Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکا چہرہ مبارک

Published on: 18-Oct-2023

(حوالہ: علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 15، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 316-333)

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے کمال حسن کے ساتھ فرمائی ہے اسی وجہ سے انسان کارخانہ ربوبیت کی حسین ترین تخلیق ہے۔ جس کا ذکر قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِى اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ41
بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔

کائنات حسن کے سارے جلوے وجودِ انسانیت میں مجتمع کردیے گئے۔ تاہم کائنات انسانیت کا حسن جب اپنے نکتہ کمال کو پہنچا تو وجودِ مصطفوی sym-1تخلیق پذیر ہوا۔ یہی وہ حسنِ ازلی ہے جب پھیلا تو کائنات ِحسن کے جلووں کی مانگ بھرگئی اور سمٹا تو چہرہ مصطفویsym-1سے معنون ہوگیا۔

آپ sym-1کی مبارک رنگت

رسول اکرم sym-1کے چہرہ انوار کی لونیت کو بیان کرتے ہوئےامام ابو نعیم اصفہانی sym-4لکھتے ہیں:

وكان لونه صلى اللّٰه علیه وسلم لیس بالابیض الامھق والامھق الشدید البیاض الذى لا تضرب بیاضه الى الشھبة ولم یكن بالادم وكان ازھر اللون والازھر ھو الابیض الناصع البیاض الذى لا یشوبه صفرة ولا حمرة ولا شى من الالوان وقد نعت بعض نعته بذلك ولكن انما كان المشرب حمرة ما ضحى منه للشمس والریاح وما كان تحت الثیاب فھو الابیض الازھر لایشك فیه احد ممن وصفه بانه ابیض ازھر فمن وصفه بانه ابیض ازھر فعنى ما تحت الثیاب فقد اصاب ومن وصف ما ضحى منه للشمس والریاح بانه ابیض مشرب بحمرة فقد اصاب ولونه الذى لا یشك فیه البیاض الازھر وانما الحمرة من قبل الشمس والریاح وكان عرقه فى وجھه مثل اللؤلو اطیب من المسك الاذفر.2
آپ sym-1کا رنگ خالص سفید جس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو نہ تھی۔ مگر آپ sym-1گندمی رنگ کے بھی نہ تھے بلکہ آپ sym-1کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھااور یہ بھی مروی ہے کہ آپ sym-1کا رنگ چمکدار تھا جس میں زردی سرخی یا کسی دوسرے رنگ کا امتزاج نہ تھا اور آپ sym-1کی تعریف کرنے والوں میں سے بعض کا خیال بھی یہی ہے۔اس لیے دونوں اقوال کے درمیان یوں محاکمہ ہوسکتا ہے کہ آپ sym-1کے ظاہری اعضاء دھوپ اور آب وہوا سے متاثر ہوکر سرخی مائل سفید تھے مگر کپڑوں کے نیچے والے جسم کا رنگ چمکدار سفید تھا (جس میں سرخی کی آمیزش نہ تھی) لہٰذا جس نے آپ sym-1 کا رنگ چمکدار سفید قرار دیا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ اس سے مراد کپڑوں کے نیچے کا حصہ ہے جبکہ سرخی مائل سفید قرار دینے والا بھی درست کہتا ہے اس لیے کہ دھوپ اور ہوا کے تاثر سے ظاہری اعضاء میں سرخی کی آمیزش ہوگئی تھی لہٰذا آپ sym-1کا اصل رنگ چمکدار سفیدی ٹھہرا جبکہ سرخی کا امتزاج آب وہوا کے باعث قرار پایا۔ آپ sym-1کے چہرے پر پسینہ موتیوں کی طرح چمکتا تھا جس کی خوشبو مہکتی کستوری سے بھی فزوں تر تھی۔

رب نے آپ sym-1کے چہرۂ انور کی قسم کھائی ہے

قرآن نے جہاں آپ sym-1سے منسوب دیگر اشیاء کی قسم کھائی وہاں آپ sym-1کے چہرۂ مبارک اور گیسوئے عنبریں کی قسم بھی کھائی ہے۔ جب سلسلہ وحی بعض حکمتوں کے پیش نظر کچھ دن منقطع ہوا تو اس پر بعض بدبخت دشمنانِ اسلام نے زبان طعن دراز کی اور کہنے لگے کہ محمد sym-1کا خدا (نعوذ باﷲ) اس سے روٹھ گیا ہے۔ اس قسم کی طعن آمیز باتوں کی وجہ سے بتقاضائے بشریت آپ sym-1کی طبیعت مبارکہ میں کچھ ملال سا پیدا ہوا اس پر اﷲ تعالیٰ نے سورۃوالضحی کو نازل کیا اور فرمایا:

وَالضُّحٰى1وَالَّیلِ اِذَا سَـجٰى2 مَا وَدَّعَك رَبُّك وَمَا قَلٰى33
قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیا)۔ (یا:- قَسم ہے وقتِ چاشت (کی طرح آپ کے آفتابِ رِسالت کے بلند ہونے) کی (جس کے نور نے گمراہی کے اندھیروں کو اجالے سے بدل دیا)، اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے)۔ (یا:- قَسم ہے رات کی (طرح آپ کے حجابِ ذات کی) جب کہ وہ (آپ کے نورِ حقیقت کو کئی پردوں میں) چھپائے ہوئے ہے)، آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم sym-1کو ان الفاظ کے ذریعے اس بات کی طرف متوجہ کردیا کہ جب اﷲ تعالی تیرے رُخِ تاباں اور گیسوئے عنبریں تک کی قسم اٹھاتا ہے تو کبھی اس قدر پیار کرنے والا بھی اپنے محبوب سے ناراض ہوسکتا ہے۔

یہاں چاشت سے مراد آپ sym-1کا چہرہ اقدس اور لیل سے آپ sym-1کی مبارک زلفیں ہیں۔ا س پر ائمہ کی تصریحات بھی وافر موجود ہیں۔چنانچہ امام ملا علی قاری sym-4اسی تصور کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

والانسب بھذا المقام فى تحقیق المرام ان یقال: ان فى الضحى ایماء الى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم كما ان فى اللیل استعارا الى شعره علیه الصلوٰة والسلام.4
اس سورۃ کا نزول جس مقصد کی خاطر ہوا ہے اس کا تقاضا ہےکہ کہا جائے کہ ضحی سے آپ sym-1 کے چہرۂ انور اور لیل سے آپ sym-1کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔

واضح بات ہے کہ جب یہاں مقصد آپ sym-1کو تسلی دینا ہے تو اس سے مراد زیادہ مناسب یہی ہے کہ آپ sym-1کے چہرۂ انور اور سیاہ زلفوں کی قسم یاد فرمائی جائے تاکہ دشمنان اسلام کو شرمندگی ہو اور آپ sym-1کو تسکین حاصل ہو۔

سی طرح امام زرقانی sym-4فرماتے ہیں:

الضحى بوجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واللیل بشعره.5
ضحیٰ سے مراد آپ sym-1کا چہرۂ انور اور لیل سے مراد آپsym-1کی مبارک زلفیں ہیں۔

آیت کے معنی پر شک اور اس کاازالہ

اسی حوالہ سے امام فخر الدین رازیsym-4 ایک سوال اور پھر اس کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ھل احد المذكرین فسر الضحى بوجھه محمد واللیل بشعره. نعم ولااستبعاد فیه.6
کیا کسی مفسر نے ضحی کی تفسیر حضور sym-1کے چہرۂ انور اور لیل کی تفسیر آپ sym-1کی زلفوں کے ساتھ کی ہے؟(جواباً کہتے ہیں کہ) ہاں یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں ۔

اسی آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام نیشاپوریsym-4 لکھتے ہیں:

لا استبعاد مما یذكره الواعظ من تشبیه وجه محمد صلى اللّٰه علیه وسلم بالضحى وشعرہ باللیل.7
علماء اسلام حضور sym-1کے چہرہ اقدس کو جو ضحیٰ کے ساتھ اور مبارک زلفوں کو لیل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی حوالہ سےعلامہ آلوسیsym-4 لکھتے ہیں:

ومن الناس من فسر الضحى بوجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واللیل بشعره علیه الصلوٰة والسلام كما ذكر الامام وقال: لا استبعاد فیه.8
بعض مفسرین نے الضحی سے آپ sym-1کا چہرۂ انور اور اللیل سے آپ sym-1کی سیاہ زلفیں مراد لی ہیں۔ امام رازیsym-4 نے اس قول کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معنی لینے میں کوئی حرج نہیں۔

علامہ اسماعیل حقی sym-4"الضحی" اور "اللیل"کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اشارتست بروشنى وروى حضرت مصطفى صلى اللّٰه علیه وسلم وكنایت از سیاھى موئے وے.9
یہ آپ sym-1کے چہرہ اقدس کی نورانیت اور آپ sym-1کی زلفوں کی سیاہی کی طرف اشارہ ہے۔

امام شاہ عبد العزیز دہلویsym-4فرماتے ہیں:

بعضے گویند كه مراد از ضحى روئے پیغمبر است صلى اللّٰه علیه وسلم واز لیل موئے اوست كه درسیاھى ھمچو شب است.10
بعض مفسرین نے ضحیٰ سے آپ sym-1کا چہرہ انور مراد لیا ہے اور لیل سے آپ sym-1کی مبارک زلفیں جو سیاہی میں تاریک رات کی طرح ہیں۔

یہ تمام اقوال اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ ان آیات بینات میں استعارہ کے طور پر رسو ل اکرم sym-1کے چہرہ اور زلف مبارک کو ضحٰی اور لیل سے تعبیر کر کے ان کی قسم اٹھائی گئی ہے۔

حضور اکرم sym-1کی چاہت پرقبلہ کی تبدیلی

اللہ ربُّ العزّت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب sym-1کے چہرہ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ مکّۃ المکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے ابتدائی دور میں مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے اس پر یہود نے طعن کیا کہ مسلمان اور ان کا نبی sym-1ہمارے دین کی تو مخالفت کرتے ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ اگر ہم نہ ہوتے تو ان کو قبلہ کی خبر تک نہ ہوتی اور یہ عنقریب ہمارے دین کو اختیار کرلیں گے۔ اس طعن کی وجہ سے رسالت مآب sym-1 کے دل اقدس پر بوجھ ہوا آپ sym-1نے تبدیلی قبلہ کی خواہش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل sym-9سے فرمایا:

وددت لوحولنى اللّٰه الى الكعبة فانھا قبلة ابى ابراھیم.11
میں چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میرا قبلہ تبدیل فرماکر کعبہ کو قبلہ قرار دیں کیونکہ یہی میرے والد ابراہیم کا قبلہ ہے۔

حضرت جبرائیل sym-9نے عرض کیا:

انما انا عبد مثلك وانت كریم على ربك فسل انت ربك فانك عنداللّٰه بمكان.12
یا رسول اﷲ! sym-1میں بھی ایک عبد ہوں اور آپ sym-1بارگاہ ایزدی میں معزز ہیں آپ sym-1تبدیل قبلہ کے بارے میں سوال کریں کیونکہ یہ اﷲ کے ہاں آپ sym-1ہی کا مقام ہے۔

یعنی میں بندۂ مامور ہوں اور آپ sym-1بندۂ محبوب sym-1، میں صرف ماننے والا ہوں آپ sym-1 ماننے والےتو ہیں ہی ،اس کے ساتھ ساتھ منوانے والے بھی ہیں۔ میں فقط اﷲ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا ہوں اور آپ sym-1کی رضا اﷲ کو مطلوب ہے۔یہ کہہ کر حضرت جبرائیل sym-9آسمان پر چلے گئے حضور نبی کریم sym-1نے نماز کی نیت باندھ لی اس آرزوئے شوق میں کہ تبدیلی قبلہ کا حکم آئے۔ چہرۂ اقدس اٹھاکر بار بار آسمان کی طرف دیکھا پس چہرۂ اقدس کو اٹھانے کی دیر تھی کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب sym-1کے اس انداز پر پیار آگیا یوں ارشادِ باری تعالی ہوا:

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْھك فِى السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّینَّك قِبْلَة تَرْضٰیھا ۠ فَوَلِّ وَجْھك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ14413
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجیے ۔

سیدِ عالم sym-1کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسندِخاطر تھا حضور اس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔چنانچہ امام ابن جریر طبری sym-4 اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

عن قتادةرضي الله عنه فى قوله "قد نرى تقلب وجھك فى السماء" قال: كان صلى اللّٰه علیه وسلم یقلب وجھه فى السماء یحب ان یصرفه اللّٰه عزوجل الى الكعبة حتى صرفه اللّٰه الیھا.14
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم sym-1آسمان کی طرف چہرہ فرماتےتھے اور آپ sym-1یہ چاہتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ آپ sym-1کو کعبہ کی طرف پھیردے تو یہ آیت نازل ہوئی : بے شک ہم آپ sym-1کے چہرہ کا آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ sym-1کو اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس پر آپ sym-1راضی ہیں۔

جونہی یہ آیت لے کر حضرت جبریلsym-9 نازل ہوئے اس وقت حضور نبی کریم sym-1 نماز کی حالت میں تھےاور دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رُخِ انور کرکے ادا فرماچکے تھے۔حضرت جبریلsym-9 حکم خداوندی کے ساتھ نازل ہوئے تو آپ sym-1 نے بقیہ دو رکعت کعبہ کی طرف رُخِ انور فرماکر ادا فرمائیں۔آپ sym-1کے ساتھ خوش قسمت صحابہsym-7 اُسی حالت میں آپ sym-1کی اقتداء میں کعبہ کی طرف مُڑگئے۔

اس ارشاد خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوبِ مکرم sym-1 کی رضا بہت محبوب ہے جو محبوبِ مکرم sym-1چاہتے ہیں وہی عطا فرمادیا جاتا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن نبی کریم sym-1کی تمنا یہ تھی کہ میرے لیے وہی قبلہ بنادیا جائے جو حضرت ابراہیم sym-9کا تعمیر کردہ اﷲ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم sym-1کے بار بار اپنے رخ انور کو آسمان کی طرف اٹھانے پر آپ sym-1کی خواہش پوری فرمادی۔

اس حوالہ سےابن دحیہ کلبی sym-4لکھتے ہیں:

ان للّٰه مدح وجه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال جل من قائل: (قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْھك فِى السَّمَاء فَلَنُوَلِّینَّك قِبْلَة تَرْضَاھا) فبسبب تقلب وجھه حول القبلة من بیت المقدس الى الكعبة جھرا، بعد ان صلى الیھا ستة عشر او سبعة عشر شھرا على ماثبت باتفاق عند علماء الافاق. فكانت بركة وجھه فى التقلب معطیة لرضاہ فى اعطاه قبلة یرضاھا فیما اقتضاہ. وفیه كرامة عظیمة للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم حیث اعطاہ اللّٰه ذلك ولم یسال ولا صرح ولا تكلم.15
بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی پاک sym-1کے چہرۂ مبارکہ کی مدح فرمائی اور فرمایا کہ ہم تمہارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ہم پھیردینگے تمہارے لیے قبلہ کو جیسا تم چاہتے ہو۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور اکرم sym-1نے 16 یا 17 ماہ بیت المقدس کےرُخ نماز پڑھی اور آپ sym-1کے بار بار چہرہ پھیرنے سے تحویل قبلہ کا واقعہ ہوا۔ یہ حضور sym-1کے چہرۂ مبارکہ کے بار بار پھیرنے کی برکتیں ہیں اور ان کی خوشی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کو قبلہ بنا دیا جو آپ sym-1کی تمنا اور دلی تقاضا تھا۔ اس واقعے میں حضور sym-1کی عظیم شان کا اظہار ہے کہ آپ sym-1کے لبہائے مبارک کی جنبش نہ ہوئی نہ صراحت ہوئی، نہ کلام پرجیسا آپ sym-1نے چاہا اللہ تعالیٰ نے وہ عطا فرمادیا۔

چہرۂ مبارک حسن وجمال کا مرقّع

رسول اکرم sym-1کا رخِ انوار تمام سے بڑھ کر حسین و جمیل تھا۔چنانچہ امام بخاریsym-4 لکھتے ہیں کہ حضرت براء sym-5نے فرمایا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا.16
رسول اﷲ sym-1کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔

اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن سمرۃ sym-5 سے نقل کرتے ہوئےامام ترمذی sym-4 روایت کرتے ہیں:

عن جابر بن سمرة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فاذاھو عندى احسن من القمر.17
حضرت جابر بن سمرہ sym-5 فرماتے ہیں: میں نے حضور sym-1کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں کبھی آپ sym-1کی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف تو آپ sym-1میرے نزدیک یقیناً چاند سے زیادہ حسین تھے۔

کسی شخص کے اس سوال کے جواب میں کہ کیارسول اﷲ sym-1کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟ حضرت براء بن عازب sym-5 نے جواب میں کہا:

لا، بل مثل القمر.18
"نہیں"، بلکہ مثل ماہتاب تھا۔

صحابہ کرام sym-7 نے حضور نبی کریم sym-1کے چہرۂ انور کو فقط چاند ہی سے تشبیہ نہیں دی بلکہ آپ sym-1کے چہرۂ انور کو قرآن کا ورق بھی قرار دیا۔ چنانچہ حضرت انس sym-5سے مروی ہے:

حضور نبی کریم sym-1کے مرضِ وصال کے دنوں میں سیدنا صدیق اکبر sym-5 نماز کی امامت کے فرائض انجام دیا کرتے، سوموار کا دن تھا صحابہ کرام sym-7 صف درصف ان کے پیچھے نماز ادا کررہے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

فكشف النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ستر الحجرة ینظر الینا وھو قائم كأن وجھه ورقة مصحف ثم تبسم یضحك فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .19
تو اچانک نبی کریم sym-1نے اپنے حجرہ انور کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہوکر ہمیں دیکھا (ہم نے آپ sym-1کے چہرہ انور کی زیارت کی) تو وہ قرآن کے ورق کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ ہماری کیفیت دیکھ کر آپ sym-1نے تبسم فرمایا ہم نے آپ sym-1کے دیدار فرحت آثار کی خوشی کی وجہ سے نماز توڑدینے کا ارادہ کرلیا۔

حضرت ابوبکر صدیق sym-5 مصلیٰ چھوڑ کر صف کی طرف آئے کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ شاید آقا sym-1تشریف لے آئے ہیں آپ sym-1نے ہمیں اشارے سے نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا اور پردہ نیچے گرادیا اسی دن آپ sym-1کا وصال ہوگیا۔

حضرت انس sym-5 سے مروی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:

اخر نظرة نظرتھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكشف الستارة یوم الاثنین فنظرت الى وجھه كانه ورقة مصحف.20
مجھے آپ sym-1کے چہرہ انور کی آخری زیارت اور دیدار اس وقت نصیب ہوا جب پیر کی د ن آپ sym-1نے پردہ ہٹاکر صحابہ کرام کو نماز پڑھتے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔ پس میں نے آپ sym-1کے چہرہ انور کو قرآن مجید کا ایک ورق پایا۔

محدث کبیر امام عبدالرؤف مناوی sym-4وجہ تشبیہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ووجھه التشبیه حسن الوجه وصفاء البشرة وسطوع الجمال لما افیض علیه من مشاھدة جمال الذات.21
چہرہ اقدس اپنی صفائی، حسن اور جمال کی چمک دمک میں قرآن کے ورق کی طرح کیوں نہ ہو؟کیونکہ یہی تووہ چہرہ اقدس ہے جس نے جمال ذات باری تعالیٰ کے مشاہدہ سے فیضان پایا ہے۔

امام نووی "کان وجھہ ورقۃ مصحف" کے تحت لکھتے ہیں:

عبارة عن الجمال البارع وحسن البشرة وصفاء الوجه واستنارته.22
یہ جملہ آپ sym-1کے با جمال چہرۂ انور کے حسنِ صفائی اور اس کے انتہائی منور ہونے کی تعبیر ہے۔

اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوری sym-4لکھتے ہیں:

یشبه ورقة مصحف فى الحسن والصفا فان ورقة المصحف مشتملة على البیاض والاشراق الحسى والمعنوى من حیث ما فیھا من كلام اللّٰه تعالى وكذلك وجھه الشریف مشتمل على الحسن وصفاء البشرة وسطوع الجمال الحسى والمعنوى.23
حسن وصفائی میں آپ sym-1کے چہرۂ انور کو ورق مصحف اس لیے کہا کہ جس طرح ورق مصحف کلام الہٰی ہونے کی وجہ سے حسی ومعنوی نور پر مشتمل ہے اسی طرح آپ sym-1کا چہرہ انور بھی جمال حسی ومعنوی کا مرکز ومنبع ہے۔

نگاہِ جبریل میں اور کوئی نہیں

رسول اکرم sym-1کے حسن وجمال کے فریفتہ صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ خود سید الملائکۃ حضرت جبریل بھی اس پر فریفتہ تھے۔چنانچہ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6سے روایت ہے کہ رسول پاک sym-1نے فرمایا :

عن جبریل علیه السلام قال: قلبت مشارق الارض ومغاربھا فلم اجدرجلاافضل من محمد صلى اللّٰه علیه وسلم ولم اربیتا افضل من بیت بنى ھاشم.24
جبریل نےکہا :میں نے تمام زمین کے مشرق ومغرب کوچھا ن مارا مگر نہ تومیں نے(سیدنا) محمد sym-1سے(کسی بھی چیز میں) بہتر کسی کو پایا نہ ہی میں نے بنوہاشم کے گھرسے بہتر کوئی گھر دیکھا۔

چہرہ مصطفوی sym-1جمالِ الہٰی کا آئینہ ہے

یوں تو کائنات کی ہر شے حسنِ باری تعالیٰ کی نشاندہی کرتی ہے ۔یہ چاند، سورج، ستارے، سبھی کے سبھی اس حسنِ مطلق کی تخلیق کے شاہکارہیں مگر ان سب سے بڑھ کر جمالِ الہٰی کا مظہر چہرہ وذاتِ مصطفوی sym-1ہے ۔کیونکہ یہی وہ چہرہ اقدس ہے جو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور توجہ کا مرکز ہے جسے قرآنِ مجید و فرقانِ حمید نے فانک باعیننا25 (آپ sym-1ہر وقت ہماری نگاہوں میں ہیں) کے دلنشین وفرحت بخش اور محبت بھرےالفاظ میں بیان کیا ہے۔چونکہ آپ sym-1کا چہرہ اقدس جمال الہٰیہ کا مظہر اتم ہے اسی وجہ سے آپ sym-1نے فرمایا:

من رانى فقد راى الحق.26
جس شخص نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا۔

امام نبھانی sym-4امام احمد بن ادریس sym-4کے حوالے سے مذکور حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

من رانى فقد راى الحق تعالى.27
جس نے مجھے دیکھا گویا اس نے اﷲ کو دیکھا۔

حضرت ملا علی قاری sym-4اس كی شرح ميں لکھتے ہیں:

نعم یصح ان یراد به الحق سبحانه على تقدیر مضاف، اى: راى مظھر الحق او مظھره اومن رانى فسیرى اللّٰه سبحانه. لان من ر اى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فى المنام فسیراہ یقظة فى دار السلام، فیلزم منه انه یرى اللّٰه فى ذلك المقام، ولا یبعد ان یكون المعنى من رانى فى المنام فسیرى اللّٰه فى المنام. فان رؤیتى له مقدمة او مبشرة لذلك المرام.28
یہاں الحق سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مبارکہ بھی مراد لینا درست ہے البتہ مضاف مقدر ہوگا یعنی اس نے ذاتِ الہٰی کا مظہر دیکھايا یہ معنی ہے کہ جس نے میری زیارت کی تو وہ اﷲ تعالیٰ کی زیارت کا شرف بھی پائے گا۔ کیونکہ جس نے حضور sym-1کی خواب میں زیارت کی وہ بیداری میں بھی جنت میں زیارت کرے گا ۔پس اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اس مقام پر دیدار الہٰی سے بھی مشرف ہوگا اور یہ معنی بھی بعید نہیں کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب خواب میں دیدار الہٰی سے مشرف ہوگا۔ کیونکہ آپ sym-1کی زیارت اس بات کی بشارت اور پیش خیمہ ہے کہ وہ شخص اپنے رب کریم کی زیارت سے مشرف ہوگا۔

برصغیر کی معتبر علمی و روحانی شخصیت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیsym-4 اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:

حضرت رسالت مآب sym-1کے فرمان "من رانی فقد رای الحق" کے دو معنی ہیں:
اول یہ کہ "من رانی فقد رانی یقیناًفان الشیطان لا یتمثل بی"دوم یہ کہ "من رانی فقد رای اللّٰه تعالیٰ"یعنی اس فرمان نبوی sym-1کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا یقیناًاس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا اور دوسرا معنی یہ ہوگا کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔29

شیخ عبد الحق محدث دہلوی sym-4چہرۂ اقدس کو جمالِ الہٰی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

او وجه شریف وےصلى اللّٰه علیه وسلم مرآت جمالِ الٰھى ومظھر انوار نامتناھى وے.30
آپ sym-1کا چہرہ اقدس اﷲ تعالیٰ کے جمال کے لیے آئینہ ہے اور اس قدر انوار الہٰی کا مظہر کہ اس کی حد نہیں۔

چہرۂ مصطفیٰ sym-1 پر خوشی کے اثرات

رسول اکرم sym-1جب خوش ہوتے تو آپ sym-1کے مبارک چہرہ پر اس کے اثرات نمایاں ہوجاتے۔چنانچہ اس حوالہ سےام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ sym-6بیان کرتی ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دخل علیھا مسرورا تبرق اساریر وجھه فقال الم تسمعى ما قال المدلجى لزید واسامة وراى اقدامھما ان بعض ھذه الاقدام من بعض.31
رسول اﷲ sym-1ان کے پاس خوش خوش تشریف لائے آپ sym-1کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا‘ آپ sym-1نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا کہ المدلجی نے زید اور اسامہ sym-8 کے متعلق کیا کہا ہے! اس نے ان دونوں کے قدم دیکھ کر کہا! یہ بعض قدم! بعض قدموں کا جز ہیں۔

حضرت ابوہریرہ sym-5بیان کرتے ہیں :

واذا ضحك كاد یتلالا فى الجدر لم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.32
جب آپ sym-1 مسکراتے تھے تو دیواریں آپ sym-1 کے نور سے جگمگا اٹھتیں۔ میں نے آپ sym-1سے قبل یا آپ sym-1کے بعد آپ sym-1جیسا حسین نہیں دیکھا۔

ملا علی قاریsym-4 نے درج ذیل الفاظ میں حدیث کا ترجمہ کیا ہے:

أى: یشرق نوره علیه إشراقا كإشراق الشمس علیھا .33
یعنی دیواروں پر نور اس طرح چمکتا جس طرح سورج کی وجہ سے دھوپ پڑتی ہے۔

حاشیہ زرقانی علی المواہب نہایہ ابن اثیر sym-4کے حوالہ سے ہے:

انه علیه الصلوٰة والسلام كان اذا سر فكان وجھه المرآة التی ترى فیھا صور الاشیاء وكان الجدر تلاحك وجھه. اى: یرى الجدر فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم.34
جب حضور sym-1مسرور و خوش ہوتے تو آپ sym-1کا چہرہ مثل آئینے کے ہوجاتا کہ اس میں اشیاء کا عکس نظر آتا اور دیواریں آپ ﷺکے چہرہ میں نظر آجاتیں۔

اسی طرح امام زرقانی sym-4فرماتے ہیں:

ان وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم كان شدید النور بحیث یقع نوره على الجدار اذا قابلھا.35
آپ sym-1کا چہرہ اقدس اس قدر نورانی تھا کہ جب اس کی نورانیت دیواروں پر پڑتی تو وہ چمک اٹھتیں۔

حضرت حلیمہ سعدیہsym-6 کے گھر میں ہمہ وقت اجالا

قاضی ثناء اﷲ پانی پتیsym-4 شمائل محمدیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہ sym-6 کے گھر جب حضور sym-1کی آمد ہوئی تو ان کا گھر روشن رہتا تھا۔حضرت حلیمہ سعدیہ sym-6 نے لوگوں پر اس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے فرمایا:

ما كنا نحتاج الى السراج یوم اخذناه لان نور وجھه كان انور من السراج فاذا احتجنا الى السراج فى مكان جئنا به فتنورت الامكنة ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم .36
جس دن سے ہم آپ sym-1کو اپنے گھر لائے ہیں اس دن سے ہمیں گھر میں چراغ جلانے کی حاجت نہ رہی کیونکہ آپ sym-1کے چہرہ انور کانور چراغ سے زیادہ منور تھا جب کبھی ہمیں کسی جگہ چراغ کی ضرورت ہوتی تو ہم آپ sym-1کو اٹھاکر وہاں لے جاتے آپ sym-1کی برکت سے تمام جگہ روشن ہوجاتی۔

حضورِ اکرم sym-1کے چہرۂ انور کی تابانی

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہsym-6 آپ sym-1کے چہرہ اقدس کے اعجاز کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ایک اندھیری رات میں مجھ سے سوئی زمین پر گر پڑی۔ میں تلاش کر ہی رہی تھی کہ اچانک رسالت مآب sym-1کے مبارک چہرہ سے نور کی شعاعیں نکلنا شروع ہوگئیں اس چمک کی وجہ سے مجھے گم شدہ سوئی مل گئی۔چنانچہ اس روایت کے متعلق امام اصبہانی sym-8کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہsym-6 فرماتی ہیں:

قالت استعرت من حفصة بنت رواحة ابرة كنت اخیط بھا ثوب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطت عنى الابرة فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فتبینت لشعاع نور وجھه.37
میں نے حفصہ بنت رواحہ sym-6سے ایک سوئی ادھار پر لی تھی جس سے رسول اﷲ sym-1کا کپڑا سی رہی تھی اور مجھ سے وہ سوئی گرگئی۔ میں نے اسے ڈھونڈا لیکن اسے نہ پاسکی۔ اتنے میں حضور sym-1داخل ہوئے آپ sym-1کے چہرہ انور کی نور میں مجھے سوئی نظر آگئی۔

یہ صرف ایک مرتبہ کا واقعہ یا اتفاقیہ معاملہ نہ تھا بلکہ آپ فرماتی ہیں:

كنت ادخل الخیط فى الابرة حال الظلمة لبیاض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .38
میں ہمیشہ رات کی تاریکی میں آپ sym-1کے چہرہ اقدس کے نور کی روشنی میں سوئی میں دھاگہ ڈال لیا کرتی تھی۔

حجر اسود کی تعظیمِ مصطفیٰ sym-1

حضرت حلیمہ سعدیہ sym-6بیان فرماتی ہیں کہ جب ہم حضور sym-1کو لے کر واپس اپنے خاندان میں جانے لگے تو خواہش ہوئی کہ جانے سے پہلے بیت اﷲ شریف کا طواف کرلینا چاہیے۔ میں آپ sym-1کو اٹھاکر حرم کعبہ لے گئی۔ طواف شروع کرنے سے پہلے میں نے چاہا کہ حجر اسود کو بوسہ دوں لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب حجر اسود نے آپ sym-1کو دیکھا تو اپنی جگہ سے حرکت کرکے آپ sym-1کی طرف بڑھا حتی کہ چہرۂ اقدس سے چمٹ کر اس نے بوسے لینے شروع کردئیے۔

قاضی ثناء اﷲ پانی پتی sym-4نے مذکورہ روایت کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے:

روى ان حلیمة لما اخذته دخلت على الاصنام فنكس الحبل راسه وكذا جمیع الاصنام من اماكنھا تعظیما له وجاء ت به الى الحجر الاسود لیقبله فخرج من مكانه حتى التصق بوجھه الكریم صلى اللّٰه علیه وسلم.39
جب حضرت حلیمہ سعدیہ sym-6آپ sym-1کو لے کر بتوں کے پاس گئیں تو حبل اور دیگر تمام بتوں نے آپ sym-1کی تعظیم کی خاطر سر جھکا دیا اور جب آپ sym-1کو لے کر حجر اسود کے پاس پہنچیں تو وہ دیکھتے ہی اپنی جگہ سےاکھڑکر آپ sym-1کے چہرہ انور کے ساتھ چمٹ گیا۔

چہرۂ اقدس حق کا پرتو

حضرت عبداﷲ بن سلامsym-5 جو اسلام لانے سے قبل یہود کے بہت بڑے عالم تھے۔وہ فرماتے تھے کہ اسلام کے دامن رحمت میں آنے سے پہلے جب میں نے نبی آخر الزماں sym-1کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا تو نبوت کی دعویدار اس ہستی کو دیکھنے کے لیے آیا۔ اس وقت آپ sym-1مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے۔ حضرت عبداﷲ بن سلام sym-5فرماتے ہیں:

فلما استبنت وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عرفت ان وجھه لیس بوجه كذاب.40
پس جب میں نے حضور sym-1کا چہرۂ اقدس دیکھا تو میرا دل پکار اٹھا کہ یہ (نورانی) چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح حضرت حارث بن عمرو سہمیsym-5 فرماتے ہیں:

اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو بمنی او بعرفات وقد اطاف به الناس قال: فتجئى الاعراب فاذا راوا وجھه قالوا ھذا وجه مبارك.41
میں منیٰ یا عرفات کے مقام پر حضور sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) حضور sym-1کی زیارت کے لیے لوگ جوق در جوق آرہے ہیں پس میں نے مشاہدہ کیا کہ دیہاتی آتے اور جب وہ آپ ﷺکے چہرہ اقدس کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔

طارق بن عبداﷲ sym-5بیان کرتے ہیں کہ ہمارے قافلے نے مضافات مدینہ میں پڑاؤ ڈالا۔ ہمارے قافلے میں نبی آخر الزماں sym-1تشریف لائے۔ اس وقت تک ہم حضور نبی کریم sym-1کی ذاتِ اقدس سے آشنا نہیں تھے۔آقائے محتشم sym-1 کو ہمارا سرخ اونٹ پسند آگیا اونٹ کے مالک سے سودا طے ہوالیکن اس وقت حضور sym-1کے پاس رقم نہ تھی۔آپ sym-1نے طے شدہ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا اور سرخ اونٹ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ sym-1کے تشریف لے جانے کے بعد اہل قافلہ اپنے خدشات کااظہار کرنے لگے کہ ہم نے تو سرخ اونٹ کے خریدار کا نام تک دریافت نہیں کیا اور محض وعدے پر اونٹ ایک اجنبی کے حوالے کردیا ہے۔ اگر اونٹ کے خریدار نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو کیا ہوگا؟ لوگوں کی قیاس آرائیاں سننے کے بعد سالار قافلہ کی بیوی قافلے والوں کو مخاطب کرکے یوں گویا ہوئی:

لا تلاوموا، فإنى رأیت وجه رجل لم یكن لیحقركم، ما رأیت شیئا أشبه بالقمر لیلة البدر من وجھه.42
تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے (اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ) وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہ نہیں دیکھا۔

جب شام ہوئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں رسول اﷲ sym-1کا قاصد ہوں یہ کھجوریں لو پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کرلو۔ تو ہم نے خوب سیر ہوکر کھجوریں کھائیں اور (اونٹ کی) قیمت بھی پوری کرلی۔

جمالِ چہرۂ اقدس پر محترم چچا کا خراجِ عقیدت

حضوراکرم sym-1کےچچا جناب حضرت ابو طالب sym-5نے ایک موقع پر چہرۂ مصطفیٰ sym-1کا نقشہ یوں کھینچا:

وأبیض  یستسقى  الغمام  بوجھه        ثمال  الیتامى  عصمة  للأرامل.43

وہ ( sym-1)گورے رنگ والے جن کے روئے روشن کے توسل سے مینہ برستا ہےیتیموں کے جائےپناہ، بیواؤں کے نگہبان ہیں۔

صحابی رسول حضرت کعب بن زبیرsym-5 نےچہرۂ مصطفیٰ کا بڑا نورانی منظر نامہ بیان فرمایا۔چنانچہ امام قسطلانی نے ابوبکر بن الانباری کے حوالے سے ایک روایت نقل کی کہ جب حضرت کعب sym-5قیصدہ پیش کرنے کے دوران اس شعر پر پہنچے:

ان     الرسول   لنور   یستضاء   به
مھند  من  سیوف  اللّٰه  مسلول.44

بے شک رسول خدا sym-1ایسا نور ہیں جن سے (ہدایت کی) روشنی حاصل کی جاتی ہے آپ اللہ کی کھینچی ہوئی تلواروں میں ایک عمدہ تلوارہیں۔

توحضور اکرم sym-1نے ردائے مبارک جو اس وقت آپ sym-1کے جسم اقدس پرتھی حضرت کعبsym-5 کو عطا فرما دی۔

حسنِ مصطفیٰ sym-1اور شاعرِ رسول sym-1

اسی طرح رخ زیبا کی تعریف و مدح بیان کرتے ہوئےحضرت حسان بن ثابت sym-5 فرماتے ہیں:

و احسن  منک  لم ترقطّ  عینی        اجمل    منک    لم تلد      النساء
خلقت   مبرأ   من   كل   عیب        و كانك  قد  خلقت  كما تشاء .45

آپ sym-1سا حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا ۔آپ sym-1سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔ آپ sym-1ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے گویا کہ آپ sym-1ایسے پیدا کیے گئے جیسا کہ آپ sym-1نے چاہا۔46

امام شرف الدین بو صیری کا بارگاہِ اقدس میں خراجِ تحسین sym-1

عرب وعجم میں معروف نعتیہ کلام قصیدہ بردہ شریف میں امام شرف الدین بوصیریsym-4 نے کمالِ حسن حضور یوں بیان فرمایا :

فھو  الذى   تم   معناه   وصورته
ثم  اصطفاه  حبیبا  بارى  النسم.47

یعنی ،پس آپ sym-1وہ (ذات اتم) ہیں جن کے ظاہری و باطنی کمالات مکمل ہوئے تو خالق ارواح نے انھیں اپنا منتخب و محبوب بنالیا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اگرکوئی مکمل واتم ہے تووہ صرف ذات مصطفیٰ sym-1ہے۔ آپ sym-1کی صورت تمام ظاہری کمالات و حسن کا مرقع ہےاور آپ sym-1کا باطن تمام اخلاق و محامد کا مجموعہ ہے۔ یعنی رب کائنات نے آپ sym-1کو جتنی عظمت بخشی اس سے بڑھ کر آپ sym-1کو اعزاز عطا کیا اور وہ اعزاز محبوبیت کا ہے۔

امام بوصیری sym-4 نے اسی قصیدہ میں ایک جگہ پیارے آقا sym-1کو سورج سے تشبیہ دی اور تمام انبیائے کرام sym-7 کو ستاروں سے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

فإنّه  شمس  فضل  ھم  كواكبھا       یظھرن  أنوارھا  للنّاس  فى  الظّلم.48

یعنی ، بے شک آپ sym-1فضیلت و برتری میں (روشن) آفتاب کی مانند ہیں اور سب انبیائے کرام روشن ستارے ہیں جو اس آفتاب نبوت کے انوار کو لوگوں کے لیے تاریکیوں میں ظاہر کررہے ہیں۔

اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بقول کسے وہ اگر جلوہ کریں تو کون تماشاہی ہو؟مذ کورہ بالا صفحات میں چہرۂ مصطفیٰ sym-1کے ظاہری حسن کا تفصیلی ذکر کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حسن کی حقیقت کوسمجھانے کے لیے الفاظ ناکافی ہیں ۔ ان کے حسن کا طالب تو خود اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو بنایا۔ ہر کسی کو دیدارمصطفی sym-1اور لقائے محبوب کا متمنی بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ حقیقت جمال مصطفیٰ sym-1تو دیکھنے کی کسی آنکھ میں تاب ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ السلام کے والد شاہ عبدالرحیم دہلوی نے ذکر کیا کہ حضور sym-1نے فرمایا:

جمالى مستورعن اعین الناس غیرة من اللّٰه ولوظھر لفعل الناس اكثر ممافعلوا حسین راؤ یوسف.49
یعنی ، میرا حسن و جمال پردے میں چھپا ہوا ہے اگر ظاہر ہوجائے تو لوگوں کا حال اس حال سے زیادہ ہو جوان کا یوسف کو دیکھ کر ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے میرے حسن کو چھپا رکھا ہے ۔

حضرت ابوبکرصدیق sym-5 کو سرکار نے خود فرمایا:

یا ابابكر الذى بعثنى بالحق لم یعرفنى حقیقة غیرربى.50
یعنی ،اے ابوبکر مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے معبوث فرمایا مجھے میرے رب کے سوا کسی نے (کماحقہ) پہنچانا ہی نہیں۔

یعنی نبی اکرم sym-1کے حسن و جلوہ کو اللہ ربُّ العزّت نے پردوں میں ظاہر فرما یا ہے اور سوائے اللہ رب العزت کے نبی اکرم sym-1کی حقیقت خلقت کو کوئی اور نہیں جانتا۔

نبی اکرم حسن وجمال کا بے مثل و بے نظیر مرقع تھے اور اس بے نظیر حسن ِ کامل کا عکس آپ sym-1کے جسدِ اقدس کے تمام تر حصو ں میں نمایاں نظر آتاتھا۔بالخصوص آپ sym-1کے چہرۂ مبارک میں اس حسنِ کامل کا بدرجہ اتم واکمل اظہار ہوتا تھا۔جب آپ sym-1مسرور ہوتے اور مسکراتے تو آپ sym-1کے حسنِ تاباں میں مزید اضافہ ہوتا تھا جس سے ارد گرد کے درو دیوار پر نور کی کرنیں پڑتی تھیں اور ماحول یکسر تبدیل ہوجایا کرتا تھا۔اسی طرح آپ sym-1کا چہرۂ مبارک آپ sym-1کے جسمِ اطہر کا وہ خوبصورت ترین حصہ تھا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اگر ایک بار دیکھ لیتے تو منصف مزاج اشخاص آپ sym-1کی صداقت و حقانیت کی گواہی دیتے اور علی الاعلان رسالت نبی کریم sym-1 کا اقرار کر کے ہمیشہ کے لیے آپ sym-1کے قافلہ حق میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔


  • 1  القرآن، سورۃ التین 95 : 4
  • 2  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:637
  • 3  القرآن، سورۃ ا لضحیٰ 93: 1-3
  • 4  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ، ص:90
  • 5  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-8 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:444
  • 6  محمد بن عمر بن حسن فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب التفسیر الکبیر، ج-31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:191
  • 7  نظام الدین حسن بن محمد نیسابوری، غرائب القرآن ورغائب الفرقان ،ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1416ھ، ص:515
  • 8  شہاب الدین محمود بن عبداﷲ الآلوسی، روح المعانی، ج-15، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:373
  • 9  اسماعیل حقی بن مصطفی، تفسیر روح البیان، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً) ، ص:453
  • 10  شاہ عبد العزیز بن ولی اﷲ الدہلوی، تفسیر عزیزی ، مطبوعہ :کتب خانہ رحیمیہ ،دیوبند، یوپی،ہند، 1388ء، ص:219
  • 11  منصور بن محمد بن عبد الجبار سمعانی، تفسیر السمعانی، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، 1997ء، ص:151
  • 12  ابو محمد الحسين بن مسعود البغوى، معالم التنزيل فى تفسير القرآن، ج-1 ، مطبوعۃ: دار طیبۃ للنشر والتوزیع، 1997ء، ص:16
  • 13  القرآن، سورۃ البقرۃ 2 : 144
  • 14  ابو جعفر محمد بن جریر طبری، جامع البیان، ج-2 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1410ھ، ص:13
  • 15  ابو الخطاب عمر بن الحسن ابن دحیہ کلبی، الآیات البینات فی ذکر ما فی اعضاء رسول اﷲ ﷺ، مطبوعۃ: مکتبۃ العمرین العلمیۃ، الامارات، العربیۃ المتحدۃ، 2000ء، ص:200
  • 16  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3549، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:74
  • 17  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 9، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:14
  • 18  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث :3552، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:744
  • 19  ایضًا:حدیث: 680 ، ص:148
  • 20  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 368، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ئ، ص:181-182
  • 21  عبدالرؤف بن تاج العارفین عناوی، حاشیۃ بر جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2 ، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً )، ص:255
  • 22  شرف الدین یحییٰ بن شرف النووی، شرح صحیح مسلم، ج-4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص:142
  • 23  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:194
  • 24  ابو القاسم سليمان بن احمد الطبرانى،المعجم الاوسط، حدیث:6285، ج-6، مطبوعة:دار الحرمين،القاهرة، مصر، ( لیس التاریخ موجوداً)،ص:237
  • 25  القرآن، سورۃ الطور48:52
  • 26  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث:11522، ج-18، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:83
  • 27  یوسف بن اسماعیل نبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:63
  • 28  نور الدین بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:236
  • 29  امداد اﷲ مہاجر مکی، شمائم امدادیہ ،مطبوعہ: لکھنؤ ،انڈیا، (سن اشاعت ندارد )، ص:9
  • 30  الشیخ عبد الحق دہلوی، مدارج النبوۃ، ج-1 ،مطبوعۃ: منشی لول کشور ،بھارت، (سن اشاعت ندا رد ) ،ص:3
  • 31  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3555، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:744
  • 32  عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث، 20490، ج-11، مطبوعۃ المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص:159
  • 33  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:15
  • 34  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:257
  • 35  ایضًا: ج-8، ص:444
  • 36  قاضی ثناء اﷲ المظھری، تفسیر المظہری، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ رشیدیۃ،کوئتۃ، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:528
  • 37  اسماعیل بن محمد الاصبھانی، دلائل النبوۃ، حدیث117، مطبوعۃ : دار طیبۃ ،الریاض،السعودیۃ، 1409ھ ، ص:113
  • 38  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1433ھ ، ص:159
  • 39  قاضی ثناء اﷲ المظھری، تفسیر المظہری، ج-6، مطبوعۃ:مکتبۃ رشیدیۃ،کوئتۃ، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:528
  • 40  محمد بن عیسیٰ،سنن الترمذی، حدیث: 2458، ج-4، مطبوعۃ :دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:652
  • 41  ایضاً
  • 42  محمد بن حبان ابو حاتم، صحیح ابن حبان، حدیث: 6562، ج -14، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :518
  • 43  ابو عبدالله محمد بن إسماعيل البخارى، صحیح البخاری، حدیث:1008، دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1419ﻫ ، ص:162
  • 44  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-4، مطبوعہ:دار الکتب العلمیۃِ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:61
  • 45  الدکتور محمد سعید رمضان البوطی، مختارات من اجمل الشعر فی مدح رسول اللہ ﷺ، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،دمشق، سوریہ، 1408ھ، ص:10
  • 46  حضرت حسان بن ثابت کی اس رباعی کا ایک حسین ودلکش ترجمہ یوں بھی ہے:نہ دیکھا میری آنکھوں نے کوئی تم ساحسین جاناں آﷺ۔صدف نے تم سا اگلاہی نہیں درثمیں جاناں ﷺ۔تمہیں پیدا کیا ہرعیب سے یوں پاک فرما کر کہ جیسے اپنی صفی سے بنے ہو نازنی جاناںﷺ۔
  • 47  اما م شرف الدین بوصیری،قصیدہ بردہ شریف،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور،پاکستان،2014ء،ص:115
  • 48  ایضًا:ص:135
  • 49  شاہ ولی اللہ، الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ، مطبوعۃ: مطبوعۃ:مکتبۃ الشیخ،کراتشی، باکستان، 1430ھ، ص:7
  • 50  امام محمد مھدی الفاسی، مطالع المسرات، مطبوعۃ:مکتبۃ نوریۃ رضویۃ، لاھور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً ) ص: 120

Powered by Netsol Online