encyclopedia

حضورِ اکرم ﷺ کی رنگت مبارک

Published on: 06-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، علامہ سیّد سعد ابراہیم،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 5، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 191-197)

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاللہ ربُّ العزّت کی تخلیق کا ایسا شاہکار تھے کہ دیکھنے والا بے خود ہوجاتا تھا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہر لحاظ سے کامل و اکمل تھے ۔اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے تعلق رکھنے والی چیزیں بھی ہر طرح سے ارفع واعلی تھیں جن میں سر فہرست آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم اقدس تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم اقدس تناسب وتواز ن کا سب سے بڑھ کر نمونہ تھا جس کو دیکھ کر ہی نظریں خیرہ ہوجاتی تھیں اور اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کی رنگت بھی تھی جوسفید تھی لیکن دودھ اور چونے جیسی سفید نہیں بلکہ ملاحت آمیز سفید تھی جو سرخی مائل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کی رنگت کو چاندی اور گلاب کے حسین امتزاج سے نسبت دی ،کسی نے سفید مائل بہ سرخی کہا ہے اور کسی نے سفید گندم گوں بیان کیا ہے۔

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ انتہائی خوبصورت تھا

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ مبارک انتہائی خوبصورت تھا۔اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha بیان فرماتی ہیں:

كان انورھم لونا. 1
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرنگ روپ کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ پُرنور تھے ۔

جس طرح سورج پر کسی کی نگاہ نہیں ٹکتی اسی طرح آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر انتہادرجہ خوبصورت اور ہیبت نبوت کی وجہ سے نظر نہیں ٹکتی تھی۔2حضرت انس جسم اطہر کی رنگت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم احسن الناس لونا.3
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔

اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ مبارک چمکدار تھا۔چنانچہ اس حوالہ سےحضرت انس Radi Allah Anho سے مروی ہے:

كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ازھر اللون.4
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ سفید چمکدار تھا۔

حضرت انس Radi Allah Anhoسے ایک اورر وایت میں یوں منقول ہے:

ولا بالابیض الامھق ولیس بالادم.5
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ نہ تو بالکل سفید اور نہ ہی گندمی تھا۔

یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ مبارک متناسب انداز سے سفید تھا جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamحسین نظر آتے تھے اور دیکھنے والا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھ کر مسرور ہوتا تھاکہ اس طرح کا رنگ حسن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں:

کان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم انور المتجرد.6
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا (جسم اطہر) سراپا روشنی اور حُسن کا پیکر تھا۔

حضرت الجریری Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں صحابی رسول حضرت ابو طفیل Radi Allah Anho کے ساتھ طواف کررہا تھا تو آپ نے طواف سے فارغ ہوکر اعلان فرمایا لوگو آؤ مجھ سے اپنے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بارے میں جو پوچھنا ہے توپوچھ لو کیونکہ آج روئے زمین پر میرے سوا دیدار مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے مشرف ہونے والا کوئی نہیں رہا۔یعنی اب میرا بھی وصال ہوجائے گا اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حلیہ کے بارے میں مجھ سے پوچھو۔ تولو گوں نے آپ سےآقاSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن وجمال کے بارے میں پوچھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حسن وجمال کیسا تھا؟

تو انہوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:

كان ابیض ملیحا مقصدا.7
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ سفید، روشن اور من ٹھار تھا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رنگت مبارک سفیدی اورسرخی کا مرقّع

اہل علم نے رنگت میں حسن کے دو معیار بیان کئے ہیں:

  1. دنیوی معیار
  2. اخروی معیار

حُسنِ رنگت کادنیوی معیار

اس معیا ر کے مطابق حسین ترین رنگت وہ ہے جس میں چاندنی کی چمک اور سرخی کی دمک ہو ۔گویا سرخی و سفیدی کا امتزاج دنیوی نقطہ نظر سے حسین ترین رنگ تسلیم کیا گیا ہے۔

حُسنِ رنگت کااُخروی معیار

عالم آخرت میں اہل جنت کے نزدیک حسین ترین رنگ وہ رنگ ہے جس میں سفیدی کے ساتھ زردی جھلکتی ہو۔

دنیوی اور اخروی نقطہ نظر کے اعتبار سے حسن رنگت کے معیارات جدا جدا ہیں جو تطبیق نہیں رکھتے۔ اس عقدے کا حل صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درج ذیل بیانات سے مل جاتا ہے جن کے مطابق حسن رنگت کے دونوں مظاہر حسن مصطفوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں بدرجہ اتم موجودتھے۔چنانچہ حضرت علی Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ابیض مشربا بحمرة.8
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ سفیدی اور سرخی کا حسین امتزاج تھا۔

ابو امامہ باہلی فرماتے ہیں:

كان ابیض تعلوہ حمرة.9
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ سفیدی اور سرخی کا حسین مرقع تھا۔

حضرت انس Radi Allah Anho کی ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے :

كان لون رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اسمر.10
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رنگت (کی سفیدی) گندم گوں تھی۔

حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

ابیض كانما صیغ من فضة.11
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسفید رنگت والے تھے گویا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہو۔

اسی حوالہ سے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں:

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی بارگاہ میں سیاہ رنگ کی چادر پیش کی گئی توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اسے زیب تن کیا اور مجھے مخاطب ہوکر فرمایا:عائشہ Radi Allah Anha بتا ؤکیسی لگتی ہے؟میں نے عرض کیا:

ما احسنھا علیک یا رسول اللّٰه یشوب سوادھا بیاضک وبیاضک سوادھا.12
بہت ہی خوب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن کی سفیدی نے اس کی سیاہی کو اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سفیدی کو اس کی سیاہی نے دو بالا کردیا ہے۔

اسی طرح رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رنگت کو بیان کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

اما لون آنحضرت روشن وتاباں بود واتفاق دارند جمهور اصحاب بربیاض لون آں صلي اللّٰه عليه وسلم، ووصف كردند او رابابیض وبعضے گفتند كان ابیض ملیحا و در روایتے ابیض ملیح الوجه وایں احتمال دارد كه مراد وصف كه بیاض وملاحت و صفت زائدہ برائے بیان حسن وجمال ولذت بخشی و دلربانی دیدار جان افزاى وے صلي اللّٰه عليه وسلم باشد.13
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مبارک رنگ خوب روشن اور چمکدار تھا۔ صحابہ کرام Radi Allah Anhum اس پر متفق ہیں کہ حضور رحمتِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ سفید تھا۔ اسی چیز کو احادیث نبوی میں لفظ ’’ابیض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں "کان ابیض ملیحا"اور بعض روایات میں "ابیض ملیح الوجہ" جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان سے مراد بھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے رنگ کی سفیدی بیان کرنا مقصود ہے۔باقی ملاحت کا ذکر بطور صفتِ زائدہ ہے اور اس کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے تاکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زیارت سے جو لذت اور تسکینِ روح و جاں حاصل ہوتی ہے یہ ذکراس پر دلالت کرے۔

احادیثِ متعارضہ میں مطابقت

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رنگت کی متعلق مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے اور مختلف روایات مین تطبیق دیتے ہوئےامام ابو نعیم اصفہانی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وكان لونه صلي اللّٰه عليه وسلم لیس بالابیض الامھق والامھق الشدید البیاض الذى لا تضرب بیاضه الى الشھبة ولم یكن بالادم وكان ازھر اللون والازھر ھو الابیض الناصع البیاض الذى لا یشوبه صفرة ولا حمرة ولا شئى من الالوان وقد نعت بعض نعته بذلك ولكن انما كان المشرب حمرة ما ضحى منه للشمس والریاح وما كان تحت الثیاب فھو الابیض الازھر لا یشك فیه احد ممن وصفه بانه ابیض ازھر فمن وصفه بانه ابیض ازھر فعنى ما تحت الثیاب فقد اصاب ومن وصف ما ضحى منه للشمس والریاح بانه ابیض مشرب بحمرة فقد اصاب ولونه الذى لا یشك فیه البیاض الازھر وانما الحمرة من قبل الشمس والریاح.14
ام المومنین عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ خالص سفید (جس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو) نہ تھااور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamگندمی رنگ کے بھی نہ تھے (بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا)اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ چمکدار تھا جس میں زردی سرخی یا کسی دوسرے رنگ کا امتزاج نہ تھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعریف کرنے والوں میں سے بعض کا خیال بھی یہی ہے۔اس لئے دونوں قولوں کے درمیان یوں محاکمہ ہوسکتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ظاہری اعضا دھوپ اور آب وہوا سے متاثر ہوکر سرخی مائل سفید تھے مگر کپڑوں کے نیچے والے جسم کا رنگ چمکدار سفید تھا۔ (جس میں سرخی کی آمیزش نہ تھی) لہٰذا جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا رنگ چمکدار سفید قرار دیا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ اس سے مراد کپڑوں کے نیچے کا حصہ ہے جبکہ سرخی مائل سفید قرار دینے والا بھی درست کہتا ہے اس لئے کہ دھوپ اور ہوا کے اثر سے ظاہری اعضاء میں سرخی کی آمیزش ہوگئی تھی لہٰذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا اصل رنگ چمکدار سفیدی ٹھہرا جبکہ سرخی کا امتزاج آب وہوا کے باعث قرار پایا۔

اسی طرح امام عبد الرؤف مناوی Rehmatullah Alaihان تمام روایات کو بیان فرمانے کے بعد رقمطراز ہیں:

فثبت بمجموع ھذه الروایات ان المراد بالسمرة حمرة تخالط البیاض، وبالبیاض المثبت ما یخالط الحمرة، واما وصف لونه فی اخبار بشدة البیاض فمحمول علی البریق واللمعان كما یشیر الیه حدیث كان الشمس تحرك فی وجھه.15
ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ جن میں لفظ سمرہ کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو اور جن میں سفیدی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سفید رنگ ہے جس میں سرخی ہو اور بعض روایات میں جو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک رنگ کو بہت زیادہ سفید بیان کیا گیا ہے اس سے مراد اس کی چمک دمک ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے چہرہ انور میں آفتاب محو خرام رہتا تھا۔

گو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کی رنگت احمر وازہر دو الوان کے حسین امتزاج سے مرکب تھی۔ رب العالمین نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن دلنواز کو وہ منفرد اعزاز وامتیاز عطا کیا تھا کہ دنیوی واخروی معیارات حسن کے تمام جلوے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات میں مجتمع کردئیے گئے تھے۔ان روایات کو تطبیق دیتے ہوئے ملا علی قاری Rehmatullah Alaih "جمع الوسائل"میں امام ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaihکے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:

قال العسقلانی تبین من مجموع الروایات ان المراد بالبیاض المنفى ما لا یخالطه الحمرة والمراد بالسمرةالحمرة التى یخالطھا البیاض.16
امام عسقلانی Rehmatullah Alaihنے فرمایا ان تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صرف سفیدی سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی کی آمیزش نہ ہو اور سمرہ سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو۔

ان مذکورہ بالا روایا ت کا لب لباب یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamرب تعالیٰ کے حسن و جمال کا کرشمہ تھے۔ اللہ تعالیٰ جو کہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہےاسی لیے اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب نبی حضوراکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے جس قدر باطنی حسن و جمال کو پسند کرکے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو خاتم النبین کے منصب پر جلوہ افروز فرمایا اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو خاتم الجمال و کمال بناکر دنیا کے تمام حسینوں سے بڑھ کر خوبصورتی اور رعنائی عطا فرمائی تھی خواہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دورکے حسین ہو یا قیامت تک آنے والے حسن و جمال کے دعویدار ہوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کا مجموعہ بھی ہوتا ہے۔ اگر کہیں حسن و جمال پایا بھی جائے تو عموماً اس کے ساتھ شقاوت، جہالت، غرور، تکبر، شیخی یا دوسرا کوئی ایسا منفی وصف انسان کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے کہ اس کا حسن و جمال گہنا ہو کر رہ جاتاہے لیکن آقائے کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamوہ ماہتاب حسن و جمال ہیں کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا حسن و جمال اخلاق و کردار اور خِلقی و خُلقی اوصاف کے ساتھ ویسے ہی جگمگا رہا ہے جس طرح ہیرا (Diamond) ہر رخ اور ہر سمت سے جگمگا رہاہویعنی ہر عیب ، نقص، کمی و کجی سے مبّرا اور زمانہ میں یکتا ومنفرد تھے۔


  • 1  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 300
  • 2  مفتی ارشاد احمد قاسمی، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعۃ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:70
  • 3  علی بن حسن ابن عساکر، السیرۃ النبویۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:321
  • 4  مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2330، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:1027
  • 5  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 3355 ، ج -3، مطبوعۃ : دار القلم، بیروت، لبنان، 1981ء، ص :1303
  • 6  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان ، 1988ء، ص:11-13
  • 7  احمدبن حنبل ابو عبداللّٰه الشیبانی، مسند احمد، حدیث:23979، ج-39، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:215
  • 8  احمد بن حنبل شیبانی، مسند احمد، حدیث:944، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :116
  • 9  ابوبکر بن ہارون رویانی، مسند الرویانی، حدیث :1280، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، قاہرۃ، مصر، 1416ھ، ص:318
  • 10  محمد بن حبان، صحیح ابن حبان، حدیث :2683، ج -14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:197
  • 11  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:11، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:14-15
  • 12  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی ،القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:11
  • 13  الشیخ عبد الحق الدہلوی، مدارج النبوۃ، ج -1 ،مطبوعۃ: منشی لولکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)،ص:26
  • 14  ابو نعیم احمد بن عبداللّٰه الاصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ :دار النفائس، بیروت ،لبنان، 1986ء، ص:637
  • 15  عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی، حاشیہ برجمع الوسائل للمناوی، ج -1، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع ، کراتشی، باکستان، (لیس التارخ موجودًا) ، ص:13
  • 16  ایضاً

Powered by Netsol Online