encyclopedia

وحی کی تعریف و اقسام

Published on: 12-Nov-2024

لفظ وحی کا مفہوم اور اس کی تعریف اسلام کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ وحی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی "اشارے" یا "پوشیدہ انداز میں بات پہنچانے" کے ہیں۔ 1 امام ابو نصر جوہری Rehmatullah Alaih کے مطابق لفظ وحی کا اطلاق مذکورہ معنی کے ساتھ ساتھ " لکھ کر دینے "اور "بھیج دینے " پر بھی ہوتا ہے۔ 2 وحی کا معنی بیان کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی Rehmatullah Alaihالمفردات فی غریب القرآن میں لکھتے ہیں:

أصل الوحي: الإشارة السريعة، ولتضمن السرعة قيل: أمر وحي، وذلك يكون بالكلام على سبيل الرمز والتعريض، وقد يكون بصوت مجرد عن التركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالكتابة. 3
وحی کے اصلی معنی ہیں وہ اشارہ جو نہایت تیزی وسرعت کے ساتھ ہو، اسی سرعت کی وجہ سے کہتے ہیں امروحی (یعنی جلدسے جلدظاہرہونے والی بات) اور یہ بات کبھی تو گفتگو میں اشاروں اورکنایوں کےطورپرہوتی ہے ،اورکبھی محض آواز ہوتی ہے جوحروف والفاظ کےربط وترتیب سے(بظاہر) خالی ہوتی ہے اور کبھی اعضاوجوارح کے اشاروں سے اور کبھی بذریعہ تحریر بھی ممکن ہے۔

اسلامی اصطلاح میں وحی اُس خصوصی علم کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے منتخب کردہ انبیاء و رسل Alaihmus Salam کو براہ راست یا فرشتے کے ذریعے عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اسے انسانوں تک پہنچائیں۔ اس میں اللہ کا پیغام، ہدایات، احکام اور وہ اخلاقی اصول شامل ہوتے ہیں جو انسانیت کی ہدایت اور فلاح کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ حافظ بدرالدین عینی Rehmatullah Alaih وحی کے شرعی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وفي اصطلاح الشريعة هو كلام الله المنزل على نبي من أنبيائه. 4
اور شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہ کلام ہےجو اس کےنبیوں میں سےکسی نبی پر اُتاراگیاہو۔

ان تعریفات سے واضح ہوا کہ وحی اللہ کاوہ کلام ہے جو عالمِ غیب سے عالمِ شہادت تک کسی مقرّب فرشتے مثلاً جبرائیل Alaihis Salam یا براہ راست کسی بھی پیغمبر اور رسول Alaihis Salam کے پاس آتا رہا ہے۔ثانیا وحی الٰہی وہ خاص علم ہے جو محض اللہ کے فضل سے، بغیر کسب ،تلاش اور محنت کےانبیاء کرام Alaihmus Salam کو خصوصی طورپرلوگوں کی ہدایت اور بھلائی کی غرض سےدیا جاتا ہے۔اس علم کے حصول اور اسے آگے پہنچانے میں انبیاء Alaihmus Salam کسی قسم کی کمی بیشی اورکوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی وحی الٰہی میں انبیاء کرام Alaihmus Salam اپنی ذاتی سوچ،فکراورخیال کوشامل کرتے ہیں ۔

وحی اور ایحا

عربی زبان میں"وحی " اور " ایحا" دونوں الگ الگ لفظ ہیں ، اگرچہ کہ مفہوم کے اعتبار سے دونوں کے مابین کافی حد تک مماثلت ہے۔ لفظ " ایحا " کا مفہوم عام ہےجس کا اطلاق انبیاء Alaihmus Salam پروحی نازل کرنے کے علاوہ کسی کو اشارہ کرنےاور کسی غیر نبی کے دل میں کوئی بات ڈالنے پر ہوتا ہے۔ لہذا یہ لفظ نبی Alaihis Salam اور غیر نبی Alaihis Salam دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ "وحی " صرف اُس پیغام کو کہتے ہیں جو انبیاء Alaihmus Salam پر نازل ہو۔یہی وجہ ہےکہ قرآن کریم نے لفظ "ایحا " کا استعمال تو انبیاء Alaihmus Salam اور غیر انبیاء Alaihmus Salam دونوں کے لئے کیا ہے ، لیکن لفظ "وحی " بمعنی اسم مفعول (الموحٰی) کے انبیاء Alaihmus Salam کے علاوہ کسی اور کے لئے استعمال نہیں فرمایا ہے چنانچہ "وحی" وہ خاص ذریعہ مراسلت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنا کلام اپنے کسی پیغمبر یا رسول Alaihis Salam تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ اس پیغام کو نوع انسانی تک پہنچا دیں۔

وحی اور ایحاء کے مشتقات کا قرآن کریم میں استعمال

وحی کا مفہوم قرآن کریم میں کبھی "ایحاء" کے مصدر سے مشتق کیا گیا ہے کبھی "وحیٌ " سے۔ ان مختلف صورتوں میں جو معنی اخذ کئے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

(۱)   وحی بمعنیٰ فطری الہام:

یہ وہ الہام ہے جو اللہ تعالیٰ پاکیزہ نفوس اوراشخاص کے قلوب میں ڈالتا ہے جیسے حضرت موسیٰ Alaihis Salam کی والدہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بات ڈال کر انہیں پیش آمدہ مسئلہ کا حل اپنی جناب سے عطاءفرمایا :

وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ... 75
اور ہم نے موسٰی Alaihis Salam کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو۔

(۲)   وحی بمعنیٰ جبلت:

انسانوں اور حیوانات دونوں کی جبلت میں اللہ تعالیٰ نے بعض باتیں ایسی رکھ دی ہیں جس کی روشنی میں انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں ہر وقت رب تعالیٰ کی رہنمائی ا ور ہدایت کا احساس رہتا ہے مثلاًقرآن کریم میں شہد کی مکھی کی مثال دی گئی ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ الہام فرماتا ہے:

وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ... 686
اور آپ کےرب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی۔

یہ جبلت کی وحی ہے جو جانور اور انسان دونوں کو حاصل ہوتی ہے۔

(۳)   وحی بمعنیٰ اشارہ:

انسان کاکسی عضو بدن سے اشارہ کرنا بھی وحی کہلاتا ہے۔ جیسا کہ :

فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا 117
پھر (زکریا Alaihis Salam) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو اُن کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو۔

بعض مفسرین مثلاًحضرت مجاہد Rehmatullah Alaih یہاں أوحى إليهم كا ایک معنی " لکھ کر سمجھانا" بھی کرتے ہیں یعنی أوحى إليهم کامعنی یہ ہو گا کہ حضرت زکریا Alaihis Salam نے زمین پر لکھ کر بات کی تھی ۔اس لئے "وحی" کا لفظ لکھ کر بات کرنے کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔

(۴)   وحی بمعنیٰ تکوینی امر:

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا 4 بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا 58
اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر (جُدا جُدا حالتوں کے ساتھ) نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اَعمال دکھائے جائیں۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا آسمان سے مخاطب ہو کر اسے خاص اُمور تفویض کرنا بھی قرآن پاک کی روشنی میں وحی کے مختلف معانی میں سے ایک معنی ہے:

... وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ ... 129
اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا۔

(۵)   وحی بمعنیٰ اطلاع و پیغام:

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ اطلاع یا خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے تاکہ وہ اہلِ ایمان کے قلوب کو جنگ کے دوران تقویت پہنچا ئیں۔ جیسے درجہ ذیل آیت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے :

إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ ... 10
(اے حبیبِ مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لئے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں۔

(۶)   وحی بمعنیٰ وسوسہ:

یہ وہ بُرا خیال اور شیطانی وسوسہ ہے جو جن وانس کے وجود میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ جیسا کہ قران کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُون 11211
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا رب (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)۔

وحی کی اقسام

بنیادی طور پر وحی کی دو قسمیں ہیں جن کو وحی متلو اور غیر متلو کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وحی متلو

وحی متلوسےمراد وہ وحی ہےجس کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور جس کی تلاوت نماز میں کی جاتی ہے۔ اسے قرآن کریم اور فرقان مجید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وحی محفوظ اس طور پر ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر لیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار کی ہزار ہاکوششوں کے باوجود قرآن مجید میں ذرہ برابر رد و بدل نہیں کر سکے۔

وحی غیر متلو

اِس وحی کو وحی "غیر متلو " اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ اس وحی کی تلاوت نہیں کی جاتی۔عموماًیہ صحیح احادیث کی شکل میں محفوظ ہے اور یہ وہ وحی ہے جو حدیث قدسی ، سچے خواب یا پھر الہام کے ذریعے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عطا کی جاتی تھی۔ کبھی جبرائیل امین Alaihis Salam بھی انسانی شکل میں حاضرِ خدمت ہوتےاور معنوی وحی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تک پہنچاتے۔ اسے وحی خفی بھی کہتے ہیں۔ وحی غیر متلو کی مثال وہ تمام معاملات ہیں جن کا تعلق نماز ، روزہ ، حج، زکوۃ ، قضاء، نکاح، طلاق، خلع اور صلح و جنگ کےقواعد سے متعلق ہے اور اُن کی تمام ترتفصیلات قرآن مجید سےبظاہر دستیاب نہیں ہوتیں ہیں۔یہ وہ تمام اُمور ہیں جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بذریعہ وحی غیر متلو بتائے اور سکھائے جاتے تھے۔

مذکورہ بالا تفصیلات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ شریعت کے تمام اُمور اور احکامات کا انحصا روحی الٰہی پر ہی ہےخواہ وہ "وحی متلو" کے ذریعے سے ہو یا " غیر متلو " کے ذریعے۔اس حوالہ سے حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کی ذاتی خواہش اور چاہت یا پھر اس کی علمیت اوربصیرت پر اکتفاء ہرگز نہیں کیا گیا ہے بلکہ وحی الٰہی ہی کو مصدرِ شریعت اور منبعِ ہدایت گردانا گیا ہے تاکہ شریعتِ اسلام کو انسانی فکرکی غلطی اور علم کی محدودیت سےمحفوظ رکھا جاسکے ۔

وحی ،الہام،القاء اور کشف میں فرق

الہام، القاء ، کشف اور وحی الٰہی میں جوجوہری نوعیت کا فرق یہ ہے کہ وحی خود انبیاء Alaihmus Salam کے لیے بھی واجب العمل ہوتی ہے اور ان کے پیروکاروں کے لیے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ دیگر صورتوں میں ایسا نہیں ہے ۔ ثانیاً وحی قطعی ہوتی ہے جس میں ظن کا کوئی شبہ اور داخلہ ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی شیطان کو اس میں تصرف کا کوئی اختیار حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی تینوں ذرائع علم میں یہ اقدار اس کمال درجے میں موجود نہیں ہوتیں۔ اس بات کو اس مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی نیک بندے یا ولی اللہ کے دل پر کسی غیبی پیغام کا کشف،الہام یا القاء ہوجائے تو وہ اس کے لیے تو قابل عمل ہے لیکن دوسروں کے لیے قابل اتباع ہرگز نہیں ہے۔اس کے برعکس کسی دوسرے شخص کو اگراس بات کا یقین ہوجائے کہ یہ پیغام شیطانی وسوسہ ہے تو اس کے لئے اُلٹا اس سے بچنا لازم ہوجاتاہےجبکہ وحی کا حکم اس سے بالکل مختلف ہے کیونکہ انبیاء Alaihmus Salam کی وحی سو فی صد یقینی ہوتی ہے اور اس کی پیروی فرض ہے چاہے وہ انسانی عقل و فہم کے بعینہ مطابق ہو یا بظاہر اس کے خلاف اور ما وراءالعقل ہو۔ اسی لئے الہام،القاء اور کشف اپنی جمیع انواع اور خصوصیات کے ساتھ کسی بھی طور پر شرعی حجت نہیں ہوتے اور نہ ہی انکی پیروی لازم ہوتی ۔

وحی کی تعریف اور اس کی مختلف اقسام و پہلوؤں کی وضاحت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اسلامی تعلیمات میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور اس کا انسان کی زندگی پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک عظیم نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے جس سے غیر الہامی مذاہب اور الحاد یکسر محروم ہیں۔


  • 1  ابو الفضل محمدبن مكرم ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج-15، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،1414ھ، ص:381
  • 2  أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري، الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية، ج-6، مطبوعۃ: دار العلم للملايين، بيروت،‍1987م، ص:2520
  • 3  أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى ، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ،ص:858
  • 4  ابو محمد محمود ابن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-1، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 14
  • 5  القران،سورۃ القصص7:28
  • 6  القران،سورۃ النحل 68:16
  • 7  القران،سورۃ مریم11:19
  • 8  القران،سورۃالزلزلہ 99 : 4-5
  • 9  القران،سورۃالفصلت12:41
  • 10  القران،سورۃالانفال12:08
  • 11  القران،سورۃالانعام112:6

Powered by Netsol Online