Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

رسول اکرم ﷺکی ولادت اورعلمائے یہود و نصاری کی تصدیق

Published on: 17-Mar-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:17، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 512-532)

نبی کریم sym-1وجہ تخلیق ِکائنات ہیں۔آپ sym-1ہی وہ مبارک ہستی ہیں جن کی بشارت ہر نبی نے اپنی امت کو اورپھر انہوں نے اپنی نسلوں کو دی تھی۔نسل در نسل یہ بشارت ان لوگوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ ان لوگوں نے جو آپ sym-1کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے 1 انہوں نے آپ sym-1کی بعثت کے بعدآپ sym-1کے نبی ہونے کا انکار کردیا اور نامراد ہوگئے۔ 2اس سے واضح ہوجاتاہے کہ بالعموم سابقہ امتیں اور بالخصوص علمائے یہود و نصاری آپ sym-1کی تمام نشانیا ں، جو ماقبل صحف ِمطہرہ میں مذکور ہوئیں اور ماقبل انبیاء ِکرامsym-3 سے ان تک پہنچی ، کو جانتے تھے۔

اسی طرح یہ احبار وراہبین آپ sym-1کی ولادت کے وقت کو اور اس کی نشانیوں کو بھی جانتے اور آپس میں اس کا تذکرہ بھی کرتے تھےچنانچہ شیخ حلبی اسی حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئےاپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

كانت الأحبار من يھود والرھبان من النصارى والكھان من العرب قد تحدثوا بأمر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قبل مبعثه لما تقارب زمانه أما الأحبار من يھود والرھبان من النصارى، فلما وجدوا فى كتبھم من صفته وصفة زمانه....ووقعت تلك الأمور التى كانو ايذكرونھا فعرفوھا وھذا فيه تصريح بأن الملائكة كانت تذكره صلى اللّٰه عليه وسلم فى السماء قبل وجوده.3
یہودی عالم،عیسائی راہب اور عرب کے کاہن آنحضرت sym-1کے متعلق آپ sym-1کی بعثت سے پہلے باتیں کیا کرتے تھے۔ جب آپ sym-1کے ظہورِ نبوت کا وقت قریب آگیا تھا۔جہاں تک یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں کے اس سے متعلق خبریں دینے کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد ان کی قدیم آسمانی کتابیں تھیں۔جن میں آپ sym-1کی نبوت ،حلیے اور زمانے کا تذکرہ موجود تھا۔۔۔بالآخر وہ واقعات رونما ہوگئے جن کا یہ سب تذکرہ کیا کرتے تھے۔اس طرح انہوں نے آپ sym-1کو پہچان لیا(لیکن اس کے باوجود ایمان نہیں لائے)۔اس میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ ملائکہ آپ sym-1کا تذکرہ آسمانوں میں آپ sym-1کے وجود سے پہلے بھی کیا کرتے تھے۔ 4

اسی حوالہ سے ایک قول حضرت ابن عباسsym-8 سے بھی مروی ہےجس کو ابن جوزی نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

كانت یھود قریظة والنضیر وفدک وخیبر یجدون صفة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عندھم قبل ان یبعث وان دار ھجرته المدینة فلما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قالت احبار یھود: ولد احمد اللیلة فلما نُبِّى قالوا: نُبِّى أحمد یعرفون ذلک ویقرون به ویصفونه فما منعھم عن اجابته الاالحسد والبغى.5
قریظہ،نضیر،فدک اور خیبر کے یہودی نبی کریم sym-1کے احوال اپنی تورات میں آپ sym-1کی بعثت سے پہلے پاتے تھے کہ آپ sym-1کی ہجرت گاہ مدینۃ المنورہ ہوگی۔جب رسول اللہ sym-1کی ولادت ہوگئی تو یہودیوں کے عالم نے کہا:آج رات احمد(sym-1)پیدا ہوگئے ہیں۔پھر جب آپ sym-1کونبی بنا دیا گیاتو کہنے لگے:احمد(sym-1)کو نبی بنادیا گیا،وہ اس بات کو جانتے تھے اور اس کا اقرار کرتے تھے۔آپ sym-1کی خبریں بھی (لوگوں)سے بیان کیا کرتے تھے لیکن انہیں حسد اور سرکشی نے آپ sym-1کی بات ماننے سے روکے رکھا۔6

مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب آپ sym-1کو نہ صرف یہ کہ جانتے تھے بلکہ جاننے سے بڑھ کر پہچانتے بھی تھے۔اسی کا ذکرقرآن ِمجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَه كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھمْ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْھمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھمْ يَعْلَمُوْنَ1467
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد sym-1اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور یقیناً انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔

اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم sym-1کو اہل کتاب اپنے بیٹوں کی طرح جانتے پہچانتے تھے لیکن آپ sym-1کی رسالت ونبوّت پر ایمان لانے کے بجائے ہٹ دھرمی ، بغض اور عداوت کی وجہ سے الٹا آپ sym-1کی مخالفت کرتے رہے۔ اہل کتاب کو آپ sym-1کی ولادت سے پہلے اور بعد کی چند نشانیاں معلوم تھیں اور وہ آپ sym-1کے پیداہونے کے بعد ایک ایک کر کے ان کی تصدیق کرتے بھی رہے تھے اور لوگوں کو بتاتے بھی رہے تھے لیکن ان سب کے باوجود خود اس خیر ِعظیم سے محروم رہے۔

شاہِ یمن کونبی الآخر sym-1کی بعثت کی اطّلاع

جب یمن کےبادشاہ تبع حمیری نے مدینۃ المنورہ پر چڑھائی کرنے اور اس کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ کیا تو علماءِ یہو د نے بادشاہِ یمن کو اس سے باز رکھنے کے لیے آخری نبی sym-1کی بعثت کی خوشخبری دی جس کی بنا پر وہ تخریبِ مدینہ سے باز آگیا۔ اس واقعہ کو تفصیل سے ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کیا ہےچنانچہ وہ اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:

وتبان أسعد أبو كرب الذى قدم المدینة وساق الحبرین من یھود المدینة إلى الیمن وعمر البیت الحرام وكساه وكان قد جعل طریقه حین أقبل من المشرق على المدینة وكان قد مربھا فى بدأته فلم یھج أھلھا وخلف بین أظھرھم إبنا له فقتل غيلة فقدمھا وھو مُجمع لإخرابھا وإستئصال أھلھا وقطع نخلھا فجمع له ھذ الحيى من ألأنصار ورئيسھم عمر وبن طلّة أخو بنى النجار...فبينما تبع على ذلك من قتالھم إذ جاى حبران من أحبار اليھود من بنى قريظة...عالمان راسخان فى العلم حین سمعا بما يريد من إھلاك المدينة وأھلھا فقالا له: أيھاالملك لاتفعل فانک إن أبيت إلا ماتريد حيل بینك وبينھا ولم نأمن عليك عاجلة العقوبة فقال لھما ولم ذلك؟ فقالا: ھى مھاجر نبى يخرج من ھذا الحرم من قريش فى آخر الزمان تكون داره وقراره فتناھى عن ذلك ورأى ان لھما علما وأعجبه ماسمع منھما فانصرف عن المدينة واتبعھما على دينھما.8
تبان اسعد ابو کرب وہی ہے جو مدینہ آیا اوروہاں کے دو یہودی علماء کو اپنے ساتھ ملکِ یمن لے گیا ۔ وہاں بیت الحرام کی تعمیر کی اور اس پر غلاف چڑھایا۔ 9 پہلے جب وہ مشرق سے مدینہ(منوّرہ ) کی طرف سے اپنا راستہ بناتا ہوا آیا تھا تو اس وقت اس نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ظلم و ستم نہیں کیا تھا۔وہ اپنے بیٹے کو یہاں چھوڑ گیا تھاجس کو اچانک ایک حملہ میں قتل کردیا گیا ۔اس لیے بادشاہ اس ارادہ اور نیت سے مدینہ(منوّرہ ) کی طرف آیا کہ وہ اس کو تباہ کردے،یہاں کے لوگوں کو قتل کردے اور کھجور کے پیڑ کاٹ دے۔اس کے مقابلہ کے لیے انصار کا ایک قبیلہ متحد ہوگیاجس کا سردار بنی نجار میں سے عمرو بن ظلّہ تھا۔۔۔ابھی ان کی جنگ جاری تھی کہ بنی قریظہ کے دو یہودی عالم تبع کے پاس آئے۔یہ دونوں عالم علم میں بہت بڑا درجہ رکھتے تھے۔جب انہیں معلوم ہوا کہ تبع مدینہ و اہل مدینہ کو تباہ کرنا چاہتا ہےتو انہوں نے بادشاہ کو اس سے روکا اور کہا کہ وہ ایسا ارادہ نہ کرے۔اگر وہ اپنے ارادے سے باز نہ آیا تو اس شہر اوربادشاہ کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوگی یعنی اللہ تبارک اس کو مدینہ کی بربادی سے روکے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو فوری طور پر کوئی سزا ملے۔بادشاہ نےاس کی وجہ پوچھی تو عالموں نے کہا کہ مدینہ نبی(آخر الزماںsym-1)کی ہجرت کا مقام ہے۔وہ نبی قریش کے قبیلہ میں آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔مدینہ(منوّرہ )اسی کا گھر اور رہنے کی جگہ ہوگی۔یہ سن کر وہ اپنے ارادے سے باز آگیا اوراس کو اندازہ ہوگیا کہ ان علماء کو آنے والے واقعات کا علم اور اندازہ ہے۔اس نے ان سے جو چیز سنی اس کو پسند کیا۔ چنانچہ وہ مدینہ (منوّرہ ) سے واپس چلاگیااور ان کے مذہب کی پیروی کرنے لگا۔10

اس روايت كو من وعن ابن اسحاق نے11 اپنی کتاب میں نقل کیاہے۔بیہقی نے 12 کچھ متغیر الفاظ کے ساتھ اورابوالحسن ماوردی نے درجِ ذیل الفاظ کی زیادتی کے ساتھ اسی بات کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے:

وذھب إلى اليھود فقتل منھم ثلاثمائة وخمسين رجلا...فقام إليه رجل من اليھود كبير السن فقال: أيھا الملك مثلك لايقتل على الغضب ولا يقبل قول الزور....فانك لا تستطيع أن تخرب ھذه القرية.13
وہ بادشاہ یہود کے پاس گیا اور ان کے ساڑھے تین سو (350) افراد کو قتل کردیا۔۔۔تو ایک عمر رسیدہ یہودی آدمی بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوااور اس نے کہا:اے بادشاہ تیرا جیسا آدمی غصہ کی حالت میں قتل نہیں کرتا اور جھوٹی گواہی کو قبول نہیں کرتا۔۔۔بہر کیف تم اس بستی کو خراب کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔

یعنی رسول مکرم sym-1 کی بعثت و ولادت کی اطلاع سن کر اس بادشاہ نے اپنے ارادہ کو پس پشت ڈال دیا اور مدینہ و اہل مدینہ کو اپنے بیٹے کے قتل کے جرم میں معاف کردیا۔

شاہ ِ یمن کے سوالات

حضرت ابی بن کعب sym-5 فرماتے ہیں کہ جب شاہِ یمن یعنی تبع مدینہ آیا اور جنگ و جدال کا ارادہ کیا تو شامول نامی یہودیوں کا سب سے بڑا عالم اس کے پاس آیا اور کہا کہ اولادِ اسماعیل سے ایک نبی پیدا ہوگا جس کی جائے ولادت مکّہ، نام احمد (sym-1)اور یہ مدینہ اس کادارِ ہجرت ہوگا جہاں آپ اس وقت قیام پذیر ہیں۔ یہاں اس کے اصحاب اور دشمنوں کے مابین ایک عظیم لڑائی ہوگی۔یہ سن کر شاہ یمن تبع حمیری نے شامول نامی یہودی سے چند سوالات کیے جنہیں نقل کرتے ہوئےامام دیار بکری تحریر فرماتے ہیں:

قال تبع فمن يقاتله وھو نبى كما تزعمون قال يسير اليه قوم فيقتلون ھنا قال فأين يكون قبره قال بھذا البلد قال فان قوتل فلمن تكون الدائرة قال تكون عليه مرّة وله مرّة وبھذا المكان الذى أنت به غلبته فيقتل به أصحابه مقتلة ثم يقتلون فى مواطن ثم تكون العاقبة له فيظھر فلا ينازعه فى ھذا الامر أحد قال وما صفته قال رجل ليس بالقصير ولا بالطويل فى عينيه حمرة...قال تبع فمالى بھذا البلد من سبيل وما كان ليكون خرابه على يدى.14
تبع نے سوال کیا ان سے قتال کون کرے گا جبکہ وہ نبی ہوگا؟ شامول نے جواب دیا ان کی قوم ان کی طرف بڑھے گی اور یہاں ان سے لڑے گی، پوچھا ان کا مدفن کہاں ہوگا؟ اس نے کہا: اسی شہر میں تو تبع نے پھر دریافت کیا کہ جب ان کے درمیان لڑائی ہوگی تو فتح کس کو نصیب ہوگی؟ اس نے کہا: اس نبی کو اور کبھی ان کے دشمنوں کو۔اس جگہ پر جہاں تونے غلبہ حاصل کرلیاہے اس نبی کے ساتھی ان کے ساتھ مل کر ایک جنگ(بدر) لڑیں گے پھر مختلف جگہوں پر جنگ کریں گےمگر آخر کار مکمل کامیابی اسی نبی کو ہوگی۔ اس کے بعد کوئی ان سے اس معاملہ میں اختلاف و نزاع نہ کرے گا۔ پھر تبع نے نبی کریمsym-1 کے اوصاف کے بارے میں سوال کیاتو اس یہودی عالم نے کہا:نہ تو یہ نبی پست قامت ہوں گے اور نہ ہی دراز قامت(بلکہ میانہ قد ہوگا)۔ان کی دونوں آنکھوں میں سرخی ہوگی۔تبع نے سن کر کہا:پھر میرے لیے اس شہر میں کوئی سبیل نہیں اور نہ ہی اس شہر کی بربادی میرے ہاتھوں لکھی ہے۔

جس وقت شامول نے ظہور نبوت کی یہ نشانیاں بیان کیں اس وقت اس کے ہمراہ اور بھی یہودی علماءتھے انہوں نے کہا: ہم یہیں رہیں گے شاید ہم بعثت"احمد(sym-1)"کے زمانے کو پالیں چنانچہ تبع نے ہر ایک کوایک کنیز اور مال و متاع عطا کیااور وہ مدینہ شریف ہی میں اقامت پذیر ہوگئے ۔اس كوبيان کرتے ہوئے شیخ حلبی تحریر فرماتے ہیں:

وكان فى ر كابة مائة ألف وثلاثون ألفا من الفرسان ومائة ألف وثلاثة عشر ألفا من الرجالة فأخبر أن أربعمائة رجل من أتباعه من الحكماء والعلماء تبايعوا أن لا يخرجوا منھا فسألھم عن الحكمة فى ذلك؟ فقالوا: إن شرف البيت إنما ھو برجل يخرج يقال له محمد ھذہ دار إقامته ولا يخرج منھا فبنى فيھا لكل واحد منھم دارا واشترى له جارية وأعتقھا وزوجها منه وأعطاھم عطاء جزيلاوكتب كتا با وختمه ودفعه إلى عالم عظيم منھم وأمرہ أن يدفع ذلک الکتاب لمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم إن أدركه وفى ذلك الكتاب أنه آمن به وعلى دينه وبنى دار له صلى اللّٰه عليه وسلم ينزلھا إذا قدم تلك البلد ويقال إنھا دار أبى أيوب وأنه من ولد ذلك العالم الذى دفع إليه الكتاب أى فھو صلى اللّٰه عليه وسلم لم ينزل إلا دارہ ولما خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : أى دعا إلى الإسلام أرسلوا إليه ذلك الكتاب مع شخص يسمى أبا ليلى فلما رآه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال له: انت أبو ليلى الذى معك كتاب تبع الأول؟ فقال له أبو ليلى: من انت؟ قال: أنا محمد ھات الکتاب.15
اور اس تبع کی ہمرکابی میں ایک لاکھ تیس ہزار(1,30000) گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار (1,13000) پیادہ مرد تھے پس اسے خبر دی گئی کہ اس کے فرمانبرداروں میں سے چارسو (400)حکماء و علماء نے اس شہرِمدینہ سے نہ نکلنے کا(اور اس میں رہائش کا) ارادہ کرلیا ہے تو تبع نے ان سے اس کی حکمت دریافت کی تو انہوں نے کہا: (اس شہر کے)گھروں کا شرف ایک خاص شخص کی وجہ سے ہے جو یہاں ہجرت کرے گا جس کا نامِ نامی (سیّدنا)محمد(sym-1)ہوگا ،یہ شہر اس کی (ہجرت کے بعد)اقامت گاہ ہوگا اور اس سے پھر وہ نہیں نکلےگا۔پھر تبع نے ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک گھر بنایااور ہر ایک کے لیے ایک باندی خریدی جس کو آزاد کر کے ان سے نکاح کروایااور انہیں ایک خطیر رقم صرف کرنے کے لیے مرحمت کی۔انہیں ایک مکتوب لکھا جس کو مہر بند کیا اور ان میں سب سے بڑے عالم کواس حکم کے ساتھ دیا کہ اگر وہ اس نبی آخر الزماں sym-1کو پالے(تو انہیں پہنچادے)۔اس مکتوب کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ تبع حمیری نبی آخر الزماں sym-1پر اور ان کے دین پر ایمان لاتا ہے اور ایک گھر نبی آخر الزماں sym-1کے لیے تعمیر کروایا کہ جب وہ اس شہر میں قدم رنجہ فرمائیں تو اس گھرمیں نزول فرمائیں۔کہاجاتا ہے کہ وہ گھر حضرت ابو ایوب انصاری کا تھااور آپ اسی عالم کی اولاد میں سے تھے جس کو تبع نے مکتوب دیا تھا۔ یعنی نبی کریم ﷺ(بحکمِ خداوندی)حضرت ابو ایوب انصاری ہی کے ہاں نزول فرماسکتے تھے ۔پھر جب رسول اللہ sym-1نے انہیں دیکھا تو ان سے ارشاد فرمایا: آپ وہی ابو لیلی ہیں جن کے پاس تبع اول کا مکتوب ہے؟ تو ابو لیلی نے حیرانگی میں آپ sym-1سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں؟آپ sym-1نے ارشاد فرمایا کہ میں(سیّدنا)محمد(sym-1)ہوں تم وہ مکتوب لے آؤ۔

مذکورہ بالا خط کا مضمون کو بیان کرتےہوئے ابن حدیدۃ تحریر فرماتے ہیں:

أما بعد يا محمد فإنى آمنت بك وبكتا بك الذى ينزله اللّٰه عليك وأنا على وینك وسنتك آمنت بربك ورب كل شىء وبكل ما جاء من ربك من شرائع الإسلام والإيمان وإنى قبلت ذلك فإن أدركتك فبھا ونعمت وإن لم أدر كك فاشفع لى يوم القيامة ولا تنسى فإنى من أمتك الأولين وتابعيك قبل مجيئك وقبل أن يرسلك اللّٰه وأنا على ملتك وملة أبيك إبراهيم وختم الكتاب .16
اما بعد!اے (سیّدنا)محمد(sym-1)بلاشبہ میں آپ sym-1پر ایمان لایا اور آپ sym-1کی اس کتاب پر بھی جو اللہ تبارک وتعالیٰ آپ sym-1پر نازل فرمائے گا۔میں آپ sym-1کے دین اور آپ sym-1 کے طریقہ پر ہوں۔میں آپ sym-1کے رب پر ایمان لایا اور ہرچیز کے رب پر اور اسلام و ایمان کے ہر اس حکم پر جو آپ sym-1اپنے رب کی طرف سے لے کر آئے ۔ اگر میں نے آپ sym-1کو پالیا تو ٹھیک اور کیا ہی بہتر ہوگا اوراگر نہیں پاسکا تو آپ sym-1میری قیامت میں شفاعت فرمایئے گا اور مجھے بھول مت جائیے گا کیونکہ میں آپ sym-1کی ولادت و بعثت سے پہلے آپ sym-1کی اولین امت اور اولین اتباع کرنے والوں میں سے ہوں ۔میں آپ sym-1کی ملت اور آپ sym-1کے والد حضرت ابراہیم sym-9 کی ملت پر ہوں۔اس مضمون پر خط مہر بند کردیا۔

تبع حمیری کے مکتوب کے عنوان پر جو الفاظ رقم کروائے تھے اس کو شیخ حلبی نے یوں تحریر کیا ہے:

وكتب عنوان الكتاب: إلى محمد بن عبد اللّٰه خاتم النبيين والمرسلين ورسول رب العالمين من تبع الأول حميرأمانة اللّٰه فى يد من وقع ھذاالکتاب فى يده.17
تبع نے مکتوب کا عنوان یہ لکھوایا:"محمد بن عبد اللہ(sym-1) جو خاتم النبیین والمرسلین " اور" رب العالمین کے رسول" ہیں ان کی طرف تبع اول حمیری کی طرف سے۔جس کے ہاتھ میں یہ خط آئے اس کے ہاتھ میں یہ اللہ کی امانت ہے۔

جب رسول مکرم sym-1نے اس مکتوب کو پڑھا تو اس کا خیر مقدم فرمایا اور آپsym-1 نے مذکورہ خط پڑھ کر تین بار فرمایا کہ مرحبا اے صالح بھائی تبع۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ شاہِ یمن تبع حمیری اور رسول مکرم sym-1کے درمیان ایک ہزار(1000) سال کا فاصلہ تھا اور ایک ہزار(1000)سال پہلے شاہ ِیمن نے یہود علماء سے نبی آخر الزماں sym-1کی اطلاع پاکر اس مکتوب کو لکھوایا تھا۔

تبع حمیری کے ایمانی اشعار

شاہِ یمن تبع اول حمیری نے نبی مکرم sym-1کی آئندہ ہونے والی ولادت اور شہر مدینہ دار الہجرت کو دیکھ کر آپ sym-1پر ایمان لانے کو حق سمجھا جس کو ایک مکتوب کی شکل میں لکھ کر ایک قبیلہ کو دیا اور ساتھ ہی اس نے چند اشعار ایسے بھی کہے جن میں اس ایمان کی جھلک نمایاں تھی چنانچہ صاحبِ روض الانف اس کے چند اشعار کونقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

لما آمن الملك بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم وأعلم بخبره قال:
شهدت على أحمد أنه
نبي من الله باري النسم
فلو مد عمري إلى عمره
لكنت وزيرا له وابن عم
وجاهدت بالسيف أعداءه
وفرجت عن صدره كل هم.18

جب بادشاہ (سیّدنا)محمد sym-1پر ایمان لے آیا اور آپ sym-1کے احوال سے باخبر ہوا تو اس نے یہ اشعار کہے: میں نے نبوت احمد(sym-1) کی گواہی دی کہ وہ اللہ کی طرف سے سچے پیغمبر ہیں۔میں ان کے زمانہ میں بعثت تک زندہ رہا تو ان کا وزیر بنوں گا اور چچیرا بھائی۔ ان کے دشمنوں کے ساتھ تلوار سے جہاد کروں گا اور ان کے سینے سے ہر غم دورکروں گا۔

ان اشعار کو ابن حدیدۃ19 اور صاحب المقتفیٰ نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔20 ابن ِکثیر بھی ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:

ولم يزل ھذا الشعر تتوارثه الأنصار ويحفظونه بينھم وكان عند أبى أيوب الأنصارى رضي الله عنه.21
ان اشعار کو انصار وراثت در وراثت نقل کرتے اور محفوظ کرتے رہے اور بالآخر حضرت ابو ایوب انصاری sym-5 کے پاس پہنچے۔

تبع حمیری کے مذکورہ بالا واقعہ سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ نبی مکرمsym-1 کی بعثت و ولادت و ہجرت اور دیگر کئی اہم واقعاتِ نبویsym-1 کو اہلِ کتاب جانتے تھے اور انہیں انبیاءِبنی اسرائیل sym-3 کی طرف سے یہ اطلاعات وعلامات بتائی گئی تھیں تاکہ وہ ان کو دیکھ کر صحیح راہ متعین کرنے میں کامیاب وکامران ہوسکیں ۔

سیف بن ذی يزن

سیف بن ذی یزن جو خاندان حمیری کا فرد تھا اس نے حضور سرور کائنات sym-1کی پیدائش کے دو سال بعد یمن پر اقتدار حاصل کرلیا تھا اور پھر اہل حبشہ کو یمن سے نکال دیا تھا۔ سیف بن ذی یزن کو عرب کے بڑے بڑے سردار اس اقتدار کے حصول پر مبارک با د دینے کے لیے پہنچے۔ انہیں مبارک باد دینے والے سرداروں میں قریش کے مکّہ کے سردار حضرت عبد المطلب sym-5 بھی شامل تھے ۔حضرت عبد المطلب نے اٹھ کر اجازت چاہی تاکہ وہ بات کریں تو سیف نے کہاکہ اگر آپ ان تمام لوگوں کے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو آگے آئیں اور گفتگو کریں۔ حضرت عبد المطلبsym-5 نے پہلے پہل بادشاہ اور اس کی بادشاہت کی سلامتی کی دعا کی جس کو سن کر بادشاہ نے حضرت عبد المطلب sym-5 کو مزید اپنے قریب کیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟اس سوال کے جواب میں آپ نے کہا کہ میں عبد المطلب ، ہاشم بن عبدمناف کابیٹا ہوں اور ہم یہاں اس لیے آئے ہیں کہ آپ کو مبارک باد دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ ملک اور بادشاہی عطا کی ہے۔ 22

سیف نے آپ کی قدر دانی کی اور چند دنوں کی مہمان نوازی کے بعد آپ سے چند باتیں کی جو رسول مکرم sym-1کے حوالہ سے تھیں۔ان باتوں کو نقل کرتے ہوئے ابو نعیم اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

ياعبد المطلب إنى مفوض ايك من سر علمى مالو غيرك يكون لم أبح به ولكن وجد تك معدنه فاظلعتك طلعه فليكن عندك مطويا حتى يأذن اللّٰه عز وجل فيه فإن اللّٰه بالغ أمره إنى أجد فى الكتاب المكنون والعلم المخزون الذى اخترناه لأنفسنا واحتجبناه دون غيرنا خبرا عظيما وخطرا جسيمافيه شرف الحياة وفضيلة الوفاة للناس كا فة ولر هطك عامة ولك خاصة.23
اےعبد المطلب میں تمہیں ایک راز منتقل کرنے لگا ہوں۔کوئی اور ہوتا تواسے یہ نہ بتلاتا مگر میں نے تمہیں اس کا امین پایا ہے۔یہ راز تمہارے پاس محفوظ رہنا چاہیے تا آنکہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ ظاہر فرمادے ۔ کیونکہ وہ اپنے امر پر غالب ہے۔میں نے خفیہ کتاب اور مخزون علم میں پڑھا ہے جو صرف ہمارے خاندان کے لیے ہے،کوئی اور اسے نہیں پاسکتا۔ ایک عظیم خبر ظاہر ہونے والی ہے جو دوسروں کے لیے خطرہ بھی ہوگی۔اس میں حیاتِ انسانی کے لیے شرافت و فضیلت کا خزانہ ہوگا، بالعموم تمہارے وفد کے لیے او ربالخصوص تمہارے لیے ۔ 24

حضرت عبدالمطلب sym-5 نے اس راز کی بات کو سن کر بادشاہ سے کہا : خدا تمہیں خوش رکھے اور نیکی و بھلائی کی توفیق رفیق سے نوازے ۔ جس راز کی بات آپ کررہے ہیں وہ راز کیا ہے ؟ اس پر بادشاہ نے حضرت عبدالمطلب sym-5 سے کہا:

إذا ولد بتھامة غلام بين كتفيه شامة كانت له الإمامة ولكم به الزعامة إلى يوم القيامة قال عبد المطلب: أيھا الملک لقد أبت بخير ما آب بمثله وافد قوم ولولا ھيبة الملک، وإجلاله وإعظامه، لسألته من سراره إياى، ما ازداد سرورا قال له الملك: ھذا حينه الذى يولد فيه، أوقد ولد؟ اسمه محمد: يموت أبوه وأمه ويكفله جده وعمه، قد ولدناه مرارا، واللّٰه باعثه جھارا، وجاعل له منا أنصارا، يعز بھم أولياءہ ويذل بھم أعداءه، ويضرب بھم الناس، عن عرض ويستفتح بھم كرائم أھل الأرض يعبد الرحمن.25
جس وقت تہامہ (سر زمین حجاز)میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے دونو ں کندھوں کے درمیان علامت(مہرِ نبوت)ہوگی، اس کے لیے امامت ہوگی اور تمہارے لیے قیامت تک سیادت ہوگی۔عبد المطلب نے کہا:اے بادشاہ تحقیق مجھے اس قدر خیر اور بھلائی آپ سے حاصل ہوئی ہےکہ جس قدر بھلائی کسی قوم کے وفد کے سربراہ کو نہیں ہوئی۔اگر بادشاہ کی ہیبت ورعب، جلالت ِشان اور عظمت آڑے نہ ہوتی تو میں اپنے اور اس پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں مزید راز پوچھتا تو مجھے بہت زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔بادشاہ نے حضرت عبد المطلب سے کہا:یہی اس کے پیدا ہونے کا وقت ہے جس میں وہ پیدا ہوگا یا وہ پیدا ہو بھی گیا ہوگا!اس کا نام محمد(sym-1)ہوگا،اس کے والدین انتقال کر جائیں گے،اس کی کفالت اس کا دادا اور چچا کریگا۔ہم نے باربار اس کے پیدا ہونے پر غور کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو علی الاعلان مبعوث فرمائے گا۔ہم ہی سے اس کے مددگاربنائے گا۔انہی کے ذریعہ ان کے دوستوں کو عزت وغلبہ عطا فرمائے گااور دشمنوں کو ذلّت سے دوچار کریگا۔انہی کے ذریعہ لوگوں کی عزتوں کا دفاع کروائے گااور دھرتی پر بسنے والے شرفاء کوغلبہ عطا کریگا۔وہ نبی(sym-1)رحمن (ﷻ)کی عبادت کریگا۔ 26

اسی طرح کا مضمون اما م ماوردی ،27 امام سیوطی 28اورعمر ابن کثیر نے 29 بھی اپنی اپنی کتبِ سیر میں نقل کیاہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم sym-1کی ولادت و بعثت کی ا طلاع اہل کتاب کو تھی اور بعض ان میں سے خوش نصیب تھے جنہیں ان کی تصدیق کرنے اور حق کا اظہار کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔

رسول اللہ ﷺکی وِلادت اور علمائے بنی اسرائیل

نبی اکرم sym-1کی ولادت کی خبر اہلِ کتاب کو پہلے سے دیدی گئی تھی اورکئی ایک روایات اس موضوع پر شاہد و کافی ہیں۔ذیل میں حضرت کعب بن احبار sym-5سے ایک روایت درج کی جاتی ہے جس میں وہ اس نبی آخر الزماں sym-1کی ولادت سے متعلق سابقہ نبیsym-9 کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں۔اس روایت کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف نبہانیsym-4تحریر فرماتے ہیں:

وعن كعب الاحبار قال رأيت فى التوراة ان اللّٰه تعالى اخبر موسى عن وقت خروج محمد صلى اللّٰه عليه وسلم أى من بطن امه وموسى اخبر قومه أن الكواكب المعروف عندكم اسمه كذا اذا تحرك وسارع موضعه فھو وقت خروج محمد د صلى اللّٰه عليه وسلم وصار ذلک ممايتوارثه العلماى من بنى اسرائيل.30
حضرت کعب الاحبارsym-5 فرماتے ہیں: میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ sym-9کو وہ وقت بھی بتادیا تھا جس وقت حضورِ اکرم sym-1نے شکمِ مادر سے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔حضرت موسی sym-9نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ فلاں مشہور ستارہ جب حرکت کرنے لگے اور اپنی جگہ چھوڑدے تو وہ حضور sym-1کی ولادت کا وقت ہوگا۔علمائے بنی اسرائیل اس بات کو نسل در نسل منتقل کرتے رہے۔31

اس روایت سے واضح ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء کو آپ sym-1کی ولادت کی خبر واضح طور سے معلو م تھی اور وہ اس کو نسل در نسل منتقل کرتے چلے جاتے تھے یہاں تک کہ رسول مکرم sym-1کی ولادت و بعثت ہوئی اور بعض لوگ تصدیق کر کے کامیاب ہوگئے۔

یوسف نامی یہودی اور تصدیقِ ولادت

اسی طرح ایک یہودی کے حوالہ سے منقول ہے کہ وہ مکّہ میں رہتاتھا اور اس انتظار میں وہاں رہائش پذیر تھا کہ عنقریب آخر الزماں نبی sym-1کی ولادت ہونے والی ہےچنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے صاحب الاکتفاء تحریر فرماتے ہیں:

وحکى الواقد عن سليمان بن سحيم قال: كان بمكة يھودى يقال له يوسف، فلما كان اليوم الذى ولد فيه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وسلم قبل أن يعلم به أحد من قريش قال: يا معشر قريش قد ولد نبى ھذه الأمة فى بحرتكم ھذه اليوم وجعل يطوف فى أنديتھم فلا يجد خبرا، حتى انتھى إلى مجلس عبد المطلب فسأل فقيل له: ولد لابن عبد المطلب غلامفقال: ھو نبى والتوراة.32
واقدی نے سلیمان بن سحیم سے نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں:مکّہ مکرّمہ میں ایک یہودی تھا جس کا نام یوسف تھا۔جس وقت رسول اللہ sym-1کی ولادت مبارکہ ہوئی تو قریش میں اس خبر کے معلوم ہونے سےپہلے ہی اس نےکہا:اے قریشیوں! تمہاری اس وادی میں آج کے دن اس امت کے نبی(sym-1)کی ولادت ہوچکی ہے۔وہ یہودی ( یہی معلوم کرنےکے لیے) مکّہ کے گلیوں میں چکر لگارہا تھا لیکن اسے کوئی خبر نہیں ملی یہاں تک کہ وہ حضرت عبد المطلبsym-5 کی مجلس تک پہنچ گیا۔اس نے جب اس کےمتعلق سوال کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حضرت عبد المطلبsym-5 کے پوتے کی ولادت ہوئی ہے۔یہ سن کر اس نے کہا:تورات کی قسم یہی وہ نبی(sym-1)ہے۔

اس روایت سے واضح ہوتاہے کہ احبارِ یہود کو ولادت باسعادت کی اکثر نشانیاں معلوم تھیں۔یہی وجہ تھی کہ ولادتِ رسول sym-1کی خبر پھیلنے سے پہلے ہی یہ یہودی اس کے متعلق معلومات کررہا تھا۔ جس طرح یہودی احبار کو نبی اکرمsym-1کی ولادت کا علم تھا اسی طرح وہ ایک دوسرے سے بھی اس چیز کاتذکرہ کرتے رہتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے مروی ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے صاحب الامتاع تحریر فرماتےہیں:

عامر بن ربیعة قال: سمعت زيد بن عمرو بن نفيل يقول: إنا ننتظر نبيا من ولد إسماعيل، ثم من بنى عبد المطلب، ولا أرانى أدركه وأنا أؤمن به وأصدقه وأشھد أنه نبى، فإن طالت بك مدة فرأيته فأقرئه منى السلام، وسأخبرك ما نعته حتى لا يخفى علیك، فقلت: ھلم، قال: ھو رجل ليس بالطويل ولا بالقصير، ولا بكثير الشعر ولا بقليله، وليست تفارق عينه حمرة، وخاتم النبوة بين كتفيه، واسمه أحمد.33
عامر بن ربیعہ نے کہا:میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کہتے سنا کہ بلا شبہ ہم اولاد اسماعیل میں ،بنو عبد المطلب میں سے ایک نبی کا انتظار کررہے ہیں۔مجھے نہیں لگتا کہ میں انہیں پالوں گا حالانکہ میں ان پر ایمان لاتا ہوں ، ان کی تصدیق کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ نبی ہیں۔اگر تمہاری عمر لمبی ہو اور تم اس نبی کو پالو تو ان سے میرا سلام کہنا۔میں تمہیں ان کا حلیہ بتادیتا ہوں تاکہ تم پر کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔میں نے کہا جلدی بتائیں!اس نے کہا: نہ تو وہ لمبے قد کے ہوں گے اور نہ ہی پست قامت (بلکہ میانہ قد کے ہوں گے)،نہ ہی زیادہ بال والے ہوں گے اور نہ ہی کم بال والے اور ان کی آنکھ سے سرخی کبھی جدا نہیں ہوگی،مہر نبوت ان کے کاندھوں کے درمیان ہوگی اور ان کا نام(سیّدنا)احمد(sym-1) ہوگا۔

اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ علمائے یہود ونصاریٰ نبی آخر الزماں sym-1 کی ولادت و بعثت کی علامات کو جانتے اور آپس میں ایک دوسرے کو ان سے آگاہ کیا کرتے تھے تاکہ اس نبی آخر الزماں sym-1کی تصدیق کر کے کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں لیکن ایسا بہت کم افراد کرتے تھے تب ہی اکثریت نبی آخر الزماں sym-1کا زمانہ بعثت پانے کے باوجود آپ sym-1پر ایمان نہیں لائی اور انکار کر کے خسران کا شکار ہوگئی۔

عسکلان حمیری کی بشارت

حضرت عبد الرحمٰن بن عوفsym-5جب ملکِ یمن جاتے تو وہاں کسی عسکلان نامی بزرگ کے ہاں ٹھہرتے تھے اور وہ بوڑھا ہر دفعہ آپsym-5سے چند سوالات کیا کرتا تھاچنانچہ ابن عساکر اپنی سند سے حضرت عبدا لرحمٰن بن عوفsym-5 سے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

سافرت الى اليمن قبل مبعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنزلت على عسكلان بن عواكن الحميرى وكان شيخا كبيرا قد أسنى له فى العمر حتى عاد كالفرخ...وكنت لا ازال إذا قدمت الى اليمن نزلت عليه فيسألنى عن مكة والكعبة وزمزم ويقول ھل ظھر فيكم رجل له نبه له ذكر ھل خالف احد منكم عليكم فى دينكم فأقول لا فأسمى له من قريش وذوى الشرف حتى قدمت القدمة التى بعث فيھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعقبھا فوافيته وقد ضعف وثقل سمعه فنزلت عليه واجتمع عليه ولده وولد ولده فأخبروه بمكانى فشد عليه عصابة على عينيه وأسند فقعد فقال لى انتسب لى يا اخا قريش فقلت له انا عبد الرحمن بن عوف بن عبد عوف بن الحارث بن زھرة قال حسبك يا اخا زھرة الا أبشرك ببشارة وھى خير لك من التجارة قلت بلى قال أنبئك بالمعجبة وأبشرك بالمرغبة ان اللّٰه عز وجل قد بعث فى الشھر الاول من قومك نبيا ارتضاه صفيا وأنزل عليه كتابا وجعل له ثوابا ينھى عن الأصنام ويدعو الى الاسلام يامر بالحق ويفعله وينھى عن الباطل ويبطله.34
میں رسول کریمsym-1 کی بعثت سے قبل یمن گیا ہوا تھااور عسکلان بن عواکن حمیری کے ہاں ٹھہرا جوانتہائی بوڑھےہوچکےتھےاور ان کی عمر کافی زیادہ ہوگئی تھی یہاں تک کہ وہ پرندہ کے چھوٹے بچہ کی طرح ہوگئے تھے۔۔۔ جب بھی میں یمن میں ان کا مہمان بنتا تو وہ مجھ سے مکّہ مکرّمہ، کعبہ اور آب زمزم کے بارے میں پوچھتے اور کہتے کہ کیا تم میں کسی ایسے شخص کا ظہور ہوا ہے جس کے متعلق خبریں مشہور ہیں ؟کیا تم میں سے کسی ایک نے تمہارے دین کی مخالفت کی ہے ؟تو میں کہتا "نہیں" پھر میں انہیں قریش اور اشرافیہ کی نشاندہی کرتا ۔یہاں تک کہ یمن جانے کاوہ موقع آیا جس کے معاً بعد ہی رسول اللہ sym-1کی بعثت ہوئی تو میں نے اس بزرگ سے آنے کا وعدہ پورا کیا تو وہ اس وقت انتہائی کمزورہوچکے تھے،میں نے اسی کے ہاں قیام کیا۔ اس نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اکٹھا کرکے انہیں میرے متعلق آگاہ کیا پھر اس کی آنکھیں بوجھل ہوئیں تو وہ وہیں ٹیک لگاکر بیٹھ گیا اور مجھ سے کہا: اے قریشی بھائی! ذرا اپنا نسب بیان کرو تو میں نے کہاکہ میں عبد الرحمٰن بن عوف بن عبد عوف بن حارث بن زہرہ ہوں تو ا س نے کہا بس کافی ہے۔ اے میرے زہری بھائی کیاتمہیں ایک بشارت نہ دوں جو تمہارے لیے تجارت سے بہتر ہے؟میں نے کہا: ہاں بتایئے تو اس نے کہا: میں تمہیں عجیب وغریب خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مہینہ میں تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث کرکے اسے صفی بنایا ہے ، اس پر کتاب نازل فرمائی ہے اور اس کے لیے ثواب ٹھہرایا ہے۔ وہ بت پرستی سے روکتا ہے،اسلام کی دعوت دیتا ہے، حق کا حکم کرتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا ہے ،وہ باطل سے روک کر اس کی بیخ کنی کرتاہے۔

یعنی نبی مکرم sym-1کی آمد کی اطلاع اور آپ sym-1کی ولادت کی علامات اہلِ کتاب جانتے تھے اور ہر ایک چیز جو اس لحاظ سے رسول اکرم sym-1اس کی خبر نا جاننے والوں کو دیا کرتے تھے۔

قبیلہ ا زد کے ایک بزرگ کی گواہی

حضرت عبد اللہ بن مسعودsym-8نے اسی طرح ایک اور واقعہ حضرت ابو بکر صدیقsym-5سے بھی روایت کیا ہے جس کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف نبہانی تحریر فرماتے ہیں:

قال خرجت الى الیمن فى تجارة قبل ان یبعث النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فنزلت على شیخ من الازد عالم قد قرء الکتب وحوى علمًا كثیرًا واتى علیه من السن ثلاث وتسعون سنة فلما تاملنى احسبک حرمیا قال ابوبکر فقلت نعم انا من تیم بن مرة انا عبد اللّٰه بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعید بن تیم بن مرة قال بقیت لى فیک واحدة قلت ماھى قال اكشف لى عن بطنک قلت لاافعل او تخبرنى لم ذاک فقال انى اجد فى العلم الصحیح الصادق ان نبیا یبعث فى الحرم یعاونه على امره فتى وكھل فاما الفتى فخواض غمرات وكشاف معضلات واما الکھل فابیض نحیف على بطنه شامة وعللى فخذه الیسرى علامة فلا علیک ان ترینى ماخفى على قال ابو ابكر فكشفت له عن بطنى فراى شامة سوداء فوق سرتى فقال انت ھو ورب الکعبة... فقضیت بالیمن اربى ثم اتیت اتیت الشیخ اودعه فقال احامل انت منى ابیاتا الى ذلك النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقلت نعم وقال ابیاتا ذكر فیھا انه صاحب احبارًا ورھبانًا وكھانًا وكلھم اخبرہ بظھور النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مکة وتنکسیه الاوثان وانه یدعوا الناس سرًا وجھرًا الى اتباعه فحفظت وصیته وشعره وقدمت مکة...فقرعت الباب علیه فقلت یامحمد فقدت من نادى قومک فاتھموك بالغیبة وتركت من دین آبائك فقال یا ابا بكر انى رسول اللّٰه الیك والى الناس كلھم فآمن باللّٰه.35
حضرت صدیق اکبر sym-5 نے فرمایا: میں نبی کریم sym-1کی بعثت سے قبل تجارت کی غرض سے یمن گیا جہاں ایک ازدی بزرگ کے ہاں اترا۔ وہ ازدی بزرگ کتاب کا قاری اور زبردست عالم تھا اور چھیانوے(96) سال کا ہوچکا تھا۔ مجھے غور سے دیکھنے کے بعد کہا میرا خیال ہے کہ تم حرم سے تعلق رکھتے ہو۔ میں نے جواب دیا ہاں میں تمیم بن مرہ کے قبیلہ سے ہوں،یعنی میں عبد اللہ بن عثمان بن عامربن عمرو بن کعب بن سعید بن تیم بن مرہ ہوں۔ اس نے کہا کہ اب تم میں صرف ایک نشانی باقی رہ گئی ہے۔ میں نے پوچھا: وہ کونسی؟ اس نے کہا:ذرا اپنے شکم سے کپڑا ہٹائیے ۔ میں نے جواب دیا میں ایسا اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ آپ مجھے اس کی وجہ نہ بتائیں؟ تو اس نے وضاحت کی کہ میں صحیح سچے علم میں یہ پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوگا جس کے فریضۂ نبوت میں ایک نوجوان اور ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اعانت کرے گا۔ نوجوان معرکہ آرائیوں میں گھسنے والا ،پیچیدگیوں کو کھولنے والا ہوگا اور وہ کہنہ سال آدمی گورا نحیف و نزار ہوگاجس کے شکم پر تل اور بائیں ران پر ایک نشانی ہے۔ تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم مجھے وہ پوشیدہ نشانی دکھا دو۔ حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں میں نے اپنے شکم پر سے کپڑا ہٹایا تو اس نے ناف کے اوپر سیاہ تل دیکھا اور کہا :رب کعبہ کی قسم! وہ ادھیڑعمر آدمی تم ہی ہو۔۔۔پھر میں نے یمن میں اپنے بقیہ کام مکمل کیے اور واپس اسی شیخ کےپاس آیا جس کو چھوڑ گیا تھا۔پس اس نے کہا کہ کیا تم میرے چند اشعار اس نبی مکرم sym-1کے پاس لے جاؤگے؟میں نے کہا جی بالکل۔اس نے ایسے اشعار کہے تھے جس میں یہ ذکر تھا کہ وہ ازدگی بزرگ احبار و رہبان اور کاہنوں کا ہمنشین رہاہےاور سب ہی نے اس کو نبی مکرم sym-1کے مکّہ مکرمہ میں ظہور کی اور اس کے بتوں کو توڑنےکی خبر دی ہے ۔ اس کی بھی کہ وہ نبی لوگوں کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر(بحکمِ خداوند) اپنی اتباع کی طرف دعوت دےگا۔حضرت ابو بکر صدیق sym-5 فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی وصیت اور اس کے اشعار یاد کرلیے اور مکّہ واپس آگیا۔۔۔میں نے نبی مکرم sym-1کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ sym-1باہر تشریف لے آئے ۔میں نے کہا کہ اے(سیّدنا)محمد(sym-1) آپ sym-1اپنی قوم کی مجلس میں غیر حاضر تھے کہ وہ آپ پر تہمت لگا رہے ہیں کہ آپ نے اپنا آبائی دین ترک کردیا ہے؟آپ sym-1نے ارشاد فرمایا کہ اے ابو بکر بلا شبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیغمبر ہوں تمہاری طرف اور پوری انسانیت کی طرف تو تم اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لے آؤ۔

یوں حضرت صدیق اکبرsym-5 نبی مکرم sym-1پر ایمان لے آئے ۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول مکرم sym-1کی علامات تو ماقبل کتب وصحف میں مذکور تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نبی مکرم sym-1کے بعض قریب و سابق اصحاب کی بھی نشانیاں مذکور تھیں جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اس کو بیان فرمایا گیا ہے 36 جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول مکرم sym-1ہی وہ آخری نبی و رسول ہیں جن کا انتظار کیا جارہا تھا ۔

یہودی عالم کی تصدیق

اسی طرح ایک اور روایت جو حضرت عباسsym-5 سے مروی ہے اس میں بھی اسی طرح کا ایک اور واقعہ مذکور ہے کہ ایک یہودی عالم نے حضرت عبد المطلبsym-5 سے ملاقات کے دوران آپ کے متعلق چند سوالات دریافت کیے اور کسی نشانی کو دیکھنا چاہاچنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی ان کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

قال عبد المطلب قدمنا الیمن فى رحلة الشتاء فنزلت على حبر من الیھود قال ممن الرجل قلت من قریش قال من ایھم قلت من بنى ھاشم قال اتاذن لى ان انظر الى بعضك قال نعم مالم یكن عورة قال ففتح احدى منخرى فنظر فیھا ثم نظر فى الاخرى فقال اشھد ان فى احدى یدیك ملكا وفى الاخرى نبوة وارى ذلك فى بنى زهرة...قال ھل لك من شاعة قلت وما الشاعة قال الزوجة قلت اما الیوم فلا فاذا رجعت فتزوج منھم فرجع عبد المطلب الى مكة فتزوج ھالة بنت وھب بن عبد مناف فلولدت له حمزة وصفیة وتزوج ابنه آمنة بنت وھب فولدت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت قریش افلج عبد اللّٰه على ابیه.37
حضرت عبد المطلبsym-5 نے فرمایا:ہم سرمائی تجارتی قافلے کے ہمراہ یمن گئے تو میں ایک یہودی عالم کے گھر مہمان ٹھہرا ۔ اس نے دریافت کیا تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے بتایا بنو قریش سے ہوں۔اس نے پھر سوال کیا قریش کی کس شاخ سے ہو؟ میں نے جواب دیاکہ بنو ہاشم سے۔ اس نے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو میں تمہارے جسم کے بعض حصوں کا معائنہ کرلوں؟ میں نے کہا: ہاں البتہ ایک شرط ہے کہ بے پردگی نہ ہو۔ چنانچہ اس نے میری ناک کے ایک نتھنے کو کھول کر دیکھا پھر دوسرے کو دیکھا تو کہا کہ گواہ رہو : تمہارے ایک ہاتھ میں سلطنت ہے اور دوسرے میں نبوت اور میرا خیال ہے کہ نبوت بنو زہرہ میں ہے ۔۔۔ اس نے پوچھا کیا تمہارے پاس شاعہ ہے؟میں نے کہا کہ یہ شاعہ کیا شئی ہے؟تو اس نے کہا بیوی ہے؟ میں نے اسے بتایا اس وقت تو نہیں ہے تو اس نے کہا واپس جاکر بنو زہرہ سے شادی کرلینا۔ چنانچہ عبدا لمطلبsym-5 نے مکّہ واپس آکر ہالہ بنت وھب بن عبدمناف سے شادی کرلی جس سے حمزہ اور صفیہ پیدا ہوئے اور اپنے بیٹے عبدا للہ کوآمنہ بنت وہب سے بیاہ دیا جس سے نبی کریمsym-1 کی ولادت باسعادت ہوئی۔ قریش کہا کرتے تھے کہ عبد اللہ اپنے باپ عبد المطلبsym-5 سے بازی لے گئے۔

اس روایت سے بھی یہی واضح ہوا کہ نبی مکرمsym-1کی علامات کو یہاں تک کہ آپsym-1 کے خاندان کو بھی اہل کتاب پہچانتے تھے۔

رسول اللہ sym-1اور عیسائی راہب

ایک اور واقعہ كتب ِ سير میں مذکور ہے کہ ایک شامی راہب نے اہل مکّہ سے آپsym-1 کی ولادت کے بارے میں تذکرہ کیاچنانچہ روایت میں منقول ہے:

وكان بمرّ الظھران راھب من أھل الشام يدعى عيصاوقد كان آتاه اللّٰه علما كثيرا وكان يلزم صومعة له ويدخل مكة فيلقى الناس ويقول: يوشك أى یقرب أن يولد فيكم مولود يا أھل مكة تدين له العرب، ويملك العجم: ھذا زمانه، فمن ادركه واتبعه أصاب حاجتھومن أدركه وخالفه أخطأ حاجته.38
مر الظہر ان کے مقام پر ملک شام کا ایک راہب رہتا تھا جس کا نام عیصی تھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے زبردست علم دیا تھااور وہ ہر وقت اپنی عبادت گاہ میں رہتا تھا ۔ وہ جب بھی مکّہ آتا تو لوگوں سے ملتا اور کہتا: اے اہل مکّہ بہت قریب زمانے میں تمہارے درمیان ایک بچہ پیدا ہوگا اور سارا عرب اس کے راستے پر چلے گا، وہ عجم کا بھی مالک ہوجائے گااور یہی اس کا زمانہ ہے ،جو اس کے زمانے کو پائے گا اور اس کی پیروی کرے گا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائےگا۔جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ اپنے مقصد اور آرزوؤں میں ناکام ہوگا۔

چنانچہ مکّہ میں اس زمانے میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا وہ اس کے بارے میں تحقیق کرتا اور کہتا کہ ابھی وہ بچہ نہیں پیدا ہوا، آخر جب وہ صبح ہوئی یعنی وہ وقت آیا جس میں آپ sym-1کی ولادت ہوئی تو عبد المطلب اپنے گھر سے نکلے اور عیص کے پاس آئے۔ عیص نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں عبد المطلب ہوں ، پھر انہوں نے اس راہب سے پوچھا کہ اس بچے کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا: بے شک وہ بچہ پیدا ہوگیا جس کے بارے میں تم سے کہا کرتا تھا اور وہ ستا رہ جس کا طلو ع ہونا اس بچے کی پیدائش کی علامت ہے آج رات نکل آیا ہے اور اس کی علامت یہ بھی ہے کہ اس وقت اس بچے کو درد ہورہا ہے۔یہ تکلیف اسے تین دن رہے گی اور اس کے بعد وہ ٹھیک ہوجائے گا۔پھر اس نے عبد المطلب سے کہا کہ جو کچھ میں نے تم سے اس بچے کے متعلق کہاہے اس کا کسی سے ذکر مت کرنا اس لیے کہ لوگ اس بچے سے اتنا زبردست حسد کریں گے کہ آج تک کسی سے نہیں کیا گیاہوگا اور اس کی اتنی سخت مخالفت ہوگی کہ کبھی کسی کی نہیں ہوئی ہوگی ۔39اس مضمون کو صاحب سبل نے بھی نقل کیاہے۔ 40

حبشہ کے کچھ عیسائی

حضرت حلیمہ سعدیہsym-6 جب نبی کریمsym-1 کو دوبارہ مکّہ واپس لارہی تھیں تو حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے نبی کریم sym-1کو دیکھ لیا تھا اور اپنے ساتھ حبشہ لیجانے کے در پہ ہوگئے تھےچنانچہ روایت میں منقول ہے:

أن نفرا من الحبشة نصارى رأوه معھا حين رجعت به بعد فطامه، فنظروا إليه وسألوھا عنه، وقلبوه، ثم قالوا لھا: لنأخذن ھذا الغلام فلنذھبن به إلى ملكنا وبلدنا، فإن ھذا غلام كائن له شأن نحن نعرف أمره فلم تكد تنفلت به منھم.41
حبش کے کچھ عیسائیوں نے آپ sym-1کو حضرت حلیمہsym-6 کے ساتھ دیکھا جب وہ آپ sym-1کے ساتھ مدت رضاعت کے بعد واپس لوٹ رہی تھیں۔ انہوں نے آپ sym-1کو بغور دیکھا اور حضرت حلیمہ sym-6 سے آپ sym-1کے بارے میں سوالات کرنے لگےاور آپ sym-1کو اپنے پاس کرلیا۔پھر وہ حضرت حلیمہsym-6 سے کہنے لگےہم ا س بچہ کو ضرور پکڑ لیں گے اوراپنے ملک اورشہرلے جائیں گے۔ یہ بچہ بڑی شان والا ہے، ہم اس کے متعلق خوب جانتے ہیں۔حضرت حلیمہ نے جلدی ان سے جان چھڑائی۔

مذکورہ بالا تمام حوالہ جات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ sym-1کی ولادت وبچپن،لڑکپن وجوانی، بعثت و کہولت ، اقامت وہجرت،سیر و غزوات الغرض کئی اہم واقعاتِ نبوی sym-1ا وراہم علامات ایسی تھیں جو علماء یہود ونصاری جانتے تھے۔نہ صرف اتنا بلکہ آپ sym-1کے بعض جلیل القدر اصحابِ عظّام sym-7 کی نشانیاں بھی انہیں معلوم تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر وہ علامات جن کا ظہور آپ sym-1کی ولادت سے قبل اور بعد ،بعثت سے قبل اور بعدہوا اس کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور دوسرے اشخاص کوان سے آگاہ بھی کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان اہلِ کتاب میں سے بعض ہی وہ خوش نصیب افراد تھے جو مشرّف بہ اسلام ہوئے جیسے عبد اللہ بن سلا م ،کعب بن احبار وغیرہ اور دیگر اکثریت نے بغض و عناد کی بنیاد پرآپ sym-1کا نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ sym-1کی مخالفت بھی کی اور اب بھی مخالفت کے درپے ہیں لیکن بحکم الہی ان تمام تر کوششوں کے باوجود دینِ محمدی غالب ہوتا رہا اور آپ sym-1کی تعلیمات پھیلتی رہی یہاں تک کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں آپ sym-1کی اتباع کرنے والے موجود نہ ہوں۔


  • 1  القرآن، سورۃالانعام20:6
  • 2  القرآن،سورۃ البقرۃ89:2
  • 3  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص: 265 -266
  • 4  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، سیرتِ حلبیہ(مترجم:مولانا محمد اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دار الاشاعت،کراچی،پاکستان،2009ء،ص:583
  • 5  ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوَۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الحدیث ،القاھرۃ،مصر،2009م،ص:37
  • 6  ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوَۃ،(مترجم:شاہ محمد چشتی)،ج-1،مطبوعہ:ادارہ پیغام القرآن،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:48
  • 7  القرآن،سورۃ البقرۃ 2: 146
  • 8  ابو محمد عبد الملک بن ہشام الحمیری،السیرۃ النبویۃ، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص: 34 -35
  • 9  جب تبع اپنے لشکر کے ساتھ مشرق کی جانب مصروف تھا تو راستہ میں اس کا گزر مدینہ منوّرہ پر ہوا تو اپنی اولاد میں سے ایک لڑکے کو مدینہ میں چھوڑ دیا اور خود مشرق کی جانب روانہ ہوگیا وہاں فتوحات کے بعد واپسی میں مدینہ سے ہوتے ہوئے گزرا۔امام محمد بن اسحاق المطلبی، سیرت رسُولِ پاکﷺ( مترجم:مولانا اطہر صاحب نعیمی)،مطبوعہ: مکتبہ نبویّہ، لاہور، پاکستان،1431ھ، ص:76-77
  • 10  ابو محمد عبد الملک بن ہشام ،سیرۃ النبیﷺ(مترجم:مولوی قطب الدین احمد)،ج-1،مطبوعہ:الفیصل ناشران و تاجران کتب،لاہور،پاکستان، 2006ء، ص:15-17
  • 11  ابو عبید اللہ محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 25 -26
  • 12  ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2008م،ص: 115 -116
  • 13  ابو الحسن علی بن محمد البغدادی الشھیر بالماوردی،اعلام النبوۃ للماوردی،مطبوعۃ:دارو مکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان،1409ھ،ص:174
  • 14  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009 م،ص:50
  • 15  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃالامین المأمون ﷺ،ج-2،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:113
  • 16  ابو عبد اللہ جمال الدین محمد بن علی ابن حدیدۃ،المصباح المضی فی کتاب النبی الامی ورسلہ الی ملوک الارض من عربی وعجمی،ج-2،مطبوعۃ:عالم الکتب، بیروت، لبنان،( لیس التاریخ موجودًا)،ص:229
  • 17  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمون ﷺ،ج-2،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:113
  • 18  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله السهيلی،الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃلابن ہشام،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:72
  • 19  ابو عبد اللہ جمال الدین محمد بن علی ابن حدیدۃ،المصباح المضی فی کتاب النبی الامی ورسلہ الی ملوک الارض من عربی وعجمی،ج-2،مطبوعۃ:عالم الکتب، بیروت، لبنان،( لیس التاریخ موجودًا)،ص:233
  • 20  ابو محمدبدر الدین حسن بن عمر الحلبی،المقتفٰی من سیرۃ المصطفٰی ﷺ،مطبوعۃ:دار الحدیث ، القاھرۃ، مصر، 1996م، ص:49
  • 21  ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ،ج-2،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م،ص:204
  • 22  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ﷺ،مطبوعۃ:دارا لکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،2005م،ص:108
  • 23  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:52
  • 24  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی،دلائل النبوۃ(مترجم:مولانا محمد طیب )،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:110
  • 25  ابوبکر احمد بن حسین البیھقی،دلائل النبوّۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ﷺ،ج-2،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2008م،ص:12
  • 26  ابوبکر احمد بن حسین البیھقی،دلائل النبوّۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ﷺ(مترجم:مولانا محمد اسماعیل الجاروی)،ج-2،مطبوعہ:دار الاشاعت،کراچی، پاکستان،2009ء،ص:298
  • 27  ابو الحسن علی بن محمد البغدادی الشھیر بالماوردی،اعلام النبوۃ للماوردی،مطبوعۃ:دارو مکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان،1409ھ،ص:179
  • 28  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الخصائص الکبریٰ، ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:139
  • 29  ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،مطبوعۃ:دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان،1976م،ص:336
  • 30  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلین ﷺ،مطبوعۃ:دارا لکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان،2005م،ص:107
  • 31  شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلین ﷺ(مترجم:علامہ ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان،2013ء،ص:229
  • 32  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری،الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2000م،ص:108
  • 33  ابو العباس احمد بن علی الحسینی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1999م، ص:32
  • 34  ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج-35، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃوالنشر والتوزیع، بیروت، لبنان،1995 م، ص: 249 -251
  • 35  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ،مطبوعۃ:دارا لکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان،2005م،ص:106
  • 36  القرآن، سورۃ الفتح29:48
  • 37  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ﷺ،مطبوعۃ:دارا لکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،2005م،ص:109
  • 38  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمون ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:102
  • 39  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، سیرت حلبیہ (مترجم:محمد اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دار الاشاعت ، کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:226
  • 40  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:340
  • 41  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری،الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2000م،ص:114

Powered by Netsol Online