encyclopedia

آپ ﷺ کی رفتار مبارک

Published on: 10-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 44، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 555-559)

کائنات کی ہر چیز اللہ کی عظمت ،رفعت وبلندی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتخلیق خلقت کا سب سے اعلیٰ وارفع نمونہ تھے۔ خالق کائنات نے اپنی کمال خالِقیّت کاواضح اظہار حضور اقدس Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تخلیق کی صورت میں فرمایا۔حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاللہ کی تخلیق کا ایک بے مثال شاہکار تھے۔ہم حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جس فعل وعمل کوبھی دیکھتے ہیں تووہ اپنی مثال آپ ہے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ہر عمل حسن ِاعتدال کامرقع تھا لیکن بسا اوقات کچھ معاملات ومعمولات آپ ایسے بھی سر انجام فرمایا کرتے تھے کہ جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی جسمانی قوت کا بھرپور اظہار ہواکرتا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چلنے میں تیزرفتاری یہ (روحانی)قوت کے کمال کی وجہ سے تھی نہ کہ قصداََ محنت ومشقت کی وجہ سے ۔

حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anhoسے مروی ہے فرماتے ہیں کہ :

مارأیت شیئا أحسن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، كان كأن الشمس تجرى فى جبھته، ومما رأیت أحدا أسرع فى مشیته من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، كأنما الأرض تطوى له، إنا لنجھد أنفسنا وإنه لغیر مكترث.1
میں نے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویاسورج آپ کی پیشانی میں چمک رہا ہے اور میں نے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے زیادہ کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا زمین ان کے لیے لپیٹ دی گئی ہے،ہم اپنے آپ کو بڑی مشقت میں ڈال کر نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ چل پاتے ،لیکن نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر مشقت کا کوئی اثر نظر نہ آتا تھا۔ 2

امام ابو عيسى محمد بن موسى الترمذی Rehmatullah Alaihبھی اس حدیث کو اسی طرح بیان کرتے ہیں ۔3

یہ شان رفتار تھی کہ زمین گویاآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے لپیٹ دی جاتی تھی(یعنی ابھی چند منٹ ہوئے یہاں تھے اورکچھ ہی دیر کے بعدکہیں دورسبک خرامی کرتے ہوئےنازنین مہ جبین کی طرح شمس وقمر کی مثل طلوع وظہور فرماتے)ہم لوگ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ چلنے میں مشقت سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ساتھ دیتے تھے اور خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamگویااپنی معمولی رفتار سے چلتے تھے۔ لفظ تطوي کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے عبدالقیوم حقّانی فرماتے ہیں کہ تطوی یعنی لپٹی جاتی ہے یاسمیٹ دی جاتی لنجهد ای نتعب أنفسنا یعنی ہم اپنے آپ کو تھکا لیتے تھے۔ غير مكترث : ای غیر مبال بجھدنا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہماری تکلیف اور مشقت کی پرواہ نہ کرتے،یاآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبلاتکلف چلتے۔4

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چلنے کی کیفیت میں یہ صفات ہمیشہ نمایاں رہتی تھیں:

  1. تیزی سے چلتے۔
  2. آگےکی طرف جھک کرچلتے۔
  3. قدم اُٹھاکرچلتے۔

حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رفتار مبارک میں یہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے یہ تینوں صفات عجزوانکساراورتواضع وعبدیت پردلالت کرتی ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رفتار مبارک میں غروریاتکبرکاشائبہ تک نہ ہوتاتھا بلکہ کشادہ کشادہ قدم اُٹھاتے،سینہ تان کراکڑکرنہ چلتے،نہایت ہی باوقار،عزت مندانہ اور پسنددیدہ چال چلتے تھے ۔ 5

ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی Rehmatullah Alaihتحریرکرتے ہیں:

إذا مشى كأنما ینحط من صبب، وإذا التفت التفت جمعا .6
جب قدم رکھتے تو جمال کے ساتھ،جب چلتے تو نرمی کے ساتھ،رفتار تیز ہوتی تھی۔جس وقت چلتے تھے توایسا لگتاکہ جیسے اُونچائی سے نیچے آتے ہیں۔ 7

حضرت يزيد بن مثرد Rehmatullah Alaihسے روایت ہے:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى أسرع حتى یھرول الرجل وراءه فلا یدركه.8
رسول اللSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسب سے زیادہ تیز رفتار تھے،ہم لوگ کوشش کرتے تھے کہ آپ کو پالیں اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بے ساختہ چلتے تھے۔ 9

حضرت جابرسے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لا یلتفت إذا مشى. وكان ربما تعلق رداؤه بالشجرة أو بالشىء فلا یلتفت. وكانوا یضحكون وكانوا قد أمنوا التفاته.10
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب چلتے تھے تو ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے اکثر آپ کی چادر درخت یا کسی اور چیز میں اٹک جاتی تھی مگر آپ پلٹتے نہ تھے ،لوگ ہنستے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پلٹنے سے بے خوف تھے۔11

حضرت ابو ہريرہRadi Allah Anho روایت کرتے ہیں:

كنت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جنازة. فكنت إذا مشیت سبقنى. فالتفت إلى رجل إلى جنبى فقلت: تطوى له الأرض وخلیل إبراھیم.12
میں ایک جنازے میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہمراہ تھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے آگے ہوجاتے تھے،میں ایک شخص کی طرف متوجہ ہوا جو میرے پہلو میں تھےاور کہا کہ آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور ابراہیم خلیل اللہ علیہ سلام کے لئے زمین لپیٹ دی جاتی تھی۔

محمد بن یوسف صالحی شامیRehmatullah Alaihاس حدیث کو اسی طرح ذکر کرتے ہیں.13

حضرت سيار ابی الحكم Rehmatullah Alaihسے مروی ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى مشى مشى السوقى لیس بالعاجز ولا الكسلان.14
کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب چلتے تو بازار والے کی طرح چلتے تھے نہ تو تھکے ہوئے معلوم ہوتے تھے اور نہ اکتاہٹ سے چلتے تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چلنے کی چال مبارک اور اُس کی کیفیت کو ابن قیم نے ماقبل کی پیش کردہ حدیث کی روشنی میں اس طرح بیان کیا ۔

بسكینة ووقار من غیر تكبر ولاتماوت، وھى مشیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، فاِنه مع ھذه المِشیة كان كاَنما ینحط من صبب، وكانماالارضُ تُطوى له،حتى كان الماشى معه یجھدُ نفسه.15
تکبّر اور لاغری کے بجائے وقار اور رعونت کے ساتھ چلنا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی چال کا انداز تھا، اس خوبصورت چال سے جب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچلتے تو ایسے لگتا جیسے ڈھلان سے نیچے اتر رہے ہیں اور جیسے زمین ان کے لئے لپیٹ دی گئی ہو۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ چلنے والا (ساتھ ساتھ ) مشقت سے چل پاتا۔

عبدالقیوم حقانی ابن قیم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رفتارِ"ھون"کامعنی یہ ہے کہ سکون ووقار کے ساتھ بلاتکبرکے اور بلا کندھے ہلائےچلے ۔ 16 صمد ریالوی ابن الجوزیRehmatullah Alaih نےاپنے استدلال کے لیے جس دلیل کا سہارالیا ہے وہ یہ ارشاد باری تعالی (يمشون على الأرض هونا) اسکا بھی یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس طرح چلناکہ چال میں سکون ووقارہواورکبرونخوت نہ ہو۔17

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamتیزرفتاری کے ساتھ چلتے تھے سست چال نہ چلتےاورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے زمین کو سکیڑ دیا جاتا تھا۔ معمولی رفتار سے بھی چلتے تو مسافت زیادہ طے ہوتی یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا معجزہ تھا کہ آپ ﷺاس طورپردوسروں سے آگے نکل جاتے دوڑتے ہوئے اصحاب بھی آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ شریک نہ ہوپاتے تھے ۔

حضرت علی Radi Allah Anho نے آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی صفت مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:

قال: كان إذا مشى تقلع كأنما ینحط من صبب .18
جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچلتے توقوت کے ساتھ چلتے،گویاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکسی بلندی سے ڈھلوان کی طرف اتررہے ہیں ۔
ویمشى ھونا، ذریع المشیة إذا مشى كأنما ینحط من صبب، وإذا التفت التفت جمیعا خافض الطرف، نظره إلى الأرض أطول من نظره إلى السماء، جل نظره الملاحظة یسوق أصحابه.19
اور وقار سے چلتے سبک روی ایسی تھی کہ لگتا ڈھلا ن سے اتر رہے ہو۔اگر پلٹے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹے- نگاہیں نیچی رہتی۔ نظر مبارک آسمان کی جانب کم اور زمین کی جانب زیادہ رہتی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ساری نظر اتنی بلند ہوتی تھی کہ اپنے صحابہ کو مدِ نظر رکھتے۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسریررفتار تھے جب کبھی صحابہ کرام کے ساتھ یا تنہا اپنے قدمین شریفین پر چلاکرتے توبھرپورقوت وطاقت کے ساتھ،قدموں کو زمین پر مضبوطی کے ساتھ گاڑ کر چلاکرتے اور اس کا سبب اس کے سوااورکچھ نہیں تھاکہ آپ قوت وطاقت کا مجسم تھے اوراس کا اظہارآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سبک خرامی اور چال ڈھال کی مضبوطی سے بخوبی کیاجاسکتا تھا۔


  • 1  امام أحمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، حدیث: 8604، ج-8، مطبوعہ: دار الحديث، القاهرة، مصر، 1416ھ، ص:392
  • 2  امام احمد بن حنبل، مسند امام احمد بن حنبل(مترجم:مولانا محمد ظفراقبال)، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ ، لاہور ،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:385
  • 3  محمد بن عیسیٰ ترمذى،الشمائل المحمدية، حدیث: 116، ج-1، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:86
  • 4  مولاناعبدالقیوم حقانی، شرح شمائل ترمذی،ج-1،مطبوعہ:مطبع عربیہ ، لاہور،پاکستان،2002 ء،ص:518
  • 5  محمد اسلم زاہد،حضرت محمدﷺ کا عہدشباب،مطبوعہ:ادارت الاسلامی، لاہور،پاکستان ، 2016ء، ص:24
  • 6  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1405ھ،ص:287
  • 7  ابو بکراحمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوۃ (مترجم:مولانا اسماعیل الجاروی)، ج-1، مطبوعہ: دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان ، 2009،ص:614
  • 8  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410 ھ ،ص:287
  • 9  محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد (متر جم:عبداللہ العماد ی)،ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 1389ھ،ص:130
  • 10  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410 ھ ،ص:287
  • 11  محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد(متر جم:عبداللہ العماد ی)، ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ، کراچی،پاکستان ، 1389ھ،ص:111
  • 12  محمد بن سعد،بصری طبقات ابن سعد، ج-1،مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410 ھ ،ص:287
  • 13  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993 ء، ص:90
  • 14  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410ھ،ص:287
  • 15  احمد بن ابی بکرالزرعی الدمشقی، زادالمعاد فی ھدی خیرالعباد، مطبوعۃ: مؤسسۃ السالۃ، بیروت، لبنان، 1425ھ ، ص:161
  • 16  مولاناعبدالقیوم حقانی،شرح شمائل ترمذی،ج-2،مطبوعہ:مطبع عیربیہ ، لاہور،پاکستان،2002 ء،ص:90
  • 17  عبدالصمدریالوی و منیر احمد وقار، خصائل نبوی (اردو شرح شمائل ترمذی)، مطبوعہ:انصارالسنہ پبلکیشنز ،لاہور، پاکستان،ص:882
  • 18  محمد بن عیسیٰ الترمذى، الشمائل المحمدية، ج- 1، مطبوعہ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :86
  • 19  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:414، ج-22، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1415 ھ، ص:155

Powered by Netsol Online