Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

قرآن کریم میں جسم اطہر ﷺ کا ذکر

Published on: 27-Sep-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 1، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 93-113)

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات ہست وبود میں رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ نے سب سے زیادہ عزت و عظمت و رفعت امام الانبیاء حضور نبی کریم sym-1کو عطا فرمائی ہے۔آپ sym-1کے فضائل وخصائل، محامد ومحاسن اور صفات واوصاف کا احاطہ ممکن نہیں۔جو آدمی انبیاء ورسل کے حالات واخبار سے ادنیٰ آگاہی رکھتا ہے اس سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ حضرت محمد رسول اﷲ sym-1معجزات ودلائل وفضائل وشمائل میں کثرت وظہور کے لحاظ سے سب پر فوقیت اور بالادستی رکھتے ہیں۔

انبیاء ومرسلین میں سے جس کو معجزہ اور فضیلت سے سرفراز کیا گیا حضور نبی کریم sym-1کو اُس جیسے اور اُس سے اعلیٰ شرف سے مشرف کیا گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انبیائے کرام کے تمام معجزات کا سرچشمہ بھی ذات sym-1 ہی ہے۔

چنانچہ امام بوصیریsym-4فرماتے ہیں:

وكلّ آي أتى الرّسل الكرام بها
فإنما اتّصلت من نوره بهم
فإنّه شمس فضل هم كواكبها
يظهرن أنوارها للناس في الظّلم .1

جس قدر معجزات انبیاء sym-3دنیا میں لائے (فی الحقیقت) وہ تمام معجزات ان کو آپ sym-1ہی کے نور کے طفیل حاصل ہوئے۔ کیونکہ حضور sym-1آفتاب کمال ہیں اور دیگر تمام انبیاءsym-3 حضور sym-1کے مقابلہ میں بمنزلہ ستاروں کے ہیں جو علم وہدایت کی روشنی کو ضلالت وجہالت کی تاریکی میں اہل دنیا پر ظاہر کرتے رہے۔

پوری کائنات میں ازاوّل تا آخر جمالِ ظاہری اور کمالِ باطنی میں آپ sym-1سے بہتر تو دور کی بات بلکہ بعض الوجوہ بھی مثل ومثیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح کمالات نبوت اور حقیقت محمدیہ sym-1احاطہ علمی سے خارج اور فہم وعقل سے بالاتر ہیں بالکل اسی طرح کمال وجمالِ جسمانی کا واقعی ادراک بھی عقل وبیان سے وراءُ الوراء ہے۔ نہ آپ sym-1کے کمالات باطنی کا احصاء ہوسکتا ہے اور نہ ہی آپ sym-1کے جمالاتِ ظاہری کو کوئی کما حقہ بیان کرسکتا ہے۔کیونکہ بقول شیخ سعدیsym-4 :

بلغ العلی بکماله
کشف الدجٰی بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلّوا علیہ واله.2
آپ sym-1اپنےکمال کی بلندیوں پہ جلوہ گر ہوگئے۔آپ sym-1کے حسن مبارک سے تمام اندھیرے چھٹ گئے ۔آپ sym-1کی تمام عادات و اطوار بہترین ہیں۔آپ sym-1پر اور آپ sym-1کی آل پر درود پڑھو۔

عاشقِ رسول امام بوصیری sym-4بھی فرماتے ہیں:

دع ما ادّعته النّصارى في نبيّهم
واحكم بما شئت مدحا فيه واحتك
فإنّ فضل رسول الله ليس له
حدّ فيعرب عنه ناطق بفم.3
عیسائیوں نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ sym-9کے بارے میں جو بات کہی (کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں) اسے چھوڑ کر نبی اکرم sym-1 کی تعریف میں جو چاہو کہو اور مان لو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے حبیب sym-1 کے فضل و کمال کی کوئی ایسی حد نہیں ہے کہ جسے انسانی زبان بیان کرسکے۔

حلیہ مبارک کے لحاظ سے بھی آپ sym-1 تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھے ۔آپ sym-1کے حلیہ مبارک میں آپ sym-1کا قدمبارک، رنگ مبارک، بال مبارک، پیشانی مبارک، آپ کا حسن وجمال یہاں تک کہ ہر اعضاء مبارک کا ذکر بڑے خوبصورت پیرائے میں احادیث میں موجود ہے۔ بلکہ قرآن کریم میں بھی آپ sym-1 کے بعض اعضاءِ مبارک کا ذکر موجود ہے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں رسول رحمت sym-1کی شان اورعظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ رب کائنات نے رسولِ کائنات sym-1کے جسمانی اعضاء کا تذکرہ کرنے کے لیے قرآن کی آیات نازل فرمادی ہیں جن کو بار بار پڑھا جاتا ہے۔اسی طرح جن آیات میں آپ sym-1کے مقدس اعضاء کا ذکر مبارک آیا ہے ان کو بھی مسلمان تلاوت و حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

چہرہ مصطفی sym-1اورقرآن ِکریم

رسول اکرم sym-1کا چہرہ مبارک انتہائی حسین وجمیل تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ خود خالق کائنات اس چہرہ مبارک کے آسمان کی جانب اٹھنےکو نہ صرف ملاحظہ فرماتا ہےبلکہ اس کا ذکر قرآن مجید فرقان حمید میں بھی فرماتا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا مقدس ارشاد ہے:

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْھكَ فِى السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّك قِبْلَة تَرْضٰىھا فَوَلِّ وَجْھك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 1444
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے۔

اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول

سیدِ عالم sym-1 کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسندِخاطر تھا۔ حضور sym-1اس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھےکہ ربّ تعالیٰ اپنی بارگاہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اذن مرحمت فرمادے تاکہ قیامت تک مسلمان حضور sym-1کے پسندیدہ قبلہ کو اپنا قبلہ بنالیں ۔ اس خواہش محبوب پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔5

جونہی یہ آیت لے کر حضرت جبریل sym-9 نازل ہوئے نبی کریم sym-1نماز کی حالت میں تھے اور دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رُخِ انور کرکے ادا فرماچکے تھے۔ حکم کے نازل ہونے کے بعدبقیہ دو رکعت آپ sym-1نے کعبہ کی طرف رُخِ انور فرماکر ادا فرمائیں اور آپ sym-1کے ساتھ خوش قسمت صحابہ sym-7 اُسی حالت میں آپ sym-1کی اقتداء میں کعبہ کی طرف مُڑگئے۔6

اس ارشاد خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوب مکرم sym-1کی رضا بہت محبوب تھی جو محبوب sym-1 چاہتے تھےوہی عطا فرمادیا جاتا تھا۔جبکہ اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن نبی کریم sym-1کی تمنا یہ تھی کہ میرے لیے وہی قبلہ بنادیا جائے جو حضرت ابراہیم sym-9 کا تعمیر کردہ، اﷲ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم sym-1کے بار بار رخ ِانور کو آسمان کی طرف اٹھانے پر آپ sym-1کی اس خواہش کو پورا فرمادیا۔

آنکھ مبارک کا ذکر قرآن مجید میں

رسول اکرم sym-1کی آنکھ مبارک بھی امتیازی شان رکھتی ہے کیونکہ اس کا ذکر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔چنانچہ اﷲتبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَا تَمُدَّنَّ عَینَیك 887
آپ ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے۔

اس آیتِ مبارکہ کا شان ِنزول

مسلمان کفار کے متاع دنیا کو دیکھ کر کبیدہ خاطر ہوتے تھے تو اللہ ربُّ العزّت نے اس آ یت کریمہ میں مسلمانوں کو کفار کے مال ومتاع کی طرف نظر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن تعریضا ًحضور اکرم sym-1کی آنکھوں کا ذکر فرمایا ہے۔8جس سےیہ اشارہ ملتا ہے کہ رب ِکائنات کوحضور نبی کریم sym-1 کی خوبصورت آنکھوں کا ذکر مختلف انداز سے کرنا پسند ہے۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اسی محبوب اکرم sym-1 کی آنکھوں کی بصارت کی تعریف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى179
اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔

اس آیتِ مبارکہ شانِ نزول

معراج کی رات جب آپ sym-1نے انوار باری تعالیٰ کا دیدار کیا تو اس کی کیفیت کو اللہ تبارک وتعالی ٰنے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایاہے کہ اس دیدار انوار ربانی کےوقت آپ sym-1کی آنکھیں مبارک منحرف نہیں ہوئیں نہ اِدھر اُدھر ہٹیں اور نہ نور سے متجاوز ہوئیں۔10اس کے بر خلاف جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کی نظر بے اختیار ادِھر ادُھر ہو جاتی ہے لیکن آپ sym-1نے اتنے عظیم نور کو دیکھا اور آپ sym-1کی نظر ادِھر ادُھر نہیں ہوئی۔

آپ sym-1کی زبان مبارک کا ذکر قرآنِ کریم میں

رسول اکرم sym-1کی زبان مبارک بھی باقی اعضاء ِجسمانی کی طرح مشرف و ممتاز ہے کہ اس کا ذکر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰه بِلِسَانِك 9711
سو بیشک ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں ہی آسان کر دیا ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

لَا تُحَرِّك بِه لِسَانك لِتَعْجَلَل به1612
(اے حبیب!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔

یعنی اے نبی آپ sym-1قرآن کریم کو یاد کرنےمیں اپنی زبان کو تکلیف نہ دے بلکہ قرآن مجید کو آپ sym-1کے سینے میں جمع کرنے اور یاد کروانےکا ذمہ ہمارا ہے ۔آپ sym-1اس معاملہ میں ہرگز پریشان اور فکر مند نہ ہوں۔

آپ sym-1کی زبان مبارک کا تحفّظ

اسی طرح نبی کریم sym-1کی زبان مبار ک کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ هوَاِلَّا وَحْى يُّوْحٰى413
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

یعنی جو کچھ بھی آپ sym-1 دین کے متعلق گفتگو فرماتے ہیں وہ خالص وحی الہٰی ہےجو انہیں بھیجی جاتی ہے ایسا نہیں ہےجیسا( معاذ اللہ) کافر کہتے ہیں کہ یہ انسانی کلام ہے14اوراپنی مرضی سے کرتے ہیں یا کوئی آپ sym-1کو سکھاتا ہے۔15اس قول کفار کا رد کرتے ہوئے باری تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی اﷲ تعالیٰ انہیں وحی فرماتا ہے تو آپ sym-1بیان کرتے ہیں۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ sym-1جو کچھ بھی دین کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی کے تحت فرماتے ہیں اپنی منشا ومرضی کے تحت نہیں اور نہ ہی اپنی رائے سے کچھ کہتے ہیں ان کا ارشاد وحی خالص ہے۔

اس کی تائید حدیث ذیل سے بھی ہوجاتی ہے جس کو حضرت عبد اللہ بن عمر sym-8نےنقل کیا ہے:

عن عبدللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب! فوالذى نفسى بیده ما یخرج منه الا حق.16
حضرت عبداﷲ بن عمرو sym-8 بیان کرتے ہیں: میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ sym-1سے سنتا ۔پس قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ sym-1بھی انسان ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور sym-1سے اس بات کا ذکر کیا تو حضور sym-1نے انگشتِ مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے حق کےسواکوئی بات نہیں نکلتی۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1 کا ہر دینی فرمان عالیشان وحی الہٰی سے ہوتا ہے اپنی طرف سے نہیں ہوتا۔

آپ sym-1کےسینہ اقدس کا ذکر قرآنِ کریم میں

اسی طر ح نبی اکرم sym-1کے سینہ اقدس کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ117
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔

قرآن اور شرح صدر

شرح صدر کی دولت اتنی بڑی ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اﷲsym-9 جیسے اولو العزم پیغمبر اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔چنانچہ ان کی دعا کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى2518
(موسٰی sym-9 نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔

لیکن سیّدنا محمد رسول اللہ sym-1پر یہ احسانِ الہٰی ہوا کہ ربّ کریم نے اپنے حبیب sym-1کو یہ دولت بن مانگے عطا فرمائی۔ جس کاذکر کرتے ہوئے اللہ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ119
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔

شیخ ابو علی دقاق sym-4"حبیب"اور "کلیم" کے شرح صدر پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

كان موسى مریداً وكان نبینا صلى اللّٰه عليه وسلم مرادا.20
حضرت موسیٰ sym-9مرید تھے (کہ انہوں نے عرض کی رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ)25 اورہمارے نبی کریم sym-1 مراد تھے(کہ آپ sym-1سے فرمایا گیا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ .)

شرح صدر کے لفظی معنی ہیں سینے کاکھول دینااوریہ ہدایت کا آخری مرتبہ ہے۔ اس مرتبے میں تمام حقائقِ ملک وملکوت، لاہوت وجبروت منکشف ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زبان اسرار غیب کی کنجی اور دل خزانہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ راغب کے حوالہ سے امام صالحی sym-4نے لکھتے ہیں:

بسط اللحم ونحوه یقال شرحت اللحم وشرحته ومنه شرح الصدر وھو بسطه بنور الھى وسكینة من جھة اللّٰه وروح منه.21
گوشت پھیلانا اور کہا گیا:گوشت پھیلایاگیا۔اسی سے شرح صدر ہے اس سے مراد رب تعالیٰ کی طرف سے سینہ اقدس کا نور الہٰی کی وجہ سے اس کی طرف سے سکینہ(اطمینان) اور سکون کی وجہ سے پھیل جانا ہے۔

آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام صالحیsym-4 فرماتے ہیں:

الکشاف میں ہے کہ یہ عَلیٰ وَجہِ الاِنکار انشراحِ صدر کی نفی پر استفہام ہے۔ اس سے انشراح صدر کے اثبات اور ایجاب میں مبالغہ مقصود ہے گویا کہ آپ sym-1سے کہا گیاکہ ہم نے آپ sym-1کے لیے آپ sym-1 کا سینہ کھول دیا ہے۔22 اسی لیے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے اس کا "ووضعنا" پر عطف کیا ہے۔

مزید امام صالحی sym-4نے علامہ الطیبیsym-4کے حوالہ سے لکھا ہے :

اى انكر عدم الشرح فاذا انكر ذلك ثبت الشرح لان الھمزة للانكار والانكار نفى والنفى اذا دخل على النفى عاد اثباتا ولا یجوز جعل الھمز للتقریر.23
یعنی(فی الحقیقت اللہ ربُّ العز ت نے) عدم انشراح کا انکار کیا ہے جب اس کا انکار ہوا تو انشراح ثابت ہوگیا۔ کیونکہ ہمزہ انکار کے لیے ہے انکار نفی کے لیے ہے جب نفی نفی پر داخل ہو تو اثبات لازم آتا ہے۔ اس ہمزہ کو تقریر بنانا درست نہیں ہے۔

سینہ مبارک کےکھلنے سے مراد؟

شرح صدر سے مراد قلب کا انوار و تجلیات الہٰیہ سے مزین ہونا اور ان کا مرکز و محل بننا ہے۔ اس کے ذریعے تمام بوجھ دور ہوجاتے ہیں فرحت وسرور کی کیفیت قائم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ومعنی میں مفسرین نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام راغب اصفہانیsym-4لفظ شرح کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

شرح الصدر اى بسطه بنور الھى وسكینة من جھة اللّٰه وروح منه.24
شرح صدر سینے کا نور الہٰی کے جلووں سے وسیع ہونا اور اس کا اﷲ کی طرف سے سکون ،فرحت و راحت پانا ہے۔

علامہ آلوسی sym-4 نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے بہت خوب بات کہی ہے کہ شرح صدر ہر ذات کے حسب حال ہوتا ہے۔بعض اوقات شرح صدر کی صورت میں دل انوار و تجلیات کا عرش قرار پاتا ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

قد یراد تائید النفس بقوة قدسیة وانوار الھیة بحیث تكون میدانا لمواكب المعلومات وسماء لكواكب الملكات وعرشا لانواع التجلیات وفراشا لسوائم الواردات فلا یشغله شان عن شان ویستوى لدیه یكون وكائن وما كان.25
اس سےیہ بھی مراد لیا جاسکتاہےکہ نفس کو قوتِ قدسیہ اور انوار الہٰیہ سے اس طرح مزین کردیا جائے کہ وہ خزائن معلومات کے لیے میدان ، ملکات واستعداد کے لیے آسمان اور تجلیات کے لیے عرش بن جائے۔ جب کسی کے سینے کو یہ حالت نصیب ہوجاتی ہے تو اس کی دلی کیفیات میں استحکام پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے ہاں مستقبل ،حال اور ماضی یکساں ہوجاتے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں لفظِ "لک" کے اضافہ کی اہمیت

مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اگر "الم نشرح" کے بعد لفظ "لک" نہ بھی ہوتا تب بھی جملہ مکمل رہتا اور اس کے مفہوم میں کوئی تشنگی نہ رہتی لیکن "لک" (آپ sym-1 کے خاطر) کے اضافے سے آیت مبارکہ کے معنی میں مزید محبت کا پہلو اجاگر ہوا ہے کہ اے محبوب sym-1ہم نے آپ sym-1کا سینہ آپ sym-1کے خاطر کھولا ہے۔ آپ sym-1 کے خاطر کے الفاظ واضح کررہے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کوآپ sym-1کی رضا ہر شے پر مقدم ہے۔چنانچہ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امام صالحی شامی فرماتے ہیں:

انما لم یقل الم نشرح صدرك دون لك لوجھین احدھما اراد شرحته لاجلك كما تفعل انت الطاعة لاجلى.26
لک کے بغیر صرف الم نشرح نہیں فرمایا اس کی دو حکمتیں ہوسکتی ہیں ۔ایک یہ ہے کہ جس طرح اے حبیب آپ sym-1میری خاطر میری اطاعت کرتے ہیں اسی طرح میں نے آپ sym-1 کی خاطر آپ sym-1 کو شرح صدر کی دولت عطا کی ہے

مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم sym-1 کے سینہ اقدس کا ذکر قرآن مجید میں جس انداز سے فرمایاہے وہ انتہائی دلآویز اور محبت سے لبریز ہے۔

قلبِ مصطفی sym-1بکلامِ رب تبارک وتعالیٰ

آپ sym-1کے قلبِ انور کا ذکر بھی اللہ ربُّ العزّت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف انداز سے فرمایا ہے۔انہی میں سے ایک مقام پر رسول اللہ sym-1کے منصبِ جلیلہ و رفیعہ کو بیان کرتےہوئے فرمایا کہ یہ قرآن مجید ربُّ العالمین کی طرف سے جبریل امین لے کر آئے ہیں اور آگےارشادِ باری تعالیٰ ہے:

عَلٰى قَلْبِك لِتَكوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ19427
آپ( sym-1)کے قلبِ انور پر تاکہ آپ( sym-1)نافرمانوں کو ڈر سنانے والوں میں سے ہوجائیں۔

یعنی اس قرآن ِمجید کو آپ sym-1کے مبارک قلب پر اتارا ہے تاکہ اس مقدس پیغام کو آپ sym-1آگے پہنچاکر مخاطبین کواللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی پاداش میں ڈرائیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں کئی مقاما ت پر مختلف انداز سے رسول اکرم sym-1کے دل مبارک کا تذکرہ ہوا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا ھوٰى128
قَسم ہے روشن ستارے (محمد sym-1) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے ۔

امام جعفر صادقsym-4 سے"والنجم اذا ھویٰ" کے بارے میں منقول ہے کہ سے مراد حضور sym-1کا قلب انور ہے۔قاضی عیاض sym-4نے ان کا قول ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

ھو قلب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.29
نجم سے مراد حضرت محمد مصطفی sym-1کا قلب انور ہے۔

شیخ احمد شہاب الدین خفاجی sym-4اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ان انوار سے وہ ربانی تجلیات مراد ہیں جو علوم و حکم اور کمالات ومشاہدات کی صورت میں آپ sym-1کو حاصل ہوئیں۔ اس کے بعد قلب اقدس کو نجم کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وتشبىه قلبه صلى اللّٰه عليه وسلم بالنجم لا یخفى ظھوره لا شراقه بنور ربه.30
قلب انور کی نجم کے ساتھ تشبیہ واضح ہے کیونکہ آپ sym-1 کے قلب اقدس کا رب کریم کے انوار سے روشن ہوناچھپانہیں۔

قوتِ قلب مصطفی sym-1بزبانِ قرآن

اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ اس کا بوجھ برداشت نہ کرسکتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا 31لیکن ہم نے اپنے محبوب sym-1کے قلب انور کو اتنی قوت واستقامت عطا کی کہ آپ sym-1کے قلب اطہر نے اسے محفوظ کرلیا او ر نہ آپ sym-1پر بوجھ ہوا اور نہ ہی اس کی وجہ سے کوئی تکلیف ہوئی۔ بلکہ جب بھی قرآن حکیم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ sym-1پہلے سے بھی زیادہ توانائی محسوس کرتے ۔قرآن مجید کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ sym-1کے قلب اقدس کو مزید تقویت حاصل ہو۔چنانچہ اسی کے متعلق اللہ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

كذٰلِك ۚ لِنُثَبِّتَ بِه فُؤَادَك وَرَتَّلْنٰه تَرْتِيْلًا3232
یوں (تھوڑا تھوڑا کر کے اسے) تدریجاً اس لیے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ (اطہر) کو قوت بخشیں اور (اسی وجہ سے) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے (تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے)۔

اسی طرح حضرت جبریل sym-9 کے حوالے سے ایک اورمقام پرارشاد فرمایا:

نَزَّلَه عَلٰى قَلْبِك بِـاِذْنِ اللّٰه9733
کیونکہ اُس نے (تو) اس(قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔

تیسرے مقام پر قرآن کریم میں آپ sym-1کے قلب انور کی اس عظیم قوت کو ایک رمز کی صورت میں بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان مبارک ہے:

قۗ ۣۚ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ134
ق (حقیقی معنی اﷲ اور رسول sym-1ہی بہتر جانتے ہیں)، قسم ہے قرآنِ مجید کی۔

اس کی تفسیر میں امام ابن عطاء sym-4 سے منقول ہے:

اقسم بقوة قلب حبیبه محمدصلى اللّٰه عليه وسلم حیث حمل الخطاب و المشاهدة ولم یوثر ذلك فیه لعلو حاله.35
اﷲ نے اپنے حبیب کے قلب انور کی قوت کی قسم کھائی کہ اس نے باری تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کی اور مشاہدہ ذات باری تعالیٰ کی سعادت حاصل کی اور یہ آپ کے حال و مقامات کی بلندی ہی ہے۔

امام ثعلبی sym-4 نے بھی اپنی تفسیر میں اس کو نقل کیا ہے۔36 علامہ خفاجی sym-4 نے اس قول کا ترجمہ اپنے ان الفاظ میں کیا ہے:

حیث تحمل واطاق خطاب اللّٰه ورؤیته لیلة الاسراء ومشاهدة الملكوت ومھابته فما یشھد له الجبال ولا تطیقه الملائكة.37
آپ sym-1بلاواسطہ کلام الہٰی کے متحمل ہوئے اور معراج کے موقعہ پر دیدار الہٰی اور ملکوت کے مشاہدہ سے بہرہ ور ہوئے، جس کی ہیبت اور دبدبہ پر پہاڑ گواہ ہیں اور اس کی ملائکہ طاقت نہیں رکھتے۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم sym-1کے دلِ مبارک کی طاقت و قوت پہاڑوں سے بھی زیادہ مستحکم و مثبت ہے کہ یہ انوارِ الہٰیہ اور وحیِ ربانی کا مقام ہے۔

قرآن اور قلبِ اقدس کی صداقت کی تصدیق

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں دل اس کی تصدیق نہیں کرتا اوراسے تذبذب رہتا ہےکہ یہ شاید میرا وہم ہو۔ معراج کے موقعہ پر اﷲ تعالیٰ نے جب اپنے پیارے حبیب sym-1کو اپنی عظیم قدرتوں اور نشانیوں کا مشاہدہ عطا فرمایا تو صرف آپ sym-1کی مبارک آنکھوں ہی نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ دل نے بھی اس کی تصدیق کی کہ یہ محض خیال یا وہم نہیں بلکہ یہ مشاہدات ایک حقیقت ہیں جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ آپ sym-1 کی اس کیفیت کا ذکر قرآن میں واقعہ معراج میں دکھائی گئی نشانیوں کے متعلق یوں ہوا:

مَا كذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى1138
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔

یعنی ان نشانیوں اور انوار ِ الہٰیہ کے مشاہدات کی تصدیق کرنے میں آنکھوں کے ساتھ ساتھ رسول اکرم sym-1کا دل بھی برابر کا شریک تھا اور ان میں ذرہ برابر بھی کسی شک و شبہ کی راہ درنہ آئی تھی۔

قرآن کریم اور قلب مصطفی sym-1کی نرمی

اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کی ذات اقدس کو سراپا رحمت وشفقت بنایا۔ رقتِ قلبی اور نرمی آپ sym-1کی طبیعت مبارکہ کا اہم اور کامل جز تھی۔ حضور sym-1کا قلب منور سوز و گداز اور محبت وشفقت کا مخزن تھا۔ انسان تو انسان آپ sym-1کسی جانور پر بھی تشدد برداشت نہ کرسکتے تھے کیونکہ آپ sym-1بے حد رقیق القلب تھے۔قرآن مجید نے اس رقت قلبی کو یوں بیان کیا کہ آپ sym-1چونکہ نہایت ہی مشفق ورحیم ہیں اس لیے آپ sym-1کے ارد گرد غلاموں کا پروانوں کی طرح ہجوم رہتا ہے اور یہ آپ sym-1پر اﷲ کی رحمت ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَبِمَا رَحْمَة مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَھمْ ۚ وَلَوْ كنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِك15939
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔

قرآن کریم کی بعض آیات اور الفاظ آقائے دو جہاں حضور نبی کریم sym-1کے قلب مبارک سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔

امام ثعلبی ، امام خازن اور امام بغوی رحمۃ اللہ علیھم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 نے حضرت کعب سے کہاکہ مجھے مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ40 آیت کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو حضرت کعب sym-4نے جواب دیا:

هذا مثل ضربه للّٰه سبحانه لمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیه النبوة توقد من شجر مباركة هى شجرة النبوة.41
(آیت مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب sym-1کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکوۃ سے آپ sym-1کا سینہ اقدس مراد ہے زجاجۃ سے مراد آپ sym-1کا قلب اطہر ہے جبکہ مصباح سے مراد وہ صفت نبوت ہے جو شجر نبوت سے روشن ہے۔

امام ابو حاتم رازی sym-4اپنی سند کے ساتھ اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

عن شمر بن عطیة قال جاء ابن عباس الى كعب الاحبار فقال: حدثنى عن قول اللّٰه فیھا مصباح. قال: والمصباح قلبه یعنى قلب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.
شمر بن عطیتہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباسsym-8 نے حضرت کعب الاحبار sym-5کے پاس آکر کہا کہ: مجھے آپ باری تبارک و تعالیٰ کے اس قو لفیھامصباح کے بارے میں بتائیں۔تو انہوں نے کہا اس سے مراد دل ہے یعنی (سیّدنا) محمد sym-1کا دل انور۔

ابو حاتم sym-4 مزید روایت کرتے ہیں:

عن ابى بن كعب فى قوله المصباح فى زجاجة فذلك النور فى زجاجة والزجاجة . قلبه.42
حضرت ابی بن کعب sym-5سے المصباح فی زجاجۃ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نورِ نبوت شیشی میں ہے اور وہ شیشی آپ sym-1کا دلِ اطہر ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ ربُّ العزّت نے حضور sym-1کے مبارک سینے کو انوار و معارفِ الہٰیہ کا خزینہ بنایاتھا۔حضور نبی کریم sym-1معراج سے مشرف ہونے سے پہلے جب کفار و مشرکین کو شرک میں مستغرق دیکھتے اور انہیں قرآن کریم پر طعن وتشنیع کے تیر چلاتے ہوئے پاتے اور وہ لوگ حضور sym-1کے ساتھ تمسخراڑایا کرتے تو حضور sym-1کو بڑا دکھ ہوتا تھا اور طبیعت میں گھٹن پیدا ہوجاتی تھی اس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں فرمایاہے:

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّك يَضِيْقُ صَدْرُك بِمَا يَقُوْلُوْنَ9743
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔

لیکن جب اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کو عرش بریں پر بلایا اور اپنی قدرت، ہمہ دانی اور حکمت بالغہ کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں پھر مقام قاب قوسین پر فائز کرکے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا تو وہ سینہ کی تنگی ہمیشہ کے لیے کافور ہوگئی جتنا بھی کوئی ستاتا یا کوئی تمسخر اڑاتا توجبین نبوت پر کبھی ملال کے آثار نمودار نہ ہوتے۔

دستِ ا قدس کا ذکر قرآنِ کریم میں

قرآن میں آپ sym-1کے جن مبارک اعضاء کا ذکر ہے۔ ان میں سے دست اقدس بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر ان مبارک ہاتھوں کی عظمت کیا ہوسکتی ہے کہ آپ sym-1کے مبارک ہاتھ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا۔

چنانچہ نبی کریم sym-1نے ذو القعدہ 6ہجری میں عمرہ کرنے کا جو قصد کیا تھا اور چودہ سو اصحاب sym-7کے ساتھ آپ sym-1عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے تھے ،اس کا سبب یہ تھا کہ نبی کریم sym-1کو اﷲ تعالیٰ نے واقعہ حدیبیہ سے پہلے خواب میں یہ دکھایا تھا کہ آپ sym-1مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ انتہائی امن اور بے خوفی کے ساتھ عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ ہر چند کہ اس خواب میں یہ تعین نہیں تھا کہ آپ sym-1مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے کب روانہ ہو ں گے؟لیکن چھ سال سے آپ sym-1 اور مسلمانوں نے بیت اﷲ کا طواف نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کی زیارت کی تھی تو آپ sym-1اور سب مسلمان بیت اﷲ کی زیارت اور اس کا طواف کرنے کے لیے بے چین تھے۔اس لیے خواب میں جب بیت اﷲ کی زیارت اور اس کے طواف کرنے کا مژدہ اور اس کی بشارت ملی تو آپ sym-1نے عمرہ کے لیے رختِ سفر باندھنے میں ذراتا خیر نہ کی اور فوراً عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے اور اس کے لیے مسلمانوں میں اعلان عام کرایا گیا ۔ا س طرح آپ sym-1اپنے چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

اسی سے متعلق امام ابن اسحاق sym-4کے حوالہ سے امام ابن ہشامsym-4 بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8نے فرمایا:

کہ قریش نے چالیس یا بچاس آدمی بھیجے اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ رسول اﷲ sym-1کے لشکر کے گرد چکر لگائیں تاکہ آپ sym-1کے اصحاب میں سے کسی کو پکڑ لیں۔انہوں نے رسول اﷲ sym-1کے لشکر کے اوپر پتھر پھینکے اور تیر مارے،ان کو گرفتار کرکے رسول اﷲ sym-1کے پاس لایا گیا توآپ sym-1نے ان سب کو معاف کردیا اور چھوڑ دیا۔پھر رسول اﷲ sym-1نے حضرت عمر sym-5کو بلایا تاکہ ان کو مکّہ بھیجیں اور وہ آپ sym-1کی طرف سے قریش کے سرداروں کو یہ پیغام پہنچائیں کہ آپ sym-1صرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ حضرت عمر sym-5نے فرمایا کہ قریش مجھ سے بہت شدید عداوت رکھتے ہیں لیکن میں آپ sym-1کو ایک شخص بتاتا ہوں جو میری بہ نسبت ان کے نزدیک بہت معزز اور محترم ہے اور وہ حضرت عثمان بن عفانsym-5 ہیں۔ پھر رسول اﷲ sym-1نے حضرت عثمانsym-5 کو بلایا اور ان کو ابو سفیان اور قریش کے سرداروں کی طرف بھیجاتاکہ وہ ان کو بتائیں کہ رسول اﷲ sym-1جنگ کے لیے نہیں آئے بلکہ آپ sym-1صرف بیت اﷲ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لیے آئے ہیں۔
امام ابن اسحاق sym-4نے کہا: پھر حضرت عثمانsym-5 مکّہ گئے اور ابو سفیان و قریش کے دیگر سرداروں کو رسول اﷲ sym-1کا پیغام سنایا۔ انہوں نے حضرت عثمان sym-5سے کہا اگر تم بیت اﷲ کا طواف کرنا چاہتے ہو تو تم طواف کرلو۔ حضرت عثمان sym-5نے کہا جب تک رسول اﷲ sym-1 طواف نہ کرلیں میں طواف کرنے والا نہیں ہوں۔ پھر قریش نے حضرت عثمان sym-5کو پکڑ کر بند کردیا اور رسول اﷲ sym-1 اور مسلمانوں تک یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانsym-5 بن عفان کو قتل کردیا گیا۔
امام ابن اسحاقsym-4 نے کہا کہ جب رسول اﷲ sym-1 کے پاس حضرت عثمانsym-5 کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ sym-1نے فرمایا ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس قوم سے جنگ میں مقابلہ نہ کریں۔پھر رسول اﷲ sym-1 نے لوگوں کو بیعت کرنے کے لیے بلایا اور پھر ایک درخت کے نیچے یہ بیعت منعقد ہوئی ۔ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم نے رسول اﷲ sym-1 کے ہاتھ پر مرنے کے لیے بیعت کی ہے یعنی تادم مرگ آپ sym-1 کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔حضرت جابر بن عبداﷲsym-5 یہ کہتے تھے کہ ہم نے موت پر بیعت نہیں کی تھی ہم نے اس پر بیعت کی تھی کہ ہم آپ sym-1 کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور بھاگیں گے نہیں۔ابن ہشام sym-4بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ sym-1 نے حضرت عثمانsym-5 کی طرف سے خود بیعت کی اور اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمانsym-5 کا ہاتھ قرار دے کر اس ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا۔ 44

اسی بیعت کے متعلق اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَك اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰه ۭ يَدُ اللّٰه فَوْقَ اَيْدِيْھمْ1045
(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ sym-6 بیان کرتے ہیں:

كنا یوم الحدیبیة الفا واربع مئة فبایعناه و عمر آخذ بیده تحت الشجرة.46
یوم حدیبیہ کو ہم چودہ سو افراد تھے ہم نے آپ sym-1 سے بیعت کی اور حضرت عمر sym-5نے آپ کا ہاتھ مبارک (کیکر کے) درخت کے نیچے پکڑا ہوا تھا۔

کنکریوں کے پھینکنے کی نسبت

آپ sym-1کے دست مبارک کی نسبت سے کنکریاں پھینکنے کے واقعہ میں ربّ تعالیٰ نے آپ sym-1کے دست مبارک کو اپنا دستِ اقدس قرار دیا۔ایک غزوہ کے موقعہ پر آپ sym-1نے اپنے دست اقدس سے کافروں کی طرف سنگریزے پھینکے جس سے سینکڑوں کافروں کی آنکھیں اور منہ بھر گیا اس منظر کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:

وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكنَّ اللّٰه رَمٰى1747
اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔

اسی حوالہ سے حضرت ابن عباس sym-8 بیان کرتے ہیں :

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : ناولنى كفا من حصى فناولته فرمى به فى وجوه القوم فما بقى فى القوم احد الا ملئت عیناه من الحصا فنزلت. وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمى1748
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: مجھے کنکریوں کی ایک مٹھی پکڑاؤ۔ میں نے آپ sym-1کو یہ پکڑائی تو آپ sym-1نے لوگوں کے چہروں کی طرف پھینکی، لوگوں میں سے کوئی آدمی نہیں بچا جس کو کنکری نہ لگی ہو۔ اﷲ نے یہ آیت نازل فرمائی "اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔’’

آیت ِ کریمہ کاشان نزول

اسی آیت کریمہ کے شان ِ نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ sym-5 بیان کرتے ہیں:

انزل اللّٰه جل جلاله على نبیه صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة (سَيُھزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ45)49 فقال عمر بن الخطاب: یا رسول اللّٰه! اى جمع وذلك قبل بدر؟ قال: فلما كان یوم بدر وانھزمت قریش. نظرت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى آثارھم مصلتا بالسیف یقول: (سَيُھزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ45)50 وكانت لیوم بدر فانزل اللّٰه عزوجل فیھم (حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْھمْ بِالْعَذَابِ64)51 الایة وانزل اللّٰه (اَلَمْ تَرَ اِىى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰه 28)52 الایة ورماھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فوسعتھم الرمیة وملات اعینھم وافواھھم حتى ان الرجل لیقتل وھو یقذى عینیه رماہ فانزل اللّٰه (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى17)53 وانزل اللّٰه فى ابلیس (فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيْه وَقَالَ اِنِّى بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّى اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّى اَخَافُ اللّٰه ۭ وَاللّٰه شَدِيْدُ الْعِقَابِ48)54 وقال عتبة بن ربیعة وناس معه من المشركین یوم بدر: غر ھولاء دینھم فانزل اللّٰه (اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِى قُلُوْبِھمْ مَّرَضٌ غَرَّ ھٰه ؤُلَاۗءِ دِيْنُھمْ 49)55 الایة.56
اﷲعزوجل نے اپنے نبی کریم sym-1پر مکہ میں یہ آیت "سیھزم الخ..." نازل کی، حضرت عمر بن خطابsym-5 نے عرض کی: یا رسول اﷲ! جمع سے مراد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :بدر سے پہلے جب بدر کا دن تھا قریش بھاگے۔ میں نے رسول اﷲ sym-1کو ان کے پیچھے تلوار سونتے ہوئے دیکھا،آپ پڑھ رہے تھے "سیھزم...الی آخرہ" بدر کے دن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی"حتی اذا اخذنا...الی آخرہ" پھر یہ آیت اُتاری"الم تر۔۔۔الی آخرہ" رسول اﷲ sym-1نے ان پر مٹی پھینکی وہ ان سب پر پھیل گئی، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں اور منہ بھر گئے چنانچہ جب کوئی آدمی (قریش) کاقتل ہوتا تو وہ اس حال میں قتل ہوتا کہ اس کی دونوں آنکھوں میں مٹی پڑی ہوتی۔ سو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی"ومارمیت...الی آخرہ"ابلیس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی"فلما تراء...الی آخرہ"بدر کے دن عتبہ اور ا س کے مشرک ساتھیوں نے کہا :ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے تو اﷲ عزوجل نے یہ آیت نازل کی" اذ یقول المنافقون...الی آخرہ"۔

اسی طرح حضرت جابر sym-5بیان کرتے ہیں:

سمعت صوت حصیات وقعن من السماء یوم بدر كانھن وقعن فى طست فلما اصطف الناس اخذھن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فرمى بھن فى وجوه المشركین فذلك قوله تعالى57:(وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى17).58
میں نے ان کنکریوں کی آوازیں سنی تھیں جو بدر کے دن آسمان سے ماری گئی تھیں گویا کہ وہ طشت میں گررہی ہیں پھر جب لوگوں نے صفیں درست کیں تو رسول اﷲ sym-1نے کنکریوں کو لے کر مشرکوں کے چہروں کی جانب پھینکا اس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے: اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔

حضرت علیsym-5 فرماتے ہیں کہ :حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:علی! مجھے مٹھی بھر سنگریزے دوپھرحضور نبی کریم sym-1 نے انہیں کفار کی طرف پھینک دیا ۔چنانچہ کفار کی حالت کچھ یوں ہوئی:

فما بقى احد من القوم الا امتلات عیناه من الحصباء.59
دشمن کا کوئی فرد نہ بچا جس کی آنکھ میں سنگریزےنہ گئےہوں ۔

ان سنگریزوں کے متعلق ابن عقبہsym-4 اور ابن عائذ sym-4لکھتے ہیں:

فكانت تلك الحصباء عظیما شانھا لم تترك من المشركین رجلا الا ملات عینیه وجعل المسلمون یقتلونھم ویاسرونھم وبادر كل رجل منھم منكبا على وجھه لایدرى این یتوجه یعالج التراب ینزعه من عینیه.60
ان سنگریزوں کی عظیم شان تھی مشرکین کے ہر فرد کی آنکھیں اس سے بھر گئیں۔ مسلمان انہیں تہ تیغ کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے۔ ہر شخص چہرے کے بل جھک گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ کہاں جائے؟اور وہ اپنی آنکھوں سے مٹی نکال رہا تھا۔

امام عبد الرحمن سہیلیsym-4 جنگ بدر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

وجاء النصر من عنداللّٰه وقبض النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قبضة من البطحاء ورماھم بھا فملات عیون جمیع العسكر وذلك قوله سبحانه (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى17)61
پھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نصرت آئی اور حضور sym-1نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھری اور دشمن کی طرف پھینک دی جس نے سارے لشکر کی آنکھوں کو بھر دیا اسی کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔

جنگ بدر جو 2ہجری میں واقع ہوئی، اس میں کفّار مکّہ بہت سازوسامان کے ساتھ مدینہ طیّبہ پر حملہ کرنے آئے اور اہل مدینہ کے پاس سوائے اﷲ کی مدد اور رسول sym-1کی برکت کے اور کچھ بھی نہ تھا۔ کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ جن کے پاس ہر طرح کے کھانے پینے کا سامان تھامگر مسلمانوں کے منہ میں دن بھر روزہ اور رات میں آیاتِ قرآن کے سوا کچھ نہ تھا۔

مسلمانوں کی اس ظاہری حالت کو دیکھ کر حضور sym-1نے سجدہ میں سر رکھ کر بارگاہ الہٰی میں عرض کیا کہ خدایا اس وقت روئے زمین پر تیری سچی عبادت کرنے والی صرف یہی مسلمانوں کی بے سروسامان چھوٹی سی جماعت ہے۔ اگر آج تو نے ان کی امداد نہ فرمائی اور یہ جماعت شکست کھاکر ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تیرا سچا نام لیوا کوئی بھی نہ رہے گا ۔ آپ sym-1نے اس قدر گریہ زاری فرمائی کہ اس جگہ کی کنکریاں حضور sym-1کے آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ پھرآپ sym-1نے سجدے سے سر اٹھایا اور ایک مٹھی خاک کی لے کر لشکر کفار کی طرف پھینکی۔ وہ تمام کنکریاں کافروں کی آنکھوں میں پہنچ گئیں اور کافر آنکھیں ملتے رہ گئے۔بعد میں اﷲ کے فضل سے مسلمانوں کی اس تھوڑی سی جماعت نے کافروں کے اس سازوسامان والے لشکر پر اسی سے فتح پائی کہ جس کا آج تک ذکر چلا آرہا ہے اور بڑے بڑے سردارانِ قریش کفار اس جنگ میں مارے گئے اور بہت سے قید ہوئے۔

یہ تو واقعہ تھا جس کا اس آیت پاک میں ذکر ہوا۔ گویا یہ آیت فرمارہی ہے کہ وہ واقعہ جب آپ sym-1نے ایک مشتِ خاک کفار کی طرف پھینکی اور سب کی آنکھوں میں پہنچ گئی تو یہ آپ sym-1نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ آپ sym-1کے رب نے پھینکی تھیں یعنی ہاتھ تو آپ sym-1کے ہی تھے مگر کام اللہ تبارک وتعالیٰ کاتھا۔62

آپ sym-1کی پشت مبارک کا ذکر قرآن مجید میں

رسول اکرمsym-1کی پشت مبارک کا ذکر بھی رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:

وَوَضَعْنَا عَنْك وِزْرَك2 الَّذِى اَنْقَضَ ظَھرَك363
اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا، جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا۔

اسی طرح امام قسطلانیsym-4آپ sym-1کی خصوصیات کا ذکر کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ومنھا ان اللّٰه تعالى ذكره فى القرآن عضوا عضوا.64
آپ sym-1کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ sym-1کے ایک ایک عضو کا ذکر فرمایا۔

خلقِ خدا کے لیے ایسی ذات جس پر ایمان لانا اور جس کے ذریعہ رب تعالیٰ پر ایمان لانا ضروری ہو وہ کتنا جامع الصفات ہونا چاہیے؟تو صاف ظاہر ہے کہ ایسی ہستی مجموعہ صفات و کمالات ہی ہونی چاہیے چنانچہ رب تعالیٰ نے آپ sym-1کو سراپا معجزہ بنایا اور آپ sym-1کے اوصافِ خُلقی کے ساتھ ساتھ اوصاف خِلقی کا ذکر بھی قرآن کریم میں جابجا فرمایا اور عظمت و مقام مصطفیٰ sym-1کو تاقیامت اپنے کلام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش فرما دیاتاکہ جب جب اللہ ربُّ العزّت کے کلام کی تلاوت کی جائے، تب تب اللہ کے رسول sym-1کی عظمت کے پائندہ نقوش ، اہل ِایمان کے باصرہ نواز ہوتے رہیں۔


  • 1  امام محمد شرف الدين البوصيرى، العمدۃ فی اعراب البردۃ قصيدة البوصيری، مطبوعة:دار اليمامة لطباعة والنشر، دمشق،السوريۃ،1423ھ، ص:41
  • 2  حسين حسينى معدی، الرسولﷺ فى عيون غربية منصفة، مطبوعۃ:دار الکتاب العربی، دمشق، السوریۃ، 1419ھ، ص:234
  • 3  امام محمد شرف الدين البوصيرى، العمدۃ فی اعراب البردۃ قصيدة البوصيرى، مطبوعة:دار اليمامة لطباعة والنشر، دمشق،السوريۃ، 1423ھ، ص:40
  • 4  القرآن، سورۃ البقرۃ2: 144
  • 5  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تاویل القرآن، ج-3، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:172
  • 6  ایضًا: ص:181
  • 7  القرآن، سورۃ الحجر15: 88
  • 8  علامہ غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن، ج-6،مطبوعہ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2013،ص:318
  • 9  القرآن، سورۃ النجم53: 17
  • 10  ابو عبد اللہ فخر الدین محمد بن عمرالرازی، مفاتیح الغیب، ج-28، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:245
  • 11  القرآن، سورۃ مریم19: 97
  • 12  القرآن ، سورۃالقیامۃ75: 16
  • 13  القرآن، سورۃ النجم53: 04-03
  • 14  القرآن، سورۃ المدثر25:74
  • 15  القرآن، سورۃ النحل103:16
  • 16  سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی، سنن ابوداؤد ، حدیث: 3643، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 17  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 01
  • 18  القرآن، سورۃ طٰہٰ20: 25
  • 19  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 01
  • 20  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدٰی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 ء، ص:59
  • 21  ایضاً، ص:58
  • 22  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 1
  • 23  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:58
  • 24  حسین بن محمد راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص :449
  • 25  شہاب الدین محمود آلوسی، تفسیر روح المعانی، ج -15، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:386
  • 26  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:58
  • 27  القرآن، سورۃالشعراء26: 194
  • 28  القرآن، سورۃ النجم53: 01
  • 29  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:99
  • 30  شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ: دارابن رجب، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:200
  • 31  القرآن، سورۃالحشر21:59
  • 32  القرآن، سورۃالفرقان 25: 32
  • 33  القرآن، سورۃالبقرۃ2: 97
  • 34  القرآن، سورۃ ق50: 01
  • 35  قاضی عیاض بن موسی مالکی، الشفاء بتعریف حقوق المصطفیﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:93
  • 36  ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی، تفسیر ثعلبی، ج -9، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ، 2002ء، ص:93
  • 37  شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:200
  • 38  القرآن ، سورۃالنجم53: 11
  • 39  القرآن، سورۃ آل عمران3 : 159
  • 40  القرآن، سورۃ النور35:24
  • 41  ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی، تفسیر ثعلبی، ج -7، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002ء، ص :105
  • 42  عبد الرحمن بن محمد بن ادریس رازی، تفسیر ابی حاتم الرازی، حدیث: 14578- 14577، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1419ھ، ص : 2597- 2596
  • 43  القرآن، سورۃ الحجر15: 97
  • 44  عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 48-47
  • 45  القرآن، سورۃالفتح48: 10
  • 46  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1856، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 1483
  • 47 القرآن، سورۃالانفال08: 17
  • 48  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 5502، ج- 5، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 344
  • 49  القرآن، سورۃالقمر54: 45
  • 50  القرآن، سورۃالقمر54: 45
  • 51  القرآن، سورۃالمؤمنون23: 64
  • 52  القرآن، سورۃابراہیم 14: 28
  • 53  القرآن، سورۃ الانفال08 : 17
  • 54  القرآن، سورۃ الانفال08 : 48
  • 55  القرآن، سورۃ الانفال08 : 49
  • 56  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:9121، ج -9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 58
  • 57  القرآن، سورۃالانفال08: 17
  • 58  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:335
  • 59  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 11750، ج-11، مطبوعۃ: مصر، 1994ء، ص:285
  • 60  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص: 48
  • 61  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج- 5، مطبوعۃ: دار احیاءالتراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص: 152
  • 62  مفتی احمد یار خان نعیمی، شانِ حبیب الرحمن من آیاتِ القرآن ،مطبوعہ: قادری پبلشرز ، لاہور، پاکستان، 2012ء ، ص:101-100
  • 63  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 02-03
  • 64  احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج -2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :339

Powered by Netsol Online