encyclopedia

آپ ﷺ کے فضلاتِ مبارکہ

Published on: 21-Dec-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ سیّد سعد ابراہیم،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 57، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 903-909)

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خلقت اپنی مثال آپ ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس خلقت پر تو خود خالق کائنات کو ناز ہے جس کی دلیل قرآن مجید فرقان حمید کی وہ آیات ِ مبارکہ ہے جس میں رب کائنات نے اپنی قسم ایک منفردانداز میں اٹھائی ہے۔چنانچہ باری تعالیٰ وہ منفرد کلام نازل کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:

فَلَا وَرَبِّك لَا یؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یحَكمُوْك فِیمَا شَجَــرَ بَینَھمْ ثُمَّ لَا یجِدُوْا فِى اَنْفُسِھمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَیسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا651
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

اس کی تفسیر میں امام ماتریدی Rehmatullah Alaih نے کہا ہے کہ اس میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تمام نوع انسانی پر افضلیت کی دلالت موجود ہے کیونکہ اس میں رب کی اضافت صرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف ہے جس سے خصوصیت کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکاشرف معلوم ہوتاہے۔2

بہر کیف اللہ تبارک وتعالی نے خود اپنی قسم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے رب ہونے کے طور پر بیان فرمائی ہے جس سےاس بات کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے کہ خود رب کائنات کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے رب ہونے کا ذکرکرنا کتنا پسندیدہ ہے۔جس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ظاہری وباطنی خلقت عا لمین میں یکتا ومنفرد ہے اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کی ہر چیز بے مثل و ممتاز ہے۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کے فضلات مبارکہ بھی منفرد و جداگانہ طور پر ممتاز ہیں جیساکہ تفصیل آئیندہ سطور میں مذکور ہے۔

صحابۂ کرامRadi Allah Anhum جنہیں اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی صحبت سے مشرف فرمایا، ان کے دیدۂ بیدار اور چشمِ حقیقت کشاء کا فیصلہ ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو کبھی بھی بشریت کے محدود ظاہری پیمانوں سے پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔ صحابۂ کرام Radi Allah Anhumنے اپنے پیارے محبوبSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لعاب مبارک کو جان لیوا بیماریوں اور اذیت ناک آبلوں وغیرہ کے لیےتریاق سمجھا۔ بڑے شوق اور سعادت سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خوشبودار پسینہ کو حاصل کیا اور اپنے مشامِ جاں کو معطر کیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم معطر سے مس ہوکر آنے والے پانی کے لیے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موئے مبارک کو حرزِجاں بنایا،ان سے شفایاب ہوئے اور انہیں توشۂ آخرت قرار دیتے ہوئے اپنی قبروں میں رکھنے کی وصیت کی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضلات طاہرہ کو نوشِ جاں کیا، ان کے طیب و طاہر اور نظیف ولطیف ہونے کا اعلان واقرار بھی کیا اور کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوئے۔

قدرت نے شہد کی مکھی کے جسم میں وہ نظام رکھا ہے کہ جو کچھ اس کے مرحلۂ انہضام سے گزرجاتا ہے انسانیت کے لیے فیض بخش وفیض رساں ہوجاتا ہے! ریشم کی ملائمت اور حسن سے متاثر ہونے والوں نے اور اس کی بے ساختہ تحسین کرنے والوں نے کبھی سوچا ہے کہ قدرت نے اس معجزہ نظامی کا ذریعہ بھی ایک ننھے سے کیڑے کو بنایا ہے اور یہ پھلدار درخت اور قوت بخش خوراک کا ذریعہ بننے والے پودے زمین سے جو کچھ کشید کرتے ہیں اسے خوش ذائقہ اور خوشبودار پھلوں کی صورت میں ہمارے حوالے کردیتے ہیں۔ اگر صحابۂ کرام Radi Allah Anhumکا فہم اﷲ کی سب سے ارفع و اعلیٰ اور طیب و طاہر تخلیق کے جسد ناز سے وابستہ ہونے والے اور مرحلہ انہضام سے گزر کر آنے والے تبرکات کو شہد سے زیادہ شفا بخش، پھلوں سے زیادہ مفید اور پھولوں سے زیادہ سامانِ فرحت وطراوت سمجھتا تھا تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہ تھی۔

قدرت کی کاریگری یہ ہے کہ وہ ایک جنگلی ہر ن کے نافے میں مشک جیسی قیمتی خوشبو پیدا کردیتی ہے جو ایک جنتی خوشبو ہے، جس کے بارے میں حدیث پاک میں آیا ہے:

والمسك اطیب الطیب.3
مشک تمام خوشبوؤں سے بہتر خوشبو ہے۔

علامہ قزوینی، علامہ دمیری اور ابن فضل اﷲ العمریRehmatullah Alaih نے ’’غزال المسک‘‘ یعنی مشک والے ہرن کا مفصل ذکر کیا ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے جسم میں یہ خوشبو کس طرح پیدا ہوتی ہے، او ر وہ کب اور کیسے اس مشک کو باہر نکالتا ہے اور اس کو حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔4الغرض جس رب عزوجل نے اپنی ادنیٰ مخلوقات میں لا محدود خوبیاں رکھی ہیں اور اس کے لیے یہ بعید و مشکل نہیں تھا کہ وہ مصطفی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضلات شریفہ کو طاہر اور خوشبودار بنادے۔

ہرن کے جسم میں مشک پیدا ہونے کی وجہ

جب حضرت آدم Alaihis Salamجنت سے زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے جسم شریف کو انجیر کے پتوں سے چھپایا ہوا تھا، وہ اس وقت بہت اداس تھے، اﷲ تعالیٰ نے کچھ جنگلی ہرنوں کو اُن کی طرف بھیج دیا جو اُن کے ارد گرد منڈلانے لگے۔ وہ ان سے مانوس ہوئے اور کچھ انجیر کے پتے انہیں کھلادئیے۔ جن کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے ان کے جسم میں مشک پیدا کردی اور ان کو ظاہری حسن وجمال بھی عطا فرمایا۔ جب یہ ہرن اس خوشبواور حسن وجمال کے ساتھ واپس جنگل میں پہنچے تو جنگل کے دوسرے ہرن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور وہ بھی دل میں طمع لے کر اگلے روز اُن کے ساتھ حضرت آدمAlaihis Salam کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ان کو بھی چند پتے کھلادئیے مگر ان کے جسم میں خوشبو پیدا نہ ہوئی، البتہ ظاہری حسن و جمال اُنہیں بھی مل گیا۔ اس فرق کو بیان کرتے ہوئےصاحب الکبیر امام رازیRehmatullah Alaih اس کی توضیح میں لکھتے ہیں:

لان الاولى جاء ت الى آدم لاجله لا لاجل الطمع والطائفة الاخرى جاء ت الیه ظاھرا و للطمع باطنا فلا جرم غیر الظاھر دون الباطن.5
اس لیے کہ ہرنوں کا پہلا ٹولہ فقط حضرت آدم Alaihis Salamکیلیے آیا تھا انہیں اپنی کوئی غرض اور لالچ نہ تھی اور دوسرا ٹولہ ظاہراً تو حضرت آدمAlaihis Salam کے لیے آیا تھا، مگر ان کے باطن میں لالچ تھی سو ان کا ظاہر تبدیل ہوا باطن نہیں۔

گویا ہرنوں کے جسم میں خوشبو پیدا ہونے کی وجہ حضرت آدم Alaihis Salamکے معطر ہاتھوں کا پھرنا تھا ورنہ انجیر کے پتے تو اب بھی موجود ہیں لیکن مشک صرف خاص ہرنوں کی اسی نسل کے نافے میں پیدا ہوتا ہے جس نسل کے اوّلین ہرنوں پر حضرت آدم Alaihis Salamنے اپنا دستِ شفقت پھیرا تھا۔

خوشبوئے نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا متعدی ہونا

اگر ایک ہرن کے وجود میں قربِ آدمAlaihis Salam اور پتے کھلانے کی وجہ سے مشک جیسی خوشبو پیدا ہوگئی تھی تو قربِ رب کی وجہ سے کسی انسانی جسم میں بھی خوشبو کا پیدا ہونا بلا شبہ بعید از قیاس نہیں۔پھر قرب بھی وہ کہ جس کے بارے میں خود خالقِ کائنات یوں بیان فرمائے:

فَكانَ قَابَ قَوْسَینِ اَوْ اَدْنٰى96
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)۔

پھر یہ قرب ایک مرتبہ کا نہیں بلکہ فرمایا :

ابیت عند ربى یطعمنى ویسقینى.7
میں اپنے رب کے ہاں رات گذارتا ہوں وہی مجھے کھلاتا او ر پلاتا ہے۔

خود رب تعالیٰ جس کو اپنے قریب کر کے کھلاتا پلاتا ہے، حق یہ ہے کہ اس ہستی کی خوشبو کی شان کما حقہ زبان قلم سے بیان نہیں کی جاسکتی۔ صحابۂ کرام Radi Allah Anhumنے بھی آخر میں یہی کہا تھاکہ ہم نے کسی مشک و عنبر وغیرہ کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خوشبو کی مانند نہیں پایا۔

چنانچہ اس حوالہ سے حضرت انسRadi Allah Anho سے روایت ہے:

ولا شممت مسكة ولا عنبرة اطیب من رائحة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.8
میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے زیادہ خوشبودار نہ کسی عنبر کو سونگھا نہ کسی مشک کو۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسمِ اطہر اس طرح خوشبودار تھا کہ اگر کسی بھی شخص کا جسم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مس ہوجاتا تو اس میں بھی مہک پیدا ہوجاتی مثلاً اگر کسی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی تو اس کے ہاتھوں میں خوشبو ہی خوشبو ہوتی اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کسی کے جسم پر دست شفقت پھیر دیا تو اس کے جسم سے خوشبو آتی رہتی جس بچے کے سر پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیتے وہ اس کی برکت سے آنے والی خوشبو کی وجہ سے اس طرح دوسروں سے ممتاز ہوجاتا کہ ہر کوئی کہتا اس کے سر پر حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہاتھ پھیرا ہے۔اسی حوالہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha بیان فرماتی ہیں:

وكان كفه كف عطار مسھا طیب او لم یمسھا به یصافحه المصافح فیظل یومھا یجد ریحھھا ویضع یده على راس الصبى فیعرف من بین الصبیان من ریحھا من رائحه.9
کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دنیوی خوشبو استعمال فرمائیں یا نہ فرمائیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مبارک ہاتھ ہر وقت اس طرح خوشبو دار رہتے جس طرح کسی عطار کا ہاتھ ہوتا ہے اگر کوئی شخص آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرلیتا تو تمام دن اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی۔ اسی طرح اگر آپ کسی بھی بچے کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیتے تو وہ بچہ اس کی خوشبو سے تمام بچوں سے ممتاز ہوجاتا۔

جنسِ واحد کی ظاہری نفاست ولطافت میں فرق

اﷲ نے مخلوقات میں اپنی قدرت کے عجیب کرشمے رکھے ہیں، کچھ مخلوق کثیف ہے اور کچھ لطیف۔ متضاد الجنس مخلوق کے مابین لطافت وکثافت کی تمیز کچھ مشکل نہیں ہے۔ گائے اور بھینس، بھیڑ اور بکری، اونٹ اور گھوڑے، ہرن اور بھیڑئیے، کوے اور کبوتر، طوطے اور چیل، فاختہ اور ہدہد کی نفاست اور کثافت میں جو فرق ہے اسے کون نہیں سمجھتا؟ لہٰذا متضاد الجنس جانداروں کے فرق سے قطع نظر کرتے ہوئے فقط ہم جنس جانداروں کے درمیان لطیف اور کثیف ہونے کے لحاظ سے جو فرق اس پر بھی انسان اگر غور کرے تو ا س پر کئی اقسام کے فرق بڑے واضح ہوجاتے ہیں۔ بیلوں کی کثرت میں، بھینسوں کے باڑے میں، بکریوں کے ریوڑ میں اور ہرن وغیرہ کے اژدہام میں غور کیا جائے تو ایک ہی جنس کے بعض جانور دوسرے جانوروں سے زیادہ لطیف ونفیس نظر آتے ہیں۔ پرندوں کی ایک جنس کے غول میں غور کیا جائے توتمام پرند ےیکساں لطیف یا یکساں کثیف نہیں ملیں گے۔علی ھذا القیاس غیر ذی روح مخلوق کی طرف دیکھا جائے اور درختوں، پھلوں، پھولوں اور نرم ونازک پودوں میں غور کیا جائےتو سب میں یکساں لطافت نہیں ہوتی۔ پتھروں کو ہی لیجئے! تمام پتھر نفاست و لطافت میں یکساں نہیں ہونگے۔ پہاڑوں کی وادیوں میں دیکھیں! جہاں بہت سے بیکار پتھر نظر آتے ہیں وہاں ایسا انمول ہیرا( Diamond)بھی مل جاتا ہے جس کی لطافت کے سامنے تمام پہاڑی سلسلہ پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔

اسی طرح انسانوں میں بھی نفاست، لطافت، نزاکت، نظافت اور ملائمت کے لحاظ سے بہت واضح اور نہایت نمایاں فرق ہوتا ہے جس کی وضاحت کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی پہچان آپ ہی ہوا کرتا ہے۔

جنسِ واحد کی باطنی لطافت ونفاست میں فرق

بعض لوگوں کا اندرونی نظام اس قدر کثیف ہوتا ہے کہ ان کے اندر کی کثافت کے باعث ان کے ظاہری جسم سے ایک طرح کی عفونت محسوس ہوتی ہے۔ بعض مرتبہ ان کے قریب بیٹھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تمام انسانوں کے پسینے کی بویا بدبو یکساں محسوس نہیں ہوتی۔ بعض اشخاص چند گھنٹے شوز اور موزے استعمال کرنے کے بعد جب اُتارتے ہیں تو بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں اور کچھ اشخاص چند گھنٹے ہی نہیں سارا دن پہننے کے بعد بھی اتارتے ہیں تو کوئی بو محسوس نہیں ہوتی۔آخر یہ واضح فرق کیوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ یہ فرق جسم کی اندرونی لطافت اور کثافت کے باعث ہوتا ہے۔

اچھےاعمال باعث لطافت وخوشبو

انسان جب ریاکاری سے بلند ہوجائےاس کا ظاہر و باطن یکساں ہوجائے اور وہ صدق واخلاص سے اعمالِ صالحہ پر ہمیشگی کرنے لگے تو پہلے آہستہ آہستہ اس سے جسمانی آلائشیں دور ہوتی ہیں ، اس کا قلب صاف اور پاک ہونے لگتا ہے، پھر بتدریج اس کے اندر نورانیت پھیلنے لگتی ہے، حتیٰ کہ اندر کی پاکیزگی اور نورانیت کے آثار بدن پر نمایاں ہونے لگتے ہیں۔

امام مناوی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں کہ پاکیزہ اور زندہ دل سے خوشبوآتی ہے جیسا کہ خبیث اور مردہ دل سے مردار کی بدبو آتی ہے۔ اس لیے کہ دل اور روح کی بدبو ظاہر سے زیادہ باطن سے متصل ہوتی ہے اور پسینہ اس کو باطن سے ظاہر کی طرف لاتا ہے۔ پس اعلیٰ نفس کی خوشبو بہت قوی ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کے پسینہ سے مہکتی ہے حتی کہ جسم پر ظاہر ہوجاتی ہے اور خبیث روح کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔10

جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو مخلوقِ خدا اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیجْعَلُ لَھمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا9611
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو (خدائے) رحمان ان کے لئے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا۔

حضور اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ رب العزت کی جمیع مخلوقات میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسمِ اقدس سے خارج ہونےوالے جمیع فضلاتِ مبارکہ بھی عام انسانوں کے فضلات سے یکسر مختلف وبالا شان والے تھے۔جو چیز بھی آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اقدس کاحصہ رہ کرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے جدا ہوئی اس کی بھی نرالی شان صحابۂ کرام نےبا کثرت ملاحظہ فرمائی جس کی تفصیلات آئندہ سطور میں یکے بعد دیگرے منقول ہیں۔

ایک ضروری تنبیہ

احادیث اور اقوال ائمہ و علماء کو پڑھتے ہوئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذاتِ پاک کی طرف اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسمِ اطہر کی نفاست و لطافت کی طرف مرکوز رکھے تاکہ اسے یہ تمام احادیث مبارکہ اور اقوالِ علماء سمجھ آسکیں۔ اگر قارئین نے اپنی توجہ اپنے عام جسم اور اس کی کثافت وکدورت کی طرف مرکوز رکھی اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسمِ اطہر کو اپنے جسموں پر قیاس کرلیا تو انہیں یہ احادیث سمجھ نہیں آئیں گی اور وہ ان احادیث کی تکذیب کے درپے ہوجائیں گے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اکثر عقلیں پھسل جاتی ہیں۔ (نعوذ باﷲ) اگر تمام لوگ اپنی توجہ انبیاء کرامAlaihmus Salam کی ذوات مقدسہ کی طرف مبذول رکھیں تو انہیں انبیاء کرامAlaihmus Salam کے کمالات کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کا کوئی تامل نہیں ہوگا جو سراسر مبنی برحقائق ہیں۔


  • 1  القرآن، سورۃ النساء65:4
  • 2  ابو منصور محمد بن محمد الماتریدی، تاویلات اھل السنۃ ، ج-3، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005ء، ص:241
  • 3  مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2252، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص :999
  • 4  کمال الدین محمد بن موسیٰ دمیری، حیاۃ الحیوان، ج -2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:6
  • 5  محمد بن عمر فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، ج -32 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1411ھ، ص:10
  • 6  القرآن، سورۃالنجم53: 9
  • 7  ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم راہویہ، مسند اسحاق بن راہویہ، حدیث: 1035، ج-2 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، 1991ء، ص:463
  • 8  مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2330، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص :1027
  • 9  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:85
  • 10  عبد الرؤف بن علی بن زین العابدین مناوی، فیض القدیر، ج- 9، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ ، 1418ھ، ص:4592
  • 11  القرآن، سورۃ مریم19: 96

Powered by Netsol Online