Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکے بول و برازمبارک

Published on: 27-Dec-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 62، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 951-961)

جس طرح انفس (سب سے بڑھ کر نفیس) الطف (سب سے بڑھ کر لطیف) اور انور (سب سے بڑھ کر نورانی) ہونے کے باعث جسم نبوی sym-1 سے برآمد ہونے والے دیگر فضلات خوشبودار اور متبرک تھے اسی طرح اس جسم اقدس سے برآمد ہونے والا بول (Urine)مبارک بھی خوشبودار اور متبرک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم sym-1 کا بول مبارک پی لیا اور انہیں احساس تک نہ ہوا۔کیونکہ اس میں عام جسموں کی طرح کدورت و کثافت کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔

بول مبارک کو نوش فرمانے والی صحابیات

بعض خوش نصیب خواتین نے رسول اکرم sym-1کے بول مبارک کو نوش فرمایا۔ جس پر انہیں بارگاہ نبوی sym-1سےامراض سے شفایابی اور جہنم سے آزادی کے پروانے ملے۔ ان مقدس خواتین کے اسماء گرامی یہ ہیں۔

  1. بی بی اُم اَیمنsym-6
  2. بی بی اُم یوسفsym-6

چنانچہ اس حوا لہ سے حضرت ام ایمن sym-6بیان کرتی ہیں :

قام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من اللیل الى فخارة من جانب البیت فبال فیھا فقمت من اللیل وانا عطشى فشربت من فى الفخارة وانا لا اشعر فلما اصبح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال یا ام ایمن قومى الى تلك الفخارة فاھریقى ما فیھا قلت قد واللّٰه شربت ما فیھا قال فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذة ثم قال اما انك لا یفجع بطنك بعده ابدا.1
رسول اﷲ sym-1نے گھر کے ایک جانب مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اورآپ sym-1 رات کو اٹھ کر اس میں بول مبارک کرتے تھے۔ ایک رات میں اٹھی مجھے پیاس لگ رہی تھی میں نے اس برتن سے پی لیا اور مجھے پتا نہیں چلا (کہ یہ بول مبارک ہے) جب صبح ہوئی تو نبی کریم sym-1نے فرمایا اے ام ایمن! اس مٹی کے برتن کو اٹھاؤ اور اس میں جو کچھ ہے اس کو پھینک دو میں نے کہا اﷲ کی قسم! اس میں جو کچھ ہے اس کو میں نے پی لیا تو رسول اﷲsym-1ہنسے حتیٰ کہ آپsym-1 کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں پھر آپ sym-1نے فرمایا سنو! اس کے بعد کبھی تمہارے پیٹ میں درد نہیں ہوگا۔

اسی طرح امام برہان الدین حلبی sym-4فرماتے ہیں:

فضحك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذه ثم قال لا یجفر بطنك بعده ابدا وفى لفظ لا تلج النار بطنك وفى اخرى لا تشتكى بطنك.2
پس نبی کریم sym-1ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ sym-1کی نواجذ (آخری داڑھیں) مبارک ظاہر ہوگئیں۔ پھر فرمایا اس کے بعد تجھے پیٹ کی بیماری نہیں ہوگی۔ ایک اور روایت میں ہے تیرے پیٹ میں آگ داخل نہیں ہوگی۔ اور ایک روایت میں ہے تجھے پیٹ کی شکایت نہیں ہوگی۔

علامہ خفاجیsym-4"لن تشتکی" الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

اى لا یصیب بطنك وجع بعد الیوم لبركة ما دخل فى جوفھا.3
یعنی اُس چیز کی برکت سے جو تمہارے پیٹ میں داخل ہوگئی آج کے بعد تمہارے پیٹ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔

امام زرقانی sym-4اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

انا لا اشعر انه بول لطیب رائحته.4
اس کی پاکیزہ خوشبو کی وجہ سے میں نہ جان سکی کہ وہ بول مبارک ہے۔

اسی طرح کا دوسرا واقعہ برکہ الحبشیہ کا بھی ہے۔چنانچہ امام ابن حجرsym-4 فرماتے ہیں:

كانت مع ام حبیبة بنت ابى سفیان تخدمھا ھناك ثم قدمت معھا وھى التى شربت بول النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فیما جاء فى حدیث امیمة بنت رقیقة.5
وہ( برکہ الحبشیہ) اُم حبیبہ بنت ابو سفیان کے ساتھ تھیں، وہاں ان کی خدمت کرتی تھیں، انہی کے ساتھ واپس آئیں، یہ وہی ہیں جنہوں نے نبی کریم sym-1کا بول مبارک پی لیا تھا جیسا کہ حدیث اُمیمہ بنت رُقیقہ کی حدیث میں آتا ہے۔

جب حضور نبی کریم sym-1نے پیالے کو طلب فرمایا تو اس (میں بول مبارک) کو نہ پایا۔ تو آپ sym-1سے عرض کیا گیااسے بی بی برکۃ sym-6نے پی لیا ہے تو حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا:

لقد احتظرت من النار بحظار.6
یقینا اس نے ایک مضبوط حصار کے ساتھ دوزخ سے اپنا بچاؤ کرلیا ہے۔

اسی طرح حضرت حکیمہ بنت امیمہ بنت رفیقہ اپنی ماںsym-6 سے روایت کرتی ہیں :

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قدح من عیدان یبول فیه ویضعه تحت سریره فقام فطلب فلم یجده فسال فقال این القدح قالوا شربته برة خادم ام سلمة التى قدمت معھا من ارض الحبشة فقال النبى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار بھیسة.7
نبی کریم sym-1کے پاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا جس میں آپ sym-1بول مبارک کرتے تھے اور اس کو اپنے تخت کے نیچے رکھتے تھے۔ آپsym-1 نے اس میں بول مبارک کیا پھر آپ sym-1آئے تو دیکھا کہ اس پیالہ میں کوئی چیز نہیں تھی ایک خاتون جن کا نام برکہ تھا جو حضرت ام حبیبہsym-6 کی خدمت کرتی تھی اور ان کے ساتھ سرزمین حبشہ سے آئی تھی آپsym-1نے ان سے پوچھا وہ بول مبارک کہاں ہے جو اس پیالہ میں تھا؟ انہوں نے کہا میں نے اس کو پی لیا آپsym-1نے فرمایا تم پر دوزخ کی آگ منع کردی گئی ہے۔

ایک اور روایت میں حضرت حکیمہ بنت امیمہsym-6 اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں :

ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم كان یبول فى قدح من عبدان ویوضع تحت سریره فبال فیه لیلة فوضع تحت سریره فجاء فاذا القدح لیس فیه شى فقال لامراة یقال لھا بركة رضى اللّٰه تعالى عنھما جاء ت معھا من ارض الحبشة البول الذى كان فى ھذا القدح ما فعل؟ فقالت شربته یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم .8
نبی کریم sym-1(شب کے وقت) ایک لکڑی کے پیالے میں بول مبارک فرماتے تھے اور اسے آپ sym-1کی چارپائی کے نیچے رکھ دیا جاتا۔ تو ایک شب آپ sym-1نے اس میں بول مبارک فرمایا پھر اسے آپ sym-1کی چارپائی کے نیچے رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں آپ sym-1تشریف لائے تو پیالے میں کوئی چیز نہ تھی۔ تو آپ sym-1نے ایک خاتون، جسے "برکۃ"sym-6 کہا جاتا تھا جو کہ ام حبیبہsym-6 کی خادمہ تھیں، جو ان کے ہمراہ سرزمین حبشہ سے آئی ہوئی تھیں،ان سے فرمایا اس پیالے میں جو بول تھا کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! sym-1! میں نے اسے پی لیا ہے۔

قاضی عیاضsym-4 اس پر روشی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

ولم یامر واحدا منھم بغسل فم ولا نھاه عن عود.9
اور حضور sym-1نے ان میں سے کسی کو منہ دھونے کا حکم فرمایا اور نہ آئندہ ایسا کرنے سے روکا۔

اس عدمِ ممانعت سے دوباتیں معلوم ہوئیں:

  1. ایک یہ کہ نگاہ نبوت میں یہ ایک جائز عمل تھا۔
  2. دوسری یہ کہ حضور sym-1کے بول وبراز اور تمام فضلات طاہر ہیں، اگر غیر طاہر ہوتے تو انہیں پینا حرام ہوتا اور پینے کے بعد منہ وغیرہ دھونا واجب ہوتا۔

امام خفاجیsym-4 لکھتے ہیں:

ولو كان نجسا حرام تناوله ووجب تطھیر محله.10
اگر آپ sym-1کا بول (وغیرہ) نجس ہوتا تو اس کا استعمال کرنا حرام ہوتا اور اس جگہ (یعنی منہ) کا دھونا واجب ہوتا۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کا بول مبارک پاک و صاف تھا اور اس سے بھی دوسری رتوبتوں کی طرح مرضوں سے شفایابی کا حصول ہوا ہے۔

شرب بول کا واقعہ کتنی مرتبہ ہوا؟

مذکور ہ بالا دو حدیثوں میں مذکورہ دو قصے الگ الگ دو خواتین کے ہیں۔ بعض علماء کرام نے ان دونوں قصوں کو ایک ہی خاتون کا واقعہ سمجھا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے ۔دراصل یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوا کہ جن دو خواتین نے بول مبارک پیا ہے، وہ آپس میں نام شریک ہیں دونوں کا نام برکۃ ہے مگر ان میں فرق کرنا مشکل نہیں، اس لیے کہ ان کی کنیت الگ الگ ہے ایک کی کنیت اُم ایمن ہے اور دوسری کی کنیت اُم یوسف، اور اُم یوسف ہی برکۃ حبشیہ ہیں نہ کہ اُم ایمن۔چنانچہ اس حوالہ سےامام ابن حجر sym-4فرماتے ہیں:

دو عورتوں نے لکڑی کے پیالہ سے آپ sym-1 کا بول مبارک پیا ایک کی کنیت ام ایمن تھی اور دوسری کی کنیت ام یوسف تھی جب ام یوسف نے آپ sym-1کا بول مبارک پی لیا تو آپ sym-1نے فرمایا تم صحت مندر ہوگی سو وہ تاحیات بیمار نہیں ہوئیں۔

قال صحة یا ام یوسف وكانت تكنى ام یوسف فما مرضت قط حتى كان مرضھا الذى ماتت فیه.11
نبی کریم sym-1 نے فرمایا اےام یوسف تم اب صحت مند رہوگی ۔ان کی کنیت ام یوسف تھی ۔اس بول کے پینے کی برکت کی وجہ سے وہ کبھی بیمار نہیں ہوئیں سوائے اس مرض الموت کے جس میں ان کا انتقال ہوا۔

اسی طرح کاایک اور واقعہ حضور اکرم sym-1 کے غسل کے مستعمل پانی کے بارے میں بھی حدیث میں آتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب حضرت ابو رافعsym-5 کی بیوی حضرت سلمیٰ sym-6 نے نبی کریم sym-1 کے غسل کے مستعمل پانی سے کچھ پی لیا تو حضور sym-1 نے فرمایا:

اذھبى فقد حرمك اللّٰه بذلك على النار.12
اﷲ نے تیرے جسم پر آگ کو حرام کردیا ہے۔

ان مذکورہ بالا روایات سے اس بات کی واضح نشاندہی ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم sym-1 کا بول مبارک ہر قسم کی کثافت و گراوٹ سے منزہ تھا۔نہ صرف منزہ تھا بلکہ جنہوں نے اس کو پیا ان کے لیے بھی متبرک ثابت ہوا۔

برازمبارک

انسان جن اشیاء کو استعمال کرتا ہے مثلاً گوشت، سبزی، پھل، کھانا، پانی وغیرہ تمام کی تمام پاکیزہ اور خوشبو دارہوتی ہیں مگر جب ان اشیاء کو انسانی جسم کی صحبت میسر آتی ہے تو اس کی کثافت کی وجہ سے ان میں تعفن اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور اتنا فرق واقع ہوچکا ہوتا ہے کہ وہی اشیاء جو پہلے پسندیدہ اور مرغوب تھیں اب قابل نفرت وکراہت ہوچکی ہوتی ہیں اور تمام کی تمام انسانی جسم سے ناپاک فضلہ کی صورت میں خارج ہوتی ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب sym-1کے مبارک جسم کو اتنا مقدس ومطہر، پاکیزہ، خوشبودار اور لطیف بنایا کہ اتنی لطافت ملائکہ کو بھی (جو نورانی مخلوق ہیں) میسر نہیں تھی چنانچہ جب یہی اشیاء آپ sym-1کے جسم اطہر کی صحبت میں رہنے کے بعد بصورت فضلہ خارج ہوتیں تو بجائے بدبو پیدا ہونے کے ان میں پہلے سے بھی زیادہ مہک اور خوشبو پیدا ہوچکی ہوتی۔ ایسی مہک جس کا مقابلہ کوئی دوسری خوشبو نہ کرپاتی۔ جس زمین کے ٹکڑے کو آپ sym-1اس فضلہ کے لیے منتخب فرماتے وہ اسے نگل لیتا اور وہاں سوائے خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوتا۔

فضلات زمین میں غائب ہوجاتے اور زمین معطّر ہوجاتی

چنانچہ اس حوالہ سے کتب سیر میں کئی روایا ت منقول ہیں۔انہی میں سے ایک روایت ام المومنین عائشہ صدیقہ sym-6سے بھی مروی ہے۔چنانچہ آپ sym-6بیان کرتی ہیں :

دخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لقضاء حاجته فدخلت فلم ار شیئا ووجدت ریح المسك فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انى لم ار شیئا قال ان الارض امرت ان تكیفه منا معاشر الانبیاء.13
رسول اﷲ sym-1قضاء حاجت کے لیے (بیت الخلاء میں) گئے پھر میں گئی تو میں نے وہاں جاکر کوئی چیز نہیں دیکھی اور مجھے وہا ں مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ sym-1 میں نے وہاں کوئی چیز نہیں دیکھی آپ sym-1نے فرمایا: بے شک زمین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت سے جو کچھ نکلے اس کو ڈھانپ لے۔

حضرت لیلیٰ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6 سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے نبی کریم sym-1سے دریافت کیا یا رسول اﷲ!

انك تدخل الخلاء فاذا خرجت دخلت فى اثرك ما ارى شیئا الا انى اجد رائحة المسك قال انا معاشر الانبیاء تنبت اجسادنا على ارواح اھل الجنة فما خرج منھا من شىء ابتلعته الارض.14
آپ sym-1بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں پھر جب باہر آتے ہیں تو آپ sym-1کے بعد میں داخل ہوتی ہوں تو میں وہاں کوئی چیز نہیں پاتی بجز مشک کی خوشبوکے۔ آپ sym-1نے فرمایا کہ ہم انبیاء sym-3ہیں ہمارے جسم اہل جنت کی روحوں کی مثل ہیں جو کچھ اُن سے نکلتا ہے زمین اُسے نگل جاتی ہے۔

امام بیہقی نے بھی مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے۔15اس حدیث کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں کہ ہمارے اجسام اہل جنت کی روحوں کی مانند ہیں، یعنی ہمارے ابدان ایسے لطیف ہیں جیسے اہل جنت کی ارواح۔ اسی مذکورہ بالاروایت کی طرح ہی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہےمذکور ہے:

ام المومنین عائشہ صدیقہsym-6 نے عرض کی یا رسول اﷲsym-1 ! آپ بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں لیکن وہاں آپsym-1 کے فضلات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ماسوا ایک پاکیزہ اور عمدہ خوشبو کے تو آپ sym-1 نے فرمایا:

یا عائشة اما علمت انا معاشر الانبیاء تنبت اجسامنا على اجساد اھل الجنة فما خرج منا من شىء ابتلعته الارض.16
اے عائشہ کیا تم نہیں جانتیں کہ ہم انبیاء کرامsym-3 کی جماعت ہیں، ہمارے اجسام اہل جنت کے جسموں کی مانند ہیں لہٰذا ہم سے جو کچھ خارج ہوتا ہے زمین اسے نگل جاتی ہے۔

اس روایت کو ابن سعد نے بھی نقل کیا ہے۔17 الفاظ کے لحاظ سے یہ حدیث سابقہ احادیث سے کچھ مختلف ہے کیونکہ اس میں اجسامِ انبیاءsym-3کو اہل جنت کے اجسام کی مانند کہا گیا ہے جبکہ سابقہ احادیث میں روح کی مانند کہا گیا ہے تاہم اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجسامِ انبیاء کرامsym-3کی دنیا میں وہ شان ہے جو جنت میں اہل جنت کے اجسام کی ہوگی۔ اہل جنت کی جنت میں کیا شان ہوگی؟اہل جنت خوب کھائیں پئیں گے مگر پیشاب وپاخانہ اور بلغم وتھوک وغیرہ ان کے نہ ہوں گے اور ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کے جسموں کی جو شان ہوگی انبیاء کرام sym-3 کے جسموں کو وہ دنیا میں حاصل ہے۔فرق یہ ہے کہ جنتیوں کا بلغم اور تھوک نہیں ہوگا اور حضور sym-1 کا لعاب اور بلغم مبارک تھے مگر اس لیے کہ اس سے کھاری کنویں شیریں ہوجائیں، ٹوٹے بازو جڑ جائیں، دکھتی آنکھیں شفاء یاب ہوجائیں ، گلے سڑے جسم تندرست ومعطر ہوجائیں اور تبرکاً صحابۂ کرام اپنے چہروں اور جسم پر مل کر ان سے فیضیاب ہو سکیں۔

حافظ ابوبکر احمد بن علی بغدادی نے "رواۃ مالک" میں اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداﷲ انصاریsym-5 سے روایت کیا کہ آپ فرماتے ہیں:

رایت من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثلاثة اشیاء لو لم یات بالقرآن لامنت به تصحرنا فى جبانة تنقطع الطرق دونھا فاخذ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الوضوء وراى نخلتین متفرقتین فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یا جابر! اذھب الیھما فقل لھما اجتمعتا فاجتمعتا حتى كانھما اصل واحد فتوضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فبادرته بالماء وقلت لعل اللّٰه ان یطلعنى على ما خرج من جوفه فاكله فرایت الارض بیضاء فقلت یا رسول اللّٰه ! صلى اللّٰه علیه وسلم اما كنت توضات قال بلى ولكنا معشر النبیین امرت الارض ان توارى ما یخرج منا من الغائط والبول ثم افترقت النخلتان فبینا نسیر اذ اقبلت حیة سوداء ثعبان ذكر فوضعت راسھا فى اذن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ووضع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمه على اذنھا فناجاھا ثم لكانما الارض ابتلعتھا فقلت یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم لقد اشفقنا علیك قال ھذا وفد الجن نسوا سورة فارسلوه الى ففتحت علیھم القرآن ثم انتھینا الى قریة فخرج الینا فئام من الناس مع جاریة كانھا فلقة القمر حین تمحى عنه السحاب حسناء مجنونة فقال اھلھا احتسب فیھا یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وقال لجنیھا ویحك! انا محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خل عنھا! فتنقبت واستحیت ورجعت صحیحه.18
رسول اﷲ sym-1 سے میں نے تین چیزیں ایسی دیکھی ہیں کہ اگر آپ sym-1 قرآن لے کر نہ آتے تو میں پھر بھی حضور پہ ایمان لے آتا۔ ہم ایک بے درخت، بلند وہموار زمین میں جنگل کی طرف اتنی دور تک چلے گئے کہ راستے اس سے پہلے ہی منقطع ہوجاتے ہیں۔ تو رسول اﷲ sym-1 نے وضو کے لیے پانی لیا، اور دو علیحدہ علیحدہ کھجور کے درخت دیکھے۔ تو نبی کریم sym-1 نے فرمایا: اے جابر! ان دونوں کے پاس جاؤ! اور ان سے کہو: دونوں اکٹھے ہوجائیں! چنانچہ وہ دونوں اس طرح اکٹھے ہوگئے گویا کہ ایک ہی تنے کی دوشاخیں ہیں۔ تو رسول اﷲ sym-1 نے وضو فرمانا چاہا، تو میں جلد از جلد آپ sym-1 کے پاس پانی لے کر حاضر ہوگیا۔ او ر میں نے (دل میں) کہا جو کچھ (فضلہ مبارک) آپ sym-1 کے پیٹ سے نکلا ہو شاید اﷲ تعالیٰ مجھے اس پر مطلع فرمادے تو میں اسے کھالوں۔ تو میں نے (آپ sym-1 کی منتخب کردہ) زمین کو صاف پایا۔ تو میں نے عرض کیا یارسول اﷲ sym-1 ! (آپ sym-1 نے استراحت نہیں فرمائی اور وضو کرلیا) کیا پہلے حضور نے وضو کیا ہوا نہ تھا؟ آپsym-1 نے فرمایا ہاں! کیوں نہیں؟ (ہم نے استراحت19 کرلی ہے) لیکن ہم گروہِ انبیاء sym-3(کے پیٹ) سے جوبول و برازنکلے، زمین کو حکم دیا گیا ہے کہ اسے چھپالیا کرے۔ پھر کھجور کے دونوں درخت علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔تو اس اثناء میں کہ ہم چل رہے تھے ناگہاں ایک سیاہ رنگ کا سانپ جو کہ اژدھا تھا، سامنے آگیا۔ تو اس نے اپنا منہ نبی کریم sym-1 کے کان مبارک میں رکھ دیا، اور نبی کریم sym-1 نے اپنا دہن اقدس اس کے کان پہ رکھ دیا۔ پھر حضور sym-1 نے اس کے ساتھ سرگوشی کی۔ اس کے بعد (سانپ غائب ہوگیا) ایسا معلوم ہوتا تھا گویا زمین نے اسے نگل لیا ہو۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ sym-1 ! ہم آپsym-1 کے بارے میں خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ آپ sym-1 نے فرمایا یہ جنوں کا نمائندہ تھا وہ ایک سورت کو بھول گئے تو انہوں نے اسے میرے پاس بھیجا۔ چنانچہ میں نے انہیں قرآن سکھایا۔ پھر ہم ایک بستی کے پاس پہنچے، تو لوگوں کی ایک جماعت ایک حسین ومجنون نوجوان لڑکی کے ہمراہ ہمارے پاس آئی۔ وہ لڑکی گویا چاند کا ٹکڑا تھی، جس سے بادل چھٹ گئے ہوں۔ تو اس کے گھر والوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولsym-1 اسے تندرستی دلاکر ثواب حاصل کیجئے تو رسول اﷲ sym-1 نے دعا فرمائی اور اس کے (اندر اثر انداز ہونے والے) جن سے فرمایا ہلاکت تیرے لیے! میں اﷲ کا رسول محمدsym-1 ہوں۔ اسے چھوڑدے! تو لڑکی (فورا تندرست ہوگئی اور اس) نے اپنے اوپر نقاب ڈالا، اور حیا کرنے لگی، اور شفایاب ہوکر واپس لوٹ گئی۔

اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 بیان کرتے ہیں:

لم یحدث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى موضع قط الا ابتلعته الارض.20
جہاں بھی نبی کریم sym-1 نے استراحت فرمائی زمین نے اُسے نگل لیا۔

امام ابن الملقن sym-4ایک صحابی کا واقعہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

ایک سفر میں میں نبی کریم sym-1 کے ساتھ تھا، جب آپ sym-1 نے استراحت کا ارادہ فرمایا تو میں غور سے دیکھتا رہا، آپ sym-1 ایک مقام میں تشریف لے گئے اور اپنی ضرورت پوری فرمائی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے کہ وہ صحابی بیان کرتے ہیں:

فلم ارله اثر غائط ولا بول ورایت فى ذلك الموضع ثلثة احجار فاخذتھن فى كفى فتعلقت رائحتھن رائحة طیب وعطر.21
تو میں نے وہاں براز و بول کا کوئی اثر نہ دیکھا اور اس مقام میں تین پتھر دیکھے، ان کو میں نے اُٹھالیااور اپنی جیب میں ڈال لیا پس میں نے ان میں عمدہ اور پاکیزہ خوشبو پائی۔

ملا علی قاری sym-4 اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحابی sym-5 نے کہا:

فاخذتھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسك فكنت اذا جئت یوم الجمعة المسجد اخذتھن فى كمى فتغلب رائحتھن روائح من تطیب وتعطر.22
میں نے ان پتھروں کو اٹھایا تو ان سے مشک کی خوشبو مہک رہی تھی۔ پس جب میں جمعہ کے دن مسجد میں آتا تو انہیں اپنی جیب میں رکھ کر آتا، سو ان پتھروں کی خوشبو دیگر تمام عطروں اور خوشبوؤں پر غالب آجاتی۔

امام زرقانی sym-4 صحابی sym-5 کے الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

فالمعنى وجدتھن عطرا اى كالعطر مبالغة كان عینھن انقلبت من الحجریة الى العطریة.23
معنی یہ ہے کہ میں نے ان پتھروں کو ایسا خوشبودار پایا جیسا کہ عطر، مبالغۃً یوں کہا جاسکتا ہے کہ گویا پتھر اپنی ماہیت بدل کر عطر کی ماہیت اختیار کرچکے تھے۔

اسی حوالہ سے قاضی عیاضsym-4 فرماتے ہیں:

كان اذا اراد ان یتغوط انشقت الارض فابتلعت غائطه وبوله و فاحت لذلك رائحة طیبة صلى اللّٰه علیه وسلم.24
جب حضور sym-1 استراحت کا ارادہ فرماتے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ sym-1 کے بول وبراز کو نگل جاتی اور وہاں سے پاکیزہ خوشبو مہکتی۔

زمین اکر اماً احتراماً آپsym-1 کے برازکو نگل لیتی کہ کسی کی نظر نہ پڑے۔اسی طرح آ پ sym-1 کے بول و براز کو پی لیا گیالیکن آپ sym-1 کےبول مبارک میں بو نہیں ہوتی تھی، اسی وجہ سے تو خادمہ نے پانی سمجھ کر پی لیا اور احساس تک نہ ہوا اور پوچھنے پر کہنے لگی بول کہاں تھا وہ تو پانی تھا۔ یہ آپsym-1 کی خصوصیات تھی۔ اسی وجہ سے بعض علماء نے آپsym-1 کے بول مبارک یا براز کو پاک و طاہر تسلیم کیا ہے ۔25

متذکرہ بالا تمام روایا ت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کے فضلاتِ مبارکہ پاک و صاف و شفاف تھے۔اس سے بڑھ کر وہ امراض کے لیے اکسیر بھی تھے اور جب ان کا جسدِ اقدس سے اخراج ہوتاتو ایک بھینی ومہکی خوشبو فضاء میں بکھرجاتی اور یہ بتا جاتی کہ یہ تمام کا تما م کرشمہ رسول اکرم sym-1کی وجہ سے ہے۔


  • 1  ابو عبداللہ محمد بن عبداﷲ الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 6912، ج- 4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:70
  • 2  برھان الدین علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:319
  • 3  شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح الشفاء القاضی عیاض، ج- 1، مطبوعۃ: المطبعۃ، الازھریۃ، مصر، 1327ھ، ص:360
  • 4  ابو عبدﷲ محمد بن عبد الباقی، شرح الزرقانی علی المواھب، ج- 5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:549
  • 5  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث: 10922، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:47
  • 6  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، ج-6، حدیث: 7517، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1998ء، ص:3263
  • 7  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 527، ج- 24، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص :205-206
  • 8  ابو عمر یوسف بن عبد اﷲ ابن عبد البر مالکی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج -4، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:251
  • 9  قاضی عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، اُردن ، 1407ھ، ص:157
  • 10  شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح الشفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ: المطبعۃ الازھریۃ ، مصر، 1327ھ، ص:361
  • 11  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، تلخیص الحبیر، حدیث: 19، ج-1 ،مطبوعۃ: المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:32
  • 12  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، ج- 9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:92
  • 13  ابو عبداللہ محمد بن عبداﷲ الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 6950، ج- 4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:81
  • 14  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث:11733، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415ء، ص:308
  • 15  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-6 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:70
  • 16  )احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، 1971ء، ص:300
  • 17  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء،ص:135
  • 18  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:50
  • 19  استراحت کا لفظی معنی ہے آرام چاہنا چونکہ انسان قضائے حاجت کر کے آرام پاتا ہے اسی لیے یہ لفظ اس مفہوم کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ پاسِ ادب کا تقاضہ یہی ہے۔(ادارہ)
  • 20  ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاباحوال المصطفیٰﷺ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1408ھ، ص:488
  • 21  ابن الملقن سراج الدین ابو حفص شافعی، غایۃ السول فی خصائص الرسول ﷺ، مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:300-301
  • 22  علی بن سلطان القاری، شرح الشفا ،ج-1، مطبوعۃ: دا ر الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص:170
  • 23  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی ، شرح الزرقانی علی المواھب، ج-5، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:542
  • 24  عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج- 1،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، اردن، 1407ھ، ص:154-155
  • 25  مفتی ارشاد احمد قاسمی، شمائل کبریٰ، مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی ،پاکستان، 2003ء،ص:88-92

Powered by Netsol Online