encyclopedia

رسول الله ﷺ کی وِلادَت اور حضرت عبد المطلب

Published on: 14-Mar-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:16، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 496-410)

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دادا محترم حضرت عبد المطلب کی مسرت وشادمانی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر اداکرنے کے لیے آپ کے کہےہوئے اشعار کو کتبِ سیر میں مختلف انداز سے نقل کیا گیا ہے۔سیّدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے جناب عبد المطلب ہاشمیکا رشتہ الفت و مودت شروع سے ہی استوار تھا۔ بالعموم دادا اور پوتے کا رشتہ ولادت کے بعد قائم ہوتا ہے لیکن رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ان کا تعلق قبل از ولادت ہی مضبو ط ہوگیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عظیم الشان پوتا دُرِّ یتیم تھا۔ والدِ ماجد جناب عبد اللہ ہاشمی Radi Allah Anhoکی ولادتِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے قبل وفات نے داد ااور پوتے کا تعلق بہت مضبوط کردیا تھا اور قبل ازیں ان کی ذمہ داریاں کم نہ تھیں کہ صاحبزاہ حضرت عبد اللہ Radi Allah Anhoکے وصال کی وجہ سے پوتے حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داریاں بھی اب آپ کو ہی نبھانی تھیں۔بوڑھے دادا اور نوخیز پوتے کا رشتۂ الفت پوتے کی ولادت سے پہلے جو قائم ہوا تو وفاتِ جد تک قائم و دائم رہا۔ عام سیرت نگاروں نے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پرورش و پرداخت کے بعض رسمی عناوین قائم کرکے تاریخی بہاؤ کو چند بندوں کے اندر محصور کردیا ہے۔ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خواہ اپنی والدہ ماجدہ Radi Allah Anhaکی گود میں رہے ہوں یا رضاعی ماں کے گھر، مکّہ میں والدۂ محترمہ Radi Allah Anha کے ساتھ قیام کیا ہو یا سفر و حضر میں دولتِ پرورش پائی ہویہ تمام ہی اصلاً دادا کی پرورش و پرداخت کا زمانہ تھا۔ ابتدائی حیات کے آٹھ(8) سال سارے کے سارے دادا عبد المطلب ہاشمی کی پرورش و پرداخت کے نام معنون تھے۔1

مشاہداتِ حضرت عبدالمطلب

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے داد ا کی یہ محبت جو پدرانہ شفقت سے بھی کئی گنا بڑھ کر تھی قبل از ولادتِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی قائم ودائم ہوگئی تھی کیونکہ روایت میں منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے محترم دادا حضرت عبد المطلبکو خواب ہی میں اس بات کی نشاندہی کردی گئی تھی کہ آپ کی پشت سے ایک ایسا ولد متولد ہوگا جس کی تعلیمات سے عرب وعجم اس کے مطیع و فرمانبردار ہوجائیں گےچنانچہ اسی خواب کو نقل کرتے ہوئے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

كان عبد المطلب قد رأى فى المنام كان سلسلة من فضة قد خرجت من ظھره لھا طرف فى السماء وطرف فى الأرض وطرف فى المشرق وطرف فى المغرب ثم عادت كأنھا شجرة،على كل ورقة منھا نور وإذا أھل المشرق والمغرب كانھم يتعلقون بھا فقصھا فعبرت له بمولود يكون من صلبه يتبعه أھل المشرق وأھل المغرب، ويحمده أھل السماء وأھل الأرض فلذلك سماه محمدا مع ما حدثته به أمه آمنة حين قال لھا: انك حملت بسيد ھذه الأمة فإذا وضعتيه فسميه محمدا.2
حضرت عبد المطلب نے خواب میں دیکھا کہ چاندی کی ایک زنجیر آپکی پیٹھ سے نکلی ہے،اس کا ایک کنارہ آسمان کی طرف ہے اور دوسرا کنارہ زمین کی طرف ہے،ایک کنارہ مشرق کی طرف اور دوسرا کنارہ مغرب کی جانب ہے،پھر وہ لوٹ کر ایک درخت کی شکل اختیار کرلیتی ہے،جس کے ہر پتہ پر نورہےاور مشرق ومغرب والے اس سے چمٹے ہوئے ہیں۔حضرت عبد المطلب نے یہ خواب بیان کیاتو ان کو اس خواب کی تعبیر یوں بتائی گئی کہ آپ کی پشت سے ایک بچہ(یعنی آپ کا پوتا)پیدا ہوگا،جس کی پیروی تمام مشرق ومغرب والے کریں گےنیز آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کریں گےاسی لیے انہوں نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نام محمد رکھا۔نیز حضرت عبد المطلب کونبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی والدۂ محترمہ حضرت سیّدہ آمنہRadi Allah Anha نے بتایا تھا جب انہیں کسی نے کہا:بلا شبہ آپRadi Allah Anha اس امت کے سردار کو حمل میں لیے ہوئے ہیں پس جب آپ انہیں جنیں تو ان کا نام "محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )"رکھنا۔3

مذکورہ واقعہ کی تائید مواہب کے شارح علامہ زرقانی نے اپنی شرح میں کی ہے اور اس کی کچھ جزئیات کو بھی ذکر کیا ہے4 اسی طرح اس واقعہ کو مزید تفصیل کے ساتھ نقل کرتے ہوئے ابو نعیم تحریر فرماتے ہیں:

عن عبد المطلب، قال: بينا أنا نائم فى الحجر إذ رأيت رؤيا ھالتنى، ففزعت منھا فزعا شديدا، فأتيت كاھنة قريش وعلى مطرف خز وجمتى تضرب منكبى، فلما نظرت إلى عرفت فى وجھى التغير، وأنا يومئذ سيد قومى، فقالت: ما بال سيدنا قد أتانا متغير اللون ھل رأيت من حدثان الدھر شيئا؟ فقلت: بلى، وكان لايكلمھا أحد من الناس، حتى يقبل يدھا اليمنى، ثم يضع يده على أم رأسھا يبدو بحاجته، ولم أفعل، لأنى كنت كبير قومى، فجلست، فقلت: إنى رأيت الليلة وأنا نائم فى الحجر، كان شجرة نبتت قد نال رأسھا السماء، وضربت بأغصانھا المشرق والمغرب، وما رأيت نورا أزھر منھا أعظم من نور الشمس سبعين ضعفا، ورأيت العرب والعجم ساجدين لھا وھى تزداد كل ساعة عظما ونورا وارتفاعا، ساعة تزھر، ورأيت رھطا من قريش قد تعلق بأغصانھا، ورأيت قوما من قريش يريدون قطعھا، فإذا دنوا منھا أخرھم شاب لم أر قط أحسن منه وجھا، ولا أطيب منه ريحا، فيكسر أضلعھم فقال: النصيب لھؤلاء الذين تعلقوا بھا وسبقوك إليھا، فانتبھت مذعورا فزعا، فرأيت وجه الكاھنة قد تغير، ثم قالت: لئن صدقت رؤياك ليخرجن من صلبك رجل يملك المشرق والمغرب، ويدين له الناس، ثم قال لأبى طالب: لعلك تكون ھذا المولود، فكان ابو طالب يحدث بھذا الحديث والنبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد خرج، ويقول: كانت الشجرة.5
حضرت عبد المطلب سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:میں حرم کعبہ میں محو خواب تھا میں نے ایک دہشت ناک خواب دیکھا اور نہایت خوف میں مبتلا ہوگیا۔میں قریش کی ایک کاہنہ عورت کے پاس گیا۔میں نے کمبل اوڑھ رکھا تھا اور میری زلفیں کندھوں تک لٹک رہی تھیں(پراگندہ حال تھیں)۔کاہنہ نے میرے چہرہ سے افسردگی محسوس کرلی میں ان دنوں اپنی قوم کا سردار تھا۔کہنے لگی ہمارے سردار کا کیا حال ہےاور چہرہ کا رنگ کیوں بدلا ہوا ہے۔کوئی حادثہ تو نہیں ہوگیا؟میں نے کہا ہاں۔ان دنوں لوگوں کی عادت یہ ہوتی تھی کہ ہر آنے والا شخص سوال کرنے سے قبل اس کاہنہ کا دایاں ہاتھ چومتااور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنا مدعا بیان کرتا۔مگر میں نے اپنے مقام و مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئےایسا نہیں کیا اور سیدھا بیٹھ گیا۔میں نے کہا آج رات میں نے حرم کعبہ میں سوتے ہوئےخواب دیکھا کہ زمین سے ایک درخت نمودار ہواجس کا سر آسمان تک جا پہنچااور ٹہنیاں مشرق و مغرب تک پھیل گئیں۔وہ درخت سورج سے ستر گنا زیادہ روشن و منور تھا۔پھر کیا دیکھتا ہوں کہ سب عرب و عجم اسے سجدہ کر رہے ہیں اور اس کا نور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔میں نے دیکھا کہ قریش کے کچھ لوگ اس کی ٹہنیوں سے لٹک گئےاور قریش ہی کے کچھ لوگ اس کو کاٹنے کے لیے لپکے۔لیکن جب قریب ہوئے تو ایک نہایت حسین نوجوان نے جس سے بڑھ کر میں نے خوبصورت اور بہتر خوشبو والا کوئی نوجوان نہیں دیکھا،انہیں مار بھگایا۔ان کی پسلیاں توڑ دیں اور آنکھیں باہر نکال دیں۔میں نےبھی ہاتھ بڑھایا کہ اس کی کسی ٹہنی کو تھام لوں مگر اس نوجوان نے مجھے روک دیا۔میں نے کہا کس کا نصیب ہے؟کہنے لگا انہی کا نصیب ہے جو اس سے لٹک گئے ہیں اور تم سے سبقت لے جا چکے ہیں۔میں گھبراکر خواب سے بیدار ہوگیا۔یہ سنتے ہی کاہنہ کا چہرہ زرد پڑنے لگا اور وہ یوں گویاہوئی:اگر تمہارا خواب سچا ہےتو تمہاری پشت سے وہ شخص پیدا ہوگاجس کی حکومت مشرق ومغرب تک ہوگی اور لوگ اس کے دین پر چلیں گے۔آپ نے یہ سن کر حضرت ابو طالب کے متعلق کہا کہ شاید وہ ہوں۔جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اعلان نبوت فرمایاتو حضرت ابو طالب کہا کرتے تھےکہ قسم بخداوہ درخت ابو القاسم الامین(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )کی شکل میں نمودار ہواہے۔ 6

اس روایت کو علامہ جامی نے "شواہد النبوۃ "میں 7 اور امام سہیلی نے "روض الانف" میں ان الفاظ کی زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے:

ثم عادت كأنھا شجرة على كل ورقة منھا نور.8
وہ درخت بڑھنے کے بعد واپس اپنی جگہ لوٹ گیا گویا کہ اس کے ہر پتہ پر نورتھا۔

یعنی حضرت عبد المطلب کو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت سے قبل ہی مذکورہ خواب کےذریعہ اس بات کی خبر دے دی گئی تھی کہ آپ کے ہاں ایک متبرک صاحبزادہ کی ولادت ہوگی۔قبل از ولادتِ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس پُر ہیبت خواب نے بھی دادا کے دل میں اپنے پوتے کی شان وعظمت ورفعت اور الفت ومحبت پیدا کردی تھی۔

وجودِ عبد المطلب میں ضیاء ِ محمدیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

حضرت عبد المطلب کی جبین مبارک میں رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نورِ مبارک چمکتا تھا جس سے آپ کی وجاہت و منزلت قریش کے درمیان کافی بلند وبالا تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ باقی سارے سردارانِ مکّہ کے مقابلہ میں نہایت قدرومنزلت کے حامل تھے چنانچہ اس حوالہ سے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

عن كعب الاحبار أن نور رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لما صار إلى عبد المطلب وأدرك نام يوما فى الحجر فانتبه مكحولا مدھونا، قد كسى حلة البھاء والجمال، فبقى متحيرا لا يدرى من فعل به ذلك، فأخذه أبوه بيده ثم انطلق به إلى كھنة قريش فأخبرھم بذلك، فقالوا له: اعلم أن إله السماوات قد أذن لھذا الغلام أن يتزوج، فزوجه قيلة فولدت له الحارث ثم ماتت، فزوجه بعدھا ھند بنت عمرو.9
جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا نورحضرت عبد المطلب کی طرف منتقل ہوااور وہ بالغ ہوچکے تھےتو ایک دن آپ حطیم میں آرام فرما ہوئے،جب بیدار ہوئےتو سرمہ اور تیل لگا ہوا تھااور آپ نے نہایت عمدہ و خوبصورت جبہ زیبِ تن فرمایا ہوا تھا۔آپحیران ہوگئے اور آپ کو معلوم نہ ہوسکاکہ یہ کام کس نے کیاہے۔آپ کے والد نے آپ کا ہاتھ پکڑااور قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور پورا واقعہ بتایا۔انہوں نے کہا جان لو کہ آسمان کے معبود نے اس غلام کو شادی کی اجازت دی ہے۔چنانچہ حضرت عبد المطلب کے والد نے قیلہ نامی خاتون سے ان کی شادی کرادی جن سے حارث نامی بیٹا ہوا اور فوت ہوگیا پھراس کے بعد ہند بنت عمرو سے نکاح کیا۔ 10

اس واقعہ کے بعد حضرت عبد المطلب کے والد نے ان کی شادی کروادی جس سےحضرت عبد اللہRadi Allah Anho یعنی ابو النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam متولد ہوئےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ عبد الحق محدث دہلوی Rehmatullah Alaih مدارج میں تحریر فرماتےہیں:

چون كشائش واو حق تعالى عبد المطلب را از شر ابرهبه ورجوع كرد ابرهبه خائب و خاسر خواب میکرد عبد المطلب روزے درحجر ناگاہ خوابى دید عظیم وبیدار شد ترسان ولرزان پس خواند قصّه این خواب رابر كاھنان قریش پس گفتند اورا كاھنان اگر راست افتد این خواب تو ھر آئینه بیرون مى آید از پشت توكسيكه ایمان مى آرند بوے اھل آسمان وزمین پیدا میگردودر مردم علامتى آشکارا پس تزویج كرد عبد المطلب فاطمه را وبار دار شد فاطمه بعبد اللّٰه ذبیح والد رسول خدا صلى اللّٰه عليه وسلم .11
جب حق تعالیٰ نے ابرہہ کے شر سے حضرت عبدالمطلب کو نجات بخشی تو ایک دن حضرت عبدالمطلب حجرہ (نامی جگہ)میں سو رہے تھے انہوں نے ایک بہت بڑا خواب دیکھا جس سے وہ خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنا خواب قریش کے کاہنوں سے بیان کیا توکاہنوں نے جواب دیا کہ اگر تمہارا خواب سچ ہے تو یقیناً تمہاری پشت سے کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جس پر تمام زمین و آسمان والے ایمان لائیں گے اور اس کی نشانیاں خوب ظاہر و روشن ہوں گی ۔اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے فاطمہ سے نکاح کیا وہ حضرت عبداللہ ذبیح (یعنی حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والد ماجد) سے حاملہ ہوئیں۔12

اس طرح وہ نور جو حضرت عبد المطلب کی جبین سعادت میں منور تھا وہ حضرت عبد اللہ یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے والد ماجد کی صورت میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دادی میں منتقل ہوگیا۔ اسی طرح منقول ہے کہ جب ابرہہ کعبہ کو ڈھانے کےلیے مکّہ مکرّمہ آیا تو حضرت عبدالمطلب نے قریش کو اسی نور مبارک کی بنا پر تسلی دی چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

لما قدم أبرھة ملك اليمن من قبل أصحمة النجاشى ھدم بيت اللّٰه الحرام وبلغ عبد المطلب ذلك قال: يا معشر قريش لايصل إلى ھدم البيت لأن لھذا البيت ربا يحميه ويحفظه ثم جاء أبرھة فاستاق إبل قريش حتى طلع جبل ثبير فاستدارت دائرة غرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على جبينه كالھلال واشتد شعاعها على البيت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب إلى ذلك قال: يا معشر قريش: ارجعوا فقد كفيتم ھذا الأمرفو اللّٰه ما استدار ھذا النور منى إلا أن يكون الظفر لنا فرجعوا متفرقين.13
جب اصمحہ ناشی کی طرف سے مقرر کردہ یمن کا بادشاہ "ابرہہ"بیت اللہ شریف کوگرانے کے لیےآیا اورحضرت عبد المطلب کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا:اے قریش کے لوگو!وہ ا س گھر کوگرا نہیں سکے گاکیونکہ اس گھر کا ایک رب ہے جو اس کو پناہ میں لےگااور اس کی حفاظت کرےگا۔پھر ابرہہ آیا اور قریش کے اونٹ اور بکریاں لے گیا جن میں حضرت عبد المطلب کے چارسو اونٹ بھی شامل تھے۔حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کے ہمراہ" ثبیر" نامی پہاڑ پر تشریف لے گئے۔نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نور مبارک نے ان کی پیشانی پر چاند کی طرح ایک دائرہ بنایا جس کی شعاعیں بیت اللہ شریف پر پڑنے لگیں جیسے چراغ کی شعاعیں ہوتی ہیں۔جب حضرت عبد المطلب .نے یہ منظر دیکھاتو فرمایا:اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو اس معاملہ میں تمہاری مدد کردی گئی۔ اللہ کی قسم !جب بھی یہ نور دائرے کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے چنانچہ وہ الگ الگ واپس ہوگئے۔ 14

اس نور مبارک کی بدولت اس طرح کی کامیابیاں قریش کو وقتاً فوقتاً نصیب ہوتی رہی ہیں کیونکہ یہ نور فی الحقیقت اس ذاتِ عالی کا تھا جو کائنات کےلیے رحمۃ للعالمین ہیں۔

حضرت عبد المطلب سے مشک کی مہک

جس وقت نور نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت عبد المطلب کی جبین میں موجود تھا اس دوران آپ کے وجودِ مسعود سے کستوری کی مہک آیا کرتی تھی اوراس وقت اہلیانِ مکّہ قحط کے دنوں میں آپ کے توسل سے ہی بارانِ رحمت طلب کیا کرتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

وكان عبد المطلب يفوح منه رائحة المسك الإذفر ونور رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يضىء فى غرته، وكانت قريش إذا أصابھا قحط تأخذ بيد عبد المطلب فتخرج به إلى جبل ثبير فيتقربون به إلى اللّٰه تعالى، ويسألونه أن يسقيھم الغيث فكان يغيثھم ويسقيھم ببركة نور محمد صلى اللّٰه عليه وسلم غيثا عظيما.15
حضرت عبد المطلب سے اذفر(ایک قسم کی)کستور کی خوشبو آتی تھی اور ان کی پیشانی میں نورِ مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چمکتا تھا۔جب قریش کو قحط پہنچتا تو وہ حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho کا ہاتھ پکڑ کرثبیر نامی پہاڑی کی طرف لے جاتے اور ان کے توسل سےاللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتےنیز بارش کے لیے دعاکرتےتو نورِ محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کو بہت زیادہ بارش عطا فرماتا۔16

حضرت عبد المطلب کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ آپ اور آپ کی قوم کو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے طفیل رحمتوں سے نوازا گیا تھابلکہ کتب سیر میں ا س طرح کے کئی واقعات موجود ہیں۔ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لڑکپن کی حالت میں بھی ایساواقعہ رونماء ہوا تھا چنانچہ ابن سعد روایت کرتے ہیں:

رقيقة بنت أبى صيفى كانت لدة عبد المطلب قالت: تتابعت على قريش سنون ذھبن بالأموال وأشفين على الأنفس قالت: فسمعت قائلا يقول فى المنام: يا معشر قريش! إن ھذا النبى المبعوث منكم وھذا إبان خروجه وبه يأتيكم الحيا والخصب فانظروا رجلا من أوسطكم نسبا طوالا عظاما أبيض مقرون الحاجبين أھدب الأشفار جعدا سھل الخدين رقيق العرنين فليخرج ھو وجميع ولدہ وليخرج منكم من كل بطن رجل فتطھروا وتطيبوا ثم استلموا الركن ثم ارقوا رأس أبى قبيس ثم يتقدم ھذا الرجل فيستسقى وتؤمنون فانكم ستسقون فأصبحت فقصت رؤياھا عليھم فنظروا فوجدوا ھذه الصفة صفة عبد المطلب فاجتمعوا إليه وخرج من كل بطن منھم رجل ففعلوا ما أمرتھم به ثم علوا على أبى قبيس ومعھم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الظلف والخف وأشفت على الأنفس فأذھب عنا الجدب وائتنا بالحيا والخصب! فما برحوا حتى سالت الأدوية وبرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سقوا. 17
رقیقہ بنت ابو صفیہ جو حضرت عبد المطلب کے ساتھ پلی بڑی تھیں وہ کہتی ہیں:قریش پر ایک مرتبہ ایسی خشک سالیاں گزریں جو مال و منال سب(اپنے ساتھ)لے گئیں اور جان پر آبنی۔میں نے انہی دنوں ایک شخص کو خواب میں کہتے سنا :اے قریش کی جماعت یہ پیغمبر جو مبعوث ہونے والا ہےتم ہی لوگوں میں سے ہوگا۔اس کے ظہورکا یہی زمانہ ہے،اسی کے طفیل تمہیں فراخی وکشائش نصیب ہوگی۔دیکھو ایسا شخص تلاش کرو جو تم سب میں معزز خاندان کا ہو،بلند وبالا ہو،معظم ہو،بھاری بھرکم ہو،گورا چٹا ہو،اس کی بھویں جڑی ہوں،پلکیں دراز ہوں،گھونگریالے بال ہوں،رخسار بھرے ہوں،پتلی ناک ہو۔اس کی اولاد اور تم میں سے ہر ایک گھرانے کا ایک ایک فرد نکلے،سب کے سب پاکی حاصل کرو،خوشبوئیں لگاؤ،رکنِ حرم کو بوسہ دو،کوہ قبیس کی چوٹی پر چڑھ جاؤ،پھر وہ شخص آگے بڑھے،بارش کے لیے دعا کرےاور تم سب آمین کہو۔ایسا کروگے تو سیراب کردیے جاؤگے۔رقیقہ نے اس خواب کا واقعہ صبح لوگوں میں بیان کردیا۔سب نے دیکھا کہ وہ صفت اور حلیہ جو خواب میں بیان کیا گیا ہےعبد المطلب کا ہے۔سب لوگ انہی کے پاس جمع ہوگئے۔ہر گھرانے سے ایک ایک شخص نکلا اور جو حکم ملا تھا اس پر عمل کیا۔پھر جبل ابو قبیس پر چڑھ گئے،ساتھ میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی تھے جو اس وقت لڑکپن میں تھے۔حضرت عبد المطلب آگے بڑھے اور دعاء کی:یا اللہ!یہ تیرے بندے اور بند ے زادے ہیں،یہ تیری کنیزیں اور کنیز زادیاں ہیں،تو دیکھ رہا ہےکہ ہم پر کیا مصیبت نازل ہے۔یہ خشک سالیاں ایسی پڑیں کہ اس نے تمام جانوروں کو ہلاک کرڈالاجو پنجے اور سم رکھتے تھے اور اب تو جانوں پر آبنی ہے۔یاللہ!ہم سے اس قحط کو دفع کر،ابرِ رحمت برسا اور فراخی عطا فرما۔لوگ ہنوز واپس بھی نہ ہوئے تھےکہ اس قدر مینہ برسا اور اتنی بار ش ہوئی کہ وادیاں جاری ہوگئیں،نالے بہنے لگے۔رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی کے طفیل ان سب کو سیرابی نصیب ہوئی۔ 18

اسی روایت کو صاحب روضۃ الانف نے بھی نقل کیا ہے جس میں کچھ الفاظ کی زیادتی بھی ہے اور آخر میں حضرت عبد المطلب کی دعا کو یوں نقل کیاگیا ہے:

فقام عبد المطلب فاعتضد ابن ابنه محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم فرفعه على عاتقه وھو يومئذ غلام قد أيفع أو قد كرب ثم قال: اللّٰھم ساد الخلة وكاشف الكربة انت عالم غير معلم ومسئول غير مبخل وھذه عبداؤك وإملوك بعذرات حرمك يشكون إليك سنتھم فاسمع اللّٰھم وأمطر علينا غيثا مريعا مغدقا فما راموا، والبيت حتى انفجرت السماء بمائھا وكظ الوادى بثجيجه.19
حضرت عبد المطلب کھڑےہوئے پھر اپنے پوتے (سیّدنا)محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )کو تھاما اور اپنے کندھوں پر بٹھالیا۔ وہ اس دن بالغ لڑکے تھے یا قریب البلوغ تھے پھر عرض کیا: اے اللہ مفلسی کو ختم کرنے اور غموں کو دور کرنے والے،تو از خود جاننے والا ہے نہ کہ تجھے بتایا جائے اور تو ہی فریاد رس ہے نہ کہ تنگی والا،یہ تیرے بندے اور بندیاں تیرے حرم کے پردوں کو تھامے ہوئے ہیں جو تجھ سے اپنی قحط سالی کی شکایت کرتے ہیں تو اے اللہ فریا د کو سن لے اور ہم پر ایسی بارش برساجو نفع بخش اور موسلا دھار ہو۔بیت اللہ کی قسم وہ ابھی دعا ختم کرنے نہ پائے تھے یہاں تک کہ آسمان اپنے پانی سمیت پھٹ پڑا اور وادی رات بھر موسلا دھار پانی سے بہتی رہی۔

اسی طرح ایک اور موقع پر بھی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہی بدولت جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لڑکپن کی عمر میں تھے قریش مکّہ کو قحط سے نجات دی گئی تھی۔چنانچہ اس واقعہ کو نقل کرتےہوئے صاحبِ سبل الھدی تحریر فرماتےہیں:

وقد استسقى ابو طالب بوجه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقد أخرج ابن عساكر قال: قدمت مكة وھم فى قحط فقال قريش: يا أبا طالب أقحط الوادى وأجدب العيال فھلم فاستعد! فخرج ابو طالب ومعه غلام كأنه شمس دجن تجلت عنه سحابة قثماء حوله أغيلمة فأخذه ابو طالب فألصق ظھرہ بالكعبة ولاذ بإصبعه الغلام وما فى السماء قزعة فأقبل السحاب من ھھنا وھھنا وأغدق واغدودق وانفجر الوادى وأخصب النادى والبادى. 20
اور تحقیق حضرت حضرت ابو طالب نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے روئے اقدس کے طفیل بارش کو طلب کیا ہے۔پس تحقیق ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے کہ راوی کہتے ہیں:میں مکّہ آیا جبکہ اہل مکّہ خشک سالی میں تھے تو اہل قریش نے کہا:اے ابو طالب وادی بنجر ہوگئی اور خاندان قحط زدہ ہوگیا لہذا چلیں اورکچھ مدد کریں۔ حضرت ابو طالب نکلے اور آپ کے ساتھ ایک لڑکا تھا جو گويا ابر آلود دن کا سورج تھا جس سے غبار آلود بادل ظاہر ہورہے تھےاور اس کے ارد گرد لڑکے تھے۔ حضرت ابو طالب نے اس بچے کو اٹھایا اور اس کی پیٹھ کعبہ سے لگائی اورآپ کی انگلی کو وہ بچہ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا جبکہ آسمان میں کوئی بادل کا ٹکڑا تک نہیں تھا(یعنی مطلع بالکل صاف تھا اور بارش کے کوئی آثار نہیں تھے)کہ اچانک یہاں وہاں سے بادل امنڈ آئے پھر بارش ہوئی اورموسلا دھار بارش ہونے لگی یہاں تک کہ وادی (پانی سے)بہنے لگی اور شہر و دیہات سب ہی سرسبز و شاداہوگئے۔

حضرت ابو طالب نے اسی موقع پر فی البدیہ چند اشعار بھی کہے تھےجس کا سب سے مشہور مصرعہ یہ ہے:

وأبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمة للأرامل.21

وہ سفید چہرہ والے جن کے چہرہ انور کے طفیل بارش طلب کی جاتی ہے۔وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کی عزت کے محافظ ہیں۔

یہ نور مبارک کی سعادتیں تھیں کہ قریش مکّہ کو اس نور مبارک کی برکتوں کی وجہ سے کئی بار قحط سالی سے نجات دی گئی،غموں اور دکھوں کا مدوا ہوا اورسکھ،راحت اور آسودگی ہر سو پھیل گئی۔

حضرت عبد المطلب کی مسرت

رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے بعد جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کی خبرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےجدّ امجد حضرت عبد المطلب کو دی گئی تو جنابِ حضرت عبد المطلب کی خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ مرحوم صاحبزادہ کی جوان سالہ بیوہ کے آنگن میں ایک بے نظیر پھول کھلا جس کے دم قدم سے ہر سو خوشبو اور خوشیوں کی بہار آگئی۔اسی خوشی کو بیان کرتے ہوئے ابن سعد نقل فرماتے ہیں:

لما ولدت آمنة بنت وھب رسول اللّٰه أرسلت إلى عبد المطلب فجاءه البشير وھو جالس فى الحجر معه ولده ورجال من قومه فأخبره أن آمنة ولدت غلاما فسر ذلك عبد المطلب وقام ھو ومن كان معه فدخل عليھا فأخبرته بكل مارأت وما قيل لھا وما أمرت به قال: فأخذه عبد المطلب فأدخله الكعبة.22
جب سیّدہ آمنہ بنت وہب Radi Allah Anhaرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادتِ باسعادت سے مشرف ہوئیں تو حضرت عبد المطلب کے پاس اس کی خوشخبری بھجوائی۔خوشخبری دینے والا حضرت عبدالمطلب کے پاس آیا جبکہ آپ مقام حجر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے اور قوم کے افراد بھی تھے تو خوشخبری دینے والے نے آپ کو خبر دی کہ سیّدہ آمنہRadi Allah Anha نے ایک لڑکا جنا ہے۔اس خوشخبری نے حضرت عبد المطلب کو انتہائی مسرور کیا تو آپ اور آپ کے پاس موجود افراد اٹھے ۔حضرت عبد المطلب سیّد آمنہ Radi Allah Anhaکے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو ان تمام واقعات کی خبر دی جو انہوں نے دیکھے تھے نیزآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں انہیں جو حکم دیا تھا اس سے بھی انہیں آگاہ فرمایا۔راوی نے کہا کہ حضرت عبد المطلب نے بچہ کو گود میں لیا اور کعبہ میں (شکر ادا کرنے کے لیے) لے گئے۔

جب حضرت عبد المطلب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گود میں لے کر کعبہ میں گئے تو آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق تحریر فرماتے ہیں:

فأخذه عبد المطلب فأدخله فى جوف الكعبة، فقام عبد المطلب يدعو اللّٰه، ويشكر اللّٰه الذى أعطاه إياه.23
حضرت عبد المطلب نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گود میں لیا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خانہ کعبہ کے اندرلے گئےاور رب تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگے۔اس عطاء خداوندی پر اس کا شکرا دا کرنے لگے۔

اس موقع پر حضرت عبد المطلب نےاللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور درجِ ذیل اشعار میں اپنی خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ میں دیاچنانچہ اس کو نقل کرتے ہوئے ابن جوزی تحریر فرماتے ہیں:

الحمد لله الذي اعطاني
ھذا الغلام الطیب الاردان
قد سادفي المھد علي الغلمان
اعیذه بالبیت ذي الاركان
حتي اراه بالغ البنیان
اعیذه من شر ذي شنان
من حاسد مضطرب العیان.24
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ پاکیزہ لباس اور منزہ ذات والا پوتا عطا فرمایاہے۔ جو پنگھوڑے میں ہوتے ہوئے سب بچوں پر فوقیت لے گئے ہیں۔ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مبارک ارکان اور اطراف و اکناف والے گھر کی پناہ میں دیتا ہوں۔ حتی کہ(میری خواہش ہے کہ) میں ان کو اس حال میں دیکھوں کہ وہ مکمل مضبوط ا ورتوانا جوان ہوں۔میں ان کو کینہ ور دشمن کے شر سے(اللہ تعالیٰ)کی پناہ میں دیتا ہوں اور اس حاسد کے شر سے بھی جس کی آنکھیں مرضِ حسد کی وجہ سے بے چین و بے قرار ہیں۔25

ابن سعدنے بھی ان اشعار کو نقل کیا ہے۔ 26 امام ماوردی نے بھی اعلام النبوۃ میں یہ اشعارمتغیر الفاظ کے ساتھ نقل کیے ہیں چنانچہ وہ جناب ِحضرت عبد المطلب کے کعبہ سے نکلنے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو واپس حضرت سیّدہ آمنہ Radi Allah Anha کو دیتے ہوئے حضرت عبد المطلب کے ان اشعار کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ثم خرج به إلى أمه فدفعه إليھا وقال: قد رأى فيه سمات المجد وتوسم فيه إمارات السؤدد أن محمدا لن يموت حتى يسود العرب والعجم وأنشأ يقول:
الحمد لله الذي أعطاني
هذا الغلام الطيب الأردان
أعيذه بالواحد المنان
من كل ذي عيب وذي شنآن
حتى أراه شامخ البنيان.27
پھرحضرت عبد المطلب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کی والدۂ محترمہ Radi Allah Anhaکے پاس لے گئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کے سپرد کردیا پھر کہا:انہوں نے اس نومولود میں بزرگی کے آثار واضح دیکھے اور اس میں سرداری کی علامات کی نشاندہی کی کہ بلاشبہ(سیّدنا)محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) اس وقت تک وصال نہیں فرمائیں گے جب تک عرب و عجم پر حکمرانی نہ کرلیں اورحضرت عبد المطلب نے یہ اشعار بھی کہے: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ پاکیزہ اور ممتاز پوتا عطا فرمایا۔میں اس کو احسان کرنے والے یکتا کی پناہ میں دیتا ہوں ہر قسم کے عیب اور بد بختی سے ۔یہاں تک کہ میں اسے مکمل مضبوط و توانا ئی کی حالت میں دیکھوں۔

نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے محترم داداجناب حضرت عبد المطلب نےان مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ بھی چند ایسے اشعار کہے ہیں جن میں آپ نے اپنے محبوب پوتے سیّدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حسن و جمال کو غلمانِ جنت کے حسن و جمال سے ممتاز و مشرف بتایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عالی ذات اورمبارک صفات کی برکات سے مستقبل میں ساری دنیا کے مستفیض ہونے کا تذکرہ بھی فرمایا۔28ان اشعار سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عبد المطلب نےنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت کے موقع پر ایسے اشعار پڑھے جن میں اللہ تبار ک وتعالیٰ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدح سرائی اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پناہ کی درخواست بھی کی گئ تھی۔

محترم دادا اورمکرم پوتے کی محبت

حضرت عبد المطلب کی حضورِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سےمحبت تمام آل واولاد اور اعزہ و اقرباء میں نمایاں مقام کی حامل تھی کیونکہ محترم دادا جانتے تھے کہ اس پوتے کی عظمت کی دنیا قائل ہوگی اور اسی بنا پر لوگوں کو بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی محبت و الفت کی تلقین کیا کرتے تھے۔یہ محبت کئی مواقع پر بدرجہ اتم دوسروں پر آشکارا بھی ہوا کرتی تھی۔چنانچہ اس حوالہ سے نقل کرتے ہوئے ابن ہشام اپنی سیرت میں تحریر فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مع جده عبد المطلب ابن ھاشم وكان يوضع لعبد المطلب فراش فى ظل الكعبة فكان بنوه يجلسون حول فراشه ذلك حتى يخرج إليه لا يجلس عليه أحد من بنيه إجلا لا له قال: فكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يأتى وھو غلام جفر حتى يجلس عليه، فيأخذه أعمامه ليؤخروه عنه فيقول عبد المطلب إذا رأ ى ذلك منھم: دعوا ابنى، فو اللّٰه إن له لشأنا ثم يجلسه معه على الفراش ويمسح ظھرہ بيدہ ويسرہ ما يراہ يصنع.29
حضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مکّہ میں اپنے داد اعبد المطلب بن ہاشم کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سایہ میں فرش (مَسنَد)بچھایا جاتا تھااور جب تک وہ خودوہاں آکر بیٹھ نہیں جاتے تھےان کے بیٹوں میں سے کوئی اس فرش پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ان کے بیٹھ جانے کے بعد بھی ان کے بیٹے والد کے احترام کی وجہ سے فرش پر نہیں بلکہ اس کے دائیں بائیں بیٹھتے تھے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب وہاں آتے تو اپنے دادا کے پاس فرش پر ہی بیٹھ جاتے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چچاآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وہاں سے ہٹانے کے لیے پکڑتے تو حضرت عبد المطلب Radi Allah Anho انہیں کہتے کہ اسے چھوڑدو۔خدا کی قسم اس کی بہت زیاد ہ شان ہے۔ حضرت عبد المطلب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے ساتھ اپنے فرش پر بٹھالیتےاور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرتے رہتے۔جب بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کوئی کام کرتے دیکھتے تو خوش ہوتے۔ 30

ابن اسحاق نے بھی اس روایت کو مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ 31 ایک روایت میں اس واقعہ کایوں ذکر منقول ہوا ہے:

فكان وھو غلام يأتى وسادة جده فيجلس عليھا فيخرج جدہ وقدكبر فتقول الجارية التى تقود جده: انزل عن وسادة جدك فيقول عبد المطلب: دعوا ابنى فإنه يحس بخير.32
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لڑکپن کی عمر میں اپنے محترم دادا کی مَسند پر تشریف فرماہوجاتے۔ حضرت عبدالمطلب ضعیف العمر ہوگئےتھے، ایک دفعہ آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کی ایک کنیز جو آپ کو سہارا دے کر چلاتی تھی اس نے کہا کہ اپنے دادا کی مسند سے اتریں تو حضرت عبدالمطلب نے فرمایا:میرے بیٹے کو بیٹھے رہنے دوکیونکہ اس میں خیر وبرکت جھلکتی ہے۔

یہ حضرت عبد المطلب کی محبت وشفقت ہی تھی کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی کبھی اپنے آپ کو حضرت عبد المطلب کا بیٹا فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ مروی ہے کہ جنگِ حنین کے دن جب کفار کازور بڑھاتو رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی سواری پر سوار ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے:

أنا النبى لا كذب أنا ابن عبد المطلب.33
میں اللہ کا نبیِ بر حق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے ،میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔

محترم دادا جناب حضرت عبد المطلب کی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے الفت و محبت قابل دیدنی تھی خصوصًا ان افراد کے لیے جو خاندانِ عبد المطلب میں سے تھے۔اسی محبت و الفت کے ساتھ حضرت عبد المطلب نے نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیاتِ طیبہ پر انتہائی گہرے نقوش چھوڑے جس کی جھلک نبوی زندگی کے گوشوں میں آشکارا نظر آتی ہے۔

وصال وسپردگیِ کفالت

جنابِ ِحضرت عبد المطلب کی یہ محبت والفت تمام عمر بے مثل و بے نظیر رہی اور دم وصال بھی یہی الفت سبب بنی کہ جاتے جاتے اپنے محبوب پوتے کی کفالت کی وصیت فرما جائیں۔ چنانچہ آٹھ سال کی رفاقت کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کفالت کی ذمّہ داری اپنے دو بیٹوں یعنی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سگے چچاؤں کو سپرد کرتے ہوئے اس دنیا سے وصال فرماگئے۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات مبارکہ میں حضرت عبد المطلب کے چھوڑےہوئے نقوش کو بیان کرتےہوئے ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی تحریر فرماتے ہیں:

عظیم تر پوتے کی شخصیت و حیات پر بزرگ دادا کی چھتنار(گھنی) شخصیت و حیات کا سایہ کتنا گہرا تھا اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ پورے آٹھ(8) برس کا ایک لمحہ بھی حیات ِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں اس کے حدود و قیود سے پرے نہ تھا۔ پیدائش سے قبل انتظارِ سعادت و محبت کاجانگداز لمحہ ہو یا درّ یتیم پوتےکے آنے کی پُرمسرت انتظار کی گھڑی ہو، دادا جان گرامی کی بیکراں محبت و شفقت اور بے پناہ الفت و مودت کی ایک بے مثال اور اچھوتی کہانی سناتی ہے۔ ولادت کے بعد کے تمام واقعات و حالات، کوائف و احوال اور سوانح و اعمال سب ہی تو دادا گرامی کے ساختہ پر داختہ تھے۔ماں کے انتقال کے بعد پوتے کو شفیق دادا نے پوری طرح اپنی شفقت و نوازش کے تلے بسالیا، ایسا نہیں تھا کہ دوسرے اعزہ اور اقرباء بالخصوص چچاؤں اور پھوپھیوں سے ان کو دور رکھا ہوکیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان سب کے چہیتے تھے تاہم وہ اپنے دادا کے فرزند، محبوب اور جگر کے ٹکڑے تھے۔ ایسے لختِ جگر اور ایسے پارۂ دل کہ دادا کے نام سے عرب روایات کے مطابق موسوم و منسوب ہونے اور نہ صرف حیاتِ عبد المطلب میں بلکہ بعد کی نبوی حیات طیبہ میں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam محمد بن عبد المطلب ہی کہلاتے تھے ۔ دوسرے اسباب و وجوہ کے علاوہ سب سے بڑا رشتہ دادا اور پوتے کے خالص ارتباط کا تھا۔اسی خاص ربط و تعلق اور ارتباطِ باہمی نے دادا کو مجبور کردیا کہ اپنے نو خیز پوتے کی کفالت کی وصیت اپنی وفات کے وقت کردیں۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہےکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آئندہ کفالت و پرورش کی ذمہ داری دونوں سگے چچاؤں، جناب زبیر ہاشمی و جناب حضرت ابو طالب ہاشمی کے مشترکہ کاندھوں پر ڈالی تھی کہ یہی فطری اورمنطقی بات تھی۔ کفالتِ زبیر کی حقیقت، کفالت ِحضرت ابو طالب کی خیرہ کن روشنی میں ماند پڑگئی۔ لیکن دونوں چچاؤں نے بالخصوص اور دوسرے اعمام و عمات نے بالعموم اپنی خاندانی ذمہ داری پوری محبت و خاطر کے ساتھ نبھائی۔ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے سگے چچاؤں کی خدمات کے ہمیشہ معترف و احسان مند رہے اور اس کا انعام دعوات صالحہ کی صورت میں دیا۔آٹھ (8)سال کی عمر شریف میں تھےکہ شفیق دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ ہوش و تمیز کا مبارک زمانہ تھا۔ واقعات بھی یاد رہے اور عظیم شخصیت کے نقش و نگار بھی۔ جنازہ اٹھا تو پیچھے پیچھے روتے جاتے تھے، قبرستان تک گئے اور تدفین میں حصہ لیا، مقام قبر اور اس سے زیادہ معبدِ پرورش یاد رہا۔ تازندگی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے شفیق دادا کو یاد کرتے رہے ۔ جناب عبد المطلب ہاشمی کی حیات اور کارناموں کی ساری معنویت اور تمام تر عظمت اسی بنا پر ہے کہ وہ حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دادا تھے۔ اسی رشتۂ خاص نے ان کو ایک عظمت کا ہالہ عطا کردیا ہے اور ان کے سینے پر بزرگی کا تمغہ سجادیا ہے۔ کہنے کو وہ اس حیاتِ مستعار میں صرف آٹھ(8)برسوں تک رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات مبارک میں دخیل رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا سایۂ عظمت تا زندگی حاوی اورمحیط رہا۔ 34

ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد المطلب شروع ہی سے تا دمِ آخر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی انتہائی نگہداشت فرماتےتھے۔اپنی حیات ِجاودانی کی طرف منتقلی کے وقت بھی آپ نے اس بات کا انتظام بذات خود فرمایا کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کفالت ان کے سگے عم محترم حضرت ابو طالب وحضرت زبیر کریں ۔بنظر غائر دیکھا جائے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دادا محترم نے اعلی اور با کمال طریقہ سے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کفالت کا حق ادا فر مایا اورکبھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پریشان و غمگین نہ ہونے دیا اور اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دونوں محترم چچاؤں نے کفالت کو بحسنِ خوبی انجام دیا بالخصوص حضرت زبیر کے وصال کے بعد حضرت ابو طالب نے اعلان نبوت کے بعد تک بھی پدرانہ شفقتوں میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ان سب کے اثرات نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات مبارکہ میں واضح پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوران جنگ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رمز یہ انداز میں بلند و بالا آواز میں ارشاد فرمایا کرتے تھے"انا النبی لاکذب اناابن عبد المطلب"یعنی میں بلا شبہ نبی ہوں اور میں فرزندِ عبد المطلب ہوں۔ 35


  • 1  ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی، عبد المطلب ہاشمی، مطبوعہ: دار النوادر، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص:104
  • 2  شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:364
  • 3  شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ (مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان2011ء،ص:495
  • 4  ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،ج-4،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2012م،ص:162
  • 5  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:54
  • 6  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ(مترجم:مولانا محمد طیب)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:112-113
  • 7  شیخ نور الدین عبد الرحمٰن جامی، شواہد النبوۃ(مترجم:بشیر حصین ناظم)،مطبوعہ :مکتبہ نبویہ ،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:46-47
  • 8  ابو القاسم عبدالرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ،ج-2، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1412ھ،ص:95
  • 9  شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:52
  • 10  شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ (مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان، 2011ء،ص:61-62
  • 11  شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ، ج-2،مطبوعہ:النوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان،1997ء،ص:9
  • 12  شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ(مترجم: مفتی غلام معین الدین )،ج-2،مطبوعہ:ضیا القرآن پبلی کیشنز ،لاہور، پاکستان،2012ء، ص:24
  • 13  شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:63
  • 14  شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ(مترجم:محمد صدیق ہزاروی)، ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2011ء،ص:62
  • 15  شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:52
  • 16  شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ(مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان، 2011ء،ص:61-62
  • 17  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 72 -73
  • 18  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)، ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)، ص:107-109
  • 19  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص:105
  • 20  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:8
  • 21  ابو الربیع سلیمان بن موسی الاندلسی،الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہﷺ والثلاثۃ الخلفاء،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2000م، ص:181
  • 22  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1990م،ص:83
  • 23  ابو عبید اللہ محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:97
  • 24  ابو الفرَج عبد الرحمٰن بن جوزی،صفۃ الصفوۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الحدیث ،القاہرۃ،مصر،2009م،ص:22
  • 25  ابو الفرَج عبد الرحمٰن بن جوزی، الوفا باحوال المصطفیٰ ﷺ(مترجم: علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعۃ: حامد اینڈ کمپنی ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:125
  • 26  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:83
  • 27  ابو الحسن علی بن محمد ماوردی،اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دار ومکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان،1409 ھ،ص:210
  • 28  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف،ج-2،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001م، ص:157
  • 29  ابو محمد عبد الملک بن ھشام ،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،2009م،ص:135
  • 30  ابو محمد عبد الملک بن ہشام،سیرۃ النبیﷺ (مترجم:مولوی قطب الدین احمد)،مطبوعہ:الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور، پاکستان، 2006ء، ص:185-186
  • 31  ابو عبید اللہ محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:116
  • 32  ابو بکر احمد بن حسین البیھقی،دلائل النبوۃومعرفۃ اصحاب الشریعۃﷺ، ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:88
  • 33  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:18707، ج-30، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:635
  • 34  ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی، عبد المطلب ہاشمی ، مطبوعہ: دار النوادر، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:108-109
  • 35  جمال الدين السُّرَمَرِى، خصائص سيد العالمينﷺوما له من المناقب العجائب على جميع الأنبياء عليهم السلام، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ،القاہرۃ، مصر، 2015م، ص:357

Powered by Netsol Online