encyclopedia

موئے مبارک مصطفیٰ ﷺ

Published on: 11-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 47، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 571-590)

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نسبت وتعلق کی بناء پر انتہائی عظمت و شرف کے حامل ہیں اور صحابہ کرام کی زندگی سے ان کی حفاظت و زیارت کا ثبوت ملتا ہے1 اور ان سے امراض کی شفایابی کے لیے ان کی طرف مراجعت بھی ثابت ہے۔2حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک کی تاریخ بالکل واضح ہے کہ کب، کہاں اور کیسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے موئے مبارک صحابہ کرام Radi Allah Anhumمیں تقسیم فرمائے اور پھر یہ موئے مبارک نسل در نسل انتہائی ادب و احترام کے ساتھ بطورِ تبرکات کے منتقل ہوتے ہوئے ہمارے دور تک پہنچے۔ صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے ان موئے مبارک کو سرمایہءِ سعادت و ذریعہ نجات سمجھا اور زندگی کے بعض اہم مراحل میں ان موئے مبارکہ کےذریعےرب تعالیٰ کی بارگاہ میں طلب و التجا اور دعا کی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنے حبیب پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ان موئے مبارک کو وسیلہ ءِظفر اور باعثِ شفا بناکر اہل ایمان پر اپنا فضل و کرم فرمایا۔ 3

موئے مبارک کی تقسیم

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک صحابہ کرامRadi Allah Anhum کے مابین تقسیم کیے جاتے تھے اور اس کا حکم بذاتِ خود سید الانبیاء Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamدیا کرتے تھے۔چنانچہ امام مسلم نقل فرماتے ہیں:

عن أنس بن مالك:أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أتى منى، فأتى الجمرة فرماھا، ثم أتى منزله بمنى ونحر، ثم قال للحلاق خذ وأشار إلى جانبه الأیمن، ثم الأیسر، ثم جعل یعطیه الناس...وفى روایة فقسم شعره بین من یلیه، قال: ثم أشار إلى الحلاق وإلى الجانب الأیسر، فحلقه فأعطاه أم سلیم.4
حضرت انس بن مالکRadi Allah Anho فرماتے ہیں کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamوادی منیٰ میں تشریف فرما ہوئے، پھر جمرہ کے پاس تشریف لے کر رمیِ جمار کیا پھر منیٰ اپنی قیام گاہ پر تشریف لاکر قربانی کی۔ پھر حجام سے فرمایا کہ دائیں طرف سے میرا سر مونڈنا شروع کرو، پھر بائیں جانب سے۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے موئے مبارک لوگوں کے درمیان اپنے دست ِمبارک سے تقسیم فرمائے۔۔۔ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اپنے قریب موجود لوگوں کے درمیان ان بالوں کو تقسیم فرمایا ۔پھر حلّاق سے فرمایا کہ بائیں جانب سے کاٹو اور انہیں ام سلیم کو عطا فرمایا۔

اسی طرح امام مسلم نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں موئے مبارک کی تقسیم کا حکم حضرت ابو طلحۃRadi Allah Anho کو دیا ہے۔چنانچہ مروی روایت میں مذکور ہے:

عن أنس بن مالك، قال:لما رمى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الجمرة ونحر نسكه وحلق ناول الحالق شقه الأیمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصارى فأعطاه إیاه، ثم ناوله الشق الأیسر، فقال:احلق فحلقه، فأعطاه أبا طلح، فقال:اقسمه بین الناس.5
حضرت انس بن مالک Radi Allah Anhoسے مروی ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب جمار اور قربانی فرماچکے تو حلق فرمایا۔ حجام کی طرف اپنے سرمبارک کا دایاں حصہ کرتے ہوئے اسے مونڈنے کا حکم دیا اور ابوطلحہ انصاریRadi Allah Anho کو طلب کرکے انہیں موئے مبارک عنایت فرمائے۔ پھر حجام کو حکم دیا کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سرمبارک کا بایاں حصہ مونڈے تو اس نے سرمونڈا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے موئے مبارک ابوطلحہ انصاری Radi Allah Anhoکو عنایت فرمائے اور حکم عطا فرمایا کہ اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کردو۔

اسی طرح امام ترمذی 6 اورابنِ سعد7نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہےجس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک باعث تبرک ہیں اور ان کو تقسیم فرمانا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سنت ہے۔

موئے مبارک باعث برکت

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک سے برکت کاحصول کوئی نیا کام نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام کا طریقہ کار ہے۔چنانچہ شارح ِصحیح مسلم امام نووی رسول اكرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک سے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی محبت وتعظیم اور ان سے تبرک حاصل کرنے کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وبیان ما كانت الصحابة علیه من التبرك بآثاره صلى اللّٰه علیه وسلم وتبركھم بشعره الكریم وإكرامھم إیاه أن یقع شىء منه إلا فى ید رجل سبق إلیه.8
(ان احادیث میں) رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےآثار سے صحابہ کرام Radi Allah Anhumکے تبرک حاصل کرنے کا بیان ہے۔۔۔۔اورنبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک سے صحابہ کرام Radi Allah Anhumکے برکت حاصل کرنے کا اوران مبارک بالوں کی اس طرح تعظیم و تکریم کرنے کا بیان ہے کہ کوئی بھی بال صرف اس صحابی Radi Allah Anhoکے ہاتھ پر ہی آتا جو اس کی طرف بڑھتاتھا (یعنی نیچے نہیں آتاتھا)۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک سے برکت حاصل کی جاتی تھی اور حصول برکت کے لیے موئے مبارک کو چُن کر اسے محفوظ رکھنا باعث برکت ہے۔اسی حوالہ سے امام زرقانی تحریر فرماتے ہیں:

وانما قسم شعره فى اصحابه لیكون بركة باقیة بینھم وتذكرة لھم وكانه اشار بذالك الى اقتراب الاجل.9
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں اور اسی سے گویا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔

یعنی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک سے تبرکات کا ثبوت اور حصول یہ متفقہ اور مسلمہ ہے۔ امام نووی نے اس کے بعد میں مزید لکھاہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حجام کون تھے؟ ان کے نام کے سلسلے میں محدثین کا اختلاف ہے اورمشہور ہے کہ وہ معمر بن عبداللہ العدوی تھے۔10سنن ترمذی میں موجود اس واقعہ11 کی شرح کرتے ہوئے انور شاہ کشمیری تحریر فرماتے ہیں:

(أقسمه بین الناس إلخ) أى للتبرك، وھذا یدل على أخذ التبركات.12
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فرمان کہ "ان بالو ں کو لوگوں میں تقسیم کردو" کا مطلب تبرک کے لیے تقسیم کرنا ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تبرکات کا لینا جائز ہے۔

بعض روایات حدیث و سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال کاٹنے کی سعادت حج یا عمرے کے موقع پر پائی تھی اور انہوں نے موئے مبارک اور اس کے ساتھ ساتھ ناخن کے تراشوں کو سعادتِ دارین سمجھ کر محفوظ کرلیا تھا۔ پوری زندگی ان کے پاس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے یہ تبرکات موجود رہے۔ 15رجب 60ہجری میں انہوں نے وصیت کی کہ ان بالوں اور ناخن کے تراشوں کو پیس کر ان کی آنکھوں، ناک، کان اور منہ میں رکھ دیا جائے اور پھر انہیں ارحم الراحمین کے سپرد کردیا جائے۔ 13

اصحابِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی موئےمبارک کی حفاظت

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک سے صحابہ کرام Radi Allah Anhum برکت حاصل کرتے تھے اور ا ن کو اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن زید Radi Allah Anhoکو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جانب سے موئے مبارک حاصل ہوئے تھےتو انہوں نے بھی ان کو بحفاظت رکھا تھا۔چنانچہ مسند احمدمیں اس حوالہ سے منقول ہے:

عن محمدِ بنِ عبد اللّٰه بن زیدٍ أن اباہُ حدثه أنه شھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عندَ المنحر ھو ورجل من قریشٍ وھو یقسم الأضاحى، فلم یصبه شىءٌ ولا صاحِبَه، فحَلَقَ رسولُ اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلمرأسَه فى ثوبه فأعطاه فقسّم منه علٰى رجالٍ، وقَلَمَ اظفارَه فأعطاه صاحِبَه قال: فانَّه عندنا مخضوبٌ بالحناءوالكتمِ یعنى شعرَه.14
محمد بن عبد اللہ بن زید سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن زید نے ان سے بیان کیا کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منحرکے پاس نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قریب موجود تھے دراں حال کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamقربانی کے جانور تقسیم فرمارہے تھے اور ان کو اور ان کے ساتھی کو کوئی جانور نہیں ملا ۔پھرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے سرِمبارک کا حلق اس طرح کرایا کہ موئے مبارک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کپڑوں میں گریں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انھیں موئے مبارک عنایت فرمائے اور کچھ موئے مبارک دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے ناخن مبارک تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دیے۔ راوی فرماتے ہیں کہ وہ موئے مبارک ہمارے پاس ہیں جو حناء اور ایک خاص قسم کے پودے کے رنگ سے رنگین ہیں۔“

امام نووی حضرت عمر بن عبد العزیز Rehmatullah Alaihکی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئےمبارک کے بارے میں وصیت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وذكر النووى فى كتاب تھذیب الصفات أوصى عمر بن عبد العزیز أن یدفن معه شىء كان عنده من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وأظفار من أظفاره وقال: إذا مت فاجعلوه فى كفنى ففعلوا ذلك.15
اورامام نووی Rehmatullah Alaihنےاپنی کتاب تہذیب الاسماء واللغات میں ذکرفرمایا: حضرت عمر بن عبد العزیز Rehmatullah Alaihنے وصیت کی کہ ان کے ساتھ(تبرکات نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں سے)کچھ دفن کیاجائے۔ان کےپاس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئےمبارکہ میں سےایک بال مبارک اورناخنوں میں سےایک ناخن تھا۔ انہوں نےفرمایا: میں مرجاؤں تو اس کو میرےکفن میں رکھ دینا۔پس ایسا ہی کیاگیا۔

اسی طرح حضرت معاویہ کےبھی متعلق منقول ہے۔ 16اِسی طرح صحابہ کرام اپنے وارثین کو اپنی وصیت میں اس بات کا حکم دیتے تھے کہ وصال کے بعد اُن کے مدفن میں موئے مبارک مصطفٰی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرکھ دیے جائیں۔ اس سے اُن کا مقصد رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک سے تبرک حاصل کرنا ہوتا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام ابن حبان تحریر فرماتے ہیں:

قال الإمام الحافظ ابن حبان فى قسمة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم شعره بین أصحابه، أبین البیان بأن شعر الإنسان طاھر، إذ الصحابة إنما أخذوا شعره صلى اللّٰه علیه وسلم لیتبركوا به، فبین شادّ فى حجزته، وممسك فى تكته، وآخذ فى جیبه، یصلون فیھا، ویسعون لحوائجھم وھى معھم، وحتى إن عامة منھم أوصوا أن تجعل تلك الشعره فى أكفانھم، ولو كان نجسا لم یقسم علیھم صلى اللّٰه علیه وسلمالشىء النجس، وھو یعلم أنھم یتبركون به.17
امام حافظ ابن حبان نے بیان فرمایا: نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکااپنے بال مبارک کواپنے اصحاب میں تقسیم کرنے میں مکمل وضاحت ہےکہ انسان کےبال پاک ہیں۔کیونکہ صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے آپ ﷺکےموئے مبارک بطورتبرک حاصل کیےتھے۔ پس ان میں بعض نے اپنے وسط میں باندھ لیے،بعض نے ازار میں اُڑس لیےاورکچھ اپنے ساتھ جیب میں ہی لیےرہتےاوراسی حالت میں نماز پڑھتے، انہیں ساتھ لےکراپنی حاجات کے لیے نکلتے، یہاں تک کہ ان میں کئی لوگوں نے وصیت کی کہ اس موئے مبارک کو ان کےکفن میں رکھاجائے۔اگر یہ ناپاک ہوتے تو حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamان میں ناپاک شےتقسیم نہ فرماتے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجانتےتھےکہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔

ان روایات سے معلوم ہو اکہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک انتہائی عظمت و شرف والے ہیں جن سے مرنےکے بعد بھی برکت کا حصول کیا جاتارہاہے۔

موئے مبارک کے ذریعہ امراض سے شفایابی

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےموئے مبارک سے امراض سے شفایابی بھی حاصل کی جاتی تھی۔چنانچہ منقول ہےکہ ام المومنین حضرت ام سلمہ Radi Allah Anhaکے پاس بھی جورسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک محفوظ تھے ان سے لوگ شفایابی حاصل کیا کرتے تھے۔اگر کسی کو نظرِ بدلگتی، یاکوئی بیمار ہوتا تو وہ پانی بھیجتے، موئے مبارک اس میں ڈال دئیے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتےتو ان کی برکت سے شفاء مل جاتی تھی۔صحیح بخاری میں اس حوالہ سے روایت منقول ہے:

عن عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: أرسلنى أھلى إلى أم سلمة زوج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح من ماء... من قصة فیه شعر من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وكان إذا أصاب الإنسان عین أو شىء بعث إلیھا مخضبه.18
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے مروی ہے کہ میرے گھروالوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha کے پاس بھیجا ۔۔۔اس پیالہ کی وجہ سے جس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک تھے ۔جب کسی بھی شخص کو آشوب چشم یا بیماری پہنچتی تو وہ آپ کے پاس پیالہ بھیجتا (تاکہ موئے مبارک کی برکت سے شفاء حاصل ہوئے)۔

یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے منسوب و متعلق مبارک اشیاء میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بھی لاجواب وبے مثال ہوجاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک بالوں سے امراض ختم ہوجاتے تھے۔

موئے مبارک سے بلیّات کا دفع

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک سے دفع ِ بلیّات بھی ہوتا ہے۔چنانچہ ابن کثیر Rehmatullah Alaih نے خلقِ قرآن کے مسئلہ میں حضرت امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaih کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے نقل کیا ہےکہ معتصم کی خلقِ قرآن کی بات نہ ماننے پر اس نے کہا:

خُذُوه واخلعوه واسحبوه قال أحمد: فأخذتُ وسحبتُ وخلعتُ وجىء بالعقابین والسیاط وأنا انظر، وكان معى من شعراتِ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مصرورة فى ثوبى، فجردونى منه وصرت بین العقابى.19
ان کو پکڑو اور کھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑدو۔ امام احمد Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ مجھے پکڑکر کھینچا گیا اور میرے ہاتھ اکھیڑے گئےاور میری نظروں کے سامنے تازیانے لگانے کے لیے دو لکڑیاں اور کوڑے لائے گئے۔ میرے ساتھ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک تھے جو میرے کپڑے میں بندھے (رکھے) ہوئے تھے۔ انھوں نے وہ کپڑا میرے بدن سے اتارلیا اور میں دو لکڑیوں کے درمیان (معلق)ہوگیا۔

اسی حوالہ سے حافظ شمس الدین ذہبی Rehmatullah Alaihمزید نقل فرماتے ہیں:

قال: وقد كانَ صار الى شعرٌ من شعرِ النبى َصلى اللّٰه علیه وسلم فى كمّ قمیصى، فوجَّه الى اسحاقُ بنُ ابراھیمَ، یقول: ما ھذا المصرور؟ قلت شعرٌ من شعر رسولِ اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وسعى بعضھم لیخرق القمیص عنّى، فقال المعتصم لاتخرقوه، فنزع، فظننت أنه انما دُرِى عن القمیصِ الخرقُ بالشعر.20
امام احمد بن حنبلRehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے جو میرے کُرتے کی آستین میں تھے۔اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا: یہ بندھی (رکھی) ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چند موئے مبارک ہیں، خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کُرتا پھاڑنے کے لیے لپکا تو معتصم نے کہا: اس کو مت پھاڑو، پس کرتا اتارلیا گیا۔میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔

یعنی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے موئے مبارک کی بدولت قمیص کی بے حرمتی نہیں کی گئی اور یوں قمیص پھٹنے اور خراب ہونے سےبچ گئی۔

موئے مبارک کی بعد والوں میں منتقلی

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک صرف حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس ہی رہ کر نا پید و غائب نہیں ہوئے جیسا کہ عمومی طور پر تمام اشیاء کا حال ہوتا ہے بلکہ انہی صحابہ کرام نے بعد میں آنے والوں کے لیے اُنہیں رکھ چھوڑا اور یوں بعد والوں کو نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک حاصل ہوئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں اس حوالہ سے منقول ہے:

عَنِ ابنِ سیرینَ قال: قلت لعَبِیدة: عندنا من شعرِ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اَصبناه مِن قبلِ انس او من قبل أھل انس فقال: لأن تكون عندى شعرة منه أحب الى مِنَ الدنیا وما فیھا.21
حضرت محمد ابن سیرین Rehmatullah Alaih سے مروی ہے کہ میں نے عبیدہ (سلمانی) سے کہا: ہمارے پاس نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چند موئے مبارک ہیں جو ہمیں حضرت انس سے یا کہاکہ ان کے خاندان کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ عبیدہ سلمانی نے کہا: میرے پاس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ایک موئے مبارک ہونا مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ پسند ہوتا۔

اور اسی طرح موئے مبارک منتقل ہوتے ہوتے امتِ مسلمہ میں موجود رہے اور آج بھی ان موئے مبارک کی زیارت سے آنکھوں اور دل کو سکون بخشا جاتا ہے۔

موئے مبارک اور فتوحات

اسی طرح حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے پوری زندگی موئے مبارک کو انتہائی حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھا بلکہ اسے اپنے عمامہ کی ٹوپی میں سی دیا اور جنگ کے دوران وہ ہمیشہ اس ٹوپی کو اپنی حفاظت اور موئے مبارک سے مستقل حصول برکت کے لیے پہنے رہتے۔ دوران جنگ کبھی سرعت رفتار کی وجہ سے یا دائیں بائیں تیزی سے تحرک یا دشمن کی طرف سے شدید یلغار کی صورت میں آپ کے سر سے اگر یہ ٹوپی گر جاتی تو حضرت خالد Radi Allah Anho میدان جنگ کے خونی حالات سے بے نیاز ہوکر سب سے پہلے اس ٹوپی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تاکہ جنگ کے کسی بھی لمحے میں وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک کی برکتوں سے محروم نہ ہونے پائیں۔ حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ دئیے تھے اور ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔چنانچہ علامہ عینیRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

قد ذَكرَ غیرُ واحدٍ أن خالدَ بنَ الولیدِ رضى اللّٰه عنه كانَ فى قلنسوته شعراتٌ من شعره صلى اللّٰه علیه وسلم فلذلك كان لا یقدم على وجه الّا فتح له.22
کئی حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید Radi Allah Anho کی ٹوپی میں رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ اسی وجہ سے حضرت خالد Radi Allah Anho جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے تو اُنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔

اسی حوالہ سے مجمع الزوائد میں منقول ہے:

أن خالد بن الولیدِ فقدقلنسوة له یوم الیرموك. فقال: اُطْلبوھا، فلم یَجدوھا. فقال: اُطْلبوھا، فوَجدوھا، فاذا ھى قلنسوة خَلِقة، فقال خالد: اعتمر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فحَلق رأسَه، فابتدرالناسُ جوانبَ شعره، فسبقتُم الٰى ناصیته، فجعلتُھا فى یذه القلنسوة، فلم أشْھدْ قتالا وھى معى الاّ رُزقتُ النصرة.23
حضرت خالد بن الولید Radi Allah Anhoکی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی۔ اُنھوں نے لوگوں سے فرمایاکہ اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پرنہیں پائی تو حضرت خالد Radi Allah Anhoنے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا تو اب کی بار لوگوں نے پالی۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ (اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا اور کروایاتو اس پر لوگوں کو تعجب ہوا۔ ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد Radi Allah Anhoنے فرمایا: رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے عمرہ ادا فرمایا اوراس کے بعد اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا تو لوگ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سرمبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے۔ پس میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سرمبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیےاور اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا تو(موئے مبارک کی برکت سے)اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔

حضرت خالد بن ولید کے دوران جنگ اس طرح بظاہر معمولی نظر آنے والے کام کی شدید نکارت کرتے ہوئے صحابہ کرام Radi Allah Anhum اور پھر انہیں حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoکی طرف سے دیے گئے تسلّی بخش جواب کا ذکر کرتے ہوئےقاضی عیاض Rehmatullah Alaihالشفاء میں تحریر فرماتے ہیں:

كانتْ فى قلنسوة خالد بنِ الولیدِ شعراتٌ من شعرہ صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطَتْ قلنسوتُه فى بعض حروبه، فشدَّ علیھا شدة انكر علیه أصحابُ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لكثرة من قتلٍ فیھا، فقال: لم اَفْعَلْھا بسببِ القلنسوة بل لما تضمنته من شعره صلى اللّٰه علیه وسلم لئلا اسلب (وفى نسخة: تسلب) بركتَھا وتقع فى أیدى المشركین.24
حضرت خالد بن الولید Radi Allah Anhoکی ٹوپی میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ ایک جنگ میں آ پ کی ٹوپی گرگئی تو اس کے لیے انھوں نے سخت حملہ کیا (جو) نبی ﷺکے اصحاب (کو غیرمعمولی معلوم ہواتو اس لیے انھوں) نے ان پر نکیر کی کیوں کہ اس حملہ میں بہت آدمی قتل ہوئے۔ حضرت خالدRadi Allah Anho نے فرمایاکہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کی وجہ سے نہیں کیا تھابلکہ اس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک تھے تبھی کیاتھا کہ مبادا کہیں میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں اور یہ مبارک بال مشرکین کے ہاتھ میں پہنچ جائیں۔

اسی طرح خدانخواستہ اگر کبھی یہ ٹوپی اور عمامہ کسی وجہ سے گھر میں رہ جاتا یا آپ Radi Allah Anhoہنگامی حالات کی وجہ سے اس کو پہننے سے قاصر رہ جاتے تو ایسی صورت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد کے طور پر ایسا انتظام کردیا جاتا کہ موئے مبارک سلی ہوئی ٹوپی والا عمامہ کسی نہ کسی ذریعہ سے آپRadi Allah Anho تک پہنچ جایا کرتا۔چنانچہ درج ذیل واقعہ میں پوری تفصیل مذکور ہے:

حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoجب جبلہ کے لشکر کی طرف دس مجاہدین اسلام سواروں کو خفیہ طور پر لے کر گئے اور بدعہد و بے وفا والی قنسرین کو گرفتار کرکے قتل کردیا تو رومی لشکر نے اپنے سامنے اپنے سردار کا اس طرح کٹتا ہوا سر دیکھ کر برداشت نہ کیا،انہیں بے حد قلق ہوا اور وہ غصہ میں آپے سے باہر ہوگئے۔بالخصوص مرتد جبلہ بن ایہم نے غصہ سے مسلمانوں کو للکارتے ہوئے کہا اب تم ہمارے ہاتھوں سے بچ کر نہیں جاسکتے، اب تمہارا قتل ہم پر لازم ہے۔ اس مرتد نے نصرانی عربوں اور رومیوں کو جنگ کے لیے برانگیختہ کیا اور انہیں کہا کہ اب ان مسلمانوں میں سے کوئی بچ کر نہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoاور آپ کے دس ساتھیوں پر حملہ کردیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ مسلمان اس شدید کٹھن مرحلے میں بالکل نہیں گھبرائے، ثابت قدمی سے جم کر مقابلے میں ڈٹ گئے، بڑے ہی زور و شور سے جنگ شروع ہوگئی۔

حضرت ربیعہ بن عامرRadi Allah Anho جو خود اس میں شریک تھے فرماتے ہیں خدا کی قسم جب رومیوں کا ریلہ ہماری طرف آتا اور ان کے سواروں کی کثرت سے ہم پر اژدھام ہوجاتا تو حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoاپنی جنگی مہارت سے تلوار کے زور پر انہیں پسپا اور متفرق کردیتے۔ ہمارے اور ان کے درمیان اسی طرح معرکہ ہوتا رہا۔ بظاہر ہمیں جانیں بچانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کیونکہ ہم صرف گیارہ افراد ہزاروں کے لشکر کے گھیرے میں آچکے تھے۔ گرمی اور پسینے کے باعث شدت کی پیاس بھی تھی ہمیں موت قریب نظر آرہی تھی ہم سمجھ گئے اب جام ِ شہادت نوش کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگا، جنگ کے شعلے تیز سے تیز ہورہے تھے، تلواریں چمک چمک کر سروں پر پڑرہی تھیں، مشرکین ونصاریٰ کی نعشوں سے زمین بھرتی جارہی تھی مگر پھر بھی ہم ان کفار کے نرغے میں ایسے تھے جیسے ہم ان کے ہاتھ میں قیدی ہوں۔ ربِّ کریم کی شان دیکھیں کہ ان حالات کے باوجود ہم میں سے ہر شخص اپنے مقابل کے سامنے استقلال کا پہاڑ بن کر کھڑا تھا کہ ہمیں اپنے ربِّ کریم پر پورا یقین تھا۔

اس اثنا میں ہمیں ہاتف سے غیبی آواز سنائی دی ، کوئی کہہ رہا تھاکہ نڈر اور بے خوف ذلیل ہوگیا اور خوف کرنے والا مدد پاگیا۔ اے حاملان قرآن! رحمٰن و رحیم ربّ کریم کی طرف سے تمہارا مقصد تمہارے پاس آگیا اور صلیبیوں کے مقابلے میں تمہاری نصرت اور امداد کی گئی۔ حضرت خالد Radi Allah Anho اورمسلمانوں کی مدد کے لیے پردۂ غیب سے نصرت و اعانت جس طرح کی گئی ، درج ذیل واقعہ سے اس کی تفصیل ظاہر ہوتی ہے۔

حضرت علامہ واقدیRehmatullah Alaih حضرت اسحاق بن عبداللہ Radi Allah Anho سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں میں اجنادین وغیرہ کی ہر لڑائی میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح Radi Allah Anho کے ساتھ رہا ہوں، قنسرین اور حلب کے میدانوں میں بھی آپ کے لشکر میں موجود تھا،میں نے ہر جگہ جہاد میں نصرت و مدد غلبہ اور بہتری ہی دیکھی۔ ہم ایک مقام پر پڑاؤ میں پڑے ہوئے تھے حضرت ابوعبیدہ بن جراح Radi Allah Anho بھی اپنے خیمے میں سورہے تھے کہ اچانک آپ مسلمانوں کو آواز دیتے ہوئے اپنے خیمے سے باہر آئے۔ وہ بلند آواز سے مسلمانوں کو پکار کر کہہ رہے تھےکہ اے مسلمانو! اُٹھو اور فوراً چل پڑو مجاہدین اسلام گھیرے میں ہیں۔ مسلمان آپ کی آوازا پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی طرف دوڑے اور آپ سے پوچھنے لگے کہ حضرت کیا ہوا؟حضرت ابوعبیدہ بن جراح Radi Allah Anho نے فرمایا میں ابھی ابھی اپنے خیمے میں سویا ہوا تھا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مجھے جھڑک کر جگایا اور سختی کے لہجے میں فرمایا:

اے ابن جراح کیا تم بزرگ قوم کی امداد و نصرت سے غافل سورہے ہو، اُٹھو اور جاکر خالد بن ولید کے ساتھ جاملو کیونکہ مردود قوم نے انہیں گھیر لیا ہے، مشیت ایزدی کے تحت ہے کہ تم ان سے جاملوگے۔ مسلمان مجاہدین نے ابوعبیدہ بن جراح Radi Allah Anho سے یہ سنتے ہی ہتھیار، زِرہیں وغیرہ سنبھال لیے اور جلدی سے حضرت ابوعبیدہ کی طرف جانے لگے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح لشکر کے آگے جارہے تھے کہ اچانک آپ Radi Allah Anho کی نظر ایک ایسے سوار پر پڑی جو سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے تمام لشکر سے آگے ہوا کی رفتار سے جارہا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحRadi Allah Anho نے کچھ سواروں کو حکم دیا کہ تیز رفتاری سے جاکر اس سوار کو پکڑو مگر بسیار کوشش کے باوجود کوئی سوار بھی اسے نہ پہنچ سکا تو حضرت ابوعبیدہ Radi Allah Anho نے اس سوار کو آواز دی ۔ ان کی آواز پر وہ سوار رُک گیا۔ حضرت ابوعبیدہ اس سوار تک پہنچے مگر یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ سوار تو حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anho کی زوجہ محترمہ حضرت ام تمیم ہیں، حضرت ابوعبیدہ Radi Allah Anho نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا کہ تو اتنی تیز رفتاری سے ہمارے آگے آگے جارہی ہے۔ حضرت ام تمیم Radi Allah Anho نے فرمایا۔

اے امیر! میں نے جس وقت آپ کی آواز سنی کہ حضرت خالد دشمنوں کے گھیرے میں پھنس گئے ہیں تو میرے دل میں آیا کہ ان کے پاس تو حضور نبی کریم رؤف الرحیم رحمۃ اللعالمین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے گیسوئے معنبر موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے وہ دشمنوں کے گھیرے میں کیسے آسکتے ہیں، مگر پھر میں نے وہ کلاہ مبارک جس میں انہوں نے اپنے محبوب پیغمبر Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک سجائے ہوئے تھے خیمے میں رکھا ہوا دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ وہ اسے بھول کر چھوڑگئے ہیں، اسی لیے کفار کے گھیرے میں آگئے ہیں ورنہ ان کی برکت سے وہ ہمیشہ محفوظ رہے ہیں لہٰذا میں اس کلاہ کو جلد از جلد ان تک پہچانا چاہتی ہوں۔ حضرت مصعب بن محارب Radi Allah Anhoفرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا صلیب پرستوں کے قدم اُکھڑ چکے ہیں اور انہوں نے بھاگنا شروع کردیا ہے۔ حضرت خالد بن ولیدRadi Allah Anho ثابت قدمی سے اپنے گھوڑے پر سوار چاروں طرف نظریں دوڑا رہے تھے اور صلیبیوں کو بھاگتا ہوا دیکھ رہے تھے، نعرۂتکبیر بلند ہوتا ہوا سُن رہے تھے اور ساتھ ہی یہ جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ اچانک یہ صورتحال کیسے وقوع پذیر ہوئی۔ آپRadi Allah Anho نے دیکھا کہ ایک سوار رومیوں کی صفوں کو چیرتا ہوا گرد و غبار سے نکل کر ان کی طرف آرہا ہے حتیٰ کہ ہمارے اردگرد جتنے رومی تھے وہ سب کے سب اس نے تہ تیغ کرکے ہمارے سامنے میدان صاف کردیا۔ حضرت خالد بن ولید فوراً اس کی طرف بڑھے اور اسے کہا اے بہادر شیردل سوار تو کون ہے؟ اس نے کہا اے ابوسلیمان خالد بن ولید Radi Allah Anhoمیں آپ کی بیوی ام تمیم ہوں، میں آپ کا وہ کلاہ مبارک لے کر حاضر ہوئی ہوں جس کے ذریعے آپ بارگاہِ الٰہی کی طرف توسل ڈھونڈتے اور جس کی وجہ سے آپ رب کائنات رب العالمین کی بارگاہ سے نصرت و مدد طلب کرتے ہو اور جس کے سبب اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔حضرت ام تمیم Radi Allah Anhaفرماتی ہیں کہ میں نے جس وقت یہ کلاہ شریف آپ کو دیا تو حضور پُرنور محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک سے کوندتی ہوئی بجلی کی طرح نور چمکنے لگا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زندگی کی قسم! حضرت خالد بن ولید Radi Allah Anhoنے اپنے اس کلاہ مبارک کو سرپر رکھا ہی تھا کہ آپ Radi Allah Anhoنے ایک ہی حملے میں دشمن کے دانت کٹھے کردیئے۔ 25

موئے مبارک کی برکات جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی نگاہوں سے دیکھتے اور حاصل کرتے رہے وہاں امّت کے اخلاف نے بھی کھلی آنکھوں سے اُن کی برکات کا مشاہدہ کیا، اور کبھی کسی شخص کے دل میں یہ وسوسہ یا دماغ میں شک پیدا ہوا کہ موئے مبارک اصلی ہیں یا نہیں تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے اصلی موئے مبارک کو واضح براہین کے ذریعہ ظاہر فرمادیا گیا۔

خواب میں موئے مبارک عطا کیے گئے

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد ماجد کی بیماری اور حصولِ موئے مبارک کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ ایک بار مجھے بخار نے آلیا اور بیماری نے طول پکڑا یہاں تک کہ زندگی سے نااُمید ہوگیا۔اسی دوران مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت شیخ عبدالعزیز سامنے موجود ہیں اور فرمارہے ہیں کہ بیٹے حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتیری بیمار پرسی کے لیے تشریف لارہے ہیں اور شاید پائنتی کی طرف سے تشریف لائیں، اس لیے چارپائی کو اس طرح رکھنا چاہیے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف تمہارے پاؤں نہ ہوں۔ یہ سُن کر مجھے افاقہ ہوا لیکن قوت گویائی نہیں تھی کہ بات کرکے کسی کو سمجھا سکوں،چنانچہ حاضرین نے میرے اشارے پر چارپائی کا رُخ پھیردیا۔اس وقت پیارے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ "کیف حالک یا بنی" ( اے میرے بیٹے کیسے ہو) اس کلام کی لذّت اس طرح غالب ہوئی کہ مجھ پر آہ و بکا اوروجد و اضطراب کی عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی۔ پیارے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مجھے اس انداز سے اپنے پہلو میں کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی داڑھی مبارک میرے سر پر تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جبہ مبارک میری آنکھوں سے تَر ہوگیا۔ پھر آہستہ آہستہ وجد و اضطراب کی کیفیت حالت سکوں میں بدل گئی۔ اس وقت میرے دل میں آیا کہ مدت سے موئے مبارک کے حصول کی آرزو رکھتا ہوں،کیا ہی کرم ہو کہ اس وقت تبرک عنایت فرمائیں۔ میرے اس خیال سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمطلع ہوئے اور داڑھی مبارک پر ہاتھ رکھ کر دو مقدس بال میرے ہاتھ پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے رکھ دیئے پھر میرے دل میں یہ آیا کہ یہ دونوں مقدس بال عالم بیداری میں بھی میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ اس کھٹکے پر مطلع ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا کہ یہ دونوں بال عالم ہوش و بیداری میں بھی باقی رہیں گے اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے صحت کُلّی اور طویل عمر کی خوشخبری سنائی اسی وقت مرض سے افاقہ ہوگیا۔ میں نے چراغ منگوایا وہ دونوں مقدس بال اپنے ہاتھ میں نہ پائے تو میں غمگین ہوکر بارگاہِ عالی کی طرف متوجہ ہوا تو پیارے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمثالی صورت میں جلوہ فرما ہوئے اور فرمایا: اے بیٹے عقل و ہوش سے کام لو وہ دونوں بال احتیاطاً تیرے سرہانے کے نیچے رکھ دیے تھے وہاں سے لے لو۔ افاقہ ہوتے ہی وہ دونوں بال وہاں سے اٹھائے تعظیم و تکریم سے ایک جگہ محفوظ کرکے رکھ دیئے تھے اس کے بعد دفعتاً بخار ٹوٹا اور انتہائی ضعف و نقاہت طاری ہوئی، سر سے اشارہ کرتا رہا کچھ دیر بعد اصل طاقت بحال ہوئی اور صحت کُلّی نصیب ہوئی۔

حضرت شاہ ولی اللہ Rehmatullah Alaihکے پاس موجود دو موئے مبارک کے خواص میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ آپس میں اکھٹے رہتے ہیں مگر جب درود پڑھا جاتاتو جدا جدا کھڑے ہوجاتے تھے۔

دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ تاثیر تبرکات کے منکروں میں سے تین آدمیوں نے امتحان لینا چاہا۔ میں اس کی بے ادبی پر راضی نہ ہوا مگر جب بحث مباحثہ طویل ہوا تو کچھ عزیزان مقدس بالوں کو سورج کے سامنے لے گئے اس وقت بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا حالانکہ سورج بہت گرم تھا اور بادلوں کا موسم بھی نہ تھا ۔یہ واقعہ دیکھ کر منکروں میں سے ایک نے توبہ کی اور دوسرے نے کہا کہ یہ اتفاقی امر ہے، عزیز دوسری مرتبہ لے گئے اسی وقت بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا اس پر دوسرے منکر نے بھی توبہ کیا مگر تیسرے نے کہا کہ یہ اتفاقی بات ہے یہ سُن کر عزیزتیسری بار موئے مبارک کو سورج کے سامنے لے گئے۔ سہ بار بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا اور تیسرا بھی توبہ کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک بار موئے مبارک زیارت کے لیے باہر لے آئے، بہت بڑا مجمع تھا، ہر چند صندوق مبارک کا تالا کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن نہ کھولا۔ میں اپنے دل کی طرف متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ فلاں آدمی ناپاک ہے جس کی ناپاکی کی شامت کے سبب یہ نعمت میسّر نہیں ہورہی ہے۔ عیب پوشی کرتے ہوئے میں نے ان سب کو تجدید طہارت کے لیے حکم دیا۔ وہ ناپاک آدمی بھی مجمع سے چلاگیا۔ اور اس وقت بڑی آسانی سے تالا کھولا گیا اور ہم سب نے زیارت کی۔حضرت والد ماجد نے آخری عمر میں جب تبرکات تقسیم فرمائے تو ان دونوں بالوں میں سے ایک کاتب الحروف کو عنایت فرمایا جس پر اللہ تبارک تعالیٰ کا شکر ہے۔26

اسی واقعہ کو اختصار کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ اپنی دوسری کتاب میں اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بتلایا ہے کہ انہیں بیماری کی حالت میں نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت کا خواب میں شرف حاصل ہوا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا:اے میرے بیٹے تیرا کیا حال ہے؟ پھر نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انہیں بیماری سے شفایابی کی خوشخبری دی اور اپنی داڑھی مبارک کے دو بال عنایت فرمائے جس کے بعد وہ فوراً صحت یاب ہوگئے۔ اور دونوں موئے مبارک بیداری کے بعد بھی ان کے پاس موجود تھے۔ والد نے ان میں سے ایک بال مجھے عنایت فرمایا جو اس وقت بھی میرے پاس ہے۔27

موئے مبارک کی تعظیم اسی طرح ہے جس طرح خود جسم اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم ہو، کیونکہ موئے مبارک بھی جسم اقدس کا حصّہ تھا۔ لہٰذا وہ اہلِ ایمان جو خلوص دل سے موئے مبارک کی تعظیم کرتے ہیں اُن پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اِس طور پر ہوا کرتا ہے کہ اُن کی دینی اور دنیاوی زندگی کامیابی کی منازل طے کرنے لگتی ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو ایمان کے دعوے دار ہونے کے باوجود موئے مبارک کے لیے ادب و احترام بجالانے سے محروم رہتے ہیں اُنہیں ہر خیر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم نے صرف ایک واقعہ کی تفصیلات پر اکتفا کیا ہےورنہ پورے عالمِ اسلام میں آج، اس دور میں سینکڑوں ایسے افراد موجود ہیں جنہیں اپنے گھروں میں موئے مبارک رکھنے کی سعادت حاصل ہے اور اس کی برکات سے اُن کے جملہ معاملات میں رب تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کا نزول جاری رہتا ہے۔

بال مبارک کی تعظیم کرنے والا ولایت کے بلند درجہ پر فائز ہوگیا

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک نہ صرف دنیاوی حاجات و اخروی حاجات کے لیے مفید ہیں بلکہ اس کی تعظیم کرنے سے قربِ الہی کی بھی دولت نصیب ہوتی ہے۔چنانچہ اسی طرح کا واقعہ بلخ کے تاجر کےبارے میں نقل کرتے ہوئے شمس الدین سخاوی تحریر فرماتے ہیں:

ان بمدینة بلغ رجل تاجر كثیر المال وكان له ابنان فتوفى الرجل وقسم ابناه المال بینھما نصفين وكان فى المیراث الذى خلفه أبوھما ثلاث شعرات من شعره صلى اللّٰه علیه وسلم فأخذ كل واحد منھما شعرة وبقيت شعرة واحدة بینھما فقال أكبرھما نجعل الشعرة الباقیة نصفین فقال الآخر لا واللّٰه بل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم أجل من أن یقطع شعره صلى اللّٰه علیه وسلم فقال الكبیر للأصغر تأخذ ھذه الثلاث شعرات بقسطك من المیراث فقال نعم فأخذ الكبیر جمیع المال وأخذ الصغیر الشعرات فجعلھا فى جیبه وصال یخرجھا ویشاھدھا ویصلى على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ویعیدھا إلى جیبه فلما كان بعد أیام فنى مال الكبیر وكثر مال الصغیر فعاش أیاماً وتوفى فرآه بعض الصالحین فى النوم ورأى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال له قل للناس من كانت له إلى اللّٰه تعالى حاجة فلیأت قبر فلان ھذا ویسأل اللّٰه قضاء حاجته فكان الناس یقصدون قبره حتى بلغ إلى أن كل من عبر على قبره راكباً ینزل ویمشى راجلاً. 28
بلخ شہر میں ایک بہت بڑا مالدار تاجر رہتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا اس کے دو بیٹے تھے۔ ان دونوں نے وراثت کے مال کو آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرلیا اس تاجر کے پاس حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے تین بال مبارک بھی تھے ایک ایک بال تو ان دونوں نے آپس میں تقسیم کرلیا، ایک بال مبارک باقی رہ گیا بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے کہا اس بال مبارک کو درمیان میں کاٹ کر آدھا آدھا کرلیتے ہیں چھوٹے بھائی نے کہا خدا کی قسم! حضور نبی کریم رحمۃ اللعالمین Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شان بہت بلند وبالا ہے ہمیں یہ لائق نہیں کہ ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک کو کاٹیں۔ بڑے بھائی نے جب حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بال مبارک سے چھوٹے بھائی کی اس قدر محبت معلوم کی تو اس نے اسے کہا یوں کر باپ کی جائیداد سے آدھا حصہ جو تیرے حصہ میں آتا ہے وہ بھی مجھے دے دے اور یہ تینوں بال مبارک لے لےتو چھوٹے بھائی نے کہا مجھے منظور ہے ، چنانچہ چھوٹے بھائی نے تینوں بال مبارک لے لیے اور باپ کی جائیداد سے کوئی حصہ نہ لیا سب کی سب بڑے بھائی کو دے دی۔ اس نے وہ تینوں بال مبارک بڑی عزت و احترام سے سنبھال کر رکھ لیے ،جب چاہتا بڑے ادب و احترام سے ان کی زیارت کرتا اور بوقت زیارت محبوب پیغمبر Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر درود شریف بھی پڑھتا ۔کچھ ہی عرصہ کے بعد بڑے بھائی کا مال تباہ و برباد ہوکر ختم ہوگیا اور وہ کنگال ہوگیا جب کہ چھوٹا بھائی بہت زیادہ مالدار ہوگیا ،آخر وقت اجل آگیا اور چھوٹا بھائی فوت ہوگیا ۔اس کے فوت ہونے کے بعد صالحین میں سے ایک شخص کو حضور نبی کریم ﷺکی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ چھوٹا بھائی بھی حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت اقدس میں موجود ہے۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس صالح شخص کو فرمایا لوگوں سے کہہ دو کہ جس کسی کو کوئی حاجت ہو تو وہ اس کی قبر پر آئے اور وہاں بارگاہِ الٰہی میں اپنی حاجت روائی کے لیے دعا کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی برکت سے اس کی دعا قبول فرماتے ہوئے اس کی حاجت پوری فرمادے گا۔ لوگ اس کی قبر پر آنے لگ گئے۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جو کوئی سوار بھی اس کی قبر کے پاس سے گزرتا تو احتراماً سواری سے اتر کر پیدل چلنے لگ جاتا۔

اسی طرح کا واقعہ امام صفوری نے بھی نقل کیا ہے۔29مذکورہ بالا روایات وعباراتِ کتب سے معلوم ہوا، کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔پھر انہی سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئےاوراسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے کے افراد کے پاس پہنچے اور ان کے پاس آج بھی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک موجود ہیں۔

ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپے سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق مفتی محمد تقی عثمانی اپنے سفرنامۂ جہانِ دید میں تحریر فرماتے ہیں:

یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں لیکن مشہور یہ ہے کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں۔ ان میں سرورِ دوعالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جبہٴ مبارک، آپ ﷺکی دوتلواریں، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غزوۂ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقش شاہِ مصر کے نام آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مکتوبِ گرامی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مہرِ مبارک شامل ہیں۔30

موئے مبارک اور ایک تنبیہ

مولانا اشرف علی تھانوی موئے مبارک کے حوالہ سے ایک تنبیہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

حجۃ الوداع میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے سر کے موئے مبارک اتار کر تقسیم فرمائے تھے۔ ظاہر ہے کہ بال سرپر ہزاروں ہوتے ہیں، وہ کتنوں کے پاس پہنچے ہوں گے،پھراس میں ایک ایک بال کے کتنے حصے کرکے ایک ایک نے آپس میں تقسیم کیے ہوں گے اور کتنے حفاظت سے رکھے ہوں گے۔اس لیے اگر کسی جگہ موئے مبارک کا پتہ چلے تواس کی جلدی تکذیب نہ کرنا چاہیے۔31

اسی حوالہ سے فتاویٰ رحیمیہ میں مذکور ایک سوال مذکور ہے کہ یہ مشہور ہے کہ اکثر بڑے شہروں میں اور دیہات میں حضور پُرنور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک ہیں، کیا یہ درست ہے؟اور کیا اس کی تعظیم کی جائے؟ اس کےجواب میں مفتی عبد الرحیم فرماتے ہیں کہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرمائے تھے۔چنانچہ فتاویٰ ابن تیمیہ میں ہے: فان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم حَلَقَ رأسَہ واعطیٰ نصفَہ لأبی طلحةَ ونصفَہ قَسَّمَہ بینَ الناسِ (یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے سر مبارک کا حلق کروایا اور اس کے نصف موئے مبارک حضرت ابو طلحہ کو دیے اور نصف کو لوگوں کے ما بین تقسیم فرمائے) تو اگر کسی کے پاس وہ موئے مبارک ہوں تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو تو اس کی تعظیم کی جائے۔ اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں تو خاموشی اختیار کی جائے نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے۔32

موئے مبارک کی زیارت

موئے مبارک اگر اصلی ہوں تو دیگر تبرکاتِ نبویہ علی صاحبہا الف الف صلاة وتحیۃ کی طرح اس کی زیارت باعثِ خیر وبرکت ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں افراط وتفریط نہ ہو، کوئی اعتقادی یا عملی خرابی نہ ہو، رسومِ بدعت اور بے پردگی نہ ہو، زیارت میں کوئی تاریخ ودن معین اور ضروری نہ سمجھا جائے۔

موئے مبارک کا بڑھنا

آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہےکہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک جن حضرات کے پاس ہیں، ان سے تصدیق حاصل کی ہوئی ہے کہ موئے مبارک سے دوسرے موئے مبارک پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً ایک تھا تو دو تین ہوگئے، کسی کے پاس تو ایک ہی تھا مگر ایک میں سے پیدا ہوتے ہوتے ایک سو بیس تک پہنچ گئے اوراس نے کئی آدمیوں کو دیے۔ مذکورہ بعض اشخاص کی رائے کے تجزیے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اوّلاً سائنٹفک طریقے سے کٹا یا اکھڑا ہوا بال بڑھ سکتا ہے یا نہیں اس کو کو زیر بحث لایا جائے۔

سائنس کہتی ہے کہ بال اگنے کا عمل غدود (Follicle) میں ہوتا ہے اور یہ غدود ہماری چمڑی میں ہوتا ہے۔ پھر بال مردہ قراتین خلیے (Cells Keratin, Protein)سے بنتا ہےاوراس کے بڑھنے کے لیے غدود میں خون کا سیلان وجریان ضروری ہے۔اس اعتبار سے ظاہر ہے کہ جب بال کَٹا یا اکھڑا ہوا ہو، تو وہ از خود بڑھ ہی نہیں سکتا کیوں کہ اس کے بڑھنے کے لیے بنیادی چیزیں چمڑی اور غدود ہی ندارد ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جن لوگوں کے پاس واقعتًا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک ہیں تو ان کا سائنٹفک طریقے سے بڑھنا توناممکن ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے خرقِ عادت کے طور پر بڑھنے کاجسے یا تو معجزہ کا نام دیا جائے یا کرامت کاکیونکہ علامہ شہاب خفاجیRehmatullah Alaihنے ذکر کیا ہےکہ خرقِ عادت سے مقصود محض تشریف وتکریم ہو تو وہ کرامت ہے خواہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو یا ولی کے۔33 تو اس کے لیے بنیادی بات یہ معلوم کرنی ہےکہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے یا نہیں؟ بعد از وفات خوارق کے ظہور کے سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی نے کراماتِ امدادیہ میں تحریر فرمایا ہے جاننا چاہیے کہ بعض اولیاء اللہ سے بعد انتقال کے بھی تصرفات وخوارق سرزد ہوتے ہیں اور یہ امر معناً حدِّ تواتر تک پہنچ گیا ہے۔34

جب ولی سے انتقال کے بعد خوارق کا صدور ہوسکتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی سے بطریقِ اولیٰ صدور ہوسکتا ہے۔چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب نےدربارِ نبوت کی حاضری کا ایک عجیب واقعہ (نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا معجزہ بعد الوفات) کے زیر عنوان فیض الجود کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ سرورِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے معجزاتِ باہرہ کے سامنے یہ کوئی بڑی چیز نہیں لیکن اس سے یہ امر اور ثابت ہواکہ رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجس طرح روضہٴ اقدس میں زندہ تشریف فرما ہیں، اسی طرح آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے معجزات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں، سیکڑوں کی تعداد میں امت کے ہر طبقے کو پیش آتے رہتے ہیں۔35

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے لہٰذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک کے بڑھنے کا معجزہ یا کرامت مستبعد نہیں بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خوارقِ عظیمہ شہیرہ کے سامنے یہ تو ادنیٰ بات ہے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک آج بھی پوری دنیا میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ سری نگر، کشمیر، حضرت بل کے علاوہ پھلواری شریف کی خانقاہ مجیبیہ میں بھی موئے مبارک محفوظ ہیں۔برصغیر پاک و ہند کے مشاہیر علمائے کرام اور مشائخ عظام کے اداروں، مدارس، خانقاہوں اور گھروں میں اِن موئے مبارک کا دیدار خاص مواقع بالخصوص ماہِ ربیع الاوّل میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ کرایا جاتا ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کا یہ مشاہدہ ہے کہ موئے مبارک جو تیز روشنی میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں کا سایہ نہیں ہوتا اور جب ان کے سامنے کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھا جاتا ہے تو ان میں ایک خاص قسم کی حرکت نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ موئے مبارک بڑھتے رہتے ہیں اور اِن کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔


  • 1  ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند امام احمد بن حنبل، حديث:16474، ج-26، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001ء،ص:395
  • 2  ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5896، ج-7،مطبوعۃ: دار طوق النجاۃ،مصر،1422ھ، ص:16
  • 3  علامہ شبلی نعمانی، سیرت النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ: البرہان پبلی کیشنز،لاہور، پاکستان،2006ء، ص: 363
  • 4  ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1305، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء،ص:548
  • 5  ایضًا
  • 6  ابو عيسى محمد بن عيسى الترمذى، سنن الترمذى، حديث: 912، ج-3، مطبوعة:مكتبة مصطفى البابى، مصر، 1975ء، ص:246
  • 7  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبرٰی،ج-3، مطبوعۃ:دا رالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء،ص:384
  • 8  ابو زکریا محی الدین یحیی بن شرف النووی،المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج-15، مطبوعۃ:دار احیاء التراث، العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص: 82
  • 9  ابوعبد الله محمد بن عبد الباقى الزرقانى، شرح الزرقانى على المواهب، ج-11، مطبوعة:دار الكتب العلميةِ، بيروت، لبنان، 1996ء، ص: 437
  • 10  ابو زکریا محی الدین یحیی بن شرف النووی، المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج-15، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص:82
  • 11  ابو عيسى محمد بن عيسى الترمذى، سنن الترمذى، حديث:912، ج-3، مطبوعة: مكتبة مصطفى البابى، مصر،1975ء، ص:246
  • 12  محمد انورشاہ کشمیری،العرف الشذی، شرح سنن الترمذی، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث العربی، بیروت، لبنان،2004ء، ص:271
  • 13  ابو الحسن على بن محمد الجزرى، اُسد الغابة فى معرفة الصحابة، ج-5، مطبوعة، دار الكتب العلميةِ، بيروت، لبنان، 1994ء، ص:201
  • 14  ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند امام احمد بن حنبل، حديث: 16474، ج-26، مطبوعة:مؤ سسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001ء، ص:395
  • 15  ابو زكريا يحيى بن شرف النووى، تهذيب الأسماء واللغات، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:24
  • 16  ابوعمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1419
  • 17  ابو حاتم محمد بن حبان البُستى، صحيح ابن حبان، ج-4، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1408ھ، ص:207-208
  • 18  ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5896، ج-7، مطبوعۃ:دار طوق النجاۃ،مصر، 1422ھ، ص:160
  • 19  ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثىر الدمشقى، البداية والنهاية، ج-10، مطبوعة: دار احياءالتراث العربى، بيروت، لبنان، 1988ء، ص:368
  • 20  ابو عبد اللہ محمد بن احمد الذھبی، سیر اعلام النبلاء، ج-11، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:250
  • 21  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعيل بخارى، صحيح البخارى، حديث: 170، ج-1، مطبوعة: دار طوق النجاة، مصر، 1422ھ، ص:45
  • 22  ابو محمد بدر الدين محمود بن احمد العينى، عمدة القارى شرح صحيح البخارى، ج-10، مطبوعة:دار احياء التراث العربى، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجودّا)، ص:63
  • 23  ابو الحسن علی بن ابی بکر الھیثمی،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 15882، ج-9، مطبوعۃ:مکتبۃ القدسی، القاھرۃ، مصر، 1994ء، ص:349
  • 24  قاضی عیاض بن موسی مالکی،الشفاء بتعریف حقوق المصطفیﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:56
  • 25  ابوعبد الله محمدبن عمر الواقدى،فتوح الشام،ج-1،مطبوعة:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1997،ص:210
  • 26  حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، انفاس العارفین، مطبوعہ:مکتبہ اسلامیہ،لاہور،پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)،ص: 104-105
  • 27  شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ، مطبوعہ:شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی،2015،ص:109
  • 28  ابو الخیر محمد بن عبد الرحمن السخاوی،القول البدیع فی الصلوۃ علی الحبیب الشافعیﷺ،مطبوعۃ: دار الریان للتراث، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:133
  • 29  شیخ عبد الرحمن الصفوری، نزھۃ المجالس ومنتخب النفائس، ج-2، مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، صیدا،بیروت، لبنان، 2013ء، ص:360
  • 30  مفتی محمد تقی عثمانی،جہاں دیدہ،مطبوعہ:مکتبہ معارف القرآن، کراچی،پاکستان،(سن اشاعت ندرد)،ص:338
  • 31  مولانا اشرف علی تھانوی،ملفوظات حکیم الامت،ج-11، مطبوعہ:ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان، پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)، ص:139-140
  • 32  مفتی عبد الرحیم دہلوی،فتاوٰی رحیمیہ،ج-2،مطبوعہ:مکتبہ رحیمیہ،انڈیا،(سن اشاعت ندارد)،ص:277
  • 33  شیخ شھاب الدین خفاجی، نسیم الریاض فی شرح القاضی عیاض، ج-2، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:440
  • 34  مولانا اشرف علی تھانوی،ملفوظات حکیم الامت،ج-29،مطبوعہ:ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)، ص:104
  • 35  مفتی محمدشفیع عثمانی،کشکول،مطبوعہ:دار الاشاعت،کراچی،پاکستان،1963ء،ص:149

Powered by Netsol Online