Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺ کی پنڈلیاں مبارک

Published on: 08-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ:42، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 544-547)

رسول اللہ sym-1 حسن ِ بے مثال و لاثانی کا مظہر اتم و اکمل ہیں۔آپ sym-1 کی زندگی میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ sym-1 کو ایک نظر دیکھنے والا آپ sym-1 کے پیغام کی حقانیت و صداقیت کا اظہار نہ بھی کرسکے تو کم از کم دل میں اقرار لازمی کرتا۔اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ sym-1 کا جسم اطہر اور اس پر ہونے والی انوار و تجلیاتِ ربانی کی بارش سامنے والے کے دل پر اثر انداز ہوتی اور وہ ایک گھڑی سوچنے پر مجبور ضرور ہوتا کہ اس بے داغ و بے عیب اور حسن ِ کامل کے یکتا شخص کی بات میں صداقت ضرور ہے۔

حضور sym-1 کی مبارک پنڈلیاں

رسول اکرم sym-1 کا حسن ِ جسمانی مجموعی طور پر بھی الگ شان رکھتا تھا اور انفرادی طور پر بھی ہر عضو کی اپنی ہی شان تھی۔انہیں اعضاء جسمانی میں سے ایک عضو ِ مبارک آپ sym-1 کی پنڈلیاں مبارک بھی ہیں۔جو اپنی بناوٹ میں حسن کا اعلی شاہکار تھیں۔کیونکہ آپ sym-1 کی پنڈلیاں مبارک پتلی تھیں جو کہ مردانہ حسن کے لیے ازبس ضروری چیز ہے۔چنانچہ حضرت جابر بن سمرہsym-5 سے روایت ہے:

كان فى ساقى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حموشة.1
حضور sym-1 کی مبارک پنڈلیاں پتلی تھیں۔

ابن کثیر "حموشۃ" کا معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اى لم یكونا ضخمین.2
آپ sym-1کی پنڈلیاں مبارک موٹی نہ تھیں۔

امام ابن جوزی sym-4 نے بھی اس حدیث مبارکہ کو نقل کیا ہے اور اس میں موجود لفظ حموشۃ کامعنی بیان کر تے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

قال المصنف: الحموشة: دقة الساقین.3
مصنف (ابن جوزی)کہتےہیں: الحموشہ کامطلب ہےپنڈلیوں کانفاست سےپتلاہونا۔4

آپ sym-1کی پنڈلیوں کی چمک

صحابہ کرامsym-7 حصولِ برکت اور اظہار محبت کے لئے آقا sym-1کی مبارک پنڈلیوں کو مس کرتے اور ان کا بوسہ لینے کا اعزاز حاصل کرتے۔ جن جن صحابہ کرام sym-7نے مبارک پنڈلیاں دیکھیں، وہ جب بھی تذکرہ کرتے تو انہیں ان کی چمک دمک یاد آجاتی اور وہ پکار اٹھتے کہ میں آج بھی اس چمک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔5

اسی حوالہ سے حضرت ابوحجیفہ sym-5سے روایت ہےکہ ایک روز آقائے محتشم sym-1اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے تو مجھے حضور sym-1کی مبارک پنڈلیاں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چشم ِتصور میں آج بھی اس منظر کی یاد اسی طرح تازہ ہے:آپsym-5 بیان فرماتے ہیں:

كانى انظر الى وبیص ساقیه.6
گویا میں آپ sym-1کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔

اسی روایت کو نقل کرتے ہوئے ابوبکر احمد بن حسین بیہقی sym-4ذکر فرماتے ہیں:

فلما دنوت منه وھو على ناقته، جعلت انظر الى ساقه كانھا جمارة.7
پس جب میں حضور sym-1 کے قریب ہوا اورآپ sym-1 اونٹنی پر سوار تھے تومجھے آپ sym-1کی پنڈلی مبارک کی زیارت ہوئی، یوں لگا جیسے کھجور کےدرخت کا گوندہو۔

امام ابن جوزی sym-4 اسی حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:

أن أخاه سراقةأخبره قال: دنوتُ من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو على ناقته، فرأیت ساقیه فى غَرْزھا كأنھما جُمَّارة.8
(روای کہتے ہیں کہ) انہیں ان کے بھائی حضرت سراقہ نے بتلایا کہ میں نےحبیب خدا sym-1کو قریب سے دیکھا ۔(جب آپ sym-1ہجرت فرما کر مدینہ منورہ کی طرف جارہے تھے) آپ sym-1اونٹنی پر سوار تھے اور پاؤں مبارک غرز(رکاب) میں تھے۔ تو آپ sym-1کی پنڈلیاں (اپنی سفیدی اور چمک و دمک کی رو سے) یوں معلوم ہورہی تھیں جیسے کھجور کےدرخت کا گوند ہوں۔9

اس کی تشریح کرتے ہوئے ابن کثیر sym-4 لکھتے ہیں:

كانھا جمارة اى جمارة النخل من بیاضھما.10
یہ تشبیہ کھجورکے گوند کے ساتھ سفیدی اور چمک میں ہے۔

آپ sym-1کی پنڈلی کی سفیدی

اس حوالہ سے امام بغویsym-4 روایت کرتے ہیں:

عبد اللّٰه بن أبى سقبة الباھلى قال: جئت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى حجة الوداع فألفیته واقفا على بعیر كان ساقه فى غرزة الجمارة فاحتضنتھا فقر على بالسوط فقلت: القصاص یا رسول اللّٰه فدفع إلى السوط فتثنیت فقبلت ساقه ورجله صلى اللّٰه علیه وسلم.11
حضرت عبداﷲ بن ابی سبقہ باہلی sym-5فرماتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ sym-1اپنے اونٹ پر سوارکھڑے تھے اورآپ sym-1کی پنڈلی مبارک رکاب میں تھی جو کھجورکےگوندکی مانند لگ رہی تھی ۔میں محبت وپیار کی وجہ سے اس کے ساتھ چمٹ گیا۔ آپ sym-1نے مجھے چھڑی لگائی تومیں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ sym-1! میں تو آپsym-1 سے قصاص لوں گا۔ آپ sym-1نے چھڑی میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا: لو قصاص لے لو۔ مجھے موقع مل گیا میں نے آپ sym-1کی مبارک پنڈلی اور پاؤں کا بوسہ لے لیا۔

ابن کثیر sym-4نے بھی حضرت عبداﷲ بن ابی سبقہ باہلی sym-5کی اس روایت کو اسی طرح بیان کیا ہے۔ 12اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی sym-4روایت کرتے ہیں:

قال: انى لفى حجة الوداع خماسى او سداسی فاخذ ابى بیدى حتى انتھینا الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمنى یوم النحر فرایته یخطب على بغلة شھباء فقلت لابى من ھذا؟ فقال: ھذا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فدنوت حتى اخذت بساقه ثم مسحتھا حتى ادخلت كفى فیما بین اخمص قدمه والنعل فكانى اجد بردھا على كفى.13
فرمایا: میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر اپنے والد کے ساتھ ہاتھ پکڑے ہوئے شریک ہوا اور میری عمر پانچ یا چھ برس ہوگئی تھی۔ یہاں تک کہ ہم لوگ نحر کے روز منی میں رسول اﷲ sym-1تک پہنچ گئے تومیں نے دیکھا آپ sym-1سرخی مائل خچر پر خطاب کررہے تھے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا :یہی رسول اﷲ sym-1ہیں۔ تو میں آپ sym-1کے قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ میں نے آپ sym-1کی پنڈلی مبارک پکڑی اور اسے (بطور تبرک) مس کیا اور اپنی ہتھیلی آپ sym-1کے نعل اور قدم مبارک کے درمیان رکھ لی مجھے ابھی تک آپ sym-1کے تلوے کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا روایات سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺانتہائی شفیق و کریم تھے تو وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرامsym-7 کا تعلق رسول اللہ ﷺسے بے انتہاء قوی ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بعد از وصال بھی آپ ﷺکی ہر ہر اداء اور ہرہر عضو مبارک کی رعنائی صحابہ کرامsym-7 کو یاد تھی جس کا ذکر وہ تادم وصال کرتے رہتے تھے۔

آپ ﷺ کی رانیں مبارک


  • 1  محمد بن عیسیٰ ترمذی، جامع الترمذی، حدیث: 3645، ج- 5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :603
  • 2  ابو الفداء إسماعيل بن عمر الدمشقى، البدایۃ والنھایۃ، ج- 6 ۔مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص: 26
  • 3  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:55
  • 4  امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ، لاہور ، پاکستان، 2002ء،ص:44
  • 5  مُفتی محمد خان قادری، شاہکار ربُوبیّت، مطبوعہ: کاروانِ اسلام پبلیکشنز، لاہور، پاکستان،2005 ء،ص:398
  • 6  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث :3373، ج -3، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 1307
  • 7  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص :207
  • 8  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:55
  • 9  امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ، لاہور ، پاکستان،2002ء، ص:442
  • 10  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:55
  • 11  ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی ،معجم الصحابة، حدیث:1718، ج -4، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:217
  • 12  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، جامع المسانید والسنن، حدیث :6710 ، ج -5، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:391
  • 13  ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیيز الصحابۃ، حدیث: 4079، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 190

Powered by Netsol Online