encyclopedia

آپ ﷺکے جسم مبارک کا بے مثال رعب و جلال

Published on: 13-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 11، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 279-288)

یوں تو اﷲ رب العزت نے جملہ انبیاء کرامAlaihmus Salam کی دعوت کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی خاطر انہیں غیر معمولی رعب ودبدبہ سے نوازا مگر حضور ختمی مرتبت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو رعب و دبدبہ کی وہ شان عطا کی گئی جو اور کسی نبی اور رسول کے حصے میں نہیں آئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حُسنِ صورت و سیرت کی وجہ سے قدرتی وقار حاصل تھااور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے شخصی وقار وہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک ماہ کی مسافت تک اس کا رعب ودبدبہ تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہیبت سے بڑے بڑے جابر کانپ اٹھتے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے شخصی وقاراور و جاہت کے لیے کبھی بھی تَکلّف نہیں فرمایا۔

تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ بڑے بڑے سرداران قریش اور رئیسانِ مکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شخصی وجاہت اور وقار وتمکنت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاریخ کے دامن میں ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ ابو جہل، ابو لہب، مغیرہ، عتبہ، شیبہ اور امیہ جیسے صاحبانِ رعونت ہیبت و جلال کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اتنا رعب و دبدبہ تھا کہ حوالی مدینہ میں آباد قبائل اپنے جم غفیر اور کثیر جنگی ساز وسامان کے باوجود اپنے مضبوط قلعوں میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیغمبرانہ جلالت سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔کئی قبائل کے سرکردہ افراد تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مطیع ہوگئے۔

کلام الہٰی میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب کا تذکرہ

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب و دبدبہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر ہوا ہے۔چنانچہ اسی حوالہ سے ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

سَاُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ121
میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں۔

قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:

وَقَذَفَ فِى قُلُوْبِھمُ الرُّعْبَ262
اور ان کے دلوں میں (اسلام کا) رعب ڈال دیا۔

یعنی یہ رعب و دبدبہ اور جاہ وجلال منجانب اللہ تعالی رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیا گیا ہےکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دشمن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ہر لمحہ ڈرتے رہیں۔

احادیث میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب کا تذکرہ

اس رعب ِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ذکر احادیث میں بھی خود صاحبِ قرآن Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کیاہے۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان Radi Allah Anhoکرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

نصرت بالرعب مسیرة شھر.3
ایک ماہ کے فاصلہ سے ہی طاری ہونے والے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

نصرت بالرعب على العدو.4
دشمن پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔

اسی حوالہ سےحضرت ابوذر غفاری Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

نصرت بالرعب فیرعب منى العدو عن مسیرة شھر.5
رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے پس دشمن مجھ سے ایک ماہ کے فاصلہ پر ہی مرعوب ہوجاتا ہے۔

ایک ماہ کے فاصلہ سے مراد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام پر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رعب اتنے فاصلہ سے طاری ہونے لگتا اور وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نام کی ہیبت سے کانپنے لگتے۔

امام ابن حجر عسقلانی شافعی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

میری دانست میں ایک ماہ کی مسافت کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ کفار اور یہود ونصاریٰ کی طاقت کے مراکز ایک ماہ کے زمانی فاصلے پر واقع تھے جیسے شام، عراق، یمن اور مصر۔6

حضرت ابوامامہRadi Allah Anho کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:

نصرت بالرعب یسیر بین یدى مسیرة شھر یقذف فى قلوب اعدائى.7
ایسے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی جو ایک ماہ کے فاصلے سے میرے آگے آگے چلتا اور میرے دشمنوں کے دلوں میں (اتنے فاصلہ پر ہی) ڈال دیا جاتا ہے۔

امام ترمذیRehmatullah Alaih اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

فاذا جعل نصرته من الرعب فقد اعطى جندا لایقاومه احد ولم یعط احد من الرسل ذلك فكان این ماذكر من مسیرة شھر وقع ذلك الرعب فى قلب عدوه فذل بمكانه.8
جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رعب کے ذریعے مدد کی گئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایسے لشکر عطا کئے گئے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایسے لشکر کسی اور رسول کو عطا نہیں کئے گئے اور جہاں کہیں بھی ایک ماہ کی مسافت پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ذکر کیا جاتا تو دشمن کا دل دہل جاتا اور وہ اسی جگہ پست ہمت ہوجاتا۔

اسی حوالہ سے عبد الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں:

فالظاھر اختصاصه به مطلقا وانما جعل الغایة منھا شھرا لانه لم یكن بین بلده وبین احد من اعدائه اكثر منه وھذ ه الخصوصیة حاصلة له على الاطلاق حتى لو كان وحدہ بغیر عسكر.9
یہ بات بڑی واضح ہے کہ رعب کی صفت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مطلقاً خاص تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک ماہ ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے شہر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دشمنوں کے درمیان اس مدّت سے زیادہ مسافت نہ تھی ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ خصوصیت ہمیشہ حاصل تھی چاہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کسی لشکر کے بغیر تنہا ہی کیوں نہ ہوتے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب و جلال کی مختلف شکلیں

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب کی مختلف جہتیں تھیں جن میں سے ایک جہت دشمن کا عددی کثرت کے باوجود عساکرِ اسلام سے خوف زدہ ہونا تھا ۔چنانچہ اس حوالے سے امام قرطبی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

ان الغزاة اذا خرجوا من دیارھم بالنیة الخالصة وضربوا بالطبل وقع الرعب والھیبة فى قلوب الكفار مسیرة شھر فى شھر علموا بخروجھم اولم یعلموا.10
جب عساکرِ اسلام اپنے علاقے سے جہاد کی نیت سے نکلنے لگتے اور جنگ کا نقارہ بجاتے تو کفار کے دلوں میں دو ماہ کے فاصلہ پر ہی رعب طاری ہوجاتا خواہ انہیں مجاہدین کے نکلنے کا علم ہوتا یا نہ ہوتا۔

اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں :

نصر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالرعب مسیرة شھرین على عدوه.11
دشمن پر دو ماہ کے فاصلہ پر ہی طاری ہوجانے والے رعب کے ذریعے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدد کی گئی۔

یہ اسلام دشمن عناصر شمعِ اسلام کو بجھانے کے منصوبے بناتے مگر جب اپنی چشم تصو رسے داعی اسلام حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھتے تو ان پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایسا رعب طاری ہوجاتا کہ ان کے تمام قبیح منصوبے اور ناپاک ارادے پانی کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے۔سمتوں کے ذکر میں اس امر کا اشارہ ہے کہ دشمن چاہے سامنے سے آئے یا عقب سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رعب اس پر یکساں طور پر طاری ہوتا اور وہ اسلام کی قوت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتا۔

ناواقف افراد کا دیکھتے ہی مرعوب ہونا

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب ودبدبہ کا یہ عالم تھا کہ کوئی اجنبی اور ناواقف شخص جونہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھتا تو مرعوب ہوکر رہ جاتا۔چنانچہ حضرت علی Radi Allah Anho اس حوالہ سے فرماتے ہیں:

من راه بدیھة ھابه.12
جو شخص اچانک حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے آتا مرعوب ہوجاتا۔

مگر جونہی وہ رحمت عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب آتا اس کا سب خوف جاتا رہتا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قربت میں طمانیت محسوس کرتا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہRadi Allah Anho آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عظمت ووقار کو یوں بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما.13
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی ذات والاصفات کے لحاظ سے عظیم تھے اور دوسروں کے نزدیک معظم اور باوقار تھے۔

"فخما مفخما" کا معنی شارحین حدیث نے یہ تحریر کیا ہے:

ھو عظیم فى نفسه معظم فى القلوب والعیون عند كل من راه صلى اللّٰه علیه وسلم.14
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ذات کے لحاظ سے عظیم اور ہر دیکھنے والے کے دل اور نظر میں معظم تھے۔

امام عبد الرؤف مناوی Rehmatullah Alaihیہ معنی بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہی قدرتی وجاہت تھی کہ مخالف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعظیم نہ چاہنے کے باوجود کرنے پر مجبور ہوجاتا اور ان الفاظ کا ایک اور معنی بھی بیان کیا:

فخم عظیم عنداللّٰه مفخم معظم عند الناس.15
آپ اﷲ کے ہاں عظیم اور لوگوں کے ہاں معظم ہیں۔

اسی طرح اس حوالہ سے حضرت خارجہ بن زید انصاریRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم او قر الناس فى مجلسه.16
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مجلس میں تمام شرکاء سے باوقار ہوتے۔

حضرت اُم معبد Radi Allah Anha آپ کے حسنِ وجاہت اور شخصی وقار کے بارے میں فرماتی ہیں:

ان صمت فعلیه الوقار وان تكلم سماه وعلاه البھاء اجمل الناس وابھاه من بعید واحسنه واجمله عن قریب.17
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بوقت سکوت حد درجہ متین اور سراپا وقار دکھائی دیتے۔ جب گفتگو فرماتے تو رخ انور پر شگفتگی پھیل جاتی۔ دور سے ذی وجاہت اور بارعب دکھائی دیتے جبکہ قریب سے کمال درجہ حسین اور منٹھار تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سب سے بڑھ کر حسین

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حسن وجاہت ووقار کا یہ عالم تھا کہ کسی کو بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرہ اقدس کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی طاقت نہ تھی ۔اسی بات کا تذکرہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ سے فیض پانے والے صحابی رسول حضرت عمرو بن العاص یوں بیان کرتے ہیں:

وما كان احد احب الى من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا اجل فى عینى منه وما كنت اطیق ان املا عینى منه اجلا لا له ولو سئلت ان اصفه ما اطقت لانى لم اكن املا عینى منه.18
میرے نزدیک رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے حسین تر تھا۔میں حضور رحمتِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مقدس چہرہ کو اس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگرکوئی مجھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے محامد ومحاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا ؟کیونکہ (حضور رحمت عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حسن جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔

مجلس پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رعب

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں بیٹھنےکا تذکرہ کرتے ہوئےحضرت انسRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں :

كنا نجلس عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كانما على رؤوسنا الطیر ما یتكلم منا احد الا ابوبكر و عمررضى اللّٰه عنھا.19
ہم حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محفل پاک میں اس طرح بیٹھے تھے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anho اور حضرت عمر Radi Allah Anho کے علاوہ کسی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔

سروں پر پرندے ہونے سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب اور دبدبے کے باعث صحابہ کرام Radi Allah Anhumجب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محفل میں موجود ہوتے تودرخت کی مثل بلکل ساکت ہوتے ۔

حضرت ابو رمثہ Radi Allah Anho طبیب تھے ۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میں جب مدینہ منورہ میں آیا تو میں نے ابھی رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زیارت نہیں کی تھی۔ اچانک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam باہر تشریف لائے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دو سبز کپڑے زیب تن فرما رکھے تھے، میں نے اپنے بیٹے سے کہا خدا کی قسم! یہی اﷲ کے رسول ہیں۔ پس میرا بیٹا رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رعب و دبدبے کے باعث کانپنے لگا۔20

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رعب ابو مسعود بدری پر

اس رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جس کو بھی مخاطب فرمادیتے تو اسی وقت اس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رعب و جلال طاری ہوجاتا۔چنانچہ حضرت ابو مسعود بدری Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں :

انى كنت اضرب غلاما لى اذ سمعت صوتا من خلفى اعلم ابا مسعود للّٰه اقدر علیك منك علیه قال: فجعلت لا التفت الیه من الغضب حتى غشینى فاذا ھو رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما رایته وقع السوط من بین یدى من ھیبته.21
میں اپنے غلام کو مار رہا تھا میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی کسی نے کہا: ابو مسعود! جان لو کہ اﷲ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمہیں اس غلام پر ہے۔ میں غصے کی وجہ سے اس ہستی کی طرف توجہ نہ کررہا تھا حتیٰ کہ وہ مجھ پر چھاگئے میں نے دیکھا تو وہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تھے جب میں نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے نیچے گرپڑا۔

بنت مخرمہ Radi Allah Anhaنے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مسجد نبوی میں دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پیغمبرانہ جلال کی تاب نہ لاسکیں اور ان پر رعب طاری ہوگیا۔22

دورانِ جنگ میں دشمن پر رعب طاری ہونا

میدانِ جنگ میں بھی یہی رعب اور دبدبہ دشمنوں کو مبہوت کئے رہتا اور انہیں ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ غزوہ بدر کے موقع پر کفار کے دلوں پر جو رعب طاری ہوا اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہوا ہے:

سَـنُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ15123
ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیں گے ۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداﷲ بن عباسRadi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

ان ابا سفیان قد اصاب منكم طرفا وقد رجع وقذف اللّٰه فى قلبه الرعب.24
بے شک ابو سفیان کو تمہاری طرف سے سخت دھچکالگا ہے اور وہ مکہ لوٹ گیا اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا۔

کافر کا مرعوب ہونا

ایک مرتبہ دوران سفر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرما تھے کہ اچانک وہاں ایک اعرابی آنکلا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تلوار جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے درخت کی شاخ سے ٹکارکھی تھی لے کر کہنا لگا:

من یمنعك منى؟
اب تمہیں مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا میرا خدا۔یہ سن کر وہ شخص اتنا مرعوب ہوا کہ اس نے فوراً تلوار نیام میں کرلی۔یہ واقعہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو خود بیان فرمایا جس کے راوی حضرت جابر Radi Allah Anhoہیں۔25

محمد بن کعب قرظی Rehmatullah Alaihکی روایت میں ہے کہ اس وقت بدو کا ہاتھ کانپنے لگا اورتلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی اور وہ درخت سے جاٹکرایا جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہوگیا۔26

شہنشاہ روم کی مرعوبیت

قیصر روم ہر قل کو جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مکتوب ملا تو اس نے سردارِ قریش ابو سفیان جو کہ تجارت کے سلسلہ میں وہیں تھا اپنے دربار میں بلوایا اور اس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں چند سوالات کئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نامہ مبارک سے ہر قل پر جو رعب و دبدبہ طاری ہوا اسے ابو سفیان اپنے ساتھیوں سے یوں بیان کرتا ہے:

لقد امر امر ابن ابى كبشة انه یخافه ملك بنى الاصفر فما زلت موقنا انه سیظھر حتى ادخل اللّٰه على الاسلام.27
بخدا ! ابو کبشہ 28کے بیٹے (محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) کی شان بہت بڑھ گئی اتنی کہ ان سے شہنشا روم ڈرنے لگا۔ اس وقت سے مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بہت جلد غالب ہوں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل فرمادیا۔

ہر قل کے مزید خوف زدہ ہونے اور مرعوب ہونے کا ذکر یوں کیا گیا ہےکہ ابن ناظور جو ہر قل کا دوست اور ایلیاء کا حاکم تھا بیان کرتا ہے کہ ہر قل جب بیت المقدس آیا تو ایک دن پریشان نظر آیا۔ اس پر اس کے بعد بعض اراکین سلطنت نے پوچھا کیا بات ہے؟ آپ کا مزاج ہم خلاف معمول پارہے ہیں ہر قل علوم نجوم جانتا تھا۔ اراکین کے سوال کرنے پر اس نے بتایا:

انى رایت الیلة حین نظرت فى النجوم ملك الختان قد ظھر.29
میں نے آج رات جب ستاروں میں نظر کی تو یہ دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ (حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) ظاہر ہوگیا ہے۔

یمن کے سفیر کامتاثر ہونا

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دور مبارک میں یمن پہلے ایران کے بادشاہ کسریٰ کے ماتحت تھا یمن پر بھی کسری کی حکومت تھی ۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دنیا کے بادشاہوں کو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھے تو ان میں شاہ ایران کسریٰ کو بھی خط لکھا:

بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ

محمد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جانب سے ایران کے عظیم بادشاہ کسریٰ کی طرف۔
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلامتی ہو، اما بعد! تم مسلمان ہوجاؤ تو بچ جاؤ گے… ۔

جب اس کے پاس یہ خط پہنچا تو اس نے کہا:یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ خط جزیرۂ عرب کے ایک شخص کی طرف سے آیا ہے جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے۔ جب اس نے خط کو کھولا تو دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کسریٰ کے نام سے قبل اپنے نام سے خط کا آغاز کیا ہے تو کسریٰ کو بہت غصہ آیا اور اس نے خط پڑھنے سے قبل خط کو پارا پارا کردیا اور اپنے یمن کے گورنر باذام کو لکھا کہ جب میرا یہ خط تجھے ملے تو جزیرہ عرب کے اس شخص کی طرف جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے ،اپنی طرف سے دو امیروں کو بھیجو اور اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو ۔جب باذام کو خط ملا تو اس نے دو دانشمند امیروں کو اپنی طرف سے بھیجا ان میں سے ایک کا نام بابویہ تھا ۔ اپنی اس ناکام مہم سے واپسی پر وہ والی یمن باذام کے دربار میں آیا تو اس نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

ما كلمت رجلا قط اھیب عندى منه.30
میں نے آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) سے بڑھ کر کسی کو بارعب نہیں دیکھا۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا یہ رعب و دبدبہ اور ہیبت وجلال سپاہ کی کثرت اور اسلحہ کی فراونی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیغمبرانہ خصوصیت تھی جو اسلام کی شوکت وسربلندی اور تزویج اشاعت کے لئے بروئے کار آئی حتیٰ کہ وعدہ الٰہی کے مطابق دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہوکر رہا۔

رعب و دبدبہ، شان و شوکت اور جلال و ہیبت کا تعلق عمومی طور پر دنیاوی عہدوں اور مناصب کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر بادشاہانِ وقت اور شہنشایان ِ دنیاوی اور آج کل کی اصطلاح میں صدرِ مملکت اور وزرائے اعظم کا پروٹوکول اتنا ہوتا ہے کہ ایک معمولی اور چھوٹا انسان بھی بہت بڑا اور پرہیبت منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ لیکن سید الانبیاءSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رعب وجلال فطری تھا جس سے بڑے بڑے بادشاہ مرعوب ہوتے تھے۔


  • 1  القرآن، سورۃ الانفال8: 12
  • 2  القرآن، سورۃالاحزاب33: 26
  • 3  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 335، ج-1، مطبوعۃ: دار طوق النجاة، دمشق، السورية، 1422ھ، ص :74
  • 4  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:523، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی ،بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص :372
  • 5  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، حدیث: 21337، ج -5،مطبوعۃ:المکتب الاسلامی، بیروت،لبنان،1978ء، ص :145
  • 6  شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج -6،مطبوعۃ:دار المعرفۃ ،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :128
  • 7  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، حدیث: 999، ج-1،مطبوعۃ: مکتبۃ دار الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ،1994ء، ص :222
  • 8  محمد بن عیسیٰ ترمذی، نوادر الاصول فی احادیث الرسول ﷺ ،ج -3،مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان،1992ء،ص :151
  • 9  عبدالرحمن مبارک فوری، تحفۃ الاحوذی، ج -5،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :135
  • 10  ابو عبداﷲ محمد بن احمد قرطبی، تفسیر قرطبی ،ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :426
  • 11  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث:11056، ج -11، مطبوعۃ: المکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء،ص :64
  • 12  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی ، حدیث:3638، ج-5 ، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی بیروت، لبنان،1998ء، ص :599
  • 13  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ ،حدیث:7، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :22-21
  • 14  عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی ،شرح الشمائل برحاشیہ جمع الوسائل ،ج -1،مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا) ص :34
  • 15  ایضاً
  • 16  سلیمان بن اشعث ابوداؤد ، مراسیل ابی داؤد ،حدیث: 505،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان،1408ھ،ص: 344
  • 17  ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4274، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :10
  • 18  مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم ،ج -1، حدیث: 121،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :112
  • 19  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-7، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص :108
  • 20  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ،ج -2،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت،لبنان، 1978ء،ص :228
  • 21  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ،ج-7، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1993ء، ص :110
  • 22  سلیمان بن اشعث السجستانی، سنن ابوداؤد ، حدیث: 4847، ج -4،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :262
  • 23  القرآن، سورۃ آلِ عمران3: 151
  • 24  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیرالدمشقی ، تفسیر ابن کثیر ،ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان،1980ء،ص :412
  • 25  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 2753-2756، ج-3، ،مطبوعۃ:دار القلم، بیروت،لبنان، 1981ء، ص:1065-1066
  • 26  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :370
  • 27  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:7، ج-1، مطبوعۃ:دار القلم، بیروت،لبنان، 1981ء،ص :9
  • 28  امام ابو حاتم فرماتے ہیں:ابو کبشہ حضورﷺ کی نانی جان کے والد تھے وہ شام کی طرف نکل گئے اور وہاں نصاریٰ کے دین کو پسند کرنے لگے پھر قریش کی طرف لوٹے اور اس بات کا اظہار کیا تو قریش نے انہیں عتاب کا نشانہ بنایا، قریش حضور ﷺ کو ان کی طرف منسوب کرکے پکارتے اور کہتے کہ یہ بھی اس کی طرح نصاریٰ کا دین لے آیا ہے۔(محمد بن حبان بستی، صحیح ابن حبان، حدیث: 6762، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، لبنان،1993ء، ص :171)
  • 29  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:7، ج-1، مطبوعۃ:دار القلم، بیروت، لبنان،1981ء، ص :9
  • 30  ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم والملوک، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1407ھ، ص :134

Powered by Netsol Online