encyclopedia

میلاد النبی ﷺاور تعیّنِ دن

Published on: 19-Jul-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، ڈاکٹر مفتی عمران خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:37، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 1056-1068)

دنیا کا ہر کام ، ہر بزم،مجلس،کانفرنس،محفل اوراجتماع کا انعقاد کسی دن یارات میں ہی کیاجاتا ہےاوراس دن یا رات کا وقوع بھی عیسوی یا ہجری کلینڈر کے اعتبار سےکسی تاریخ میں ہی ممکن ہے۔پروگرام ٹی وی کا ہویاریڈیوکا،اخبار کا ہو یارسالہ کا،ادارہ کا ہو یاجماعت کا،اسلامی تحریک کاہو یا مدرسہ کا اس کا جب تک قبل از وقت دن،تاریخ،ماہ،سال اوروقت متعین نہ کیاجائے تو وہ منعقد ہو ہی نہیں سکتا۔ایک چھوٹی سی ملاقات جو صرف دو افراد پر مشتمل ہوتی ہو اسکو بھی مہذب افراد اور معاشرے طے کرکے کرتےہیں تاکہ ملاقات بامعنی اور حصولِ مقصد کاذریعہ بن سکے۔اسی تناظر میں امتِ مسلمہ میں سے چند افرادہر مذہبی ودینی وروحانی محفل کےانعقاد کے بارے میں ایک لایعنی بحث چھیڑدیتے ہیں۔

محفل میلاد کے لیے کسی دن اور وقت کو خاص نہیں سمجھاجاتا اور اسی وجہ سے ہر سال کے ہر دن میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور پر محفل میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا انعقاد کیاجاتا ہے لیکن اگر کسی مصلحت کے تحت کوئی دن مقرر کر لیاجائے تو اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اعمال صالح کے لیے دن مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں جیساکہ نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے1 اور صحابہ کرام نے2بعض کاموں کے لیے اس طرح کی تعیین فرمائی ہے3لہذا اگر کوئی شخص بارہ (12) ربیع الاول شریف کو یومِ میلاد میں ہونے والی برکات کی وجہ سے محفل میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منعقد کرتا ہے تو یہ عقل کا تقاضا ہے کہ جس کی یادمنانی ہو تو اسی دن منائی جائے جس دن اور جس تاریخ کو اس شخصیت سے نسبت ہو چنانچہ شیخ محمد عبد الحکیم شرف قادری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

تعین کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم ہے تعین شرعی یعنی شریعت نے کسی کام کے لیے ایک وقت معین کردیا ہے اوروہ کام اس وقت کے علاوہ ہو ہی نہیں ہوسکتا مثلاً قربانی کے خاص دن مقرر ہیں آگے پیچھے نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح بعض ایسے کام جن کومقررہ وقت سے آگے پیچھے سرانجام دینا مکروہ ہو مثلاً حج کے احرام کے لیے شوال، ذوالقعدہ اور دس (10) دن ذی الحجہ کے مقرر ہیں اور ان سے پہلے حج کے لیے احرام باندھنا مکروہ ہے ۔بعض وہ کام جن کاخاص ثواب مقررہ وقت میں تو ہے لیکن کسی دوسرے وقت میں نہیں ہے مثلاًعشاء کے لیے رات کا پہلا تہائی حصہ جو ثواب اس وقت میں ہے اس کے بعد نہیں۔دوسری قسم ہے تعین عادی یعنی شریعت نے ایک کام کی عام اجازت دے رکھی ہے کہ جب ادا کرلیں لیکن کچھ مصلحتوں کے پیش نظر ایک وقت معین کرلیا جائے مثلاً شریعت کی طرف سے ایصال ثواب کی عام اجازت ہے کسی وقت بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے اب اگر کوئی شخص ایصال ثواب کے لیے دن مقرر کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس وقت کے علاوہ ایصال ثواب نہیں ہوسکتا یا جو ثواب اس وقت ہے وہ آگے پیچھے نہیں ہوگا تو یہ تعیین شرعی ہے اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ تعیین شرعی شارع کی طرف سے ہی ممکن ہے اورکسی شخص کو اپنے طور پر وقت مقرر کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن اگر کوئی شخص بعض فوائد کے پیش نظر وقت مقرر کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے وقتوں میں بھی ایصال ثواب ہوسکتا ہے نیز تمام اوقات میں ثواب یکساں پہنچتا ہے تو یہ ہرگز تعیین شرعی نہیں تعیین عادی ہے اسے ناجائز کہنا کسی طرح بھی درست نہیں اور اسے ناجائز کہنے کی اصلاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ 4

اگر ان اقسام کو تسلیم نہ کیا جائے تو ہر نیک کام جس کے لیے تاریخ مقرر کی جاتی ہے وہ ناجائز ہو جائے گا جس کے لیے شریعت نے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیامثلاً نماز کے لیے وقت مقرر کرنا کہ ظہر ایک بج کر پندرہ منٹ پر ہوگی یہ بھی ناجائز ہوگا کیونکہ شریعت نے اس کے لیے کوئی خاص وقت (اپنے مقررہ وقت ہی میں )مقرر نہیں کیا بلکہ اس کاتقرر ہماری طرف سے ہے علی ہذا القیاس کئی مسائل اس قسم کے انکار کی وجہ سے ناجائز ہوجائیں گے جو کہ شرعی اصول وضوابط کے خلاف ہے لہذا معلوم ہوا کہ تعین شرعی شارع کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے لیکن تعین عادی جائز ہے اور اس کو سہولت کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تعین عادی اور احادیث

احادیث اس بات کی شاہد ہیں کہ خود نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بھی کچھ کام معین وقت میں کیے تھے اور صحابہ کرامRadi Allah Anhum بھی بعض نیک کاموں کے لیے وقت مقرر فرمایا کرتے تھے چنانچہ حضرت ابووائل Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں :

كان عبداللّٰه یذكر الناس فى كل خمیس فقال له رجل یا أبا عبدالرحمن لوددت أنك ذكرتنا كل یوم قال أما أنه یمنعنى من ذلك أنى أكره أن أملكم وإنى أتخولكم بالموعظة كما كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یتخولنا بھا مخافة السامة علینا. 5
حضرت عبداﷲ بن مسعودRadi Allah Anhuma لوگوں کو ہر جمعرات کے دن نصیحت کرتے تھے ان سے ایک شخص نے کہا اے ابو عبد الرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت کیا کریں حضرت ابن مسعود Radi Allah Anhumaنے کہا لیکن مجھے جو چیز اس سے باز رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ میں تمہیں ملال اور اکتاہٹ میں مبتلا کرنے کو ناپسند کرتا ہوں اور میں نصیحت کرنے میں تمہاری اس طرح حفاظت اور رعایت کرتا ہوں، جس طرح نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اکتاہٹ اور ملال کے خدشہ سے ہماری رعایت کرتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیّدنا عبداﷲ بن مسعودRadi Allah Anhuma ہر روز نصیحت نہیں کرتے تھے بلکہ اس وعظ و نصیحت کے لیے جمعرات کا دن مقرر کرلیا تھا جس سے ثابت ہوا کہ نفلی عبادات کے لیے اپنی سہولت سے دن مقرر کرنا جائز ہے یہ تَعیُّن عرفی وعادی ہے نہ کہ تَعیُّن شرعی ۔

اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام بخاری Rehmatullah Alaihنے اپنی صحیح میں ایک باب بھی قائم کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ تَعیُّن عرفی جائز و مباح ہے چنانچہ امام بخاری نے ایک حدیث بیان کرنے سے پہلے اس کے لیے یوں باب باندھا ہے:

باب من جعل لأهل العلم أیاما معلومة.6
باب جس شخص نے اہل علم کے لیے معین دن مقرر کیے۔

اسی طرح اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئےحضرت عبداﷲ بن عمر Radi Allah Anhumaفرماتے ہیں:

أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم كان یأتى مسجد قباء كل سبت یأتیه ماشیا وراكبا.7
بے شک رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہر ہفتہ کے روز مسجد قبا جاتے تھے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پیدل اور سوار ہوکر جاتے۔

اسی طرح ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک Radi Allah Anho فرماتے ہیں :

إن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم خرج فى غزوة تبوك یوم الخمیس، وكان یحب أن یخرج یوم الخمیس.8
بے شک رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جمعرات کے روز غزوہ تبوک کے لیے نکلے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جمعرات کے روز نکلنا پسند فرماتے تھے۔

اسی حوالہ سے حضرت محمد بن ابراہیم التیمی بیان کرتے ہیں :

كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یأتى قبور الشھداء عند رأس الحول فیقول: السلام علیكم بما صبرتم فنعم عقبى الدارقال: وكان أبوبكر و عمر و عثمان رضي الله عنهم یفعلون ذلك. 9
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سال کے آغاز میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے صلہ میں آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ راوی نے کہا حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانRadi Allah Anhum بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرح یہ تعیین عرفی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء Radi Allah Anhaسے بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت علی بن حسن Radi Allah Anhoاپنے والد کا بیان نقل کرتے ہیں :

إن فاطمة بنت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم كانت تزور قبر عمھا حمزة كل جمعة فتصلى وتبكى عنده. 10
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ہر جمعہ کے دن حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کے لیے جاتی تھیں ۔آپ نماز بھی پڑھتیں اور آپ کی قبر کے پاس روتی بھی تھیں۔

اسی طرح نبی مکر مSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکو تَعیُّن عرفی کا حکم دیا ہے چنانچہ آپRadi Allah Anha فرماتی ہیں :

كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یأمرنى أن أصوم ثلاثة أیام من كل شھر أولھا: الاثنین، والجمعة والخمیس.11
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میں ہر مہینہ میں تین دن روزے رکھا کروں اور ان روزوں کو پیر سے شروع کروں یا جمعرات یا جمعہ سے۔

جلیل القدر تابعی محدث امام علقمہRadi Allah Anho ختم قرآن کے لیے جمعرات کا دن مقرر فرمایا کرتے تھے چنانچہ امام ابراہیم نخعی Radi Allah Anhoفرماتے ہیں:

كان علقمة یختم القرآن كل خمیس.12
امام علقمہRehmatullah Alaih ہر جمعرات کو قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔

مذکورہ بالا حوالہ جات سے دینی اور دنیوی مصلحتوں کے تحت تاریخ مقرر کرنے کا ثبوت ملتا ہے تو اگر کوئی نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت باسعادت کا دن مقرر کرکے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منائے تو وہ بھی ناجائز یا حرام نہیں ہو سکتا، ہاں اس کا فرض یا واجب سمجھنا ناجائز ہے ۔یہ تو عام نفلی عبادت کے لیے تَعیُّن وقت کا مسئلہ تھا جہاں تک بارہ ( 12)ربیع الاول کی تاریخ مقرر کرکے اس دن خوشی کا اظہار کرنا اور محفلیں منعقد کرنا ہے تو اس کا ثبوت تو سیرت وغیرہ کی کتب میں صراحتاً موجود ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت باسعادت بارہ ( 12)ربیع الاول کو ہوئی جس کی تفصیل گزرچکی ہے تو اس دن کو معین کرکے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam منانا بالکل جائز ومستحب ہے کیونکہ خود نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس دن کو معین کر کے اپنے میلاد کی خوشی میں شکر باری تعالیٰ ادا کرنےکے لیے روزہ رکھا کرتے تھے۔

مذکورہ شبہ کا ازالہ

بعض افراد اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اسلام میں یادیں اور دن منانے کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام نے یادیں اور دن منانے کی بڑی ترغیب دی ہے ،جگہ جگہ اس کا جلوہ کارفرما ہے۔اسلامی اعمال کا ایک معتدبہ حصہ یادگاروں پر مبنی ہے اورقرآن وحدیث میں جگہ جگہ یادوں کا حکم اور ترغیب دی گئی ہے چنانچہ چند آیات قرآنی میں حضرت ابراہیم Alaihis Salam ،13 حضرت موسیٰ Alaihis Salam ،14 حضرت اسماعیل Alaihis Salam ، 15 حضرت ادریسAlaihis Salam ، 16 حضرت داؤد Alaihis Salam ، 17 حضرت ایوب Alaihis Salam ، 18حضرت اسحق ویعقوبAlaihmas Salam ،19حضرت یسع وذوالکفلAlaihmas Salam ، 20 حضرت مریمAlaihas Salam21 اور بالجملہ تمام ہی انبیاء کرامAlaihmus Salamکی یاد دہانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور تذکرہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔22 نہ صرف اتنا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوبھی کئی اہم دنوں کا تذکرہ کرنےکا حکم دیا ہے۔

اہم دنوں کی یادیں

اس حکم باری میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان اہم دنوں کی یاد کا حکم دیتےہوئے ارشاد فرمایا:

وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ523
اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے)۔ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے (اور) خوب شکر بجا لانے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔

اگرچہ کہ تمام ایام اﷲ ہی کے تخلیق کردہ ہیں مگر معتبر مفسرین کے بقول اس حکم ربانی سے مراد ایسے ایام خاص کا تذکرہ ہے جن میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندگانِ خدا پر خصوصی انعامات نازل ہوئے مثلاً عید الفطر، عید الاضحی، لیلۃ القدر، شب برات وغیرہ ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قدرت کی طرف بندگانِ خدا پر ایسا انعام ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادتِ مقدسہ کے حوالے سے خوشی ومسرت کا اظہار کرنا خدا کے اس حکم کی تعمیل کے مترادف ہے۔

ایام ِاﷲ (اﷲ کے دنوں) سے مراد وہ دن ہیں جن میں اہم واقعات رونما ہوئے جن دنوں میں اﷲ تعالیٰ نے کافروں کو عذاب دیا اور ایمان والوں پر انعام نازل کیا۔اسی کو بیان کرتے ہوئے سیّدنا ابی بن کعبRadi Allah Anho نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ایام اﷲ سے مراداللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں چنانچہ مروی ہے:

عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یفى قوله عزوجل (وذكرهم بأيام اللّٰه)قال:بنعم اللّٰه.24
رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے باری تعالیٰ کے فرمان"وذکر ھم بایام اللہ "کے بارے میں منقول ہے کہ اس سے مراد اﷲ کی نعمتیں ہیں۔

حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma25 اور حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے26 اور اس سے معلوم ہوا کہ فرمان باری تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ ان دنوں کو یاد کرو جن میں اﷲ کی نعمتیں ، فضل اور رحمتیں نازل ہوئی ہیں۔یہ سب ہی جانتے ہیں کہ حضور اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ تبارک وتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے "یوم میلاد"کے موقع پر لوگوں کو یہ نعمت یاد دلاکر فرمان خداوندی پرعمل کیا جاتا ہے اور اس کےلیے لوگوں کی آسانی کے خاطر تعین عرفی سے یوم میلاد کو معین کیا جاتا ہے کیونکہ تعین عرفی جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔

یومِ نجات کو روزہ کے لیے معین کرنا

حضرت موسیٰ Alaihis Salam کی فرعون سے نجات دہندگی کی خوشی میں یہودِ مدینہ روزہ رکھاکرتے تھے پھر جب نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ آئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس روزہ کی وجہ معلوم ہوئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum سے ارشاد فرمایا کہ میں اس خوشی منانے کا زیادہ حقدار ہوں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دن کی تعیین کونہ صرف برقرار رکھا بلکہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اس دن روزہ رکھنے کابھی حکم دیا چنانچہ حضرت ابن عباس Radi Allah Anhumaسے مروی ہے :

قدم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة فرأى الیھود تصوم یوم عاشوراء فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا یوم صالح هذا یوم نجى اللّٰه بنى إسرائیل من عدوهم فصامه موسى، قال: فأنا أحق بموسى منكم فصامه وأمر بصیامه.27
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال)آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون)سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے حضرت موسیٰ Alaihis Salamنے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا پھر حضرت موسیٰ Alaihis Salamکے(شریک مسرت ہونے میں)ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ Radi Allah Anhumکو بھی اس کا حکم دیا۔

اسی حوالہ سے ایک روایت میں اس طرح منقول ہے:

فقالوا: هذا یوم عظیم أنجى اللّٰه فیه موسى وقومه وغرق فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنحن أحق وأولى بموسى منكم فصامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأمر بصیامه.28
انہوں نے کہا یہ بہت عظیم دن ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت موسیٰ Alaihis Salamاور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ Alaihis Salamنے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا تمہاری نسبت ہم موسیٰ Alaihis Salamکے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

یعنی نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دن میں خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو بھی اس کا حکم دیا جس کا سبب بیان کرتے ہوئے شیخ عثمانی علامہ قرطبی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

قال القرطبى مع انضمام أن من شرعه تعظیم الأیام التى أظھر اللّٰه سبحانه فیھا الرسل فاستحسن فیھا الصوم.29
علامہ قرطبی فرماتے ہیں:( رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دس محرم کا جو روزہ رکھا اس میں حضرت موسیٰAlaihis Salam کی موافقت کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شریعت میں ان ایام کی تعظیم ہے جن میں اﷲ تعالیٰ نے رسولوں کو غلبہ عطا فرمایا اس وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دس محرم کے روزے کو مستحسن قرار دیا۔

علامہ قرطبی Rehmatullah Alaihنے جن ایام کی تعظیم کا ذکر فرمایا ہے ان میں مثلاً جمعہ مبارک کا دن ہے کیونکہ اس دن حضرت سید نا آدم Alaihis Salam پیدا ہوئے اور اسی دن آپAlaihis Salam دنیا میں تشریف لائے، ایام تشریق کی عبادات حضرت ابراہیمAlaihis Salam کی یادگار ہیں، دس(10) ذی الحج کا عظیم دن حضرت اسماعیل Alaihis Salamکی قربانی کی یادگار ہے اور ان تمام دنوں میں سب سے افضل وہ دن ہے جس میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رونق سرائے عالم ہوئے کہ تمام دنوں کی عظمتیں اس دن سے ہیں۔ اس لیے اس دن سلام پڑھنا ،آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فضائل وخصائل بیان کرنا،آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جناب میں عبادات کے ہدایا ایصال کرنا اور اجتماعی طور پر خوشی منانا، ایمان کی علامات اور محبت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ثمرات ہیں اور اس ماہ اور اس دن کی عرفی تعیین حدیث عاشورہ کی روشنی میں جائز اور مستحسن ہے۔ 30

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ یہودیوں نے یوم آزادی مناتے ہوئے عاشورہ کے روزے کا اہتمام کیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے رد کرنے کے بجائے خود بھی منایا اور اسے منانے کا حکم بھی فرمایا۔ اگر یہودیوں کے لیے "یوم آزادی" منانا درست ہے تو ہمارے لیے حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کا شکر ادا کرنے کےلیے اس دن کی تعیین بھی جائز ہے کیونکہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہر ظلم، ناانصافی، کفر، جہنم اور ابلیس سے نجات اور آزادی کا پیغام لے کر آئے بلکہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قرآن نے نجات دہندہ قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَيَضَعُ عَنْھمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْھمْ 15731
اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔

لہٰذا مسلمانوں کے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد کا دن بھی یوم نجات اور یوم آزادی ہے جس کے لیے شرعا تَعیُّن عرفی جائز ہے اور اس کا ثبوت نبی مکرم کی حیات طیبہ اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صحابہ کرام کی زندگی سے ثابت ہے لہذا معترضین کا اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھتا اور یہ سراسر لاعلمی کی بنا پر کیا جاتا ہے۔

یومِ تعظیم اور یومِ غلبہ

عاشورہ کو منانے کی ایک اور وجہ بھی احادیث میں منقول ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہود مدینہ اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دن کو معین فرماکر اپنے ساتھ ساتھ صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا چنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئےسیّدنا ابن عباسRadi Allah Anhuma فرماتے ہیں:

أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قدم المدینة فوجد الیھود صیاما یوم عاشوراء فقال لھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ماهذا الیوم الذى تصومونه؟ فقالوا: هذا یوم عظیم أنجى اللّٰه عز وجل فیه موسى وقومه وغرق فیه فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال: رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنحن أحق وأولى بموسى منكم فصامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأمر بصیامه.32
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، پس رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے فرمایا: یہ کونسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ (یعنی تمہارے روزہ رکھنے کی کیا وجہ ہے؟) تو انہوں نے کہا یہ عظمت (وتعظیم) والا دن ہے۔ اس میں اﷲ نے حضرت موسیٰ Alaihis Salamاور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون کو غرق کردیا تو حضرت موسیٰ Alaihis Salamنے شکرانے کا روزہ رکھا، پس ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ حقدار اور زیادہ قریب ہیں حضرت موسیٰ کے، پس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم بھی فرمایا۔

اس روایت سے واضح ہے کہ دس محرم کو "یوم تعظیم" کے طور پر بھی منایا جاتا ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ ہمارے آقا حضرت محمد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمام انبیاء کرام Alaihmus Salamسے معزز، محترم اور مکرم ہیں۔ جس دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تشریف آوری ہوئی وہ دن بھی عزت وتعظیم اور عظمت وحرمت والا دن ہےلہٰذا اس کو بھی منانا حکمت اسلامی کے عین مطابق ہے۔

اسی طرح قوم یہود عاشورہ کے روزہ کو مذکورہ وجوہات کے ساتھ ساتھ اس بنا پر بھی رکھا کرتی تھی کہ اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں کو غلبہ عطا فرمادیا تھا اور ابن شیبہ نے اس کے الفاظ یوں نقل کیے ہیں :

أظھر اللّٰه فیه.33
اس دن میں اﷲ تعالیٰ نے (سیّدناموسیٰ وبنی اسرائیل کو) غلبہ عطا فرمایا تھا۔

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ "غلبہ" کا دن بھی منانا چاہیے اور قرآن مجید میں نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد کو غلبۂ دین کا سبب بتایاہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشادبار ی تعالیٰ ہے:

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۭ 2834
وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے ۔

معلوم ہوا کہ "آمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam " سے غلبہ نصیب ہوگا اس لیے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یوم میلاد "یوم غلبہ"کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

یومِ نوحAlaihis Salam

سیّدنا ابو ہریرہ Radi Allah Anho سے مروی حدیث میں یہ ذکر بھی ہے کہ جب یہودیوں سے عاشورہ کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جہاں حضرت موسیٰAlaihis Salam اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات اور اس کے غرق ہونے کا بیان کیا وہاں یہ بھی کہا:

وهذا یوم استوت فیه السفینة على الجودى، فصام نوح وموسى شكراً للّٰه.35
اور یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوح Alaihis Salamکی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھہری۔ تو اس دن حضرت نوح Alaihis Salamاور حضرت موسیٰ Alaihis Salamدونوں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔

جب یوم نوحAlaihis Salam تعیین کے ساتھ منایا جاسکتا ہے تو یوم میلاد مصطفیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی تعیین کے ساتھ منایا جاسکتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا دیگر انبیاء کرامAlaihmus Salam کی بنسبت اپنے نبی حضرت محمد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اسی طرح تعلق زیادہ ہے جس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا حق مومنین پر کئی گنا ہےلہذا یو م میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعیین کرنا جائز ہے ۔

یوم ِسیّدنا آدم Alaihis Salam

سیدنا آدمAlaihis Salam کی تخلیق جمعہ کے روز ہوئی اور آج تک اس دن کو منایا جاتا ہے بلکہ اس دن کو عید قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ حضرت اوس بن ابی اوس Radi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

من أفضل أیامكم یوم الجمعة فیه خلق آدم وفیه قبض.36
تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی۔

تو واضح ہوگیا کہ جمعہ کا دن سیّدنا آدمAlaihis Salam کی یاد کے طورپر منایا جاتا ہے لہٰذا جس دن کوسیّدنامحمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے مناسبت ہو اس دن کو منانے میں کوئی حرج نہیں اور یہ عین حکم خداوندی کے مطابق ہے۔

یومِ امام الانبیاءSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

پیر کے دن کو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات وسیرت کے ساتھ بڑی مناسبت ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے سیّدنا ابن عباس Radi Allah Anhumaفرماتے ہیں:

ولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الإثنین واستنبىء یوم الإثنین وخرج مھاجرا من مكة إلى المدینة یوم الإثنین وقدم المدینة یوم الإثنین وتوفى صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الإثنین ورفع الحجر الأسود یوم الإثنین.37
پیر کے دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی، پیر کے دن ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بعثت ہوئی،پیر کے دن ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ شریف پہنچے اور پیر کے دن ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وصال فرماگئے۔ پیر کے دن ہی حجر اسود اپنی جگہ نصب کیا گیا۔

وہ دن جسے امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ اتنی قوی نسبت ہے اسے منانا خود عمل نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور عمل صحابہ کرام Radi Allah Anhum سے ثابت ہے کیونکہ جب رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پیر کے دن روزہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

ذاك یوم ولدت فیه ویوم بعثت فیه وفى روایة وفیه أنزل على القرآن .38
یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور ایسا دن ہے جس میں میری بعثت ہوئی اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اسی دن مجھ پر قرآن اتارا گیا۔

امام نووی قاضی عیاض کی عبارت کو بطور تائید واستدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ویرجع الوصف بالولادة والإنزال إلى الاثنین.39
پیر کے دن میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت اور وحی اترنے دونوں کا وصف پایا جاتا ہے۔

اس عمل سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود اپنا دن مناکر اس کی عظمت کو واضح فرمادیا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور وحی نازل ہوئی تب ہی اس دن کو معین فرماکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے روزہ رکھا جس سے معلوم ہوا کہ تَعیُّن عرفی کو غلط گرداننا ایک بڑی غلطی ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

خلاصۂ کلام یہ ہواکہ میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعیین شرعی نہیں بلکہ عرفی ہے جو کہ جائز ہے اور اس میں صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا عمل بھی موجود ہے۔یہ ایسی تعیین نہیں ہے جیسے یکم(1) شوال عید الفطر کے لیے اور نو (9)ذی الحج حج کے لیے معین ہے، یا رمضان المبارک کا مہینہ روزوں کے لیے معین ہے یا جیسے غروب آفتاب اور طلوع فجر مغرب اور فجر کی نمازوں کے لیے معین ہیں۔ میلاد شریف سال کے بارہ مہینوں میں کیا جاسکتا ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے لیکن ربیع الاول کے مہینہ اور بارہ (12)تاریخ کی اس لیے خصوصیت ہے کہ اس ماہ اور اس تاریخ میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت مبارکہ ہوئی ہے۔ اس کی شرعی نظیر یہود مدینہ کے عاشورہ کے روزہ کو برقرار رکھنے والی حدیث مبارکہ ہے جس سےیہ معلوم ہوتاہے کہ جس تاریخ میں اﷲ تعالیٰ نے کسی قوم یا کسی نبی Alaihis Salamکو کوئی نعمت عطا کی ہو اس دن اس نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور اس نعمت کی تعظیم کی جائے۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیر کے دن ولادت ہوئی اس دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر قرآن نازل ہوا اور اسی دن آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مبعوث ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس دن کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے تھے ۔بنا بریں چونکہ بارہ(12) ربیع الاول کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی اس لیے مسلمان خصوصیت کے ساتھ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں اس دن اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور اس دن انواع واقسام کے صدقات وخیرات کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں ۔یہ دونوں حدیثیں تاریخ اور دن کی خصوصیت اور تعیّن پر دلیل ہیں۔


  • 1  أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 6120، ج-12، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، 2009م، ص: 292
  • 2  أبو نعیم أحمد بن عبداﷲ الأصبہانی، حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفياء، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:99
  • 3  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:70، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:17
  • 4  شيخ عبد الحکیم شرف قادری، مسائل اہل سنت، مطبوعہ: مکتبہ قادریہ ،لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص: 48
  • 5  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:70، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:17
  • 6  ایضاً
  • 7  أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 6120، ج-12، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، 2009 م، ص: 292
  • 8  أبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن نسائی، حدیث: 8734، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 99
  • 9  أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی، المصنف، حدیث:6716، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 273
  • 10  أبو عبد الله محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 1396، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 533
  • 11  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث :26480، ج-44، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:82
  • 12  أبو نعیم أحمد بن عبداﷲ الأصبہانی، حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفياء، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:99
  • 13  القرآن، سورۃ مریم19: 41
  • 14  القرآن، سورۃ مریم19: 51
  • 15  القرآن، سورۃ مریم19: 54
  • 16  القرآن، سورۃ مریم19: 56
  • 17  القرآن، سورۃ ص 38: 17
  • 18  القرآن، سورۃ ص 38: 41
  • 19  القرآن، سورۃ ص 38: 45
  • 20  القرآن، سورۃ ص 38: 48
  • 21  القرآن، سورۃ مریم19: 16
  • 22  القرآن، سورۃ آل عمران3: 81
  • 23  القرآن، سورۃ ابراھیم14: 5
  • 24  أبو محمد عبد الحمید بن حمید الكشى، المنتخب من مسند عبد بن حمید ، حدیث:168، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ، القاہرۃ، مصر، 1988م، ص: 87
  • 25  أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تأویل القرآن، حدیث:20579، ج-16، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 522
  • 26  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر المأثور، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:6
  • 27  أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2004، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص: 321
  • 28  أبو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:1130، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص: 462
  • 29  شیخ شبیر احمد عثمانی، فتح الملہم، ج-3، مطبوعہ: مکتبۃ الحجاز، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص: 145
  • 30  علامہ غلام رسول سعیدی، شرح صحیح مسلم، ج-3، مطبوعہ: فرید بک اسٹال،لاہور، پاکستان، 2004ء،ص:171-173
  • 31  القرآن، سورۃ الأعراف 7 :157
  • 32  أبو بکر أحمد بن الحسین البیہقی، السنن الکبری، حدیث:8397، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 473
  • 33  أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، المصنف فی الأحادیث والآثار، حدیث: 9359، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد،الریاض، السعودیہ 1409ھ، ص: 311
  • 34  القرآن، سورۃ الفتح 48 :28
  • 35  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث :8717، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 335
  • 36  أبو بكر محمد بن اسحاق بن خزيمة، صحيح ابن خزيمة، حديث:1733،ج-3،مطبوعة: المكتب الاسلامي، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجودًا)،ص:118
  • 37  أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:2506، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م، ص: 304
  • 38  أبو عوانۃ یعقوب بن إسحاق الإسفرایینی، مستخرج أبی عوانۃ، حدیث: 2949، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 229
  • 39  أبو زکریا یحییٰ بن شرف محیی الدین النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم، ج-8، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص : 52

Powered by Netsol Online