encyclopedia

نزول وحی کی مختلف صورتیں و کیفیات

Published on: 14-Nov-2024

وحی انبیاء و رُسل Alaihmus Salam کا ایک ایسا شخصی مشاہدہ رہا ہے جس کی نوعیت انتہائی غیر معمولی ہوا کرتی تھی۔ اس غیر معمولی تجربے کو صحیح طور پرالفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ عام انسانی مشاہدات و تجربات اور کیفیات سے بالکل منفرد ہوا کرتا تھا۔ وحی کے نزول کے وقت کی کیفیت واضح طور پر یہ بتاتی تھیں کہ اس کلام کا وزن باقاعدہ محسوس کیا جاتا تھا۔ یہ ایک عام انسان کے بس کی بات ہی نہیں تھی کہ اُس بوجھ کو برداشت کرپاتا۔ نزول وحی کے اس بوجھ کو صرف وہ خاص اشخاص سنبھال سکتےتھے جن کو انبیاء Alaihmus Salam کے لقب سے جانا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا انتخاب خود رب تعالی نے فرمایا تھا اور اس ہی نے ان کو یہ بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت اور وصف عطا فرمایا تھا۔ جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی الہٰی نازل ہوتی تھی تو اس کے اثرات کا مشاہدہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صحابہ کرام Radi Allah Anhum و ازواج مطہرات Radi Allah Anhum براہ راست فرمایا کرتے تھے۔ انبیاء کرام Alaihmus Salam پر نزول وحی کی مختلف صورتیں تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

(1) حالت خواب میں

انبیاء کرام Alaihmus Salam کو تشریعی وحی سے پہلے خواب کے ذریعے خدائی پیغامات دیئے جاتے تھے۔ اس طریقہ کار کے اختیار کرنے سے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ انبیاء کرام Alaihmus Salam براہِ راست اللہ تعالیٰ کے پیغامات کو قبول کرنے کے لئے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار ہوجاتے تھے اور انہیں وحی کے وصول کرنے میں کسی قسم کا شک اور وہم نہ رہتا تھا۔ اسی لئے انبیاء کرام Alaihmus Salam کے خواب کو سچا خواب بھی کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم Alaihis Salam کے خواب کا ذکر ہے جس میں آپ Alaihis Salam نے دیکھا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کررہے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

...قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ ... 1021
۔۔۔ (ابراہیم Alaihis Salam نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔۔۔

اسی طرح حضرت عائشہ Radi Allah Anha انبیاء کرام Alaihmus Salam کو وحی سے پہلے اللہ کی طرف سے اشارات ملنے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

أول ما بُدِئَ به رسول اللّٰه -صلى اللّٰه عليه وسلم- من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم, فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح. 2
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچے خواب آنے سے ہوا، حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جو خواب بھی دیکھتے اس کی تعبیر صبح کے روشن ہونے کی طرح سامنے آجاتی تھی۔
أرأيتك الذي كنت أحدثك أني رأيته في المنام فإنه جبريل عليه السلام استعلن لي. 3
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس کے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں نے اسے خواب میں دیکھا؟ وہ جبریل Alaihis Salam ہیں جو میرے سامنے ظاہر ہوئے تھے۔

اسی طرح مدینہ طیبہ کے ایک منافق نے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر جادو کرنے کی کوشش کی تو اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو من جانب اللہ بذریعہ خواب اس کی اطلاع دے کر اس کو بے اثر کرنے کا طریقہ خواب میں ہی تعلیم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر واقعات بھی ہیں جن میں رب تعالیٰ نے خود اپنے پیغمبر Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے خواب میں کلام فرمایا تھا۔ اس میں منامی یعنی نیند کی حالت میں معراج بھی شامل ہے۔ علامہ سہیلی Rehmatullah Alaih منامی معراج کے حوالہ سے فرماتے ہیں:

ورأيت المهلب في شرح البخاري قد حكى هذا القول عن طائفة من العلماء وأنهم قالوا: كان الإسراء مرتين مرة في نومه ومرة في يقظته ببدنه صلى اللّٰه عليه وسلم. 4
مہلب نے شرح بخاری میں اہلِ علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج دو مرتبہ ہوئی، ایک مرتبہ خواب میں، دوسری مرتبہ بیداری میں جسمِ اقدس کے ساتھ۔

اس دوران حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو رب تعالیٰ سے بالواسطہ روحانی طور پر ملاقات اور ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔

(2) صلصلۃ الجرس کی صورت میں

وحی کی جملہ کیفیات میں سے ایک صورت یہ تھی کہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وحی کی آواز گھنٹی کی طرح بلا تعطل محسوس ہوا کرتی تھی جس کے لئے حدیث میں صلصلۃ الجرس کے الفاظ آئے ہیں۔ 5 وحی کے حصول کی یہ سب سے زیادہ سخت حالت ہوا کرتی تھی۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایسی وحی کے حصول کے دوران پسینہ آجایا کرتا تھا۔ 6

(3) شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ

بسا اوقات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرہ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ محسوس ہوتی تھی۔ حضرت عمرفاروق Radi Allah Anho وحی کے نزول کی اس کیفیت کے متعلق فرماتے ہیں:

...إذا أنزل عليه الوحي سمع عند وجهه دوي كدوي النحل... 7
نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی۔

وحی کی اس کیفیت کو صحابہ کرام Radi Allah Anhum شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ سے تشبیہ دیا کرتے تھے کیونکہ انہیں وحی کے نزول کی اس کیفیت میں ہلکی ہلکی آواز سنائی دیا کرتی تھی۔ 8

(4) القا ء قلبی

یہ وحی کی وہ صورت تھی جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے دل میں کوئی بات القاء کردیتا تھا جو کہ حقیقت کی نشاندہی کرتی تھی۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بھی کئی مواقع پر الہام کے ذریعے ہدایت دی گئی۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ 69
اور بیشک آپ کو (یہ) قرآن بڑے حکمت والے، علم والے (رب) کی طرف سے القاء کیا جارہا ہے۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کیفیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

إن روح القدس نفث في روعي. 10
روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی ہے۔

(5) ملائکہ کے ذریعے

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تک پیغام پہنچانے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس وحی بذریعہ فرشتہ کے آتی تھی۔ فرشتے ایسی مخلوق ہیں جن کی پیدائش انس و جن سے علیحدہ طریقہ پر ہوئی ہے۔ ان کے دو، چار یا اس سے زائد پر ہوتےہیں11 اور انہیں نورانی مخلوق کہا جاتا ہے۔ 12 یہ انسانِ اوّل کے خمیر کو گوندھے جانے سے پہلے بھی موجود تھے اور حمد وثناء میں مشغول رہتے تھے۔ 13 ان میں مرد و عورت اور مذکر و مونث کی تقسیم نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید نے انہیں نہ ہی مونث بیان کیا ہے اور نہ ہی مذکر۔ البتہ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ خبر ضرور دی ہے کہ وہ انسانی شکلوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں جیسا کہ حضرت مریم Alaihas Salam کے لیے حضرت جبریل Alaihis Salam مکمل انسانی صورت میں متمثل ہوئے 14 یا حضرت ابراہیم Alaihis Salam کے سامنے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے تاکہ انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائیں اور رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے بھی بشری صورت میں ظاہر ہوئے۔15 قرآن نے انہیں "عباد الرحمان" کے نام سے موسوم کیا ہے جس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ وہ فقط حکم الہی کے پابند ہیں اور اس سے سرِمو انحراف نہیں کرتے۔ 16 فرشتوں کے ذمہ مختلف فرائض ہیں جن میں سےایک اہم کام انبیائے کرام Alaihmus Salam کے پاس اللہ کا پیغام یعنی وحی لانا تھا۔17 فرشتوں کی تعداد شمار سے باہر ہے جس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 18 تمام فرشتوں میں چار فرشتے مقرب تر ہیں جو سب ملآئکہ پر فضیلت رکھتے ہیں ان میں حضرت جبرائیل، میکائیل، عزرائیل اور اسرافیلAlaihmus Salam شامل ہیں۔ 19

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور دیگر انبیاء Alaihmus Salam پر سب سے ذیادہ وحی حضرت جبرائیل Alaihmus Salam کے توسط سے نازل کی گئی۔ اعلان نبوت کے بعد خود حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےجبرائیل Alaihis Salam سے ان کی مختلف شکلوں و صورتوں ملاقات اور گفتگو فرمائی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ازواج مطہرات Alaihmus Salam اور بعض صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے بھی حضرت جبرائیل Alaihis Salam کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آتے ہوئے، گفتگو اور سوال و جواب کرتے ہوئے دیکھا۔ حضرت جبرائیل Alaihis Salam کو جن جن مقامات پر جن جن صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے اپنی آنکھوں سے انسانی شکل و صورت میں دیکھا تھا ان صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا نام اور وہ مقامات بھی اسلامی تاریخ میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔ قرآن پاک اس طریقہءِ نزول وحی کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ 5120
ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے ۔

حضور ﷺ فرشتہءِ وحی کو کیسے پہچانتے تھے؟

یہ سوال کہ آخر نبی کو اس بات کا یقین کیسے ہوتا تھا کہ اس کے پاس وحی لانے والی مخلوق فرشتہ ہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتہ نبی کے سامنے اپنے فرشتہ ہونے اور حامل وحی الٰہی ہونے پر معجزہ پیش کرتا ہے اور اللہ تعالی نبی کو ایسی صفت عطاء فرماتا ہے جس سے وہ جن، فرشتہ اور شیطان کو الگ الگ پہچان لیتا ہے جیسے ہم انسانوں، جانوروں، نباتات اور جمادات کو الگ الگ پہنچاتےہیں کیونکہ ہماری رسائی عالم ظاہر تک ہے جبکہ نبی کی پہنچ ظاہری اور غیر ظاہری دونوں دنیاؤں میں ہے۔ 21 اس بات کو اگر کوئی آسان کرکے سمجھنا چاہے تو وہ ایسے ہے کہ جس طرح مختلف اقسام کی خوشبو میں کئی خوشبویں اپنی بو کے لحاظ سے بظاہر یکساں لگتی ہیں لیکن جن لوگوں کو خوشبو کی پہچان ہے وہ تمام خوشبوؤوں کو ان کی بو کے لحاظ سے فرق کرکے بآسانی علیحدہ علیحدہ جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اسی طرح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمام دوسری مستور مخلوقات بالخصوص فرشتہ وحی کو علیحدہ علیحدہ ان کی زبان و پیغام، لب ولہجہ اور طور و اطوار سے بآسانی پہچان لیا کرتے تھے۔

صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا فرشتوں کو دیکھنا

حضرت جبرائیل Alaihis Salamحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس کثرت سے مختلف صورتوں میں تشریف لایا کرتے تھے چنانچہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اگراس دوران اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تو ازواج مطہرات Alaihmus Salam کو زیارت کی سعادت حاصل ہوجایا کرتی تھی اور اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے ساتھ سفر و حضر میں ہوتے تو انہیں جبرائیل Alaihis Salam کی زیارت کی سعادت حاصل ہوجایا کرتی تھی، مثلاً:

  • سیدہ عائشہ Radi Allah Anha نے اپنے حجرہ مبارکہ میں حضرت جبرائیل Alaihis Salam کی آمد پر ان کی زیارت کی، جبرائیل Alaihis Salam نے سیدہ عائشہ Radi Allah Anha کو سلام کہا۔
  • سیدہ اُمِّ سلمہRadi Allah Anhaحضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ایک دن تشریف فرما تھیں اس دوران حضرت جبرائیل Alaihis Salam تشریف لائے، سیدہ اُمِّ سلمہ Radi Allah Anha نے جبرائیل Alaihis Salam کی اس وقت زیارت کی۔
  • حضرت انس Radi Allah Anho نے بنو قریضہ والے دن جبرائیل Alaihis Salam کو انسانی شکل میں دیکھا۔
  • بنوقریضہ والے دن ”بنو غنم“ کے چند افراد نے حضرت جبرائیل Alaihis Salam کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس حضرت دحیہ کلبی Radi Allah Anho کی شکل میں دیکھا۔
  • حضرت عمر بن خطاب Radi Allah Anho نے حضرت جبرائیل Alaihis Salam کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس سفید لباس میں ملبوس ایک اجنبی شخص کی صورت میں دیکھا جس نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ایمان، اسلام اور احسان کے بارے میں چند سوالات کئے۔
  • حارثہ بن نعمان Radi Allah Anho نے ایک دن حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دراز گوش پر سوار دیکھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ انسانی شکل میں جبرائیل Alaihis Salam بھی تھے حارثہ Radi Allah Anho نے سلام کیا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور جبرائیل Alaihis Salamدونوں نے سلام کا جواب دیا۔
  • عبداللہ بن عباس Radi Allah Anho نے ایک دن حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک شخص کے ساتھ سرگوشی فرماتے دیکھا، حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بعد میں فرمایا کہ وہ جبرائیل Alaihis Salam تھے۔
  • ایک بیمار انصاری صحابی Radi Allah Anho کے گھر میں جبرائیل Alaihis Salam نے انسانی شکل میں آکر ان سے ہمدردی اور غمخواری کی باتیں کیں۔
  • محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho نے ایک دن رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک شخص کی ٹانگ پر اپنے رخسار مبارک رکھے باتیں کرتا دیکھا، بعد میں رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ وہ جبرائیل Alaihis Salam تھے۔
  • سعد بن ابی وقاص Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں نے اُحد کے دن آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دائیں بائیں دو شخصوں (حضرت جبرائیل اور میکائیل Alaihmas Salam)کو دیکھا جو سفید لباس پہنے ہوئے تھے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جانب سے بھر پور طریقہ سے قتال کررہے تھے۔ میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد انہیں کبھی نہیں دیکھا۔

(6) براہ راست نزول وحی فرمانا

وحی الٰہی کے نزول کے دیگر طرائق میں سے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء Alaihmus Salam سے بحالت بیداری براہِ راست بغیر کسی حجاب اور رُکاوٹ کے بھی کلام فرمایا کرتا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سیرتِ طیّبہ میں اس کی نظیرٗ واقعہ معراج کی صورت میں ملتی ہے، جس میں اللہ تعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بلا حجاب اور بے نقاب براہِ راست کلام فرمایا۔ بیان المعانی میں اس حوالہ سے منقول ہے :

أن يكلمه الله يقظة كما كان في ليلة الإسراء 22
(وحی الٰہی کا ایک طریقہ یہ تھا کہ) اللہ تعالیٰ حالتِ بیداری میں کلام فرمائے جیسا کہ معراج کی رات کلام فرمایا۔

(7) رب تعالیٰ کا پس پردہ کلام فرمانا

نزول وحی کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ خود رب تعالیٰ اپنے کسی پیغمبر سے پردے یا حجاب کے پیچھے سے کلام فرمائے جیسا کہ کوہِ طور پر رب تعالیٰ نے حضرت موسیٰ Alaihis Salam سے ہم کلامی فرمائی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

...وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا 16423
اور ﷲ نے موسٰی (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔

اس حوالہ سے مناع بن خلیل Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

ومنه الكلام الإلهي من وراء حجاب بدون واسطة يقظة، وهو ثابت لموسى عليه السلام. 24
اور اسی میں سے کلام الہی(من وراء حجاب ) پردے کے پیچھے سے بغیر کسی واسطے کے جاگتے ہوئے ہونا ہے، اور یہ موسیٰ Alaihis Salam کے لیے بھی ثابت ہے۔

کیفیات نزول وحی

جس طرح درج بالاسطور میں اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ نزول وحی کی مختلف صورتیں تھیں اسی طرح جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی اترتی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اس وقت مختلف کیفیات و اثرات کا ورود ہوتا تھا جن کو محدثین نے درج ذیل اقسام میں بیان کیا ہے:

(1) جسم کا بھاری ہونا

نزول اور وصول وحی کی ایک کیفیت یہ تھی کہ وقت نزول وحی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا جسم مبارک انتہائی بھاری ہوجایا کرتا تھا۔ حضرت زید بن ثابت Radi Allah Anho جو کتابت وحی میں بہت نمایاں مقام رکھتے تھے ایک مرتبہ ایک محفل میں وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گھٹنہ ان کے گھٹنے کے اوپر تھا۔ اس موقع پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اوپر اچانک نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ حضرت زید بن ثابت Radi Allah Anho کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اُحد پہاڑ جیسا بوجھ لاکر میرے گھٹنے پر رکھ دیا ہے اور اس وزن سے میرا گھٹنہ چورا چورا ہوجائے گا۔ تاہم یہ کیفیت صرف چند لمحے جاری رہی، اور جوں ہی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر یہ کیفیت ختم ہوئی تو ان کے گھٹنے پر سے یہ ناقابل برداشت بوجھ بھی ختم ہوگیا۔

حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha سے روایت ہے کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کا نزول اس حالت میں ہوتا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی سواری پر سوار ہوتے تو وہ اپنی گردن زمین پر رکھ دیتی۔ اس سواری میں اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی تھی کہ وہ حرکت کرسکے حتیٰ کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ختم ہوجاتا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عموماً اونٹنی پر سفر کرتے۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اونٹنی پر فتح مکہ کی مہم کے لئے روانہ ہوئے تو شہر میں داخل ہونے سے قبل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قافلہ رُک گیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اونٹنی جس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سوار تھے، اچانک رُک کر کھڑی ہوگئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس کی ٹانگیں وزن کے دباؤ کی وجہ سے اس طرح لرز رہی تھیں جیسے اس کے اوپر کوئی بہت بڑا بوجھ لاد دیا گیا ہو چنانچہ وہ اس بوجھ کو برداشت نہیں کرسکی اور فوراً ہی بیٹھ گئی۔ اس روایت کو حضرت ہشام بن عروہ Radi Allah Anho اپنے والد سے بیان کرتے ہیں:

أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم كان إذا أوحي إليه وهو على ناقته وضعت جرانها فما تستطيع أن تتحرك حتى يسرى عنه " وعن أسماء بنت يزيد قالت: نزلت سورة المائدة وأنا آخذ بزمام ناقة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم العضباء. فكادت من ثقلها أن تندق عضد الناقة... 25
نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پراونٹنی کی سواری کے دوران وحی نازل ہوتی تو (وحی کے بوجھ کی وجہ سے) اونٹنی اپنی گردن کو بالکل جھکا کر (زمین پر رکھ) دیتی اور ذرا بھی حرکت نہ کرپاتی یہاں تک کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پرآسانی آتی (یعنی وحی کا سلسلہ منقطع ہوجاتا)۔ سیدہ اسماء بنت یزید Radi Allah Anha کہتی ہیں کہ میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اونٹنی "العضباء" کی لگام تھامے ہوئی تھی جب سورۃ المائدہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہوئی، میں نے دیکھا کہ وحی کے ثقل کی وجہ سے اونٹنی کے بازو ٹوٹنے کو ہوگئے۔

(2) سردی میں پسینہ آنا

وحی کے نزول کی سختی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب سردیوں میں وحی نازل ہوتی تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا چہرہ پسینہ سے شرابور ہوجایا کرتا تھا۔ اس حوالہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رفیقہء حیات حضرت عائشہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں:

ولقد رأيته ينزل عليه الوحي في اليوم الشديد البرد، فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا. 26
میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔

(3) رنگت کا متغیر ہوجانا

حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma روایت کرتے ہیں کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نزول وحی ہوتی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چہرہ انور اور جسم کی رنگت متغیر ہوجاتی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے صحابہ کرام Radi Allah Anhum میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی گفتگو نہ فرماتے۔ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم مبارک پر وزن اور خشیت کی کیفیت کا اندازہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پہلی وحی کے نزول کے بعد ارشاد فرمائے تھے کہ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي27 یعنی مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اس بیان سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جسمانی اور باطنی کیفیات کا بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ نزول وحی کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کیفیات اور احساسات میں کسی قدر تبدیلی ہوجاتی تھی۔

نزول اور وقوفِ وحی کا دار و مدار

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کے نازل ہونے یا رُک جانے کا سارا دارومدار اللہ تعالی کی منشاء و مرضی پر تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالی نے چاہا تو وحی کا نزول ہوتا رہا اور جب چاہا اور جتنے عرصے کے لیے چاہا تواُس نے وحی کا نزول منقطع فرمادیا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک مرتبہ جبرائیل Alaihis Salam کی آمد میں تاخیر پر اُن سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھا :

ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزورنا؟ 28
اے جبریل Alaihis Salam! پہلے آپ ہمارے پاس کثرت سے تشریف لاتے تھے اب کیا مانع ہے کہ تشریف نہیں لاتے۔

جس کے جواب میں حضرت جبرائیل Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا:

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا 6429
اور (جبرائیل Alaihis Salam میرے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کہو کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر (زمین پر) نہیں اتر سکتے، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے (سب) اسی کا ہے، اور آپ کا رب (آپ کو) کبھی بھی بھولنے والا نہیں ہے۔

اسی طرح ایک بار جبرائیل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں آنے میں دیر لگادی۔ جب جبرائیل Alaihis Salam کچھ عرصہ کے بعد حاضرہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: اے جبریل Alaihis Salam آپ کی آمد کا انتظار اور شوق مجھے بے چین کیے ہوئے تھا۔ اس کے جواب میں جبرائیل Alaihis Salam نے فرمایا: یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آپ کے انتظار اور شوقِ ملاقات سے زیادہ خود مجھے اس بات کا اشتیاق تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے شرف ملاقات حاصل کرسکوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہوں، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس تب ہی حاضر ہوسکتا ہوں جب مجھے وہاں سے اذن ِحاضری ہو، ورنہ نہیں۔ 30

وحی کے نزول کے حوالہ سے یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر کثرت کے ساتھ وحی نازل ہونے لگتی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیمار پڑجاتے اور بسا اوقات شدید ضرورت کے وقت اللہ تعالی کسی مصلحت اور حکمت کے تحت وحی کو مؤخر فرمادیا کرتا تھا۔ وحی الٰہی ہمہ وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب انور پر نازل ہوا کرتی تھی اسی لیے کبھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے حجرہ مبارک میں بستر پر تشریف فرما ہوتے تو وحی نازل ہوجاتی، کبھی صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درمیان موجود ہوتے تو وحی کا نزول ہوجاتا۔ کبھی سفر میں سوار ہوتے یا سواری کے بغیر تشریف لے جارہے ہوتے تو وحی نازل ہوجاتی۔ کبھی رات کی تاریکی میں اور دن کے اجالے میں وحی کا نزول ہوتا، کبھی میدان جنگ میں ہوتے اور کبھی معاہداتِ امن میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی نازل فرمادیتا۔ الغرض وحی کے نزول کا کوئی وقت متعین نہیں تھا جب اور جہاں اس کی ضرورت پڑتی یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف سے رب تعالی کے حضور کسی امر خاص میں رہنمائی درکار ہوتی تو اللہ تعالی اپنے فضل و کرم کا اظہار وحی کے ذریعہ فرما دیا کرتے تھے ۔

حضور ﷺ کا اہتمام نزولِ وحی

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب کبھی بیداری کی حالت میں اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف فرما ہوتے تو وحی الہٰی کے نزول سے قبل اس بات کا بھرپور اہتمام فرماتے کہ جس جگہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سریر آرائے مسند ہوتے اُس جگہ کو فرشتے کی آمد کے لئے درست فرمادیتے۔ ایک بار حضرت ام سلمہRadi Allah Anha سے فرمایا: ہمارے بیٹھنے کی جگہ دُرست کردو آج وہ فرشتہ ہمارے پاس آرہا ہے جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا۔

وحی کے نزول کے لیے مختلف زبانوں کا انتخاب

اللہ تعالی ٰنے جب بھی وحی کو نازل فرمایا تو اس میں وحی کی مخاطب قوم کی زبان کی رعایت رکھی تاکہ وہ قوم اللہ تعالی کے پیغام کو بآسانی سمجھ کر اس کے قبول اور عدم قبول کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ہمیشہ اللہ تعالی نے جس قوم میں رسول کو مبعوث فرمایا ہے وحی بھی اسی قوم کی زبان میں نازل کی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں وحی مختلف زبانوں میں اترتی رہی ہے، مثلاً، اس کا نزول کبھی عبرانی میں ہوا اور کبھی سریانی زبان میں، کبھی آرامی میں ہوا جبکہ آخری وحی عربی زبان میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہوئی۔

آخری وحی کی زبان

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری اور ابدی وحی عربی زبان میں نازل فرمائی ہے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اوّل مخاطبین کی زبان عربی تھی جو چھ سو دس عیسوی (610ء) میں اسلام کے ظہور سے پہلے جزیرہ نما عرب میں نہ صرف اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے ساتھ موجود تھی بلکہ اپنے ارتقاء اور کمال کی ساری منزلیں بھی طے کرچکی تھی۔ اس زبان کا انتخاب اس وجہ سے بھی کیا گیا کہ یہ زبان بلند خیالات کو ادا کرنے اور اللہ کے علوم و معارف کی نہایت نازک اور باریک باتیں ادا کرنے اور دلوں میں اثر پیدا کرنے کے لئے نہایت موزوں تھی۔ اس کے مختصر جملوں میں سہولت کے ساتھ بڑے بڑے مضامین ادا ہو جاتےہیں۔

وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے پیغمبروں کو ہدایت اور رہنمائی فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ خواب، فرشتے کے ذریعے، براہِ راست کلام، دل میں الہام، حجاب کے پیچھے سے کلام اور طبعی علامات کے ذریعے وحی کی ہر صورت اپنے اندر اللہ کی قدرت، حکمت اور علم کی گہرائیوں کو سمیٹے ہوئے ہے جن کا علم ہمیں اللہ کی حکمت عملی اور پیغمبروں کی عظمت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔


  • 1  القرآن، سورة الصافات37: 102
  • 2  مناع بن خليل القطان، مباحث في علوم القرآن، مطبوعة: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 34
  • 3  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 143
  • 4  القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-3، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 258
  • 5  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3215، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:537
  • 6  ایضاً، حدیث: 2، ص:1
  • 7  أبو عبد الله أحمد بن محمد الشيباني، مسند الإمام أحمد بن حنبل، حديث: 223، ج-1، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2001م، ص:350
  • 8  ابو عبد اﷲ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الإمام احمد بن حنبل، حدیث:223، ج-1، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، 2001م، ص:351
  • 9  القرآن، سورة النمل 27: 6
  • 10  أبو حفص عمر بن علي سراج الدین، التوضيح لشرح الجامع الصحيح، ج-2، مطبوعۃ: دار النوادر، دمشق ،سوریا، 2008 م، ص:221
  • 11  القرآن، سورۃ فاطر1:35
  • 12  الحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح المسلم، حدیث:7495، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000 م، ص: 1295
  • 13  القرآن، سورۃالبقرۃ30:2
  • 14  القرآن، سورۃ مریم17:19
  • 15  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:50، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 12
  • 16  القرآن،سورۃ التحریم6:66
  • 17  القرآن ، سورة الشوریٰ51:42
  • 18  القرآن، سورة المدثر 74: 31
  • 19  محمد امجد علی اعظمی ، بہار شریعت، ج-1(الف)، مطبوعہ:مکتبہ المدینہ، کراچی ، پاکستان،1435ھ، ص:94
  • 20  القرآن، سورة الشوریٰ 51:42
  • 21  غلام رسول سعیدی،تبیان القرآن ،ج-1،مطبوعہ :فرید بک سٹال ،اردو بازار لاہور ،پاکستان2013ء،ص:46
  • 22  عبد القادر بن ملا العاني، بيان المعاني، ج-1، مطبوعة: مطبعة الترقي، دمشق، السورية، 1965م، ص:93
  • 23  القرآن، سورة النساء 4: 164
  • 24  مناع بن خليل القطان، مباحث في علوم القرآن، مطبوعة: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 2000م، ص:35
  • 25  أبو عبد الله محمد بن نصر المَرْوَزِي، مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر، مطبوعة: حديث أكادمي، فيصل آباد، باكستان، 1988م، ص:31
  • 26  أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، صحيح البخاري، حديث:2، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية،1999م، ص:1
  • 27  أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، صحيح البخاري، حديث: 4953، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية،1999م، ص:886
  • 28  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م،ص:135
  • 29  القرآن، سورہ مریم 64:19
  • 30  ابوالفداءاسماعيل بن عمر ابن كثير الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-5، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1419ھ، ص:220

Powered by Netsol Online