encyclopedia

شق صدر

Published on: 08-Nov-2024
LanguagesEnglish

مکہ مکرمہ سے واپسی پر دو یا تین مہینے کے بعد شق صدر کا واقعہ پیش آیا 1 جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سینہ مبارک کھولا گیا تھا۔ اس واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے حضرت حلیمہ Radi Allah Anha نے خواب میں اس واقعہ کو ملاحظہ فرمایا تھا لیکن انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ایسا حقیقت میں ہوا ہے۔ جب آپ Radi Allah Anha نیند سے بیدار ہوئیں تو اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کی والدہ کے حوالے کردینا چاہیے اس سے پہلے کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچےلیکن آپ Radi Allah Anha کے شوہر نے آپ Radi Allah Anha کو ایسا کرنے سے روک دیا۔اس دن حضرت حلیمہ Radi Allah Anha نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دوسرے بچوں کے ساتھ چراگاہ جانے سے روکا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے ساتھ جانے کے لیے زور دیا تاکہ مویشیوں کو گھاس چرا سکیں اور شق صدر کا واقعہ بھی ہوجائے۔ 2

جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی رضاعی بھائی عبد اللہ ابن حارث کے ساتھ مویشیوں کو چرا رہے تھے 3 تو رئیس الملائکہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam ظاہر ہوئے 4 اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قریب تشریف لائے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی محبت کی گرفت میں محفوظ فرمالیا ، اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زمین پر لٹایا، سینۂ مبارک کھول کر قلب اطہر نکالا اور اس میں سے خون کا ایک لوتھڑ نکال کر کہا کہ یہ شیطان کا حصہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب اطہر کوسونے کے برتن میں آب زم زم سے دھویا اور سینہ مبارک میں اسی مقام پر دوبارہ نصب کردیا۔ 56

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ہونے والے اس عمل کو بچے بھی دیکھ رہے تھے لیکن ممکنہ طور پر وہ اپنے حواس میں نہ تھے، جب اپنے حواسوں میں واپس آئے تو عبدالله ابن حارث دوسرے بچوں كے ساتھ بھاگتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے پاس پہنچے اور کہا کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قتل کردیا گیا ہے۔ خوف و حیرت کے عالم میں گھر کے تمام افراد اس مقام کی جانب بھاگے، وہاں پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بالکل صحیح و سالم پایا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا چہرۂ مبارک زردی مائل ہوچکا تھا اور آس پاس کوئی شخص بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha نے فوراً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گلے لگالیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رضاعی والد نے اس واقعہ کے متعلق پوچھا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ ان کا سینہ کھولا گیا اور اس میں سے کچھ نکال کر کہیں دور گرادیا گیا ہے۔ اس واقعہ کو سننے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha اور ان کے شوہر مزید فکر مند ہوگئے اور فوراً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گھر لے آئے۔7

بعض سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں یہ مکمل واقعہ اسی طرح لکھا ہے جس طرح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے بیان فرمایا تھا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے اصحاب Radi Allah Anhum کے سوالات کے جوابات میں بذات خود یہ پورا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ 8 یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ قبیلۂ بنو عامر کے ایک نیک بزرگ نے بیان کیا ہے۔ 9 ابتدائی مأخذات جن میں ابن اسحاق 10 اور ابن ہشام 11 نے اس واقعہ کے متعلق تفصیل سے کلام کیا ہے جبکہ امام طبری 12 نے اس واقعہ کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زبانی تفصیل سے لکھا ہے۔ امام طبری نے واقعہ شق صدر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

مجھے دودھ پلوانے کے لیے قبیلۂ بنو لیث ابن بکر کے قبیلے میں بھیجا گیا۔ ایک دن میں تمام گھر والوں سے دور وادی کے نچلے مقام پر اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ تھا، وہاں ہم کھیل رہے تھے۔ اچانک وہاں تین لوگ ظاہر ہوئے ، ان کے ہاتھ میں سونے کا پیالہ تھا جس میں برف بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے میرے دوستوں سے الگ کیا۔ میرے تمام دوست وہاں سے بھاگے اور وادی کے آخر تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد وہ سب واپس آئے اور ان اشخاص کے پاس پہنچ کر کہا: آپ لوگوں کا اس بچہ سے کیا معاملہ ہے؟ یہ ہمارے خاندان کا نہیں ہے لیکن یہ قبیلۂ قریش کے سردار کا بیٹا ہے۔ یہ ایک یتیم بچہ ہے اور یہاں اسے رضاعت کے لیے لایا گیا ہے۔ آپ ایک یتیم بچہ کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ آپ ہم میں سے کسی کو چن لیں اور اس کو چھوڑ دیں۔ جب بچوں نے ان لوگوں سے کوئی جواب نہیں پایا تو وہ فوراً گھر کی جانب روتے ہوئے دوڑے اور اپنے لوگوں کو پکارنے لگے۔ ان میں سے ایک شخص نے مجھےاچھے انداز سے زمین پر لٹایا اور میری پسلیوں سے پیٹ کے نچلے حصہ تک سینہ چاک کیا گیا، میں تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھا۔ مجھے کسی چیز کے چھونے کا بالکل احساس نہیں ہورہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے پیٹ سے نرم داخلی عضو نکا لا اور اسے برف سے دھویا۔ دھوتے ہوئے وہ بہت احتیاط سے کام لے رہے تھےاس کے بعد اسے وہیں دوبارہ نصب کردیا۔ پھر دوسرا شخص اٹھا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا، ایک طرف ہوجاؤ، اور اس نے پہلے شخص کو میرے سامنے سے ایک جانب کردیا اور میرے سینے میں اپنا ہاتھ داخل کرکے دل کو باہر نکالا، میں یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے میرے دل کو کاٹا اور ایک کالا حصہ نکال کر دور گرادیا۔ اس نے اپنے سیدھے ہاتھ میں کچھ پکڑاہوا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک گول مہرہے جس سے تیز روشنی بر آمد ہورہی تھی، اتنی تیز کہ جو بھی اس کی جانب دیکھتا اس کی کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ اس نے مہر سے میرا سینہ مہر بند کردیا یہاں تک کہ میرا سینہ روشنی سے بھر گیا۔ وہ نبوت اور عقل و دانش کی روشنی تھی۔ اس کے بعد اس نے میرا دل جگہ پر لگا دیا۔ اب مجھے اپنے سینے میں اس مہر کی ٹھنڈک محسوس ہورہی تھی اور یہ کافی عرصے تک رہی۔ اس کے بعد تیسرے شخص نے اپنےساتھی سے کہا کہ ایک جانب ہوجاؤ اور اپنا ہاتھ میرے جسم کے کٹے ہوئے حصہ پرپھیراجس سے کٹنے کا نشان اللہ کے حکم سے بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ تھاما اور آرام سے مجھے کھڑاکیا اور پہلے شخص سے کہنے لگاجس نے میرا سینہ چاک کیا تھا، کہ ان کا وزن ان کی امت کے 10 آدمیوں سے کرو۔ انہوں نے میرا وزن کیا ، تو میرا وزن زیادہ ہوا، اس کے بعد انہوں نے میرا وزن 100 آدمیوں سے کیا تب بھی میرا وزن زیادہ نکلا، اس کے بعد 1000 آدمیوں سے کیا پھر بھی میرا وزن زیادہ ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ ان کو اللہ کے حوالے چھوڑ دو، اگر ہم ان کا وزن ان کی پوری امت سے بھی کریں گے تب بھی یہ سب سے سبقت لے جائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور میری آنکھوں کے درمیان میرے ماتھے کو چوما۔ پھر انہوں نے کہا " اے میرے پیارے! آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر صرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی اچھائی کی منفعت کو جاننے والے ہیں جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذریعے مقدر ٹھہر چکی ہے ، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خوش ہونا چاہیے اور پرسکون ہوجانا چاہیے۔ 13

ابن سعد Rehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے ساتھ قریباً ایک سال رہائیش پذیر رہے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہنے لگی تھیں اور انہیں گھر سے دور کہیں بھی جانے نہیں دیتی تھیں۔ 14 ابن اسحاق Rehmatullah Alaih اور ابن ہشام Rehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں:جب شق صدرکا واقعہ پیش آیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک 2 برس اور کچھ ماہ تھی۔ 1516 اس کے برعکس ابن سعد ﷫کہتے ہیں کہ جب شق صدر کا واقعہ رونما ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک 4 برس تھی۔17 امام زرقانی Rehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ علماء اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ واقعۂ شق صدر کے وقت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک 4 برس تھی۔ 18 بعد ازاں سینۂ مبارک چاک کرنے کا نشان واضح ہوتا چلا گیا اور ایک پتلی لکیر کی صورت میں نظر آنے لگا تھا۔ 19 حضرت انس Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینۂ مبارک چاک کرنے کا نشان دیکھا ہے۔ 2021 موجودہ دور کے کثیر علماء اس واقعہ کو انسانی تاریخ کا سب سے پہلا قلبی جراہی کا عمل قرار دیتے ہیں۔

شق صدر کے متعلق تاریخ دانوں کا مؤقف

بعض تاریخ دان یہ سمجھتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ واقعہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ محض ایک خیالی یا روحانی عمل تھا۔ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی زندگی ایک عام انسان کی طرح ہی بسر کی ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زندگی مبارک ہر قسم کے خلاف عقل اور غیر فطری واقعات سے پاک تھی کیونکہ ایسے واقعات کا ہونا ناممکن ہے۔ بہرحال یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ تھا جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ہے۔ محض اس بات پر اس واقعہ کو نہ ماننا کہ واقعہ شق صدر اس دور کے عام حالات میں ناممکن تھا،یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایسی رائے رکھنےوالے افراد قدرتی قوانین کے خلاف ہیں کیونکہ ہر خاص و عام جانتاہے کہ اللہ کے لیے کوئی امر مشکل نہیں۔ اللہ قادر مطلق ہے، وہ ہر شئے پر قادر ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتاہے۔ اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ واقعۂ شق صدر صحیح احادیث سے روایت کیا گیا ہے، اسے محض کمزور دلائل اور ناقص قیاس آرائیوں سے رد نہیں کیا جاسکتاہے۔ 2223

مزید یہ کہ حضرت انس Radi Allah Anho نے شق صدر کا نشان خو د اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا ہے۔ 24 اس کے علاوہ اس وقت بچے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بظاہر بچانے کے لیے گھر والوں کے پاس اطلاع دینے بھی پہنچے تھےکیونکہ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اشخاص حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جان لینے کے لیے آئے ہیں اور حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے بے حد فکر مندی 25 اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ شق صدر کا واقعہ بالکل حقیقت ہے۔

خواب میں واقعۂ شق صدر

اس کے علاوہ ابن اسحاق Rehmatullah Alaih نے شق صدر کا ایک اور واقعہ بیان کیا ہے جس میں دو فرشتے سفید پرندوں کی صورت میں نازل ہوئے اور صرف حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب اطہر کو اپنی چونچ سے پاک کیا۔ 26 کثیر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ خواب میں رونما ہوا تھا۔ خواب میں رونما ہونے والے اس واقعہ کی مزید تفصیل ابن کثیر Rehmatullah Alaih نے بیان فرمائی کہ ایک دن حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کے ایک بیٹے کے ساتھ مویشیوں کو لے کر قریبی چراگاہ تشریف لے گئے۔ اس دن وہ لوگ کوئی غذا اپنے ساتھ نہیں لے گئے تھے، حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رضاعی بھائی سے کہا کہ آپ گھر جائیں اور کچھ کھانے کو لے آئیں۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رضاعی بھائی فوراً گھر گئے جبکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چراگاہ میں مویشیوں کے ساتھ ہی رہے۔ اس کے بعد عقاب کی مانند دو پرندے آئے اور ایک پرندے نے دوسرے سے کہا: کیا یہ وہی ہیں؟ دوسرے پرندے نے اثبات میں جواب دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں پرندے اڑتے ہوئے نیچے آئے ، حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تھامااور انہیں ان کی پیٹھ کے بل لٹا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینۂ مبارک چاک کرکے قلب مبارک نکالا، اسے کاٹا اور خون کے دو سیاہ جمے ہوئے لختے نکال لیے۔ ان میں سے ایک پرندے نے اپنے ساتھی سے ٹھنڈا پانی لانے کو کہا جس سے قلب کے اندرونی حصہ کو دھویاگیا۔ پہلے پرندے نے ایک بار پھر دو سرے پرندے سے ٹھندا پانی طلب کیا جس سے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب مبارک دھویا گیا۔ اس کے بعد پرندے نے اپنے ساتھی سے کہا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو السکینہ عطا فرمادیجیے۔ انہوں نے سکینہ کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دل پر چھڑکا۔ اس کے بعد ایک پرندے سے دوسرے سے کہا کہ سینے کو سی دے۔ اس نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میرے دل پر نبوت کی مہر لگائی اور میرا سینہ سی دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے ترازو میں رکھا اور دوسرے پلڑے میں 1000 افراد رکھے۔ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی نگاہ مبارک اٹھائی تو دیکھا کہ ان کی امت کے 1000 افراد اوپر تک ہیں ، انہیں ایسا لگا کہ ان میں سے کچھ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر گر جائیں گے۔ اس کے بعد فرشتے نے کہا کہ اگر پوری امت کابھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے وزن کرایا جائے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سب سے سبقت لے جائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے پیٹھ کی جانب کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگائی اور دونوں پرندے واپس چلے گئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بہت زیادہ پریشانی محسوس فرمارہے تھے اور بھاگتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ Radi Allah Anha کی جانب گئے اور انہیں تمام واقعہ سنادیا۔ 27 بعض افراد کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حقیقت میں رونما ہوا تھا لیکن مستند علماء یہی فرماتے ہیں کہ واقعہ خواب میں وقوع پذیر ہوا تھا۔


  • 1  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 2  مغلطائيي بن اليج البكجري، الإشارة إلى سيرة المصطفى وتاريخ من بعده من الخلفا، ج-1، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، شام، 1996م، ص: 415
  • 3  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 4  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 83-84
  • 5  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 51
  • 6  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:83-84
  • 7  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 8  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 51
  • 9  محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 161
  • 10  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 51
  • 11  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1978م، ص: 166-167
  • 12  محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 161-162
  • 13  محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 161-162
  • 14  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 112
  • 15  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 16  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1978م، ص: 164
  • 17  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 112
  • 18  محمد ابن عبدالباقی ابن یوسف الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب الدنیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 282
  • 19  محمد ابن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 162-163
  • 20  ابو عبداللہ احمد ابن محمد ابن حنبل، مسند الامام احمد ابن حنبل، ج-19، حدیث: 12506، مطبوعۃ: مؤسسہ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:498
  • 21  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:83-84
  • 22  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-2 مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 65
  • 23  محمد ابن عبدالباقی ابن یوسف الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب الدنیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 282
  • 24  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 413، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:83-84
  • 25  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 26  محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 50
  • 27  ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 275-276

Powered by Netsol Online