encyclopedia

آپ ﷺکا شکم مبارک

Published on: 04-Nov-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، ڈاکٹر عمران خان، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 38، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 508-519)

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اللہ تبارک وتعالی نے تمام نوع انسانی کے لیے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبناکر مبعوث فرمایا ہے۔اسی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ہرلحاظ سے کامل و اکمل ،ارفع واعلی اور احسن واجمل اشیاء عطا فرمائی گئی ہیں۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم اطہر بھی تمام اجسام کائنات میں سب سے بڑھ کر حسین و جمیل ہے۔اس جسم اقدس کا ہر عضو اور ہر حصہ اپنی آب و تاب اور چمک میں ممتاز ومشرف ہے۔انہی اعضاء بدنی میں سے ایک عضو مبارک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم (پیٹ مبارک)ہے۔رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم اطہر سینہ اقدس کے برابر تھا،بڑھا ہوا نہ تھا ۔ریشم کی طرح نرم وملائم اور چاندی کی طرح سفید تھا ۔یہی وہ شکم تھا جو اپنے مولیٰ کی رضا کی خاطر کئی کئی دن تک خالی رہتا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکبھی اس پر پتھر باندھ لیتے تاکہ کمر سیدھی رہے۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سینہ اور شکم مبارک ایک جیسا تھا

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم مبارک سینہ ا قدس سے بڑھا ہوا نہیں تھا جو کہ مردانہ حسن و وجاہت کے لیے اہم ترین شئی سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سےحضرت ہند بن ابی ہالہ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سواء البطن والصدر.1
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم مبارک اور سینہ مبارک برابر تھے۔

اسی طرح سیدنا ابوہریرہRadi Allah Anho فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مفاض البطن.2
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم مبارک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سینہ سے باہر نہیں تھا۔

علماء اس برابری کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سینہ اور شکم مبارک دونوں اس طرح ایک دوسرے کے برابر تھے کہ ان میں سے کوئی ابھرا ہوا نہ تھایعنی نہ تو پیٹ سینہ سے زائد تھا اور نہ ہی سینہ پیٹ سے۔

اسی حوالہ سے امام الاجری Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وقوله سواء البطن والصدر یعنى ان بطنه غیر مستفیض فھو مساو لصدره وان صدره عریض فھو مساو لبطنه.3
راوی کے قول میں سواء البطن والصدر کا مطلب ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم مبارک بڑھا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ سینہ کے برابر تھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سینہ اقدس کشادہ تھا تو وہ شکم کے برابر تھا۔

اسی طرح حضرت اُم معبد Radi Allah Anha بیان کرتی ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا شکم مبارک ایسے بڑھا ہوا نہیں تھا کہ برا محسوس ہو۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

لم تعله ثجلة ولم تزر به صعلة.4
شکم مبارک بڑھا ہوا نہ تھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا پہلو نہایت پتلا اور باریک تھا۔

شکم مقدّس کی پر نور لپٹیں

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے شکم مبارک کے حوالہ سے حضرت اُم ہانیRadi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے شکم مبارک کے بارے میں فرماتی ہیں:

مارایت بطن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قط الا ذكرت القراطیس المثنیة بعضھا على بعض.5
میں نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے شکم مبارک کو ہمیشہ لپٹے ہوئے کاغذ کی طرح تہ بہ تہ نازک اور لطیف دیکھا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے شکم مبارک کے تین سلوٹ (یا شکن) تھے ان میں سے دوکو تہہ بند چھپالیتا تھا اور ایک ظاہر رہتا تھا یہ سلوٹ سفید سوتی کپڑے کی تہہ (لٹھے کے سفید کپڑے کی تہہ) سے زیادہ سفید تھی اور چھونے میں نرم تھی۔ حافظ ابوبکر احمد بن ابی خیثمہRehmatullah Alaihان مبارک تہوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ تین تھیں ان میں سے ایک تہبند ڈھانپ لیتا اور دو ظاہر رہتیں اور بعض روایات میں ہے کہ دو کو تہبند ڈھانپ لیتا اور ایک ظاہر رہتی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

تلك العكن ابیض من القباطى المطواة والین مسا.6
وہ تینوں تہیں لپٹے ہوئے ریشمی کپڑے سے زیادہ سفید اورچھونےمیں بہت نرم تھیں۔

شکم مقدّس پر بالوں کا حسن خط

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر پر کاندھوں اور بازوؤں کے علاوہ کسی مقام پر بال نہ تھےالبتہ سینہ اقدس کے اوپر سے لے کر ناف مبارک تک بالوں کا ایک خوبصورت خط تھا جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے شکم مبارک کے حسن کو دوبالا کر رکھا تھا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہRadi Allah Anho نے انہی بالوں کے خط کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انور المتجرد موصول ما بین اللبة والسرة بشعر یجرى كالخط عارى الثدیین والبطن مما سوى ذلك.7
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا (جسم اطہر) سراپا نور اور حُسن کا پیکر تھا حلق(اقصٰى) کے نیچے سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک لکیر تھی ،باقی سینہ اور شکم مبارک بالوں سے خالی تھا۔

حضرت علی Radi Allah Anhoاس کی حسن طوالت کو یوں بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم طویل المسربة.8
آپ ﷺکے شکم مبارک پر بالوں کی لکیر طویل تھی۔

حضرت علی Radi Allah Anhoسے مروی دوسری روایت میں ہے:

كان لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شعر یجرى من لبته الى سرته كالقضیب لیس فى صدره ولا بطنه شعر غیره.9
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سینہ اقدس کے اوپر سے ناف تک ایک خوبصورت باریک شاخ کی طرح بالوں کی لکیر تھی جس کے علاوہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سینہ اقدس اور شکم مبارک پر بال نہ تھے۔

اسی طرح حضرت فاروق اعظمRadi Allah Anho بھی فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دقیق المسربة له شعرات من لبته الى سرته كانھن قضیب مسك اذفر ولم یكن فى جسده ولا صدره شعرات غیرھن.10
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سینہ اقدس کے اوپر سے لے کر ناف تک بالوں کا ایک خط بنا ہوا تھا گویا کہ وہ مشک اذفر کی ایک سطر تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر اور سینہ مبارک پر ان کے علاوہ اور بال نہ تھے۔

بطن مبارک کے پہلؤوں کی خوبصورتی

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے شکم مبارک کی دونوں اطراف نہایت ہی خوبصورت اور سفید تھیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابیض الكشحین.11
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دونوں پہلو سفید تھے۔

شکم مبارک سےبرکت کا حصول

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسراپا برکت ہیں اوراسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہر عضو مبارک کی بھی اپنی برکت ہے۔اسی حوالہ سے روایت میں منقول ہےکہ حضرت اسید بن حضیر Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

عن اسید بن حضیر رجل من الانصار قال: بینما ھو یحدث القوم وكان فیه مزاح بینا یضحكھم، فطعنه النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فى حاضرته بعود فقال: اصبرنى قال: اصطبر قال: ان علیك قمیصا ولیس على قمیص. فرفع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عن قمیصه فاحتضنه وجعل یقبل كشحه. قال: انما اردت ھذا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .121314151617181920
حضرت اسید بن حضیر Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں : ایک انصاری ایک دن لوگوں کو مزاح والی باتیں کرکے ہنسا رہا تھا تو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے لکڑی کے ساتھ اس کے پہلو میں چوکا لگایا تو اس نے کہا :میں اس پر صبر کرلوں؟ (یعنی میں آپ کو معاف کردوں اور بدلہ نہ لوں) حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :بدلہ لے لو۔اس نے کہا: آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بدن پر قمیص ہے اور میرا بدن بغیر قمیص کے تھا۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے قمیص اٹھادی تو وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسےلپٹ گیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پہلو کو چومنے لگا اور کہا: اے اﷲ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! میرا تو صرف یہی (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بدن مبارک چومنے کا) ارادہ تھا۔

اس روایت کو امام ابن ہشام Rehmatullah Alaihاس طرح نقل کرتے ہیں:

قال ابن اسحاق و حدثنى حبان بن واسع بن حبان عن اشیاخ من قومه ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عدل صفوف اصحابه یوم بدر وفى یده قدح یعدل به القوم فمر بسواد بن غزیة حلیف بنى عدى بن النجار...مستنصل من الصف فطعن فى بطنه بالقدح وقال: استو یا سواد. فقال: یا رسول اللّٰه ! اوجعتنى وقد بعثك اللّٰه بالحق والعدل. قال: فاقدنى. فكشف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بطنه وقال: استقد. قال: فاعتنقه فقبل بطنه. فقال: ما حملك على ھذا یا سواد؟ قال: یا رسول اللّٰه! حضر ما ترى فاردت ان یكون اخر العھد بك ان یمس جلدى جلدك. فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بخیر.21
امام ابن اسحاق Rehmatullah Alaihنے کہا: مجھ سے حبان بن واسع بن حبان Rehmatullah Alaihنے اپنی قوم کے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبدر کے روز اپنے صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی صف بندی کررہے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس کے اشارہ سے اپنی قوم کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبنی عدی بن نجار کے حلیف حضرت سواد بن عزیہ Radi Allah Anhoکے پاس سے گزرے جبکہ وہ صف سے آگے نکلے کھڑے تھے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس تیر سے ان کے شکم پر ہلکی سی چوٹ لگائی اور فرمایا:اے سواد! سیدھے ہوجاؤ۔ وہ کہنے لگے: یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! مجھے درد ہوا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ پس مجھے اس چوٹ کا بدلہ دیجئے۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فوراً اپنے شکم اقدس سے قمیص اٹھادی اور فرمایا: آؤ بدلہ لے لو۔ انہوں نے لپک کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو گلے لگالیا اور پیٹ مبارک کو چوم لیا۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پوچھا اے سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ "انہوں نے عرض کی:یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! جو مرحلہ ہمیں درپیش ہے وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamملاحظہ فرمارہے ہیں۔ میری یہ آرزو تھی کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت میری جلد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جلد مبارک سے مس ہوجائے۔اس پر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انہیں دعائے خیر سے سرفراز فرمایا۔

امام عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی Rehmatullah Alaihصحابی رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحضرت سواد بن غزیہ Radi Allah Anhoکے بارے میں فرماتے ہیں:

ھذا ھو عامل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم علی خیبر الذى جاء ه بتمر جنیب ذكرہ مالك فى المؤطا ولم یسمه.22
یہ سواد خیبر کے علاقہ میں رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے عامل تھے جو جنیب کھجوریں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں لے کر آئے۔ اسے امام مالک Rehmatullah Alaihنے المؤطا میں ذکر کیا لیکن نام ذکر نہیں کیا۔

امام ابو نعیم اصفہانی Rehmatullah Alaihحضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhumaسے طویل حدیث روایت کرتے ہوئے نقل فرماتےہیں:جب سورت"اذا جاء نصر اﷲ والفتح" نازل ہوئی تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا اے جبرائیلAlaihis Salam میری وفات کی آواز لگ گئی ۔حضرت جبریل Alaihis Salamنے فرمایا آخرت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لئے دنیا سے بہتر ہے اور عنقریب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رب عطا کرے گا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamراضی ہوجائیں گے۔ تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت بلال Radi Allah Anhoکو حکم فرمایا کہ نماز کے لئے اذان دیں۔ چنانچہ مہاجرین وانصار مسجد میں جمع ہوگئے توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نماز پڑھائی اور پھر منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا جس سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

مسلمانوں کی جماعت! میں تمہیں اﷲ کے واسطے سے اور اس حق کے واسطے سے جو میرا تم پر ہے کہتا ہوں کہ میری طرف سے کسی سے کوئی زیادتی ہوگئی ہو تو قیامت میں بدلہ لینے سے پہلے یہیں لے لے۔لیکن کوئی شخص کھڑا نہ ہوا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دوسری مرتبہ فرمایا تو پھرکوئی کھڑا نہ ہوا۔ پھرجب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے تیسری مرتبہ فرمایا تومسلمانوں میں سے ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا، جنہیں عکاشہ Radi Allah Anho کہا جاتا تھا ۔وہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگاکہ میرے ماں باپ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر قربان ہوں۔ اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہمیں اﷲ کا واسطہ نہ دیتے تو میں آگے سے کچھ نہیں کہتا۔ ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ ایک غزوہ سے واپس ہورہے تھے توواپسی میں میری اونٹنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اونٹنی کے برابر آگئی میں اترا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ران کا بوسہ لے لوں مگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اچانک لکڑی اٹھائی اور وہ میرے پہلو میں چبھ گئی مجھے نہیں معلوم کہ وہ جان بوجھ کر تھا یا نادانستہ ہوگیا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: میں اﷲ کے جلال کی پناہ لیتا ہوں کیا اﷲ کا رسول جان بوجھ کر تجھے مارے گا؟ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت بلال Radi Allah Anho کو حکم دیا: جاؤ فاطمہ سے وہ لکڑی لے آؤ۔ حضرت بلالRadi Allah Anho گئے اور دروازہ کھٹکھٹا کر بولے: اے اﷲ کے رسول کی بیٹی! آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی وہ لکڑی دے دو، حضرت فاطمہRadi Allah Anha بولیں کہ: اس لکڑی کی ضرورت کیا ہے ؟نہ تو حج ہے اور نہ حج کا وقت؟ حضرت بلال Radi Allah Anho نے فرمایا :کیا آپ Radi Allah Anhuma کو علم نہیں رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamدنیا اور ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اب وہ قصاص دینا چاہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ Radi Allah Anha نے فرمایا: کیا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے بھی کوئی انتقام لے گا؟ یہ حسن حسین Radi Allah Anhuma ہیں انہیں لے جاؤ اور اس سے کہو ان سے انتقام لے لے۔ یہ دونوں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے انتقام لینے نہیں دیں گے۔ بہر حال وہ واپس آئے اور وہ لکڑی آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دست مبارک میں دے دی۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے وہ لکڑی حضرت عکاشہRadi Allah Anho کو دے دی کہ انتقام لے لو۔چنانچہ منقول ہے:

فقال النبی صلى اللّٰه علیه وسلم : یا عكاشة اضرب ان كنت ضاربا فقال: یا رسول اللّٰه! ضربتنى وانا حاسر عن بطنى فكشف عن بطنه صلى اللّٰه علیه وسلم وصاح المسلمون بابكاء وقالوا: اترى عكاشة ضاربا بطن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما نظر عكاشة الى بیاض بطن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كانه القباطى لم یملك ان اكب علیه فقبل بطنه وھو یقول: فداك ابى وامى ومن تطیق نفسه ان یقتص منك؟ فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : اما ان تضرب واما ان تعفو. فقال: قد عفوت عنك رجاء ان یعفو اللّٰه عنى یوم القیامة. فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: من اراد ان ینظر الى رفیقى فى الجنة فلینظر الى ھذا الشیخ. فقام المسلمون فجعلوا یقبلون مابین عینیه ویقولون: طوباك طوباك نلت درجات العلى ومرافقة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمرض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من یومه.23
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: اے عکاشہ! اگر مارنا ہے تو مارلے۔ اس نے کہا :یا رسول اﷲ! جس وقت مجھے لکڑی لگی تھی میرا پیٹ کھلا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنا پیٹ کھول دیا مسلمان زور زور سے رونے لگے کہ کیا ہم عکاشہ Radi Allah Anho کو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیٹ پر مارتے دیکھیں گے؟ جب عکاشہ Radi Allah Anho نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیٹ مبارک کی رنگت سفیدی دیکھی تو گویا وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائےاورجھپٹ کر انہوں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیٹ مبارک پر بوسہ لیا اور کہتے جاتے: میرے ماں باپ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر قربان کس کی مجال ہے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے بدلہ لے؟ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:یا تو مار لو یا معاف کردو۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو قیامت میں اپنی معافی کی امید پر معاف کردیا۔نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :جو شخص چاہتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ساتھی کو دیکھے تو وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے۔ چنانچہ مسلمان کھڑے ہوکر عکاشہ Radi Allah Anhoکی آنکھوں کے درمیان بوسہ لینے لگے اور مبارک ہو مبارک ہو کہتے جاتے: تم نے بڑا بلند درجہ پالیا ہے اور رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ساتھ پالیا ہے۔ اسی دن نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبیمار ہوگئے۔

انتہائی قلیل غذا کے باوجود بھرپور جسمانی قوّت

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamصحابہ اور تابعین میں سے سلف صالحینRadi Allah Anhum نے سادہ زندگی اختیار کی اور فقر اور فاقہ کی تلخی پر صبر کیا غنیٰ کی حلاوت کو ترک کردیا اور صرف اتنی مقدار خوراک پر گزارہ کیا جس سے ان کی کمر سیدھی رہ سکے اور رمقِ حیات قائم رہے ۔خود حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس کے لیے دعا بھی فرماتے :

اللّٰھم اجعل رزق آل محمد قوتا.24
اے اﷲ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آل کا رزق بقدر روزی بنا۔ (یعنی بقدر قوت لایموت بنا)

نیزحضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکئی کئی دن بھوکے رہتے تھے اور بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھ۔ زندگی کی سختی کو ترجیح دیتے تھے اور اس پر صبر کرتے تھے حالانکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو یقین تھا کہ اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے رب سے یہ سوال کریں کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے مکہ کے پہاڑوں کو سونا بنادے اور چاندی بنادے تو اﷲ تعالیٰ ضرور ایسا کرتا ۔لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فقر کو ترجیح دی۔چنانچہ امام بخاریRadi Allah Anhum اس حوالہ سے روایت نقل کرتے ہیں:

عن عائشة قالت: ما شبع آل محمد صلى اللّٰه علیه وسلم منذ قدم المدینة من طعام بر ثلاث لیال تباعا حتى قبض.25
اُم المؤمنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha بیان کرتی ہیں : جب سے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمدینہ آئے کبھی آل محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مسلسل تین دن گندم کا کھانا (روٹی) سیر ہوکر نہیں کھایا حتیٰ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamدنیا سے پروہ فرماگئے۔26

شكم اقدس پر دو پتهر

کبھی کبھی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شکم مبارک پر پتھر باندھ لیتے۔ حسب ضرورت کبھی ایک اور کبھی دو۔چنانچہ حضرت ابو طلحہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے بھوک کی وجہ سے اپنے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیے۔جب بھوک سے نڈھال ہوگئے تو تمام نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں شکایت کی کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھوک نے بہت پریشان کر رکھا ہے اور ساتھ اپنے بندھے ہوئے پتھر بھی دکھائے ۔ اس کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا ہٹایا تو صحابہ حیران رہ گئے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک کے بجائے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

شكونا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الجوع ورفعنا عن بطوننا عن حجر حجر فرفع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بطنه عن حجرین.27
ہم نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں بھوک کی شکایت کرتے ہوئے اپنے اپنے پیٹ پر باندھے ہوئے پتھر دکھائے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا اٹھایا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دو پتھر باندھ رکھے تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی تمام ظاہری زندگی حالت فقر میں بسر کی۔ کسی شخصیت کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے وہ دوسروں کو ترجیح دے اور اپنی ذات کو دنیوی زینت و آرائش سے مبرا کرلے ۔اگر کوئی انسان حالت مجبوری میں فقر اختیار کرتا ہے تو اس میں کمال والا پہلو نہیں ہوسکتا ۔ یہاں کتاب و سنت کے چند واضح ارشادات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دونوں جہاں کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جیسا غنی کائنات میں کوئی نہیں۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سب سے بڑے بے نیاز ہیں

قرآن مجید نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حالت فقر کو حالت غنا سے تبدیل فرمادیاہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَوَجَدَك عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى828
اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو (جوّاد و کریم) پایا تو اس نے (آپ کے ذریعے) محتاجوں کو غنی کر دیا۔ان دونوں تراجم میں یَتِیماً کو فَاٰوٰی کا، ضآلًّا کو فَھَدٰی کا اور عائِلًا کو فَاَغنٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی) ۔

جس ذات کو اﷲ تعالیٰ غنی فرمادے وہاں فقر کا کوئی تصور نہیں رہ سکتا۔ حضرت ابوامامہ Radi Allah Anho سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب کریم نے فرمایا:اے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاگر آپ چاہیں تو آپ کے لیے میں مکہ کی تمام زمین سونے کی بنادوں لیکن میں نے عرض کیا :

لا یا رب ولكن اشبع یوما واجوع یوما او نحو ذلك فاذا جعت تضرعت الیك وذكرتك واذا شبعت حمدتك و شكرتك.29
ربِّ کریم میں یہ نہیں چاہتا بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن کھاؤں پس جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری طرف تضرع کروں اور تجھے یاد کروں اور جب میں سیر ہوجاؤں تو تیرا شکر و حمد کروں۔

اسی حوالہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

لو شئت لسارت معى جبال الذھب.30
اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں۔

اسی طرح ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

فواللّٰه لو شئت لاجرى اللّٰه معى جبال الذھب والفضة.31
اﷲ کی قسم! اگر میں چاہوں تو اﷲ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ کردے۔

کتاب وسنت کے ان واضح ارشادات کی روشنی میں ائمہ نے یہ تصریح کی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا فقر اختیاری تھا اضطراری نہیں۔ چنانچہ یحییٰ بن ابوبکر بن محمد عامری Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

ان فقره صلى اللّٰه علیه وسلم كان فقر اختیار لا فقر اضطرار لانه صلى اللّٰه علیه وسلم فتحت علیه الفتوح وجلبت الیه الاموال.32
بلا شبہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا فقر اختیاری تھا نہ کہ فقرِ اضطراری کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر تو تمام خزانوں کے منہ کھول دیے گئے تھے اور اموال کا مالک بنادیا گیا تھا۔

ملا علی قاری Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

اعلم ان فقره صلى اللّٰه علیه وسلم كان اختیاریا لاكرھا واضطراریا.33
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مبارک فقر اختیاری تھا اضطراری نہ تھا۔

شیخ ابراہیم بیجوری Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

اعلم ان ضیق عیشه صلى اللّٰه علیه وسلم لیس اضطرارایا بل كان اختیاریا قد عریضت علیه بطحاء مكة ان تكون ذھبا فاباه.34
واضح رہے کہ تنگی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مجبوری نہ تھی بلکہ یہ اختیاری معاملہ تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر تو اس بات کی پیش کش کی گئی تھی کہ مکہ کی زمین سونے کی بنادی جائے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس سے انکار فرمایا۔

کائنات کے سب سے بڑے انسان حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو حسن بے مثال عطا فرمایا تھا وہیں جسم مبارک میں توازن اور اعتدال میں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamیکتا و منفرد تھے۔ جسمانی اعتدال ایک طرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا معجزہ تھا تو دوسری طرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جسمانی مشقت، محنت، ریاضت اور جدوجہد بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکسی ایک جگہ بیٹھ کر تن کوشی کے ساتھ آرام کرنے کے عادی نہ تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکھانے پینے کی کثرت کو بھی ناپسند فرماتے چہ جائیکہ وہ مرغن و لمحیات سے بھرپور کھانوں کا استعمال فرماتے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم مبارک حد درجہ تناسب اور متوازن اور معتدل تھا جس کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجسمانی طور پر بھی مکمل طور پر چاک و چوبند اور جسمانی قوت و وجاہت کا شاہکار تھے۔


  • 1  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث : 414 ، ج -22، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 155-156
  • 2  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:240
  • 3  ابوبکر محمد بن حسین الآجری ، الشریعۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع ،الریاض، السعودیۃ،1999ء، ص :1520-1521
  • 4  ابوبکر محمد بن عبداﷲ بن ابراہیم البزاز ، کتاب الفوائد (الغیلانیات) ، حدیث : 1138، ج -2 ، مطبوعۃ: دار ابن الجوزی، الریاض ،السعودیۃ، 1997ء، ص:829
  • 5  ابوداؤد سلیمان بن داؤد الطیالسی ، مسند ابی داؤد الطیالسی، حدیث : 1724، ج-3 ، مطبوعۃ: دار ھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،مصر، 1999ء، ص:190
  • 6  علی بن حسن ابن عساکر ، تاریخ دمشق الکبیر ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت،لبنان، 1995ء، ص:361
  • 7  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، ج-7 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان،1988، ص: 11-13
  • 8  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ ، ج-7 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان، 1988، ص:9
  • 9  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،لبنان،1993 ء ، ص:55
  • 10  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،لبنان،1993ء، ص:56
  • 11  محمد بن اسماعیل بخاری ، الادب المفرد ، حدیث :255 ، ج-1، مطبوعۃ:دار البشائر الاسلامیۃ بیروت، لبنان،1989ء، ص:99
  • 12  سلیمان بن الاشعث ابو داؤد السجستانی ، سنن ابی داؤد ، حدیث : 5224، ج-4، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان(لیس التاریخ موجودًا)، ص – 356
  • 13  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث : 556، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق (لیس التاریخ موجودًا)، ص:205
  • 14  احمد بن محمد بن زیاد المعروف بابن الاعرابی ،القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الاعرابی ، حدیث: 23 ، مطبوعۃ: مکتبۃ القرآن ،القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 53-54
  • 15  محمد بن عبداﷲابوعبداﷲالحاکم نیسابوری،مستدرک علی الصحیحین، حدیث :5262، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان،1990ء،ص:327
  • 16  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ،سنن الکبریٰ ، حدیث :13586 ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ، 2003ء، ص:164
  • 17  ابو محمد الحسین بن مسعود بن محمد الشافعی البغوی ،مصابیح السنۃ للبغوی ، حدیث : 3629، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفۃ ،بیروت،لبنان، 1987 ء،ص:283
  • 18  ابو السعادات مبارک بن محمد ابن اثیر جزری ،جامع الاصول فی احادیث الرسول، حدیث :8525، ج -11، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 19  شیخ ولی الدین الخطیب التبریزی ،مشکاۃ المصابیح، حدیث :4685، ج -3 ، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:1328
  • 20  ابو الفداء اسماعیل ابن کثیرالدمشقی ، جامع المسانید والسنن لابن کثیر ، حدیث : 467 ، ج -1، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت، لبنان، 1998ء، ص:289
  • 21  عبد الملک بن ہشام معافری، سیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی ،مصر، 1955ء، ص:626
  • 22  عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی ،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ج-5 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:84
  • 23  ابو نعیم احمد اصفہانی ،حلیۃ الاولیاء ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی ، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:73
  • 24  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، ج -2،حدیث: 1055، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:730
  • 25  محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح البخاری ج -5 ،حدیث : 6089 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2371
  • 26  اسی طرح ایک اور روایت میں مروی ہے: عن عائشۃ قالت: ما اکل آل محمدصلى اللّٰه علیه وسلم کلتین فی یوم الا احداھما تمراترجمہ: "ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کی آل نے کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا نہیں کھایا مگر ان دو کھانوں میں سے ایک کھانا کھجوریں ہوتی تھیں۔" (محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،ج -5 ، حدیث: 6090، مطبوعۃ: دار ابن کثیر بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:2371)امام بخاری ہی روایت کرتے ہیں:عائشۃ قالت: کان یاتی علینا الشھر ما نوقد فیہ نارا انما ھو التمر والماء الا ان نوتی باللحیم عن ترجمہ: "ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے اوپر ایسا مہینہ آتا جس میں ہم آگ نہیں جلاتے تھے اس مہینہ میں صرف کھجور اور پانی ہوتا تھا یااس کے کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجائے۔"¬(محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری ، ج-5 ، حدیث :6094 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر ، بیروت،لبنان (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2372)اسی طرح حضرت نوفل بن ایاس الہذلی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں صحابی رسول حضرت عبد الرحمن بن عوف کی رفاقت وصحبت نصیب ہوئی اور وہ بہت ہی اچھے رفیق تھے ایک دن ہم ان کے گھر بیٹھے تھے کھانے کا وقت ہوگیا اس موقعہ پر جب کھانا لایا گیا تو اس میں روٹی کے ساتھ گوشت بھی تھا کھانا ملاحظہ کرکے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے زار وقطار رونا شروع کردیا میں نے عرض کیا:اےبو محمد آپ کیوں رودئیے؟"فرمانے لگے کہ مجھے یاد آگیا: ہمارے آقا ﷺ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ ﷺ اور آ پﷺ کے خاندان نے کبھی بھی پیٹ سیر کرکے جوکی روٹی بھی نہیں کھائی۔"(محمد بن سعد بصری ، طبقات ابن سعد ، ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:30) سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بیٹھ کر نماز ادا فرمارہے تھے میں نے عرض کیا:یارسول اﷲﷺ اس کا سبب کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا بھوک تومیں بے اختیار روپڑا۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا: مت رو اے ابوہریرہ جو شخص رضائے الٰہی کی خاطر دنیا میں بھوکا رہے وہ قیامت کی سختی سے محفوظ ہوجائے گا۔ (ابوبکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد، ج- 4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی ، بیروت ، لبنان،2002ء، ص:260)
  • 27  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ ،حدیث : 134، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان،1988، ص:65
  • 28  القرآن، سورہ الضحیٰ 93 : 08
  • 29  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 22910، ج- 36، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء، ص:528
  • 30  ابو یعلی احمد بن علی مثنی موصلی، مسند ابو یعلی ، حدیث: 4920 ، ج -8 ، مطبوعۃ: دار المامون للتراث ،دمشق، السوریۃ، 1984ء، ص:318
  • 31  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، شعب الایمان ، حدیث 1395، ج -3 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض،السعودیۃ، 2003ء، ص:61
  • 32  یحییٰ بن ابوبکر بن محمد العامری ، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل فی تلخیص المعجزات والسیر والشمائل ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:291
  • 33  نور الدین بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2 ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:185
  • 34  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:192

Powered by Netsol Online