encyclopedia

واقعہ اسراء و معراج

Published on: 15-Aug-2024

سفرِ طائف سے واپسی کے بعداللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمدمصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بحالتِ بیداری روح وجسدِاطہر کےساتھ بطورِمعجزہ ایک ہی شب میں مسجدِحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور مسجدِ اقصیٰ سے ساتوں آسمانوں سے گزارتے ہوئے لامکاں تک کی سیر کرائی۔ 1 اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کروایا۔ 2 صبح صادق طلوع ہونے سے قبل جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam واپس مکہ مکرمہ کی سرزمین پرپہنچے تو اربوں نوری سال کی مسافت رات کے ایک مختصر سے حصے میں طے ہو چکی تھی ۔ یہ محتم بالشان سفر اسراء و معراج کا سفر کہلاتا ہے۔

اسراء ومعراج کامعنیٰ

''اسراء" کا لغوی معنیٰ "رات کو سیر کرانا" ہے، 3 اور اصطلاح میں "اسراء"سے مراد وہ سفر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کرایا۔ "معراج" عروج سے ہے، اور عروج کا معنی "بلندی کی طرف چڑھنا "ہے، 4 اور اصطلاح میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مسجد اقصی ٰ سے آسمانوں کی جو سیر کرائی اُسے معراج کہتے ہیں۔

اسراءو معراج رسول اللہ ﷺ کا عظیم معجزہ

اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ یہ ہے کہ اس نے ہر زمانہ کے انسانی کمالات کے مطابق انبیاء و رُسل Alaihmus Salam کو معجزات دے کر مبعوث فرمایا۔ یہ معجزات انسانی عقل و علم کو عاجز کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء و رُسل Alaihmus Salam کی حقانیت کی دلیل بنے۔ حضرت موسیٰ Alaihis Salam کے زمانہ میں جادوگری عروج پر تھی، تو آپ Alaihis Salam کو عصا مبارک اور ید بیضاء کا معجزہ عطا کیا گیا۔ حضرت داؤد Alaihis Salam کے دور میں لوہے کی صنعت عروج پر تھی تو آپ Alaihis Salam کے لیے لوہے کو مسخر کر دیا گیا۔ حضرت سلیمان Alaihis Salam کا دور اقدس جنات کی طاقت کا مظہر تھا تو آپ Alaihis Salam کیلئے ہوااور چرندپرند کو مسخر کر دیا گیا۔ حضرت عیسیٰ Alaihis Salam کے دور میں طب عروج پر تھا تو آپ Alaihis Salam کو لا علاج بیماریوں حتیٰ کہ مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا گیا۔ 5 حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا زمانہ نبوت چونکہ قیامت تک جاری و ساری ہے اور یہ سائنسی عروج کا زمانہ ہے، جس میں انسان چاند و مریخ پر پہنچ چکا ہے، اس لئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج کا معجزہ عطا کیا گیا۔ اس سفر میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ساتوں آسمانوں اور عرش سے لامکاں تک کی مسافت طے کروائی گئی اور معلوم بلندی سےبھی بلند مقام تک لے جایا گیا اس طرح یہ معجزہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہو گیا۔ اس سفر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس سفر میں خالق کائنات نے اپنے حبیب مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خاص شان کے ساتھ بلاکراپنے ساتھ ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا اوراپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کونظارہ کروایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير 16
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔

آج سے چودہ سو سال قبل علومِ انسانی میں اتنی گیرائی تھی اور نہ اتنی گہرائی کہ معجزاتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا کوئی ادنیٰ جز ہی ان کے فہم و ادراک میں آجاتا، حتیٰ کہ اس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مبادیات تک کا بھی دور دور تک کہیں نام ونشان نہ تھا۔ آج عقلِ انسانی اپنے ارتقاء، اپنی تحقیق اور جستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل ان کی تصدیق و توثیق وحی الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اگر عقلی بنیاد پر دیکھا جائے تو آج سے چودہ سو سال قبل رات کے مختصر سے حصے میں مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدودسے گزر کر لامکاں تک پہنچنا اور پھر اسی لمحے میں اس اربوں نوری سالوں کی مسافت کو طے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پر تشریف لے آنا تو کُجا، محض زمین کی بالائی فضاءکی پرواز کا تصور کرنا بھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتاہے ۔ اسی طرح اگر واقعۂ معراج کو اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ حیطۂ شعور میں لایا جائے تو خلائی سفر کے مخصوص لوازمات کے ساتھ بھی کروڑوں نوری سال کا یہ سفر طے کرنا آج بھی ناممکن ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے جس نے آج سے چودہ سوسال قبل ایک ایسے دور میں جہاں لوگوں کو مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی تک جاتے ہوئے چالیس دن لگ جاتےتھے، اس پاک ذات نےیہ مسافت اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو رات کے ایک مختصر سے حصے میں طے کراکر صبح صادق طلوع ہونے سے قبل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو واپس مکہ مکر مہ واپس بھی پہنچادیا۔ 7

اسراء ومعراج کا سبب

شعبِ ابی طالب میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خاندان کے افراد کو تین سال تک محصور کر کے قریش کے تمام قبائل نےاُن کا ہر طرح سے معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوطرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں۔ اس ظالمانہ مقاطعہ کےاختتام پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دو بڑے سہارے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زوجہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چچا حضرت ابو طالب انتقال کر گئے۔ ابھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس سخت ترین صدمہ سے دوچار تھےکہ اہلِ طائف نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کیا۔ اِن پے درپے سخت ترین حالات اور مختلف قسم کے صدمات کی وجہ سے آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بڑا غم اور دُکھ پہنچا۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےاس غم اور دُکھ کو ہلکا کرنے کے لیے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عظمت و شان اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مِشن کی حقانیت کو خوب سے خوب تر واضح کرنے کے لئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کراکر اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دِکھلائیں، اور اپنے ساتھ ہم کلامی کا شرف عطا فرماکر ماضی کے تمام زخم مندمل فرمادیے، اور آئندہ کے لیے ایک نیا عزم اور نئی ہمت عطا فرمائی۔ 8

سن ِ اسراءومعراج

علماء سیر کے سن ِمعراج کے بارےمیں متعدد اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک ہجرت سے چھ ماہ پیشتر ،بعض کے نزدیک ہجرت سے آٹھ ماہ قبل،ایک قول کے مطابق ہجرت سے گیارہ ماہ پہلے، ایک قول کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل، بعض حضرات کے نزدیک ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل، بعض علماء کے نزدیک ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ پہلے، کچھ علماء کے نزدیک ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ پیشتر، اور ایک قول کے مطابق ہجرت سے ایک سال اور چھ ماہ قبل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج کرائی گئی۔ 9 راجح قول یہ ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج 11 نبوی میں سفرِ طائف سے واپسی کے بعد اور ہجرت مدینہ سےپہلے ہوئی۔چنانچہ حافظ ابن قیم نے زاد المعاد میں سفر طائف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:

ثم أسري برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بجسده على الصحيح من المسجد الحرام إلى بيت المقدس. 10
پھر (سفر طائف سے واپسی کے بعد)رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو صحیح قول کے مطابق جسم اطہر کے ساتھ مسجد حرام سے مسجدِ اقصی تک سیر کرائی گئی۔

علی بن ابراهيم الحلبی Rehmatullah Alaih"انسان العیون"میں ابن حزم کی تصدیق اور اس پر اجماع کا دعویٰ بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں :

وكل من الإسراء والمعراج كان بعد خروجه صلى اللّٰه عليه وسلم للطائف. 11
(سفر) اسراء ومعراج رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سفرِ طائف پر روانگی کے بعد ہوئے ۔

علامہ ابن اثیر نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ اسراء ومعراج کا واقعہ ہجرت سے تین سال قبل یعنی 11 نبوی میں پیش آیا ہے۔ 12

ماہِ اسراء ومعراج

معراج کے مہینے کے بارے میں ربیع الاول، ربیع الثانی، رجب، رمضان اور شوال کے اقوال ہیں۔ 13 مشہور 27 رجب کی رات ہے۔چنانچہ علامہ زرقانی فرماتے ہیں:

كان ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل الناس. قال بعضهم: وهو الأقوى؛ فإن المسألة إذا كان فيها خلاف للسلف، ولم يقم دليل على الترجيح واقترن العمل بأحد القولين أو الاقوال، وتلقى بالقبول فإن ذلك مما يغلب على الظن كونه راجحا. 14
27 رجب کی رات کو معراج ہوئی ہے، اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہی سب سے قوی قول ہے، اس لیے کہ جب کسی مسئلے میں سلف کا اختلاف ہو اور ترجیح کی کوئی دلیل نہ ہو اور لوگوں کا عمل دو قولوں یا کئی سارے اقوال میں سے کسی ایک قول کے ساتھ مل جائے اور اسے تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو ایسے قول کے راجح ہونے کا غالب گمان ہوتا ہے۔

حضرت امّ ہانی Radi Allah Anha کے مکان سے آغازِ سفر

شب معراج کو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی چچازاد بہن حضرت امّ ہانی Radi Allah Anha کے مکان میں آرام فرما رہے تھےجو شعبِ ابی طالب کے پاس تھا۔ نیم خوابی کی حالت تھی کہ اچانک مکان کی چھت میں شگاف ہوا اور جبریل Alaihis Salam تشریف فرما ہوئے۔ اُن کے ہمراہ اور بھی فرشتے تھے۔ اُنہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو نیند سے بیدار کیا اور اپنے ساتھ مسجد حرام لے گئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اونگھ کا اثر تھا، اس لیے وہاں جا کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حطیم میں پھر سے لیٹ گئے اور دوبارہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھ لگ گئی ۔ 15

شقِ صدر

حطیم میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھ لگنے کے بعد جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دوبارہ جگایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زم زم کے کنویں پر لے گئے۔ وہاں اُنہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لٹا کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سینہ مبارک چاک کیا اور قلب مبارک کو نکال کر اُسے زم زم کے پانی سے دھویا، 16 اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس ایمان اور حکمت سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلبِ اطہر کو بھر اگیا، بعد ازاں اُسے دوبارہ اُس کی جگہ رکھ کر سینہ مبارک کوپہلے کی طرح ٹھیک کر دیا گیا۔ 17

سفر کاپہلا مرحلہ :مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ

شق صدر کے بعد سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا، جسے بُراق کہا جاتا ہے۔ یہ ایک جنتی جانور تھا، جو خچر سے کچھ چھوٹا اور گدھے سے کچھ بڑا، سفید رنگ کابرق رفتار جانور تھا۔ اس کی برق رفتاری اس قدر تھی کہ ہر قدم منتہائے بصر پر پڑتا تھا۔ 18 اس جانورپر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پہلے بھی انبیاء کرام Alaihmus Salam سوار ہوتے رہے تھے۔ 19 اُسے لگام لگی ہوئی تھی اور اس کی زین کَسی ہوئی تھی۔جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اُس پر سوار ہونے لگے تو وہ شوخی کرنے لگا۔ اُس موقع پر جبریل Alaihis Salam نے اُس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ:

أبمحمد تفعل هذا؟ فما ركبك أحد أكرم على اللّٰه منه. 20
تو محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ شوخی کرتا ہے؟ تیرے اوپر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کو محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے زیادہ معزز ومکرم ہو۔

یہ سنتے ہی بُراق شرم سے پسینہ پسینہ ہوگیا۔ پھر جبریل امین Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوبُراق پر سوار کرایا، اور خود بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مسجد اقصیٰ روانہ ہوئے۔ 21

مختلف مقامات پر نماز کی ادائیگی

براق پر سوار ہونے کے بعد جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سفر پر روانہ ہوئے توراستے میں ایک ایسی زمین پرگزر ہوا جس میں کھجور کے درخت بکثرت تھے۔ جبریل Alaihis Salam کے کہنے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہاں اتر کر نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کے بعد جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ یثرب یعنی مدینہ طیبہ ہےجہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہجرت کریں گے۔ بعد ازاں جبریل Alaihis Salam کے کہنے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدین کے علاقے میں نماز پڑھی جو شجرۂ موسیٰ Alaihmus Salam کے قریب واقع ایک جگہ تھی۔وہاں سے روانہ ہوئے تو ایک اور زمین پر پہنچے۔ وہاں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نماز پڑھی۔ اس جگہ کے بارے میں جبریل Alaihmus Salam نے بتایا کہ یہ بیت اللحم ہے 22 یعنی وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰ Alaihmus Salam کی ولادت ہوئی۔

حضرت موسیٰ Alaihis Salam کی قبر پر گزر

حضرت انس بن مالک Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بیان فرمایا کہ جس رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اسراء کرائی گئی، اس رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر سرخ ٹیلے کے قریب موسٰی Alaihis Salam پر ہوا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت موسٰی Alaihis Salam کو دیکھا، وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ 23

مسجدِ اقصیٰ میں نزول

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجدِ اقصیٰ پہنچے، اور بُراق سے اترکراسے اس حلقہ سے باندھا جس سے سابقہ انبیاء کرام Alaihmus Salam اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ بعد ازاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجد میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam باہر نکلے تو جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دو پیالے پیش کیے، جن میں سے ایک پیالہ شراب کا تھا اور دوسرا دودھ کا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دونوں کو ملاحظہ فرمانے کے بعد دودھ والا پیالہ لےلیا۔ 24جس پر حضرت جبریل Alaihis Salam امین نے فرمایا:

الحمد للّٰه الذي هداك الفطرة، لو أخذت الخمر ‌لغوت ‌أمتك. 25
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے فطرت کی طرف آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کی رہنمائی فرمائی، اگر آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) شراب لے لیتے تو آپ(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی امت گمراہ ہوجاتی۔

بعض روایات میں پانی اور شہد کا ہونا بھی آیاہے۔ نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برتن سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پیش کیے گئے تھے یعنی کُل چار برتن پیش کیے گئے تھےاور ان برتنوں کا پیش ہونا دو مرتبہ ہوا ہے۔ ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ 26

انبیاءِ کرام Alaihmus Salam کی امامت

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجدِ اقصیٰ پہنچے تو وہاں اللہ رب العزت نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعزاز میں تمام انبیاء کرام Alaihmus Salam کو جمع فرمایا۔ انبیاء کرام Alaihmus Salam کے جمع ہوجانے کے بعدباقاعدہ اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی۔جب تمام انبیاء کرام Alaihmus Salam صف باندھ کر کھڑے ہوگئے تو حضرت جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ہاتھ پکڑ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آگے بڑھایا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سب کو نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بتایا کہ جتنےنبی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے قبل دنیا میں مبعوث کیےگئے ان سب نےآج آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پیچھے نماز ادا فرمائی ہے۔ 27 اس موقع پر فرشتے بھی آسمان سے نازل ہوئے تھےاور انہوں نے بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی تھی۔بعد ازاں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارواحِ انبیاء کرام Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ملاقات فرمائی، اور تمام انبیاء کرام Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ 28

تحمیدِ ابراہیم Alaihis Salam

حضرت ابراہیم Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کی حمد یوں بیان کی:

الحمد للّٰه الذي اتخذني خليلا، وأعطاني ملكا عظيما، وجعلني أمة قانتا، واصطفاني برسالاته، وأنقذني من النار، وجعلها علي بردا وسلاما. 29
تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ کو اپنا خلیل بنایا اور مجھ کو ملک عظیم عطا فر مایا اورمجھے امام اور پیشوا بنایا اور آگ کو میرے لیے ٹھنڈا اور سلامتی کا ذریعہ بنایا۔

تحمیدِ موسیٰ Alaihis Salam

حضرت ابراہیم Alaihis Salam کے بعد حضرت موسیٰ Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کی یوں حمد کی بیان کی:

الحمد للّٰه الذي كلمني تكليما، واصطفاني، وأنزل علي التوراة، وجعل هلاك فرعون على يدي ونجاة بني إسرائيل على يدي. 30
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے کلام فرمایا، مجھے اپنی رِسالت اور کلمات کے لئے منتخب فرمایا، مجھ پر تورات نازِل فرمائی، میرے ہاتھ پر فِرعون کو ہلاک فرمایا اور میرے ہی ہاتھ پر بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔

تحمیدِ داؤد Alaihis Salam

بعد ازاں حضرت داؤد Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کی یوں حمد بیان کی:

الحمد للّٰه الذي جعل لي ملكا وأنزل على الزبور، وألان لي الحديد، وسخر لي الجبال، يسبحن معي والطير، وآتاني الحكمة وفصل الخطاب. 31
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بادشاہت عطا فرمائی، مجھ پر زبور نازِل فرمائی، لوہے کو میرے لئے نرم فرما دیا، میرے لئے پرندوں اور پہاڑوں کو مسخر فرما دیا،جو میرے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں، اور مجھے حکمت اور فصلِ خطاب عطا فرمایا۔

تمحید سلیمان Alaihis Salam

اس کے بعد حضرت سلیمان Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی:

الحمد للّٰه الذي سخر لي الرياح، والجن والإنس، وسخر لي الشياطين يعملون ما شئت من محاريب، وتماثيل، وجفان كالجواب، وقدور راسيات، وعلمني منطق الطير، وأسال لي عين القطر، وأعطاني ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي. 32
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے لئے ہواؤں، جنوں اور انسانوں کو مسخر فرما دیا۔ اورشیاطین کو بھی اس طرح سے میرے لیےمسخر فرما دیا کہ اب یہ وہ کام کرتے ہیں جو میں ان سے چاہتا ہوں مثلاً بلند وبالا مکانات تعمیر کرنا، تصویریں بنانا، بڑے بڑے حوضوں کے برابر پیالے اور ایک ہی جگہ جمی ہوئی دیگیں بنانا۔ اورمجھے پرندوں کی بولی سکھائی، میرے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرمائی جو میرے بعد کسی کے لئے نہیں۔

تمحید عیسیٰ Alaihis Salam

پھر حضرت عیسیٰ Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی:

الحمد للّٰه الذي علمني التوراة والإنجيل، وجعلني أبرئ الأكمه والأبرص، وأحيي الموتى بإذنه، ورفعني وطهرني من الذين كفروا، وأعاذني وأمي من الشيطان الرجيم، فلم يكن للشيطان علينا سبيل. 33
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تورات اور انجیل سکھائی، مجھے پیدائشی اندھے اور کوڑھ کے مرض والے کو تندرست کرنے والا اور اپنے حکم سے مُردوں کو زندہ کرنے والا بنایا، مجھے آسمان پر اُٹھایا، مجھے کافِروں سے پاک کیا، مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے پناہ عطا فرمائی جس کی وجہ سے اُسے ہم پر کوئی راہ نہیں۔

تحمیدِ محبوب کبریاء ﷺ

جب مذکورہ بالا انبیاء Alaihmus Salam اللہ رب العزت کی حمد و ثناء بیان کرچکے توآپ Alaihis Salam نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ان الفاظ میں بیان فرمائی:

الحمد للّٰه الذي أرسلني رحمة للعالمين، وكافة للناس بشيرا ونذيرا، وأنزل علي الفرقان، فيه تبيان كل شيء، وجعل أمتي خير أمة أخرجت للناس، وجعل أمتي وسطا، وجعل أمتي هم الأولون وهم الآخرون، وشرح لي صدري، ووضع عني وزري، ورفع لي ذكري، وجعلني فاتحا وخاتما. 34
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور تمام انسانوں کے لئے خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔مجھ پر حق وباطِل میں فرق کرنے والی کتاب نازل فرمائی، جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے۔ میری امّت کو لوگوں کی نفع رسائی والی بہترین امّت بنایا، اورمیری امّت کو درمیانی امّت اور(مرتبہ میں) اول اور (ظہور میں) آخری امت بنایا۔ میرے لئے میرا سینہ کُشادہ فرمایا، مجھ سے بوجھ کو دُور فرمایا، میرے ذِکْر کو بلند فرمایا اور مجھے فاتِح اور خاتم (النبیین) بنایا۔

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء مکمل کرلی تو اس کے بعد حضرت ابراہیم Alaihis Salam نے تمام انبیاء کرام Alaihmus Salam کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا:

بهذا ‌فضلكم ‌محمد. 35
ان ہی کمالات کی وجہ سے محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تم سب پر فضیلت پائی ہے ۔

سفر کا دوسرا مرحلہ: معراج

جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیت المقدس کے مشاغل سے فارغ ہوئے تو اس کے بعد جنت الفردوس سے موتیوں کی ایک سیڑھی لائی گئی، جو انتہائی خوبصورت تھی ۔اُس کے ذریعے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جبریل Alaihis Salam کی معیت میں آسمانوں کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دائیں جانب بھی فرشتوں کی ایک جماعت تھی اور بائیں جانب بھی فرشتوں کی ایک جماعت تھی۔ 36 اس اثناء میں بُراق بدستور مسجدِ اقصی کے دروازے پر اُسی سابقہ حلقے کے ساتھ بندھا ہوا تھا تاکہ آسمانوں کے سفر سے واپسی پر اُس کے ذریعے مکہ مکرمہ واپس لوٹاجاسکے۔ 37بڑی عظمت و شان کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آسمانِ اول پر پہنچے۔ جبریل Alaihis Salam نے دروازہ کھُلوایا، وہاں کے فرشتوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوخوش آمدید کہا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آسمان میں داخل ہوئے تو وہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ملاقات حضرت آدم Alaihis Salam سے ہوئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اُن کو سلام کیا۔ اُنہوں نے سلام کا جواب دیا اورخوش آمدید کہا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے دُعاء خیر کی۔ 38

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ حضرت آدم Alaihis Salam کی دائیں جانب بھی کچھ صورتیں ہیں اور بائیں جانب بھی کچھ صورتیں ہیں۔ جب وہ دائیں جانب نظر ڈالتے ہیں تو خوش ہوتے اور ہنستےاور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو روپڑتے۔ حضرت جبریل Alaihis Salam نے بتلایاکہ دائیں جانب ان کی نیک اولاد کی صورتیں ہیں، یہ اصحاب یمین اور اہل جنت ہیں اوران کو دیکھ کر آدم Alaihis Salam خوش ہوتے ہیں اور بائیں جانب اولادِ بد کی صورتیں ہیں۔ یہ اصحاب شمال اوراہل نار ہیں، ان کو دیکھ کر یہ روتے ہیں۔ 39

بعد ازاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جبریل Alaihis Salam کی معیت میں یکے بعد دیگرے باقی آسمانوں پر تشریف لے گئے اور وہاں بھی مختلف انبیاء کرام Alaihmus Salam سے ملاقات ہوئی۔ چنانچہ دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ وحضرت یحییٰ Alaihmas Salam سے، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف Alaihis Salam سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس Alaihis Salam سے،پانچویں آسمان پر حضرت ہارون Alaihis Salam سے،چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ Alaihis Salam اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم Alaihis Salam سےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ملاقات ہوئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سب کو سلام کیا۔ سب نے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہا ۔ 40

بیت المعمور کی زیارت

حضرت ابراہیم Alaihis Salam کے ساتھ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ملاقات ہوئی تو اُس وقت وہ بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور فرشتوں کی عبادت گاہ ہے جو خانہ کعبہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر موجود ہے۔ حضرت جبریل Alaihis Salam نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بیت المعمور کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:

هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون ألف ملك، إذا خرجوا لم يعودوا إليه آخر ما عليهم. 41
یہ بیت المعمور ہے، جس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کرتے ہیں، جب فرشتوں کی کوئی ایک جماعت یہاں ایک بار عبادت کرکے نکل جائے تو پھردوبارہ کبھی اس کی باری نہیں آتی۔

حضرت ابراہیم Alaihis Salam نے دورانِ ملاقات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے فرمایا کہ اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ جنت کی مٹی بہت زرخیز اور اس کا رقبہ بہت وسیع ہے۔ اس لیے اس میں خوب شجر کاری کرویعنی کثرت سے سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر42 اور لاحول ولا قوة إلا بالله پڑھو،کیوں کہ یہی جنت کی شجر کاری ہے۔ 43

سدرۃ المنتہیٰ کی زیارت

بیت المعمور کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ یہ ساتویں آسمان پر بیری کا ایک درخت ہے۔ زمین سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ جاکر سدرۃ المنتہیٰ پر رُک جاتی ہے، پھر وہاں سے اوپر اُٹھائی جاتی ہے۔ اسی طرح ملأ اعلیٰ سے جو چیزاترتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر آکر ٹھہر جاتی ہے، پھر وہاں سے نیچے اترتی ہے، اس لیے اس کو سدرۃ المنتہیٰ کہتے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ اس بیری کے درخت کے بیر ہجر نامی مقام کے مٹکوں جیسے بڑے بڑے ہیں۔ اُس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے لمبے لمبے ہیں اور اس کی جڑ سے چار دریا نکل رہے ہیں، جن میں دو ظاہر اور دو پوشیدہ ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam كے پوچھنےپر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ پوشیدہ دو دریا جنت کے دریا ہیں، جب کہ ظاہر دو دریا ،دریائے نیل اور دریائے فرات ہیں۔ 44 اس درخت کو مختلف قسم کی اشیاء نے ڈھانپ رکھا تھا۔ 45 صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جس وقت اس درخت کو اللہ کے حکم سے کوئی شے ڈھانپ لیتی تو وہ تبدیل ہوجاتا، اور اُس وقت جو اُس کا حسن ہوتا اُسے مخلوق میں سے کوئی بھی بیان نہیں کرسکتا۔ 46

جبریل Alaihis Salam کااصلی صورت میں مشاہدہ

سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت جبریل Alaihis Salamکو اُن کی اصل صورت میں دیکھا ۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى 13 عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى 1447
اور تحقیق دوسری مرتبہ اُنہوں نے اُس (فرشتے) کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔

اور حدیث شریف میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمايا:

رأيت جبريل عند سدرة المنتهى، عليه ست مائة جناح، ينتثر من ريشه التهاويل: الدر والياقوت . 48
میں نے جبریل امین Alaihis Salam کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، اُن کے چھ سو پر تھے اور اُن کے پروں سے موتی، یاقوت اور لعل بکھر رہے تھے۔

مشاہدۂ جنت

سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جنت بھی ہے، 49 اس لیےیہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جنت کی سیر بھی کرائی گئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ جنت میں خوبصورت موتیوں کے شامیا نے تنے ہوئے تھے،اور اس کی مٹی مشک کی تھی۔ 50 جنت میں سیر کے دوران آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نظر ایک نہر پر پڑی، جس کے دونوں کناروں پر خالی موتیوں کے قبے نصب تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت کرنے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ وہی نہرِ کوثر ہے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رب نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عطا کی ہے۔ 51

مشاہدۂ جہنم

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سفرِ معراج میں جہنم کا مشاہدہ بھی کرایا گیا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ نافرمان لوگوں پر اللہ کے غضب، غصہ اور ناراضگی کی وجہ سے جہنم کی آگ خوب جوش مار رہی تھی، اور اس قدر گرم تھی کہ اگر اس میں پتھر اور لوہا ڈالا جاتا تو اُنہیں بھی جلا کر بالکل ختم کردیتی۔ بعد ازاں اُسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے سے ہٹادیا گیا۔ 52

جبریل امین Alaihis Salam کا سدرۃ المنتہیٰ پر ٹھہر جانا

سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جب جنت اور جہنم کے مشاہدہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فارغ ہوئے تو جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے عرض کیا کہ میرا انتہائی مقام یہی ہے۔ میں اگر یہاں سے آگے جاؤں گا تو جل جاؤں گا۔ یہاں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تنہا ہی اپنے رب سے ہم کلامی کے لیے آگے بڑھیں۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ اگر آپ Alaihis Salam کی کوئی حاجت ہو تومجھے بتائیں تاکہ وہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کروں۔اس پر جبریل امین Alaihis Salam نےعرض کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے رب سے میرے لیے یہ اختیار مانگ لیجیے کہ میں قیامت کے دن پل صراط پر اپنے پَر پھیلا کر کھڑا ہوجاؤں، تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کے لوگ میرے پروں سے ہوکر خیریت سے گزر سکیں۔ 53

مقامِ صریف الاقلام

لکھتے وقت قلم سے ایک خاص قسم کی آواز نکلتی ہے،جس کو صریف الاقلام کہتے ہیں۔معراج کے موقع پر جنت وجہنم کا مشاہدہ کرنے کے بعد جب جبریل امین Alaihis Salam سدرۃ المنتہیٰ کے پاس رہ گئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس ایک بدلی (بادل کی مثل سواری) لائی گئی۔ 54 اس کے ذریعے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک ایسے مقام پر لےجایا گیا جہاں لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تقدیر کو نقل کرنے والےفرشتوں کے قلموں کی آواز آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے سماعت فرمائی۔ 55چنانچہ حدیث شریف میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :

ثم عرج بي، حتی ظھرت لمستوي أسمع فیه صریف الأقلام. 56
پھر مجھے اوپر لے جایا گیا، یہاں تک کہ میں ایک ایسی جگہ جا پہنچا، جہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی

مقام صریف الاقلام سے آگے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو نور کے پردوں میں لے جایا گیا، چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نور کے ستر ہزار پردے پار کیے،جن میں سے ہر پردہ اپنی مثال آپ تھا۔ ہر پردے اور حجاب کی موٹائی اتنی تھی کہ ایک اندازے کے مطابق ہر پردے کو پار کرنے کے لئے پانچ سو سال لگ جائیں۔ اس مقام پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کسی فرشتے کی موجودگی کا احساس نہیں رہا، جس کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وحشت محسوس ہوئی۔ چوں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوحضرت ابوبکر Radi Allah Anho کے ساتھ خاص اُنس اور لگاؤ تھا ، اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وحشت دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب سےحضرت ابوبکر Radi Allah Anho کی آواز میں ندا کی گئی ۔ اس ندا میں پکارنے والے نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ٹھہرنے کے لئے کہا اور پھر اس نے بتایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا رب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر صلاۃپڑھ رہا ہے یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت پر اپنی خاص رحمت بھیج رہا ہے۔بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے قریب کیا اور ہم کلامی اور قربت خاص کےشرف سے نوازا۔ 57

علوم کا القاء

یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب اطہر پر مختلف علوم بھی القاء فرمائے۔ ان میں کچھ علوم وہ تھے جن کو بوجوہ چھپائے رکھنے کا حق تعالیٰ نے حکم دیا۔ اسی طرح کچھ وہ علوم تھے جن کے بارے میں دوسروں کو بتانے یا نہ بتانے کا حق تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اختیار دیا۔ کچھ وہ علوم تھے جن کو اپنی امت کے خاص اور عام سب لوگوں کو پہنچانے کا حکم فرمایا۔ بعد ازاں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ جبریل Alaihis Salamنے جو کچھ مانگا میں نے اس کو دے دیا، لیکن صرف ان لوگوں کے حق میں جنہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھی ہوئے۔58

حق تعالیٰ کی طرف سےتحائف

اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تین عظیم تحائف سے نوازا۔ ایک تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پچاس نمازیں عطا فرمائیں، یعنی دن رات میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔دوسرا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کا تحفہ عنایت فرما یا، جن میں اس امت پر حق تعالیٰ کی طرف سے کمال رحمت، لطف و عنایت، تخفیف وسہولت، عفو ومغفرت اور کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کا مضمون ہے۔تیسرا تحفہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ عطا کیا گیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت میں سے جو بھی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف فرما دے گا 59یعنی گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافروں کی طرح ہمیشہ جہنم میں نہیں رکھے گا۔ 60کسی کو انبیاء Alaihmus Salam کی سفارش سے، کسی کو فرشتوں کی سفارش سے، کسی کو صالح مؤمنین کی سفارش سے اور کسی کواپنی خاص رحمت وعنایت سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا۔ غرض جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا بالآخر اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمادے گا۔61

آسمانوں سے واپسی اور موسیٰ Alaihis Salam کا نمازوں میں تخفیف کامشورہ

اللہ تعالیٰ کی طرف سےاس مقام قرب میں گوناگوں الطاف وعنایات سے نوازے جانےاور قیمتی تحائف دیے جانے کے بعدآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بصد ہزار مسرت و ابتہاج واپس ہوئے۔ جب حضرت موسیٰ Alaihis Salam کے پاس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر ہوا تو ان کےدریافت فرمانے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بتایا کہ دن رات میں پچاس نمازوں کا تحفہ ملا ہے۔ موسیٰ Alaihis Salam نے فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کر چکا ہوں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت ضعیف اور کمزور ہے، وہ اس فریضہ کو انجام نہیں دے سکے گی، اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam واپس گئے اور حق تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی، تو حق تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ پھر موسیٰ Alaihis Salam کے پاس آئے، انہوں نے پھر یہی بات کہی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پھر تشریف لے گئے اور تخفیف کی درخواست کی، حق تعالیٰ نے مزید پانچ نمازیں کم کردیں۔ پھر موسیٰ Alaihis Salam کے پاس آئے،اُنہوں مزید تخفیف کی درخواست کا مشورہ دیا۔ غرض اس طرح متعدد بار تخفیف کے بعد جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ دن، رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک نماز دس نمازوں کے برابر ہے یعنی پانچ نمازیں ثواب میں پچاس کے برابر ہیں۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ جو شخص کسی نیکی کے کام کا محض ارادہ کرے اور پھر وہ نیکی کا کام نہ کرے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو ارادہ کرنے کے بعد اس نیکی کے کام کو کر بھی لے تو اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملےگا۔ اور جو شخص کسی گناہ کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو اسے کوئی گناہ نہ ملے گااور اگر ارادہ کرنے کے بعد وہ گناہ کا کام کرلے تو صرف ایک ہی گناہ شمار ہوگا۔ اس کے بعد جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت موسیٰ Alaihis Salam کے پاس آئے تو اُنہوں نے پھر سے مزید تخفیف کی درخواست کا مشورہ دیا لیکن اس بار آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ کہتے ہوئے انکار فرما دیا کہ انہوں نے بار باررب تعالیٰ کے حضور تخفیف کی درخواست کی، اب مزید تخفیف کی درخواست کرنے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوحق تعالیٰ سے حیا آتی ہے۔ 62 اس طرح سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آسمانوں سے واپس ہوئے، اولاً بیت المقدس میں آکر اترے اور وہاں سے براق پر سوار ہو کر صبح سے پہلے مکہ مکرمہ واپس پہنچ گئے ۔ 63

قریش کو سفرِ معراج کی اطلاع

صبح ہوتے ہی رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی Radi Allah Anha سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کیاکہ قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے، وہ لوگ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جھٹلائیں گے اور مزید اذیت دیں گے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ وہ اُنہیں ضرور اس کی خبر دیں گے۔ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خانہ کعبہ تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے پاس قریش کے بڑے بڑے رؤساء جمع تھے۔ 64 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ 65 کفارو مشرکین یہ سن کر ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابوجہل نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے استفسار کیا کہ کیا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پوری قوم کے سامنےیہ بات کہنے کے لئے تیار ہیں۔ جس پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے مثبت جواب عطا فرمایا۔ ابوجہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع ہوگئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سارا واقعہ بیان کرنے کو کہا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بیان پرکفار تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مذاق اڑانے لگے ۔

ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔ انہوں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس سے پہلے بیت المقدس نہیں گئے۔اگر واقعی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بات سچی ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam واقعی گزشتہ رات بیت المقدس گئے ہیں تو بتائیےکہ اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بیت المقدس کو دیکھا تو تھا لیکن خوب اچھی طرح اس کی ہر ہر چیز کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ نہیں کیا تھا۔ اس لئے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس حوالے سے بےچین ہوئے تواللہ جل شانہ نے بیت المقدس کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے اس طرح پیش فرمادیا کہ قریش مکہ جو کچھ بھی پوچھتے رہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیت المقدس کو اپنے سامنے دیکھ کراس کا جواب دیتے رہے۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بیت المقدس کی سب علامات بتادیں تو وہ لوگ جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بات میں شک کرنے کی وجہ سے بیت المقدس کی نشانیاں دریافت کر رہے تھے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! بیت المقدس کے بارے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےسب ٹھیک ٹھیک بیان فرمایاہے۔ 66

مزید تفصیلات کی آگاہی کے لئے وہ راستے میں موجود اپنے قافلوں کا احوال دریافت کرنے لگے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک قافلے کا احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا اس لئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قافلے والوں کو بتایا کہ انکا اونٹ فلاں جگہ پر ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے۔ واپسی پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ وہ مقامِ ضجنان پے سورہے ہیں۔ایک برتن میں پانی تھا جسے انہوں نے کسی چیز سے ڈھانک رکھا تھا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کا ڈھکن ہٹایا اور پانی پی کر اسی طرح ڈھانک دیا جس طرح سے ڈھکا ہوا تھا۔ 6768 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مزید فرمایا کہ وہ قافلہ ابھی تنعیم کی گھاٹی سے ظاہر ہونے والا ہے۔ان کے آگے آگے ایک چتکبرے رنگ کا اونٹ ہے، اس کے اوپر سامان کے دو بورے ہیں، ایک سیاہ رنگ کا، اور دوسرا سفید رنگ کا ۔ یہ بات سن کر وہ لوگ جلدی جلدی تنعیم کی گھاٹی کی طرف چل دیے۔ وہاں دیکھا کہ واقعی مذکورہ قافلہ آرہاہے اور اس کے آگے وہی اونٹ ہے۔ جب قافلہ قریب پہنچا تو ان لوگوں نے قافلے والوں سے پوچھا کہ انہوں نے کسی برتن میں پانی رکھا تھا۔ انہوں نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک برتن میں پانی ڈھانک دیا تھا، پھر دیکھا کہ وہ برتن اسی طرح ڈھکا ہوا ہے، لیکن اس میں پانی نہیں ہے۔ پھر قافلہ والوں سے سوال کیا گیاکہ کیا ان کا کوئی اونٹ بدک گیا تھا۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک اونٹ بدک کر چلا گیا تھا، پھر انہوں نے ایک آدمی کی آواز سنی جو انہیں بلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ تمہارا اونٹ ہے، یہ آواز سن کر انہوں نے اپنا اونٹ پکڑ لیا۔ 69جب کفارِ قریش نے دیکھا کہ قافلہ والوں نے بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تصدیق کردی توکہنے لگے کہ ولید ٹھیک کہتا ہے، ایسی بات تو پہلے کبھی کسی سے نہیں سنی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جادوگر کہہ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تکذیب کرنے لگے۔ 70

واقعۂ معراج اور حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho

ام المؤمین حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha سے روایت ہےکہ جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی گئی، او رآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صبح لوگوں کو خبر دی، تو مؤمنوں میں سے بعض نے تصدیق کی اوربعض تذبذب کا شکار ہوگئے۔اسی اثناء میں کچھ مشرکین حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho کے پاس آ کر کہنے لگےکہ کیا وہ اس بات کی تصدیق کر تے ہیں جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کہی ہے کہ اُنہوں نے راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کی۔ حضرت ابو بکر Radi Allah Anho نے فرمایا:

أَوقال ذٰلک؟
کیا واقعی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ فرمایا ہے؟

اُن لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ Radi Allah Anho نے ارشاد فرمایا:

لئن كان قال ذٰلک لقد صدق.
اگر آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔

لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آ گئے؟ آپ Radi Allah Anho نے فرمایا:

نَعَمْ! إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك أصدقه بخبر السماء في غدوة أو روحة. 71
جی ہاں! میں تو ان کی آسمانی خبروں کی بھی صبح وشام تصدیق کرتا ہوں اور یقیناً وہ تو اِس بات سے بھی زِیادہ حیران کُن اور تَعَجُّب خیز ہے۔

واقعۂ معراج کی اس طرح سے فوراً تصدیق کرنے کی وجہ سے آپ Radi Allah Anho کو صدّیق کا لقب ملا ۔

سفرِ معراج کے بعض مشاہدات

سفرِ معراج میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دِکھائیں اور بہت سارے عجیب وغریب مشاہدات کرائے جو احادیث اور شروح احادیث میں جگہ جگہ منتشر ہیں۔ کچھ مشاہدات کا تذکرہ اوپر واقعہ معراج کے ضمن میں ہوا اور کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

دنیا کا عورت کی صورت میں ظہور

معراج کی رات مسجدِ اقصیٰ کی طرف جاتے ہوئےرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر ایک عورت پر ہوا،جس کے اوپر ہرطرح کی زیب وزینت کا سامان تھا اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکار رہی تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی طرف بُلا رہی تھی لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی طرف توجہ نہیں دی، اور برابر چلتے رہے۔ مسجد اقصیٰ پہنچنے کے بعد جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بتایا کہ وہ عورت دنیا تھی جو مزین ہوکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سامنے آئی تھی۔ اگرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کی آواز پر ٹھہر جاتے تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت دنیا کوآخرت پر ترجیح دیتی ۔ 72

شیطان کا انسان کی صورت میں ظہور

معراج ہی کی رات مسجدِ اقصی کی طرف جاتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ ایک شخص راستے سے ایک طرف کو ہٹ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آواز دے رہا ہے اور اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے عرض کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چلتے رہیئے۔ چنانچہ جتنا اللہ تعالیٰ نے چلانا چاہا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چلتے رہے۔ بیت المقدس پہنچنے کے بعد جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بتایا کہ وہ راستے سے ایک طرف کو ہٹ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکارنےوالاشخص ابلیس تھا، جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتاتھا۔ 73

یہودیت اور نصرانیت کے داعی پر گزر

بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے ایک جگہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے دائیں طرف سے ایک شخص کےپکارنے کی آواز سنی ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور برابر چلتے رہے۔ پھر اپنے بائیں طرف سے بھی ایک شخص کے پکارنے کی آواز سنی، جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ٹھہرنے کے لئے اور رکنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں کی اور برابر چلتے رہے۔ بیت المقدس پہنچنے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ وہ دائیں طرف سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکارنے والا شخص یہودیت کا داعی تھا، اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کی آواز پر ٹھہر جاتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت یہودی ہوجاتی۔ اور بائیں طرف سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکارنے والا شخص نصرانیت کا داعی تھا، اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس کی آواز پر ٹھہر جاتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت نصرانی بن جاتی۔ 74

ابراہیم Alaihis Salam، موسیٰ Alaihis Salam اور عیسیٰ Alaihis Salam کا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سلام کرنا

معراج کے سفر میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر تین لوگوں پر ہوا۔ یکے بعد دیگرےاُن میں سے ہر ایک نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam كو سلام كیا۔جبریل Alaihis Salam کے کہنے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ہر ایک کو سلام کا جواب دیا۔ بیت المقدس پہنچنے پر جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بتایا کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سلام کرنے والے تین لوگ حضرت ابراہیم Alaihis Salam ،حضرت موسیٰ Alaihis Salam اور حضرت عیسیٰ Alaihis Salam تھے۔ 75

بے عمل واعظ

حضرت انس Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا کہ معراج كی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ جب جبرئیل Alaihis Salam سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےان کے بارے میں دریافت کیا توانہوں نے بتایا کہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو تو بھلائی کا حکم دیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کے وہ خطیب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے، اور اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور اس پرعمل نہیں کرتے ہیں۔ 76

غیبت کرنے والے

حضرت انس Radi Allah Anho سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کاگزر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے، اور وہ ان سےاپنے چہروں اورسینوں کو چھیل رہے تھے۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جبریل Alaihis Salam سے ان کے بابت دریافت کیا تو جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں، یعنی ان کی غیبت کیا کرتے ہیں، اور ان کی بے آبروئی و بے عزتی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ 77

سود خور

حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا کچھایسے لوگوں پر گزرہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے انسانوں کے رہنے کے گھر ہوتے ہیں۔ اُن کے پیٹوں میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جبریل Alaihis Salam سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کے سود خور لوگ ہیں جو سود کا کاروبار کیا کرتے تھے اور سود کھایا کرتے تھے۔78

یتیموں کا مال کھانے والے

معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایسی قوم کو دیکھا جن کےہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے، اور اُن کے منہ میں پتھر ٹھونسے جارہے تھے جو دوسری جانب ان کے مخارج سے نکل رہے تھے۔ یہ سزا اِسی طرح مسلسل جاری تھی۔ آ پ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے بابت جبریل Alaihis Salam سے دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ناحق طور پر یتیموں کا مال کھاکر اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں اورعنقریب یہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ 79

فرشتوں کاحجامہ کی تاکید کرنا

حضرت عبداللہ بن عمر Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے معراج کے سفرمیں پیش آنےوالے احوال بیان کرتے ہوئے ایک بات یہ بھی ارشاد فرمائی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam معراج کی رات جس آسمان سے بھی گزرتے تووہاں کے فرشتے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ تاکید کرتےکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی امت کو حجامہ یعنی پچھنے لگانے کا حکم دیجئے کیوں کہ یہ بہترین علاج ہے۔ 80

مجاہدین کا ثواب

معراج کی رات رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک ایسی قوم کو دیکھاکہ جو ایک ہی دن میں تخم ریزی بھی کر لیتے ہیں اور ایک ہی دن میں کھیتی کاٹ بھی لیتے ہیں، اور کاٹنے کے بعد پھر کھیتی ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے پہلے تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کےبارے میں جبریل Alaihis Salamسے دریافت فرمایاتو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ ان کی ایک نیکی سات سو گنا تک بڑھادی جاتی ہے اور یہ لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا بدل انہیں عطا فرماتا ہے۔ 81

نماز میں سستی کرنے والے

معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک ایسی قوم پر بھی گزر ہوا جن کے سرپتھروں سے کچلے جارہے تھے اور کچلے جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے جیسے پہلے تھے، اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےدریافت فرمانے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نمازوں سےبوجھل ہوجاتے ہیں یعنی نماز میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں 82یہ ان کی سزا ہے کہ اللہ کے فرشتے ان کے سروں کو کچل رہے ہیں اور یہ عمل تسلسل سے جاری ہے۔

زکوۃ نہ دینے والے

معراج ہی کے سفر میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک اور قوم پر گزر ہوا ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ ان کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں، اور وہ اونٹوں اور بیلوں کی طرح چَرتے ہیں، اور ضریع اور زقوم یعنی کانٹے دار اور خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھار ہے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت فرمانے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ نہیں دیتے تھے۔ 83

زنا کار

سفرِ معراج میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک قوم پر گزر ہوا۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا تازہ گوشت رکھا گیاہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا گیاہے۔ یہ لوگ سڑا ہوا ، کچاگوشت کھا رہے ہیں، اور پکا ہوا تازہ گوشت نہیں کھاتے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت فرمانے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کے وه اشخاص ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورتیں موجود تھیں مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ شب باشی کرتے تھے اور صبح تک انہی کے پاس رہتے تھے اور یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت کی وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہروں کو چھوڑ کر کسی زانی اور بد کار شخص کےساتھ رات گزارتی تھیں۔ 84

ڈاکہ ڈالنے والے

معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک ایسی لکڑی پر گزر ہوا جو راستے میں کھڑی تھی اور جو بھی کپڑا یا کوئی اور شے اس کے پاس سےگزرتی اُسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت کرنے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی امت میں سے ان لوگوں کی مثال ہے جو راستے میں بیٹھ کر لوگوں کے اموال لوٹتے ہیں یعنی ڈاکہ زنی کرتے ہیں۔ 85

امانت ادا کرنے سے عاجز شخص

ایک شخص پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر ہوا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھا کہ اس کے پاس لکڑیوں کا بہت بڑا گٹھا ہے۔ وہ اسے اُٹھا نہیں سکتا، لیکن چاہتاہے کہ اُسے اور زیادہ بڑھائے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت فرمانے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں، یہ ان کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا مگر مزید امانتوں کا بوجھ اپنے سر لینے کو تیار ہے۔ 86

گناہ کی بات کرنے والے شخص کی ندامت

دورانِ سفر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایک ایسے سوراخ پر گزر ہوا جو چھوٹا سا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیکھاکہ اس میں سے ایک بڑا بیل نکلا۔نکلنے کے بعد وہ بیل چاہتا تھا کہ جہاں سے نکلا ہے وہی پھر داخل ہو جائے، لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے استفسار کرنے پر جبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ وه شخص ہے جو کوئی بڑی گناہ کی بات کہہ دیتا ہے پھر اس پر نادم ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو واپس کر دے، مگر اس کے واپس کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ 87

جنت کی خوشبو

معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک ایسی وادی پر پہنچے جہاں خوب اچھی مشک کی خوشبو اورعمدہ آواز آرہی تھی ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت فرمانے پرجبریل Alaihis Salam نے بتایا کہ یہ جنت کی آواز ہے، وہ اللہ سبحانہ تعالی سےکہہ رہی ہے کہ جو لوگ اس کے اندر رہنے والے ہیں ان کو جلد اس میں داخل فرما کر اپنا وعدہ پورا فرما۔ 88

دوزخ کی آواز

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر ایک اور وادی پرہوا، وہاں صوت منکر یعنی اک ایسی آواز سنی جوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لئے کافی ناگوار تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت فرمانے پرجبریل Alaihis Salam نے بتایاکہ یہ جہنم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کر رہی ہے کہ جو لوگ میرے اندر رہنے والے ہیں ان کو لے آ اور اپنا وعدہ پورا فرما۔ 89

ماشطۂ بنت فرعون کی خوشبو

شبِ معراج ، جنت کی سیر کرتے کرتے ایک جگہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو انتہائی عمدہ خوشبو آئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اُس کے بارے میں حضرت جبریل Alaihis Salam سے دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک دن یہ خاتون فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھیں کہ کنگھی ہاتھ سے گر پڑی۔ اس پر انہوں نے کہا: بسم الله۔ فرعون کی بیٹی نے جو یہ سنا تو تلملا اٹھی اور کہنے لگی جس کاتونے نام لیا کیا وہ میرا باپ ہے؟ اس نیک بندی نے جواب دیا:

لا، ولٰكن ربی ورب أبیك اللّٰه.
نہیں،میرا اور تمہارے باپ کا رب اللہ ہے۔

خادمہ کا جواب سن کر فرعون کی بیٹی مزید ورطۂ حیرت میں پڑ گئی اور غصے سےلال پیلی ہوکردھمکی دیتے ہوئے کہنے لگی کہ وہ اپنے باپ کو اس کی خبر ضرور دے گی۔ جب اس نے فرعون سے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہ سخت برہم ہوا اور جلدی سے اسے دربار میں بلوا کر پوچھا کہ کیا اس کے سوا بھی کوئی رب ہے۔جب اس نے فرعون کے سامنے توحید باری تعالی کا اظہار کیا تو فرعون نے تانبے کےدہکتے ہوئے برتن میں اس بی بی کو اس کے بچوں سمیت پھینکنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر اس اللہ والی نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا کہ اسکی اوراس کے بچوں کی ہڈیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا کر کے ایک جگہ دفن کیا جائے ۔ پھر اس کے سامنے اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس دہکتے ہوئے برتن میں پھینکا جانے لگا۔ آخر جب اس کے شِیر خوار بچے سمیت اسے پھینکا جانے لگا تو وہ اپنے اس بچے کی وجہ سے قدرے ہچکچائی۔ توفیق الہی سے وہ نومولود گویا ہوا:

يَا أمه! اقْتحمي؛ فإن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة.
اے ماں ! کود جاؤ ، بلاشبہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں ہیچ ہے۔

چنانچہ اپنے بچے کی یہ بات سن کر اس نے بھی آتشیں برتن میں چھلانگ لگا دی ۔سید نا ابن عباس Radi Allah Anhuma کا قول ہے کہ بچپن میں چار بچوں نے کلام کیا: عیسی ابن مریم Alaihmas Salamنے، صاحب جریج نے، حضرت یوسف Alaihis Salam کے گواہ اور دختر فرعون کی خادمہ کے بیٹے نے۔ 90

حضرت عمر Radi Allah Anhoکے محل کا مشاہدہ

حضرت جابر Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ معراج کی رات میں جنت میں داخل ہوا ، وہاں میں نے ایک محل دیکھا، جو سونے اور موتیوں سے بنا ہوا تھا۔میرے دریافت کرنے پر مجھے بتا یا گیا کہ یہ عمر بن خطاب Radi Allah Anho کا محل ہے۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عمر Radi Allah Anho سے فرمایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کہ اس محل میں داخل ہونے میں عمر بن خطاب Radi Allah Anho کی غیرت کے سوا کوئی شے مانع نہیں تھی۔ جس پرحضرت عمر Radi Allah Anho نے بےتاب ہوکر فرمایا کہ بھلا وہ آپ Radi Allah Anho سےکیوں کرغیرت کرسکتے ہیں۔ 91

حضرت بلال Radi Allah Anho کے قدموں کی آہٹ سننا

حضرت عبد اللہ بن عباس Radi Allah Anhuma سے روایت ہے کہ معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جنت میں داخل ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک کونے سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دریافت فرمانے پر جبریل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بتایا کہ یہ بلال Radi Allah Anho کے چلنے کی آہٹ ہے۔ پھر صبح کوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لوگوں کو اس کی خبر دی اور فرمایا کہ بلال Radi Allah Anho کامیاب ہوگئے۔ 92

حضرت غمیصاء Radi Allah Anha کے قدموں کی آہٹ سننا

حضرت انس Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ معراج کی رات انہوں نے غمیصاء بنت ملحان Radi Allah Anha جن کو رمیصاء بھی کہا جاتا ہے، ان کے قدموں کی آہٹ سنی جو حضرت انس بن مالک Radi Allah Anho کی والدہ تھیں۔ 93

حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کی حور کودیکھنا

حضرت ابوسعید خدری Radi Allah Anho کی ایک طویل حدیث ہے۔ اس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam معراج کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جنت میں داخل ہوئےتو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک سرخ وسیاہ رنگ کی آمیزش والی خوبصورت لڑکی دیکھی۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسکے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ زید بن حارثہ Radi Allah Anho کی حور ہے۔ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے زید بن حارثہ Radi Allah Anhoکو اس کی خوشخبری سنائی۔ 94

حضرت صالح Alaihis Salam کی اونٹنی کے قاتل کے انجام کامشاہدہ

معراج کی رات رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جہنم میں ایک شخص کو دیکھا، جس کا رنگ سرخ، آنکھیں نیلی، بال گھنگھریالے تھے اور وہ بُرے حال میں تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے بارے میں جبریل Alaihis Salam سے دریافت فرمایا، توانہوں نے بتایاکہ یہ حضرت صالح Alaihis Salam کی اونٹنی کا قاتل ہے۔ 95

مسیح دجال کا مشاہدہ

معراج کے موقع پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسیح دجال کو بھی دیکھا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہےکہ معراج کی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا گزر ایک ایسے آدمی پر ہوا جس کے بال انتہائی گھنگھریالےتھے۔ اس کی دائیں آنکھ بھینگی تھی، جیسے خوشۂ انگور میں سے ابھرا ہوا دانہ ہوتا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جبریل Alaihis Salam سے اس کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مسیح دجال ہے۔ 96

معراج میں دیدارِ الٰہی

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha اور حضرت عبداللہ بن مسعود Radi Allah Anho کے نزدیک رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کیا ہے۔ 97 چنانچہ حضرت مسروق Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ میں ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha کی خدمت میں حاضر تھا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

يا أبا عائشة، ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على اللّٰه الفرية، قلت: ما هن؟ قالت: من زعم أن محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على اللّٰه الفرية، قال: وكنت متكئا فجلست، فقلت: يا أم المؤمنين، أنظريني، ولا تعجليني، ألم يقل اللّٰه عز وجل: {ولقد رآه بالأفق المبين}، {ولقد رآه نزلة أخرى}؟ فقالت: أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: إنما هو جبريل، لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين، رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض، فقالت: أو لم تسمع أن اللّٰه يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير}، أو لم تسمع أن اللّٰه يقول: {وما كان لبشر أن يكلمه اللّٰه إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم}؟ الحدیث. 98
ترجمہ: اے ابو عائشہ (یہ حضرت مسروق Radi Allah Anho کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں جس نے ان میں سے کوئی ایک بات بھی کی، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ میں نے پوچھا کہ : وہ کیا ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں بتائے کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا، میں ٹیک لگائے ہوئے تھا ، اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا : اے ام المؤمنین Radi Allah Anha ! مجھے مہلت دیجیے اور جلدی نہ کیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا : ولقد رآه بالأفق المبين، ولقد رآه نزلة أخرى کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے افق مبین میں دیکھا۔اور دو بار دیکھا۔ آپ فرمانے لگی کہ: اس امت میں سے میں پہلی ہوں جس نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: وہ جبریل Alaihis Salam ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا جس پر وہ پیدا ہوئے تھے۔ میں نے انہیں اس حالت میں دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کی جسامت نے تمام آسمان اور زمین کو گھیر رکھا تھا۔ اے مسروقRadi Allah Anho ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا: لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر؟ (ترجمہ: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں، وہی ہے نہایت باریک بین خبردار۔) اور کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا: وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم (ترجمہ: کسی انسان کو یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سےکلام کرے مگر بذریعہ وحی یا پس پردہ یا کوئی فرشتہ بھیجے) ۔

مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha، بڑی شدت کے ساتھ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اپنے رب کو دیکھنے کا انکار کرتی تھیں۔اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود Radi Allah Anho نے بھی سورۃ النجم کی آیت: ماکذب الفؤاد ما رأی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت جبریل Alaihis Salam کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے:

عن عبد اللّٰه، {ما كذب الفؤاد ما رأى} قال: رأى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم جبريل في حلة من رفرف قد ملأ ما بين السماء والأرض 99
حضرت عبد اللہ بن مسعود Radi Allah Anho سے مروی ہے کہ انہوں نے سورۃ النجم کی آیت: ماکذب الفؤاد ما رأی کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جبریل Alaihis Salam کو ایک ریشمی پوشاک میں دیکھا کہ انہوں نے آسمان اور زمین کے مابین خلاء کو پُر کردیا۔

جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس Radi Allah Anhuma، حضرت ابوذر Rehmatullah Alaih، حضرت کعب Rehmatullah Alaih، حضرت حسن بصری Rehmatullah Alaih، امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaih، ابوالحسن الاشعری Rehmatullah Alaih اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت کے نزدیک رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے معراج کی شب اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ 100 چنانچہ حضرت عکرمہ Rehmatullah Alaih حضرت ابن عباس Radi Allah Anho سے نقل کرتے ہیں:

قال: رأى محمد ربه، قلت: أليس اللّٰه يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار} قال:ويحك، ذاك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره، وقد رأى محمد ربه مرتين. 101
حضرت ابن عباس Radi Allah Anho نے فرمایا کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ: کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں : لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر (ترجمہ:آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، اوروہ آنکھوں کا احاطہ کرلیتا ہے، وہ مہربان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔)؟ آپ Radi Allah Anho نے فرمایا : تیرا بھلا ہو! یہ اس وقت ہے کہ جب وہ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا خاص نور ہے۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن شقیق Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

قلت لأبي ذر، لو رأيت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لسألته فقال: عن أي شيء كنت تسأله؟ قال: كنت أسأله هل رأيت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألت، فقال: رأيت نورا. 102
میں نےحضرت ابوذر Radi Allah Anho سے عرض کیا کہ اگر میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زیارت کرتا تو میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ایک بات کے متعلق پوچھتا۔ حضرت ابوذر Radi Allah Anho نےفرمایا: کون سی بات کے متعلق پوچھتے؟ میں نے عرض کیا کہ : میں یہ پوچھتا کہ کیا آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) نےاپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابوذر Radi Allah Anho نے فرمایا کہ: میں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سےاس کے متعلق پوچھا کہ کیا آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ میں نے نور دیکھا ہے۔

علامہ بدرالدین عینی Rehmatullah Alaih اپنی شرح عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:

وحكى عبد الرزاق عن معمر عن الحسن أنه حلف أن محمدا رأى ربه. 103
عبد الرزاق نے معمر سے نقل کیا ہے کہ حضرت حسن بصری Rehmatullah Alaih قسم کھا کے فرماتے تھے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

علامہ عینی Rehmatullah Alaih ایک اور روایت بھی ذکر کرتے ہیں:

وأخرج ابن خزيمة عن عروة بن الزبير إثباتها وكان يشتد عليه إذا ذكر له إنكار عائشة، رضي اللّٰه تعالى عنها. 104
ابن خزیمہ Rehmatullah Alaih نے حضرت عروہ بن زبیر Radi Allah Anho سے رؤیت کا اثبات نقل کیا ہے اور یہ کہ جب حضرت عروہ Radi Allah Anho کے سامنے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے انکار کا ذکر ہوتا تو وہ رؤیت کے اثبات میں اور بھی شدت اختیار فرماتےتھے۔

قاضی عیاض مالکی Rehmatullah Alaih نے اپنی کتاب"الشفاء" میں حضرت معاذ Radi Allah Anho کی روایت نقل کی ہے:

عن معاذ عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال رأيت ربي. 105
حضرت معاذ Radi Allah Anho نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے روایت کرتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

مسند احمد میں اسی طرح کی مرفوع روایت حضرت ابن عباس Radi Allah Anha سےنقل کی گئی ہے:

عن ابن عباس، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: رأیت ربی تبارك وتعالىٰ. 106
حضرت ابن عباس Radi Allah Anha نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے روایت کرتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

قاضی عیاض مالکی Rehmatullah Alaih ابن اسحاق Rehmatullah Alaih سے نقل کرتے ہیں:

وذكر ابن إسحاق أن ابن عمر أرسل إلى ابن عباس رضي اللّٰه عنهما يسأله هل رأى محمد ربه فقال نعم والأشهر عنه أنه رأى ربه بعينه روي ذلك عنه من طرق. 107
ابن اسحاق Rehmatullah Alaih نے ذکرکیا ہےکہ حضرت ابن عمر Radi Allah Anhuma نے حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma کے پاس یہ پوچھنے کے لیے کسی کو بھیجا کہ کیا محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا: جی ہاں۔ اور اُن سے مختلف طرق سے مروی مشہور روایت یہی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا۔

ابن خزیمہ Rehmatullah Alaih نے حضرت انس Radi Allah Anho سے نقل کیا ہے:

عن أنس قال: رأي محمد ربه. 108
حضرت انس Radi Allah Anho نے فرمایا کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

حافظ ابن حجر Rehmatullah Alaih نے فتح الباری میں مروزی سے امام احمد Rehmatullah Alaih کا قول نقل کیا ہے:

عن المروزي قلت لأحمد: إنهم يقولون : إن عائشة قالت : من زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم على اللّٰه الفرية . فبأي شيء يدفع قولها؟ قال :بقول النبي صلى اللّٰه عليه وسلم رأيت ربي. قول النبي صلى اللّٰه عليه وسلم أكبر من قولها. 109
مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل Rehmatullah Alaih سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha یہ کہا کرتی تھیں کہ جس نے یہ کہا کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا۔ تو حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے اس قول کا جواب کس چیز سے دیا جائے؟ تو آپ Rehmatullah Alaih نے فرمایا کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اس ارشاد"رأیت ربی" کے ساتھ حضرت عائشہ Radi Allah Anhaکے قول کا جواب دیاجائے، اور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قول حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے قول سے بہت بڑا ہے۔

امام نووی Rehmatullah Alaih نےمذکورہ مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ رؤیت باری تعالی کے بارے میں کئی ساری روایات کی بنیاد پر اکثر علماء کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے معراج کے موقع پر اپنی مبارک آنکھوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

فالحاصل: أن الراجح عند أكثر العلماء : إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه بعيني رأسه ليلة الإسراء لحديث بن عباس وغيره مما تقدم. وإثبات هذا لا يأخذونه إلا بالسماع من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم. 110
پس حاصل یہ ہے کہ ابن عباس Radi Allah Anhuma کی حدیث اور دوسری احادیث جو گزرگئی ہیں کی بنیاد پر اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ معراج کی رات رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ اور اس بات کا اثبات رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے سنے بغیر حاصل نہیں کیاجاسکتا۔

جہاں تک حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے قول کی بات ہے تو ان کے پاس اپنے اس قول پر کوئی مرفوع حدیث نہیں ہےجس میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا ہو کہ میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا ہے بلکہ یہ آپ Radi Allah Anha کا ذاتی اجتہاد تھا جو انہوں نےفرمایا اور جب کسی صحابی یا صحابیہ کے قول میں کوئی اور صحابی اس کی مخالفت کرے تو پھر اس کا قول حجت نہیں رہتا۔ یہاں مسئلہ ہذا میں ابن عباس Radi Allah Anhuma اور دیگر کئی صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے ام المؤمنین حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے اختلاف کیاہے۔اور پھر حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma نے تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف ایک ایسی بات کی نسبت کی ہے جو عقل وقیاس کی بنیاد پرنہیں کی جاسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma کے پاس ضرور کوئی مرفوع حدیث تھی۔ 111

نیز مسند احمد کی روایت جو اوپر ذکر ہوئی اس میں حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے مرفوعاًنقل کرتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود فرمایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کودیکھا 112 نیز قاضی عیاض Rehmatullah Alaih نے حضرت معاذ Radi Allah Anho سے بھی اسی طرح کی مرفوع حدیث نقل کی ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ 113

اب ایک جانب ام المؤمنین حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا قرآن کریم کی آیتوں سے استدلال ہے اور دوسری جانب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مرفوع حدیث ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مرفوع حدیث کو ترجیح حاصل ہوگی۔ 114 نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود Radi Allah Anho نے بھی کوئی مرفوع حدیث ذکر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے صرف سورۃ النجم کی آیت کی تفسیر کی ہے کہ ان کے نزدیک سورۃ النجم کی مذکورہ آیت میں جبریل Alaihis Salam کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ 115

حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے جوپہلی آیت استدلال میں پیش فرمائی اس میں اللہ تعالیٰ کے ادراک کی نفی ہے، اور ادراک کسی شے کے مکمل احاطہ کو کہتے ہیں۔ تو آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے مکمل احاطہ کرنے کی نفی ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مکمل احاطہ آنکھیں نہیں کرسکتیں اور مکمل احاطہ کی نفی سے بغیر احاطہ رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی۔ دوسری روایت میں تین صورتوں کے علاوہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام کی نفی ہےکہ تین صورتوں کے علاوہ کسی اور صورت میں اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کی کسی بشر میں طاقت نہیں۔ اورکلام کی نفی سے بھی بغیر کلام رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی۔ 116

مذکورہ بالادلائل اور توضیحات سے ثابت ہوا کہ اکثرعلمائے امت کے نزدیک راجح قول یہ ہی ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے معراج کی رات اپنے رب کا دیدار کیا ہے 117 اور اسی اختصاص کی وجہ سے قرآن کریم میں اس واقعے کو نہایت عظمت اور شان سے بیان کیا گیا ورنہ جبرئیل امین Alaihis Salam تو ایک دن میں بھی کئی کئی بار دربار رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں حاضری کے شرف سے بازیاب ہوا کرتے تھے ان کی زیارت یا ملاقات کے ذکر کو اس مہتم بالشان طریقے سے کرنے کی قرآن حکیم میں حاجت نہ تھی۔

معراج کا سفر جسمانی تھا یا روحانی

جمہور اہل سنت کے نزدیک رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوبیداری کی حالت میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ معراج کرائی گئی ، چنانچہ ملا جیون Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

و الأصح أنه كان فى اليقظة و كان بجسده مع روحه، و عليه اهل السنة والجماعة فمن قال: انه بالروح فقط أو في النوم فقط فمبتدع، ضال، مضل، فاسق. 118
اصح قول یہ ہے کہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج شریف حالتِ بیداری میں جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ ہوئی، یہی اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے، لہٰذا جو شخص کہے کہ معراج صرف جسم کے ساتھ ہوئی یا نیند کی حالت میں ہوئی وہ بدعتی، گمراہ، گمراہ گر اور دائرہ اطاعت سے خارج ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے لفظ "سبحان "استعمال کرنا یہ حقیقت واضح کر رہا ہے کہ یہ صرف خواب کا واقعہ نہیں تھا،کیونکہ لفظ "سبحان "کسی بڑی حقیقت اور کسی عجیب وغریب بات کے متعلق اطلاع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ محض خواب ہوتا تو اسے لفظ "سبحان " سے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ خواب میں لمبے سے لمبا سفر کرلینا کوئی تعجب کی بات نہیں۔نیزقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسراء کا واقعہ بیان کرتے ہوئےرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے لفظ "عبد"استعمال کیا ہے۔اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ سفر بیداری کی حالت میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ تھا،کیونکہ لفظ "عبد" روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔ 119 صرف روح کو لفظ "عبد"سے تعبیر نہیں کیا جاتا ۔

سورۂ اسراء میں رب تعالیٰ نے اس با برکت سفر کو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش قرار دیا ہے 120 اور یہ سفر آزمائش تب ہی ہو سکتا ہے جب معروف طریقے سے ہٹ کر خلاف عادت طریقہ پر ہو اور وہ طریقہ حالت بیداری میں روح اور جسم سمیت معراج کرانا ہے۔خواب میں اس طرح کے مشاہدات معروف ہیں۔

سورہ نجم میں معراج کے موقع پر دیکھی ہوئی نشانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ یہاں نشانی سے مراد معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہوتا ہے جو خرق عادت ہو۔جب کہ خواب کی حالت میں ہونے والے مشاہدات کو کوئی خرق عادت نہیں کہہ سکتا۔ 121 اگر معراج کا واقعہ خواب ہوتا تو کفار اتنے شد ومد کے ساتھ اس کا انکار ہر گز نہیں کرتے کیوں کہ خواب میں ایساہوجانا تو کسی بھی عاقل شخص کے نزدیک ناممکن نہی،بلکہ عجیب بھی نہیں۔ 122 اسی بناء پرحافظ ابن حجر Rehmatullah Alaih علمائے امت کا اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اسراء اور معراج بعد از بعثت ایک ہی رات میں حالت بیداری میں روح و جسم سمیت کرائی گئی۔ محمد ثین، فقہاء اور متکلمین میں سے جمہور کا یہی موقف ہے اور اس کے متعلق متواتر اور صحیح احادیث واضح طور پر مذکور ہیں۔ اس لیے اس سے اعراض یا اس میں تاویل کرناکسی طرح بھی روا نہیں، کیونکہ عقلی طور پر ایسا ہونا ہر گز نا ممکن نہیں ہے۔ 123 ابن تیمیہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ سلف اور خلف میں جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج حالت بیداری میں کروائی گئی تھی۔ 124

باقی جن روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خواب کی حالت میں معراج کرائی گئی تھی تو ان میں یوں تطبیق کی جاسکتی ہے کہ ممکن ہے پہلے خواب میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو معراج کراکر جسمانی معراج کےلیے تیار کرایا گیا ہو اور جسمانی معراج کے لیے تعلیم دی گئی ہو اور پھر بعد میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حالتِ بیداری میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ حقیقی طور پر معراج کرائی گئی ہو۔ 125

واقعۂ معراج اورملحدین کے اعتراضات

ملاحدہ نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی معراج جسمانی پر جو اعتراضات کیے ہیں ان سب کا اجمال یہ ہے کہ فلسفہ قدیمہ تو اجرام فلکیہ میں خرق و التیام کو محال بتلاتا ہے اور فلسفہ جدیدہ افلاک کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا جب آسمان کا وجود ہی ثابت نہ ہوا تو معراج جسمانی کا ثبوت کس طرح ہوگا؟ نیز قدیم وجدید فلسفہ دونوں اس پر متفق ہیں کہ زمین سے کچھ او پر کرہ ٔزمہریر ہے اور قدیم فلسفہ کے نزدیک کرۂ ناری ہے اور ان دونوں مقاموں سے کسی جسم عنصری کا صحیح سالم اور زندہ گزرنا محال ہے لہذا عروج جسمانی بھی محال ہو گا۔ بعض کہتے ہیں کہ جسم ثقیل کےلیےاس قدر بلند اور تیز رفتارسفر کرنا عقلاً ناممکن ہے۔

ان تمام اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ یہ سب استبعادات اور توہمات ہیں عقلاً ان میں سے کوئی بات بھی محال نہیں۔ جوملاحدین ان چیزوں کے محال ہونے کا مدعی ہیں ان کے پاس ان باتوں کے لئے کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ تمام انبیاءو مرسلین Alaihmus Salam اور تمام کتب سماویہ اس پر متفق ہیں کہ قیامت قائم ہوگی۔ اور آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی ہے:

إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ 1126
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔
إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ 1127
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔

اور حضرات انبیاء ومرسلین Alaihmus Salam کا امرِ محال کے وقوع پر متفق ہونا قطعاً محال اور ناممکن ہے اور فلسفہ قدیم نے جو افلاک کے خرق اور التیام کے محال ہونے کے دلائل ذکر کیے ہیں حضرات متکلمین نے ان کا کافی اور شافی جواب دیا ہے۔ رہا فلسفہ جدید کا افلاک کے وجود کو نہ تسلیم کرنا سو یہ افلاک کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ تمام عقلاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی چیز کا نظر نہ آنا یا اس کا ثابت نہ ہونا اس کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا، ورنہ زمین اور آسمان کی ان ہزار ہا چیزوں کا انکار لازم آئے گا جو ہماری نظر ، عقل اور علم سے مخفی اور پوشیدہ ہیں ۔نیز عقلاء اس پر بھی متفق ہیں کہ کسی کا جہل اور عدم علم دوسرے پر حجت نہیں۔


  • 1  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 197
  • 2  القرآن، سورۃ النجم 53: 18
  • 3  ابو الفضل محمدبن مكرم ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج-14، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،1414ھ، ص: 382
  • 4  أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري الفارابي، الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية، ج-1، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 1987م، ص: 328
  • 5  محمد علی الصابونی، التبیان فی علوم القرآن، مطبوعۃ: مکتبۃ البشریٰ، کراتشی، الباکستان، ص: 155
  • 6  القرآن، سورۃ الإسراء 17: 1
  • 7  ڈاکٹر محمد طاہر القادری، فلسفۂ معراج،مطبوعۃ: منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2012م، ص: 104-105
  • 8  الدکتور محمد سعید رمضان البوطی، فقه السيرة النبوية مع موجز لتاريخ الخلافة الراشدة، مطبوعۃ: دار الفکر، دمشق، السوریۃ، 1426ه، ص: 112-113
  • 9  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 203
  • 10  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-3، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1994 م، ص: 30
  • 11  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 515
  • 12  موسیٰ بن راشد العازمی، اللؤلؤ المکنون فی سیرۃ النبی المأنون، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ العامریۃ، الکویت، 2011م، ص: 460
  • 13  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص:71-70
  • 14  ایضاً، ص: 71
  • 15  ابو محمد محمود ابن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-17، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 23
  • 16  یاد رہے کہ روایاتِ صحیحہ اور احادیثِ معتبرہ کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں شقِ صدر کا واقعہ چار مرتبہ پیش آیا ہے: پہلی مرتبہ زمانۂ طفولیت میں آپ ﷺ کا شقِ صدر کیاگیا،جب آپ ﷺحضرت حلیمہ کی پرورش میں تھے اور اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک چار سال تھی۔دوسری مرتبہ دس سال کی عمر میں، تیسری مرتبہ بعثت کے وقت اور چوتھی مرتبہ معراج کے وقت آپ ﷺ کا شقِ صدرکیا گیا۔ (ادارہ)
  • 17  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 111
  • 18  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-29، حدیث: 17835، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 375
  • 19  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 19
  • 20  ابو یعلی احمد بن علی التمیمی الموصلی، مسند ابی یعلی، حدیث: 3184، ج-5، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م، ص: 459
  • 21  ابوالفداءاسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-3، مطبوعۃ: دار الاحیاالتراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 136
  • 22  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 7142، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 282
  • 23  أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، حدیث: 36575، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 1989م، ص: 335
  • 24  ابو یعلی احمد بن علی التمیمی الموصلی، مسند ابی یعلی، حدیث: 3499، ج-6، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م، ص: 216
  • 25  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 5179، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 393
  • 26  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-8 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص:100-101
  • 27  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 256
  • 28  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:200
  • 29  ابو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث: 9518، ج-17، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009م، ص: 8
  • 30  ابو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث: 9518، ج-17، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009م، ص: 8
  • 31  ایضاً
  • 32  ایضاً
  • 33  ایضاً
  • 34  ایضاً
  • 35  ایضاً
  • 36  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 208
  • 37  ابو محمد محمود بن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-15، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 127
  • 38  ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق النیسابوری الاسفرائینی، مستخرج ابی عوانۃ، حدیث: 338، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 110
  • 39  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-35، حدیث: 21288، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 211
  • 40  ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق النیسابوری الاسفرائینی، مستخرج ابی عوانۃ، حدیث: 338، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:110-111
  • 41  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3207، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 536
  • 42  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 560
  • 43  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-38، حدیث: 23552، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 533
  • 44  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-8 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص:36
  • 45  القرآن، سورۃ النجم 53: 16
  • 46  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 411، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 83
  • 47  القرآن، سورۃ النجم 53: 13-14
  • 48  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-7، حدیث: 3915، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:31
  • 49  القرآن، سورۃ النجم 53: 14-15
  • 50  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3342، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:556
  • 51  ایضا،حدیث: 6581، ص: 1138-1139
  • 52  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 279
  • 53  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:565
  • 54  ایضا، ص: 565
  • 55  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 184-185
  • 56  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 415، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 85
  • 57  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 565-566
  • 58  ایضا، ص: 567
  • 59  أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، حدیث: 31697، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 1409 ھ، ص: 312
  • 60  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 3
  • 61  محمد ادریس کاندھلوی، سیرتِ مصطفےٰ ﷺ، ج-1، مطبوعہ: الطاف اینڈ سن، کراچی، پاکستان، سن اشاعت ندارد، ص: 263
  • 62  أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، حدیث: 36570، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 1409 ھ، ص: 333
  • 63  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 28
  • 64  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 292
  • 65  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:213
  • 66  حسين بن محمد بن الحسن الدِّيار بَكْري، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص: 315
  • 67  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 166
  • 68  اہلِ عرب دودھ اور دیگر معمولی چیزوں کے بارے میں عام طور سے بے اجازت استعمال پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ ایسی چیزیں بلا اجازت استعمال میں لانا ان کے ہاں رواج پذیر تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے پانی پینے میں قافلے والوں سے اجازت نہیں لی۔ ثانیاً پوری کائنات آپﷺ کے لئے ہی بنائی گئی ہے اور آپﷺ کا اپنے ہر امتی کے جان و مال پر پورا حق ہے، چاہے وہ امت دعوت ہو یا امت اجابت، اس لئے آپﷺ کا بلا اجازت پانی پینا عین آپﷺ کا حق تھا جس پر کوئی شرعی گرفت یا قباحت نہیں ۔
  • 69  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 166
  • 70  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 536
  • 71  ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج-3، حدیث: 4407، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 65
  • 72  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تہذیب الآثارالمعروف بمسند ابن عباس، ج-1، حدیث: 725، مطبوعۃ: مطبعۃ المدنی، القاھرۃ، مصر، ( لیس التاریخ موجودا)، ص: 427-428
  • 73  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 362
  • 74  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تہذیب الآثارالمعروف بمسند ابن عباس، ج-1، حدیث: 725، مطبوعۃ: مطبعۃ المدنی، القاھرۃ، مصر، ( لیس التاریخ موجودا)، ص: 427-428
  • 75  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 362
  • 76  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 4613، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 39
  • 77  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-21، حدیث: 13340، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 53
  • 78  ابو الحسن نور الدين الهيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 13360، ج-8، مطبوعۃ: مكتبة القدسي، القاهرة، مصر، 1994م، ص: 131
  • 79  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 392
  • 80  ابو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث: 5970، ج-12، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009م، ص: 237
  • 81  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 284
  • 82  ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن احمد الذھبی، السیرۃ النبویۃ للذھبی، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 136
  • 83  ایضاً
  • 84  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 284
  • 85  ایضاً
  • 86  ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن احمد الذھبی، السیرۃ النبویۃ للذھبی، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 137
  • 87  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 284
  • 88  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تہذیب الآثارالمعروف بمسند ابن عباس، ج-1، حدیث: 725، مطبوعۃ: مطبعۃ المدنی، القاھرۃ، مصر، ( لیس التاریخ موجودا)، ص: 435
  • 89  ایضاً
  • 90  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-5، حدیث: 2821، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 30-31
  • 91  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمي، الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، حدیث: 6886، ج-: 15، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 309
  • 92  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-5، حدیث: 2324، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 166-167
  • 93  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 6320، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 1080
  • 94  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تہذیب الآثارالمعروف بمسند ابن عباس، ج-1، حدیث: 726، مطبوعۃ: مطبعۃ المدنی، القاھرۃ، مصر، ( لیس التاریخ موجودا)، ص: 433
  • 95  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-4، حدیث: 2324، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 167
  • 96  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 425، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 88
  • 97  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 4
  • 98  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 439، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 90
  • 99  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:3283، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 973
  • 100  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 4
  • 101  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:3279، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 972
  • 102  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 444، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 91
  • 103  ابو محمد محمود بن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-19، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 198
  • 104  ایضاً
  • 105  القاضی عیاض بن موسی الیحصبی، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، ج-1، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 234
  • 106  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-4، حدیث: 2580، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 350-351
  • 107  القاضی عیاض بن موسی الیحصبی، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، ج-1، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 234
  • 108  ابو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري، كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة الرشد السعودية، الرياض، لبنان، 1994م، ص: 487
  • 109  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-8، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 608-609
  • 110  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 5
  • 111  ایضاً
  • 112  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-4، حدیث: 2580، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 350-351
  • 113  القاضی عیاض بن موسی الیحصبی، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، ج-1، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 234
  • 114  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 5
  • 115  ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:3283، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 973
  • 116  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 5-6
  • 117  أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج-3، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1392ھ، ص: 5
  • 118  احمد بن سعید ملاجیون الحنفی، التفسيرات الأحمدية في بيان الآيات الشرعية، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2010م، ص: 483
  • 119  أبوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 41
  • 120  القرآن، سورۃ الاسراء، 17: 60
  • 121  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 67
  • 122  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 15-14
  • 123  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 197
  • 124  تقي الدين أبو العَباس أحمد بن عبد الحليم الدمشقی، المسائل والاجوبۃ، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاهرة، مصر، 2004م، ص: 121
  • 125  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 197
  • 126  القرآن، سورۃ الانشقاق 84: 01
  • 127  القرآن، سورۃ الانفطار 82: 01

Powered by Netsol Online