encyclopedia

ام المومنین حضرت ریحانہ بنت شمعون رضی الله عنها

Published on: 30-Jun-2025

حضرت ریحانہ Radi Allah Anha شمعون بن زید کی صاحبزادی تھیں جن کا تعلق بنو قریظہ اور ایک قول کے مطابق بنو نضیر قبیلہ سے تھا۔ 12 حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نکاح میں آنے سے پہلے آپ Radi Allah Anha ایک با عمل اور باجمال یہودی خاتون تھیں اور بنو قریظہ سے تعلق رکھنے والے الحکم نامی شخص کی منکوحہ تھیں ۔ الحكم آپ Radi Allah Anha کے حسن کردار کی وجہ سے آپ سے بہت محبت اور تعظیم کرتا تھا۔3آپ Radi Allah Anha نے اپنی زندگی قبیلہ بنو قریظہ میں ہی بسر کی یہاں تک کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں اس قبیلے کو شکست ہوئی اور اس کے مردوں کو قتل کردیا گیا اور بچوں و خواتین کو جنگی اسیر بنا لیا گیا۔ 4

فتح بنو قریظہ

غزوہ احزاب میں بنو قریظہ نے حضرت محمدSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کیے ہوئے عہد کو توڑ کر مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کا ساتھ دیا لیکن جب دشمن کی افواج پسپا ہوئی تو انہوں نے بھاگ کر بنو قریظہ کو اپنے پیچھے تنہا بے یار ومددگا ر جنگ کے نتائج بھگتنے کےلیے چھوڑ دیا۔ اس غزوہ کے اختتام پر اللہ تعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حکم دیا کہ وہ بنو قریظہ کے خلاف لڑنے کےلیے نکلیں چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرمایا۔ 5 کچھ دنوں کے محاصرہ کے بعد جب بنو قریظہ کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کی قوت نہیں رکھتے تو انہوں نے باہمی مشاورت سے طے کیا کہ وہ مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کے حق میں جو بھی فیصلہ کریں وہ اسے قبول کرلیں۔ 6

حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بذات خود بنو قریظہ کو ان کے نقض عہد کی پاداش میں سزا دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ فیصلہ کرنے کےلیے حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho کا انتخاب فرمایا جو اسلام لانے سے قبل بنو قریظہ کے اچھے دوست اور حلیف رہے تھے۔تمام افراد بشمول بنو قریظہ کے لوگوں نے اس بات کو بخوشی قبول کیا کہ حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho ان کے بارے میں فیصلہ کریں۔حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho جیسے ہی بنوقریظہ کے قلعہ پر پہنچے تو بنو قریظہ نے باہر آکر ان کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد حضرت سعد Radi Allah Anho نے بنو قریظہ سے متعلق فیصلہ فرمایا کہ وہ تمام لوگ جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شامل تھے انہیں قتل کر دیا جائے، ان کا مال ومتاع مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور ان کی خواتین اور بچوں کو جنگی قیدی بنا دیا جائے۔ 7 اس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا :

لقد ‌حكمت فيهم بحكم اللّٰه. 8
(اے سعد!): تم نے یہ فیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کیا ہے ۔

حضرت ریحانہ بنت شمعون Radi Allah Anha بھی بنو قریظہ کے جنگی قیدیوں میں سے ایک تھیں۔حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آپ Radi Allah Anha کا انتخاب اپنے حصہ میں آنے والے جنگی قیدی کے طور پر فرمایا۔ 11 آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ریحانہ بنت شمعون Radi Allah Anha کو ان کے دین کے حوالہ سے کچھ اختیارات بھی دیے 10جس کےنتیجہ میں کچھ روایات کے مطابق انہوں نے فوری طور پر اسلام قبول کرلیا جبکہ دیگر روایات کے مطابق آپ Radi Allah Anha شروع میں اپنے مذہب یہودیت پر قائم رہیں لیکن بعد میں اسلام لے آئیں ۔ 11

حضرت ریحانہ بنت شمعون Radi Allah Anha کا حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ تعلق

حضرت ریحانہ بنت شمعون Radi Allah Anha اورحضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تعلق کےحوالے سےکتب سیرت میں دو قسم کی آراء موجود ہیں۔ ابن ہشام Rehmatullah Alaih کے مطابق ریحانہ بنت شمعون Radi Allah Anha رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاں بحیثیت باندی کے تھیں اور جب ان کا انتقال ہوا تو وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ملکیت میں ہی تھیں۔رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں پیشکش فرمائی تھی کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نکاح کر کے آزاد عورتوں کی طرح پردہ کریں لیکن آپ Radi Allah Anha نے اس سے انکار فرما دیا تھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ 12جبکہ امام واقدی Rehmatullah Alaih کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت ریحانہ بنت شمعون Radi Allah Anha رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ابتداً باندی ضرورتھیں لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح فرمالیا تھا۔ 13 بلاذری، 14ابن کثیر، 15ابن حجر عسقلانی،16 یوسف الصالحی17 اور ابن سعد Rehmatullah AlaihواقدیRehmatullah Alaih کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں البتہ بلاذری یہاں اس بات کا اضافہ کرتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ریحانہ Radi Allah Anha کا مہر اُن کی آزادی یا دیگر ازواج کی مثل مقرر فرمایا تھا 18 جبکہ یوسف الصالحی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ریحانہ Radi Allah Anha کا مہر 12 اوقیہ چاندی تھا 19اور یہی رائے زیادہ تر سیرت نگاروں کی نظر میں معتبر ہے ۔

وصال

حضرت ریحانہ بنت شمعونRadi Allah Anha کا وصال حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیات طیبہ میں20 حجۃ الوداع کے بعد 21 سن 10 ہجری میں ہوا 22 اور آپ کو جنت البقیع میں 23ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ Radi Allah Anha کے برابر میں سپرد خاک کیا گیا ۔


  • 1  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 146
  • 2  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 112
  • 3  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:102
  • 4  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 512
  • 5  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 326
  • 6  ایضاً، ص: 327
  • 7  ابو الفتح محمد بن محمدابن سید الناس اليعمري، عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 105
  • 8  أبو عبد اللہ أحمد بن محمد الشیبانی، مسند الإمام أحمد بن حنبل، حدیث: 11170، ج-17، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 262
  • 10  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:103
  • 11  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-10، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 429
  • 11  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 245
  • 12  ایضاً
  • 13  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 521
  • 14  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 454
  • 15  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: عيسى البابي الحلبي، القاهرة، مصر، 1976م، ص: 605
  • 16  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 146
  • 17  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 220
  • 18  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 454
  • 19  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 220
  • 20  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 112
  • 21  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 146
  • 22  أبو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1847
  • 23  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 146

Powered by Netsol Online