encyclopedia

مواخات مدینہ

Published on: 31-Aug-2024

سیرت طیبہ میں مواخات سے مراد وہ خاص معاہدہ ہے جواکثر سیرت نگاروں کےمطابق ہجرت کےپانچ ماہ، 12 جبکہ دیگر کے مطابق نو یا پندرہ ماہ بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زیر نگرانی مہاجرین و انصار صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درمیان طے پایا۔3 اس معاہدہ میں مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے ایک مسلمان کو مدینہ کے رہائش پذیر انصاری مسلمان کا بھائی قرار دیا گیا ۔4 اس موقع پر انصار مدینہ نے مکہ مکرمہ سے آنے والے اپنے مسلمان مہاجر بھائیوں کی ایسی بہترین مہمان نوازی کی جس کی مثال تاریخ دنیا میں مفقود ہے5 اور یہ بھائی چارہ اس قدر گہرا تھا کہ مہاجر ین وانصار کے درمیان ایک دوسرے کی میراث تک تقسیم کی جانے لگی تھی۔

مواخات کی ضرورت و اسباب

اس بھائی چارہ اور اسلامی اخوت کے قائم کرنے کے چند دیگر اسباب بھی تھے جن میں سےاہم درج ذیل ہیں:

1. اہل عرب کا عمومی مزاج یہ تھا کہ ان کے رشتے، تعلقات اورمعاہدات قبائلی عصبیت، مفادات اور اغراض کی بنیاد پر طےکئے جاتے تھے۔ اسی لئےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جس بھائی چارہ کی بنیاد رکھی اس کے کئی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس بھائی چارے کے ذریعے عصبیت جاہلی پر قدغن لگائی جائے ۔ 6 مہاجرین چونکہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے اہل قریش اپنے مقام کو بلند سمجھتے تھے اس لئےاسلامی بھائی چارہ کے ذریعہ عصبیت کے اس زہر کو ختم کیا گیا 7 اور عملی طور پر ایک نئے بننے والے معاشرے کو یہ تعلیم دی گئی کہ سب سے مضبوط رشتہ اسلام اور ایمان کا ہے جس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

2. مدینہ منورہ آنے والوں کےلیے فوری طور پر نئی بستیوں کا قیام ایک مشکل مرحلہ تھا اور یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ ان کو کہہ دیا جاتا کہ وہاں کی زمینیں خرید کر ان پر اپنی رہائش کا انتظام خود کریں۔ 8اس لیے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہجرت کے بعدمہاجرین وانصارکو حضرت انس بن مالک Radi Allah Anho کے گھر میں جمع کیا9 اور ان کے درمیان اسلامی اخوت اور بھائی چارہ ان الفاظ کے ساتھ قائم فرمایا کہ :

المهاجرون والانصار بعضهم اولیاء بعض فى الدنیا والآخرة. 10
مہاجرین اور انصار دنیاوآخرت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔

3. مدینہ منورہ میں اہل ایمان کے علاوہ دیگر اقوام آباد تھیں جن کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھیں۔ اس لیے ابتدائی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ مسلمانوں کو ایک اکائی بنایا جائے تاکہ ان کی آپس کی محبت والفت بھی قائم رہے اور یہ دشمنوں کے خلاف بھی متحد رہیں جس کے لیے مواخات قائم کرنا سب سے بہترین اور موزوں اقدام تھا۔ 11

4. اسلامی بھائی چارہ کے ذریعہ مہاجرین وانصار کے درمیان الفت ومودت کو فروغ دینا تھا اور ایک دوسرے سے قلبی ہم آہنگی کو پیداکرنا تھا ۔ 12

5. نسلی وقبائلی امتیازات کو ختم کرنا مقصود تھا تاکہ کوئی اپنے آپ کو دوسرے سے اعلی وبرتر نہ سمجھے۔ اس لیے حضرت حمزہ Radi Allah Anho جیسے سردار کو حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho جو کہ اس وقت عقد غلامی میں تھے، کا اسلامی بھائی بنادیا گیا۔ 13

6. مشرکین مسلمانوں کے خلاف ایک صف میں متحد تھے اور ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لیے مسلمانوں کے درمیان ایسی بھائی چارگی کی فضا قائم کرنا ضروری تھی جو مضبوط سنگ بنیاد کا کام دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ مواخات کو اللہ تعالی نے پسند فرمایاا ور مسلمانوں کی تسلی کےلیے یہ آیات مبارکہ نازل فرمائیں:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ 7214
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے حقیقی دوست ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے (مگر) انہوں نے (اللہ کے لئے) گھر بار نہ چھوڑے تو تمہیں ان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین (کے معاملات) میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں (مدد نہ کرنا) کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح و امن کا) معاہدہ ہو، اور اللہ ان کاموں کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔

7. مہاجرین کی معاشی ومالی حالت زار کو بھی سنوارا جاسکے کیوں کہ اکثر مہاجرین اپنا مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کررہے تھے جیسا کہ ان کی ہجرت کی کیفیت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے:

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ 815
(مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیں۔

جن صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درمیان مواخات قائم کی گئی ان کی تعداد

اہل سیر نے ان لوگوں کی تعداد مختلف ذکر کی ہے جن کے درمیان رشتہءِ مواخات قائم کیا گیا۔ ایک قول کے مطابق 45 انصاراور اتنے ہی مہاجرین تھے ، جبکہ دوسرے قول کے مطابق 50 مہاجرین اور 50 انصار تھے جن کے درمیان مواخات قائم کی گئی ۔ 16 اس حوالہ سے ایک روایت مقریزی نے نقل کی ہے جس کے مطابق تقریبا 186 اصحابہ کرام کے درمیان مواخوات قائم کی گئی تھی۔ 17

جن صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درمیان مواخات قائم کی گئی ان میں سے معروف کے اسماء

جن صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا گیا ان میں سے مشہورحضرت ابوبکر الصدیق Radi Allah Anho کاحضرت خارجہ بن زھیر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عمر بن الخطاب Radi Allah Anhoکاحضرت عتبان بن مالک Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ابوعبیدہ بن عبد اللہ بن الجراح Radi Allah Anho کاسعد بن معاذ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عبدالرحمن بن عوف Radi Allah Anhoکا سعد بن ربیع Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anhoکا سلامۃ بن سلامہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عثمان بن عفان Radi Allah Anhoکا حضرت اوس بن ثابت بن المنذر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ Radi Allah Anhoکاحضرت کعب بن مالک Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت سعد بن زید Radi Allah Anhoکا ابی بن کعب Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت مصعب بن عمیر Radi Allah Anhoکاابو ایوب خالد بن زید Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ Radi Allah Anhoکاحضرت عبّاد بن بشر بن وقش Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عمار بن یاسر Radi Allah Anhoکا حضرت حذیفہ بن الیمان Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ابو ذرغفاری Radi Allah Anhoکا حضرت منذر بن عمرو Radi Allah Anhoکے ساتھ رشتہ اخوت قائم کیا گیا۔ 18

ان اسماء مبارکہ کے علاوہ اہل سیر نے مزید کچھ نام بھی ذکر کیے ہیں جیسا کہ محمد بن یوسف الصالحی Rehmatullah Alaih کی بیان کردہ فہرست کے مطابق حضرت بلال بن رباح Radi Allah Anhoکی حضرت ابی رُویحہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت حاطب بن ابئ بلتعہ Radi Allah Anhoکی حضرت عویم ابن ساعدۃ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عبداللہ بن جحش Radi Allah Anhoکی حضرت عاصم بن ثابت Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عُبیدہ بن الحارث Radi Allah Anhoکی حضرت عمیر بن حمام Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت طفیل بن الحارث Radi Allah Anhoکی حضرت سفیان بن نسر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت حصین بن الحارث Radi Allah Anhoکی حضرت عبد اللہ بن جبیر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عثمان بن مظعون Radi Allah Anhoکی حضرت عباس بن نضلہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عتبہ بن غزوان Radi Allah Anhoکی حضرت معاذ بن ماعص Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت صفوان بن وہب Radi Allah Anhoکی حضرت رافع بن المعلی Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت مقداد بن عمرو Radi Allah Anhoکی عبداللہ بن رواحہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ذی الشمالین بن عبد عمرو Radi Allah Anhoکی حضرت یزید بن الحارث Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ابی سلمہ بن عبد الاسد Radi Allah Anhoکی حضرت سعد بن خیثمہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عامر بن ابی وقاص Radi Allah Anhoکی حضرت خبیب بن عدی Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عبداللہ بن مظعون Radi Allah Anhoکی حضرت قطبہ بن عامر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت شماس بن عثمان Radi Allah Anhoکی حضرت حنظلہ بن ابی عامر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ارقم بن ابی الارقم Radi Allah Anhoکی حضرت طلحہ بن زید الانصاری Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت زید بن خطاب Radi Allah Anhoکی حضرت معن بن عدی Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عمرو بن سراقہ Radi Allah Anhoکی حضرت سعد بن زید الاشہلی Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عاقل بن البکیر Radi Allah Anhoکی حضرت مبشر بن عبدالمُنذِر Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عبداللہ بن مخزمہ Radi Allah Anhoکی حضرت فروہ بن عمر والبیاضی Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت خنیث ابن حذافہ Radi Allah Anhoکی حضرت منذر بن محمد بن عقبہ بن اُحیحہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ابی سبرہ ابن ابی رُھم Radi Allah Anhoکی حضرت عبادہ بن خشخاش Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت مسطح ابن اُثاثہ Radi Allah Anhoکی حضرت زید بن المزین Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت ابی مرثد Radi Allah Anhoکی حضرت عبادہ بن صامت Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عکاشہ ابن محصن Radi Allah Anhoکی حضرت مجذّر ابن ذیاد Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت عامر بن فہیرہ Radi Allah Anhoکی حضرت حارث بن الصِمّہ Radi Allah Anhoکے ساتھ، حضرت مِحجع Radi Allah Anhoکی حضرت سراقہ بن عمرو بن عطیہ Radi Allah Anhoکے ساتھ مواخات قائم کی گئی۔ 19

مہاجرین کا کھیتی باڑی سیکھنا

مواخات اور اسلامی بھائی چارہ کامقصد یہ تھا کہ مہاجرین کی تالیف قلب کی جائے اور یہ کہ وہ خود کو کسی پر بوجھ اور دوسروں کے سامنے اپنے کو محتاج نہ سمجھیں۔ اسی لیے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انصار کو ترغیب دیتے ہوئےفرمایا:

إن إخوانكم قد تركوا الأموال والأولاد وخرجوا إليكم " فقالوا: أموالنا بيننا قطائع. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم " أو غير ذلك؟ " قالوا وما ذاك يا رسول اللّٰه ؟ قال: " هم قوم لا يعرفون العمل، فتكفونهم وتقاسمونهم. الثمر ". قالوا نعم. 20
تمہارے بھائیوں نے یقینا اپنے مال اور اولادوں کو چھوڑ کر تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔انصار فرمانے لگے (یارسو ل اللہ) ہمارے مال ہمارے درمیان تقیسم ہیں، رسو ل اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: (میں چاہتا ہوں کہ) ان کاکچھ مزید اکرام ہو، وہ کہنے لگے وہ کیا یارسول اللہ ؟ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اہل مکہ زراعت اور باغبانی سے نابلد ہیں تم ان کو کھیتی باڑی کے بغیر پیداوار میں شریک کرلو،انصار نے جواب دیا: یارسول اللہ! ٹھیک ہے (ہمیں منظور ہے)۔

اہل مکہ کا پیشہ چونکہ زراعت اور کھیتی باڑی نہیں تھا اس لیے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مہاجرین کی دین اسلام کےلیے قربانیوں کے جذبہ کی قدردانی کرتے ہوئے ان کو انصار کے ساتھ ان کی کھیتی اور زراعت میں شریک کیا ۔ 21

مواخات اور انصار کا جذبہ ایثار

تاریخ میں پہلی باریہ منظر دیکھاگیا کہ باہر سے آنے والے اجنبیوں کےلیے کسی علاقے کے بسنے والوں نے اس درجے کی قربانیاں دی ہوں۔ اہل مدینہ نے ایثار وہمدردی میں محبت واخوت کو اپنی کمال شکل میں برت کر دکھایا حالانکہ مہاجرین وانصار میں نہ پرانی دوستیاں تھیں اور نہ ہی ہر ایک مہاجر کی مدینہ منورہ میں رشتہ داری تھی۔ اسی طرح مہاجرین وانصار قوم ونسل کے اعتبار سے بھی ایک نہ تھے لیکن اس کے باوجود رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت اور تعلیمات کا یہ اثر تھا کہ انصار جو خود اسلام میں نومولود کی حیثیت سے تھے انہوں نے اسلامی رشتہ اخو ت کی لاج اس طرح رکھی کہ وہ دل وجان سے اپنے مہاجر بھائیوں کی مہمان نوازی کی سعادت حاصل کرنے کے لیے خود کو پیش کر رہے تھے ۔ انصار مدینہ میں سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ آنے والے مہاجر مسلمان بھائیوں میں سے کوئی نہ کوئی اس کے حصہ میں ضرور آئے۔ چنانچہ اپنے مہاجر بھائیوں کی مہمان نوازی کے حصول کےلیے انصار مدینہ کے درمیان باقاعدہ طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ ہونے لگا جس کےلیے قرعہ اندازی تک کی نوبت آئی کہ قرعہ میں جس مہاجر کا نام نکلے گا وہ آنے والے مہاجر صحابی کو اپنے گھر لےجائے گا ۔ 22

ایثار وسخاوت کی ایک اعلی مثال حضرت سعد بن ربیع Radi Allah Anho ہیں جن کے ساتھ ان کے مہاجر بھائی حضرت عبد الرحمن بن عوف Radi Allah Anho کا رشتہ اخوت جوڑا گیا تھا۔ حضرت سعد بن ربیع Radi Allah Anho ان سے فرمانے لگے کہ وہ مدینہ کے صاحب ثروت لوگوں میں سے ہیں لہذا حضرت عبد الرحمن بن عوف Radi Allah Anho ان کاآدھا مال لے لیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک کو وہ طلاق تک دینے کو تیار ہوگئے تھے تاکہ عدت کے بعد ان سے حضرت عبد الرحمن بن عوف Radi Allah Anho نکاح فرما لیں ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف Radi Allah Anho نے یہ سن کر ا ن کو دعا دی اور ان کا شکریہ ادا کر کے ان سے فرمایا کہ وہ ان کو بازار کا رستہ دکھا دیں بس یہی ان کے لیے کافی ہے۔23

مودت واخوت کی یہ وہ عدیم النظر مثالیں ہیں جسے پیش کرنے سے عمومی طور پر انسانی تاریخ خالی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ رشتہ مواخات پہلی ہجری میں قائم کیا گیا اور غزوہ بنو نضیر 4 ہجری میں ہوا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھ یہود کا بہت سا مال لگا۔ وہ مال جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انصار کو جمع کر کے ان کی تعریف فرمائی اور مہاجرین کے ساتھ کیا ہوا اچھا سلوک بہت زیادہ سراہا اور ان سے انکی رائے دریافت فرمائی کہ اگر وہ سارا مال مہاجرین کے درمیان تقسیم کر لیا جائے اور وہ گھر اور زمینیں جو انہوں نے مہاجرین کو استعمال کےلیے دے رکھی تھیں وہ ان کو واپس کردی جائیں۔ یہ سن کر حضر ت سعد بن معاذ Radi Allah Anho اور حضرت سعد بن عبادہ Radi Allah Anho فرمانے لگے کہ مہاجرین ان کے بھائی ہیں انہوں نے دین اسلام کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں، اپنا گھر بار چھوڑا ہے، اپنے عزیز واقارب چھوڑے ہیں لہذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کادیا ہوا مال بھی مہاجرین کے پاس رہنے دیں اور جو مال غزوہ بنو نضیر سے حاصل ہوا ہے وہ بھی سارا ان مہاجرین کے درمیان تقیسم فرما دیں ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور خوشی کے اس عالم میں بارگاہ ایزدی میں دست دعا بلند کرکے انصار کے حق میں یہ دعا فرمائی :

اللّٰھم ارحم الانصار وأبناء الانصار وأبناء أبناء الانصار. 24
اے اللہ! انصار پر رحم فرما اور ان کی اولاد اور ان کی آل و اولاد پر بھی رحم فرما۔

باوجود اس کے کہ انصار کی اپنی معاشی، اقتصادی اور مالی حالت خود بھی کوئی زیادہ مضبوط نہیں تھی اور وہ خود بھی فقر وفاقہ میں مبتلا تھے لیکن وہ اس قدر دریا دل او رسخی تھے کہ انہوں نے مہاجرین کواپنے آپ اور اپنی ضروریات پر ترجیح دی چنانچہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حسب منشائے انصار وہ مال مہاجرین میں تقیسم کردیا ۔ 25

نسخ میراث مواخات

اخوت اور بھائی چارہ میں انصار اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ اپنے گھر بار، زمینوں، کھیتی باڑی اور دیگر اشیاء میں مہاجرین کو اپنے ساتھ شریک کرنےعلاوہ باقاعدہ میراث کی تقسیم میں بھی اپنے مہاجرین بھائیوں کو اپنے ساتھ شریک کیاکرتے تھے۔ پھر یہ حکم غزوہ بدر کے موقع پر منسوخ ہوا۔ 26 جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا 3327
اور ہم نے سب کے لئے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے مال میں حق دار (یعنی وارث) مقرر کر دیئے ہیں، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے سو اُنہیں ان کا حصہ دے دو، بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرمانے والا ہے۔

اس آیت کے نزول کے بعد صرف میراث کا حکم منسوخ ہوا لیکن انصار ومہاجرین کے درمیان باہمی بھائی چارہ بدستور جاری رہا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تربیت ومحبت کا اثر تھا کہ میزبان، انصارِ مدینہ اور مہمان،مہاجرین مکہ نے اس رشتہ کو خوب نبھایا اور اپنے خونی رشتوں سے بڑھ کر اس برادرانہ تعلق کو اتنی اہمیت دی جو اب قیامت تک کے اہل ایمان کےلیے مشعل راہ اور نمونہ ہے۔


  • 1  محمد الخضر بن سيد عبد الله الجكني الشنقيطي، كوثر المعاني الدّراري في كشْف خبايا صحيحْ البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1995 م، ص: 80
  • 2  ابو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري ، المعارف، مطبوعۃ: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر، 1992 م، ص: 152
  • 3  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 270
  • 4  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 504-505
  • 5  پیر کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-3،مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، کراچی، پاکستان، 2013ء، ص:178
  • 6  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 206- 207
  • 7  ابو زہرہ محمد بن احمد، خاتم النبیینﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکرالعربی،القاہرۃ، مصر، 1425ھ، ص: 493
  • 8  اكرم ضياء العمري، السيرة النبوية الصحيحة، محاولة لتطبيق قواعد المحدثين في نقد روايات السيرة النبویۃ، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 1994م، ص: 242
  • 9  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-۱، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 230-231
  • 10  سعيد حوّى، الأساس في السنة وفقهها السيرة النبوية، ج-3، مطبوعۃ: دار السلام للطباعة والنشر والتوزيع والترجمة، القاھرۃ، مصر، 1995م، ص: 1533
  • 11  رفاعة رافع بن بدوي بن علي الطهطاوي، نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز، ج-1، مطبوعۃ: دار الذخائر، القاهرة، مصر، 1419ھ، ص: 211
  • 12  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 228
  • 13  ابو زہرہ محمد بن احمد، خاتم النبیینﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکرالعربی،القاہرۃ، مصر، 1425ھ، ص: 493
  • 14  القرآن، سورۃ الانفال 8: 72
  • 15  القرآن، سورۃ الحشر59: 8
  • 16  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 364
  • 17  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 69
  • 18  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 356
  • 19  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 م،ص:366-367
  • 20  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 228
  • 21  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2630، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 424
  • 22  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص: 463
  • 23  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 365
  • 24  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص: 463
  • 25  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص: 463
  • 26  محمد الغزالي السقا، فقه السيرة، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، السوریۃ، 1427ھ، ص: 192
  • 27  القرآن، سورۃ النساء 4: 33

Powered by Netsol Online