encyclopedia

حضرت محمد ﷺ کی نشونما اور رضاعی مائیں

Published on: 27-Jun-2023

قدیم عرب میں یہ عام دستور تھا کہ جب بھی ان کی ہاں کسی بچے کی ولادت ہوتی تو وہ اس کی بہتر نشوونما کے لیے اس کو دیہی علاقوں میں پرورش کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۔ اس دورا ن ان بچوں کی رضاعت کا بندوبست ان علاقوں میں موجود پیشہ ور خواتین اجرت لے کر فرمایا کرتی تھیں جس سے ایک طرف تو بچوں کی نشوونما دیہاتی علاقوں کی شفاف آب وہوا میں ہوتی اور دوسری طرف ان کی غذا کا بندوبست ان علاقوں میں موجود غریب مگر محبت کرنے والی دایہ اور رضاعی ماؤں کے دودھ پلانے سے ہوتا تھا ۔ عرب کے اسی دستور کے مطابق جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضاعت اور پرورش کی ذمہ داری حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے سپرد کی گئی جس کو آپ Radi Allah Anha نے نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا۔

دیہی علاقوں میں نومولود بچوں کی نشوونما

اپنے بچوں کی پُرفضا ، شفاف اور بہتر آب و ہوا میں پرورش کروانے کے لیے عرب کے شہروں اور صحرائی علاقے کے لوگ اپنے بچوں کو دیہی اور قدرےسرسبز علاقوں میں بھیجا کرتے تھے ۔ 1روسائے عرب اپنے بچوں کو ان بدوی خواتین کے پاس بہتر نشوونما کے لیے اس لیے چھوڑ دیتے تا کہ وہ دیہاتی آب و ہوا میں پَل کر مضبوط اور صحت مند ہو سکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں رہنے سے جو دوسرا فائدہ ان بچوں کو ہوتا وہ ان کی زبان دانی یعنی ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کا ظہور ہونا تھا کیونکہ دیہاتی علاقوں کی زبان دانی ہر قسم کی بیرونی آمیزش سے پاک ہوتی تھی اور اس میں غیر عربی الفاظ کا دخل تقریباً نا پید ہوتا تھا ۔اس لیے اس ماحول میں پلنے والے بچے عربی زبان بنسبت دیگر بچوں کے بہتر اور اعلیٰ انداز میں بولا کرتے تھے ۔ 2اس بلاغتِ لسانی اور فصاحتِ کلامی کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں سیدنا ابوبکر صدیق Radi Allah Anho نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سےبڑھ کر بلیغ اور فصیح کلام کرنے والا کسی کو نہ پایا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جواباً ارشاد فرمایا تھا :

أنا أفصح العرب مید أنى من قريش، ونشأت في بنى سعد بن بكر. 3
کہ میں افصح العرب ہوں اور میں قریش میں سے ہوں اور میری پرورش بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے ۔

مذکورہ بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں کہ اہلِ مکّہ کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنی اولاد کے کھیل کود اور پرورش کے لیے دیہاتی زمین کا انتخاب کیا کرتے تھے اور ان کا یہ عمل قابلِ تعریف اور لائقِ تقلید تھا ۔ جدید دور میں موجود تعلیم و تربیت کے میدا ن سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ اگر نو مولود بچوں کی تربیت دیہی علاقوں میں کی جائے تو اس کے مثبت اثرات نہ صرف ان کی صحت اور مزاج پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی زبان دانی اور قادر الکلامی بھی دیگر بچوں کی نسبت منفرد اور اعلیٰ ہوتی ہے ۔ 4

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضاعی ماؤں کے اسما اور ان کی تعداد

عرب کے مروجہ دستور کے مطابق بدوی و دیہاتی خواتین مختلف ایام میں شہروں کا رخ کرتیں اور نومولود بچوں کو معمولی اجرت پر اپنے ساتھ اپنے گاؤں اور دیہات لے جایا کرتی تھیں۔ وہ وہاں پر ان بچوں کی رضاعت اور نشوونما کے انتظامات نہایت ہی محبت اور جانفشانی سے فرمایا کرتی تھیں اور جب بچے تقریبا ًدو سال کے ہو جاتے تو وہ ان کو ان کے والدین کے حوالے کر دیتیں جس کے بدلے میں وہ کوئی خاص رقم نہ وصول کرتیں البتہ جو رقم ان کو مل جاتی اس پر قناعت کر کے اپنا گزر اوقات کیا کرتی تھی ۔ 5

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت ہوئی تو ابتدائی سات (7) دنوں تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدہ یعنی حضرت آمنہRadi Allah Anha نے دودھ پلایا اور ان کے بعد یہ سعادت کئی دیگر خواتین کو حاصل ہوئی جن میں حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کا اسم مبارک سر ِفہرست ہے۔ جن خواتین نے حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے علاوہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دودھ پلایا ان میں حضرت ثویبہRadi Allah Anha جو کہ ابو لہب کی کنیز تھیں ،خولہ بنت المنذر ، ام ایمن جن کا نام برکہ بھی آیا ہے ، بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی تین خواتین، بنو سعد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور امّ فروہ رضی اللہ عنھنٌ شامل ہیں جن کی کُل تعداد تقریبا ً دس (10) کے قریب بنتی ہے ۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ سعادت حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے حصے میں آئی جنہوں نے تقریبا ً دو سال تک نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دودھ پلایا۔ 6مذکورہ بالا خواتین میں سے تین (3) خواتین کا ذکر مؤرخین نے بالتفصیل کیا ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

حضرت ثویبہ Radi Allah Anha

یہ ابو لہب کی کنیز تھیں جن کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی خوشخبری دینے کی وجہ سے ابو لہب نے آزاد کر دیا تھا ۔ 7آپRadi Allah Anha ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد باقاعدہ طور پر ہر ماہ ان کے لیے ایک وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جو ان کو پہنچادیا جاتا تھا ۔ 8آپ Radi Allah Anha کا وصال سات (7) ہجری میں ہوا۔

امّ ایمنRadi Allah Anha

حضرت امّ ایمن Radi Allah Anha کا اصل نام برکہ تھا 9لیکن آپ Radi Allah Anhaاپنے اصل نام کے بجائے اپنی کنیت امّ ایمن سے مشہور تھیں ۔ آپRadi Allah Anha اصلاً نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والدِ محترم حضرت عبداللہ Radi Allah Anho کی کنیز تھیں جو کہ وراثتاً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ Radi Allah Anha نے بچپن میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نہایت محبت اور جانفشانی سے دیکھ بھال فرمائی تھی جس کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ"حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے بعد یہ میری ماں ہیں"۔ 10جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نکاح حضرت خدیجۃ الکبریٰRadi Allah Anha سے ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ام ایمن Radi Allah Anha کو آزاد فرما دیا ۔ 11آپ Radi Allah Anha کا وصال مبارک حضرت عثمان غنی Radi Allah Anho کے دور خلافت میں اس وقت ہوا جب حضرت عمر Radi Allah Anho کے وصال کو فقط بیس (20) روز گزرے تھے۔

حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک فقط آٹھ (8) روز تھی اس وقت مکّہ میں کچھ خواتین اس غرض سے داخل ہوئیں کہ ان کو رضاعت کے لیے کچھ بچے میسّر آ جائیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha جن کا تعلق بنو سعد قبیلہ سے تھا وہ بھی ان خواتین میں شامل تھیں لیکن آ پ Radi Allah Anha کی خوشں بختی یہ تھی کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کفالت اور رضاعت کا تاج آپ Radi Allah Anhaکے سرِ مبارک پر سجایا گیا۔ 12آپ Radi Allah Anha کا قبیلہ بنو سعد، قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ تھا جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عمر ابن رضا کہالہ بیان کرتے ہیں :

بطن من هوازن، من قيس بن عيلان، من العدنانية، وهم: بنو سعد بن بكر بن هوازن بن منصور بن عكرمة بن خصفة بن قيس بن عيلان. من أوديتهم: قرن الحبال، وهو واد يجيء من السراة. ومن مياههم: تقتد. وهم أصحاب غنم. وشهر ناس منهم يوم جبلة. وهم حضنة النبي صلى الله تعالى عليه وسلم. وبعث بنو سعد سنة 9 هـ ضمام بن ثعلبة وافدا الى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ليجيب……13
قبیلہ ہوازن جس کا تعلق قبیلہ عدنان سے تھا وہ قیس ابن عیلان کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کا شجرہ نسب بنو سعد بن بكر بن ہوازن بن منصور بن عكرمہ بن خصفہ بن قيس بن عيلان ہے ۔ وہ سِرات سے آنے والے پہاڑی سلسلوں کے درمیان موجود وادی کے رہائشی تھے ۔ وہ جس چشمے سے پانی پیتے تھے اس کا نام" تقتد" تھا ۔ یہ لوگ ( پیشہ کے اعتبار سے ) چرواہےتھے ۔ یہ لوگ یومِ جبلہ سے اپنے تعلق کی وجہ سے مشہور ہوئے اور یہی وہ قبیلہ ہے جس میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پرورش پائی ۔ نو (9) ہجری میں بنو سعد قبیلہ کا ایک وفد ضمام بن ثعلبۃکی سربراہی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ملنے کے لیے آیا جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دست مبارک پر دین اسلام کو قبول کیا ۔۔۔

جب حضرت عبدالمطلب کی ملاقات حضرت حلیمہ سعدیہ سے ہوئی تو آپ نے ان کے نام اور خاندان سے متعلق تفصیلات کو ان سے طلب فرمایا ۔ جب آپ نے حضرت عبدالمطلب کو اپنا نام بتایا اور اپنے قبیلے بنو سعد کا تعرف پیش فرمایا تو حضرت عبدالمطلب مسکرا دیئے اور ارشادفرمایا : بہت خوب! سعادت اورحلم ( جمع ہوگئے ) ، یہ دونوں وہ عظیم صفات ہیں جو اپنے اندر ہر خیر کو سمیٹے ہو ئے ہیں ۔ 14اس کے بعد ہی حضرت عبدالمطلب نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو رضاعت اور پرورش کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہRadi Allah Anha کے حوالے کر دیا جائے ۔ آپRadi Allah Anha نے حضرت عبدالمطلب کی اس خواہش کو قبول فرمالیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لینے کے لیے حجرہ مبارک میں داخل ہو گئیں جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سفید دودھیا اونی لباس میں ملبوس تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نیچے ریشمی سبز چادر موجود تھی جس میں سے بھینی بھینی مشک کی خوشبو آ رہی تھی ۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha نے سوتے ہوئے اس معصوم ، خوبصورت اور نہایت ہی متبرک بچے کو دیکھا تو یکدم آ پRadi Allah Anha کے دل میں یہ چاہت پیدا ہوئی کہ آپ Radi Allah Anha بڑھ کر اس بچے کو چوم لیں لیکن آپ Radi Allah Anha اس معصوم بچے کی نیند کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے آپ Radi Allah Anhaنے چومنے سے گریز فرمایا لیکن آپ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو چھوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ جب آپRadi Allah Anha نے اپنی انگلی سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو چھوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی آنکھیں مبارک کھول دیں اور حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ آپ Radi Allah Anha نے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس دلکش مسکراہٹ کو دیکھا تو آپRadi Allah Anha سے رہا نہ گیا اور آپ نے یکدم بڑھ کر اس معصوم بچے کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس کے بعد وہ اس با برکت بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں ۔ 15

ان دنوں حضرت حلیمہ Radi Allah Anha کے سینے میں اپنے ایک بیٹے کے لئے بھی دودھ موجود نہیں تھا اورنہ ہی آپRadi Allah Anhaکے پاس موجود جانوروں کے تھنوں میں اتنا دودھ دستیاب تھا جو اس بچے کی رضاعت کے لیے کافی ہو سکے لیکن جب آپ Radi Allah Anha نے رضاعت کے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گود لیا توآپ Radi Allah Anha کے وجود مبارک میں اتنا دودھ بھرگیا جو کہ نا صرف رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضاعت کے لیے کافی ہوتا تھا بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رضاعی بھائی کے لیے بھی کافی و شافی ہو جایا کرتا تھا۔اس کے علاوہ وہ جانور اور مویشی جن کے تھن سوکھ گئے تھے، آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد مبارکہ کے ساتھ ہی وہ نہ صر ف صحت مند و توانا ہوگئے بلکہ ان کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے تھے ۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ان خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ فرمایا کرتی تھیں کہ جب وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دودھ پلاتیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی دائیں طرف پیش فرماتیں جس سے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دودھ نوش فرمایا کرتے تھے مگر جب وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی بائیں جانب سے دودھ پلانے کی کوشش کرتیں تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنا رخِ مبارک پھیر لیا کرتے تھے کیونکہ اس پستان سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رضاعی بھائی دودھ پیا کرتے تھے اور یہ بات عدل کے خلاف تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کے حصے سے دودھ پئیں۔ 16

حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha نے تقریبا ً چوبیس (24) ماہ کا طویل عرصہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رضاعت و کفالت فرمائی 17یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مکّہ واپسی کا وقت آن پہنچا ۔ جب آپ Radi Allah Anha حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لے کر حضرت آمنہ Radi Allah Anha کے پاس پہنچیں توفرطِ محبت سے اس قدر روئیِں کہ حضرت آمنہ Radi Allah Anha مجبور ہو گئیں کہ وہ مزید کچھ عرصہ کے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے پاس رہنے دیں۔ آپ Radi Allah Anhaنے مزیدکچھ عرصہ تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نشوونما فرمائی اور پھر واقعۂِ شق الصدر کے بعد بلآخر خوف سے مجبور ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کی والدہ ماجدہ کے حوالے فرماد یا۔ 18آپ Radi Allah Anha کا وصال نو (9) ہجری میں ہوا اور آپRadi Allah Anha کی قبر مبارک جنت البقیع میں موجود ہے۔ 19


  • 1  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ:دار ابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 72
  • 2  Akber Shah Najeebabadi (2000), The History of Islam, Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 94.
  • 3  أبو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي، شرح السنة، ج- 4، مطبوعۃ: المكتب الإسلامي، دمشق، بيروت، 1983م، ص: 202
  • 4  Dr. Ali Muhammad As-Sallaabee (2005), The Noble Life of the Prophet ﷺ (Translated by Faisal Shafeeq), Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 88.
  • 5  پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاءالنبیﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، ص: 66
  • 6  امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-۱، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،2013م، ص: 375-378
  • 7  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج- 2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 183
  • 8  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-5، مطبوعۃ: مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 123
  • 9  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج- 8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1990م، ص: 179
  • 10  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 290
  • 11  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ، مطبوعۃ:دار النفائس، بیروت، لبنان،1986م، ص: 164
  • 12  شیخ سید احمد بن زینی دحلان المکی، السیرۃ النبویۃ(مترجم: علامہ ذوالفقار علی)،ج-۱ ،مطبوعۃ: ضیاء القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2014م، ص: 64۔65
  • 13  عمر بن رضا عبد الغني كحالة، معجم قبائل العرب القديمة والحديثة، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 513-514
  • 14  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:131
  • 15  ایضاً، ص:132
  • 16  پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاءالنبیﷺ، ج- 2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، ص:68
  • 17  محمد بن صامل السلمي، عبد الرحمن بن جميل قصاص، سعد بن موسى الموسى و الآخرین، صحيح الأثر وجميل العبر من سيرة خير البشر (ﷺ)، مطبوعۃ: مكتبة روائع المملكة، جدة، سعودیۃ، 2010م، ص: 82
  • 18  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية،بیروت،لبنان،1996م، ص: 280
  • 19  عبد المصطفٰی اعظمی، جنتی زیور، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ باب المدینہ،کراچی، پاکستان، 2014م، ص: 512

Powered by Netsol Online