encyclopedia

وحی الہٰی کے سچا ہونے کے دلائل

Published on: 18-Nov-2024

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کے نزول کے حوالہ سے اہلِ ایمان کو کبھی کوئی شک یا وہم پیدا نہیں ہوا ہے البتہ غیر مسلمین اس حوالہ سے اپنا بالکل جداگانہ مؤقف رکھتے ہیں جس کا مطالعہ ایک عام قاری کو اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ انہوں نے کبھی تعصبات سے بالاتر ہوکر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت و رسالت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کو سنجیدہ طور پر سمجھنے اور جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لیے وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے امکانِ وحی رد کرکے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کو خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وضع کی ہوئی باتیں اور کلام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ عقل و نقل کی بنیاد پر اگر متوسط ذہن کا فرد بھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کی حقیقت کو سمجھنا اور جاننا چاہے تو درج ذیل دلائل سے اس کی تسلی و تشفی بآسانی ہو سکتی ہے۔

(1) حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے وحی الٰہی کی صداقت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ وحی کے ذریعے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل شدہ کلام قرآن مجید اپنے زبان و بیان، فصاحت و بلاغت اور معانی و مفاہیم میں ایسا معجزہ ہے کہ جب سے اس کا نزول ہواہے، روئے زمین کے تمام اہل علم و قلم اور ادباء و شعراء کے لیے آج پندرہ سو سال گزر جانے کے باوجود چیلنج کے طور پر یہ کلام موجود ہے کہ وہ اس کی مثل کوئی ادبی شہ پارہ تخلیق کریں لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود آج تک کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی ہے اور نہ دی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہو ہر دور کے اچھے ادباء اور شعراء کے بعد آنے والے ادوار میں ان سے زیادہ اچھے ادباء و شعراء آکر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ جاتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کے بارے میں کسی ادیب، شاعر یا نثر نگار کو یہ ہمت و جرأت آج تک نہیں ہوپائی ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں کوئی کلام پیش کرسکے۔

(2)حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شخصیت کا ذاتی پہلو بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کے نزول کے ہر ممکن امکان کے لیے دلیل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبل از نبوت و رسالت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پورے عرب معاشرے میں صادق اور امین کے طور جانے پہنچانے جاتے تھے، لہذا وہ شخص جو ذاتی، مالی و مادّی، منصبی اور خاندانی مفادات کی خاطر بھی ہر قسم کی کذب بیانی و دروغ گوئی سے مکمل اجتناب کرتا ہو، اس سے اس بات کی معمولی توقع کرنا بھی عبث ہے کہ وہ اللہ کی طرف کسی جھوٹ یا غلط بات کی نسبت کرے۔ جو شخص اپنے سیرت و کردار اور اخلاق و آداب زندگی میں اعلیٰ انسانی اقدار کی جامع ترین مثال ہو اس سے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اعلیٰ کائناتی حقائق کے بارے میں کسی کو راہِ حق پر گامزن کرنے کے بجائے گمراہ کرے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آخر ایسی کیا ضرورت پڑگئی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت کرتے۔ اس لئے کوئی شخص اگر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں اس طرح کی منفی اور غیر حقیقی سوچ رکھتا ہو تو یہ ایک طرف صریح ظلم و زیادتی والی بات ہے جبکہ دوسری طرف غیر مہذب اور غیر شائستہ رویہ بھی ہے جس کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ سرے سے نہیں ہے۔ لہذا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دعویٰ وحی کے حوالہ سے ایسے شخص کو اپنے ذہنی و فکری رویہ کے بارے میں از سرِنو جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔

(3)حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے مقصد کے حوالے سے اتنے پُرعزم اور مضبوط تھے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ بات برسرِعام فرمائی کہ: اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دو تو بھی میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اور یہ صرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ عملاً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مادّی لالچ اور مفاد کی ہر کوشش کو اپنے مضبوط عزم و یقین سے ناکام بنادیا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مقصد سامانِ زندگی، مناصبِ حیات، حصولِ دنیا یا تعیشاتِ زندگی ہرگز نہ تھا، بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تو اعلانِ نبوت سے پہلے بھی کبھی مال و زر یا زن اور زمین کے حصول کے لیے کسی ادنیٰ سی خواہش کا اظہار بھی کسی موقع پر نہیں فرمایا۔ اگر ایسا ہوتا تو رؤساء واہلیانِ مکہ جن کے درمیان اعلان نبوت سے قبل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے چالیس برس کا عرصہ گزارا وہ اعلان نبوت کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سابقہ کسی قول، فعل اور عمل یا کسی چاہت کے اظہار کا طعنہ ضرور دیتے لیکن تمام تر دشمنیوں اور نفرتوں کے باوجود اہل مکہ یا اہل عرب نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس طعنہ دینے کی کبھی جرأت نہیں کی۔ اپنے دعویٰ اور مقصد میں اتنا سچا، مضبوط اورمخلص شخص وہی ہو سکتا ہے جس کی بنیاد کسی بہت بڑی سچائی اور حقیقت پر مبنی ہو۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس یہ حقیقت اور سچ خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت و رسالت پر فائز ہونے اور اللہ کے کلام یعنی "وحی الٰہی" کے نزول کی صورت میں موجود تھا جس پر ایمان لانے کے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے دور کے تمام انسانوں سمیت قیامت تک آنے والے انسانوں کو دعوت دی۔

(4)حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی کی اس سے بڑی صداقت کی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس وحی کے ذریعہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کئی مرتبہ مختلف مواقع پر ایسے اُمور کے بارے میں آگاہی اور مکمل معلومات دیں جن کے بارے میں معلومات اور آگاہی بغیر عملی مشاہدہ اور تجربہ کے ممکن ہی نہ تھی مثلاً سمندروں کے حوالہ سے باریک تفصیلات سے انسانوں کو آگاہ فرمایا ہے حالانکہ نہ تو خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کبھی اس کا مشاہدہ و تجربہ فرمایا اور نہ ہی کبھی زندگی میں خود کوئی سفر سمندر کے ذریعے کیا تھا۔ لہذا ان تفاصیل کا حصول اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کچھ عرب تجربہ کار تاجروں سے سن کرکے اُسے آگے ذکر کرتے تو یقیناً آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اعلان نبوت کے بعد انہی لوگوں کی طرف سے الزام تراشی اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پوری حیاتِ طیبہ میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملتا جس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جھٹلانے کی خاطر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اس طرح کا کوئی الزام عائد کیا ہو۔ لہذا سمندروں سے متعلق بعض ایسی تفصیلات جو بیسویں صدی سے قبل تک عام پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ بھی نہیں جانتے تھے ان کے بارے میں آگاہی "وحی الٰہی" کے ماسوا ممکن ہی نہیں تھی جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل ہونے والی وحی الہی کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

(5)حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بہت ساری ایسی بستیوں کی تاریخ اور حالات بتائے جن کو خود عرب بھی نہیں جانتے تھے اور نہ ہی نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود کبھی اِن بستیوں کے آثار دیکھے تھے۔ مثلاً وادی اِرم، مدین، قوم ِعاد و ثمود کے مستقر وغیرہ۔ اسی طرح حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسی و عیسی Alaihmus Salam سمیت کئی انبیاء و رسل کی اقوا م کے بارے میں جن تفصیلات سے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آگاہ فرمایا وہ ماسوا "وحی الٰہی" کے ممکن ہی نہ تھا۔ مثلاً ان اقوام کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ 7 الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ 8 وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ 9وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ 101
(جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے، جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا، اور ثمود (کے ساتھ کیا سلوک ہوا) جنہوں نے وادئ (قری) میں چٹانوں کو کاٹ (کر پتھروں سے سینکڑوں شہروں کو تعمیر کر) ڈالا تھا، اور فرعون (کا کیا حشر ہوا) جو بڑے لشکروں والا (یا لوگوں کو میخوں سے سزا دینے والا) تھا۔

ان اقوام کے حالات اور واقعات کو جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے آیاتِ طیبات کی صورت میں تذکیر و نصیحت کے لئے بیان کیا وہ اُس وقت تک ممکن ہی نہیں تھا جب تک خود رب کائنات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آگاہ نہ فرما دیتا۔

انسان جب اپنی تحریر لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کا مخاطب براہِ راست اس کی ذات نہیں ہوا کرتی اور اگر کبھی اس طرح کی نوبت آبھی جائے تو اپنی تحریر میں خود اپنی ذات کے لیے حکم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا۔ پوری تاریخِ انسانی کا تحریری اُسلوب اس بات پر گواہ ہے کہ وہ لکھتے ہوئے حکم کے موقع پر صرف دوسروں کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔ وحی الٰہی میں کئی مقامات پر لفظ "قل" کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے "اے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آپ فرما دیجئے"۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کلام نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا اپنا نہیں ہے بلکہ خداوندِعالم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کوئی خاص بات کہلوانا یا کوئی خاص کام کروانا چاہتا ہے۔ جیسا کہ رب تعالی نے اپنی ذات کی یکتائی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ذریعہ سے یوں بیان فرمائی:

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ12
(اے نبئ مکرّم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے۔

اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ953
فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم Alaihis Salam کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہوگئے تھے۔

(6) کئی مرتبہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل شدہ وحی میں خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس وحی کی پیروی اور اتباع کریں جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل کی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ1064
آپ اس (قرآن) کی پیروی کیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وحی کے ذریعہ دیئے گئے احکامات اور پیغامات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ذات کی طرف سے نہیں تھے بلکہ یہ احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے جس کی پابندی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سمیت دوسرے تمام انسانوں کے لیے لازم تھی۔ وحی الٰہی کا یہ اسلوب ایک واضح دلیل ہے کہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا کلام نہیں ہے بلکہ رب تعالیٰ کی طرف سے نازل شُدہ پیغام ہدایت ہے۔

(7) آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نازل شدہ وحی الٰہی کے مطابق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فرشتہ یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں تھے اور نہ ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خدا کی خدائی میں اس کے ساتھ شریک تھے بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حیثیت "عبد" یعنی اللہ کا بندہ اور "انسان کامل" کی ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بشریت کے حوالہ سے ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ...1065
(اے پیکر رعنائی و زیبائی) آپ فرمائیے کہ میں بشر ہی ہوں تمہاری طرح۔ ہاں مجھ پر یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خُدا صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے

اگر وحی کے نام پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خود کلام وضع فرماتے تو اپنی حیثیت اور رتبہ کو بڑھا چڑھا کر پیش فرماتے کیونکہ دوسرے انبیاء کرام Alaihmus Salam کی عظمتوں کو مختلف القابات کے ذریعے بیان کرکے ان کی شان اور رفعت کو بلند کیا گیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ کلام جو وحی الٰہی کی صورت میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عطاء ہوا اس میں ایک جملہ بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف سے الحاقی نہیں ہے۔

(8) وحی الٰہی از اول تا آخر پڑھتے چلے جائیں تو کہیں پر بھی اللہ تعالیٰ کے اس سچے پیغام میں انسانی فطرت، مزاج، ماحول، ضروریات، مطالبات اور حکمت کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں ملتا اور نہ ہی وحی الٰہی میں مستقل بالذات تضاد اور تناقص نظر آتا ہے حالانکہ انسان مختلف مواقع پر اپنی داخلی کیفیات و حالات کے لحاظ سے مختلف مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ کبھی ایک بات اسے بہت بھاتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہی بات اسے بالکل پسند نہیں آتی، کبھی وہ کسی مسئلہ میں ایک رائے دیتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی رائے سے رُجوع کرلیتا ہے، کبھی وہ ایک فکر پیش کرکے اس کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیتا ہے اور پھر کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اسے اپنی پیش کردہ فکر کے بودے پن پر افسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں جس طرح اِرتقاء ہوتا چلا جاتا ہے، اسی طرح ترمیم و اِضافہ کے نام پر قانون سازی کے پہلے مسودہ کی شکل کچھ عرصہ کے بعد یکسر بدل کر رہ جاتی ہے۔ الغرض ترمیم، اضافہ، تبدیلی، اِرتقاء، تضاد اور تناقص انسانی کلام کے ناگزیر اُوصاف ہیں جن سے وحی الٰہی مبرّا ہے۔ وحی الٰہی میں جہاں نسخ اور تنسیخ کا معاملہ پایا جاتا ہے وہاں اس کی حیثیت کلام کے داخلی تضاد کی نہیں ہے بلکہ انسانی مجبوریوں اور کمزوریوں کے پیش ِنظر، مصلحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے مزاج اور فطرت کی رعایت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر تدریجی طور پر یکے بعد دیگرے احکام کو اس طور نازل کرنا تھا کہ اس معاشرہ میں رہنے والے افراد جن بری عادتوں اور غلط رویوں کے خوگر ہو گئے تھے اُن کو ترک کرنا اُن کے لیے ممکن ہوسکے۔ اسی لیے تمام بظاہر سخت احکامات کو تدریج کے اُصول سے گزار کر انسانوں کے لیے ابدی طور پر قابلِ عمل بنادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وحی الٰہی اب قیامت تک ناقابل تغیر اور ناقابل تنسیخ صورت اختیار کرگئی ہے۔


  • 1  القرآن، سورۃ الفجر 89: 10-07
  • 2  القرآن، سورۃالاخلاص 01:112
  • 3  القرآن، سورۃال عمران 95:03
  • 4  القرآن، سورۃ الانعام 106:06
  • 5  القرآن، سورۃ الکھف110:18

Powered by Netsol Online