوا کہ ان دونوں حدیثوں میں خاص قسم کے قیام سے ممانعت ہے جس میں تکبر کا شائبہ ہو جبکہ محافل میلادالنبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قیام ان میں سے ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو تعظیم رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سبب ہے جو شرعاً مطلوب ہے۔

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قیام کی ناپسندیدگی

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جو اپنے لیے قیام کو ناپسند فرمایاوہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تواضع اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا انکسار تھاورنہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کا حکم دیا ہے چنانچہ قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد واضح ہے:

فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِه وَعَزَّرُوْه وَنَصَرُوْه وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِى اُنْزِلَ مَعَه اُولٰۗىِٕك همُ الْمُفْلِحُوْنَ157162
پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

سو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم کے لیے قیام خواہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات مبارکہ میں ہو یا بعد از وصال ہو ہر دو صورتوں میں جائز اور مستحب ہے۔پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی کے لیے قیام کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور ان میں اکثر صورتیں متفق علیہ ہیں اور ان کا حکم واضح ہے مثلا ًسردار بیٹھا ہے اور حاضرین تعظیم وتکریم میں مسلسل کھڑے ہیں تو یہ صورت بالاتفاق ناجائز ہے۔اسی طرح آنے والے کے دل میں تکبر وبڑائی ہو اور وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تویہ صورت بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔اگر آنے والے کے دل میں تکبر پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے قیام مکروہ ہے۔تاہم کسی آنے والے کے اکرام میں کوئی آدمی کھڑا ہوتا ہے اور آنے والے کے دل میں نہ اپنے لیے اس قیام تعظیمی کی خواہش ہے اور نہ تمنا اس صورت میں جمہور علماء فرماتے ہیں کہ یہ قیام تعظیمی جائز ہے۔

دل میں تکبراور غرور ہونا اور بات ہے اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر غرور اور تکبر نہ آئے تو اس وقت قیام تعظیمی جائز ہے۔ ہاں انسان کو دل میں یہ خواہش قطعاً نہیں رکھنی چاہیے کہ لوگ اس کے سامنے بالکل بے جان ہوکر کھڑے رہیں اگر کوئی اس نیت سے کسی کو کھڑا کرتا ہے یا کسی کا کھڑا ہونا پسند کرتا ہے تو اس وقت اس کے لیے وہی وعید ہے جو حدیث پاک میں ہے۔ اگراس کےبرعکس کسی نے قیام کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کے قیام سے اسے تکبر اور غرور آیا البتہ دوسرے احباب نے فقط اس عزت وبزرگی کی خاطر ایسا کیا تو یہ قیام ہرگز ممنوع نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہے۔

قیام کی چار قسمیں

اسی قیام کےحوالہ سے کلام کرتےہوئےامام ابو الولید بن رشد Rehmatullah Alaihنے قیام کی چار قسمیں بیان کی ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

إن القیام على أربعة أوجه: الأول: محظور، وهو أن یقع لمن یرید أن یقام إلیه تكبرا وتعاظما على القائمین إلیه والثانى: مكروه وهو أن یقع لمن لا یتكبر ولا یتعاظم على القائمین، ولكن یخشى أن یدخل نفسه بسبب ذلك ما یحذر، ولما فیه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز وهو أن یقع على سبیل البر والإكرام لمن لا یرید ذلك، ویؤمن معه التشبه بالجبابرة والرابع: مندوب وهو أن یقوم لمن قدم من سفر فرحا بقدومه لیسلم علیه أو إلى من تجددت له نعمة فیه نیه بحصولھا أو مصیبة فیعزیه بسببھا.163
قیام کی چار قسمیں ہیں:پہلی قسم یہ ہے کہ اس شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا ممنوع ہے جو اپنے تکبر اور بڑائی اور اپنی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔دوسری قسم یہ ہے کہ اس شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے جو نہ تو تکبر کرتا ہے اور نہ کھڑے ہونے والوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو لیکن یہ خدشہ ہو کہ وہ بھی ان میں داخل ہوجائے گا جن کے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت ہے۔تیسری قسم یہ ہے کہ اس شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا جائز ہے کہ لوگ نیکی کے قصدسے اور اس کی تکریم کے لیے کھڑے ہوتے ہوں اور اس شخص کا یہ ارادہ نہ ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں اور وہ متکبرین کے ساتھ مشابہت سے مامون ہو۔چوتھی قسم یہ ہے کہ اس شخص کے لیے کھڑا ہونا مستحب ہے جو کسی سفر سے آیا ہو اور اس کے آنے کی خوشی پر اس کے لیے قیام کیا جائے تاکہ اس کو سلام کرےیا جس شخص کو نئی اور تازہ نعمتیں ملی ہوں تو وہ ان نعمتوں کے حصول پر اس کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑا ہویا جو شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی تعزیت کے لیے کھڑا ہو۔

قیام کی اِس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر ذات کے لیے قیام اُس کے مرتبہ کے لحاظ سے جائز ہے۔ شاگرد اپنے استاد کے لیے اَدباً اور تعظیماً کھڑا ہوتا ہے ،میزبان مہمان کے اِستقبال کے لیے کھڑا ہوتا ہے،مرید شیخ کے لیے محبت رکھتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے اور بیٹا باپ کے لیے ادباً کھڑا ہوتا ہے قیام کی یہ تمام صورتیں جائز ہی نہیں حباً واجب ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں پائی جاتی لہٰذا اگر ان تمام ذاتوں کے لیے ادباً تعظیماً، اکراماً اور فرحت محسوس کرتے ہوئے کھڑا ہونا جائز ہے تو پھر حضورا کرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے بدرجہ اَولیٰ جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ جب مسلمانان عالم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے میلاد پر قیام کرتے ہیں تو یہ محبت، فرحت اور خوشی کے اِظہارکے طور پر کرتے ہیں، ہم اِس گھڑی کو اپنے تصور وتخیل میں رکھتے ہوئے محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس دنیائے آب وگل میں تشریف لائے اور اس طرح کا قیام امت مسلمہ کے بڑے اور جلیل القدر ائمہ اسلاف سے ثابت ہے اور اسی وجہ سے مسلمانان عالم کے نزدیک محافل میلاد میں تعظیمی قیام مستحسن جانا جاتاہے۔


  • 1  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 6573، ج-11، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت لبنان، 2001م، ص: 135
  • 2  محمد داؤد ارشد ، دین الحق بجواب جاء الحق، ج-2، مطبوعہ: مکتبہ عزیزیہ، لاہور،پاکستان،2001ء، ص:172-173
  • 3  القرآن، سورۃ الحجرات 49: 2
  • 4  أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر الدمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 343
  • 5  قاضى عیاض بن موسی یحصبی المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفيحاء، عمان، الأردن،1407ھ، ص:91
  • 6  القرآن، سورۃ الاحزاب53:33
  • 7  أبو الفداء اسماعیل حقی حنفی بروسی، روح البیان فی تفسير القرآن، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 217
  • 8  ڈاکٹر محمدطاہر القادری، میلاد النبی ﷺ ، مطبوعہ: منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2007ء،ص:640-643
  • 9  مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، ج-1، مطبوعہ: مکتبہ غوثیہ،کراچی،پاکستان، (سن ا شاعت ندارد)،ص: 566
  • 10  امام احمد رضا خان القادری، فتاویٰ رضویۃ، ج-26،مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 553
  • 11  سیّد دیدار علی شاہ محدث الوری، رسول الکلام من کلام سیّد الانام فی بیان مولد والقیام، مطبوعہ: مکتبہ فیضان ختم نبوت، سیالکوٹ،پاکستان، 2011ء، ص: 117
  • 12  أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 425، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع، الریاض، السعودیۃ،1999 م، ص:74
  • 13  أبو زکریا یحییٰ بن شرف محیی الدین النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم، ج-1، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1392 ھ ، ص: 244
  • 14  قاضی عیاض بن موسی یحصبی المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفيحاء، عمان، الأردن، 1407ھ، ص: 26
  • 15  شیخ محمد روح اﷲ نقشبندی، ہاتھ پاؤں چومنے اور قیام تعظیمی کی شرعی حیثیت، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)،ص: 113
  • 16  القرآن، سورۃ الجمعۃ 62 : 10
  • 17  القرآن، سورۃ البقرۃ2: 238
  • 18  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:1637، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع،الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 265
  • 19  أبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، المعجم الصغیر، حدیث:445، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 129
  • 20  أبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن النسائی، حدیث:95، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999 م ،ص: 12 -13
  • 21  ابو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی، شرح معانی الآثار، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1399ھ ، ص: 273
  • 22  ملا نظام الدین البلخی، فتاوی الهندية، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1310ھ، ص: 265
  • 23  نورالدین علی بن سلطان القاری، مسلک متقسط مع ارشاد الساری، مطبوعۃ: دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 338
  • 24  ابو اسحاق إسماعیل بن إسحاق القاضی، فضل الصلوۃ علی النبیﷺ ، حدیث: 98، مطبوعۃ: رمادی للنشر، بیروت، لبنان، 1996م، ص:193-194
  • 25  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، السنن الکبریٰ، حدیث:10271، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 402
  • 26  ابو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی، المصنف، حدیث: 6724، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 576
  • 27  ابو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 484
  • 28  شمس الدین محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیۃ، متن القصیدۃ النونیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1417ھ، ص: 254
  • 29  ملا نظام الدین البلخى، فتاوی الهندية، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1310ھ، ص: 350
  • 30  أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:621
  • 31  أبو زکریا یحییٰ بن شرف محیی الدین النووی، کتاب المجموع شرح المہذب للشیرازی، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 311
  • 32  أبوداؤد سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داؤد، حدیث:465، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع،الریاض، السعودیۃ، 2009 م،ص: 105
  • 33  ابو عبداللہ محمد بن یزید ابن ماجۃ القروینی ، سنن ابن ماجۃ حدیث : 773، مطبوعۃ : دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض ، السعودیۃ، 2009م،ص:135
  • 34  ملا نظام الدین البلخئ، فتاوی الهندية، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،1310ھ، ص: 427
  • 35  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3043، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع،الریاض، السعودیۃ،1999 م، ص: 502-503
  • 36  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، الآداب للبيهقي، حدیث:294، مطبوعۃ: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص:97-98
  • 37  ایضاً، المدخل إلی سنن الکبریٰ، حدیث: 707، مطبوعۃ: دار الخلفاء للکتاب الاسلامی، الکویت، 1404ھ، ص: 397
  • 38  ایضاً، شعب الإیمان، حدیث:8925، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1410ھ، ص: 466
  • 39  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، الآداب للبيهقی، حدیث:292، مطبوعۃ: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 97
  • 40  ابو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-11، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 49
  • 41  ابو زکریا یحییٰ بن شرف محیی الدین النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم، ج-12، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392 ھ، ص: 93
  • 42  ابوداؤد سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داؤد، حدیث:4775، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص: 947
  • 43  ابو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 7869، ج-13، مطبوعة: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 254
  • 44  ابو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن النسائی، حدیث:4776، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع،الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 659
  • 45  ابو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن الکبریٰ، حدیث:6952، ج-6، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 346
  • 46  ابو الشيخ محمد عبد اﷲ بن محمد الأصبهانی، طبقات المحدثین بأصبھان والواردين عليها، حدیث:365، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،1992م، ص: 293
  • 47  ابو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی، شرح مشکل الآثار، حدیث: 1124، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 154
  • 48  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، الآداب للبيهقي، حدیث: 140، مطبوعۃ: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 58
  • 49  أبو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج- 3، مطبوعۃ: دار الفکر، للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 371
  • 50  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، جامع الأحادیث الکبیر، حدیث:42521، ج- 39، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ص:276
  • 51  أبوعبداﷲ محمد بن مفلح المقدسی، الآداب الشرعية والمنح المرعية، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 440
  • 52  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3872، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع،الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص: 1135
  • 53  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی(مترجم:بدیع الزماں حید رآبادی) ،ج -2، مطبوعہ: نعمانی کتب خانہ، لاہور، پاکستان،1988ء، ص: 728
  • 54  نورالدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج-3، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ص: 1207
  • 55  اس مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کو علماء محدثین "حدیث جبریل" ،" ام الاحادیث" اور"ام الجوامع" بھی کہتے ہیں۔ (ادارہ)
  • 56  أبو حنيفة النعمان بن ثابت التيمى، مسند أبی حنیفۃ رواية الحصكفی، مطبوعۃ: قديمی كتب خانۃ، كراتشي، باكستان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:4-5
  • 57  أبو عبداﷲ الحسین بن محمد البلخی، مسند الإمام الأعظم، حدیث: 696، ج-2، مطبوعة: المکتبۃ الإمدادیۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودية، 2010 م ، ص:583-585
  • 58  ابوالمؤید محمد بن محمود خوار زمی، جامع المسانید، ج-1، مطبوعۃ: مجلس دائرۃ المعارف حیدرآباد، دکن، ہند ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:173-174
  • 59  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:374، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:439-440
  • 60  أبو سعید إبراہیم بن طہمان الهروى، مشیخۃ ابن طھمان، حدیث: 84، مطبوعۃ: مجمع اللغۃ العربیۃ، دمشق،السوريۃ، 1983م، ص: 142
  • 61  أبو عبد الله محمد بن نصر المروزی، تعظیم قدر الصلوٰۃ، حدیث: 370، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الدار، المدینۃ المنورۃ، السعودية، 1406ھ ، ص: 378
  • 62  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:8113، ج-8، مطبوعۃ:دار الحرمین، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:107
  • 63  أبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن النسائی، حدیث:1929، مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع،الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص: 271
  • 64  ایضاً، سنن الکبریٰ، حدیث:2066، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 422
  • 65  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 1012، مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع،الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص:322
  • 66  أبوداؤد سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داؤد، حدیث: 3177، مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 2009م،ص: 647-648
  • 67  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 6573، ج-11، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 135
  • 68  أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی، شرح معانی الآثار، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1399ھ ، ص: 486
  • 69  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 20، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001 م، ص: 201
  • 70  حضرت ابو بکر سے پوچھنے پر آپ نے کہا کہ نبی مکرمﷺ نے ان وساوس سے بچنےکا عمل کلمہ شہادت بتایا تھا۔( أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 20، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 201)
  • 71  أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی، المصنف، حدیث: 20554، ج-11، مطبوعة: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص:285-286
  • 72  امام احمد رضا خان القادری، فتاویٰ رضویۃ، ج-26،مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 531
  • 73  أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-9، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1996م ، ص: 59
  • 74  ابو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:14، مطبوعۃ: دا رالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 6
  • 75  ایضاً
  • 76  شيخ عبداﷲ سراج الدین الحسينى، سیّدنا محمد رسول اﷲﷺ، مطبوعۃ: مطابع الأصیل، حلب، السوریة،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 6
  • 77  کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، فتح القدیر، ج-3، مطبوعۃ: دارالكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1424هـ، ص: 168
  • 78  شہاب الدین احمد بن حجر الہیتمی ،کتاب الجوھر المنظم فی زیارۃ القبرالشریف النبوی المکرم، مطبوعہ: مرکز تحقیقات اسلامیہ، لاہور،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص: 48
  • 79  محمد احتشام کاندھلوی، تجلیات مدینہ ،مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، (سن ا شاعت ندارد)،ص: 17
  • 80  أبو المواهب عبد الوہاب بن أحمد الشعرانی، کشف الغمة عن جمیع الأمۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ص: 56
  • 81  ابو الحسن علی بن عبد الکافی تقی الدین السبکی، شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام (مترجم: علامہ محمد ظہور اللہ الأزہری)، مطبوعہ :نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء، ص: 103
  • 82  شیخ عبد الحق محدث دہلوی،اخبار الاخیار (مترجم: سبحان محمود) ،مطبوعہ: مدینہ پبلی کیشنز ،کراچی،پاکستان ،(سن ا شاعت ندارد)،ص: 624
  • 83  تاج الدین عبد الوہاب بن تقی الدین السبکی، طبقات الشافعیۃ الکبری، ج-10، مطبوعۃ: ہجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاهرة، مصر،1413 ھ، ص: 200
  • 84  شهاب الدين أحمد بن حجر الہیتمی، الفتاویٰ الحدیثیۃ، مطبوعۃ: مطبع جمالیۃ ،القاہرۃ،مصر ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 85
  • 85  تاج الدین عبد الوہاب بن تقی الدین السبکی ،طبقات الشافعیۃ الکبری، ج-10، مطبوعۃ: ہجر للطباعۃ والنشر والتوزیع القاهرة، مصر،1413 ھ، ص: 200
  • 86  ابو الفرج على بن ابراهيم الحلبى، انسان العيون فى سيرة النبى الامين المامونﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:123
  • 87  امام احمد رضا خان القادری، فتاویٰ رضویۃ، ج-26،مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 506
  • 88  أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج-23، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984م، ص: 323
  • 89  أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-17، مطبوعۃ: دار هجر للطباعۃ والنشر والتوزیع والاعلان ، 1997م، ص: 377
  • 90  زین الدین عبد الرحمن بن أحمد الحنبلی، ذیل طبقات الحنابلۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:262-263
  • 91  أبو زکریایحییٰ بن یوسف الصرصری، منظومۃ فی مدح النبیﷺوبیان عقیدۃ أھل السنۃ والجماعۃ، مطبوعۃ: بيت الأفكار الدولية، الأردن،1427،هـ،ص:31
  • 92  مصطفی بن عبداﷲ الحاج خليفة الرومي،کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 797
  • 93  سیّد جعفر بن حسن برزنجی المدنی ،عقد الجوہر فی مولد النبی الازہر (مترجم: نور بخش توکلی)، مطبوعہ: جامعہ اسلامیہ ،لاہور، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:25-26
  • 94  شیخ عبد الرحیم السیوطی، تلحین الصنج شرح مولد الإمام البرزنجی، مطبوعۃ: مطبعۃ الھلال بالفجالۃ، مصر ، 1903م، ص: 22
  • 95  سیّد جعفر بن حسن برزنجی المدنی، مولد البرزنجی، مطبوعۃ: أبو ظہبی، دولۃ الإمارات العربیۃ المتحدۃ، 2008م، ص:134-174
  • 96  شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواھر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص:535
  • 97  ابو الفرج على بن ابراهيم الحلبى، انسان العيون فى سيرة النبى الامين المامونﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:123
  • 98  أبو محمد عبد اﷲ بن عبد الرحمن الدارمی، سنن الدارمی، حدیث:95، ج-1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 2000م، ص: 228
  • 99  أبو إسحاق إسماعیل بن إسحاق المالکی، فضل الصلاۃ علی النبیﷺ ، حدیث: 102، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1977م، ص: 83
  • 100  أبو الشيخ محمد عبد اﷲ بن محمد الأصبهانى، العظمۃ، حدیث:537، ج-3، مطبوعۃ: دار العاصمۃ، بیروت، لبنان،1408ھ، ص: 1018
  • 101  نورالدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، حدیث: 5955 ، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2002 م، ص: 3842
  • 102  أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 1425، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودية، 2009 م، ص:254-255
  • 103  ابو بکر محمد بن ابراھیم الاصبھانی، المعجم لابن المقری، حدیث:718، ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1998م،ص:223
  • 104  أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 372
  • 105  أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3532، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر و التوزیع،الریاض، السعودیۃ،2009م، ص: 1046
  • 106  أبو عبداﷲ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 1788، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 307
  • 107  ابو حاتم محمد بن حبان الدارمی،صحیح ابن حبان، حدیث:6404، ج-14، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت، لبنان، 1998م، ص:313
  • 108  ابو عبد اللہ احمد بن محمد شیبانی، مسند امام احمد بن حنبل، حدیث:16987، ج-28، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م،ص:194
  • 109  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری،حدیث:3557، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:597
  • 110  أبوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث:4465، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1990م، ص:83-84
  • 111  کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، فتح القدیر، ج-6، مطبوعۃ: دارالكتب العلمية، بیروت، لبنان،1424ھ ، ص: 158
  • 112  أبو سهل محمد بن أحمد شمس الأئمة السرخسی، المبسوط، ج-15، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان،1414ھ ـ، ص: 160
  • 113  أبو عبد الله محمد بن محمد أكمل الدين البابرتی، العنایۃ شرح الہدایۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 15
  • 114  ابو الفرج على بن ابراهيم الحلبى، انسان العيون فى سيرة النبى الامين المامونﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:123
  • 115  القرآن، سورۃ الفتح 48 :8-9
  • 116  جلال الدين عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الدرالمنثور فی التفسیر المأثور،ج-6، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 615
  • 117  نورالدین علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج- 2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ ، ص: 64
  • 118  شيخ أحمد بن محمد الصاوی، تفسیر الصاوی(حاشية الصاوي على تفسير الجلالين)، ج-5، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 308
  • 119  القرآن،سورۃ الحج22 :32
  • 120  شیخ الدلائل عبد الحق محدث الہ آبادی، الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ حضرت میاں صاحب شرقبور شریف، شیخوبورہ، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 137
  • 121  شاہ احمد سعید مجددی فاروقی، اثبات المولد والقیام، مطبوعۃ: مکتبۃ مجددیۃ ، لاہور، باکستان، 2015م، ص: 38
  • 122  محمد منظور نعمانی، ماہنامہ الفرقان، شمارہ: 12، ج-26، مطبوعہ: لکھنؤ، انڈیا، 1959ء،ص: 25
  • 123  شیخ الدلائل عبد الحق محدث الہ آبادی، الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ حضرت میاں صاحب شرقبور شریف، شیخوبورہ، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 141-142
  • 124  امام احمد رضا خان القادری، فتاویٰ رضویۃ، ج-26،مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 508 -509
  • 125  ایضاً
  • 126  أحمد بن زیني دحلان المکی، الدررالسنیۃ فى الرد على الوهابية، مطبوعۃ: المکتبۃ الرحیمیۃ ،بشاور، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 19
  • 127  شیخ الدلائل عبد الحق محدث الہ آبادی، الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ حضرت میاں صاحب شرقبور شریف، شیخوبورہ، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 139
  • 128  امام احمد رضا خان القادری، فتاویٰ رضویۃ، ج-26،مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:510-511
  • 129  شیخ حسین بن إبراھیم المغربی، قرۃ العین بفتاویٰ علماء الحرمین، مطبوعۃ: التجاریۃ الکبریٰ، مصر، 1937م، ص: 310-311
  • 130  شیخ الدلائل عبد الحق محدث الہ آبادی، الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ حضرت میاں صاحب شرقبور شریف، شیخوبورہ، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 138-139
  • 131  أحمد بن زیني دحلان المکی، حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ ،بیروت، لبنان، 2010م، ص: 43-46
  • 132  امام احمد رضا خان القادری، فتاویٰ رضویۃ، ج-26،مطبوعۃ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 512
  • 133  ایضاً،ص: 515
  • 134  ایضاً، ص:516
  • 135  ایضاً،ص: 516-519
  • 136  ایضاً،ص: 521
  • 137  أبوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری ، المستدرک علی الصحیحین، حدیث:4465، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1990م، ص:83-84
  • 138  حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی، کلیات امدادیہ فیصلہ ہفت مسئلہ ، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 80
  • 139  مولانا اشرف علی تھانوی ، امداد المشتاق، مطبوعہ: ممتاز اکیڈمی ،لاہور،پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 88
  • 140  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 6573، ج-11، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت لبنان، 2001م، ص: 135
  • 141  محمد داؤد ارشد ، دین الحق بجواب جاء الحق، ج-2، مطبوعہ: مکتبہ عزیزیہ، لاہور،پاکستان، 2001ء، ص:172-173
  • 142  محمد بن عبد الوہاب النجدی، عیون الرسائل والأجوبۃ علی المسائل،ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 648
  • 143  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 6573، ج-11، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 135
  • 144  القرآن، سورۃ آل عمران 3: 191
  • 145  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 1، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:4
  • 146  ڈاکٹر محمدطاہر القادری، میلاد النبی ﷺ،مطبوعہ: منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2007ء،ص:602-604
  • 147  ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2754، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 818
  • 148  أبو عبد الله محمد بن عبد اللہ الخطیب العمری، مشکاۃ المصابیح، حدیث: 4699، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی ، بیروت، لبنان، 1985م، ص: 1332
  • 149  أیضاً
  • 150  ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2754، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 818
  • 151  شیخ عبد الحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات ،ج-4، مطبوعہ: المکتبۃ الحقانیۃ، پشاور،پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 31
  • 152  أبوداؤد سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داؤد، حدیث:4775، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص: 947
  • 153  أبو عبد الله محمد بن عبد اللہ الخطیب العمری، مشکاۃ المصابیح، حدیث: 4699، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی ، بیروت، لبنان، 1985م، ص: 1332
  • 154  أیضاً
  • 155  ایضاً،ص:30-31
  • 156  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، الآداب للبيهقى، حدیث: 245، مطبوعۃ: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 100
  • 157  أبو محمد محمود بن أحمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج-22، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:251-252
  • 158  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی ،الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ج-7، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م،ص: 411-412
  • 159  محمد بن عزالدین عبداللطیف ابن الملک، شرح المصابیح لابن الملک، حدیث: 3639، ج-5، مطبوعۃ: ادارۃ الثقافیۃ الإسلامیۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 184-185
  • 160  أبو زکریا یحییٰ بن شرف النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم، ج-12، مطبوعۃ:دار إحیاء التراث العربی ، بیروت، لبنان، 1392ھ،ص: 93
  • 161  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3043، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص: 502-503
  • 162  القرآن، سورۃ الأعراف7: 157
  • 163  أبو محمد محمود بن أحمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج-22، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 252

Powered by Netsol Online