encyclopedia

رمضان المبارک کے سحر و افطار

Published on: 25-Mar-2024

اسلام میں روزہ کا مطلوب بندہ مؤمن کو بھوک وپیاس سےتکلیف دینا نہیں بلکہ اسے اللہ تعالی کے احکامات ومنہیات کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرناہے ۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح اپنےآپ کو غاروں اور کنوؤں میں بھوکا پیاسا رکھ کر خود اپنی وضع کردہ عبادات کے ذریعہ تقرب الی اللہ کا دعوی کرنا کسی بھی طور پر اسلام کا مطلوب نہیں ہے ۔ مسلمان جس طرح روزہ اللہ تعالی کاحکم سمجھ کر رکھتا ہے ویسے ہی سحر و افطار میں کھانا پینا بھی اس کے حکم کی بجا آوری اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سنت کی اتباع میں کرتا ہے ۔

رمضان کی سحری

سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يدعو في شهر رمضان إلى السحور، قال: "هلموا إلى الغداء المبارك " . 1
میں نے سنا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رمضان المبارک کے مہینہ میں ان الفاظ کے ساتھ سحری کی طرف بلارہے تھے ،”آؤ بابرکت کھانے کےلیے“۔

رمضان المبارک کی سحری محض شکم سیری نہیں ہے بلکہ سحری کھانے والوں کو فرشتوں کی دعا کا مستحق ٹھہرا کر اس عملِ اَکْلُ وشُرب کو بذات خود عبادت قرار دیا گیاہے۔اس حوالہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ارشاد گرامی سحری کھانے والوں کےلیے یہ ہے:

إن اللّٰه وملائكته يصلون على المتسحرين. 2
بلا شبہ اللہ تعالی (رحمت نازل فرماتے ہیں)اور اس کے فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں سحری کھانے والوں کےلیے۔

زبان رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سحری کو بابرکت کھانا اس لیے کہا ہے کہ روزہ دار اس کھانےکی برکت کو پورا دن اپنے جسم میں توانائی کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ یہ مسنون کھانا پینا انسان کو جسمانی ضعف سے بچا کر پورے دن اپنے کام کاج اور عبادت کی ادائیگی کےلیے متحرک رکھنے میں مدد دیتا ہے۔اسی لیے سحری کے متعلق ارشاد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہے:

تسحروا فإن في السحور بركة . 3
سحری کھایا کرو،کیوں کہ سحری کے کھانےمیں برکت ہوتی ہے۔

سحری کھانا مسلمانوں کاوہ مخصوص مذہبی شعار وعمل ہے جس کی برکتوں سے یہود ونصاریٰ سمیت روزہ رکھنے والی تمام دوسری اقوام محروم ہیں۔ اس حوالہ سے حضرت عمرو بن العاص Radi Allah Anho آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:

فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب، أكلة السحر. 4
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کےدرمیان فرق، سحری کا کھانا ہے۔

ایک مقام پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سحری کھانے والوں کے لیے برکت کی دعا بھی منقول ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

اللّٰهم بارك لأمتي في سحورها، تسحروا ولو بشربة من ماء، ولو بتمرة، ولو بحبات زبيب، فإن الملائكة تصلي عليكم. 5
اے اللہ میری امت کی سحری (کھانے) میں برکت عطا فرما، (اور پھر فرمایا) سحری کھایا کرو اگر چہ ایک گھونٹ پانی ہو،یا ایک دانہ کھجور کا ہو،یا چند دانے کشمش کے ہوں،کیوں کہ فرشتے تمہارے لیے (اس عمل کی وجہ سے ) استغفار کرتے ہیں۔

افطار

مسلمان دن بھر روزہ رکھنے کے بعدافطار کرکے اپنے روزہ کو مکمل کرتا ہے کیوں کہ روزہ کی تکمیل کےلیے بندہ ءِ مومن سے یہی مطلوب ہے کہ وہ حکم خداوندی کی بلا چوں وچراں اطاعت کرے۔لہذا مغرب ہونے کے بعد روزہ کی حالت میں مزید وقت بلا عذر گزارنا اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے ۔اس لیے افطار میں جلدی کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ مسند البزار کی روایت میں ہے:

يقول اللّٰه عز وجل: إن أحب عبادي إلي، أعجلهم فطرا. 6
اللہ تعالی فرماتے ہیں! بلاشبہ میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔

افطاری کے متعلق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےایک اور موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا :

لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر . 7
لوگ اس وقت تک خیر پر قائم رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔

گویا سحری کی پابندی کرنا اور افطار میں تعجیل کرنا یہ دونوں اعمال تربیت نفس کا حصہ اور اسلامی تعلیمات کا مطلوب ہیں تاکہ بندہ اپنے رب کے احکامات کی بجا آوری کرکے اپنے رب کو اسکی بندگی کا ثبوت دے سکے۔


  • 1  ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی، السنن الکبرٰی، حدیث: 8116، ج-4، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 398
  • 2  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الاوسط، حدیث: 6434، ج-6، مطبوعۃ: دار الحرمین،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 287
  • 3  أبو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجۃ، حدیث:1692، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 301
  • 4  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 17801، ج-29، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 337
  • 5  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، مسند الشامیین، حدیث: 16، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984 م، ص: 32
  • 6  أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 7899، ج-14، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودية، 2009 م، ص: 291
  • 7  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، حدیث: 1957، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 315

Powered by Netsol Online