encyclopedia

آپ ﷺکی زبان مبارک

Published on: 27-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 26، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 426-439)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو تخلیق فرماکر اسے چند قوتیں بھی عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ سے انسان اس زندگی کو بہتر انداز سے جیتا ہے۔ان قوتوں کے ذریعہ ہی سے وہ علم وعرفان کی دولت سے بھی نوازا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالہ سے قرآن ِ مجید میں ایک مقام پرارشاد فرمایا:

وَاللّٰه اَخْرَجَكمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّھتِكمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَة ۙ لَعَلَّكمْ تَشْكرُوْنَ781
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔

اس آیتِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا میں آتے ہوئے لا علم تھا پھر اسے علم کے لیے کان،آنکھ اور دل دیے گئے تاکہ ان سے وہ علم حاصل کرے۔پھر جب وہ علم حاصل کرتا ہے تو اب اس کے اظہار کے لیے اسے زبا ن جیسی عظیم المرتبت نعمت سے نوازا گیا ہے اور پھر نہ صرف ایک زبان بلکہ کئی زبانیں اسے سکھائی گئیں ہیں۔چنانچہ اس بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا ہے:

وَمِنْ اٰیتِه خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكمْ وَاَلْوَانِكمْ ۭ اِنَّ فِى ذٰلِك لَاٰیتٍ لِّــلْعٰلِمِینَ222
اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں۔

اس آیت مذکورہ میں اللہ ربُّ العزّت نے زبانوں کے مختلف ہونے کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے اور اہل علم کے لیے مرکزِ غور وفکر بھی بیان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہےکہ زبان،قوتِ تکلم اور اس کا اختلاف انسانی زندگی کےلیے لازمی جز ہے جس سے انسانی معاشرہ ارتقائی سفر طے کرتا ہوا ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے۔ یہ تو عمومی طور پر زبان کے حوالہ سے بات تھی۔خصوصی طور پر قارئین اس طرف توجہ کریں کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک کا حال اس سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان ِ اقدس مھبطِ وحی الہٰی ہے اور اس زبان مبارک ہی کے ذریعہ سے انسانیت کا راستہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اسلام اور اس کے احکامات سے جڑتا ہے۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مبارک زبان نہایت پاکیزہ، علم وادب، فصاحت وبلاغت، حق وصداقت اور لطف ومحبت کا منبع ومظہر تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا کلام شیریں، حق و باطل میں فرق کرنے والا، واضح و مبین اور ہر قسم کے عیوب یعنی افراط وتفریط، جھوٹ، غیبت، بدگوئی اور فحش کلامی وغیرہ سے منزہ اور پاک تھا گویا آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا کلام لڑی کے موتی تھے جو سطح زمین کی طرف گرتے ہوئے انتہائی دلنشین و سحر نگین محسوس ہوتے تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبیّنِ وحی الہٰی

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان اقدس ہی امت کے لیے وہ عطیہ ربانی ہے جس کے وسیلہ وواسطہ سے امتِ محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم اپنے رب کریم کی معرفت سے عارف بنی اور اسی زبان اطہر کے طفیل اس تک اللہ ربُّ العزّت کا کلام بے نظیر پہنچا۔اس کلام کو یاد کرنےاور امت تک پہنچانے کے لیے نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کافی مشقت برداشت فرماتے اور دوران وحی الہٰی اس کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی تلاوت میں جلدی فرماتے تھے۔چنانچہ اس بات کو ایک مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:

وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یقْضٰٓى اِلَیك وَحْیه وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا1143
اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی بات کا ذکر فرمایا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وحی کی حفاظت کے خاطر وحی الہٰی کے دوران ہی اس کویاد کرنے میں جلدی فرمایا کرتے تھے۔پھر اس جلدی کی وضاحت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک دوسرے مقا م پر بیان فرمائی ہے کہ اس وحی الہٰی کو یا دکرنے کے خاطر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی زبان اقدس کو جلدی جلدی حرکت دیتے تھے جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو روکا گیا۔چنانچہ اللہ تبارک وتتعالیٰ نے اس کا ذکر قرآنِ مجید میں پھر یوں فرمایا ہے:

لَا تُحَرِّكْ بِه لِسَانَك لِتَعْجَلَ بِه164
(اے حبیب!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔

اس آیت ِ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس جلدی کی وضاحت یوں بیان فرمائی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دوران وحی الہٰی اپنی زبان اطہر کو جلد از جلد حرکت نہ دیا کریں ۔اس کی تفسیرمیں امام رازی رقمطراز ہیں:

كان الرسول صلى اللّٰه علیه وسلم یظھر التعجیل فى القراءة مع جبریل، وكان یجعل العذر فیه خوف النسیان، فكأنه قیل له: إنك إذا أتیت بھذا العذر لكنك تعلم أن الحفظ لا یحصل إلا بتوفیق اللّٰه وإعانته فاترك ھذا التعجیل واعتمد على ھدایة اللّٰه تعالى، وھذا ھو المراد من قوله.5
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت جبریل کے ساتھ پڑھنے میں جلدی فرمایا کرتے تھے اور اس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جلدی فرمانا نسیان کے عذ ر کے اندیشہ کی وجہ سے تھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ارشاد فرمایا گیا کہ اگرچہ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس عذ رکی بناء پر جلدی قرات فرماتے ہیں لیکن اس بات کو جان لیجیے کہ حفظ کرنا اللہ کی توفیق و مددکے ساتھ ہی ممکن ہے لھذا آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )اس عجلت کو ترک فرمائیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی (حفظ کے لیے)رہنمائی پر اعتماد فرمائیں۔باری تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کا یہی مطلب ہے۔

یعنی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وحی الہٰی کو حفظ کرنے کے لیے ضرورتًا تعجیل فرمایا کرتے تھے کہ مبادا کہیں بھول نہ جائیں تو اللہ ربُّ العزّت نے تعجیل سے روکا اورمذکورہ اندیشہ کے پیشِ نظر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اطمینان و تسلّی دیتے ہوئے اس سے اگلی آیت میں ارشادفرمایا کہ اس وحی کو جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ کرم پر ہے۔ 6

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک پتلی تھی

مذکورہ آیاتِ بیّنات سے جہاں مذکورہ بالا معروضات واضح ہوتی ہیں وہیں نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان اطہر کی ساخت بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک کی ساخت کے حوالہ سے کتب ِ سیر و احادیث میں صاف اور واضح روایات منقول و مذکور نہیں ہیں کہ جن سے اندازہ ہوسکے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک کی ہیئت و کیفیت کس طرح کی تھی کیونکہ یہ جسم ِ مبارک کا پوشیدہ حصہ تھا جس کو زیادہ دیر تک دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔لیکن مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تناظر میں ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی زبان کو جلد از جلد یاد کرنے کےلیے حرکت دیا کرتے تھےاور یہ جلد از جلد حرکت دینا اسی صور ت میں ممکن ہے کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک پتلی ہوکیونکہ موٹی زبان سریع الحرکت نہیں ہوتی بلکہ اس میں کچھ لکنت پیدا ہوجاتی ہے اور الفاظ کی ادائیگی میں دشوار ی ہوتی ہے۔یہ مشاہداتی بات ہے کہ جتنے بھی لکنت والے اشخاص ہیں ان میں اکثریت کی زبان موٹی ہوتی ہے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان اقدس کی رنگت

رسولِ اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک بالکل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسمِ اطہر کی طرح پاکیزہ و شفاف تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دہن مبارک کی پاکیزگی کی بنا پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک کی نظافت بھی انتہائی اعلی درجہ کی تھی یہی وجہ ہے کہ زبان اطہر کی رنگت سرخی مائل تھی۔چنانچہ کئی روایات میں منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی زبان مبارک اہلِ بیت کو چسوایا کرتے تھے اور بالخصوص ایک موقع پر حضرت امام حسنِ مجتبٰیRadi Allah Anho کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زبان مبارک چسوائی ۔چنانچہ حضرت ابو ہریرۃRadi Allah Anho سےروایت میں منقول ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لیدلع لسانه للحسن بن على فیرى الصبى حمرة لسانه فیبھش الیه.7
رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت حسن بن علی کے لیے اپنی زبان مبارک کو دہن اقدس سے باہر نکالتے تھے تو حضرت حسنRadi Allah Anho آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک کی سرخی کو دیکھتے اور اس کی طرف جھپٹتے۔

اس روایت کو امام بغوی8 اور امام قسطلانی9 دونوں ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔مجمع الزوائد میں بھی اس حوالہ سے ایک روایت منقول ہے جس میں زبان کےساتھ ساتھ ہونٹ چوسنے کا بھی ذکر ہے۔ 10مذکورہ روایت کی مزید تشریح درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جو حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anhoسے ہی مروی ہے:

قال: لا أزال أحب ھذا الرجل: یعنى الحسن بعدما رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصنع به ما یصنع قال: رأیت الحسن فى حجر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو یدخل أصابعه فى لحیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، والنبى صلى اللّٰه علیه وسلم آ یدخل لسانه فى فمه، أو لسان الحسن فى فمه، ثم قال: اللھم إنى أحبه، فأحبه وأحب من یحبه.11
حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anhoفرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس شخص یعنی حضرت حسن Radi Allah Anhoسے محبت کرتاہوں جب سے میں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کے ساتھ وہ کرتے دیکھا جو میں نے دیکھا۔آپRadi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن مجتبیRadi Allah Anho کو (بچپن میں) نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی گود مبارک میں اس حال میں دیکھا کہ حضرت حسن Radi Allah Anhoاپنی انگلیوں کو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی داڑھی مبارک کے درمیان ڈال رہے تھے او رنبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam (پیار بھرے انداز میں )اپنی زبان مبارک کو ان کے منہ میں ڈال رہے تھے یا ان کی زبان کو اپنے منہ مبارک میں ڈا ل رہے تھے ۔پھر نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دعا فرمائی کہ اے اللہ بلا شبہ میں اِن سے محبت کرتا ہوں تو آپ بھی اس سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے بھی محبت فرمائیں جو اِس سے محبت رکھے۔

اس روایت کو ابن المقرئ12 اور یوسف الصالحی الشامی 13دونوں ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے اوراس روایت سے مذکورہ بالا روایت کی تفصیلی وضاحت ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان سرخ تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کو اپنے نواسے حضرت حسن ِمجتبی Radi Allah Anho کو چسوایا بھی کرتے تھے ۔اسی طرح رسولِ اكرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زبان مبارک حضرت حسین کو بھی چسوائی ہے اور اس طرح آپ بھی نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک سے فیضیاب ہوئے ہیں۔چنانچہ مروی ہےکہ ایک مرتبہ نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء Radi Allah Anhaکے گھر کے پاس سے گزرے تو حضرات حسنین کریمین Radi Allah Anhumaکی رونے کی آواز سنی تو وجہ دریافت فرمائی۔سیّدہ نے عرض کی کہ پیاس کی وجہ سے روتے ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پہلے حضرت حسن کو باہر بلوایا اور سینے سے لگا کر اپنی زبان اطہر چسوائی جس وہ پر سکون ہوگئے۔ مروی روایت میں حضرت ابوہریرہ مزید فرماتے ہیں:

والآ خر یبكى كما ھو یسكت فقال صلى اللّٰه علیه وسلم ناولینى الآخر فناولته ایاه ففعل به كذالك.14
اور دوسرے(حضرت حسینRadi Allah Anho )بھی رونے لگے جیساکہ وہ (پہلے)چپ تھے تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سیّدہ فاطمۃ الزہراء Radi Allah Anhaسے فرمایا کہ دوسرے کو بھی مجھے دیں تو آپ Radi Allah Anhaنے حضرت حسینRadi Allah Anhoکو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیا تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں بھی اپنی زبان مبارک چسوائی۔

بہر کیف روایت سابقہ میں مذکور لفظ حمرۃ لسانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان اطہر سرخ تھی اور زبان کی سرخی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کی پاکیزگی و نظافت کا انتہائی اہتمام فرمایا کرتے تھے كیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ مسواک شریف سےمکمل دہن مبارک صاف فرماتے تو ساتھ ساتھ اپنی زبان اطہر کو بھی مسواک کے ذریعہ سے صاف فرمایا کرتے تھے۔ 15

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک کی مٹھاس

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاپنی زبان مبارک نہ صرف حضرت حسنِ مجتبیRadi Allah Anho کو چسوائی ہے بلکہ بعد از ولادت حضرت علی المرتضیٰRadi Allah Anho کو اور حضرت خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراءRadi Allah Anha کو بھی چسوائی ہےجس سے مقصود محبت وپیار کا اظہار ہے اور یہ اظہارِ محبت صرف اہلِ بیت کرام Radi Allah Anhumہی کے ساتھ فرمایا اور کسی کے ساتھ نہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس طرح کا اظہارِ محبت صرف اہل ِ بیت کے ساتھ ہی خاص تھا نہ کہ عام جیسا کہ بعض نا عاقبت اندیشوں کا خیاِلِ فاسدہ ہے۔بہر کیف حضرتِ علی المرتضیٰ Radi Allah Anhoکے حوالہ سے روایت میں منقول ہے:

وفى خصائص العشرة للزمخشرى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تولى تسمیته بعلى وتغذیته ایاما من ریقه المبارك بمصه لسانه فعن فاطمة بنت أسد أم على رضى اللّٰه تعالى عنھا أنھا قالت: لما ولدته سماه علیا وبصق فى فیه، ثم إنه ألقمه لسانه، فما زال یمصه حتى نام، قالت: فلما كان من الغد طلبنا له مرضعة فلم یقبل ثدى أحد، فدعونا له محمدا فألقمه لسانه فنام، فكان كذلك ما شاء اللّٰه عز وجل.16
علامہ زمخشری کی کتاب خصائص میں یہ منقول ہے کہ بلا شبہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہی حضرت علی المرتضٰی Radi Allah Anhoکا نام علی رکھا اور کئی روز تک انہیں اپنی زبان کے چسوانے کے ذریعہ اپنے لعابِ دہن مبارک سے غذا دی ۔چنانچہ امّ علی حضرت فاطمہ بنت اسد Radi Allah Anha سے مروی ہے کہ آپ فرماتی ہیں:جب میں نے حضرت ِ علی Radi Allah Anhoکو جنا تو نبی کریم ﷺنے آپ کا نام علی رکھا اور آپ کے منہ میں لعاب مبارک ڈالا ۔پھر نبی کریم ﷺنے آپ کو اپنی زبان مبارک چسوائی تو حضرت علی Radi Allah Anho اس زبان ِ اقدس کو مسلسل چوستے رہے یہاں تک کہ آپ سوگئے۔حضرت فاطمہ بنت اسد Radi Allah Anhaفرماتی ہیں کہ اگلا دن جب آیا تو ہم نے آپ کے لیے چند دائیوں کو تلاش کیالیکن کسی ایک کا بھی پستان آپ نے قبول نہیں کیا ۔پھر ہم نے آپ کے لیے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بلایا تو آپ نے ایک بار پھر اپنی زبان مبارک کو حضرت علی کے منہ میں ڈالا تو آپ چوس کر سوگئے ۔ایساتب تک رہا جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ نے چاہا۔

یعنی حضرت علی المرتضیٰ Radi Allah Anho کو گھٹّی میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زبان اطہر چسوائی اور آپ Radi Allah Anho بھی اس مقدس زبان کو چوستے رہے یہاں تک کہ سوگئے۔ اسی طرح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زبان مبارک حضرت خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراء Radi Allah Anhaکو بھی چسوائی تھی اور یہ اعزاز آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بیٹیوں میں صرف حضرت فاطمۃ الزہراء Radi Allah Anhaکو ہی حاصل ہے۔چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشۃ Radi Allah Anha سے روایت منقول ہے :

كان یمص اللسان اى یمص لسان حلائله وكذا ابنته فقد جاء فى حدیث انه كان یمص لسان فاطمة ولم یرو مثله فى غیرھا من بناته.17
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی زبان مبارک چسوایا کرتے تھے یعنی اپنے نواسوں کو اور اسی طرح اپنی بیٹی کو بھی ۔پس حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراءRadi Allah Anha کو اپنی زبان مبارک چسوایا کرتے تھے اور آپ Radi Allah Anhaکے علاوہ کسی اور بیٹی کے بارے میں اس طرح کی روایت منقول نہیں ہے۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک سے حضراتِ اہل بیت کرام نے خو ب فیض حاصل کیا ہے اور یہ صرف خاصہ اہلِ بیت ہے۔

ہر عیب سے پاکیزہ زبان مبارک

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مبارک زبان فضول اور لایعنی باتوں سے پاک تھی اس لیے کہ زبان اقدس وحی الہٰی کا ماخذ و مصدر تھی اسی لیے اس زبان مبارک میں سرے سے غلطی اور خطا کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ ھوَاِلَّا وَحْى یوْحٰى418
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔

یعنی جو کچھ بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دینی امور میں گفتگو فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی سے بیان کرتے ہیں۔تو جو زبان اللہ ربُّ العزّت کی وحی کا مھبط ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ زبان مبارک ہر قسم کے عیب و بد سے مبراءو منزہ ہوگی۔اس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا ہے کہ اس زبان سے صرف حق و سچ ہی نکلتا ہے۔چنانچہ امام ابو داؤداس حدیث ِ مبارکہ کو نقل فرماتے ہیں:

عن عبداللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا؟ فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب فوالذى نفسى بیده ما یخرج منه الا حق.19
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں: میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سنتا پس لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہا کہ :آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو کہ سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی بشر ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس بات کا ذکر کیا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انگشت مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر حق۔

اسی طرح حضرت علیRadi Allah Anho نے بھی اسی تناظر کے تحت ارشاد فرمایا ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخزن لسانه الا فیما یعنیه.20
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam زبان اقدس کو لا یعنی باتوں سے محفوظ رکھتے تھے۔

یعنی رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک سے حق و سچ ہی نکلتا تھا جو کہ منصبِ نبوت و رسالت کا عین تقاضہ ہے اوراس حق وسچ کے علاوہ لایعنی کوئی کلام آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بالکل نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان اقدس ہر طرح کےعیوب ونقائص سے بالکل پاک و صاف تھی ۔

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان کی خصو صیّت

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک ہی وہ کامل و اکمل زبان اطہر ہے کہ جس کوربُّ العزّت نے اپنے کلام کے صدور کے لیے منتخب فرمایا ہے اور قرآن مجیدمیں بھی اس کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا ہے:

بِلِسَانٍ عَرَبِى مُّبِینٍ19521
(اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے،

نہ صرف یہ بلکہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ منقو ل ہے کہ ایک دفعہ صحابہ کرام نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی فصاحت ِ لسان کے بارےمیں خدمت ِعالیہ میں حاضر ہوکر عرض کیا :

یا رسول اللّٰه ما رأینا الّذى ھو أفصح منك، قال: وما یمنعنى، وإنما أنزل القرآن بلسانى لسان عربى مبین.22
یا رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam !ہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے زیادہ فصیح اللسان نہیں دیکھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:مجھے اس فصاحت ِ لسانی میں کون روک سکتا ہے ؟حالانکہ قرآن مجید میری ہی زبان یعنی واضح عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔

یہ زبان ِ رسالت کی خصوصیّت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا شرف وامتیاز ہے کہ انسانیت کے لیے آخری ہدایت نامہ اللہ ربُّ العزّت کی جناب مقدسہ سےآپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان میں نازل فرمایا گیا ہے۔

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک خصوصی نام "اللّسان"

نبی اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان کی روانی ،الفاظ کی ادائیگی،مفہوم کی وضاحت اور سامعین کی دلچسپی کی بنیا د پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام"اللسان " بھی ہے۔اس کے متعلق وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے امام یوسف الصالحی الشامی تحریر فرماتے ہیں:

ویطلق على الرسالة وعلى المتكلم عن القوم... واللسن بالفتح الفصاحة والبلاغة، وسمي به صلى اللّٰه علیه وسلم لأنه لشدة بلاغته وفصاحته كان مجموعة لسان.23
اور(لسان کا)اطلاق پیغام پر اور قو م کی طر ف سے بات کرنے والےپر کیا جاتا ہے۔۔۔لسن (سین کے)زبر کے ساتھ فصاحت و بلاغت کو کہتے ہیں اور یہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی فصاحت ِلسانی و بلاغت کی شدت کی وجہ سے اس کا مجموعہ تھے۔

یہی تو وجہ ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی اپنی فصاحتِ لسانی اور بلاغتِ کلامی کی امتیازیت کو بیان فرماتے تھے24اور خصوصًا صحابہ کرام اور عمومًا اہلِ عرب اس بات کے معترف تھے۔25

لسانِ رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کمالِ گفتگو

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب لسانِ رسالت سےگفتگو فرماتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک منہ سے نور کی جھڑی لگ گئی ہو ۔مجلس کے حسب حال گفتگو فرماتے، نہ اس میں زیادہ اختصار ہوتا اور نہ ہی طوالت، بڑے بڑے فصحاء آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گفتگو سن کر ششدررہ جاتے اور پکار اٹھتے کہ واقعی اس منہ سے وحی الہٰی کا ہی ظہور ہوتا ہے۔حضو رنبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاکثر طور پر امت کے بارے میں متفکر رہتے تھے ، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مصروفیات اور عظیم ذمہ داریوں کی وجہ سے کبھی راحت نہیں پائی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamزیادہ تر خاموش رہتے تھے اوربلاضرورت گفتگو نہ فرماتے ،ابتدائے کلام سے انتہائے کلام تک مکمل اور پورے الفاظ اور فقرے ادا فرماتے ،نوک زبان سے کوئی لفظ نہ کاٹتے گفتگو کرتے وقت جامع کلمات استعمال کرتے۔چنانچہ اسی بارے میں ایک روایت میں منقول ہے:

كلامه فصل لا فضول ولا تقصیر.26
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گفتگو انتہائی صاف اور واضح ہوتی۔ ضرورت سے زائد نہ ہوتی اور نہ ہی ادائیگی مقصود میں کوئی کمی ہوتی۔

حضرت ام معبد Radi Allah Anha نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا:

فصل لا نزر ولا هذر.27
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا کلام فصیح و بلیغ ہوتا نہ اس میں کمی ہوتی نہ کثرت۔

امام بیہقیRehmatullah Alaih"لانزر ولا ھذر" کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ترید انه وسط لیس بقلیل ولا كثیر.28
حضرت امِّ معبد Radi Allah Anhaکی مراد یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا کلام خوبصورت اور متوسط ہوتا تھا ،نہ قلیل تھا نہ کثیر تھا۔

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت اُ م معبد Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن ِتکلم کا بیان اپنے ان الفاظ میں کرتی ہیں:

اذا صمت فعلیه الوقار واذا تكلم سما وعلاه البھاه ...حلوا لمنطق.29
جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamخاموشی اختیار فرماتے تو چہرہ اقدس سے وقار وعظمت جھلکتی اور جب کلام فرماتے تو اہل مجلس پر چھا جاتےاورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حسن دوبالاہوجاتا ۔۔۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گفتگو شہد کی طرح میٹھی ہوتی تھی۔

اصحاب سیر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیاری گفتگو کے بارے میں لکھتے ہیں:

اعذبھم كلاما...حتى كان كلامه یاخذ بالقلوب.30
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا کلام اتنا میٹھا ہوتا تھا کہ دلوں میں اتر جاتا۔

شیخ عبد اﷲ سراج الدین شامیRehmatullah Alaihآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک گفتگو کی حلاوت کے بارے میں لکھتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حلوا لمنطق حسن الكلام اذا تكلم اخذ بمجامع القلوب وسبی الارواح والعقول.31
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گفتگو نہایت ہی خوبصورت اور شیریں ہوتی جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکلام فرماتے تو دلوں کو تسکین ہوتی اور روح وعقل اس میں گرویدہ وگرفتار ہوجاتے۔

فی الحقیقت کلام ہی زبان جیسے پوشیدہ جسمانی حصہ کا آئینہ و ترجمان ہوتا ہے اوراس میں رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبان مبارک تمام آئینوں پر سبقت رکھتی ہے۔

لسانِ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا اندازِ بیاں

اسی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamگفتگو اتنی ٹھہر ٹھہر کر فرماتے کہ ہر سامع اسے اچھی طرح محفوظ کرلیتا تھا۔ بعض اوقات اہم یا غیر واضح بات کو تین دفعہ بھی دہراتے۔اُم المومنین عائشہ صدیقہRadi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک گفتگو کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجلدی جلدی کلام نہیں فرماتے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گفتگو بڑی واضح اور صاف ہوتی تھی۔ اگر کوئی شخص آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گفتگو کے الفاظ کو شمار کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا۔اسی حوالہ سے آپ Radi Allah Anhaمزید فرماتی ہیں:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یحدث حدیثا لو عده العاد لاحصاه.32
رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاتنا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے کہ شمار کرنے والا اسے شمار کرسکتا تھا۔

دوسرے مقام پر سیّدہ عائشہ صدیقہRadi Allah Anha ہی سے مروی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس طرح سمجھا کر گفتگو فرماتے کہ اہل مجلس میں سے اسے ہر کوئی محفوظ کرلیتا تھا:چنانچہ روایت میں اس طرح منقول ہے:

ما كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یسر د سردكم ھذا ولكنه كان یتكلم بكلام بینة فصل یحفظه من جلس الیه.33
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا طریقہ جلدی جلدی گفتگو کرنے کا نہ تھا بلکہ انتہائی واضح اور صاف گفتگو فرماتے اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس بیٹھنے والا اسے یاد کرسکتا تھا۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حسنِ کلام کے حوالہ سے حضرت جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anho فرماتے ہیں:

كان فى كلام رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ترتیل وترسیل.34
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کلام میں نہایت خوبصورت نظم اور ٹھہراؤ تھا۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا صفاتی نام" اللسان"فی الحقیقت آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی کے لیے مناسب و نمایاں ہے اوریہ کمال بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی کی زبان مبارک کو حاصل ہے کہ اس سے نکلنے والا ہر کلام ہی حق و صداقت اور انسانیت کے لیے رہنمائی کا علمبردار تھا ۔ 35

لسان رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے کف اللّسان کی نصیحت

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی امت کی خیر خواہی کے لیے ان سے زیادہ حریص تھے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید36 میں بھی بیان فرمایا ہے اوراسی نصیحت کے پیشِ نظر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بعض دفعہ اپنی زبان مبارک کو اپنے دہنِ اقدس سے باہر نکال پھر اس کو اپنے دستِ اطہرسے پکڑ کر اشارہ فرماتے تھے تاکہ سننے والا نصیحت کی اہمیت کو دل میں جاں گزیں کر کے اس پر عمل پیرا ہوجائے اور کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔چنانچہ اسی طرح کی ایک روایت میں منقول ہےکہ ایک صحابی حضرت سفیان بن عبد اللہ Radi Allah Anho نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے عرض کیا:

فما أكثر ما تخاف على؟ قال: فأخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بلسان نفسه ثم قال: " ھذا ".37
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیرے لیے کس چیز کو زیادہ باعث خوف جانتے ہیں تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑا اور پھر فرمایا:اس کو۔

اس روایت کو امام ابن حبان نےبھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔38اس روایت کے علاوہ بھی کئی دیگر روایات میں مختلف مواقع پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اس طرح اپنی زبان مبارک کو پکڑ کرنصیحت فرمانے کا ذکر ہے ۔اس سے جہاں ایک طرف یہ اندازہ ہوتاہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamامت کے لیے انتہائی حریص ہیں وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ زبان پکڑ کر نصیحت فرمانا بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مقدس طریقہ رہا ہے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے تمام مخلوقات کے لیے رحمتِ خداوندی بنائے گئے ہیں اور خصوصا نوعِ انس و جن کے لیے رسول بنا کر مبعوث فرمائے گئے ہیں جس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کلیۃً اپنے امتیوں سے بڑھ کر مشرف وممتا زہوں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جہا ں ہر طرح کی خصوصیات میں اعلی و ارفع درجہ عطا فرمایا ہے وہاں حسن وجمال میں بھی یکتائے زمانہ اور سب سے اجمل واکمل واحسن بنایا تھا۔یہ حسن و خوبصورتی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہر عضو میں نمایاں تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبارک میں بھی اس کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبارک اعتدال و موزونیت کا شاہکار تھی اور ساتھ ہی ساتھ سرخ و پتلی بھی تھی کہ جس سے نظافت و لطافت اور حسن کلام کی صفت کا معلوم ہوتا ہے۔اسی زبان مبارک سے انس و جن کے لیے کامیابیوں اور کامرانیوں کے در واہوئے تھے اور ہو رہے ہیں۔اگر انس و جن اپنے تمام تر معاملاتِ زندگانی میں اسی زبانِ رسالتِ مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رہنمائی کو اپنالے اور اس پر عمل ِ پیہم استقامت سے شروع کردیں تو یقینی طور پر امنِ عالم اور سکونِ انس وجن سے تمام عالم پر سکون ہوجائےگا ۔ا س کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اللہ ربُّ العزّت اس زبانِ اطہر کی رہنمائی کے مطابق زندگی گزارنے والوں کو اعلیٰ مقامات ومناصب پر جلوہ گر فرمائے گا۔ جو ایک طرف زبان ِ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ماننے والوں کے لیےباعِث عزت و شرف ہوگا تو دوسری طرف تکذیب کرنے والوں اورنا فرمانوں کے لیے ندامت وحسرت کا موجب ہوگا۔


  • 1  القرآن ، سورۃالنحل78:16
  • 2  القرآن ، سورۃالروم22:30
  • 3  القرآن، سورۃطٰہٰ114:20
  • 4  القرآن ، سورۃ القیامۃ 75: 16
  • 5  ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدین الرازی،التفسیر الکبیر،ج-30، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ،ص:727
  • 6  القرآن ، سورۃالروم23:30
  • 7  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ،حدیث : 330، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:160
  • 8  ابو محمد الحسين بن مسعود البغوى الشافعى، الأنوار فى شمائل النبى المختارﷺ، حدیث: 313، ج-1، مطبوعۃ: دار المكتبى، دمشق، السوریۃ، 1995ء،ص:254
  • 9  شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-2، مطبوعة: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، (ليس التاريخ موجودّا)، ص:686
  • 10  ابو الحسن علی بن ابی بکر الھیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 15045، ج-9، مطبوعۃ:مکتبۃ القدسی،القاھرۃ، مصر، 1994ء، ص:177
  • 11  ابوسعید بن الاعرابی احمد بن محمد البصری، معجم ابن الاعرابی، حدیث: 1365 ، ج-2، مطبوعۃ: دار ابن جوزی،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 1997ء،ص:680
  • 12  ابو بکر محمد بن ابراھیم الاصبھانی، المعجم لابن المقری، حدیث:631، مطبوعۃ:المکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1998ء،ص:201
  • 13  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد، ج-11، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:66
  • 14  ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر، حدیث: 2656، ج-3، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:50
  • 15  ابوعبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند احمد بن حنبل، حديث: 19737، ج-32، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001ء،ص:514
  • 16  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی،السیرۃ الحلبیۃ،ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ء، ص:382
  • 17  عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی، الشمائل الشریفۃ، مطبوعۃ: دار طائر العلم للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:371
  • 18  القرآن، سورۃالقیامۃ16:75
  • 19  سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث: 3646 ،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 20  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 330، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:160
  • 21  القرآن،سورۃ الشعراء195:26
  • 22  ابو العباس احمد بن علی المقریزی، امتاع الاسماع ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999ء،ص:261
  • 23  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الهدى والرشاد، ج-1، مطبوعة:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1993، ص:500-501
  • 24  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبرٰی، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء،ص:91
  • 25  محمد طاھر بن محمدالتونسی، التحریر والتنویر، ج-1، مطبوعۃ:الدار التونسیۃ للنشر، التونس، مصر، 1984ء،ص:107
  • 26  ابو محمد عبد الله بن محمد الأصبهانى، أخلاق النبىﷺ وآدابه، حدیث: 184، ج-1، مطبوعۃ:دار المسلم للنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 1998ء،ص:491
  • 27  ابو نعیم احمد اصفہانی، دلائل النبوۃ ، ج -1، مطبوعۃ: دار النفائس،بیروت، لبنان، 1986ء، ص:337
  • 28  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:284
  • 29  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 3605 ، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 48
  • 30  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:131
  • 31  شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی، محمد رسول اﷲ ﷺ، مطبوعۃ: حلب ،شام،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:40
  • 32  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 3493، مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ ، ص: 1297
  • 33  محی السنۃ حسن بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختارﷺ،حدیث: 333، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، سوریا ، 1995ء، ص:265
  • 34  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:283
  • 35  سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث: 3646 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 36  القرآن،سورۃ التوبۃ 128:9
  • 37  ابوبکر احمد بن حسین البیھقی، شعب الایمان، حدیث: 4574، ج-7، مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص:9
  • 38  ابومحمد بن حبان بن احمد الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث: 5698، ج-13، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:5

Powered by Netsol Online