encyclopedia

تحنث

Published on: 14-Sep-2024
image
حضور ﷺ کی عمر مبارک32/33غار کا نامحراپہاڑ کا نامجبل النورمقاممکہ مکرمہ
LanguagesالعربيةEnglishGerman

تحنث توجہ اور انہماک کے ساتھ عبادت، ریاضت اور غور و فکر کرنے کا نام ہے۔1 علم السیرہ میں یہ لفظ ان خاص لمحات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam غار حرا میں مختلف مواقع پر کئی کئی دنوں کے لیے تشریف فرما ہوجاتے اور اپنے لمحات مراقبہ، غور و فکر اور ذات باری تعالی کی طرف توجہ و انہماک کے ساتھ ذکر و فکر میں گزارا کرتے تھے۔ 2 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سال میں ایک مہینہ غار حراء میں خلوت نشینی فرماتے۔ 3 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تنہائی کی اس عبادت میں اکثر ایک عجیب قسم کی روشنی یا نور کا مشاہدہ فرمایا کرتے تھے 4 جس کے مشاہدے سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طبیعت میں سکون اور سرور کی کیفیت پیدا ہو جایا کرتی تھی۔

غار حرا

اعلان نبوت سے قبل ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نزول وحی کا مشاہدہ خوابوں وغیرہ کی صورت میں کرنا شروع کر دیا تھا۔ 5 ان خوابوں کا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر فوری اثر یہ ہوا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تنہائی اور یکسوئی میں زیادہ مشغول رہنے لگے اور خاص کر ماہ رمضان المبار ک کے دوران غار حرا میں عام لوگوں سے علیحدگی اور اعتکاف کی صورت میں انہیں روحانی کیفیات ولذات سے سرشاری کا احساس ہونے لگا۔ غارِ حرا جبل نور پر واقع مکۃ المکرمہ سے محض دو کلو میٹر کے فاصلہ پر وہ جائے خلوت تھی جس کا طول 4 گز اور چوڑائی 1.75 گز ہے۔ 6 آپ ﷺ نے اپنے لیے خلوت نشینی کے طور پر غار حرا کا انتخاب فرمایا جہاں وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی ضروری اشیاء لے جاکرطویل دورانیہ کےلیے قیام فرمایا کرتے تھے تاکہ اس دوران وہ توجہ اور انہماک سے اللہ کی عبادت کرسکیں۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے اہل ِخانہ کے پاس واپس تشریف لے آیا کرتے لیکن اکثر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی واپسی صرف اس غرض سے ہوا کرتی کہ آپ اپنے گھر تشریف لاکر غار حرا میں مزید قیام کےلیے ضروری سامانِ اکل وشرب اپنے ساتھ لے جائیں۔ 7 جیسے جیسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک چالیس سال کے قریب ہوتی گئی ویسے ویسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رجحان خلوت اور گوشہ نشینی کی طرف مزید بڑھتا چلا گیا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب اطہر کا لوگوں کی زندگی کی عمومی ہنگامہ خیزی اور دنیاوی مفادات سے غیر متعلق ہونا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا روحانی تعلق ایک غیر مرئی روحانی قوت وطاقت کے سرچشمہ سے تھا جسے بجا طور پر رب العالمین کہا جاتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا تعلق نہایت مضبوط طریقہ پر قائم تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زندگی کے یہ قیمتی لمحا ت عنقریب قرب ووصالِ باری تعالی کے نہ ختم ہونے والے ابدی تعلق سے سرشار ہونے والے تھے۔ 8 حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تنہائی میں غور وفکر اور استغراق پر مبنی کم وبیش سات برس اسی طرح گزارے لیکن آخری چھ مہینوں میں آپ ﷺ مسلسل سچے خوابوں کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اور دوسرے حقائق پر کثرت کے ساتھ مطلع ہوتے چلے گئے۔ 9

روحانی تجربات

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب غار حرا تشریف لےجاتے تو اکثر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک آواز سنائی دیا کرتی تھی:

السلام علیك یارسول اللّٰه. 10
اے اللہ کے رسول( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) آپ پر سلامتی ہو۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب دائیں بائیں گھوم کر اس آواز کے منبع کے بارے میں جاننے کی کوشش فرماتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا ۔یہ آواز قریب موجود کسی درخت یا پتھر سے آیا کرتی تھی۔ عبادات اور مراقبہ میں مشغولیت کے کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو غار میں کسی کے موجود ہونے کا احساس ہونے لگا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کبھی روشنی کا مشاہدہ فرمایا کرتے اور کبھی کوئی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اسم مبارک سے پکار رہا ہوتا تھا۔ یہ بات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خدیجہ کو ان الفاظ کے ساتھ بذات خود بتائی:

يا خديجة إني أرى ضوءا وأسمع صوتا. 11
اے خدیجہ Radi Allah Anha! میں (غار حرا میں) روشنی دیکھتا ہوں اور وہاں پر الہامی آواز یں سنتا ہوں۔

حضرت خدیجہ Radi Allah Anhaنے ان واقعات کو اپنے ایک عزیز ورقہ بن نوفل کو بتلایا 12 جو خود سابقہ کتب مقدسہ کے جید عالم اور ایک خدا پر یقین رکھنے والے دین حنیف کے پیروکار تھے ۔ 13 ورقہ بن نوفل نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ اس آواز کو بغور سننے کی کوشش فرمائیں تاکہ ان پر حقیقت منکشف ہوسکے۔ 14 ایک دوسری روایت کے مطابق اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

فلما خلا ناداه يا محمد قل: بسم اللّٰه الرحمن الرحيم الحمد للّٰه رب العالمين. حتى بلغ. ولا الضالين قل لا إله إلا اللّٰه. 15
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب ان دونوں سے الگ ہوئے تو )دوبارہ خلوت نشینی کی حالت میں) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو فرشتہ نے آواز دی: اے محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)! آپ کہیں کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے، اور سورہ فاتحہ ولا الضالین تک پڑھائی ، (اس کے بعد اس نے کہا کہ) پڑھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

ورقہ بن نوفل نے جب مذکورہ بالا پوری بات سنی تو فرمایا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آنے والا فرشتہ وہی ہے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے قبل حضرت موسی Alaihis Salam کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا 16 یعنی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اسی تسلسل کے ساتھ واقعات آشکارہ ہوتے رہے یہاں تک کہ چالیس برس کی عمر مبارک کے وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر باقاعدہ پہلی وحی کا نزول ہوا ۔ 17


  • 1  محمد ابن محمد ابن عبدالرزاق الحسینی، تاج العروس من جواهر القاموس، ج-5، مطبوعۃ: دار الهداية، (بدون العنوان)، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 225
  • 2  حمزہ محمد قاسم، منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة دار البيان، دمشق، السوریۃ، 1990م، ص: 35
  • 3  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 164
  • 4  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:153
  • 5  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 135
  • 6  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 86
  • 7  حمزہ محمد قاسم، منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة دار البيان، دمشق، السوریۃ، 1990م، ص: 35
  • 8  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 86
  • 9  حمزہ محمد قاسم، منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة دار البيان، دمشق، السوریۃ، 1990م، ص: 34
  • 10  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 228
  • 11  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:153
  • 12  بوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 404
  • 13  ایضاً ، ص: 155
  • 14  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 234
  • 15  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 158
  • 16  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4953، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 886- 887
  • 17  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 154

Powered by Netsol Online