encyclopedia

قدمینِ مصطفٰی ﷺ

Published on: 20-Dec-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 56، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 886-900)

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبع فیوضات وبرکات تھے۔ اگر کسی بیمار کو لگ جاتے تو تندرست ہوجاتا، اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے وہ تیز رفتار ہوجاتا۔ پتھروں پر آجاتے تو وہ پتھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاؤں کے نیچے نرم ہوجاتے۔ جن مقامات نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قدموں کو مس کیا انہیں وہ درجہ ملا جس کی مثال دنیا و آخرت میں نہیں ملتی۔

پائے اقدسِ حبیب

ایک دفعہ قریش اکٹھے ہوکر ایک کاہنہ کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک کا پاؤں دیکھ کر بتاؤ کہ ہمارے درمیان کون شخص صاحب نبوت ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ: زمین کو اچھی طرف صاف کرو تاکہ اس پر کوئی نشان نہ رہے اس کے بعد تم سب باری باری میرے سامنے چلو میں تمہارے قدموں کے نشانات دیکھ کر فیصلہ دوں گی۔ تمام قریش چلے اور اس نے ان کے نشانات دیکھے ان میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی تھے۔

فابصرت اثر محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: ھذا اقربكم شبھا به.
کاہنہ نے جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قدموں کے آثار دیکھے تو کہا: یہ پاؤں اس کےزیادہ مشابہ ہیں۔

حضرت ابن عباسRadi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں:

ان قریشا اتوا كاھنة فقالوا لھا: اخبرینا باقربنا شبھا بصاحب ھذا مقام؟ فقالت: ان انتم جررتم كساء على ھذه السھلة، ثم مشیتم علیھا انباتكم، فجروا ثم مشى الناس علیھا فابصرت اثر محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: ھذا اقربكم شبھا به. فمكثوا بعد ذلك عشرین سنة او قریبا من عشرین سنة او ماشاء اللّٰه ثم بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.1
قریش ایک کاہنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا :ہمیں بتاؤ کہ ہمارے اندر کون شخص صاحبِ نبوت ہوسکتا ہے؟ اس نے جواب دیا زمین کو اپنی چادر سے صاف اور بے نشان کرکے اس پر چلو میں نقشِ قدم کو دیکھ کر بتادوں گی۔ انہوں نے زمین کو صاف کیا پھر اس پر چلے تو کاہنہ نے حضورنبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نشانِ قدم کو دیکھ کر کہا: یہ شخص نبوت کا زیادہ مستحق ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار کرتے رہے چنانچہ بیس سال یا تقریبا بیس سال یا جتناعرصہ اللہ نےچاہا کےبعدرسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اعلان نبوت فرمایا۔

قدم مبارک کا اعجاز

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مقدس پاؤں جب پتھروں پر آجاتے تو وہ پتھر آپ کے پاؤں کے نیچے نرم ہوجاتے۔

حضرت ابوہریرہRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه واثرت.2
جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپتھروں پر چلتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاؤں مبارک اس میں دھنس جاتے اور قدم مبارک کے نشان ان پرظاہر جاتے۔

جس طرح پتھر پر حضرت خلیل الرحمن Alaihis Salamکے مبارک قدموں کے نشان ہیں اسی طرح بعض پتھروں پر اﷲ کے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدمین شریفین کے نشان بھی ہیں ان میں سے بعض آج تک مختلف مقامات پر مخلوق خدا کی زیارت گاہ ہیں۔

امام زرقانیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وقد اشتھر فى المدائح قدیما وحدیثا ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه واثرت.3
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مدح کرنے والے متقدمین ومتاخرین میں یہ مشہور ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب کسی پتھر پر قدم رکھتے توپاؤں مبارک اس میں دھنس جاتےاور اس میں قدم مبارک کانشان نظر آتا۔

امام قسطلانی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه.
كما ھو مشھور قدیما وحدیثا على الالسنة ونطق به الشعراء فى منظومھم والبلغاء فى منثورھم مع اعتضاده بوجود اثر قدمى الخلیل ابراھیم فى حجر المقام المنوه به فى التنزیل فى قوله تعالى فى "فِیه اٰیتٌۢ بَینٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھیمَ". 974
آپ جب کسی پتھر پر قدم رکھتے تو پاؤں مبارک اس میں دھنس جاتےاور اس میں قدم مبارک کانشان نظر آتا۔جیسا کہ ہر زمانے میں یہ بات زبان زدعام رہی ہے ۔شعراء نے اپنے نعتیہ قصائد میں اور بلغاء نے اپنے نثری شہ پاروں میں اس موضوع پر لب کشائی کی ہے۔ حرم پاک میں قدمین حضرت ابراہیم کے نقوش اس معجزہ کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ قرآن حکیم میں آیا ہے"مقام ابراہیم میں روشن نشانیاں ہیں"۔
وھو البالغ تعیینه وانه اثره مبلغ التواتر.5
یہ معجزہ تو درجہ تواتر تک پہنچا ہوا ہے۔

امام خفاجی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:کہ بیت المقدس اور مصر میں ایسے پتھر موجود ہیں جن پر آپ کے مبارک قدم کا نشان ہے۔

انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى بعض الاحیان اذا مشى غاص قدمه فى الحجارة بحیث بقى ذلك الى الان وارتسم فیھا مثاله یعینه والناس تتبرك به وتزوره وتعظمه كما فى القدس ونقل منه فى مصر فى اماكن متعددة حتى قیل: ان السلطان قایتباى اشتراه بعشرین الف دینارا واوصى بجعله عند قبره ھو موجود الى الان.
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب کبھی ننگے پاؤں پتھروں پر چلتے تو پاؤں مبارک ان میں دھنس جاتےاور ان میں بعینہ نشان قدم مبارک پڑ جاتا۔ چنانچہ ان پتھروں کو تبرکا محفوظ کیا گیا ہے جو کہ اب بھی موجود ہیں۔ بیت المقدس اور مصر میں متعدد جگہ ایسے پتھرپائے جاتے ہیں اور لوگ ان کی زیارت و تعظیم کرتے ہیں یہاں تک کہ سلطان قایتبائی نے بیس ہزار دینار میں ایک پتھر خریدا تھا اور وصیت کی تھی کہ اسے میری قبر کے پاس نصب کیا جائے چنانچہ وہ اب تک وہاں موجود ہے۔

امام یوسف بن اسماعیل نبہانی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وإنه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى على الرمل أحیاناَ لا یكون لقدمیه أثراَ.6
اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاگرکبھی ریت پرچلتے تو ریت پر قدمین شریفین کا کوئی نشان نہ رہتا ۔

یعنی سخت پتھر نرم ہوجاتے اور نرم زمین معتدل ہوجاتی تاکہ حبیب کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو چلتے ہوئے کوئی تکلیف نہ ہو۔

لوہے کا پگھلنا عجیب تر ہے یا پتھر کا؟

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَلَقَدْ اٰتَینَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭ یجِبَالُ اَوِّبِى مَعَه وَالطَّیرَ ۚ وَاَلَنَّا لَه الْحَدِیدَ107
اور بیشک ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا، (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے (تسبیح) پڑھا کرو، اور پرندوں کو بھی (مسخّر کر کے یہی حکم دیا)، اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا۔

حضرت داؤد Alaihis Salamکا یہ معجزہ کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھوں میں لوہا نرم ہوجاتا تھا اس میں شک نہیں کہ یہ آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا بہت بڑا معجزہ ہے مگر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے پتھر کا نرم ہوجانا لوہے کے نرم ہونے سے بدرجہا افضل واقوی تھا۔ کیونکہ لوہا تو پگھلا کر بھی نرم کیا جاسکتا ہے، لیکن پتھر کے نرم ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس کے مقدس جسم میں پتھر کو نرم کردینے کی تاثیر ہو، اس کے لیے لوہے کو نرم کردینا کیا مشکل تھا۔

محدث کبیر امام ابو نعیم اصفہانی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

فان قیل: فقد لین اللّٰه تعالى لداؤد الحدید حتى سرد منه الدروع السوابغ، قلنا: قد لینت لمحمد صلى اللّٰه علیه وسلم الحجارة وصم الصخور فعادت له غارا استتر بھا من المشركین یوم احد مال صلى اللّٰه علیه وسلم براسه الى الجبل لیخفى شخصه عنھم فلین اللّٰه له الجبل حتى ادخل فیه راسه وھذا اعجب لان الحدید تلینه النار ولم نر النار تلین الحجر. وذلك بعد ظاھر باق یراه الناس وكذلك فى بعض شعاب مكة حجر من جبل اصم استروح فى صلاته الیه فلان له الحجر حتى اثر فیه بذراعیه وساعدیه وذلك مشھور یقصده الحجاج ویزورونه وعادت الصخرة ببیت المقدس لیلة اسرى به كھیئة العجین فربط به دابته البراق یلمسه الناس الى یومنا ھذا باق.8
اگر کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤد Alaihis Salamکے لیے لوہا نرم کردیا تھا۔ آپ Alaihis Salamاس سے بلاتکلف لمبی ڈھالیں بناتے تھے تو ہم کہیں گے کہ حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے پتھر اور سخت چٹانیں نرم ہوگئیں اور انہوں نے غار کی شکل بنالی تاکہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس میں مشرکین سے بچ کر چھپ سکیں۔ چنانچہ اُحد کے دن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے پہاڑ کی طرف اپنا سر پھیرا تاکہ وہاں خود کو دشمن کی نگاہوں سے اوجھل کرسکیں تو اﷲ نے پہاڑ کو نرم کردیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے وہاں سرچھپالیا اور یہ از حد عجیب تر ہے کیونکہ لوہے کو تو آگ اکثر پگھلادیتی ہے مگر پتھر کو نہیں پگھلاسکتی اور میدان اُحد میں وہ جگہ آج تک زیارت گاہِ خلق خدا ہے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ کی گھاٹیوں میں سے ایک سخت مضبوط پہاڑ کی وہ گھاٹی بھی ہے جہاں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نماز کے لیے جائے استراحت تلاش کی تھی۔تو وہاں پتھر نرم ہوگیا اور اس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھوں اور کلائیوں کے نشان بن گئے۔ اور یہ مشہور جگہ ہے جہاں حجاج کرام جاتے اور زیارت کرتے ہیں۔یونہی شب معراج میں بیت المقدس کا وہ بڑا پتھر گوندھے ہوئے آٹے کی طرح بن گیا (جس میں حضرت جبرائیل نے انگشت ڈال کر سوراخ کیا) اور آپ کا براق اس کے ساتھ باندھ دیا گیا آج کے دن تک لوگ اسے بطور تبرک ہاتھ لگاتے ہیں۔

ریاض الجنّۃ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قدمین کا صدقہ ہے

یہ ساری کائنات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قدموں کی برکت ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی گرد راہ کی صرف قسم ہی کھاکر اسے ممتاز وافضل نہیں فرمایا بلکہ جن مقامات نے آپ کے مبارک قدموں کو مس کیا انہیں وہ درجہ عظمت ملا جس کی مثال دنیا و آخرت میں نہیں ملتی۔

مسجد نبوی کا ہر مقام افضل ہے مگر اس کا وہ حصہ جسے ریاض الجنّہ کہا جاتا ہے مسجد نبوی کے دیگر مقامات سے افضل ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا آنا جانا کثرت کے ساتھ تھا تو وہ جگہ جہاں حضور نبی کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قدم کثرت کے ساتھ لگے وہ جنت کہلایا اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

ما بین بیتى ومنبرى روضة من ریاض الجنة.9
میرے گھر اور منبر کے درمیان جو جگہ ہے یہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

جس ذات پاک پر ایمان لاکر اس کی اتباع اور پھر اس ہستی کے ساتھ محبت اور ادب کا تعلق جنت کی ضمانت ہے کیونکہ رضائے الٰہی ہی رضائے مصطفیٰ ہے اور اتباع و محبت نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی اتباع و محبت الٰہی ہے، چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جن راہوں کو اپنی گزرگاہ کے طور پر استعمال فرمایا تھا وہ راہیں بھی متبرّک اور جن راہوں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکبھی کبھی گزرے وہ قابل قدر و عظمت ہیں لیکن وہ راستہ جس کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ اپنی گذرگاہ کے طرز پر اختیار فرمایا ہو اور وہ بھی عبادات کی ادئیگی کے لئے ایسی راہ کی عظمت کے سامنے سونے اور چاندی سے مرصعّ حریر و کمخواب میں ملفوف کسی شاہی رستے کی بھی کیا اوقات ہوسکتی ہے کیونکہ دنیا کا ہر قیمتی صاف شفاف راستہ بہر حال دنیا ہی کی کسی منزل تک پہنچانے والا ہوتا ہے خواہ اس پر امیر کبیر سفر کرے ، سفیر ، وزیر عازم کی جولان گاہ ہو یا بادشاہ اور شہنشاہ اپنے قدمین نازنین کے لئے بطور گذرگاہ کے استعمال کرے، لیکن آقا کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا اعجاز و کمال یہ ہے کہ وہ راہ جس پر محبوبیت کے ساتھ بار بار سفر کیا اس پر قدم رکھنے والا شاہراہ جنّت پر عازم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اس گذرگاہ کو خود آقا کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جنت کی کیاری فرما کر اس کی عظمت و شان کو جنّت کا مصداق بنا دیا۔

منبرنبوی اورحوض کوثر

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:

منبرى على حوضى.10
میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔

گویا آپ نے واضح فرمادیا کہ جس جگہ حضرت اسماعیلAlaihis Salam کے مبارک قدم لگے وہاں آبِ زم زم کا چشمہ جاری ہوا اور جس جگہ محبوب خدا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قد م پڑے وہاں سے حوض کوثر کا دریا جاری ہوگا جس سے قیامت کے دن تمام جنتی سیراب ہوں گے۔

یثرب سے دار الشفاء

مدینہ منورہ کی سرزمین کا سابقہ نام یثرب ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بستی بیماریوں کا مرکز ہے یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان اس کی طرف ہجرت کرکے گئے تو کفارِ قریش خوش ہوئے کہ یہ خود بخود وہاں بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے ۔صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے یہ معاملہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں پیش کیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا :اب یہ یثرب نہیں بلکہ یہ مدینۃ الرسول ہے گویا اب بیماریوں کا مرکز نہیں بلکہ شفاء کا مرکز ہے۔ آخر اس تبدیلی کا سبب کیا تھا؟ تو اس کا جواب فقط یہ ہے کہ اس سرزمین کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدم چومنے کا شرف مل گیا تھاجس کی وجہ سے یہ سرزمین رشک عرش بن گئی۔

خاکِ مدینہ

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ارشاد مبارک ہے:

ترابھا شفاء من كل داء.11
خاک مدینہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamغزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو اس وقت گرد وغبار اڑرہی تھی بعض صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے اپنے ناک منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اس پر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ارشاد فرمایا:

والذى نفسى بیده ان فى غبارھا شفاء من كل داء.12
قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مدینہ کا غبار ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔

مدینہ کی عظمت

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا اﷲ تعالیٰ کے ہاں جو مقام ومرتبہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں اپنے پیارے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے زمانے، گفتگو، چہرہ، وزلف اور زندگی کی قسم کھائی ہے وہاں اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خاکِ گزر کی بھی قسم کھائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ1 وَاَنْتَ حِـلٌّۢ بِھذَا الْبَلَدِ213
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں، (اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں، یہ ترجمہ "لا زائدہ" کے اعتبار سے ہے۔لا "نفئ صحیح"کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔

امام قرطبی Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

والبلد ھى مكة اجمعوا علیه اى: اقسم بالبلد الحرام الذى انت فیه لكرامتك على وحبی لك. وقال الواسطى: اى: نحلف لك بھذا البلد الذى شرقته بمكانك فیه حیا وبركتك میتا. یعنى المدینة والاول اصح؛ لان السورة نزلت بمكة باتفاق.14
اس پر اجماع ہے کہ اس شہر سے مراد مکہ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس حرمت والے شہر کی اس لیے قسم کھائی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس شہر میں ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمکرم ہیں اور اﷲ کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے بہت محبت ہے۔

علامہ واسطیRehmatullah Alaih نے کہا گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہم اس شہر کی قسم اس لیے کھاتے ہیں کہ آپ کے اس شہر میں رہنے کی وجہ سے جب تک آپ حیات ہوں یہ شہر مکرم ہے اور جب آپ کی وفات ہو تو یہ شہر برکت والا ہے یعنی مدینہ منورہ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ صورت بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی ہے۔

امام فخر الدین رازیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وانت من حل ھذه البلدة المعظمة المكرمة.15
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس شہر میں مقیم ہیں اور ٹھہرے ہوئے ہیں گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس وجہ سے مکرم قرار دیا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس میں مقیم ہیں۔

امام خازنRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

فكانه عظم حرمة مكة من اجل انه صلى اللّٰه علیه وسلم مقیم بھا.16
گویاآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے یہاں مقیم وجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے شہر مکہ کو عظمت ورفعت حاصل ہوئی ہے۔

کسی شہر کی قسم کھانے سے خاکِ پاہی مراد ہوتی ہے کیونکہ شہر سے مراد وہی سرزمین ہے جو اس شخصیت کے قدموں سے مس کررہی ہوتی ہے۔

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا فاروق اعظم Radi Allah Anho سے جو قول منقول ہے وہ نہایت ہی قابل توجہ ہے اور اہل ایمان ومحبت کے دل کی ٹھنڈک ہے، آپ Radi Allah Anho اپنے پیارے آقا Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں عرض کرتے ہیں:

بابى انت وامى یا رسول اللّٰه ! قد بلغت من الفضیلة عنده ان اقسم بتراب قدمیك. فقال: لا اقسم بھذا البلد.
یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر فدا ہوں اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا کتنا عظیم مرتبہ ہے کہ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدموں کی خاک کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا ہے۔
لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ11718
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔

امام قسطلانی Rehmatullah Alaihکے الفاظ یہ ہیں:

لقد بلغ من فضیلتك عند اللّٰه ان اقسم بحیاتك دون سائر الانبیاء ولقد بلغ من فضیلتك عنده ان اقسم بتراب قدمیك فقال: لا اقسم بھذا البلد. 19
اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا مقام اتنا بلند ہے کہ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زندگی کی قسم کھائی باقی انبیاءRadi Allah Anhumکی حیات کی نہیں اور اس کے ہاں یہ فضیلت کی انتہا ہے کہ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدموں سے مس ہونے والی مٹی کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :
لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ120
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویRehmatullah Alaihپہلے یہ بیان کرکے اس آیت میں آپ کی خاک پاک کی قسم اٹھائی گئی ہے لکھتےہیں کہ بظاہر یہ معاملہ نہایت ہی سخت وعجیب ہے کہ اﷲ ربُّ العزّت آپ کی خاک پاکی قسم اٹھائے لیکن اگر غور وفکر کیا جائے تو معاملہ بڑا واضح ہے۔

وتحقیق ایں سخن آنست كه سوگند خوردن حضرت رب العزت جل جلاله بچیزے كه غیر ذات وصفات بود برائے اظھار شرف وفضیلت و تمیز آں چیز است نزد مردم ونسبت بایشاں تابد انند كه آں امرى عظیم وشریف است نه آنكه اعظم است بوى تعالى.21
اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا اپنی ذات وصفات کے علاوہ کسی بات کا قسم کھانا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ شے اﷲ تعالیٰ سے بڑی ہے بلکہ حکمت یہ ہوتی ہے کہ اس شے کی فضیلت وعظمت کو واضح کیا جائے تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ اس شے کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر ومزلت ہے۔

حضرت ملا علی قاریRehmatullah Alaih آیت مذکورہ کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

انه سبحانه وتعالى اقسم بالبلد الحرام وقیده بحلول رسوله علیه الصلوٰةوالسلام به اظھارا لمزید فضله واشعارا بان شرف المكان بشرف اھله.22
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم کھائی اور اسے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے وہاں تشریف فرما ہونے کے ساتھ مقید کیا تاکہ شہر مکہ کی عظمت مزید اجاگر ہو اور یہ واضح ہو کہ مکان کی عظمت صاحب مکان کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اُحد کا لرزہ

بعض اوقات جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے غلاموں کے ساتھ کسی پہاڑ پر تشریف فرما ہوتے تو وہ اس خوشی میں جھومنے لگ جاتا کہ آج مجھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قدموں کا بوسہ نصیب ہوا ہے۔

ایک مرتبہ آپ اُحد پہاڑ پر تشریف فرما تھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ اس موقعہ پر حضرت صدیق اکبر Radi Allah Anhoحضرت عمر Radi Allah Anhoحضرت عثمانRadi Allah Anho بھی تھے۔ اُحد پہاڑنے خوشی ومسرت میں جھومتے ہوئے حرکت کی تو آپ نے اس پر اپنا پاؤں مارا اور فرمایا ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔

حضرت انس بن مالکRadi Allah Anho روایت کرتے ہیں :

صعد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم احدا ومعه ابوبكر وعمر وعثمان فرجف بھم فضربه برجله وقال: اثبت احد فما علیك الا نبى او صدیق او شھیدان.23
کہ ایک روز حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکوہ احد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمانRadi Allah Anhum تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: اے احد ٹھہرجا! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اورکوئی نہیں۔

امام جلال الدین سیوطیRehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

واخرج ابویعلى بسند صحیح عن سھل بن سعد ان احدا ارتج وعلیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر وعمر وعثمان فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : اثبت احد فما علیك الا نبى او صدیق او شھیدان.24
ابویعلی Rehmatullah Alaihنے بسند صحیح سہل بن سعد Radi Allah Anho سے روایت کی کہ کوہ احد لرزہ اس پر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان ذوالنورین Radi Allah Anhum تشریف فرما تھے۔ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا: احد قائم رہ۔ تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروق Radi Allah Anho اور حضرت عثمان ذوالنورین Radi Allah Anhoشہید ہوں گے لہٰذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی۔ 25

جنبشِ قدم مبارک

حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے ایک دفعہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ مقامِ ذی المجاز میں تھے یہ مقام عرفات سے تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ حضرت ابو طالب نے آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے پانی طلب کرتے ہوئے کہا:

عطشت ولیس عندى ماء فنزل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وضرب بقدمه الارض فخرج الماء فقال: اشرب.
مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا : پی لو۔26
فركضھا ثانیة فعادت كما كانت وسافر.27
جب انہوں نے پانی پی لیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اسی جگہ قدم رکھا تو پانی بند ہوگیااورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamروانہ ہوگئے۔

حضرت علیRadi Allah Anho فرماتے ہیں: وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہوگئے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہوگئے :حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں:

فضربنى برجله وقال : اللّٰھم اشفه اللّٰھم عافه. فما اشتكیت وجعى ذالك بعد.28
پس حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنےاپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہوگئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔

قاضی عیاض Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

اشتكى على بن ابى طالب فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اللّٰھم اشفعه او عافه. ثم ضربه برجله فما اشتكى ذلك الوجع بعد.29
ایک دفعہ حضرت علی بن ابی طالبRadi Allah Anho بیمار ہوگئے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے یہ کہہ کر اے اﷲ !اسے شفا دے اور صحت بخش، اپنا پائے اقدس ان کو مارا تو انہیں اسی وقت صحت ہوگئی اور ازاں بعد کبھی بیمار نہ ہوئے۔

ٹھوکر کا اثر یہ ہوا کہ اسی وقت بیماری دور ہوگئی اور اس کے بعدکبھی بیمار نہ ہوئے۔ یہ تھی تاثیر ان کے مبارک قدموں کی۔

دوران سفر کسی مقام پر اگر کوئی سواری لاغروکمزور ہونے یا کسی اور وجہ سے سُست رفتار ہوجاتی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاسے پاؤں کی ٹھوکر لگاتے جس کی برکت سے وہ تمام دیگر سواریوں سے آگے گزرجاتی۔ اس پر متعدد واقعات موجود ہیں:

حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں آکر اپنی اونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو:

فضربھا برجله.والذى نفسى بیده لقد رایتھا تسبق القائد.30
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہوگئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔

حضرت جابرRadi Allah Anho کے اونٹ کو بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہوگیا تھا ۔

فضربه برجله ودعا له فسار سیرا لم یسر مثله.31
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے پائے مبارک سے اسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دعا فرمائی پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔

جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے دوبار ہ ان سے دریافت کیا کہ اب تیرے اونٹ کا کیا حال ہے تو انہوں نے عرض کیا:

بخیر قد اصابته بركتك.32
بالکل ٹھیک ہے اسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی برکت حاصل ہوگئی ہے۔

یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ٹھوکر کا اثر تھا کہ ایسے مردہ اور مریل قسم کے سست جانوروں کو زندہ اور چست و چالاک بنادیا۔ یوں تو ہر جانور مارنے اور اذیت پہنچانے سے تیز رفتار ہوجاتا ہے مگر اسی وقت تک کہ اس میں درد موجود رہے جس کا تعلق صرف جسم سے ہوتا ہے، لیکن حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا یہ فعل اس کے جسم تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی فطرت اور طبیعت پر اثر کرنے والا تھا۔

حضرت عبداﷲ بن ابی طلحہ Radi Allah Anhoفرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam:

ركب حمارا قطوفا لسعد بن عبادة فردھا ھملاجا لایسایر.33
حضرت سعد بن عبادہ Radi Allah Anhoکے بہت سست رفتار گدھے پر سوار ہوئے، جب آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کو واپس کیا تو وہ ایسا تیز رفتارتھاکہ کوئی دوسرا گدھا اس کے ساتھ نہ چل سکتا تھا۔

امام سیوطی Rehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

قال ابن سبع: من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم ان كل دابة ركبھا بقیت على القدر الذى كانت علیه ولم تھرم ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم.34
ابن سبع Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں: نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خصائص میں سے ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے جس جانورپر سواری فرمائی وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی برکت سے بوڑھا نہ ہوا بلکہ تاحیات اپنی اسی حالت پر برقرار رہا۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدمین شریفین کتنے مضبوط طاقتور اور حیات بخش تھے کہ جس جگہ اور جس چیز کو لگ جاتے زندگی کی لہردوڑادیتے۔ حرکت کو سکون اور سکون کو حرکت میں بدل دیتے، بیماری کو شفا اور کمزوری کو قوت میں بدلنے کا منبع تھے ۔ اگرجمادات و حیوانات کو بھی رسول خداSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قدم مبارک سے مس ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تو وہ بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی چاہت کے موافق اپنے کو ڈھال لیتے تھے۔


  • 1  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 3072، ج -5، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 ء، ص :196
  • 2  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب، ج -5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص :482
  • 3  ایضًا
  • 4  القرآن، سورۃ آل عمران3: 97
  • 5  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتب التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :341
  • 6  یوسف بن اسماعیل النبہانی، حجۃ اﷲ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1426 ھ،ص :325
  • 7  القرآن،سورۃ سبا34: 10
  • 8  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث :539، ج-1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص :594-595
  • 9  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 1390، مطبوعۃ:دار السلام لنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:182
  • 10  ایضًا
  • 11  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:289
  • 12  مبارک بن محمد ابن اثیر جزری، جامع الاصول فی احادیث الرسول ، حدیث: 6962، ج -9،مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، بیروت، لبنان، 1972ء، ص:334
  • 13  القرآن،سورۃ البلد90: 1-2
  • 14  محمد بن احمد بن ابی بکر قرطبی ،الجامع لاحکام القرآن، ج -20، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :55
  • 15  ابوعبداﷲ محمد بن عمر فخر الدین رازی ،تفسیر الکبیر، ج- 31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص :165
  • 16  علاؤ الدین علی بن محمد الخازن، تفسیر الخازن، ج -4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :429
  • 17  شہاب الدین احمد خفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء، ج -1، مطبوعۃ: دار ابن رجب، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :196
  • 18  القرآن،سورۃ البلد90: 1
  • 19  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :575
  • 20  القرآن،سورۃ البلد90: 1
  • 21  الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج -1،مطبوعہ: منشی نو لکشور، ہند ، (سن اشاعت ندارد)، ص:65
  • 22  نور الدین علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص :85
  • 23  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:3483، ج-3، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1981ء، ص :1348
  • 24  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبری، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء ، ص :206
  • 25  حضرت عمر بن الخطاب آپ کی شہادت23 ہجری میں ہوئی آپ کو مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ فیروز نامی شخص نے شہید کیا تھا۔ حضرت مغیرہ اس سے چکی بنانے کا کام لیتے اس کے عوض چار درہم روزانہ اسے دیتے تھے ایک دن ابولؤلؤ کی ملاقات سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق سے ہوگئی تو اس نے شکایت کی کہ مغیرہ میرے آقا نے مجھ پر زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے، آپ ان سے گفتگو کرکے میرے کام اور ڈیوٹی کو ہلکا کرادیجئے۔ سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے اس سے یہ کہا کہ تم اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے آقا کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو۔ اس پر ابولؤلؤ غصہ ہوگیا اور اس نے یہ کہا کہ کتنی تعجب کی بات ہے عدل وانصاف آپ نے میرے علاوہ دیگر تمام لوگوں کے ساتھ کیا ہے۔
    بس وہ اسی دن سے سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے قتل کی خفیہ تدبیر کرنے لگا چنانچہ اس نے ایک دو رخا دو دھاری خنجر بنایا اور سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کی گھات میں لگ گیا۔ ایک دن سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نماز فجر کے لیے تشریف لائے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں بھی نماز پڑھ رہاتھا۔ میرے اور سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے درمیان عبداﷲ بن عباس حائل تھے۔ اتنے میں آپ ؓ نے تکبیر کہی تھوڑی دیر میں کیا سن رہا ہوں کہ جس وقت ان کے خنجر لگا تو کہنے لگے مجھ پر کتے نے حملہ کردیا۔ قتل کرنے کے بعد وہ کافر چھری لے کر بھاگ گیا۔ وہ دو دھارا خنجر جس کسی کے دائیں یا بائیں سے گزرتا تو وہ لوگوں کو زخمی کردیتا۔ یہ خنجر تقریباً 13 صحابہ کے لگا جس میں سات صحابہ شہید ہوئے بعض نے نو شمار کرائے ہیں۔ کسی مسلمان نے جب اسے دیکھ لیا تو اس کے اوپر ایک چادر ڈال دی جس میں وہ الجھ گیا۔ جب اس قاتل نے یہ سمجھ لیا کہ اب میں پکڑ لیا جاؤں گا تو اس نے خود کو خنجر مار لیا۔
    سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے فرمایا اﷲ سے ہلاک کرے میں نے تو اسے نیک کاموں کا مشورہ دیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا خدا کا شکر ہے کہ میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا۔( ابولؤلؤ مجوسی غلام تھا۔ بعض لوگوں نے نصرانی کہا ہے۔ )
    امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین نے بلوائیوں کو لڑائی سے روکا۔ اس کے بعد بلوائی مکان کے عقب سے جس جانب عمرو بن الحرام کا مکان تھا سیڑھی لگاکر گھس آئے۔ ان لوگوں کو اس کی اطلاع تک نہ ہوئی جو حفاظت کی غرض سے دروازے پر تھے۔ ایک بلوائی امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین کے پاس جاتا اور خلع خلافت کی بابت گفتگو کرتا اور واپس آتا تھا۔ اس اثناء میں عبداﷲ بن سلام آئے انہوں نے بلوائیوں کو سمجھانا شروع کیا بلوائی لڑنے اور مارنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس کے بعد محمد بن ابی بکر امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین کے پاس گئے اور دیر تک گفتگو کرتے رہے جس کے ذکر کی حاجت نہیں ہے پھر شرما کر چلے آئے۔ بعد ازاں کمینوں کا ایک گروہ پہنچا ان میں سے ایک نے آپ پر تلوار چلائی۔ نائلہ بنت الفراضہ آپ کی بیوی نے ہاتھ سے روکا۔ انگلیاں کٹ گئیں۔ دوسرے نے وار کیا خون کے قطرے مصحف کریم پر گرا اور آپ شہید ہوگئے۔
  • 26  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1978ء، ص:152-153
  • 27  علی بن ابراھیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:170
  • 28  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، سنن الکبریٰ، حدیث :10830، ج -9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ء، ص :388
  • 29  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407 ھ، ص:622-621
  • 30  ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق، مستخرج ابی عوانہ، حدیث: 4145، ج -3 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:44-45
  • 31  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 14195، ج -22، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :106-107
  • 32  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 2967، ج -4، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:51-52
  • 33  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:637
  • 34  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -2،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء ص:107

Powered by Netsol Online