Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

سرایائے حضور اکرم ﷺ

Published on: 02-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، علامہ سیّد سعد ابراہیم،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 3، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 137-148)

ربّ تعالیٰ نے نفوس کو مختلف درجات پر پیدا فرمایا ہے ۔بعض حسن وجمال کی انتہاء پر ،بعض متوسط اور بعض نچلے درجہ میں ہیں۔ پھر ہر مرتبہ کے کئی درجات ہیں جن میں انبیاء کرامsym-3 حسن وجمال کے بلند ترین درجہ پر ہوتے ہیں،ان کے اجسام مطہ رات پر کوئی عیب نہیں ہوتااور ان کے اجسامِ مبارک حسن کا مرقع ہوتے ہیں۔ پھر حسن وجمال میں ان کے مابین بھی مختلف درجات ہیں جو کہ بدیہی ہیں۔حضور اکرم سیّد الانبیاء sym-1مزاج کے اعتبار سے سارے انبیاء سے عمدہ، جسم کے اعتبار سے اکمل اور روح کے اعتبار سے سب سے زیادہ پاکیزہ تھے۔

حضور نبی کریم sym-1کا جسم اقدس نہ تو مائل بہ فربہی تھا اور نہ ہی نحیف وناتواں بلکہ آپ sym-1کے جسمِ اقدس کی ساخت سرتاپا حُسنِ اعتدال کا مرقع تھی۔ آپ sym-1 کے جملہ اعضائے مبارکہ میں ایسا حسین تناسب پایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ فلاں عضو دوسرے کے مقابلے میں فربہ یا نحیف ہے۔ آپ sym-1 کے جسمِ اطہر کی ساخت اتنی متناسب اور کمال موزونیت کا مرقع تھی جس پر فربہی یا کمزوری کا حکم نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ فربہی اور دُبلاپن کی دونوں کیفیتیں شخصی وجاہت اور جسمانی حسن ووقار کے منافی سمجھی جاتی ہیں چنانچہ رب العزت کو یہ بات کیونکر گوارا ہوسکتی تھی کہ کوئی اس کے کارخانہ قدرت کے شاہکار کی طرف کسی خلاف حسن ووقار امر کی نسبت کرسکے ۔

اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ sym-1کی ذات گرامی کو پوری دنیا کی راہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔آپ sym-1کے اس منصب جلیلہ کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ sym-1کی زندگی ہر لحاظ سے ایک کامل نمونہ ہوتی۔چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحتِ فکر سے لے کر صحتِ ذہن وبدن تک حضور نبی کریم sym-1کی تمام زندگی ایک ایسا خوبصورت مرقع تھی جس کی مثال نہ تو آج تک کسی آنکھ نے دیکھی اور نہ ہی دیکھ سکے گی۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّآ اَعْطَيْنٰك الْكوْثَرَ11
بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔

کوثر سے مراد حوضِ کوثر یا نہرِ جنت بھی ہے۔ قرآن اور نبوت و حکمت بھی، فضائل و معجزات کی کثرت یا اصحاب و اتباع اور امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے۔ رفعتِ ذکر اور خلقِ عظیم بھی مراد ہے اور دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی، نصرتِ الہٰیہ اور کثرتِ فتوحات بھی مراد ہیں اور روزِ قیامت مقامِ محمود اور شفاعتِ عظمیٰ بھی مراد لی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ sym-1کو فضائلِ کثیرہ عنایت کرکے تمام خلق پر افضل کیا۔ حُسنِ ظاہر بھی دیا۔ حُسنِ باطن بھی، نسبِ عالی بھی تاجِ ختم نبوت بھی، کتاب بھی، حکمت بھی، علم بھی، شفاعت بھی، حوضِ کوثر بھی، مقام ِمحمود بھی، کثرتِ امت بھی، اعداء دین پر غلبہ بھی، کثرتِ فتوحات بھی اور بے شمار، نعمتیں اور فضیلتیں جن کا شمار ممکن نہیں۔

خدائے عزوجل نے بالیقین اپنے محبوب sym-1کو بے مثل اور تمام عیوب ونقائص سے مبرّا بنایا تھا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ sym-5سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اطول من المربوع واقصر من المشذب ...معتدل الخلق بادن متماسك .2
حضور نبی کریم sym-1۔۔۔کی قامت طویل قامت سے چھوٹی اور کوتاہ قامت سے بڑی تھی ۔۔۔آپ کی تخلیق اعتدال پر ہوئی تھی ،جسم گھٹاہواتھا۔

"معتدل الخلق " کا معنی ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

ان جمیع اعضاء وجسمه الشریفة خلق للّٰه تعالى كاملة متناسبة مع بعضھا غیر متنافرة.3
اﷲ تعالیٰ نے آپ کے تمام اعضائے شریفہ کو اس طرح کامل و متناسب پیدا فرمایا کہ ان میں نہایت موزونیت ووقار تھا۔

آپ sym-1 کا سراپا کمال درجہ حسین ومتناسب اور دل کشی ورعنائی کا حامل تھا آپ sym-1 کے اعضائے مبارکہ اس قدر مثالی مناسبت کے آئینہ دار تھے کہ انہیں دیکھ کر ایک حُسن ِمجسم پیکرِ انسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا ۔صحابہ کرام sym-7آپ کے حسین سراپا کی مدح میں ہر وقت رطب اللسان رہتے تھے، ان کی بیان کردہ روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ حُسنِ ساخت کے اعتبار سے آپ sym-1کے جسد اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی وزیبائی اپنی مثال آپ تھی۔

کسی بھی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کی شکل و صورت اور وجاہت بڑا گہرا کردار ادا کرتی ہے۔ انسان کے بدن کی ساخت اور اس کے اعضاء کا تناسب اس کے ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی مرتبے کا آئینہ دار اور ترجمان ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عبداﷲ بن سلامsym-5 نے رسول اﷲ sym-1کے رُخ انور کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا:

ان وجھه لیس بوجه كذاب.4
بلاشبہ ان کاچہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔

جو لوگ صاحب بصیرت اور صاحبِ قلبِ سلیم تھے انہیں نبی کریم sym-1کا روئے تاباں دیکھ کر یقین ہوجاتا تھا کہ حضور اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور اسی کی طرف سے یہ دینِ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے۔ اس حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے رُخِ انور دیکھنے کے بعد نہ دلیل طلب کی اور نہ ہی کسی معجزہ کا مطالبہ کیا۔بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جب لوگوں نے حضور نبی کریم sym-1کا رُخِ انور دیکھا تو بغیر کوئی دلیل طلب کئے اور بغیر کسی معجزے کی فرمائش کئے، ان کے دل میں یقین پیدا ہوگیا کہ آپ sym-1اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو دین لے کر آپ آئے ہیں وہ اﷲ کا سچا دین ہے۔

حضرت ابورمثہ تیمیsym-5 بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ حاضر ہوا۔ رسول اﷲ sym-1کے شگفتہ رو کو دیکھتے ہی سمجھ گیا اور اپنے بیٹے سے کہنے لگا:

ھذا وللّٰه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.5
اﷲ کی قسم! یہ واقعی اﷲ کے رسول sym-1ہیں۔

آپ sym-1کے حُسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ sym-1کے خنداں رُخِ انور، حَسین وجمیل قدوقامت، بے مثل خدوخال، بے نظیر چال ڈھال، باوقارو پُرکشش و جاہت اور شخصیت کا جو عکس الفاظ کے پیرایہ میں ہم تک پہنچا ہے، وہ ایک ایسے انسان کامل کا تصور دلاتا ہے جو ذہانت فطانت، صبر واستقامت، شجاعت وسخاوت، امانت ودیانت، فصاحت وبلاغت، جمال ووقار، انکسار وتواضع، اور عالی ظرفی وفرض شناسی جیسے اوصاف حمیدہ سے متصف تھا۔

کائنات میں حضور ﷺکے مثل کوئی نہیں

نبی کریم sym-1کا جسدِ مبارک ساری مخلوق سے بے مثل تھا ساری خدائی میں سے کسی کا جسم آپ sym-1کے جسم پاک جیسا نہیں، بلکہ سارے ولیوں، قطبوں، غوثوں کی روحانی لطافتوں سے حضور sym-1کا جسمِ پاک لطیف تر ہے۔

مسلمان کے لیے مدارِ ایمان، اساسِ دین، اور بنیادِ اسلام حضور نبی کریم sym-1 کی ذات و صفات سے پختہ محبت ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا:

لایومن احدكم حتى اكون احب الیه من والده وولده والناس اجمعین.6
تم میں سے کوئی اس وقت تک(کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

اور حضور sym-1کی محبت اور آپsym-1 کے عشق میں وارفتگی یہ تب پیداہوگی جب نبی کریم sym-1کے خداداد کمالات، معجزات، محامد ومحاسن اور عظمتوں پر محکم اور غیر متزلزل ایمان ہو۔ آپ sym-1کو آپ sym-1کی ذات وصفات میں بے مثل، بے مثال، یکتا، منفرد اور شان اعجازی وانفرادی سے متصف سمجھا جائے اور اگر العیاذ باﷲ آپ sym-1کی مثلیت اور برابری کا تصور ذہن میں آگیا تو نہ ہی عظمت مصطفےٰ sym-1کا عقیدہ دلوں میں محکم ہوگا اور نہ ہی آپ sym-1کی محبت اور اس کی نتیجہ میں ایمان دلوں میں برقرار رہے گا اس لیے حضور نبی کریم sym-1نے متعدد مقامات پر صحابہ کرامsym-7 کے سامنے اپنی شان یکتائی، انفرادیت اور بے مثلیت کو بیان فرمایا۔بے مثلیت کا یہ تصور قرآن نے دیا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَینَكمْ كدُعَاۗءِ بَعْضِكمْ بَعْضًا637
(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو ۔

جب ہماری دعائیں بھی حضور اقدس sym-1کی دعا کے ساتھ برابری اور مثلیت نہیں رکھتیں تو ہماری ذات العیاذ باﷲ حضور sym-1کی مثل کس طرح ہوسکتی ہے۔

ایک اور مقام پر اﷲ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

يٰنِسَاۗءَ النَّبِى لَسْتُنَّ كاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ 328
اے میرے نبی کی بیویوں! تم عام عورتوں کی مثل نہیں ہو۔

معلوم ہوا کہ جب حضور sym-1کے ساتھ نسبت و تعلق اور شرف زوجیت کی وجہ سے ازواج مطہرات بے مثل وبے مثال ہوگئیں تو محبوب کریم sym-1 کی اپنی ذات بے مثل وبے مثال کیونکر نہ ہوگی۔

شان بصارت وسماعت ومعرفت

حضرت ابوذر غفاریsym-5 بیان کرتے ہیں کہ:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انى ارى مالا ترون واسمع ما لاتسمعون اطت السماء وحق لھا ان تئط ما فیھا موضع اربع اصابع الا وملك واضع جبھته ساجدا للّٰه واللّٰه لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قلیلا و لبكیتم كثیرا.9
حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔(دلیل یہ ہے) کہ آسمانوں سے چرچرانے کی آواز آئی ہے اور حق بھی یہ ہے کہ وہ چر چرائے کیونکہ اس میں ایک چار انگل کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ اﷲ رب العزت کے حضور سجدہ ریز نہ ہو۔ خدا عزوجل کی قسم! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو ضرور کم ہنسو اور زیادہ روگے۔

اس حدیث میں حضور sym-1نے اپنی تین شانوں کی یکتائیت اور بے مثلیت کو بیان فرمایا ہے چنانچہ شانِ بصارت جس کو ان الفاظ سے بیان فرمایا:انی اری مالا ترونکہ بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔شانِ سماعت جس کو ان الفاظ سے بیان فرمایا: واسمع مالا تسمعونکہ واسمع مالا تسمعونکہ اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے اور اسی طرح شان علم و معرفت جس کو ان الفاظ سے بیان فرمایا:واللّٰه لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا ولبکیتم کثیراکہ خدا کی قسم! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ۔

اگر حضور sym-1بھی عام انسانوں کی طرح فقط قریب کی اور محسوس اشیاء کو دیکھتے یا فقط قریب کی آواز کو سماعت فرماتے یا حضور sym-1کا علم و معرفت فقط علم شہادت تک محدود ہوتا تو حضور sym-1کی اس حدیث کے مطابق صفت سماعت وبصارت اور صفت علم ومعرفت میں یکتائیت، بے مثلیت اور انفرادیت کیا ہوتی؟ اور بے مثلیت تب ثابت ہوگی جب یہ عقیدہ رکھا جائے کہ عام لوگ تو فقط قریب کی اور محسوس چیز کو دیکھتے ہیں لیکن آپ sym-1باذن اﷲ جس طرح قریب کی چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اس طرح باذن اﷲ دور کی چیز کا بھی مشاہدہ فرماتے ہیں۔ عام لوگ فقط قریب کی آواز کو سن پاتے ہیں لیکن حضور sym-1باذن اﷲ تعالیٰ جس طرح قریب کی آواز کو بآسانی سماعت فرماتے ہیں اسی طرح دور کی آواز کو بآسانی سماعت فرماتے ہیں چنانچہ حضور sym-1نے اپنے اس دعوی"اسمع ما لا تسمعون" پر دلیل ارشاد فرمائی۔ اگرچہ حضور sym-1کا ہر فرمان، واجب الاذعان، واجب القبول اور واجب التصدیق ہے خواہ حضور sym-1اپنے اس دعویٰ پر دلیل ارشاد فرمائیں یا نہ فرمائیں حضور sym-1کا فرمان سچا ہے لیکن ممکن تھا کہ کوئی آپ کے ان کمالات کو عدم یا نقص ایمان کی وجہ سے قبول کرنے میں پس و پیش کرتا تواس لیے حضور sym-1نے اپنے دعویٰ پر بطور دلیل فرمایا:

اطت السماء وحق لھا ان تئط.10
آسمانوں سے چر چرانے کی آواز آئی ہے اور حق بھی یہ ہے کہ وہ چر چرائے ۔

صحابہ کرام sym-7میں سے کسی نے اس آواز کو نہیں سنا لیکن پھر بھی اسی طرح قبول فرمایا جس طرح وہ بارگاہِ رسالت مآب sym-1میں حاضر رہ کر اکثر و بیشتر آسمانوں سے اترنے والی وحی کی آواز کو اپنی سماعتوں سے سنے بغیر قبول کرلیا کرتے تھے۔

ایک پیغمبرِ خدا جس طرح ہمہ وقت اپنے رب سے متصل رہتا ہے بالکل ایسے ہی حضورﷺہمہ وقت فرش پر رہ کر آسمانوں کے احوال پر مطلع رہتے۔11حضورsym-1نے فرش )زمین( پر تشریف فرماہوکر تمام آسمانوں کے چر چرانے کی آواز کو سماعت فرمالیا۔ حالانکہ زمین سے آسمان تک ہزاروں(Light Year) سال کی مسافت ہے تو جو محبوب sym-1زمین پر تشریف فرما ہوکر ہزاروں سال دور کی آواز کو سماعت فرماتے ہیں وہ چند ہزار میل دور مدینہ طیبہ میں تشریف فرماہوکر اپنے امتی کا صلوٰۃ وسلام بھی سماعت کرسکتے ہیں۔مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:

حضورsym-9 نہ شرعاً ہماری مثل ہیں اور نہ عقلاً ،شرعاً تو اس لیے نہیں کہ ایمان اور اعمال اور احکام اور معاملات کسی میں بھی ہم کو ان سے مماثلت اور مشابہت نہیں۔ حضور sym-9کا کلمہ ہے اشہد انی رسول اﷲ یعنی میں اﷲ کا رسول ہوں اگر ہم یہ کہیں تو کافر ہوجائیں یہ تو کلمہ میں فرق ہوا۔

نمازیں ہم پر پانچ اور حضور پر چھ فرض ہیں، تہجد بھی حضور پر فرض (قرآن) ہمارے لیے ارکانِ اسلام پانچ، حضور کے لیےصرف چار (زکوۃٰ فرض نہیں) ۔ ہم کو چار نکاح حلال آپ sym-1کو جس قدر چاہیں۔ ہماری بیوی موت کے بعد جس سے چاہے نکاح کرے، حضور sym-1کی بیویاں کسی سے نکاح نہ کرسکیں، ہماری میراث تقسیم ہو، حضور sym-1کی میراث تقسیم نہیں ہوتی ۔۔۔

خود فرماتے ہیں صوم وصال کے موقعہ پر تم میں مجھ جیسا کون ہے، مجھے تو رب کھلاتا پلاتا ہے 12بیٹھ کر نفل پڑھنے کے لیے فرماتے ہیں لیکن ہم تم جیسے نہیں13 غرضیکہ ان تمام امور سے معلوم ہوا کہ شرعاً حضور ہم جیسے نہیں۔ اسی طرح عقلاً بھی حضور sym-1ہم جیسے نہیں، کیونکہ آپ sym-1کا ایمان دیکھا ہوا تھا، خدا کو دیکھا، جنت ودوزخ کو دیکھا ، فرشتوں کو دیکھا اور آپ sym-1کو معراج ہوئی۔ مولوی عبد الحئی صاحب نے اپنے فتاویٰ عبد الحئی میں ایک حدیث نقل کی فرماتے ہیں کہ حضور sym-9نے فرمایا کہ جب ہم اپنی والدہ ماجدہ کے شکم پاک میں تھے تب قلم الہٰی چلنے کی آواز سنا کرتے تھے کہئے کون ایسا ہوسکتا ہے؟ حضور عارف باﷲ پیدا ہوئے، ہم لوگ پیدا ہوکر علم سیکھ کر بھی اس درجہ پر نہیں پہنچتے۔ پھر مماثلت اور مشابہت کیسی؟

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب sym-1کو صورت وسیرت، حسن وجمال، فضل وکمال ہر اعتبار سے بے مثل وبے مثال بنایا ہے ۔

امام مسلمsym-4روایت کرتے ہیں:

عن عبداللّٰه بن عمر رضى اللّٰه عنه قال: حدثت ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: صلوة الرجل قاعداً نصف الصلوة. قال: فاتیته فوجدته یصلى جالسا فوضعت یدى على راسه. فقال: مالك یا عبداللّٰه بن عمر؟ وقلت: حدثت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انك قلت: صلوة الرجل قاعداً على نصف الصلوة. وانت تصلى قاعداً. قال: اجل ولكنى لست كاحد منكم.14
حضرت عبداﷲ بن عمر بیان sym-8کرتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سنی تھی کہ رسول اﷲ sym-1نے فرمایا ہے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا آدھا اجر ہوتا ہے ایک دن میں حضور sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ sym-1کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا میں نے اپنا ہاتھ آپsym-1کے سر اقدس پر رکھا آپ sym-1نے فرمایا: اے عبداﷲ بن عمر کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ! مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ sym-1نے فرمایا ہے کہ: بیٹھ کر نماز پڑھنے کا آدھا اجر ہوتا ہے، حالانکہ آپsym-1 خود بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ sym-1نے فرمایا: ہاں لیکن میں تم سے کسی ایک کی مثل بھی نہیں ہوں۔

امام بخاریsym-4روایت کرتے ہیں:

عن عائشة قالت: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم امرھم من الاعمال بما یطیقون. قالوا: انا لسنا كھیئتك یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ...الخ.15
حضرت عائشہ صدیقہ sym-6بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲsym-1ان اعمال کا حکم ارشاد فرماتے جن کا ادا کرنا لوگوں کی طاقت یا بس میں ہوا کرتا ۔صحابہ نے عرض کیا : یارسول اﷲsym-1ہم آپ کی طرح نہیں ہیں۔۔۔ الخ۔

امام بخاریsym-4روایت کرتے ہیں:

عن انس عن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال :لاتواصلو. قالوا: انك تواصل. قال: لست كاحد منكم. قال: انى اطعم واسقى او انى ابیت اطعم واسقى.16
حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1نے فرمایا وصلی روزے نہ رکھو۔ صحابہ کرام sym-6نے عرض کیا حضور آپ وصلی روزہ رکھتے ہیں آپ sym-1نے فرمایا میں تم سے کسی ایک کی مثل بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا میں کھلایا جاتا ہوں اور پلایا جاتا ہوں یا فرمایا بے شک میں رات گزارتا ہوں کھلایا جاتا ہوں اور پلایا جاتا ہوں۔

اسی روایت کی مثل حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8کی روایت میں ہے:

قال انى لست مثلكم.17
فرمایا بے شک میں تمہاری مثل نہیں ہوں۔

اسی طرح ابوسعیدخدری sym-5کی روایت میں ہے۔

انى لست كھئیتكم.18
فرمایا بے شک میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔

اسی طرح یہ الفاظ اُم المومنین عائشہ صدیقہ sym-6سے بھی مروی ہے۔19

نیز اسی طرح حضرت ابوہریرہ sym-5کی روایت میں ہے:

قال وایكم مثلى.20
آپ sym-1نے فرمایا تم میں سے کون میری مثل ہے؟

شمائل شریفہ کے ہر باب سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کائنات میں آپ sym-1 کا کوئی نظیر ومثیل نہیں، سراپائے اقدس سے ہر مبارک حصہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ sym-1 انسان کامل اور افضل البشر ہیں آپsym-1کی ذات مقدسہ سے انسانیت کو عروج وکمال نصیب ہوا ہے۔

حسن بے مثال کا یہ عالم تھا کہ زبانِ صحابہ کو عالم حیرت میں یہ کہنا پڑا:

لم ارقبله ولا بعده مثله.21
ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعد۔

امام الضحاک الشیبانی sym-4روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6 فرماتی ہیں:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: قال لى جبریل علیه السلام: قلبت الأرض مشارقھا ومغاربھا فلم أجد رجلا أفضل من محمد علیه الصلاة والسلام، وقلبت الأرض مشارقھا ومغاربھا فلم أجد بنى أب أفضل من بنى ھاشم.22
حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا مجھے جبریل sym-9 نے خبردی کہ میں نے مشرق و مغرب کے کونے کونے چھان مارے ہیں مگر میں نے کسی انسان کو حضرت محمد رسول اﷲ sym-1سے بڑھ کر فضیلت وبزرگی والا نہیں پایا اور میں نے مشرق و مغرب کے کونے کونے چھان مارے ہیں مگر میں نے کسی خاندان کو بنی ہاشم سے بڑھ کر فضیلت وبزرگی والا نہیں پایا۔

حضرات صحابہ کرام sym-7جن کی محبت ومعرفت فدائیت وفنائیت کی دنیائے محبت وعشق میں کوئی نظیر ومثال نہیں ملتی،انہوں نے آپکے جمال مبارک اور ظاہری کمالات کا نہایت ہی فصیح وبلیغ ادب عربی سے لبریز ،لغات کے مشکل ترین کلمات سے پُر پیرایہ میں جو آپ sym-1کا نقشہ بیان کیا ہے، وہ قابل تعریف اور امت پر انکا احسان عظیم ہے۔

نبی کریم sym-1کی سیرت بالکل محفوظ ہے جو زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے۔ صحابہ کرام sym-7نے اس قدر احتیاط اور احسن پیرائے میں آپ sym-1کی ہر ہر ادا کو اپنے ذہنوں میں نقش کیا اوردلوں میں اتارا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

سیّدنا علیsym-5 نے سواری پر سوار ہونے کے لیے اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو (سفر کی) دعا پڑھی:

ثم ضحك فقیل یا امیر المومنین من اى شىء ضحكت؟ قال: رایت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فعل كما فعلت.23
پھر آپsym-5 ہنسے۔ آپ سے کہا گیا۔ اے امیر المومنین! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ تو حضرت علی sym-5 نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ sym-1کو دیکھا تھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسے میں نے کیا ہے اور آپ ہنسے (بھی) تھے۔

امام ابن عبدالبر مالکیsym-4روایت کرتے ہیں:

عن نافع قال: رایت ابن عمر اذا ذھب الى قبور الشھداء على ناقتة ردھا ھكذا وھكذاز فقیل له فى ذلك فقال: انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذه الطریق على ناقته فلعل خفى یقع على خفه وھذا غایة فى الاقتداء والتاسى برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.24
نافع بیان کرتے ہیں کہ: میں نے ابن عمرsym-6 کو دیکھا جب اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر شہداء کی قبروں کی طرف جاتے تو اونٹنی کو عجب طرح سے واپس لاتے آپ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :بے شک میں نے رسو ل اﷲ ﷺکو اس راستہ میں اپنی اونٹنی پر دیکھا تو شاید میرا موزہ آپ کے موزہ سے لگ جاتا جس کے سبب آپ اسی طرح واپس آئے میں اسی کی یاد میں اس طرح آتا ہوں۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کا یہ عمل رسول اﷲ sym-1کی کمال اقتداء اور غایت اتباع میں تھا۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں کتب احادیث میں موجود ہیں جن سے مذکورہ باتیں بدرجہ اتم واضح و ثابت ہوجاتی ہیں۔

ہر عیب سے پاک

محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے، اس کے وُجود سے بڑے سے بڑا دہریہ بھی انکار نہیں کرسکتا، یہ جذبۂ لطیف جن لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے وہ اپنے محبوب کے عیوب ونقائص پر نظر نہیں رکھتے، اس میں پایا جانے والا عیب انہیں دکھائی ہی نہیں دیتا، پھر اگر وہ محبوب ایسا ہو جس پر انسان ایمان لاچکا ہو، جسے خالقِ کائنات جل شانہ نے ہر عیب اور نقص سے منزہ پیدا کیا ہو اس میں کسی عیب کے دیکھنے یا تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حضرت ابودرداءsym-5 فرماتے ہیں کہ:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:حبك الشى یعمى ویصم.25
حضور نبی کریم sym-1نے ارشاد فرمایا (کہ انسان کو جب کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو) وہ محبت اس کو (محبوب کا عیب دیکھنے سے) اندھا اور (محبوب کا عیب سننے سے) بہرہ کردیتی ہے۔ 26

حضرت حسان بن ثابت sym-5نے حضور نبی کریم sym-1کے کمال حسن کو بڑے ہی دلپذیر انداز میں بیان کیا ہے آپsym-5 فرماتے ہیں:

واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبراء من كل عیب
كانک قد خلقت کما تشاء.27
آپ sym-1سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی عورتوں نے آپ sym-1سے جمیل تر کو جنم دیا ہے۔ آپ sym-1کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دکھائی دیتا ہے) جیسے آپ sym-1کے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ sym-1کی صورت بنائی ہے۔

ثابت ہوا کہ حضور sym-1بے عیب تھے اور جسے بے عیب میں عیب نظر آئے اس کا دعویٰ محبت کیوں کر درست ہوگا۔

امام ماوردی شافعی sym-4فرماتے ہیں:

لقد جھد كل منافق ومعاند وكل زندیق وملحد ان یزرى علیه فى قول او فعل او یظفر بھفوة فى جد او ھزل فلم یھد الیه سبیلا.28
ہر منافق ومعاند اور ہر زندیق وملحد نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ آپ sym-1 کے کسی قول و فعل میں کوئی نقص نکال سکے یا شعوری یا غیر شعوری لغزش تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکے مگر اسے اس طرف کوئی راستہ نہ ملا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان حضور پُر نور شافع یوم النشور sym-1 کے سراپائے مقدس کو لفظی جامہ پہنا کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ الفاظ معذور ہیں، کائنات اپنی وسعتوں کے ساتھ محدود ہے اور آپ sym-1 کے فضائل وبرکات اور خصائص وکمالات غیر محدود ہیں، قلم اور زبان حضور sym-1 کےحقیقی خدو خال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ ادارے نے اپنی طاقت ووسعت کے لحاظ سے آپ sym-1 کے سراپائے مقدس کا نقشہ اپنے شکستہ الفاظ کے جامہ میں پیش کیا ہے۔ مقصود اظہار علم وفضل نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف بارگاہ مصطفوی sym-1 کے حُسن و جمال کا تذکرہ اور فضل وفضال سے کسب کرکے ہدیہ عقیدت کی پیش کش ہے۔

اس موضوع پر محققین سیر نے بکثرت تصانیف پیش کی ہیں اور مجموعی حیثیت سے آپ کی صورت و سیرت کا کوئی گوشہ باقی نہیں رہا جو احاطہ تحریر میں نہ آچکا ہو ۔ ان ہی کتب سے آنے والے صفحات پر احادیث مبارکہ اور اقوالِ ائمہ تحریر کیے جاتے ہیں جس سے ہر ذی شعور انسان اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باعثِ ایجاد عالم sym-1 کے جسمِ اطہر کی کیا شان ہے۔


  • 1  القراٰن ،سورۃ الکوثر108: 1
  • 2  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث :1362، ج -3 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص :24
  • 3  الشیخ عبداﷲ سراج الدین الشامی ، محمد رسول اﷲ ﷺ، مطبوعۃ: دار الفلاح، حلب ، السوریۃ، ص :218
  • 4  ابوبکر عبداﷲ بن محمد بن ابی شیبۃ ، مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث :25740 ، ج -5 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ، الریاض ، السعودیۃ، 1409ھ، ص :248
  • 5  احمد بن حنبل الشیبانی،مسند احمد، حدیث :7118 ، ج -11 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :690
  • 6  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث :15، ج-1 ، مطبوعۃ: دمشق، شام، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:12
  • 7  القراٰن، سورۃالنور24: 63
  • 8  القرآن، الاحزاب33:32
  • 9  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی ، حدیث: 2312 ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:134
  • 10  ایضاً
  • 11  آج کا انسان جیسے فضاء میں سیٹلائٹ چھوڑ کر چاند کے احوال پر مطلع رہتا ہے، ایک ملک کا باسی کیمرہ موبائل فون کے ذریعے دوسرے ملک کے دور دراز علاقے کے حالات سے باخبر رہتا ہے باالکل اسی طرح حضور ﷺ نے پہلی بار انسانیت کو دوری اور فاصلوں کے باوجود قربت کا تصور عطاکیا۔ (ادارہ)
  • 12  محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:7299، ج-9، مطبوعۃ:دار طوق النجاۃ، القاہرۃ، مصر، 1422ھ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:97
  • 13  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 735 ، ج-1 ، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :507
  • 14  ایضاً
  • 15  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث :20 ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، ص :16
  • 16  ایضًا، ص:693
  • 17  ایضًا
  • 18  ایضًا
  • 19  ایضًا
  • 20  ایضًا، ص : 694
  • 21  احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی ، مسند احمد ، حدیث :746 ، ج -2 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :143-144
  • 22  عمرو بن عاصم الضحاک الشیبانی، السنۃ لابن ابی عاصم، حدیث: 1494 ، ج -2 ، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان، 1400ھ، ص:632
  • 23  سلیمان بن الاشعث، سنن ابی داؤد، حدیث : 2602 ، ج -3 ، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ صیدا، بیروت، لبنان ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :34
  • 24  یوسف بن عبداﷲ بن محمد ابن عبدالبر قرطبی،التمہید لابن عبد البر، ج-5 ، مطبوعۃ: وزارۃ عموم الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ، مغرب، ص: 119
  • 25  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 21694 ، ج -36 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 ء، ص: 24
  • 26  خلیفہ نے لیلیٰ سے پوچھا تو وہی ہے ؟ جس کی وجہ سے قیس مجنوں اور دیوانہ بنا پھرتا ہے۔ تو دوسرے حسینوں سے بڑھ کر تو نہیں ہے اس نے جواب دیا چونکہ تو مجنون نہیں ہے۔ اگر تیرے پاس مجنوں کی آنکھ ہوتی تو دونوں جہان تیری نظر میں بے قدر ہوتے۔ تو ہوش میں ہے اور مجنون بے ہوش ہے، عشق کی راہ میں تیرے جیسی بیداری بری ہے، جوبیدار ہے وہ زیادہ غفلت میں ہے، دنیا کی بیداری نیند سے بدتر ہے، غفلت میں پھنسے ہوئے لوگوں کا بیدار ہوجانا بہتر ہے، جب ہماری جان خدا کے معاملے میں بیدار نہ ہو تو ہماری بیداری قید خانہ کی بیداری کی طرح ہے۔۔۔الخ۔(محمد عالم امیری، انوار العلوم اردو نثر مثنوی مولانا روم دفتر اول مطبوعہ: خدیجہ پلی کیشنز ابدالی چوک ، اسلام پورہ ، لاہور ، پاکستان ،2004ء، ص :15)
  • 27  حسان بن ثابت ،دیوان حسان بن ثابت، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994ء،ص :21
  • 28  ابو الحسن علی بن محمد الماوردی، اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دار مکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1409ھ، ص:232

Powered by Netsol Online