encyclopedia

آپ ﷺکے بول و برازمبارک

Published on: 27-Dec-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 62، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 951-961)

جس طرح انفس (سب سے بڑھ کر نفیس) الطف (سب سے بڑھ کر لطیف) اور انور (سب سے بڑھ کر نورانی) ہونے کے باعث جسم نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے برآمد ہونے والے دیگر فضلات خوشبودار اور متبرک تھے اسی طرح اس جسم اقدس سے برآمد ہونے والا بول (Urine)مبارک بھی خوشبودار اور متبرک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بول مبارک پی لیا اور انہیں احساس تک نہ ہوا۔کیونکہ اس میں عام جسموں کی طرح کدورت و کثافت کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔

بول مبارک کو نوش فرمانے والی صحابیات

بعض خوش نصیب خواتین نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بول مبارک کو نوش فرمایا۔ جس پر انہیں بارگاہ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسےامراض سے شفایابی اور جہنم سے آزادی کے پروانے ملے۔ ان مقدس خواتین کے اسماء گرامی یہ ہیں۔

  1. بی بی اُم اَیمنRadi Allah Anha
  2. بی بی اُم یوسفRadi Allah Anha

چنانچہ اس حوا لہ سے حضرت ام ایمن Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں :

قام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من اللیل الى فخارة من جانب البیت فبال فیھا فقمت من اللیل وانا عطشى فشربت من فى الفخارة وانا لا اشعر فلما اصبح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال یا ام ایمن قومى الى تلك الفخارة فاھریقى ما فیھا قلت قد واللّٰه شربت ما فیھا قال فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذة ثم قال اما انك لا یفجع بطنك بعده ابدا.1
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے گھر کے ایک جانب مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رات کو اٹھ کر اس میں بول مبارک کرتے تھے۔ ایک رات میں اٹھی مجھے پیاس لگ رہی تھی میں نے اس برتن سے پی لیا اور مجھے پتا نہیں چلا (کہ یہ بول مبارک ہے) جب صبح ہوئی تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا اے ام ایمن! اس مٹی کے برتن کو اٹھاؤ اور اس میں جو کچھ ہے اس کو پھینک دو میں نے کہا اﷲ کی قسم! اس میں جو کچھ ہے اس کو میں نے پی لیا تو رسول اﷲSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہنسے حتیٰ کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا سنو! اس کے بعد کبھی تمہارے پیٹ میں درد نہیں ہوگا۔

اسی طرح امام برہان الدین حلبی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

فضحك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذه ثم قال لا یجفر بطنك بعده ابدا وفى لفظ لا تلج النار بطنك وفى اخرى لا تشتكى بطنك.2
پس نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہنس پڑے یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نواجذ (آخری داڑھیں) مبارک ظاہر ہوگئیں۔ پھر فرمایا اس کے بعد تجھے پیٹ کی بیماری نہیں ہوگی۔ ایک اور روایت میں ہے تیرے پیٹ میں آگ داخل نہیں ہوگی۔ اور ایک روایت میں ہے تجھے پیٹ کی شکایت نہیں ہوگی۔

علامہ خفاجیRehmatullah Alaih"لن تشتکی" الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

اى لا یصیب بطنك وجع بعد الیوم لبركة ما دخل فى جوفھا.3
یعنی اُس چیز کی برکت سے جو تمہارے پیٹ میں داخل ہوگئی آج کے بعد تمہارے پیٹ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔

امام زرقانی Rehmatullah Alaihاس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

انا لا اشعر انه بول لطیب رائحته.4
اس کی پاکیزہ خوشبو کی وجہ سے میں نہ جان سکی کہ وہ بول مبارک ہے۔

اسی طرح کا دوسرا واقعہ برکہ الحبشیہ کا بھی ہے۔چنانچہ امام ابن حجرRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

كانت مع ام حبیبة بنت ابى سفیان تخدمھا ھناك ثم قدمت معھا وھى التى شربت بول النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فیما جاء فى حدیث امیمة بنت رقیقة.5
وہ( برکہ الحبشیہ) اُم حبیبہ بنت ابو سفیان کے ساتھ تھیں، وہاں ان کی خدمت کرتی تھیں، انہی کے ساتھ واپس آئیں، یہ وہی ہیں جنہوں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بول مبارک پی لیا تھا جیسا کہ حدیث اُمیمہ بنت رُقیقہ کی حدیث میں آتا ہے۔

جب حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پیالے کو طلب فرمایا تو اس (میں بول مبارک) کو نہ پایا۔ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے عرض کیا گیااسے بی بی برکۃ Radi Allah Anhaنے پی لیا ہے تو حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

لقد احتظرت من النار بحظار.6
یقینا اس نے ایک مضبوط حصار کے ساتھ دوزخ سے اپنا بچاؤ کرلیا ہے۔

اسی طرح حضرت حکیمہ بنت امیمہ بنت رفیقہ اپنی ماںRadi Allah Anha سے روایت کرتی ہیں :

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قدح من عیدان یبول فیه ویضعه تحت سریره فقام فطلب فلم یجده فسال فقال این القدح قالوا شربته برة خادم ام سلمة التى قدمت معھا من ارض الحبشة فقال النبى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار بھیسة.7
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبول مبارک کرتے تھے اور اس کو اپنے تخت کے نیچے رکھتے تھے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس میں بول مبارک کیا پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآئے تو دیکھا کہ اس پیالہ میں کوئی چیز نہیں تھی ایک خاتون جن کا نام برکہ تھا جو حضرت ام حبیبہRadi Allah Anha کی خدمت کرتی تھی اور ان کے ساتھ سرزمین حبشہ سے آئی تھی آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان سے پوچھا وہ بول مبارک کہاں ہے جو اس پیالہ میں تھا؟ انہوں نے کہا میں نے اس کو پی لیا آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا تم پر دوزخ کی آگ منع کردی گئی ہے۔

ایک اور روایت میں حضرت حکیمہ بنت امیمہRadi Allah Anha اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں :

ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم كان یبول فى قدح من عبدان ویوضع تحت سریره فبال فیه لیلة فوضع تحت سریره فجاء فاذا القدح لیس فیه شى فقال لامراة یقال لھا بركة رضى اللّٰه تعالى عنھما جاء ت معھا من ارض الحبشة البول الذى كان فى ھذا القدح ما فعل؟ فقالت شربته یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم .8
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam(شب کے وقت) ایک لکڑی کے پیالے میں بول مبارک فرماتے تھے اور اسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی چارپائی کے نیچے رکھ دیا جاتا۔ تو ایک شب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس میں بول مبارک فرمایا پھر اسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی چارپائی کے نیچے رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتشریف لائے تو پیالے میں کوئی چیز نہ تھی۔ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ایک خاتون، جسے "برکۃ"Radi Allah Anha کہا جاتا تھا جو کہ ام حبیبہRadi Allah Anha کی خادمہ تھیں، جو ان کے ہمراہ سرزمین حبشہ سے آئی ہوئی تھیں،ان سے فرمایا اس پیالے میں جو بول تھا کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam! میں نے اسے پی لیا ہے۔

قاضی عیاضRehmatullah Alaih اس پر روشی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

ولم یامر واحدا منھم بغسل فم ولا نھاه عن عود.9
اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان میں سے کسی کو منہ دھونے کا حکم فرمایا اور نہ آئندہ ایسا کرنے سے روکا۔

اس عدمِ ممانعت سے دوباتیں معلوم ہوئیں:

  1. ایک یہ کہ نگاہ نبوت میں یہ ایک جائز عمل تھا۔
  2. دوسری یہ کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بول وبراز اور تمام فضلات طاہر ہیں، اگر غیر طاہر ہوتے تو انہیں پینا حرام ہوتا اور پینے کے بعد منہ وغیرہ دھونا واجب ہوتا۔

امام خفاجیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

ولو كان نجسا حرام تناوله ووجب تطھیر محله.10
اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بول (وغیرہ) نجس ہوتا تو اس کا استعمال کرنا حرام ہوتا اور اس جگہ (یعنی منہ) کا دھونا واجب ہوتا۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بول مبارک پاک و صاف تھا اور اس سے بھی دوسری رتوبتوں کی طرح مرضوں سے شفایابی کا حصول ہوا ہے۔

شرب بول کا واقعہ کتنی مرتبہ ہوا؟

مذکور ہ بالا دو حدیثوں میں مذکورہ دو قصے الگ الگ دو خواتین کے ہیں۔ بعض علماء کرام نے ان دونوں قصوں کو ایک ہی خاتون کا واقعہ سمجھا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے ۔دراصل یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوا کہ جن دو خواتین نے بول مبارک پیا ہے، وہ آپس میں نام شریک ہیں دونوں کا نام برکۃ ہے مگر ان میں فرق کرنا مشکل نہیں، اس لیے کہ ان کی کنیت الگ الگ ہے ایک کی کنیت اُم ایمن ہے اور دوسری کی کنیت اُم یوسف، اور اُم یوسف ہی برکۃ حبشیہ ہیں نہ کہ اُم ایمن۔چنانچہ اس حوالہ سےامام ابن حجر Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

دو عورتوں نے لکڑی کے پیالہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بول مبارک پیا ایک کی کنیت ام ایمن تھی اور دوسری کی کنیت ام یوسف تھی جب ام یوسف نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بول مبارک پی لیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا تم صحت مندر ہوگی سو وہ تاحیات بیمار نہیں ہوئیں۔

قال صحة یا ام یوسف وكانت تكنى ام یوسف فما مرضت قط حتى كان مرضھا الذى ماتت فیه.11
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا اےام یوسف تم اب صحت مند رہوگی ۔ان کی کنیت ام یوسف تھی ۔اس بول کے پینے کی برکت کی وجہ سے وہ کبھی بیمار نہیں ہوئیں سوائے اس مرض الموت کے جس میں ان کا انتقال ہوا۔

اسی طرح کاایک اور واقعہ حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے غسل کے مستعمل پانی کے بارے میں بھی حدیث میں آتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب حضرت ابو رافعRadi Allah Anho کی بیوی حضرت سلمیٰ Radi Allah Anha نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے غسل کے مستعمل پانی سے کچھ پی لیا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

اذھبى فقد حرمك اللّٰه بذلك على النار.12
اﷲ نے تیرے جسم پر آگ کو حرام کردیا ہے۔

ان مذکورہ بالا روایات سے اس بات کی واضح نشاندہی ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بول مبارک ہر قسم کی کثافت و گراوٹ سے منزہ تھا۔نہ صرف منزہ تھا بلکہ جنہوں نے اس کو پیا ان کے لیے بھی متبرک ثابت ہوا۔

برازمبارک

انسان جن اشیاء کو استعمال کرتا ہے مثلاً گوشت، سبزی، پھل، کھانا، پانی وغیرہ تمام کی تمام پاکیزہ اور خوشبو دارہوتی ہیں مگر جب ان اشیاء کو انسانی جسم کی صحبت میسر آتی ہے تو اس کی کثافت کی وجہ سے ان میں تعفن اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور اتنا فرق واقع ہوچکا ہوتا ہے کہ وہی اشیاء جو پہلے پسندیدہ اور مرغوب تھیں اب قابل نفرت وکراہت ہوچکی ہوتی ہیں اور تمام کی تمام انسانی جسم سے ناپاک فضلہ کی صورت میں خارج ہوتی ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک جسم کو اتنا مقدس ومطہر، پاکیزہ، خوشبودار اور لطیف بنایا کہ اتنی لطافت ملائکہ کو بھی (جو نورانی مخلوق ہیں) میسر نہیں تھی چنانچہ جب یہی اشیاء آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کی صحبت میں رہنے کے بعد بصورت فضلہ خارج ہوتیں تو بجائے بدبو پیدا ہونے کے ان میں پہلے سے بھی زیادہ مہک اور خوشبو پیدا ہوچکی ہوتی۔ ایسی مہک جس کا مقابلہ کوئی دوسری خوشبو نہ کرپاتی۔ جس زمین کے ٹکڑے کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس فضلہ کے لیے منتخب فرماتے وہ اسے نگل لیتا اور وہاں سوائے خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوتا۔

فضلات زمین میں غائب ہوجاتے اور زمین معطّر ہوجاتی

چنانچہ اس حوالہ سے کتب سیر میں کئی روایا ت منقول ہیں۔انہی میں سے ایک روایت ام المومنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anhaسے بھی مروی ہے۔چنانچہ آپ Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں :

دخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لقضاء حاجته فدخلت فلم ار شیئا ووجدت ریح المسك فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انى لم ار شیئا قال ان الارض امرت ان تكیفه منا معاشر الانبیاء.13
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamقضاء حاجت کے لیے (بیت الخلاء میں) گئے پھر میں گئی تو میں نے وہاں جاکر کوئی چیز نہیں دیکھی اور مجھے وہا ں مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں نے وہاں کوئی چیز نہیں دیکھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: بے شک زمین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت سے جو کچھ نکلے اس کو ڈھانپ لے۔

حضرت لیلیٰ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے دریافت کیا یا رسول اﷲ!

انك تدخل الخلاء فاذا خرجت دخلت فى اثرك ما ارى شیئا الا انى اجد رائحة المسك قال انا معاشر الانبیاء تنبت اجسادنا على ارواح اھل الجنة فما خرج منھا من شىء ابتلعته الارض.14
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں پھر جب باہر آتے ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بعد میں داخل ہوتی ہوں تو میں وہاں کوئی چیز نہیں پاتی بجز مشک کی خوشبوکے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا کہ ہم انبیاء Alaihmus Salamہیں ہمارے جسم اہل جنت کی روحوں کی مثل ہیں جو کچھ اُن سے نکلتا ہے زمین اُسے نگل جاتی ہے۔

امام بیہقی نے بھی مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے۔15اس حدیث کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں کہ ہمارے اجسام اہل جنت کی روحوں کی مانند ہیں، یعنی ہمارے ابدان ایسے لطیف ہیں جیسے اہل جنت کی ارواح۔ اسی مذکورہ بالاروایت کی طرح ہی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہےمذکور ہے:

ام المومنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha نے عرض کی یا رسول اﷲSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! آپ بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں لیکن وہاں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فضلات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ماسوا ایک پاکیزہ اور عمدہ خوشبو کے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

یا عائشة اما علمت انا معاشر الانبیاء تنبت اجسامنا على اجساد اھل الجنة فما خرج منا من شىء ابتلعته الارض.16
اے عائشہ کیا تم نہیں جانتیں کہ ہم انبیاء کرامAlaihmus Salam کی جماعت ہیں، ہمارے اجسام اہل جنت کے جسموں کی مانند ہیں لہٰذا ہم سے جو کچھ خارج ہوتا ہے زمین اسے نگل جاتی ہے۔

اس روایت کو ابن سعد نے بھی نقل کیا ہے۔17 الفاظ کے لحاظ سے یہ حدیث سابقہ احادیث سے کچھ مختلف ہے کیونکہ اس میں اجسامِ انبیاءAlaihmus Salamکو اہل جنت کے اجسام کی مانند کہا گیا ہے جبکہ سابقہ احادیث میں روح کی مانند کہا گیا ہے تاہم اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجسامِ انبیاء کرامAlaihmus Salamکی دنیا میں وہ شان ہے جو جنت میں اہل جنت کے اجسام کی ہوگی۔ اہل جنت کی جنت میں کیا شان ہوگی؟اہل جنت خوب کھائیں پئیں گے مگر پیشاب وپاخانہ اور بلغم وتھوک وغیرہ ان کے نہ ہوں گے اور ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کے جسموں کی جو شان ہوگی انبیاء کرام Alaihmus Salam کے جسموں کو وہ دنیا میں حاصل ہے۔فرق یہ ہے کہ جنتیوں کا بلغم اور تھوک نہیں ہوگا اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا لعاب اور بلغم مبارک تھے مگر اس لیے کہ اس سے کھاری کنویں شیریں ہوجائیں، ٹوٹے بازو جڑ جائیں، دکھتی آنکھیں شفاء یاب ہوجائیں ، گلے سڑے جسم تندرست ومعطر ہوجائیں اور تبرکاً صحابۂ کرام اپنے چہروں اور جسم پر مل کر ان سے فیضیاب ہو سکیں۔

حافظ ابوبکر احمد بن علی بغدادی نے "رواۃ مالک" میں اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداﷲ انصاریRadi Allah Anho سے روایت کیا کہ آپ فرماتے ہیں:

رایت من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثلاثة اشیاء لو لم یات بالقرآن لامنت به تصحرنا فى جبانة تنقطع الطرق دونھا فاخذ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الوضوء وراى نخلتین متفرقتین فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یا جابر! اذھب الیھما فقل لھما اجتمعتا فاجتمعتا حتى كانھما اصل واحد فتوضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فبادرته بالماء وقلت لعل اللّٰه ان یطلعنى على ما خرج من جوفه فاكله فرایت الارض بیضاء فقلت یا رسول اللّٰه ! صلى اللّٰه علیه وسلم اما كنت توضات قال بلى ولكنا معشر النبیین امرت الارض ان توارى ما یخرج منا من الغائط والبول ثم افترقت النخلتان فبینا نسیر اذ اقبلت حیة سوداء ثعبان ذكر فوضعت راسھا فى اذن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ووضع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمه على اذنھا فناجاھا ثم لكانما الارض ابتلعتھا فقلت یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم لقد اشفقنا علیك قال ھذا وفد الجن نسوا سورة فارسلوه الى ففتحت علیھم القرآن ثم انتھینا الى قریة فخرج الینا فئام من الناس مع جاریة كانھا فلقة القمر حین تمحى عنه السحاب حسناء مجنونة فقال اھلھا احتسب فیھا یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وقال لجنیھا ویحك! انا محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خل عنھا! فتنقبت واستحیت ورجعت صحیحه.18
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے میں نے تین چیزیں ایسی دیکھی ہیں کہ اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قرآن لے کر نہ آتے تو میں پھر بھی حضور پہ ایمان لے آتا۔ ہم ایک بے درخت، بلند وہموار زمین میں جنگل کی طرف اتنی دور تک چلے گئے کہ راستے اس سے پہلے ہی منقطع ہوجاتے ہیں۔ تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وضو کے لیے پانی لیا، اور دو علیحدہ علیحدہ کھجور کے درخت دیکھے۔ تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اے جابر! ان دونوں کے پاس جاؤ! اور ان سے کہو: دونوں اکٹھے ہوجائیں! چنانچہ وہ دونوں اس طرح اکٹھے ہوگئے گویا کہ ایک ہی تنے کی دوشاخیں ہیں۔ تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وضو فرمانا چاہا، تو میں جلد از جلد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس پانی لے کر حاضر ہوگیا۔ او ر میں نے (دل میں) کہا جو کچھ (فضلہ مبارک) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پیٹ سے نکلا ہو شاید اﷲ تعالیٰ مجھے اس پر مطلع فرمادے تو میں اسے کھالوں۔ تو میں نے (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی منتخب کردہ) زمین کو صاف پایا۔ تو میں نے عرض کیا یارسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے استراحت نہیں فرمائی اور وضو کرلیا) کیا پہلے حضور نے وضو کیا ہوا نہ تھا؟ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا ہاں! کیوں نہیں؟ (ہم نے استراحت19 کرلی ہے) لیکن ہم گروہِ انبیاء Alaihmus Salam(کے پیٹ) سے جوبول و برازنکلے، زمین کو حکم دیا گیا ہے کہ اسے چھپالیا کرے۔ پھر کھجور کے دونوں درخت علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔تو اس اثناء میں کہ ہم چل رہے تھے ناگہاں ایک سیاہ رنگ کا سانپ جو کہ اژدھا تھا، سامنے آگیا۔ تو اس نے اپنا منہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کان مبارک میں رکھ دیا، اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا دہن اقدس اس کے کان پہ رکھ دیا۔ پھر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے ساتھ سرگوشی کی۔ اس کے بعد (سانپ غائب ہوگیا) ایسا معلوم ہوتا تھا گویا زمین نے اسے نگل لیا ہو۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! ہم آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا یہ جنوں کا نمائندہ تھا وہ ایک سورت کو بھول گئے تو انہوں نے اسے میرے پاس بھیجا۔ چنانچہ میں نے انہیں قرآن سکھایا۔ پھر ہم ایک بستی کے پاس پہنچے، تو لوگوں کی ایک جماعت ایک حسین ومجنون نوجوان لڑکی کے ہمراہ ہمارے پاس آئی۔ وہ لڑکی گویا چاند کا ٹکڑا تھی، جس سے بادل چھٹ گئے ہوں۔ تو اس کے گھر والوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسے تندرستی دلاکر ثواب حاصل کیجئے تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دعا فرمائی اور اس کے (اندر اثر انداز ہونے والے) جن سے فرمایا ہلاکت تیرے لیے! میں اﷲ کا رسول محمدSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہوں۔ اسے چھوڑدے! تو لڑکی (فورا تندرست ہوگئی اور اس) نے اپنے اوپر نقاب ڈالا، اور حیا کرنے لگی، اور شفایاب ہوکر واپس لوٹ گئی۔

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباسRadi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں:

لم یحدث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى موضع قط الا ابتلعته الارض.20
جہاں بھی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے استراحت فرمائی زمین نے اُسے نگل لیا۔

امام ابن الملقن Rehmatullah Alaihایک صحابی کا واقعہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

ایک سفر میں میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ تھا، جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے استراحت کا ارادہ فرمایا تو میں غور سے دیکھتا رہا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک مقام میں تشریف لے گئے اور اپنی ضرورت پوری فرمائی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے کہ وہ صحابی بیان کرتے ہیں:

فلم ارله اثر غائط ولا بول ورایت فى ذلك الموضع ثلثة احجار فاخذتھن فى كفى فتعلقت رائحتھن رائحة طیب وعطر.21
تو میں نے وہاں براز و بول کا کوئی اثر نہ دیکھا اور اس مقام میں تین پتھر دیکھے، ان کو میں نے اُٹھالیااور اپنی جیب میں ڈال لیا پس میں نے ان میں عمدہ اور پاکیزہ خوشبو پائی۔

ملا علی قاری Rehmatullah Alaih اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحابی Radi Allah Anho نے کہا:

فاخذتھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسك فكنت اذا جئت یوم الجمعة المسجد اخذتھن فى كمى فتغلب رائحتھن روائح من تطیب وتعطر.22
میں نے ان پتھروں کو اٹھایا تو ان سے مشک کی خوشبو مہک رہی تھی۔ پس جب میں جمعہ کے دن مسجد میں آتا تو انہیں اپنی جیب میں رکھ کر آتا، سو ان پتھروں کی خوشبو دیگر تمام عطروں اور خوشبوؤں پر غالب آجاتی۔

امام زرقانی Rehmatullah Alaih صحابی Radi Allah Anho کے الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

فالمعنى وجدتھن عطرا اى كالعطر مبالغة كان عینھن انقلبت من الحجریة الى العطریة.23
معنی یہ ہے کہ میں نے ان پتھروں کو ایسا خوشبودار پایا جیسا کہ عطر، مبالغۃً یوں کہا جاسکتا ہے کہ گویا پتھر اپنی ماہیت بدل کر عطر کی ماہیت اختیار کرچکے تھے۔

اسی حوالہ سے قاضی عیاضRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

كان اذا اراد ان یتغوط انشقت الارض فابتلعت غائطه وبوله و فاحت لذلك رائحة طیبة صلى اللّٰه علیه وسلم.24
جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam استراحت کا ارادہ فرماتے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بول وبراز کو نگل جاتی اور وہاں سے پاکیزہ خوشبو مہکتی۔

زمین اکر اماً احتراماً آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے برازکو نگل لیتی کہ کسی کی نظر نہ پڑے۔اسی طرح آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بول و براز کو پی لیا گیالیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےبول مبارک میں بو نہیں ہوتی تھی، اسی وجہ سے تو خادمہ نے پانی سمجھ کر پی لیا اور احساس تک نہ ہوا اور پوچھنے پر کہنے لگی بول کہاں تھا وہ تو پانی تھا۔ یہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خصوصیات تھی۔ اسی وجہ سے بعض علماء نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بول مبارک یا براز کو پاک و طاہر تسلیم کیا ہے ۔25

متذکرہ بالا تمام روایا ت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضلاتِ مبارکہ پاک و صاف و شفاف تھے۔اس سے بڑھ کر وہ امراض کے لیے اکسیر بھی تھے اور جب ان کا جسدِ اقدس سے اخراج ہوتاتو ایک بھینی ومہکی خوشبو فضاء میں بکھرجاتی اور یہ بتا جاتی کہ یہ تمام کا تما م کرشمہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی وجہ سے ہے۔


  • 1  ابو عبداللہ محمد بن عبداﷲ الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 6912، ج- 4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:70
  • 2  برھان الدین علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:319
  • 3  شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح الشفاء القاضی عیاض، ج- 1، مطبوعۃ: المطبعۃ، الازھریۃ، مصر، 1327ھ، ص:360
  • 4  ابو عبدﷲ محمد بن عبد الباقی، شرح الزرقانی علی المواھب، ج- 5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:549
  • 5  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث: 10922، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:47
  • 6  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، ج-6، حدیث: 7517، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1998ء، ص:3263
  • 7  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 527، ج- 24، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص :205-206
  • 8  ابو عمر یوسف بن عبد اﷲ ابن عبد البر مالکی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج -4، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:251
  • 9  قاضی عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، اُردن ، 1407ھ، ص:157
  • 10  شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح الشفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ: المطبعۃ الازھریۃ ، مصر، 1327ھ، ص:361
  • 11  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، تلخیص الحبیر، حدیث: 19، ج-1 ،مطبوعۃ: المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:32
  • 12  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، ج- 9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:92
  • 13  ابو عبداللہ محمد بن عبداﷲ الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 6950، ج- 4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:81
  • 14  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث:11733، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415ء، ص:308
  • 15  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-6 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:70
  • 16  )احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، 1971ء، ص:300
  • 17  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء،ص:135
  • 18  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:50
  • 19  استراحت کا لفظی معنی ہے آرام چاہنا چونکہ انسان قضائے حاجت کر کے آرام پاتا ہے اسی لیے یہ لفظ اس مفہوم کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ پاسِ ادب کا تقاضہ یہی ہے۔(ادارہ)
  • 20  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاباحوال المصطفیٰﷺ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1408ھ، ص:488
  • 21  ابن الملقن سراج الدین ابو حفص شافعی، غایۃ السول فی خصائص الرسول ﷺ، مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:300-301
  • 22  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا ،ج-1، مطبوعۃ: دا ر الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص:170
  • 23  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی ، شرح الزرقانی علی المواھب، ج-5، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:542
  • 24  عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج- 1،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، اردن، 1407ھ، ص:154-155
  • 25  مفتی ارشاد احمد قاسمی، شمائل کبریٰ، مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی ،پاکستان، 2003ء،ص:88-92

Powered by Netsol Online