Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

قد مبارک

Published on: 07-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 6، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 198-205)

حضور نبی کریم sym-1نہ بہت لمبے تھے اور نہ کوتاہ بلکہ میانہ قد مائل بہ درازی تھے۔ قدوقامت حسنِ تناسب کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا اور حقیقت میں یہ آپsym-1 کا معجزہ تھا۔ جب علیحدہ ہوتے تو میانہ قد مائل بہ درازی ہوتے اور جب اوروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے تاکہ باطن کی طرح ظاہر میں بھی آپ sym-1سے کوئی اونچایا بڑا معلوم نہ ہو۔

آپﷺکے قد مبارک کی خوبصورتی

رسول اکرم sym-1کا قد مبارک ایسا تھا کہ دیکھنے والا آپ sym-1کے قد مبارک کو دیکھ کر آپ sym-1کی وجاہت کا مشاہدہ کرلیا کرتا تھا۔چنانچہ امام بخاریsym-4روایت کرتے ہیں:

عن ابى اسحاق سمع البراء یقول كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعاً وقد رأیته فى حلة حمراء مارایت شیئا احسن منه.1
ابو اسحاق سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت براء sym-5کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور sym-1کا قد مبارک متوسط تھا میں نے آپ sym-1کو سرخ رنگ کے حلہ یعنی دوچادروں میں لپٹا ہوا دیکھا۔ میں نے آپ sym-1سے زیادہ کسی چیز کو حسین نہیں دیکھا۔

اسی طرح امام مسلمsym-4 ایک حدیث مبارکہ ذکر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رجلا مربوعا.2
حضور sym-1درمیانہ قد تھے۔

اس حدیث کو ابویعلی sym-4نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔3

اسی طرح حضرت ہند بن ابی ہالہ sym-5سے روایت ہے :

كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم...اطول من المربوع واقصرمن المشذب...معتدل الخلق بادن متماسك.4
حضور نبی کریم sym-1کی قامت درمیانہ قد سے نکلی اورطویل قامت سے کم تھی۔۔۔ آپ sym-1کی تخلیق اعتدال پر ہوئی تھی اعضاء کا اعتدال عیاں تھا۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ خدائے پاک نے آپ sym-1کوقامت کے اعتبار سے بھی معتدل بنایاتھا۔زیادہ پستہ اورزیادہ لمبادونوں ناقابل تعریف ہیں اس لئے آپ sym-1دونوں کے بیچ میں تھے ۔5

اسی طرح حضرت انس sym-5 سے مروی روایت میں منقول ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس قواما واحسن الناس وجھا واحسن الناس لونا واطیب الناس ریحا والین الناس كفا.6
حضور نبی کریم sym-1قامت میں سارے لوگوں سے حسین، چہرےکے اعتبار سے سارے لوگوں سے جمیل، رنگت کے اعتبار سے سارے لوگوں سے خوبصورت، خوشبو کے اعتبار سے سارے لوگوں سے عمدہ اور ہتھیلیوں کے اعتبار سے سارے لوگوں سے زیادہ نرم تھے۔

آپ sym-1 کا سراپا اقدس تناسبِ اعضاء کا بہترین شاہکار تھا ۔آپ sym-1کا حسی و ظاہری پہلو حد درجہ دلکش اور جاذبِ نظر تھا ۔آپ sym-1ہر مجلس میں مرکزِ نگاہ ہوتے تھے اور دیکھنے والی ہر آنکھ آپ sym-1کے سراپا انور کے حسن و جمال کی رعنائیوں میں کھوئی رہتی۔

وجود مبارک کا حسن اعتدال

امام بخاری sym-4روایت کرتے ہیں:

عن ابى اسحاق قال سمعت البراء یقول كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا واحسنه خلقا لیس بالطویل البائن ولا بالقصیر.7
ابو اسحاق سےمروی ہے کہ حضرت براء بن عاذب sym-5بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ sym-1کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔ آپ sym-1تخلیق کے اعتبارسےتمام لوگوں سے زیادہ حسین تھے ،آپ sym-1کا قد مبارک بہت زیادہ لمبا تھا نہ بہت چھوٹا۔

اسی طرح حضرت انس sym-5سے روایت ہے :

كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة من القوم لیس بالطویل البائن ولا بالقصیر.8
حضور sym-1کا قدمبارک درمیانہ تھا نہ آپ sym-1دراز قد اور نہ ہی کوتاہ قد تھے۔

حضرت ابوہریرہ sym-5سے روایت ہے کہ:

كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة وھو الى الطول اقرب.9
حضور نبی کریم sym-1کا قد میانہ تھا جو طوالت کے زیادہ قریب تھا۔

حضرت علیsym-5 سے روایت ہے :

لم یكن رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالطویل الممغط ولا بالقصیر المتردد كان ربعة من القوم.10
حضور نبی کریم sym-1نہ تو بہت زیادہ دراز قد اور نہ ہی زیادہ پست تھے بلکہ آپ sym-1کا قد مبارک درمیانہ تھا۔

حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہsym-5 سے روایت ہے :

كان ابیض ملیحا مقصدا.11
آپsym-1کا رنگ سفید روشن، قامت مبارکہ درمیانی تھی۔

شیخ سندی نے "مقصد" کا معنی یوں بیان کیا ہے:

لیس بطویل ولا قصیر ولا جسیم.12
ایسے جسم کو مقصد کہتے ہیں جو قد میں لمبا ہو نہ پست اور نہ ہی اس میں موٹاپا ہو۔

حضرت اُم معبد sym-6سے روایت ہے :

فكان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة لا بائن من طوله ولا تقتحمه عین من قصر غصنا بین غصنین فھو انظر الثلاثة منظرا واحسنھم قدرا.13
حضور نبی کریم sym-1نہ اتنے طویل تھے کہ آنکھوں کو برا لگے اورنہ اتنے پست قد تھے کہ آنکھیں حقیر سمجھیں۔ آپ sym-1دوشاخوں کے مابین ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سرسبز وشاداب اور قد آور ہو۔

سب کے درمیا ن امتیاز

رسول اکرم sym-1کی خاصیت یہ تھی کہ آپ sym-1چلتے تو لوگوںمیں بلند نظر آتے۔چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ sym-6 سے روایت ہے :

لم یكن رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالطویل البائن ولا بالقصیر المتردد وكان ینسب الى الربعة اذا مشى وحده ولم یكن یماشیه احد من الناس ینسب الى الطول الا طاله رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولربما اكتنفه الرجلان الطویلان فیطولھما رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا فارقاه نسب رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى الربعة.14
حضور sym-1کا قد مبارک نہ تو بہت زیادہ طویل اور نہ ہی بہت زیادہ پست تھا جب آپsym-1 تنہا چلتے تھے تو آپ sym-1کا قد مبارک میانہ لگتا تھا۔جب بھی کوئی ایسا شخص آپ sym-1کے ساتھ چلتا جس کا قدطویل ہوتا تو آپsym-1کی قامت مبارکہ اس سے طویل ہوجاتی ۔جب بھی دودراز قد آدمی آپsym-1 کے ساتھ چلتے تو حضور نبی کریمsym-1کا قد مبارک ان سے طویل ہوجاتا اور جب وہ دونوں آپ sym-1سے جدا ہوتے تو آپ sym-1کا قد میانہ ہوجاتا۔

اسی صفت مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے :

ما مشى مع احد الا طاله.15
حضور نبی کریم sym-1جس شخص کے ساتھ بھی چلتے آپ sym-1اس سے طویل نظر آتے ۔

حضرت علی sym-5سے روایت ہے:

كان لیس بالذاھب طولا وفوق الربعة اذا جامع القوم غمرھم.16
حضور نبی کریم sym-1کا قد مبارک نہ طویل تھا نہ ہی پست تھا بلکہ میانہ تھا آپ sym-1کسی قوم میں ہوتے تھے تو آپ sym-1کی قامت سب سے بلند نظر آتی تھی۔

ابن سبع اور رزین نے آپ sym-1کے خصائص میں ذکر کیا ہے کہ آپ sym-1جب لوگوں میں بیٹھتے تو ممتاز نظر آتے۔چنانچہ امام سیوطی sym-5ان کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

انه كان اذا جلس یكون كتفه اعلى من جمیع الجالسین.17
جب آپ sym-1لوگوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ sym-1کا کندھا مبارک سب سے اونچا ہوتا۔

قد مبارک کی اہمیت

رسول اکرم sym-1کے قد مبارک کے نمایاں ہونے کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے ملا علی قاریsym-4تحریرفرماتے ہیں:

ولعل السر فى ذلك انه لا یتطاول علیه احد صورة كما لا یتطاول علیه معنى.18
ممکن ہےکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس طرح باطنی محامد ومحاسن میں حضور نبی کریم sym-1سے کوئی بلند نہیں، اسی طرح ظاہری قدوقامت میں بھی کوئی آپ sym-1سے بڑھ نہیں سکتا۔

سب سے نمایاں اور سربلند کی دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے:

فى الطول مزیة خص بھا تلویحا بانه لم یكن احد عند ربه افضل منه لا صورة ولا معنى.19
یہ بلندی اس لئے تھی کہ ہر ایک پر یہ بات آشکار ہوجائے کہ اﷲ رب العزت کے ہاں ظاہری وباطنی احوال میں اس ذات اقدس (رسول کائنات sym-1) سے بڑھ کر کوئی افضل نہیں۔

پیکر رحمت کی انفرادیت

امام خفاجی sym-4فرماتے ہیں کہ آپ sym-1کا قدِ انور خلقت کے لحاظ سے دوسروں سے زیادہ طویل نہیں تھا بلکہ معتدل ہی تھا ۔لیکن اس کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ عنایت تھی کہ دیکھنے والوں کو آپ sym-1بلند دکھائی دیتے تاکہ صورت کے لحاظ سے بھی کوئی فوقیت حاصل نہ کرپائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ sym-1کی تعظیم میں بھی اضافہ ہو۔

چنانچہ اس حوالہ سے امام خفاجی sym-4لکھتے ہیں:

ولم یخلق اطول من غیره لخروجه عن الاعتدال الاكمل المحمود ولكن جعل للّٰه له ھذا فى راى العین معجزة خصه للّٰه تعالىٰ بھا لئلا یرى تفوق احد علیه بحسب الصورة ولیظھر من بین اصحابه تعظیما له بما لم یسمع لغیره فاذا فارق تلك الحالة زال المحذور و علم التعظیم فظھر كماله الخلقى.20
حضور sym-1کا قد انور زیادہ طویل پیدا نہیں کیا گیا کیونکہ حد سے زیادہ طویل ہونا اعتدال کے منافی ہے اور قابل تعریف نہیں۔ ہاں اس کے باوجود اﷲ رب العزت نے دیکھنے والی آنکھوں میں یہ بات پیدا کردی تھی کہ حضور نبی کریم ﷺبلند نظر آتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ خصوصیت اس لئے عطا کی تھی کہ کوئی صورت کے لحاظ سے بھی حضور sym-1سے بلند دکھائی نہ دے اور آپ sym-1کی تعظیم میں اضافہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ ضرورت نہ رہتی تو حضور sym-1اس کمال پر دکھائی دیتے جس پر آپ sym-1کی تخلیق ہوئی تھی۔

اسی طرح امام زرقانی sym-4فرماتے ہیں:

اﷲ تعالیٰ چاہتا تو حضور sym-1کے قدر انور کو طویل پیدا فرمادیتا،لیکن ربِ قادر نے حضور sym-1کو میانہ قد ہی عطا فرمایا۔ البتہ یہ آپ sym-1کا اعجاز تھا کہ دیکھنے والے محسوس کرتے کہ آپsym-1سب سے سربلند ہیں اور کوئی آپ sym-1کی نظیر نہیں۔اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے شیخ عبد الباقی زرقانی تحریر فرماتے ہیں:
ان ذلك یرى فى اعین الناظرین فقط، وجسده باق على اصل خلقته على حد...فمثل ارتفاعه المعنوى فى عین الناظر فراہ رفعة حسیة.21
ترجمہ:.....صرف لوگوں کی نظروں میں بلند دکھائی دیتے لیکن حضورsym-1کا جسم اطہر اس حال میں بھی اصل خلقت پر (میانہ) ہی رہتا۔۔۔ پس حضور sym-1کی رفعت معنوی کو ہی اﷲ رب العزت نے دیکھنے والے کی آنکھ میں رفعت حسی بنا دیا تھا۔

اسی حوالہ سے امام زرقانی sym-4مزید فرماتے ہیں:

وذلك كى لا یتطاول علیه احد صورة كم لا یتطاول معنى.22
اور ایسا اس لئے تھا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ جس طرح معنوی اور باطنی لحاظ سے آپ sym-1سے زیادہ کوئی بلند نہیں اسی طرح ظاہر میں بھی آپ sym-1سے کوئی بڑھ کرنہیں ہوسکتا۔

حضور sym-1کی ذات مبارکہ رب تعالی ٰ کی قدرت تخلیق کا سب سے خوبصورت ،بے مثال اور بے مثل شاہکار تھی۔ رب تعالیٰ نے آپ sym-1کے جسم مبارک کو نہایت اعتدال کے ساتھ خوبصوت بنایاتھا۔جس طرح آپ sym-1کے دوسرے اعضاء بدنی حسن اعتدال کا بہترین نمونہ ہیں ویسے ہی آپ sym-1کا قد مبارک بھی نہایت معتدل اور حسن سے آراستہ ومتوازن تھا۔ رب تعالیٰ چاہتا تو آپ sym-1کو سب سے طویل اقامت بنادیتااور چاہتاتو معاملہ اس کے برعکس ہوتا لیکن یہ بات واضح ہے کہ دونوں اشتہاوں میں سے کوئی بھی محبوب ومطلوب نہیں ۔اس کےباوجود بھی یہ آپ sym-1 کا معجزہ تھا کہ اونچے سے اونچے قد کاآدمی بھی جب آپ sym-1کے ساتھ کھڑا ہوتاتو آپ sym-1ان سے اونچے نظرآتے ۔ اسی طرح اگر آپ sym-1لوگوں کے ساتھ کسی مجلس میں تشریف فرماں ہوتے تو تب بھی قد کے اعتبار سے سب سے زیادہ نمایاں آپsym-1 ہی نظرآتے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح نبوت ورسالت علم وحکمت اور فکرودانش میں کوئی شخص آپ sym-1سے بلند نہیں ہوسکتاویسے ہی جسمانی قدمیں بھی اللہ تعالی ٰ نے آپ sym-1کو تمام انسانوں پر فضیلت اور عظمت عطافرمائی تھی۔ کیونکہ رب العالمین کویہ بات کسی بھی طورپرمنظور ہوہی نہیں سکتی تھی کہ اس کے حبیب پاکsym-1 کے سرِمبارک سے کسی دوسرے انسان کا سراونچاہو۔


  • 1  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5510، ج-5، مطبوعۃ: دارابن کثیر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :2198
  • 2  مسلم بن الحجاج القشيرى، صحيح مسلم ،حدیث:2337، مطبوعۃ:دارالاسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421، ص:1029
  • 3  ابو یعلی احمد بن الموصلی،مسند ابو یعلی، حدیث :1714، ج-3مطبوعۃ :دارالمـامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء، ص:262
  • 4  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث: 1362، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص:24
  • 5  مفتی ارشاد احمد قاسمی، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعہ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:72
  • 6  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:82
  • 7  محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح البخاری ، حدیث :3356، ج -3، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،، ص: 303
  • 8  سلیمان بن احمد طبرانی ، المعجم الصغیر، حدیث: 328، ج -1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:205
  • 9  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:82
  • 10  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:-6، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت،لبنان، 1988ء، ص: 10
  • 11  احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی ، مسند احمد، حدیث:23737، ج-39، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان 2001ء، ص:215
  • 12  ایضاً، ص:216
  • 13  ابو نعیم احمد اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 238، ج-1 ، مطبوعۃ: دار النفائس ،بیروت، لبنان، 1986ء، ص:238-237
  • 14  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ص:116
  • 15  سلیمان بن احمد طبرانی، مسند الشامیین، حدیث: 2727، ج-4، مطبوعۃ : مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت، لبنان، 1984ء، ص:59
  • 16  احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، حدیث :1300، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:429
  • 17  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ص :116
  • 18  نور الدین بن سلطان القاری ، جمع الوسائل فی شرح الشمائل ،ج -1، مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع ،کراچی،پاکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:13
  • 19  نورالدی علی بن سلطان القاری، شرح الشفاء، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1309ھ ،ص:161
  • 20  شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:521
  • 21  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج -5،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1996ء،ص:485
  • 22  ایضًا

Powered by Netsol Online